The Latest

وحدت نیوز (کوئٹہ) سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے خلاف منعقدہ احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حکومت اگر ہمارے 23 نکات پر عمل کرتی تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کا فوراً آغاز کیا جائے، ریاستی ادارے اور حکومت 23 نکاتی معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس میں کوتاہی برتنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان اور ملک بھر کے غیور عوام نے ہمیشہ کوئٹہ کے مظلومین کے حق میں آواز بلند کی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی وطن عزیز کی عوام ملک بھر کے مظلومین کے حق کی آواز کو بلند کریں گے۔

وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر خانہ جنگی کے دھانے پرصدر کا مستعفی ہونے سے انکار، رات گئے صدر مرسی نے قبہ نامی صدارتی محل سے ٹی وی کی سکرین کے توسط سے مصر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے ملک میں جاری کشیدگی کو بدھ تک ختم کرنے کے لیے فوج کی طرف سےملنے والی الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے کہ قبہ محل کے باہر اپوزیشن کے ہزاروں مظاہرین دھرنا دئے ہوئے ہیں۔ منگل کو رات گئے قوم سے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں صدر مرسی نے کہا کہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کریں گے کیونکہ وہ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ مرسی نے ملک کے آئینی صدر ہونے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لیں گے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطیاں ہوئیں تاہم انھوں نے قوم سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔

 

دوسری جانب مصر کے مختلف علاقوں میں صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کم سے کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔ صدر مرسی نے ملک میں جاری کشیدگی کا الزام بدعنوانی اور سابق صدر حسنی مبارک کے دورِ حکومت کی باقیات پر لگاتے ہوئے مظاہرین کو قانون کی پاسداری کرنے کو کہا۔جبکہ اپویشن کا کہنا ہے کہ صدر مرسی گذشتہ ایک سال میں ملکی اھم مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں تحریر اسکوئر میں صدر مرسی پر اسرائیل اور عرب شیخ نوازی کا بھی الزام لگایا گیا ہے جس میں اھم ترین نکتہ کیمپ ڈیویڈ جیسے بدنام زمانہ معاہدے کی پاسداری ہے۔

 

مرسی نے اپنی تقریرمیں مفاہمت اور میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی سطح پر مذاکرات کے لیے تمام گروپوں اور شخصیات سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اپوزیشن شام کچھ جماعتوں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر مرسی نے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں جس کے بعد وہ ملک میں مطلعق العنان اختیارات حاصل کرچکے ہیں اور یوں وہ منتخب صدر سے دینی خلیفہ بننا چاہتے ہیں تحریر اسکوائرمیں لگنے والے نعروں میں صدر اور اخوان المسمین پر مذہبی ڈکٹیٹرشب اور شدت پسندی کا بھی الزام لگ رہا ہے۔

 

خیال رہے کہ مصری فوج نے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین ’عوام کے مطالبات‘ ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ اس سے پہلے مصر کی فوج نے ملک کے مستقبل کے لیے تیار کر دہ منصوبے کو لیک کیا تھا جس میں ملک کے موجودہ پارلیمان کو تحلیل کرنے اور ملک میں نئے صدارتی انتخابات کرانے کی بات کی گئی ہے۔ بی بی سی کو موصول ہونے والے معلومات کے مطابق فوجی منصوبے کے تحت ملک کے نئے آئین کو بھی معطل کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب مختلف زرائع بتا رہے ہیں کہ صدر مرسی کی پوزیشن ہر گزرتے منٹ کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ عرب زرئع ابلاغ کے مطابق ایک ایک ٹیکنوکریٹس اور سویلین افراد پر مشتمل ایک ایسی کونسل بنانے کی تجویز زیر غور ہے جو ملکی نظم و نسق کو چلائے گی۔

 

خیال رہے کہ حزب اختلاف کی تحریک تمرد یعنی’باغی‘ نے پیر کو الٹی میٹم جاری کیا تھا کہ اگر صدر مرسی مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک اقتدار سے الگ نہیں ہوئے تو ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس کے بعد مصری فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین عوامی مطالبات ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ صدر محمد مرسی نے ملک کے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفاتح السیسی سے منگل کے روز مسلسل دوسری ملاقات کی ہے۔ منگل کو ہونے والی دوسری ملاقات میں وزیراعظم ہاشم قندیل بھی شامل تھے تاہم اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ان تک حکومت کے دس وزرا کے مستعفی ہونے سے جن میں وزیرِ خارجہ محمد کامل امر بھی شامل ہیں صدر مرسی پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جبکہ صدر کے دو اہم ترجمان بھی استعفی دے چکے ہیں۔

 

مصر کی عدالتِ عالیہ نے بھی صدر مرسی کی جانب سے مقرر کیے جانے والے پراسیکیوٹر جنرل کو برخاست کرنے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اپوزیشن نے یہ بھی  دعویٰ کیا  ہے کہ فوری انتخابات کے مطالبے کی ایک پٹیشن پر دو کروڑ بیس لاکھ افراد نے دستخط کیے ہیں۔جبکہ مصر کی سلفی تحریک کی ترجمان جماعت النور نے بھی فوری انتخابات کو بحران کا حل قراردیا ہے۔ مرسی 30 جون 2012 کو انتخاب میں کامیابی کے بعد مصر کے پہلے اسلامی صدر بنے تھے۔ان کی صدارت کا ایک سال سیاسی بے اطمینانی اور معیشت میں گراؤٹ کی زد میں رہا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل حجتہ السلام و المسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اعلان کیا ہے کہ کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بے گناہ شیعہ و سنی  مسلمانوں کی ارواح سے تجدید عہد کیلئے آئندہ جمعہ کو ’’ یوم ایفائے شہداء ‘‘ کے عنوان سے منایا جائے گا۔ مرکزی میڈیا سیل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی ملت میں جو بیداری کی لہر ہے یہ سب شہداء کے پاک خون کی برکات کی بدولت ہے لہٰذا ہمیں اپنے شہیدوں کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اب شہیدوں کے پیغام سے درس حاصل کریں اور معاشرہ کو کربلا کے حقیقی پیغام کی جانب راغب کرنے کیلئے اپنی کوششیں کرسکیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری فرہنگ علامہ شیخ اعجاز بہشتی نے  بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں ایک مرتبہ پھر مظلوم شیعہ ہزارہ برادری پر ٹوٹنے والی قیامت صغریٰ پر اپنے شدید غم و غصے اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت، نام نہاد آزاد عدلیہ اور ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ قرار دیا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ریاستی ادارے شہریوں کے تحفظ میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں اور عوام کو اپنے تحفظ کیلئے ازخود اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب شیعہ نسل کشی روکنے کیلئے فیصلہ کن احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے۔

خطے کے حالات پر حزب ﷲ کی اثر گزاری

تحریر: سید راشد احد

 

یہ حقیقت اب برملا ہوکر سامنے آگئی ہے کہ شام میں جنگ و فساد کا سلسلہ حکومت کے خلاف عوام کی بے چینی کے نتیجے میں شروع نہیں ہوا بلکہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کی حلیف شاہی حکومتوں کی شراکت سے شام میں خونریزی کا بھیانک کھیل کھیلا۔ اس خونی کھیل کو کھیلنے کے لئے بہانہ انہوں نے یہ بنایا تھا کہ بشار الاسد اور ان کی حکومت آمرانہ روش پر سختی سے کار بند اور گامزن ہیں لہٰذا شامی حکومت کو گرانا بہت ضروری ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اس پورے کھیل میں بڑی ہی ہوشیاری اور مکاری سے انسانی وسائل مسلمانوں کے استعمال کئے۔ مسلمانوں کے درمیان ان استعماری قوتوں نے شیعہ سنی تعصب کو پہلے خوب ہوا دی پھر عالم عرب میں اخوان المسلمین جیسی تحریکوں کو پٹی پڑھائی کہ بشارالاسد شیعہ ہے اور اس کی حکومت سے سنیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس تھی کہ شام کی بشار الاسد حکومت سے صرف اسرائیل اور مغربی قوتوں کو خطرہ درپیش تھا اس لئے کہ یہ حکومت فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کو کمک پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو شام نے کبھی تسلیم نہیں کیاجب کہ قطر اور ترکی اسرائیل سے رسمی تعلق بحال رکھتے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہر طرح کی فوجی، اقتصادی اور سفارتی فعالیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض دوسرے عرب ممالک مثلاً سعودی عرب نے اگر رسماً اعلانیہ تعلق اسرائیل سے نہیں بھی رکھا ہے تو عملاً اور خفیہ سطح پر انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی ہوئی ہے اور اسرائیل کے مفاد میں نیز فلسطین کی مزاحمت کے خلاف چپکے چپکے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

شام کی حکومت کو یہ اسی لئے ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل کی ہم سائیگی میں موجود فلسطینی مزاحمت نیز حزب اﷲ لبنان جیسی اسرائیل دشمن مزاحمتی قوت کا قلع قمع ہو سکے اور اس طرح اسرائیل اپنے وجود کے حوالے سے سکون کا سانس لے سکے۔ مزید یہ کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور مغربی استعماری قوتوں کے مفاد میں غنڈہ گردی کا سلسلہ ہمیشہ کی طرح شد و مد کے ساتھ جاری رکھ سکے۔ اب جبکہ سلفی دہشت گردوں کو بھرپور طریقے سے شامی عوام کے خلاف استعمال کرنے کے بعد بھی استعماری قوتوں کو اپنا ہدف حاصل نہیں ہوسکا تو استعماری قوتوں کی شام کے حوالے سے پیشگی منصوبہ بندی کا راز رفتہ رفتہ فاش ہونے لگا ہے چنانچہ فرانس کے سابق وزیر خارجہ Roland Dumas نے حال ہی میں ایل سی پی ٹی وی نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ 2011ء میں جب کہ شام میں فساد اور شورس کا سلسلہ شروع ہوا اس سے دو سال قبل ہی برطانیہ شام میں فساد و شورش کے لئے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ڈوماس کا کہنا ہے کہ جب شام کے خلاف برطانیہ میں منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو اس زمانے میں وہ برطانیہ گئے ہوئے تھے اور برطانوی حکام نے اس کا ذکر کرتے ہوئے اس شورش میں شرکت کی دعوت فرانس کو بھی دی تھی۔ لیکن بقول ڈوماس : ’’چونکہ میں اس وقت وزیر خارجہ کہ منصب سے فارغ ہو چکا تھا لہٰذا میں نے اس حوالے سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔

‘‘

اس طرح کے رازوں کے انکشاف کا سلسلہ شام میں مغربی استعماری قوتوں، ان کی حلیف عرب شاہی حکومتوں، ترکی اور سلفی تکفیریوں پر مبنی متحدہ محاذ کی القصیر میں پسپائی کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا القصیر میں شامی حکومت کو ملنے والی تازہ کامیابیوں کے نتیجے میں علاقے میں کار فرما حکمتِ عملیوں کے وسیع دائرہ میں عظیم تبدیلیوں کے رونما ہونے کا امکان پوری طرح روشن ہے۔ القصیر کی عظیم فتح کے ساتھ شام ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ امریکیوں اور صہیونیوں کی پشت پناہی میں باغی قوتوں کی جاری دہشت گردی کے خلاف شامی فوج نے بلاشبہ بہت ہی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شامی فوج نے حزب ﷲ کی مدد سے القصیر شہر کو بازیاب کرالیا ہے جو ایک عرصے سے شامی باغیوں کے قبضے میں تھا۔ القصیر مغربی شام میں واقع ہے اور یہ ان اولین شہروں میں سے ایک ہے جسے شامی باغیوں نے مارچ 2011ء میں ہی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ واضح رہے کہ شہر القصیر میں رہنے والوں کی اکثریت سنی العقیدہ ہے۔ اس شہر کی کلیدی اہمیت یہ ہے کہ لبنان کی سرحد سے صرف دس کلومیٹر دور ہے اور یہ شہر درحقیقت شام میں دہشت گردوں کو فراہم کئے جانے والی تمام رسد کا اسٹراٹیجک راستہ تھا۔ لہٰذا اسی راستے سے بیرونی قوتیں شامی باغیوں کو اسلحہ سمیت ہر قسم کی لاجسٹک امداد فراہم کرتی تھیں جن کی وجہ سے شامی باغیوں کے حوصلے بہت بلند تھے لیکن القصیر کی بازیابی نے اسد حکومت کو ایک نیا جوش و ولولہ بخشا ہے۔ اب شامی فوج مکمل طور سے پر اعتماد ہے کہ مغرب اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کی اتحادی رجعت پسند عرب شاہی حکومتوں کے تعاون سے شام میں جاری بیرونی مداخلت اور دراندازی کے پوری طرح قلع قمع میں وہ عنقریب کامیاب ہو جائے گی۔

 

مغربی میڈیا کی یہ کوشش رہی ہے کہ شام میں جاری دہشت گردی کو خانہ جنگی ثابت کرے لیکن حزب ﷲ نے اپنی تازہ حکمت عملی سے مغرب کے سارے کھیل کو ناکام بنا دیا اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت واشگاف ہوگئی کہ شام میں خانہ جنگی کی صورت حال نہیں ہے بلکہ وہاں شامی حکومت اور عوام کے خلاف بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔ ماہ مئی 2013ء میں جب جبھۃ النصرہ نے صحابی رسول ؐ حجر بن عدی الکندی کے مقبرے کی تباہی کی ذمہ داری قبول کی تو حزب ﷲ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصرﷲ نے دہشت گردوں کو اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ اگر جنابِ زینب سلام ﷲ علیہا یادیگر مقدس شخصیات کے مقبرے کو کوئی نقصان پہنچا ہے تو حزب ﷲ ایسی بے حرمتی پر ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گی۔ القصیر سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں حزب ﷲ کا کلیدی کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کے اراکین جن میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مغرب نواز مطلق العنان شہنشاہیتیں شامل ہیں حزب ﷲ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کی خاطر تک و دو کر رہے ہیں۔ بحرین کی مغرب نواز شاہی حکومت نے پہلے ہی سے حزب ﷲ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپوزیشن گروہ سے اس کے رابطے کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے۔ حمد ابن عیسیٰ الخلیفہ جسے مغرب اور سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل ہے نے پہلے ہی حزب ﷲ کو ’’ دہشت گرد تنظیم ‘‘ کے عنوان سے بلیک لسٹ کردیا ہے۔

 

مغربی ردِ عمل پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل راشد بن عبدﷲ الخلیفہ نے فرمان صادر کیا ہے کہ بحرین کے اندر حزب ﷲ کے عمل دخل اور اس کی فعالیت کی تحقیق کی جائے۔ دیگر عرب دنیا میں بھی حزب ﷲ کی شام کے اندر بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف دفاعی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ قطر میں رہائش پذیر سلفی ملّا یوسف القرضاوی نے سنیوں کو ورغلایا ہے کہ وہ حزب ﷲ کے خلاف جہاد کے لئے آمادہ ہو جائیں۔ 31 مئی کو دوحہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے قرضاوی نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ ہر مسلمان کو تربیت حاصل کرنی چاہئے اور جس قدر امکانات دستیاب ہیں انہیں حزب ﷲ کے خلاف جہاد میں استعمال کرنا چاہئے۔ سلیم ادریس جو کہ شامی باغی سپریم فوجی کونسل کا نام نہاد چیف آف اسٹاف ہے نے دھمکی دیتے ہوئے اپنے اس خیالات کا اظہار کیا ہے کہ میرے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ میں جہادیوں کو روک سکوں لہٰذا ہم حزب ﷲ کا اس کے انجام بد (نعوذ باﷲ) تک تعاقب کریں گے۔

 

حتیٰ کہ مسلمان دانشوروں کی ایک انجمن جو معتدل علمائے اہلسنت پر مشتمل ہے اس وقت اپنے پیروں کاروں سے شامی باغیوں کی مدد کے لئے منتیں کر رہی ہے۔ مغرب میں اس کا ردعمل پہلے سے قابلِ درک تھا۔ اسرائیلی فوجی امور کے وزیر موشے یالون نے کہا تھا کہ اسرائیل شام میں حزب ﷲ کی فعالیت پر ردعمل نہیں دکھائے گا اس وقت تک جب تک کہ حزب ﷲ اسرائیلی مفادات پر براہ راست ضرب نہیں لگاتی ہے مثلاً یہ پیش رفتہ اور جدید اسلحوں یعنی مزائیلوں اور کیمیائی ہتھیاروں کے باغیوں کو منتقل کیے جانے کے عمل میں روکاوٹ نہیں بنتی ہے۔ اس طرح کا کمزور بیان ایک اسرائیلی وزیر کی جانب سے اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ اسرائیلی فوج 2006ء میں حزب ﷲ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد کس قدر حزب ﷲ سے خوفزدہ ہے۔ شامی بحران سے متعلق اقوامِ متحدہ کے نمائندے لخدر ابراہیمی نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ شام کے حوالے سے ہونے والے امن مذاکرات اب جون کے بجائے جولائی میں منعقد کئے جائیں گے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ شامی باغیوں کو براہ راست مسلح کرنے کے لئے اپنی پارلیمنٹ سے اجازت حاصل کریں، اس خوف کے باوجود کہ ممکن ہے ان کا یہ اقدام عراق میں مداخلت کی مانند مورد تنقید قرار پائے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جے کارنے نے کہا ہے کہ ہم شام کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلاء ہیں اور شامی حکومت کی القصیر پر یلغار کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

 

یہ بات واضح ہے کہ شامی فوج القصیر جیسے اسٹراٹیجک مقام کو اپنے طور سے بازیاب کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ لہٰذا اس حوالے سے حزب ﷲ کی مدد اس کے لئے لازم ہو چکی تھی۔ جے کارنے اور اسی طرح کے دوسرے مغربی سیاسی تجزیہ نگار اس بات کے ادراک سے قاصر رہے ہیں بلکہ انکاری رہے ہیں کہ شام میں حزب ﷲ کا دفاعی مشن بہت ہی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ خود نیٹو کے اپنے اعتراف کے مطابق شامی حکومت کو عوام کی 80 فیصد اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ ایک امریکی دانشور جو امریکی خارجہ تعلقات کی شعبہ سے مربوط ہے لکھتا ہے کہ حزب ﷲ شام میں اس وقت داخل ہوئی جب اس نے اپنے انتہائی قریبی اتحادی کے سقوط کا خطرہ محسوس کیا۔ اس کے برعکس مائیکل ینگ جو کہ لبنانی ڈیلی اسٹار کے مدیر ہیں نے شام میں زمینی حقیقت کا بالکل صحیح ادراک کیا جب کہ مغرب کے دانشور حضرات شام کے زمینی حقائق کے اداراک سے عاجز رہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ شام کے باغی جنگ ہار رہے ہیں مائیکل ینگ نے واضح کردیا تھا کہ شام کے حوالے سے امریکی موقف مشکل میں آگیا ہے جبکہ روس اور ایران کا موقف حقیقت کے عین مطابق ثابت ہوا ہے۔

 

ینگ کے مشاہدے کے مطابق یہ وقت مناسب ہے شامی اپوزیشن کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا جبکہ اوبامہ انتظامیہ گزشتہ دو سال سے پس و پیش میں مبتلا ہے اور بغیر کسی واضح حکمت عملی کے محض دھمکیوں سے کام لے رہی ہے۔ شام میں حزب ﷲ کے شاملِ جنگ ہونے کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے ینگ لکھتا ہے کہ اس مزاحمتی تحریک کے لئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ تکفیری انتہا پسندوں، سلفیوں، سنی جہادی انتہا پسندوں، امریکہ اور اسرائیل کے خطرناک حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لئے شام کی جنگ میں براہ راست شامل ہو۔ حزب ﷲ کی پشت پناہی میں القصیر میں شامی حکومت کی کامیابی سے پہلے صدر اوبامہ نے شام میں حزب ﷲ کے بڑھتے ہوئے فعال کردار کے حوالے سے ایک مبہم سی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

 

صدر اوبامہ نے اپنی اس تشویش کا اظہار کہ حزب ﷲ اسد حکومت کی جانب سے شامی باغیوں کے خلاف صف آراء ہے، لبنان کے صدر مائیکل سلیمان کے ساتھ اپنی ایک ٹیلفونک گفتگو کے دوران کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے شام کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بہت ہی پر زور انداز میں اپنا یہ بیان جاری کیا تھا کہ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ شام میں کس کا ساتھ دے گی آیا وہ ان قوتوں کا ساتھ دینا چاہتی ہے جو شام میں زبردستی حکومت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں یا پھر ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہتی جو شام کے بحران کو گفتگو اور مذاکرات کے ذریعہ حل کئے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے اپنے تازہ ترین غیر قانونی خفیہ دورے میں جان مکین نے شامی اپوزیشن سے ملاقات کی تھی اور ان کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ شام کے حوالے سے امریکی پالیسی مبہم اور تذبذب کا شکار ہے۔ مکین نے واضح لفظوں میں کہا کہ واحد قوت جو اس علاقے میں کوئی کمٹمنٹ نہیں رکھتی وہ امریکہ ہے۔ امریکہ کی بے یقینی اور تزلزل پر مبنی اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیروت میں پریس ٹی وی کے بیورو چیف علی رزق کہتے ہیں کہ شام کے حوالے سے امریکہ کا موقف روس کے موقف سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو کے ذریعے راہِ حل دریافت کیا جائے۔

 

شام میں تازہ ترین پیشرفت کے حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کوئی متعین اور حتمی بیان دینے سے گریزاں ہیں۔ اب جب کہ حزب ﷲ علی الاعلان میدان میں موجود ہے تو وائٹ ہاؤس کے لئے صورتحال کی وضاحت مشکل ہوگئی ہے۔ لہٰذا جب وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کارنے سے رپورٹروں نے شام میں فیصلہ کن عامل کے حوالے سے سوال کے جواب پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ شام میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کی وجہ اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی اسلحوں کا استعمال ہے نہ کہ حزب ﷲ کی اعلانیہ شمولیت۔ امریکہ کے لئے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ حزب ﷲ کے فیصلہ کن عامل ہونے کا اعلانیہ اعتراف کرے تو پھر حزب ﷲ کے مقابلے میں امریکہ کی کمزور فوجی حکمت عملی کا راز فاش ہوجائے گا اور امریکہ کا بھرم جو علاقے کے ممالک پر قائم ہے اسی طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا جس طرح کہ 2006ء میں اسرائیل و حزب ﷲ کی جنگ میں اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا واہمہ چکنا چور ہوگیا تھا۔ لہٰذا حزب ﷲ کی القصیر میں کامیابی علاقے میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عرب دنیا میں حزب ﷲ کی محیر العقول قوت آشکار سے آشکار تر ہوتی جا رہی ہے جو کہ امریکہ کے لئے بہت ہی پریشانی کا سبب ہے۔

 

بہرحال حزب اﷲ نے شام کی جنگ میں اپنی شمولیت کے دو اہم وجوہات بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ اگر تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں بشار الاسد کی حکومت شکست کھاتی ہے تو پھر ان بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خطرناک اسلحوں کا رخ حزب ﷲ اور لبنان کے عوام کی جانب ہوگا۔ دوسرے یہ کہ حزب ﷲ اپنا فرض سمجھتی ہے کہ وہ اسلام کی مقدس اور بے مثال شخصیتوں کے مزاراتِ مقدسہ کی حفاظت کرے بالخصوص حضرت زینب سلام ﷲ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت حزب ﷲ کے لئے ایک دینی وظیفہ اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ حزب ﷲ نے بارہا اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے اس دینی فریضے کو بہرصورت انجام دے گی۔ چنانچہ حزب ﷲ کے متعدد جوان شریکۃ الحسین ؑ عقیلۂ بنی ہاشم اور مفسر کربلا حضرت بی بی زینب سلام ﷲ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانون کا نذرانہ بارگاہِ الٰہی میں پیش کر چکے ہیں۔

وحدت نیوز (کراچی) وفاقی حکومت نے محکمہ داخلہ سندھ کو ہدایت کی ہے کہ سندھ کے 15 تکفیری اور اہل تشیع علماء اور مذہبی رہنماؤں کی جانوں کو شدید خطرہ ہے جس کے پیش نظر ان علماء اور مذہبی رہنماؤں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کے کرائسز منیجمنٹ سیل کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ کو ہدایت کی گئی ہے کہ اہل تشیع مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذہبی رہنما جن میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی، جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی، معروف ذاکر اہل بیت (ع) علامہ فرقان حیدر عابدی، علامہ حسین مسعودی، علامہ عون محمد نقوی، سید عباس زیدی اور حال ہی میں دہشت گردی کے واقعہ میں زخمی ہونے والے علامہ باقر زیدی شامل ہیں کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے لہذا ان علماء اور رہنماؤں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ آج بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں ایک طرف پوری پاکستانی ملت دہشت گردوں کے خلاف ایک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے وہاں دوسری طرف حکمرانوں کے کھوکھلے دعووں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے امام بارگاہ سید الشہداء سولجر بازار کراچی میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ علی حسین نقوی، آصف صفوی اور ناصر حسینی بھی موجود تھے۔ علامہ حسن ظفر نقوی کا کہنا تھا کہ ہمارے خفیہ ادارے اور سیکورٹی ایجنسیاں یا تو بری طرح ناکام ہو چکے ہیں یا پھر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی نہیں کرنا چاہتے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خفیہ ادارے اور ایجنسیاں ہی دراصل کالعدم دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی میں ملوث ہیں۔ موجودہ حکومت کو اگرچہ ابھی صرف ایک ماہ کا عرصہ گزرا ہے مگر جو وعدے کرکے یہ لوگ انتخابات میں جیت کر آئے ہیں ان وعدو ں پر عمل درآمد ہوتا دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے جو کہ قابل تشویش بات ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک حلقے کی طرف سے باقاعدہ انسانیت کے قاتلوں دہشت گردوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے منظم بیان بازی کی جا رہی ہے جس سے دہشت گردوں کو اور زیادہ شہ مل رہی ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ مغربی استعمار اپنے ناپاک عزائم اور مقاصد کی تکمیل کے لئے تمام اسلامی ممالک میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، عراق، شام، یمن، لبنان سمیت متعدد ممالک کی صورتحال آپ کے سامنے ہے جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گرد ممالک کھلم کھلا معصوم انسانوں کے قتل عام کے لئے دہشت گردوں کے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور ان کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ افسوس اور بدنصیبی کی بات تو یہ ہے کہ وہ اسلامی ممالک جنہوں نے کبھی بھی فلسطینی مظلوم عوام کے حق میں اور ان کی آزادی کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اسرائیل کے ہمنوا بن گئے ہیں اور اس گھناؤنے اور اسلام دشمن فعل میں امریکہ کے شریک کار بن چکے ہیں۔ جس کا نتیجہ صرف اور صرف اسرائیل کا استحکام اور فلسطینی جدوجہد کو سبوتاژ کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی مغربی استعمار امریکہ، اسرائیل اور ان کے دہشت گرد اتحادی ممالک اور مقامی ایجنٹ یہی گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں، ہمارے وطن میں کہیں بھی شیعہ سنی فساد نہیں ہے مگر تسلسل کے ساتھ قتل و غارت گری کے ذریعے یہاں بھی امریکہ عراق، شام اور لبنان سمیت یمن جیسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے درمیاں خلیج کو بڑھا کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئیے کہ ہوش کے ناخن لیں، ہماری ایجنسیاں اور سیکورٹی کے ذمہ دار ادارے اس ملک کی سلامتی کے لئے امن و امان کو ترجیح دیں نہ کہ کالعدم ملک دشمن اور اسلام دشمن دہشت گردوں کی سرپرستی کریں، جب تک امن و امان کی صورتحال بحال نہ ہو اور لوگ اپنی جان و مال کے تحفظ کی طرف سے بے فکر نہ ہوں ہمارے ملک کو خطرات لاحق رہیں گے۔

 

علامہ حسن ظفر نقوی نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں لہذٰا نواز حکومت کو چاہئیے کہ پنجاب کی طرح ملک کے دوسرے صوبوں پر بھی توجہ دے اور امن و امان کے قیام کے لئے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ سمیت گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ پنجاب بھر میں کالعدم دہشت گرد گروہوں کے تربیتی مراکز موجود ہیں جو ملک بھر میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے مفادات کی خاطر کالعدم دہشت گرد گروہوں کو کام کرنے کی اجازت دے چکی ہیں تاکہ یہ کالعدم دہشت گرد گروہ حکومت اور حکومتی جماعتوں کے لئے افراد سازی کریں اور اس کی آڑ میں ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی ملوث رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالعدم دہشت گرد گروہوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور حکومتی سرپرستی میں کبھی پشاور، کبھی کوئٹہ اور کبھی کراچی سمیت گلگت بلتستان میں معصوم انسانی جانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ آج شہر کراچی میں ایک طرف کالعدم دہشت گرد جہاں ٹارگٹ کلنگ کرکے معصوم انسانوں کا قتل عام کر رہے ہیں وہاں انہی دہشت گردوں کی سرپرست پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کی بجائے معصوم شیعہ طلباء جو کہ این ای ڈی جیسی بڑی جامعات کے ہونہار طلباء ہیں ان کو گرفتار کرکے جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔ کراچی سے کمسن بچوں اور طالب علموں کو گھروں سے اغوا کیا جا رہا ہے اور ان پر من گھڑت اور جھوٹے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب شہر کراچی میں ہی ایسے دہشت گرد موجود ہیں جو لوگوں سے نہ صرف بھتہ وصولی کر رہے ہیں بلکہ اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت گری میں ملوث ہیں وہ سب کے سب دندناتے پھر رہے ہیں کیونکہ ان دہشت گردوں کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔

 

انہوں نے اعلان کیا کہ سانحہ ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ، سانحہ پشاور سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے شہداء سے اظہار یکجہتی اور لواحقین سے ہمدردی کے لئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر جمعہ 5 جولائی کو ملک بھر میں ’’ یوم وفا و یوم یکجہتی شہدائے پاکستان ‘‘ منایا جائے گا اور اس سلسلے میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور شمعیں روشن کرکے شہدائے ملت جعفریہ پاکستان سمیت تمام دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوم شہداء سے اظہار یکجہتی اور تجدید عہد کیا جائے گا کہ پاکستان کے غیور عوام دہشت گردی کے خاتمے تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے اور پاکستان کو غیر ملکی آقاؤں کی ایماء پر مقامی ایجنٹ کالعدم دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ واضح رہے کہ جمعہ 5 جولائی کو مرکزی اجتماع مزار قائد پر منعقد ہوگا جس میں شہر بھر سے سول سوسائٹی اور شہداء کے لواحقین جمع ہوں گے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے تجدید عہد کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کریں گے۔ پریس کانفرنس کے آخر میں مرکزی ترجمان نے چند مطالبات پیش کئے جو بالترتیب درج ہیں۔

 

1۔ تمام کالعدم تنظیموں اور ان کے رہنماؤں پر پابندی عائد کی جائے اور انہیں کسی بھی قسم کا کام کرنے نہ دیا جائے۔
2۔ سانحہ کوئٹہ میں ملوث دہشت گرد گروہوں کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔
3۔ حکومت اور ریاستی ادارے 71 ہزار پاکستانیوں کے قاتل دہشت گرد گروہوں سے مذاکرات کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ملک سے ان ملکی اور غیر ملکی درندوں کے خاتمے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔
4۔ سانحہ کوئٹہ میں ایف سی اور پولیس کی چیک پوسٹ ہونے کے باوجود خودکش حملہ آور سیکورٹی زون میں کس طرح داخل ہوا اس کی تحقیقات کی جائیں اور فی الفور منظر عام پر لائی جائیں۔
5۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے اور ان کو تلاش کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے تاکہ دہشت گردوں کا سدباب ممکن ہو سکے۔
6۔ سریاب روڈ کوئٹہ پر موجود کالعدم دہشت گرد گروہوں کے مراکز موجود ہیں تاہم ان مراکز کے خلاف فی الفور فوجی آپریشن کیا جائے اور ملک دشمن و اسلام دشمن دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔
7۔ کراچی میں ضلع غربی میں کواری کالونی اور سلطان آباد میں موجود غیر ملکی اور ملکی دہشت گردوں کے مراکز کا قلع قمع کیا جائے اور ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے تا کہ شہریوں کو دہشت گردی سے نجات ممکن ہو اور شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
8۔ سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین کو حکومت کی جانب سے فی الفور معاوضہ ادا کیا جائے اور زخمیوں کا علاج معالجہ حکومت کی جانب سے کیا جائے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی اور ایم ڈبلیو ایم‏ کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا سید رضا رضوی نے سی ایم ایچ کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن سانحے کے زخمیوں کی عیادت کی اور علاج و معالجہ کا جائزہ لیا۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس موقع پر زخمیوں کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ بزدل دہشت گردوں نے خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا کر ظلم و بربریت کی  نئی مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے شہداء نے اپنی شہادت کے ذریعے قوم میں بیداری کی جو لہر پیدا کی ہے، انشاء اللہ یہ لہر ظالم حکمرانوں کے لئے نوشتہ دیوار ثابت ہوگی۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام سانحہ کوئٹہ کیخلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور یوم احتجاج منایا گیا۔ پریس کلب لاہور کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہولناک دہشت گردی کی کارروائی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں معصوم بچے، خواتین، بزرگوں اور جوانوں سمیت 30 سے زائد شہادتیں ہوئی ہیں جبکہ 70 سے زائد افراد شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں، وفاقی حکومت اور ریاستی ادارے ملک بھر میں دہشت گردوں کی سرکوبی کرنے کی بجائے ان سے مذاکرات کی باتیں کر رہی ہے، جبکہ یہ سفاک اور انسانیت کے دشمن دہشت گرد ملک کے تین صوبوں میں ہولناک تباہی مچا کر معصوم انسانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور ریاستی ادارے چاہتے ہیں کہ صرف پاکستان کے ایک صوبے میں امن قائم رہے، جس کے نتیجے میں آج پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں کام کرنے والے امریکی و سعودی نواز کالعدم دہشت گرد گروہ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تینوں صوبوں میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں وفاقی حکومت اور ریاستی ادارے براہ راست ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک بھر میں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں جبکہ عملی طور پر دہشت گردوں کی حکومت قائم ہے۔

 

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ صرف اور صرف کالعدم دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کئے جانے سے ہی ممکن ہے جبکہ حکومت اور حکومتی ادارے ملک اور اسلام دشمن دہشت گرد گروہوں سے مذاکرات کی باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جو براہ راست پاکستان کے 71 ہزار شہیدوں کے خانوادوں اور پاکستان سے دشمنی کے مترادف ہے۔ مقررین نے کہا کہ کالعدم دہشت گرد گروہوں کا ملک میں وجود اور ملک دشمن کارروائیاں مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لئے خطرناک ہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کالعدم دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن کئے جائیں نہ کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں۔


 
احتجاجی مظاہرے میں شریک مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ابوذر مہدوی مرکزی رہنماء مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والی ہولناک دہشت گردانہ کارروائی میں امریکی، اسرائیلی اور سعودی نواز کالعدم دہشت گرد اور وفاقی حکومت اور ریاستی ادارے براہ راست ملوث ہیں، ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں، جبکہ ہماری حکومت انہی دہشت گردوں سے ہاتھ ملا کر دوستی کی باتیں کر رہی ہے، جو کہ انتہائی شرمناک فعل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ امریکہ کے طالبان دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، ان کو جان لینا چائیے کہ امریکہ انہی دہشت گردوں کو ذریعے پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہا ہے، تاکہ مملکت خداداد پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے، آج ملک بھر میں دہشت گردی انتہائی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ لہذٰا اس بیماری کا جلد از جلد علاج کیا جانا ناگزیر ہوچکا ہے۔

 

مظاہرین سے صوبائی رہنما علامہ حسنین عارف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے 71 ہزار شہداء کے خانوادے کالعدم دہشت گرد گروہوں سے حکومتی مذاکرات کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کیخلاف سازشیں کرنے والے ریاستی عناصر اور دہشت گرد گروہوں کیخلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ کالعدم دہشت گرد گروہوں کے خلاف زبانی کلامی دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کئے جائیں اور ان دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کی جائے، ہم پاکستان کی غیور عوام، سول سوسائٹی اور سیاسی و معتدل مذہبی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور مملکت خداداد پاکستان کے خلاف ہونے والی غیر ملکی سازشوں کو بے نقاب کرنے اور ملک سے دہشت گردی کے فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے اپنا کردار ادا کر یں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کوئٹہ میں مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ داروں اور مقامی کمیٹیوں کا ہنگامی اجلاس جاری ہے، تاہم کوئٹہ سے ہونے والے تمام فیصلوں کی تائید کی جائے گی اور عمل درآمد کیا جائے گا۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیر اہتمام ولایت فقیہ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد ہوٹل مشہ بروم اسکردو میں ہوا۔ سیمینار سے ایم ڈبلیو ایم کی شوری عالی کے سربراہ اور جامعہ علوم اسلامیہ کراچی کے پرنسپل حجتہ السلام و المسلمین علامہ شیخ محمد حسن صلاح الدین نے سیمینار سے خطاب کیا۔ ولایت فقیہ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں جوانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ خطاب کے آخر میں سوالات کی بھی نشست ہوئی جس پر علامہ شیخ حسن صلاح الدین نے تفصیلی گفتگو کی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے علامہ شیخ محمد حسن صلاح الدین نے کہا کہ نبوت، امامت اور ولایت خدا کی طرف سے انسانیت کے لئے عظیم تخفہ ہے، ولی فقیہ صرف شیعہ مکتب فکر کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور عالم انسانیت کا رہبر ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree