وحدت نیوز(کراچی) امام حسین ؑ کی قربانی آج بھی ہمارے لئے تر و تازہ ہے، ہر سال ماہ محرم میں عزادار ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ امام ؑ کا غم مناتے ہیں، کیونکہ یہ امام حسینؑ کا مقدس خون ہے جو لوگوں میں ایک حرارت پیدا کرتا ہے، چودہ سو سال سے یہ ہی امام ؑ کا پاکیزہ خون انسانیت کو نجات دلاتا آیا ہے، ہر دور میں جب بھی کسی ظالم و جابر انسان نے مقدسات دین کو پامال کرنے یا معصوموں پر ظلم برپا کرنے کے لئے سر اُٹھانے کی کوشش کی تو حسینت نے اُس کا سر دبا دیا، یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے ظالم نے عزاداری سید الشہدءؑ پر پابندی لگانے کی کوشش کی مگر وہ کبھی اپنے اس مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکا، کیونکہ عزاداری امام حسین ؑ ہمشہ اسلام کی بقاء اور دشمن اسلام کے خلاف بغاوت کرنے کے ساتھ موت سے لڑنے اور حریت کا درس دیتی ہے، کربلا ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ آئین زندگی ہے، انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے اور غلامی سے دور بھاگتا ہے، امام حسین ؑ نے کربلا میں اپنا اور اپنے انصار و اقرباء کا سر کٹوا کر انسان کو آزادی دلائی اور ساتھ ہی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا راستہ بھی واضع کردیا۔
ان خیالات کا اظہار آئی ایس او جامعہ اردو یونٹ کی جانب سے منعقدہ سالانہ یوم حسین ؑ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ مقررین میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ احمد اقبال رضوی، حجتہ الاسلام علامہ غلام عباس رئیسی، علامہ مرزا یوسف حسین، مولانا عقیل انجم اور وائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ظفر اقبال شامل تھے۔
یوم حسین ؑ سے خطاب کرتے ہوئے علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ امام حسین نے ظلم کے نظام کیخلاف قیام کرکے ہر دور کے یزیدوں سے اظہار برات کیا، ہم اگر اپنے آپ کو امام حسین کا پیروکار کہتے ہیں تو ہمیں ظالموں کے خلاف میدان عمل میں آنا ہوگا، عالم اسلام کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے، امام خمینی نے ہمارے لئے راستہ فراہم کردیا ہے، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ کربلا کے حقیقی پیغام پر عمل کرنے کیلئے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی ہر آواز پر لبیک کہیں اور دشمن کو یہ پیغام دیں کہ ہم اس دور کے مسلم بن عقیل کے ساتھ ہر وقت کھڑے ہیں۔
وحدت نیوز(رحیم یار خان) پنجاب حکومت کی جانب سے محرم الحرام کے دوران عزادارن کے خلاف کاروئیاں مزید تیز، مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی کے ملتان، مظفرگڑھ، لیہ، بھکر اور خانیوال کے بعد رحیم یارخان میں بھی زبان بندی کے آرڈر جاری، ذرائع کے مطابق علامہ اقتدار حسین نقوی اس سال رحیم یارخان، لیاقت اور خانپور میں محرم الحرام عشرہ کی مجالس عزاء سے خطاب کر رہے تھے، گزشتہ روز خانپور میں ایک علم حضرت عباس علیہ السلام کو ہٹانے کے لیے انتظامیہ نے متعلقہ افراد پر دبائو ڈالا جس پر مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل نے مداخلت کر کے علم حضرت عباس کو ہٹانے نہ دیا جس پر انتظامیہ نے 6 محرم الحرام کو زبان بندی کے آرڈر جاری کر دیے، حالانکہ زبان بندی یا داخلہ بندی کے احکامات محرم سے قبل جاری کیے جاتے ہیں لیکن رحیم یارخان کی متعصب انتظامیہ اپنا کردار ادا کر رہی ہے، اس واقعہ کے بعد علاقہ میں کشیدگی اور تنائو کا ماحول ہے، گزشتہ رات زبان بندی کے باوجود علامہ اقتدار حسین نقوی نے مجلس عزاء سے خطاب کیا جس پر انتطامیہ نے مقدمہ درج کرنے کی دھمکی بھی دی، اس سے قبل ملتان میں تقریبا 30 افراد پر بے بنیاد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جس سے پنجاب حکومت کا متعصبانہ چہرہ نمایاں ہے۔
وحدت نیوز (کراچی) سیکریٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین سندھ سید علی حسین نقوی كے نے رہنماء اے پی ایس اے سی صغير عابد رضوی صاحب اور پاسبان عزاء کے راشد رضوی کے ہمراہ انچولی سوسائٹی فیڈرل بی ایریا کراچی بلاک 20 کا محلہ کمیٹی و عزاداران سید الشہداء کے مسائل اور انکے حل کے لیے کئے جانے اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے دورہ کیا، محلہ کمیٹی نے تمام درپیش مسائل سے آگاہ کیا جسمیں سرفہرست سیکورٹی اور بلدیاتی امور تھے۔ محلہ کمیٹی کے ساتھ سیکورٹی معاملات پر ہم آہنگی کے لیئے سندھ رینجرز ڈسٹرکٹ سنٹرل کے افسران سے گزارش کی گئی جسپر متعلقہ ایریا کے کمانڈنگ آفیسر اپنے افسران کے ساتھ تشریف لائے اور درپیش تمام مسائل کو سنا اور محلہ کمیٹی و دیگر افسران کے ہمراہ تمام انٹری ایگزٹ گیٹس کا دورہ کیا اور موقع پر ہی تمام مسائل حل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے محلہ کمیٹی کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ بعد ازاں بلدیاتی و انتظامی مسائل کے حل کیلئے ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ سینٹرل سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے فوری طور پر اسٹنٹ کمشنر کے ہمراہ سینی ٹیشن کے افسران بلدیاتی امور سے متعلقہ افسران کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے افسران کو موقع پر بھیجا جن کے ساتھ تمام مسائل زیربحث لائے گئے. اسٹنٹ کمشنر نے موقع پر کام شروع کروایا اور مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی. سید علی حسین نقوی اور صغیر عابد رضوی نے تمام اداروں کے افسران کا فوری طور پر ریسپانس دینے اور کام شروع کروانے پر ملت کی جانب سے انکا شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اس فانی زندگی کو راہ خدا میں قربان کر دیتے ہیں اور اس کےعوض ابدی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔خدا کی خوشنودی کی خاطر ہر وقت ہر لمحہ ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اورباطل قوتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے خدا کی معرفت اوراحکام خداوندی کی ترویج کرتے ہیں۔ کربلا بھی معرفت خداوندی رکھنے والوں اورراہ حق کے متلاشیوں کی امتحان گاہ تھا۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ۔یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام ،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام ، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔یہ وہ کردار کے نمونے ہیں جنھوں نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو اس عظیم درسگاہ سے فیضیاب کرایا ۔معصوم بچوں سے لے کر کڑیل جوانوں تک ، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جو ہمیشہ کے لئے تاریخ کا روشن باب بن گئے۔
کربلا کے میدان میں ایک جوان ایسا بھی تھا جو سیرت و صورت اورگفتار و کردار میں شبیہ پیغمبر تھے۔دیکھنے والا دنگ رہ جاتا تھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں۔انہوں نے اس کائنات میں ایسی قربانی پیش کی کہ تمام دنیا دھنگ رہ گئی۔آپ ایسے باپ کے فرزند تھے جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناز تھا ،جس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری بن گئے۔اس عظیم باپ کا فرزند تھا جس نے دنیا والوں کو جینا سکھایا اورباطل قوتوں کے سامنے قیام کر نا سکھایا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ فرزند تھے ایک فرزند جدا ہو گیا ۔علم نبوت سے معلوم تھا کہ یوسف زندہ ہے لیکن فراق پسر میںاس قدر گریہ کیا کہ آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی۔صبر ایوب اس وقت ختم ہوا جب عزت نفس کا معاملہ پیش آیا لیکن قلب حسین علیہ السلام پر قربان کہ اکبر جیسے کڑیل جوان فرزند کو جو شبیہ رسول،رشک یوسف اور فخر جناب اسماعیل تھےشہید ہوتے اپنے آنکھوں سے دیکھا۔حضرت علی اکبر علیہ السلام کی صورت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ایسا فرزند عطا کیا جو سیرت اورصورت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔آپ کی والدہ حضرت لیلی عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔1۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام کے بارے میں ابو الفرج نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن امیر معاویہ اپنی خلافت کے دور میں سوال کیا کہ خلافت کے لئےلائق سب سے زیادہ کون شخص ہے؟ خوشامدی درباری کہنے لگے ہم تو تیرے علاوہ کسی کو خلافت کے لئے لائق نہیں سمجھتے۔ معاویہ کہنے لگا ایسا نہیں بلکہ سب سے زیادہ خلافت کے لئے لائق علی ابن الحسین یعنی علی اکبر ہے۔ جن کا نانا رسول خدا ہے جو شجاعت بنی ہاشم،سخاوت بنی امیہ اور دیگر خوبیوں کا حامل ہے۔2۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی ہر وقت اپنے والد گرامی کے ساتھ دین اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کرتے رہے۔آپ بھی دیگر جوانان بنی ہاشم کی طرح عازم کربلا ہوئے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مختلف مواقع پر قریب الوقوع موت کے حوالہ سے اپنے اصحاب سے گفتگو کی تب کڑیل جوان نے اپنے بابا سے سوال کیا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ؟ باپ نے جوان بیتے کے سوال پر فرمایا: بیٹے ہم حق پر ہیں تب اس جوان نے کہا بابا: اگر ہم حق پر ہیں تو ہمیں کیا پرواہ کہ موت ہم پر آ پرے یا ہم موت پر جا پڑیں۔جناب علی اکبر علیہ السلام شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہونے کے لئے بے قرار تھے۔
روز عاشور جوانان بنی ہاشم کی طرح جناب علی اکبر علیہ السلام نے بھی میدان جنگ میں جانے کے لئے اپنے بابا سے اجازت طلب کی۔پھوپھی زینب کی اجازت پر امام حسین علیہ السلام نے بھی اجازت دی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام جب میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے تو مہربان باپ نے ایک مایوسانہ نگاہ اس جوان پر کی اورروتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کیا:{ اللہم اشہد علی هہولاءِ القوم، فقد برز علیہم غلام، اَشبہُ الناس خَلقاً و خُلقاً و منطقاً برسول الله۔۔ }3۔
اے میرے پروردگار ؛ اس قوم پر گواہ رہنا کہ ان کی طرف مبارزہ اورجنگ کے لئے ایسے جوان کو بہیج رہا ہوں جو خلق و گفتار و کردار میں تیرے نبی سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے۔جب ہم تیرے نبی کی زیارت کا مشتاق ہوتے تو اس جوان کے چہرے پر نظر کرتے۔{ اللہم فامنعہم برکات الارض و فرقہم تفریقاً و مزقہم و اجعلہم طرایق قدداً و لا ترض الولاہ عنہم أبداً، فانہم دعونا لینصرونا ثم عدوا علینا یقاتلونا}خدایا ان سے زمین کی برکتیں روک لے اور انہیں متفرق و پراگندہ کر دے۔۔۔۔۔ادھر جناب جناب علی اکبر علیہ السلام کربلا کے میدان میں خورشید تابان کی طرح افق میدان پر طلوع ہوئے اور کچھ عرصہ میدان کو اپنے نور کی شعاع سے جو جمال پیغمبر کی خبر دیتا تھا منور کیا۔دیکھنے والے ان کے جمال سے فریفتہ ہو گئے اور ہر نظر ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے میدان کربلا میں فوجی یزیدی کے سامنے یہ رجز پڑھا:
أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن بیت الله آولی با لنبیّ
أضربکَم با لسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هہاشمیّ عَلَویّ
وَ لا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَا للہِ لا یَحکُمُ فینا ابنُ الدّعی4۔
میں علی ابن الحسین ہوں۔کعبہ کی قسم ہم نبی سے زیادت قربت رکھتے ہیں ۔میں تمہیں تلوار سے ماروں گا یہاں تک کہ وہ ٹیڑھی ہو جائے۔ جناب علی اکبر علیہ السلام دشمنوں پر حملے پر حملہ کرتے رہے اوربدبختوں کو جہنم واصل کرتے رہے۔جس طرف رخ کرتے لاشوں کے انبار لگ جاتے۔بڑی بہادری کے ساتھ لڑے مگر سورج کی گرمی،پیاس کی شدت اورزخموں کی کثرت نے آپ کو تھکا دیا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام میدان سے واپس بابا کی خدمت میں آئے اورعرض کیا: بابا پیاس کی شدت ہے اگر ممکن ہو تو ایک گھونٹ پانی پلا دیجئے۔بیٹے کی آخری تمنا باپ پوری نہ کر سکا۔حضرت اما م حسین علیہ السلام نے اشک بھری آنکھوں کے ساتھ فرمایا: بیٹا تھوڑی دیر جنگ کرو بہت جلد نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے کوثر کی پانی سے سیراب کر دیں گے۔
ایک روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے اپنی زبان مبارک جناب علی اکبر علیہ السلام کے دہان مبارک میں رکھ دئیے لیکن کس طرح پیاس بجھ جاتی کیونکہ امام حسین علیہ السلام خود تین دن کے پیاسے تھے۔بیٹے نے کہا: بابا آپ تو مجھ سے زیادہ پیاسے ہیں ۔ جناب علی اکبر علیہ السلام ایک دفعہ پھر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔یزیدی فوج کو علی مرتضی کی یاد تازہ کرائی لیکن دشمن جو تعداد میں بہت زیادہ تھے چاروں طرف سے آپ پر حملہ ور
ہوئے۔یوں میدان کربلا میں آفتاب کربلا غروب ہو گیا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی روح پرواز کر گئے اورآپ حوض کوثر پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کوثر کے پانی سے سیراب ہوگئے۔ آپ کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ولدی عَلَی الدّنیا بعدک العفا۔ 5۔بیٹا تیرے بعد دنیا اوردنیا کی زندگی پر خاک ہو۔ عاشورا کے دن بنی ہاشم کے جوانوں میں سے سب سے پہلے جناب علی اکبر علیہ السلام شہید ہوئے اور زیارت شہدائے معروفہ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے ۔ السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیل مِن نَسل خَیْر سلیل۔6۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنی پاک جوانی دین مقدس اسلام کی سر بلندی پر قربان کر دی اورقیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر اسلام کے لئے جوانوں کی ضرورت ہو تو جوان اپنی جوانی کو قربان کر نے سے دریغ نہ کرے۔یوں کربلا کے میدان سے جوانی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اگرچہ جوان باقی رہ گئے۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے صبح عاشور اذان دے کر قیامت تک ایک آفاقی پیغام فضاوں اور ہوا کے حوالہ کر دیا جو آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اذان علی اکبر کی یاد تازہ کر ا رہا ہے اورحق شناس انسانوں کو باطل قوتوں کے مقابلہ میں اٹھنے اورقیام کرنے کا پیغام دے رہاہے۔
حوالہ جات:
1۔أعلام النّساء المؤمنات محمد حسون و امّ علی مشکور، ص 126؛ مقاتل الطالبین ابوالفرج اصفہانی، ص 52۔
2۔مقاتل الطالبین، ص 52؛ منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی، ج 1، ص 373 و ص 464۔
3۔ مقتل الحسین خوارزمی. ج2. ص30۔
4۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375؛ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459.
5۔منتہی الآمال، ج 1، ص 375.
6۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) تمام مسلمان بلاتفریقِ مسلک کربلا کے وارث ہیں، کربلا تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، لہذا پیغامِ کربلا کی حفاظت کرنا اور اسے نسل در نسل منتقل کرنا نیز کربلا والوں کی یاد کو انحرافات و خرافات سے پاک رکھنا بھی تمام مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجود اہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی، جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ناصبی اپنے اوپر اسلام کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔
ایک سروے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جو لوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے، ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلا کو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں کو امام حسین (ع) کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے۔ گویا جو زہر رشدی کے قلم نے رسولِ اکرمﷺ کے خلاف اگلا تھا، وہی نواسہ رسولﷺ کے خلاف اگلا جانے لگا۔ پوری دنیا میں خصوصاً عراق، افغانستان، سعودی عرب، ہندوستان اور پاکستان میں ایسے تجزیہ نگار، مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی، انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کرکے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین (ع) پر تنقید کی جانے لگی، اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی، وہ مجموعی طور پر اس بات سے غافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھا رہے ہیں۔
آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین (ع) پر تنقید کرتا ہے، کوئی چینل یزید کی تعریف کرتا ہے، کوئی صحافی دہشت گردوں کو امام حسین (ع) کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین (ع) تو پہنچا ہے، پیغامِ حسین (ع) نہیں پہنچا۔ اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ حقیقی معنوں میں پیغام کربلا کو عام کریں۔ تحریک ِکربلا پر لکھیں، کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں، تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں، اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصد کربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔ آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہو جانے کا اہم سبب وہ دانشمند، خطباء اور ادباء ہیں، جنہیں حسین ابن علی (ع) کی چوکھٹ سے علم کا رزق، افکار کا نور، قلم کی بلاغت، زبان کی فصاحت اور بیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلا کو عوام تک نہیں پہنچاتے، اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں، لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔
اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب، جمال و جلال، عشق و عرفان اور خون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تو دنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہر منصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہو جاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں، جس نے دین ِ اسلام کو لازوال کر دیا، جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کر دیا، جس نے سنّت کو زندہ کر دیا، جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کر دیا، جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا، جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا، جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنا دیا، جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطا کیا، جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا، جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کر دیا، جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کر دیا، جس کے علم کا پھریرا آفاقِ عالم پر چھایا ہوا ہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔۔
کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہو تو شہکارِ رسالت ہے، اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے، اگر آغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے امیر نے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جما دیا، جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کر دیا، جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلا دیا۔ بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔! یہ ہمارے واعظین، خطباء، ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کر کربلا پر تحقیق کریں، کربلا لکھیں، کربلا پڑھیں، کربلا خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے:
ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا
رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک بار بار ڈوب جاتی ہے
جو اِک آنکھ دنیا پر اور اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں
شہادت کی گھڑی ان کی زباں سوکھ جاتی ہے
جھوٹ کے چشمے سے سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا
مرمر کا پتھر پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا
راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا
جو مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑ جائے
وہ ہاتھ سلام یاحسین (ع) نہیں لکھ سکتا
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ سیکرٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی نے کہا کہ کربلا ایک دن کی جنگ کا نام نہیں بلکہ یہ انبیاء کی تحریک کا تسلسل ہے۔کربلاحق و باطل کے معرکہ کا نام ہے۔کربلا دین کی سربلندی کے لیے پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا درس دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسفہ کربلا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کربلاہم سے عصر حاضر کی یزیدیت کے خلاف ڈٹ جانے کا تقاضہ کرتی ہے۔امام عالی مقام نے یزید کی بیعت سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔امام حسین علیہ السلام کا یہ جملہ کربلا کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے اور ہر دور کے لیے اپنے اندر کربلا کا مکمل مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔یزیدی فکر ہر دور میں سر اٹھاتی رہی اور حسینی یزیدیت کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ علما کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ اپنے مومنین کو حالات حاضرہ سے آگاہ رکھیں۔ مجالس عزا میں غم حسین علیہ السلام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں کی اسلام دشمنی کو بھی آشکار کرنا چاہیے ۔غدیر و کربلامحض واقعات نہیں بلکہ اپنے اندر وسیع مفہوم اور فلسفہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ مقصد کربلا کو سمجھ کر عزاداری کرنا خاندان رسالت کی معرفت عطا کرتا ہے۔دنیا و آخرت کی کامیابی کا سفر معرفت کے زینوں سے گزر کر طے ہوتا ہے جو اہلبیت اطہار علیہم السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔انہوں نے کہا مجالس و جلوس خود سازی کا بہترین ذریعہ ہے۔ محرم کے مہینے میں سب کو تجدید عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنی زندگیوں کو آئمہ اطہار علیہم السلام کے مطابق بسر کریں گے۔