The Latest
اٹھارہ ہزاری میں مجلس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کا قیام ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا جب ملک بھر میں ایک ایسی جماعت کی شدت سے احساس کیا جارہا تھا اور قوم مسلسل مایوسی اور بے سرپرستی کا احساس کر رہی تھی
مخلتف مسائل میں آواز اٹھانے والا کوئی نہ تھا ۔
اس اجلاس میں مرکزی سیکرٹری شعبہ جوان علامہ اعجاز بہشتی رکن شوری عالی علامہ اقبال بہشتی سیکرٹری فلاح و بہبودنثار علی فیضی اور سیکرٹری جنرل ریاست آزاد جمو و کشمیر علامہ تصور جوادی اپنے ریاستی عہداداران کے ہمراہ اجلاس میں موجود تھے۔
شعبہ جوان کشمیر کے سیکرٹریز سے خطاب کرتے ہوئے علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی گفتگو میں پاکستان کو درپیش مسائل کا ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں آج انسانیت استعماری سازشوں کا شکار ہے۔ آج امریکہ اور اس کے حواریوں کی وجہ سے جہاں عالم مشکلات اور فسادات کا شکار ہے۔ کہیں اقتصادی فساد ہے کہیں امریکہ کےآلہ کاروں کے ہاتھوں جاری نسلی ، لسانی اور علاقائی فسادات معاشروں کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس دور میں اسلام ہی طاغوت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ مسقبل میں انسانیت ،اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو شکست دینے کےلیے ہماری امیدوں کا مرکز جوان ہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ملت تشیع پاکستان کو مضبوطی دے کر پاکستان کو مستحکم کرنےکی غرض سے میدان میں وارد ہوئے ہیں۔ ہمارا مقصد پا کستان کی عوام کو طاقتوار کرنا ہے۔ ہم کسی کی تذلیل کرنا حرام سمجھتے ہیں۔
مرکزی سیکرٹری شعبہ جوان نے ریاستی سیکرٹری شعبہ جوان کو ہدایت کی کہ ڈویژن اور ضلعی سطح پر شعبہ جوان کے سیٹ اپ کومنظم کریں۔ ریاستی سطح پر جوانوں کے لیے دیئے گئے پروگرام کو عملی بنائیں
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع نوشہرو فیروز کے سیکریٹری جنرل اعجاز علی ممنائی نے صوبہ سندھ کے شعبہ فلاح و بہبود کی صوبائی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ضلع دادو اور ضلع نوشہرو فیروز کے سیلاب متاثر علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرین کے مسائل کا جائزہ لیا اور انہیں یقین دلایا کہ ایم ڈبلیو ایم ان کے بحالی کے لیے ممکنہ اقدامات اٹھاے گی ان کے ہمراہ یونٹ مورو کے سیکریٹری جنرل منظور علی رند اور اعجاز حسیں چانڈیو بھی تھے - سیکریٹری جنرل نے دادو سٹی ،جوہی ، فیض محمد لغاری ، علی نواز لغاری ، بہارو خان لغاری، گل حسن لغاری ، حاجی ڈٹل کھوسو ،عثمان رستمانی ،بخشل رستمانی ،میاں خان چانڈیو ،تیمو خان چانڈیو ،میہن چانڈیو،مبارک گوپانگ ،گہرام خان گوپانگ ، مرید خان گوپانگ ،بڈھل گوپانگ کا دورہ کیا جبکہ نوشہرو فیروز میں ابران، علی بخش لاشاری ، سنیاری ، پڈعیدن، بھریا روڈ، چانھیں سلیمان ، کھاہی ممن ، چھٹل شاہ ، ٹھارو شاہ ، مٹھیانی ، کنڈیارو ، امام بخش منگریو ، مہنی دیرو ، خانوآہن، لاکھارود اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کا دورہ کیا
گندھاخاتحصیل جعفر آبادسیلاب سے متاثر ہوا ہے اور آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوچکی ہے بلوچستان سے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت بلوچستان علامہ مقصود علی ڈومکی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس وقت جعفر آباد سے نقل مکانی کرنے والے لوگ سخت حالات سے دوچار ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس سر چھپانے کے لئے ٹینٹ تک نہیں
سعودی عرب میں نوجوان لڑکیاں عمر ڈھلنے کے خوف سے کنواری رہنے کے بجائے شادی شدہ مردوں کی دوسری بیویاں بننے کو ترجیح دے رہی ہیں اور یہ معاملہ معاشرے میں ایک قابل قبول صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
سماجیات کے پروفیسر ابراہیم العنزی کا کہنا ہے کہ ''سعودی مرد حضرات لمبے عرصے کے لیے بیرون ملک کا سفر کرتے اور وہاں مقیم رہتے ہیں۔اس وجہ سے ان میں سے اکثر شادی کو تو یکسر بھلا ہی دیتے ہیں''۔
ان کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے مرد وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سعودی عرب کی قدامت پرست روایات کے مطابق ہوں۔اس لیے ان کے لیے یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ وہاں ان کی شادی ہو اور خاندان بھی ہو۔
پروفیسر ابراہیم کے بہ قول اس صورت حال میں سعودی عرب میں لڑکیاں مردوں کی دوسری بیویاں بننے کو سماجی طور پرقبول کررہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ایک لڑکی کی عمر جب تیس سال کو پہنچ جاتی ہے تو وہ خود بخود ہی یہ سوچنا شروع کردیتی ہے کہ اس کی عمر اب ڈھل رہی ہے۔اس مرحلے پر وہ ایک ایسے مرد کے ساتھ بھی شادی پر آمادہ ہوجاتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہو اور وہ اس کو مکمل توجہ نہ سہی لیکن اس کے حصے کا وقت دے سکے''۔
ان کا کہنا تھا کہ مردوں کی ایک سے زائد شادی سے نہ صرف ڈھلتی عمر کی لڑکیوں کے اکلاپے کا مسئلہ ہوسکتا ہے بلکہ اس سے بغیر نکاح کے ناجائز جنسی تعلقات کی بھی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔
انھوں نے سعودی روزنامے الشرق کو بتایا کہ سعودی عرب میں غیرمنکوحہ جوڑوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مراکز قائم ہوچکے ہیں لیکن ہمارے ملک میں پہلے کبھی اس طرح کی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی کہ کثیر تعداد میں ولدالزنا بچے ہوں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مردوں کی دوسری شادیوں پر اعتراض کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب ایک سعودی خاتون فاطمہ ابراہیم اس بات کی وجہ بیان کی ہے کہ بعض خواتین پہلے سے شادی شدہ مرد کی بیوی بننے پر کیوں آمادہ نہیں ہوتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک مرد اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کر سکتا۔
انھوں نے بتایا کہ بعض مرد حضرات دوسری شادیاں رچا تو لیتے ہیں مگر اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے یا انھیں بھول جاتے ہیں۔وہ ان کا نان و نفقہ دیتے ہیں اور نہ بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمے داری اٹھاتے ہیں۔
ایک اور خاتون فوزیہ عبدالہادی نے فاطمہ ابراہیم کے اس موقف کی حمایت کی۔ان کا کہنا تھا کہ ''مرد حضرات بالعموم اپنی دوسری بیوی کا زیادہ خیال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں کسی بھی صورت میں اپنے خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوں''۔
رشتوں کا کام کرنے والی ایک خاتون اُم رکن کا کہنا تھا کہ مرد اور خواتین دونوں ہی اپنی اپنی ذمے داریوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے بغیر ہی عمریں ڈھل رہے ہیں۔وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں شادی کے بغیر زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''بہت سے نوجوان دوسرے مسائل کا بھی شکار ہیں۔بہت سے مرد حضرات کی یہ خواہش بلکہ ترجیح ہوتی ہے کہ ان کو تعلیم کے بعد اچھی ملازمت ملے،اگر وہ کاروبار کررہے ہیں تو وہ بہت اچھا ہو۔ان کا خوبصورت گھر ہو اور پھر وہ اپنے لیے دلھن لے کر آئیں گے''۔
اس طرح بہت سے نوجوان اپنے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوئے بغیر ہی ادھیڑ عمری کی دہلیز پر قدم رکھ دیتے ہیں اور تب تک انھیں جوڑ کا رشتہ نہیں ملتا۔لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آتا ہے۔ان کے والدین ان کے لیے اچھے اور خوشحال گھرانے کے لڑکے کی تلاش میں سالہا سال گزار دیتے ہیں۔ان کے لیے مناسب رشتہ ملتا نہیں اور گھر پر ہی ان کی جوانی ڈھل جاتی اور بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔ ماخوز از عربیہ ٹی وی
جمعیت علماء اسلام کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر مولانا عطاء الرحمان کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والی قتل و غارت گری میں خفیہ ہاتھ ملوث ہیں، اور وہ لوگ استعمال ہوتے ہیں جن کے صرف ذاتی مقاصد ہوتے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا، جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کا آبائی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان دہشتگردی کا شدید شکار رہا، ساڑھے چار سو سے زائد اہل تشیع کو قتل کیا گیا، ڈیرہ سمیت ملک بھر میں فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والی اس قتل و غارت گری کا ذمہ دار کون ہے۔؟‘‘ تو مولانا عطاء الرحمان کا کہنا تھا کہ ایک ڈیرہ اسماعیل خان ہی نہیں پورے ملک میں فرقہ وارانہ بنیاد پر جو قتل و غارت گری ہوتی رہی ہے یا ہو رہی ہے، اس کے بنیادی ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں افراتفری رہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں یقیناً خفیہ ہاتھ ملوث ہیں، وہ نوجوان اور لوگ استعمال ہوتے ہیں جو ملک کے حالات پر نظر نہیں رکھتے، ان کے صرف اپنے ذاتی مقاصد ہوتے ہیں، ان کی نظر اسی پر ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت علماء اسلام نے سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے درمیان ہمیشہ ایک پل کا رول ادا کیا، اور کوشش کی ہے کہ دین کے نام پر جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کا کوئی سدباب کیا جا سکے، انہوں نے کہا کہ یقیناً نقصان ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن جمعیت علماء اسلام کی جانب سے فیصلہ کرانے بعد گزشتہ کئی ماہ سے اب وہ صورتحال نہیں ہے، ہاں اکا دکا واقعات تو اب پورے ملک میں ہی ہو رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ خفیہ ہاتھ ہے کیا؟شاید مولانا صاحب اس کو بیان نہ کرسکیں کیونکہ خفیہ ہاتھ کی اصطلاح کا شمار بھی ان اصطلاحوں میں ہوتا ہے جو کئی کئی معنی اپنے رکھتیں ہیں جیسے جمہوریت اب س کو ہی لیجیے یہ جمہوریت عرب ممالک کی بادشاہت میں بھی صادق آرہا ہے تو پاکستان میں بھی جہاں جیسے چاہو اس کے معنی کرو تو خفیہ ہاتھ کے معنی بھی جگہ علاقے کے اعتبار سے ہی کرنے ہونگے بلوچ کچھ تو ہم شیعہ کچھ تو کالعدم جماعتیں کچھ ۔۔۔۔۔۔
مجلس وحدت مسلمین لاہور کے ضلعی شوریٰ کا اجلاس العارف ہاؤس اقبال ٹاؤن میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین ضلعی شوریٰ لاہور بھر کے یونٹ مسؤلین شریک ہوئے۔اجلاس میں 7اکتوبر کو منعقدہ اجتماع امت رسول اللہ ؐ کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔ اجتماع کے انتظامی کمیٹی وسطی پنجاب کے سربراہ رائے ناصر علی نے انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی اور کہا کہ اس وقت وسطی پنجاب کے تمام اضلاع میں رابطے جاری ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اجتماع شریک ہو ں گے۔ تشہیری مہم کے حوالے سے کمیٹی کے سر براہ رائے ناصر علی کا کہنا تھا کہ تشہیر ی مہم جاری ہے اور اشتہارات ، وال چاکنگ کے ذریعے پر ضلع میں اس اجتماع سے متعلق لوگوں کو آگاہی دے رہے تھے۔
ضلعی شوریٰ نے تمام یونٹس مسؤلین کو تاکید کی کہ یہ اجتماع امت محمد ی کے لئے ہے اور ہر مکتب فکر لوگوں کو دعوت دیں۔ اور پروگرام کی کامیابی کو یقینی بنائی
مشرق وسطی کے اس خلیجی ملک بحرین صدیوں سے حاکم مطلق العنان بادشاہت کے خاتمے اور ملک میں حق رائے دہی کے لئے یوں تو گذشتہ کئی دہائیوں سے عوامی کوششیں جاری ہیں لیکن عرب ممالک میں ڈکٹیٹروں کے خلاف حالیہ نئی لہر کے بعد بحرین میں جمہوریت نوازوں کی تحریک نے شدت اختیار کی ہے اور گذشتہ ایک سال سے جاری اس تحریک میں اب تک درجنوں افراد فورسز کی جانب سے شہید کردیے گئے ہیں
بحرین میں حاکم خاندان نے اپنی سلطنت بچانے کے لئے بیرونی ممالک جن میں سرفہرست پاکستان اور مصر شامل ہیں سے کرائے کی فوج بنائی ہوئی ہے جن کو بھاری تنخواہ کے عوض عوامی تحریک کو سختی سے کچلنا ہے
رقبے کے اعتبار سے انتہائی چھوٹا لیکن جغرافیائی خاص اہمیت کے پیش نظر امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک بحرین میں کسی قسم کی تبدیلی کے خواہاں نہیں یہی وجہ ہے کہ بحرینی حاکم خاندان کھلے عام انسانی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے
امریکہ اور اسرائیل بحرین کو ان دو تین خلیجی عرب ملکوں میں شمار کرتے ہیں جن سے اسرائیل کے لئے نہ صرف کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ خطے میں امریکی پالیسیوں کے اہم مہروں کاکردار بھی بخوبی ادا کرتے ہیں
دوسری جانب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حاکم سعود خاندان بھی جو پہلے سے ہی عرب جمہوریت پسندوں کی تحریک سے خوفزدہ ہے اپنے ہمسائے میں جمہوریت کو پلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اس لئے بحرین کی جمہوری تحریک سخت بحرانوں کا شکار ہے لیکن دنیا کے لئے جو چیز باعث حیرت ہے وہ بحرینی عوامی تحریک کا عدم تشدد کا رویہ اور تحریک کا تسلسل ہے
عرب ممالک میں جہاں بھی حالیہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہاں کسی نہ کسی شکل میں تشدد یا خونی جدوجہد نظر آیا ہے جو تقریبا دنیا کے تمام انقلابات کا خاصہ ہیں لیکن بحرین میں عوامی تحریک کی جانب سے کسی بھی قسم کی خونی جدوجہد نظر نہیں آتی جبکہ اس پرامن جدوجہد کے مقابلے میں حاکم خاندان کے کرائے کی فورسز کی جانب سے تشدد اور طاقت کے بے دریغ استعمال نظر آتا ہے
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بحرینی عوامی تحریک کی طوالت کی ایک وجہ اس تحریک کے قائدین کی جانب سے حد سے زیادہ اسے مخصوص انقلابی انداز سے دور رکھنا ہے کیونکہ خونی جدوجہد کسی بھی انقلاب کا تقریبا لازمہ ہوا کرتا ہے
بغیر قربانی کے جذبے کے انقلابات رونما نہیں ہواکرتے۔۔۔۔تجزیہ و رپورٹ ایم ڈبلیوایم میڈیا سیل
راوالپنڈی کی اہم شخصیات کی ایک میٹنگ مرکزی آفس اسلام آباد میں ضلع پنڈی کی جانب سے منعقد کی گئی اس میٹنگ کا مقصد پنڈی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مجلس وحدت کی جماعتی فعالیات نیز یونٹ سازی کے حوالے سے صلح مشورہ تھا اس میٹنگ میں مرکزی سیکرٹری شعبہ امور جوانان شیخ اعجاز حسین بہشتی نے شرکت کی اور پنڈی ضلع کی اہم سماجی و سیاسی و مذہبی شخصیات کو بریفنگ دی ۔ راولپنڈی میں ملت تشیع کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے 25 سے زیادہ افراد موجود تھے۔ جن میں مختلف مقامی انجمنوں اور تنظیموں اور ماتمی سنگتوں کے افراد بھی شریک تھے
علامہ شیخ اعجاز بہشتی موجودہ ملکی اور خاص کر ملت جعفریہ کو درپیش مسائل جیسے ٹارگٹ کلنگ سمیت متعدد اہم موضوعات پر گفت و شنید کی اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی اب تک کی کارکردگی کا ایک جائزہ پیش کیا۔
نشست میں ڈویژن سے آئے ہوئے معززین نے مختلف مسائل اور امور کے حوالے سے سوالات کے علاوہ تجاویز بھی پیش کیں ۔
مجلس وحدت المسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ترجمان فدا حسین نے اپنے ایک بیان میں امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرغنہ مجرمین جہان امریکہ کے صدر کا حالیہ بیان انتہائی افسوسناک ہے۔ جس میں انہوں نے مذکورہ فلم پر پابندی عائد کرنے سے انکار کیا ہے اور لیبیا میں امریکی سفارت کار کے قتل کا واویلا مچاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بدلہ لیا جائے گا اور انہوں نے دنیا میں ہونے والے احتجاجات کی بھی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آزادی بیان کے نام پر عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے پر تلا ہوا ہے اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ امریکہ اس فلم پر پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں کوئی قانون نہیں رکھتا اور یہ بھی کہا کہ اگر اس طرز کا فلم اگر عیسائیت کے خلاف بھی بنائی جائے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
فدا حسین نے کہا کہ ان باتوں سے واضح ہو رہا ہے کہ اوباما کو اسلام سے ہی نہیں بلکہ عیسائیت سے بھی نفرت ہے اور ان کے پیچھے صیہونی افکار کام کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ میں اس قدر آزادی بیان کی اجازت ہے تو ہولوکاسٹ پر پابندی کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس سے صیہونیوں کے پول کھل جاتے ہیں، جس جھوٹ پر صیہونیت کی ناجائز اور پرفریب عمارت کھڑی ہے وہ سبوتاژ ہوجائے گی۔ امریکہ میں ہولوکاسٹ پر تحقیق پر پابندی، ہولوکاسٹ پر لکھنے پر پابندی اور ہولوکاسٹ پر بولنے پر پابندی ہے اور امریکی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے جبکہ اسلام اور عیسائیت کے مقدسات پر حملہ آزادی بیان کہلاتا ہے اور امریکہ میں کوئی ایسا قانون نہیں جو ان پر پابندی عائد کرے یہ شیطان بزرگ کی سکرات باتیں ہیں۔