وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ زمانہ کہ جہاں ہر طرف ظلمت ہی ظلمت تھی ۔ نہ انسان تھا نہ انسانیت ۔ ۔ جہان ہر طرف غلامی ، ظلم ، استبداد ، محکومی وجہالت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ عین اسی وقت نور کی ایک نحیف سی کرن نے وہاں سراٹھایا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کرن سورج کا سماں پیش کرنےلگی ۔۔اور اپنے اطراف کو کچھ اس طرح اجالا بخشاکہ " جہاں جہالت کے اندھیروں نے زندگی کو اجیرن بنارکھا تھا " وہاں زندگی نے سر اٹھایا ۔وہی لوگ کہ جو مفہوم انسان و انسانیت سے کوسوں دور تھے ، دنیا کے مہذب ترین تمّدن کی آغوش میں آ بیٹھے ۔ ۔۔۔۔مگر پھرکیا ہوا۔۔۔۔۔؟
زمانے نے اپنا رخ ایک بار پھر بدلا۔۔۔زمانے کو مفہوم آزادی ، علم و زندگی سے آگاہ کرنیوالے اس عظیم رہنما کوگزرے ابھی تقریباْ ۵۰ سال ہی ہوئےتھے کہ پھر سے اندھیرے روشنیوں پر چھانے لگے ۔ سب کچھ دھندلا سا دیکھائی دینے لگا ۔ اسلام کی نورانی تعلیمات کو جہالت و مفاد پرستی کے اندھیروں نےہر طرف سے گھیر لیا ۔۔۔مگر اس بار انداز بدل کر ۔۔۔نبی اکرمﷺ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں کفر تھا مگرحسینؑ ابن علی ؑ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں مسلمان تھے ۔۔کل باہر کے دشمنوں سے مقابلہ تھا مگر آج اندر کے دشمن سے نبردازمائی تھی، کل کا دش،من خود کو بت پرست کہتا تھا لیکن آج کا دشمن خود کو خلیفہ المسلمین اور توحید پرست کہہ رہاتھا ۔۔اور رہی بات اسلامی معاشرے کی تو معاشرہ اس قدر تنزلی کا شکار ہو چکا ہے کہ مسلسل گمراہی کی آغوش میں جا رہا ہے ۔۔حتی معاشرے نے حق و باطل کے معیار کو اس قدر بھلا دیا تھا کہ مسندِ رسولﷺ پر یزید جیسا شخص بیٹھ گیا تھا اور لوگ خاموش تھے۔
قرآنی نکتہ نظر سے کوئی بھی قوم و ملت جو" حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کرنے لگے" اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔۔
۱۔ذکر خدا سے غافل ہونا ۔
۲۔شہوات طلبی [شہرت ، دولت و اقتدار طلبی۔۔۔۔]
اور جب قومیں و ملتیں ایسی ہو جائیں کہ جو اعمال میں مفسد ہوں اور دشمن ان کے اندر ڈیرے لگائے بیٹھا ہو تو ان حالات میں خداوند متعال کو موسیٰ جیسے نبی کو40دنوں کے لئے طور پر بلانا پڑتا ہے ۔۔۔۔تاکہ ان40دنوں میں یہ پتہ چل جائے کہ کون خدا پرست ہے اور کون گوسالہ پرست۔۔
61ہجری میں بھی حالات کچھ اسی طر ح کے تھے ۔۔بقول سید الشہداع " اسلام فقط لوگوں کی زبانوں کا چسکا بن چکاتھا" حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کیا جانے لگا تھا ۔۔اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ دشمن خود مسلمانوں کی صفوں میں خیمہ زن تھا ۔۔لوگ باطل کو حق سمجھ کر اس کی پیروی کر رہے تھے ۔۔۔پس ضروری تھا کہ کوئی موسی ٰ ہو جوفعرون وقت کے خلاف قیام کرے اور باطل کو حق سے جدا کرے۔۔۔
اسی ضرورت کے پیش نظر امام حسین ع نے وقت کے فرعون کے خلاف کربلا کے میدان میں اسلام کو بچانے کے لئے قیام م کیا ۔۔ اس بار بھی امام حق کے مقابلے میں تخت پر ایک فرعون بیٹھا ہوا تھا ۔ ۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔عاشورا ہی وہ دن تھا کہ جب حسین ابن علی [ع] نے فرعون کے تخت کو ٹھوکر مار کر خود کو خداوند سے ملاقات کے لیے پیش کیا ۔۔حسینؑ ابن علی کا وہ خون کہ جو پہلے دن غریبانہ و مظلومانہ طریقے سے بہایا گیا آہستہ آہستہ زور پکڑتا گیا یہاں تک کہ 40ویں روز [اربعین ] کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ وسط آسماں میں ایسا چمکا کہ جس کی چمک سے باطل کو حق کے دائرے سے باہر آنا پڑا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔عاشورا ۔۔تا۔۔۔۔اربعین کی اس 40روزہ مدت نے لوگوں پر حق و باطل اس قدر واضح کر دیا کہ لوگ باطل کے خلاف عملا آواز اٹھانے لگے ۔۔۔۔
عاشور کے بعد ۴۰ روز ۔۔یعنی۔۔۔حق و
باطل کی جدائی کے ایام
عاشور کے بعد ۴۰روز ۔۔یعنی ۔۔۔تلوار پر خون کی فتح کے ایام
عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔ظلم و
ظالم و طاغوتی نظام سے بیزاری کے ایام
عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔غدیر سے تجدید عہد کے ایام
عاشور کے بعد 40روز ۔۔۔یعنی ۔۔۔یزید و
یزیدیت کی ذلت و رسوائی کے یام
عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔درس علم
، شجاعت ، عزت و آزادی کے ایام
عاشور کے بعد 40روز ۔۔۔یعنی ۔۔۔استغاثہ
حسینی پر لبیک کہنے کے ایام ۔۔
بقول ڈاکٹر شریعتی کے "وہ لوگ جو امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے ، انہوں نے فریضہ حسینی انجام دیا ،جو بچ گئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ فریضہ زینبی انجام دیں ورنہ وہ یزیدی ہیں ۔ "
دس محرم کو کربلا ختم نہیں ہوتی بلکہ فریضہ زینبیؑ کا آغاز ہوجاتا ہے۔
تحریر۔۔۔ساجد علی گوندل
وحدت نیوز(آرٹیکل) بھوک بڑی ظالم چیز ہے، بھوکے انسان کو پیٹ کے سوا سب کچھ بھول جاتا ہے،البتہ پیٹ کی بھوک تو خشک روٹی کی ایک ٹکڑے سے بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن عقل کی بھوک یعنی ہوس ایسے نہیں مٹتی۔
جن کی عقل بھوکی ہو وہ مرغ مسلم کھا کر بھی بھوکے رہتے ہیں، ہوس میں مبتلا لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے ۔ان کے سامنے کچھ حرام و حلال یا حق و باطل نہیں ہوتا وہ صرف دولت سمیٹنے کے چکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔
اگر ان کی دنیا خطرے میں پڑے تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے کوفے والے بھی تھے،جب کوفیوں نے یہ سوچا کہ حکومت ملے گی تو انہیں بھی مال و دولت ہاتھ آئے گا چنانچہ انہوں نے حضرت مسلم ؑ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں مال و دولت ملنے کے بجائے جان جانے کا خطرہ ہے تو حضرت مسلمؑ کو تنہا چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔
انہوں نے جب شام سے لشکر کے آنے کی جھوٹی خبر سنی اور اپنی تنخواہ کو بیت المال سے کاٹے جانے کی دھمکی سنی تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہوگئےاور انہوں نے اپنے تیروں کے رخ ابن زیاد سے موڑ کر امام حسین(ع) کی طرف کر لیے۔
دنیا داروں کی حقیقت یہی ہے کہ جو امام حسین(ع) نے اپنی ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے کہ
لوگ دنیا کے اسیر ہیں اور دین صرف ان کی زبان کا لقلقہ ہے(لقلقہ زبان کے اوپر لگے ہوئے پانی کو کہتے ہیں جو تھوڑی سی ہوا سے خشک ہو جاتا ہے)
لوگ اس وقت تک دین کی اطاعت کرتے ہیں جب تک ان کی معیشت چلتی ہے لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب عمر ابن سعد چار ہزار فوجیوں کے ہمراہ کربلا پہنچا تو عروہ بن قیس سے کہا کہ حسین(ع) کے پاس جاو اور ان سے پوچھو کہ وہ کس لیے اس سرزمین پر آئے ہیں!؟
عروہ اس ماموریت پر راضی نہیں تھا یعنی وہ امام حسین(ع) کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اس نے امام کو کوفے میں آنے کیلئے خط لکھا ہوا تھا ۔اب وہ امامؑ کا سامنا نہیں کرنا چاہتاتھا۔
عروہ بن قیس کے پیٹ میں بھوک نہیں تھی، اس کے دماغ میں بھوک تھی۔وہ بھوکا تھا، اقتدار، نعام ، اور منصب کا۔
لیکن دوسری طرف بریر بن خضیر ھمدانی تھے جو اپنے وقت کے زاھد،عابد،قاری اور مفسرقرآن تھے اور اپنے وقت کے بہترین جنگجو تھے ۔ جب وہ میدان کربلا میں پہنچے تو انہوں نے کوفیوں کو مخاطب کرکے کہا :
اے اہل کوفہ واے ہو تم پر!آیا وہ خطوط جو تم نے لکھے تھے وہ عھد و پیمان جو تم نے باندھے تھے ان سب کو بھول گئے ہو؟
واے ہو تم پر۔آیا اہل بیت پیامبر کو دعوت نہیں دی تھی، اپنی طرف نہیں بلایا تھا !آیا ان پر جان نثار کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
لیکن جب اہل بیت ؑ نے تمہاری طرف رخ کیا تو ان کو ابن زیاد کے حوالے کردیا اور اب (پردیس میں) ان پر پانی بھی بند کردیا ہے۔فرزندان پیامبر کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کر رہے ہو تم کو کیا ہو گیا ہے۔
خدا تم کو قیامت کے دن پیاسا رکھے تم بد ترین امت ہو۔
اس کے جواب میں کوفیوں نے کہا کہ :اے فلاں!تم کیا کہہ رہے ہو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا
ہاں کوفی سچ کہہ رہے تھے! انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، جب انسان کی عقل پردنیا کا لالچ سوار ہو جائے تو پھر اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔
آج ہمیں بھی جب حسینؑ اور یزید ، حق اور باطل ، حرام اور حلال کا فرق سمجھ میں نہ آئے تو ایک مرتبہ اپنی عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کس چیز کی ہوس نے ہمیں اہل کوفہ کی طرح اندھا ، بہرہ اور گونگا کردیا ہے۔
جوآج ابھی حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کی حمایت نہیں کرتا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتا اسے یقین کرلینا چاہیے کہ میں ابھی لشکر یزید میں ہوں۔
تحریر۔۔۔سجاد مستوئی
وحدت نیوز(مظفرآباد) آزاد کشمیر بھر میں یوم عاشور پرامن طور پر اختتام پذیر ، تا ہم ملت جعفریہ علامہ تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر شدید تشویش میں مبتلاء، تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر بھر کے مرکزی جلوسوں میں علامہ تصور نقوی پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر مرکزی جلوسوں میں قراردادیں پاس کی گئیں ، قرادادوں میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ملت جعفریہ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے، مرکزی جلوس عاشور مجہوئی میں خطاب کرتے ہوئے ترجمان مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر مولانا سید حمید حسین نقوی نے کہا کہ علامہ تصور نقوی پر حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری ریاستی اداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے، آٹھ ماہ گزر گئے ملت تشیع سوال کرتی ہے کیوں اس مسئلے کو پش پشت ڈالا جا رہا ہے، اگر علامہ تصور نقوی کے مسئلے کو حل نہ کیا تو عاشور کے جلوسوں کی طرح ہم سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور ہوں گے ، پھر اس وقت تک گھروں کو نہیں جائیں گے جب تک کہ مجرمان کو کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ہمارے صبر کو مزید نہ آزمایا جائے ، یہ عزادار اس مسئلے پر بہت مضطرب ہیں ۔انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی کے چیئرمین سید شجاعت علی کاظمی نے کہا کہ اداروں نے سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے ، ملت جعفریہ کے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے ، مرکزی انجمن جعفریہ جہلم ویلی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی آج تک تمام تر تفتیش کو مسترد کرتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہے ، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ملت جعفریہ کو اب جواب دو! ڈی سی مظفرآباد اور ایس ایس مظفرآباد پریس کانفرنس کرتے ہوئے حقائق سامنے لائیں نہیں تو جلوس ہائے عزا احتجاج میں بھی تبدیل کیئے جا سکتے ہیں ۔ تمام تر مصحلتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ناحق خون گرانے والوں کو جلد از جلد گرفتارکرتے ہوئے بے نقاب کیا جائے۔
وحدت نیوز(میرپورخاص) ڈگری مرکزی امام بارگاہ باب العلم سرپرست اعلیٰ اور مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل عزاداری سیل کے چیئرمین ، ضلعی سیکریٹری جنرل سید بشیر شاہ نقوی پر کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کی ایماءپرسندھ حکومت کی جانب سے ضلع میں60روز کیلئے نظربندی اور تقریر پر پابندی لگا دی گئی اور عشرہ محرم الحرام کی مجالس سے خطاب پر علامہ رفاقت حسین نقوی پر پورے ڈویژن میرپورخاص میں پابندی لگائی گئی، ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی نے سندھ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے فیصلے پر پرزور مزمت کرتے ہوئے کہا کہ بشیر شاہ نقوی اتحاد بین المسلمین کی داعی ہیں جن پر بلاجواز پابندی افسوس ناک ہے، سندھ حکومت اپنا یہ فیصلہ فوری طور پر واپس لے۔
وحدت نیوز(گلگت) کربلا ظلم کے خلاف ایک ابدی جنگ ہے اور عاشورہ باطل پر حق کی فتح کا دن ہے۔امام عالی مقام نے حق اور باطل کے درمیان ایک ایسی لکیر کھینچ دی ہے کہ قیامت تک آنیوالی والی نسلیں اس راہ پر چلتے ہوئے ابدی سعادت سے سرفراز ہوسکتی ہیں۔کربلا والوں کی یاد دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا کرتی ہے جسے زمانے کے تندوتیز طوفان بھی ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے عاشورا کے حوالے سے اپنے پیغام میں کہاہے کہ آج کے دور میں عاشورا کی اہمیت پہلے سے کہیںزیادہ بڑھ گئی ہے۔ملک کو امن وآشتی کی طرف لیجانے کیلئے کربلا کے پیغام کو عام کرنے ضرورت ہے اس لئے کہ کربلا کسی ایک مکتب فکر کیلئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کیلئے کربلا ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔انہوں نے کہا کہ کربلا کو مشعل راہ بناکر ہی ملک سے فتنوںکا قلع قمع کیا جاسکتا ہے اور آج دشمنان اسلام امریکہ ،اسرائیل اور ان کے حواریوں نے یزیدی فکر کو پروان چڑھاکر دنیا کے کونے کونے میں کشت وخون کی ہولی کھیلی ہے جس کا مقابلہ صرف اور صرف کربلائی فکر سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک عزیز کو آج جس قدر تکفیری فکر سے خطرہ ہے کسی دشمن ملک سے اتنا خطرہ نہیں جہاں ہمارے سپہ سالار اور جوان ملک کے سرحدات کی حفاظت پر اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں وہی پر قوم کے دانشور اور سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اس یزیدی فکر کی بیخ کنی کیلئے جامع پالیسیاں مرتب کریں اور تاکہ ملک وقوم کا مستقبل روشن ہو۔انہوں نے کہا کہ عاشوراظالموں کے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج ہے اور عصر حاضر میں سنی شیعہ ملکر وقت کے یزیدی لشکر کے ارادوں کو ملیامیٹ کرسکتے ہیں۔یزید ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک فکر کا نام ہے اور ہماری جنگ اسی یزیدی فکر سے ہے۔ان باطل نظریات کا مقابلہ وہی کرسکتے ہیں جو حق شناس ہوں اور دشمن کی سازشوں کا بخوبی علم رکھتے ہوں۔انہوں نے کہا کہ باطل قوتوں کیلئے میدان خالی رکھنا بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے اور تمام مسلمان ہر سال نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذکر سے باطل قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کیلئے قوت و طاقت لیتے ہیں۔
وحدت نیوز(سکردو) عاشورائے محرم کے موقع پر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلتستان ڈویژن کے زیر اہتمام منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا ہے کہ محرم تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔ محرم الحرام مظلومین جہاں کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق و شام میں داعش اور دہشتگردوں کی عبرتناک شکست دراصل کربلائی عزم رکھنے والے جوانوں کی ہمت و حوصلے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں بھی دہشتگردوں کے خلاف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت کرسکتا ہے اور اپنا واضح موقوف رکھتا ہے تو وہ مکتب عاشورا سے تربیت پانے والے ہیں۔ ہم ہی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے امین اور محافظ ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جی بی کی صوبائی حکومت بدمعاشی پر اتری ہوئی ہے اور یزیدی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ پرامن علماء کے خلاف گلگت میں داخلے پر پابندی اور شیخ مرزا علی سمیت متعدد بے گناہوں کو شیڈول فور میں ڈالنا انکی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ گلگت میں شیخ نیئر مصطفوی کو کئی ماہ سے حراست میں لے رکھا ہے، انکا جرم یمن کے مظلومین کی حمایت کرنا ہے۔ صوبائی حکومت مکمل طور جانبدار اور ظالم و جابر حکومت بن چکی ہے۔ بلتستان میں زمینوں پر قبضے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم بلتستان کی زمین پر کسی کو ناجائز قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ قانون خالصہ سرکار کی آڑ میں حکومت یہاں کی زمینوں کو اپنے من پسند افراد میں بانٹنا چاہتی ہے۔ خالصہ سرکار کے قانون کی آڑ میں اسماعیلی جماعت خانہ کے لیے مختص زمین اور عوام کی ملکیتی اراضی پر قبضے کی کوشش ظلم و انصافی ہے اور ہم کسی صورت خاموش نہیں رہیں گے۔ بلتستان کے علماء ہشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حفیظ حکومت کی خطہ دشمن پالیسی کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ حفیظ الرحمان کو وزارت علماء کی وجہ سے ملی تھی لیکن اب وہ حد سے آگے نکل چکے ہیں، انکو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں اگر امن قائم ہے تو یہاں کے عوام اور علماء کی وجہ سے ہے۔ حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ انہوں نے امن قائم رکھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ملک کے دیگر خطوں میں امن قائم کرکے دکھائیں۔ حفیظ کی حکومت نواز شریف سے سبق لیتے ہوئے اپنا قبلہ درست کرے۔ سربراہ ایم ڈبلیو ایم جی بی نے کہا کہ فوج اور عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ انڈیا سے مراسم رکھنے والی طاقتوں اور مودی کے تجارتی شراکت داروں کو عبرتناک سزا دیں۔ اسی طرح ہم سکیورٹی اداروں سے بھی جی بی میں مطالبہ کرتے ہیں کہ ایکشن پلان کی حرمت کو پائمال نہ ہونے دیں اور اسے کلعدم جماعتوں سے رابطہ رکھنے، انکے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والوں کے استعمال نہ ہونے دیں۔