وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہاہے کہ 34 رکنی مسلم ممالک کے اتحاد میں شمولیت کا مسئلہ پارلیمینٹ میں لایا جائے۔اہم قومی امور پر پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔ ملک کی اکثر جماعتیں حکومت کے اس فیصلے سے متفق نہیں اور اسے نواز شریف کے آل سعود سے خاندانی تعلقات کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں قومی نوعیت کے انتہائی اہم فیصلے میں پارلیمنٹ کو نظر انداز کرناشکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دن رات جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپنے والے ، اہمیت کے حامل قومی مسائل کو پارلیمینٹ میں لانے سے کیوں خائف ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ آل سعود کی غیر شرعی اور غیر جمہوری ،آمریت سے حجاز مقدس کے عوام بیزارہیں ،لہذا حرمین شریفین کے مقدس نام پر آل سعود کی بادشاہت کا تحفظ کرنے والے اسلامی تعلیمات سے انحراف کر رہے ہیں۔ شیخ باقرالنمر کو امر بالمعروٖ ف کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاک، چین اقتصادی راہ داری منصوبہ ملک کی قسمت بدلے گا، ملکی تقدیر سے وابستہ مسائل کو شفاف رکھا جائے اور ان منصوبوں میں وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس منصوبے پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے انہیں سنجیدہ لیا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ راہداری منصوبے کے روٹ پر انرجی زون،صنعتی زون، بجلی،گیس، فائر آپٹک ،ایل این جی،اقتصادی زون ،ریلوے لائن بھی تعمیر کی جائے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) شیخ باقر النمر ایک عظیم شخصیت کے مالک اور امام حسین ؑ کے سچے عاشق و پیرو کار تھے،آپ نے اپنے مولا ؑ کی طرح شہادت کو تو گلے لگا لیا مگر آل سعود کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا ، آپ کی پوری زندگی اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ اور الہی و قرآنی نظام کے نفاذ اور اتحاد بین المسلمین کے لئے وقف کیئے رکھی،ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے زیر اہتمام مرکزی امام بارگاہ پیر سید علم حسین شاہ بخاری میں مجلس ترحیم و تکریم شہید آیت اللہ باقر النمر سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ آپ حجاز مقدس میں عادلانہ نظام حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے تھے، کیوں کہ اسلام میں ایک خاندان کی حکومت یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔وقت کے یزیدوں ، ابن زیادوں ، شمروں اور طاغوت کے ایجنٹوں نے بھرپور کوشش کی کسی طرح یہ سر جھک جائے، کسی طرح یہ سر بک جائے مگر شیخ باقر النمر نے اپنا سر کٹوا تو دیا لیکن ظالم نظام کے سامنے خود کو جھکایا نہیں ہے اور اپنے خون کی بوند بوند سے یہ پیغام دیا ہے کہ حسینیوں کے سر کٹ تو سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے جو سر اللہ کے سوا کسی کے آگے جھکتا ہے وہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور جو کٹ جاتا ہے وہ ہمیشہ سرفراز و سر بلند ہوتا ہے۔آج پوری دنیا کے لوگ شیخ باقر نمر کی یاد منا رہے ہیں اور یہ اس بات کی غماز ہے کہ آل سعود کی حکومت نے ایک نمر کا سر کاٹ کر اس کی آواز کو خاموش کرنا چاہا لیکن یہ خوف نا حق کوچہ و بازار تک آگیا ہے ، اور اپنی مظلومیت کے ساتھ بیداری اور خود حجاز مقدس میں عرب بہار تحریک کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ شیخ باقر النمر کا سر کاٹ کر آل سعود نے اپنی شکست کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے اعلان کردیا شیخ جیت گئے ہم ہار گئے، کیوں کہ یہ سر کٹ تو گیا مگر جھکا نہیں ہے ،انہوں نے مثل میثم موت تو قبول کی مگر ذکر مظلوم کو نہ چھوڑا ، ذکر مظلوم ان کا شیوہ، مظلوم کی خدمت ان کا شعار، مظلوم کی خدمت ان کا نعرہ، مظلوم کے حقوق ان کی منزل ، شیخ سرفراز ہوگئے، ایک اور کربلا بپا ہوگئی، مؤمنین کے دلوں کو گرما گئی، علامہ تصور جوادی نے کہ شیخ باقر النمر کا قصور یہ تھا کہ وہ آل سعود کی طرف سے پیغبر اسلامؐکے اصحابؓ ، ازواجؓ اور اہلبیتؑ کی قبور کی مسمارگی و بے حرمتی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مطالبہ کرتے تھے کہ جنت المعلیٰ اور جنت البقیع کی از سر نو تعمیر اور حجاز مقدس میں موجود فرقہ ورانہ تعلیمی نظام خے بجائے تمام مکاتیب فکر سے ہم آہنگ نظام تعلیم کے قیام اور تمام فرقوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تقاضہ کرتے تھے۔

انہوں نے کہا شیخ باقر النمر نے آل سعود کی وفاداری کے بجائے اللہ سے وفاداری کو ترجیح دی ، وہ مظلوموں و محکوموں کی بات کرتے تھے، وہ حجاز مقدس میں آل سعود کے ظلم پر آواز بلند کرتے تھے، جمہوریت کی بات کرتے تھے، انسانی حقوق کی بنیاد پر ان کا مقدمہ شفاف ٹرائل سے نہیں گزارا گیا ، بلکہ ایک درباری عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی ، آل سعود اپنی خاندانی بادشاہت کے خلاف بغاوت برداشت نہیں کرتے ، اس لیئے شیخ کو سزائے موت دی کہ کہیں ان کے ہوتے ہوئے ہماری بادشاہت نہ چلی جائے۔ مجلس عزا سے ممبر علماء و مشائخ کونسل آزاد کشمیر ، چئیرمین النور ویلفیئر ٹرسٹ آزاد کشمیر علامہ سید فرید عباس نقوی، صدر مرکزی انجمن جعفریہ میجر (ر) سید بشیر حسین کاظمی ، سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ، سید بشیر حسین نقوی اور مولانا سید حافظ محبت حسین کاظمی نے بھی خطاب کیا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکومت پاکستان سے وہ نامناسب مطالبات منوانے کے لئے دباو ڈال رہی ہے، جو قومی وقار کے منافی اور وطن عزیز کے مفادات کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔ سعودی ہٹ دھرمی پاکستان کو شدید خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ سفارتی تعلقات کو سفارتی انداز میں طے کیا جانا چاہیے، پاکستان سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی کالونی نہیں ہے بلکہ ایک آزاد ریاست ہے۔ سعودی عرب سے کوئی بھی معاملہ طے کرنے سے قبل پارلیمنٹ اور ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قوم نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی، جس سے ہمارے دیگر مسلم برادر ممالک سے تعلقات متاثر ہوتے ہوں۔ سعودی عرب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو اتحاد تشکیل دینے کی کوشش میں مگن ہے، اس کے اغراض و مقاصد انتہائی خطرناک ہے۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ سعودیہ کی یہ کوشش امریکہ کی خواہشات کا عملی اظہار ہے۔ عالم اسلام کو امت مسلمہ کے خلاف ہونے والی اس سازش سے آگاہ ہو جانا چاہیئے۔ پاکستان کسی بھی ایسے اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کرے جو عالم اسلام کی بجائے دشمنوں کے لئے نفع بخش ہو۔ وطن عزیز اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں بہت سارے داخلی و خارجی محاذوں کا سامنا ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سارے دیگر مسلم ممالک کی سالمیت و استحکام کے خلاف دہشت گرد قوتوں کو متحرک کر رکھا ہے، تاکہ مسلم ممالک داخلی طور پر کمزور ہوں۔ اب وہی استکباری طاقتیں امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ہمیں آپس میں دست و گریباں دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے اس ایجنڈے کو دانشمندانہ اور بابصیرت فیصلوں سے شکست دینا ہوگی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب 1980ء كی دہائی ميں روسی اتحادی حكومت كمزور ہوچکی تهی، امريكہ دنيا كا فاتح بن رہا تها اور مشرقی روسی بلاک كو مغربی بلاک نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور كر ديا، مغربی بلاک كی سربراہی امريكہ كر رہا تها، اس بلاک ميں مغربی ممالک اور اس خطے كے امريكی اتحادی شامل تهے۔ آخركار مشرقی سوويت يونين 1991ء ميں ٹوٹی اور اسی سال امريكہ نے اسكا اعلان "نيو ورلڈ آڈر" كی شكل ميں كيا کہ اب اس دنيا كے سياه و سفيد كا مالک امريكا ہوگا۔ مشرق وسطٰى خدا كی نعمتوں سے مالا مال ہے، يہیں سے انسانيت كی تاريخ نے جنم ليا ہے، اديان سماوی كا منبع اور مركز بهی يہی ہے، يہیں سے انسانی تہذیبوں نے جنم ليا اور جو اس خطے پر قابض ہو جاتا ہے، اسكی ساری دنيا پر حكومت ہوتی ہے۔ اس خطے كی اكثريتی آبادى مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اسی لئے مغربی استعماری قوتوں نے ملكر بہت عرصہ پہلے جہان اسلام كے خلاف ايک منحوس سازش كے تحت غاصب صہيونی حكومت كی ارض مقدس فلسطين پر بنياد ركهی۔ رفتہ رفتہ امريكی و مغربی امداد اور حمايت سے صہيونی حكومت ايک بڑی طاقت كے طور پر ابهری، فقط فلسطين پر ہی نہیں بلكہ فلسطين كے ہمسايہ ممالک مصر و شام اور اردن و لبنان كی زمينوں پر بهی قبضہ كر ليا۔

ان مسلم و عرب ممالک نے متحد ہو كر اس صہيونی حكومت (اسرائيل) كے خلاف پچاس، ساٹھ اور ستر كی دہائيوں ميں جنگیں بهی كيں اور انہيں باقی عرب و مسلم ممالک كی حمايت بهی حاصل تهی، ليكن چونكہ عالم غرب دشمن كی حمايت كر رہا تها، لہذا انہيں شكست فاش كا سامنا كرنا پڑا اور ذلت و رسوائی كی نوبت يہاں تک پہنچی كہ مصر و اردن نے تو زمين كے عوض غاصب صہيونی وجود كو تسليم كرتے ہوئے سفارتی تعلقات بهی بنا لئے، ليكن شام و لبنان نے مقاومت كا راستہ اختيار كيا۔ مسلم و عرب عوام اور حكمران تو يہ بات كہنے لگے كہ اسرائيل ايک ناقابل شكست طاقت ہے۔ كيونكہ خطے كے اكثر حكمران امريكى غلام تهے، اس لئے دشمن كے ايجنڈے پر كام كر رہے تهے۔ وه خود تو جذبہ حب الوطنی اور عزت و غيرت، شرف و شجاعت اور صداقت و شراف و فاداری جيسی اسلامی و انسانی اقدار كے امين نہیں تهے بلكہ انہوں نے ايسے اقدار وجذبات كو كچلنے ميں بهی كوئی كسر نہیں چھوڑی۔

1980ء كے عشره كی ابتداء ميں اسرائيل فلسطينی مجاہدين كے تعاقب كے بہانے پورے ملک لبنان پر قابض ہوگیا، بزدلی كی يہ حالت تهی كہ بيروت اور ديگر شہروں ميں اس وقت لبنانی شكست خوردہ و ذليل عوام و اكابرین نے اسرائيلی فوجيوں اور ٹینکوں كی راه ميں پهول اور چاول نچهاور كئے۔ ايسے نازک ترين دور ميں علماء جبل عامل و بقاع كے تربيت يافتہ اور مدرسہ كربلا سے عشق ركهنے والى مختصر سی جماعت حزب الله لبنان كی شكل ميں ميدان ميں اترى، جنكا اعتماد فقط اور فقط اللہ تبارک و تعالٰى كی ذات پر تها۔ انہوں نے كسی مادی خواہش يا دنياوی منصب كے لئے نہیں بلكہ مادر وطن كو صہيونی نجس پنجوں سے آزاد كرانے اور دين مبين اسلام كے اقدار كی احياء كے جذبہ كے تحت قيام كيا، تعليمات قرآن و اہل البيت عليهم السلام كی راہنمائی اور جذبہ جہاد و شهادت سے مسلح ہو كر انہوں نے بزدل صہيونی فوج كی حقيقت دنيا كو دكها دی۔

وه اسرائيلی فوج جسے سب عرب و مسلم ممالک ملكر شكست نہ دے سكے، بلكہ اسے "قوة لا تقهر" ناقابل شكست طاقت تسليم كرچكے تهے، حزب الله لبنان كے سرفروش مجاہدين نے اسے دو بار شكست دی۔ ايک بار مئی 2000ء میں، جب اسرائيل كو لبنان سے بهاگنے پر مجبور كيا، دشمن ذليل و رسواء ہو كر جنوبی لبنان سے نكلا۔ دوسری بار جب اسرائيليوں نے جولائی 2006ء ميں لبنان پر جنگ مسلط كی، انہوں نے اعلان كيا كہ وه حزب الله كی پہلی اور دوسرے درجے كی قيادت كو قتل كريں گے اور مقاومت كی عسكری طاقت تباه كر ديں گے، جنوبی لبنان كی نہر الليطانی تک كے علاقے پر قبضہ كركے وہاں پر اپنے لئے بفرزون بنائيں گے اور اسرائيلی فوجيوں كو آزاد كرائيں گے۔ ليكن 33 روزه گھمسان کی جنگ ہوئی، يہ عرب اسرائيل ايسی جنگ تهی، جس ميں خليجی اور عرب ممالک اسرائيل كا ساتهـ دے رہے تهے، حتٰى کہ لبنان كے وزيراعظم فؤاد سنيورا اور اسکی سعد الحريری پارٹی كی بهی دلی تمنا تهی كہ حزب الله كو مكمل طور پر كچل ديا جائے، انكی حكومت كے وزير احمد فتفت تو جنوب ميں اسرائيلی حملہ آور فوجيوں كو اپنے ہاتھ سے چائے پلاتے نظر آئے۔ حزب الله نے اس جنگ ميں تنہا اسرائيل كو نہیں بلكہ اس كے ماوراء سب قوتوں كو ذلت آميز شكست سے دوچار كيا۔

كيا حزب الله دہشتگرد جماعت ہے يا محب وطن؟
دہشتگرد جماعتيں عموماً عسكری طاقت سے اپنے وطن اور ہم وطنوں كو اپنی دہشتگردی كا نشانہ بناتی ہیں اور پورے ملک يا ملک كے بعض حصوں پر خلاف قانون قبضہ كركے حكومت كی رٹ كو چيلنج كرتی ہیں، ليكن اگر حزب الله كو تعصب كی عينک اتار كر ديكهيں تو ديكهيں گے كہ حزب الله كی جذبہ حب الوطنی اور ايثار كا يہ مقام ہے كہ مسلسل 18 سال غاصب اسرائيل كے خلاف جنگ لڑی اور وطن عزيز كی آزادی كے لئے ہزاروں شہداء كے علاوه ديگر بهی ہر قسم كی قربانياں ديں، ليكن جب مادر وطن كو آزاد كراليا تو اسكے مستقبل كا فيصلہ تمام ہم وطن سياسی قوتوں كے اختيار ميں ديديا۔ خود اپنی حكومت يا خلافت يا ولايت قائم نہیں كی۔ حتٰى كہ وطن کے وه خائن اور مجرم افراد اور گروه جو اسرائيل كيساتھ ملكر حزب الله كے خلاف جنگ كرتے رہے، انكے ساتھ بهی حزب الله كا رويہ وہی تها، جو سركار خاتمی مرتبت حضرت محمد مصطفٰى صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ كے بعد اختيار كيا تها اور مسلسل جنگیں كرنے والے كفار سے فرمايا تها  "جاؤ ہم نے تمہیں آزاد كر ديا۔"

اسى سيرت مصطفٰى (ص) پر عمل كرتے ہوئے 25 مئی 2000ء كو جب اسرائيل ان خائنوں كو چهوڑ كر بهاگ نكلا تو حزب الله كے قائد فرزند رسول علامہ مجاہد سيد حسن نصرالله نے بهی اپنے جد والے اعلان كو ہی دہرايا تها۔ ہاں حزب الله اسرائيل اور امريكہ كی نگاه ميں ايک دہشت گرد جماعت ہے، كيونکہ اس كی دہشت اور خوف سے اسرائيل، امريكہ، انكے فلک ميں گھومنے والے افراد اور حكمرانوں كی نينديں حرام ہوچكی ہیں۔ حزب الله لبنان كی ايک مضبوط سياسی پارٹی ہے، جو لبنانی قوانين كے مطابق اليكشن ميں شركت كرتی ہے، اس كا پارليمنٹ كے اندر مضبوط دھڑا ہے اور انكی پارٹی كے کئی ايک وزير بهی لبنان حكومت ميں موجود ہیں۔ حزب الله فقظ وطن كيلئے دفاعی جنگ پر ايمان ركهتی ہے اور اس نے ملک كے داخلى سياسی اختلافات ميں كبهی بهی عسكری قوت كو استعمال نہیں كيا۔

حزب الله شام حكومت كی حمايت ميں شامی عوام اور حكومت كے مابين داخلى جنگ ميں كيوں وارد ہوئی؟
شام ميں جو خانہ جنگی 2011ء ميں شروع ہوئی، تمام تر شواہد دلالت كر رہے ہیں کہ يہ جنگ شام حكومت اور شامی عوام كے مابين نہیں تهی۔ 80 سے زياده ممالک سے تكفيری جنگجو اور انكے علاوه وه كمانڈوز جن كو عراق کی ابو غريب نامی جيل، امريكہ کے بدنام زمانہ گوانتا نامو نامی ٹریننگ اور برين واشنگ سنٹر اور اسی طرح سعودی و خليجی حتى كہ ڈیره اسماعيل خان جيل سے بهاگنے والے دہشتگردوں كو بهی شام بهيجا گيا۔ شام حكومت کا قصور يہ تها:
1۔ اسرائيل سے سفارتی تعلقات قائم كرنے پر راضی نہیں تھی۔
2۔ لبنان و فلسطين كی آزادی كی تحريكوں، مقاومت و انتفاضہ كی پناہ گاه تھی، انكی ہر لحاظ سے مدد كرتی تھی اور عرب دنيا ميں قلعہ مقاومت كے نام سے معروف تھی۔
3۔ ايران كے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات تهے جنكو قطع كرنے پر راضی نہیں تھی۔
4۔ اس نے امريكی اور مغربی بلاک كا حصہ بننے سے انكار كر ديا تها۔
مقاومت كے ہراول دستہ حزب الله سے شكست كے بعد امريکہ و مغربی بلاک، اسرائيل اور خطے ميں انكے شركاء سعوديہ، قطر اور تركی كے ساتھ ملكر كر قلعہ مقاومت كو منہدم كرنے كا پروگرام بنايا گيا، تمام تكفيری مسلح گروہوں، انكا نام جبهة النصرة ہو يا داعش، فتح الاسلام ہو يا جيش الاسلام، جند الشام ہوں يا احرار الشام، انكی قدر مشترک يہ ہے كہ وہ كرائے كے قاتل ہیں، تكفيری عقيدہ ركهتے ہیں اور وحشت و بربريت ميں اپنی مثال آپ ہیں۔ انكا كام شام كی تباہی اور اسرائيل كا دفاع ہے۔ اسی لئے انكے زخميوں كا علاج اسرائيلی ہسپتالوں ميں ہوتا ہے۔ انہیں لاجسٹک خدمات اور اہم عسكری معلومات اسرائيل فراہم كرتا ہے۔

حزب الله كے شام ميں وارد ہونے كے اسباب مندرجہ ذيل ہیں:
1۔ قلعہ مقاومت شام كے خلاف حزب الله كے دشمنوں كی مسلط جنگ ميں ان کا ٹارگٹ فقط شام نہیں بلكہ حزب الله ہے، كيونكہ شامی حكومت گرنے كے بعد حزب الله كے سامنے اسرائيل اور پشت پر اسرائيلی ايجنٹ ہوتے، جو خونخواری و درندگی اور بغض و عناد ميں يہودیوں سے بهی بدتر ہیں، وه تکفیری 2011ء ميں شورش كے آغاز پر اعلان بهی كرچكے تھے "لا ايران ولا حزب الله" اب نہ ايران رہے گا اور نہ حزب الله۔ تو حزب الله نے وه جنگ جو اسے كل لبنان كے گلی كوچوں ميں تنہا لڑنا تھی، اب وہی جنگ اپنے شركاء كے ساتهـ ملكر كر لڑ رہی ہے، دوسری طرف حزب اللہ نے اپنی سرزمین كو ميدان جنگ بننے سے بهی بچا ليا۔
2۔ تكفيری وہابی گروہوں اور زہران علوش نے اپنے خطابات ميں ايک خطرناک اعلان كيا تها۔ جس ميں اس نے رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم كی نواسی اور حضرت امام على عليہ السلام كی شہزادی ثانی زهراء حضرت زينب عليها السلام سے مخاطب ہو كر تمام مسلمانوں كی غيرت كو للکارا تها اور كہا تها "سترحلين مع النظام" كہ ای زينب اس بشار الاسد كی حكومت كے بعد تم بهی نہیں رہو گی۔" ان دہشتگرد تکفیریوں نے ديواروں پر یہ چاكنگ بهی كروائی تھی۔ حزب الله كے مجاہدین اور انكے قائد كی غيرت و حميت كيسے برداشت كرتی كہ وه زنده ہوں اور خاندان رسول خدا كی بے حرمتی ہو، تو سيد مقاومت علامہ سيد حسن نصرالله نے اعلان كر ديا کہ "دوسری بار حضرت زينب كو قيدی ہرگز نہیں ہونے دينگے۔" جب ترک حكومت نے اپنے سابق بادشاه ظاهر شاه كہ جس كی قبر شام كی سرزمين ميں ہے، اسکی حفاظت كيلئے فوجی دستے بهيجے اور شام كی سرحدوں کی خلاف ورزی كی تو یہی جواز بنايا تها کہ انكی جد كی مزار كو داعش اور ديگر مسلح تكفيری گروہوں سے خطره ہے، اس لئے تركی فوجی دستے اسكی حفاظت كيلئے شام کی زمینی حدود میں وارد ہوئے ہیں، كيونكہ يہ كچھ عرصہ پہلے اصحاب رسول خدا حضرت خواجہ اويس قرنی، حضرت عمار بن ياسر اور حصرت حجر بن عدی اور حضرت ابی بن كعب كے مزارات كو مسمار كرچکے تهے۔ ان دنوں سيد حسن نصرالله نے حزب الله كی شام ميں مداخلت پر اعتراض كرنے والوں كو جواب ديا تها کہ اگر رجب طيب اردغان اپنے جد كی قبر بچانے كيلئے فوجی دستے بهيج سكتا ہے تو دختر رسول خدا اور شريکۃ الحسين كے روضہ اقدس كے دفاع كيلئے ہمیں بهی فوجی دستے بهيجنے كا اختيار ہے۔ حق تو يہ ہے كہ دنيا بهر كے مسلمان انكے رسول كی بيٹی كے حرم كا دفاع كرنے والون كا شكریہ ادا كريں۔

3۔ حزب الله وہاں كی أئينی و دستوری اور عوام كی منتخب حكومت كی مرضی اور اتفاق سے اس ملک ميں داخل ہوئی ہے اور پھر بھی اس بر شور مچايا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی بين الاقوامی قوانين كی خلاف ورزی كرتے ہوئے ہمسايہ غريب اسلامی ملک يمن كی اينٹ سے اينٹ بجا ديں تو يہ دوسرے ممالک ميں مداخلت نہیں ہوتی، اگر ملک شام و عراق اور ليبيا كی تباہی كے لئے مسلح دہشتگردوں كی ہر قسم كی مدد كريں اور فضائی حملے كريں تو يہ مداخلت نہیں ہوتی۔
4۔ حزب الله كا اصلی دشمن اسرائيل ہے، جس نے انكے ملک كے بعض حصوں پر ابهی بهی قبضہ كر ركها ہے۔ جب اسرائيل شام كی حدود ميں كهلم كهلا حملے كرے گا، دہشتگردوں كو سپورٹ كريگا اور مقاومت كو كمزور كرنے كى كوشش كرے گا تو حزب الله بهی اپنے قومی و ملی مفادات كبلئے ہر ميدان مين اترے گی۔
5۔ شامی حكومت نے 2006ء كی 33 روزه جنگ ميں حزب الله كی ہر لحاظ سے مدد كی تھی اور وہ لبنانی و فلسطينى  میں حزب الله اسے كبهى تنہا نہیں چھوڑ سكتی، يہ حزب الله كی نظرياتی تربيت اور اسلامی و اخلاقی اقدار كے خلاف ہے۔

تحرير۔۔۔علامہ ڈاكٹر شفقت حسین شيرازی

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تربیت علامہ احمد اقبال رضوی نے ایم ڈبلیوایم ضلع شرقی کے تحت چشتی نگر کراچی میں مجلس ترحیم بیاد آیت اللہ باقرالنمر اور شہید ضیاء الدین رضوی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید باقرالنمر اور ان کے رفقاء کا پاکیزہ لہو جلد رنگ لائے گا، ان پاکیزہ شہداء کے لہو کی تاسیر سے آل سعود کے مکروہ اقتدارکا خاتمہ حتمی ہے، سعودی حکومت نے شیخ نمر کو شہید کرکے اپنے تابوت میں خود آخری کیل ٹھوک دی ہے، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے بھی واضح ارشاد فرما دیا ہے کہ آل سعود کو انتقام الہٰی کا ہر صورت سامنا کرنا پڑے گا، انہوں نے کہا کہ آل سعود کی جارح حکومت الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیااور سوشل میڈیاپر شیخ نمر کی مظلومیت کو بغاوت قرار دے کر ان کی شہادت کو مسخ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے، بعض سعودی ذرخریدپاکستانی میڈیا ہاؤسز اور اینکرپرسنز شیخ باقرالنمر کی سزائے موت کو سعودیہ کا داخلی مسئلہ قرار دے کر آل سعود کے سفاقیت اور قبیح فعل پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ ہم حقائق اور دشمن کی سازشوں سے آگاہ رہیں۔

انہوں نے شیخ ابراہیم زکزکی کی نائیجیرین فوج کے ہاتھوں مسلسل حراست اورگمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ شیخ ابراہیم زکزکی کا جرم بھی شیخ باقرالنمر سے مماسل ہے دونوں نے عوا م کو استبدادی نظام حکومت کے مقابل قیام کرنے پر آمادہ کیا، ان بدکار اور بد قماش حکمرانوں کے چہروں پر پڑے نام نہاد اسلامی نقاب کو نوچ ڈالا،اب تک نائیجیرین اور سعودی حکومت ان دونوں بزرگان کے خلاف کوئی ٹھوس جرم یا ثبوت عوام کے سامنے لانے سے قاصر ہیں ، ان بزرگان کا اصل جرم فقط امام حسین ؑ اور کربلا سے عشق ہے، یہ ا مام مظلوم ؑ کے حقیقی عزادار تھے ، انہوں نے سوشل میڈیا پر فعال نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ کسی ایسی پوسٹ کو ہر گز آگے شیئرنہ کریں جس کی صداقت کے بارے میں انہیں مکمل یقین نہ ہو، آج کل دشمن قوتیں نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہا ہے۔

شہید آغا ضیاء الدین رضوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہید رضوی سرزمین گلگت پر مظلوم ترین شہید ہیں ،ملت اسلامیہ کی وحدت اور نصاب تعلیم میں بلاجواز تحریف کے خلاف اپ کی جدوجہد لازوال ہے ،اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ان کو شہید کرنے سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے گا تو یہ اس کی بھول ہے، شہداء کے نیک مشن کو جاری رکھنے کیلئے علماء ، جوان ، خواتین میدان عمل میں ہر لمحہ حاضر ہیں ، شہداء کے خون کی برکت سے سرزمین پاک پرشیعہ سنی وحدت کا درخت مسلسل پروان چڑھ رہا ہے جو تناور ہو نے کے بعد تکفیری قوتوں کے ارمانوں پر پانی پھیردے گا۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری تبلیغات علامہ اعجاز حسین بہشتی نے شجا ع آباد یونٹ ہزارہ ٹاون کے دفتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سطح کی پالیسیوں کو نا صرف معاشرتی ضروریات اور موجودہ صورتحال کا عکاس ہونا چاہیے بلکہ عوام کے حقیقی مسائل و مشکلات کے پائیدار حل کا ضامن ہونا چاہیے ۔ یہ پالیسیاں محض فائلوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان پر عمل در آمد کرکے ان کے ثمرات عوام تک پہنچانا ضروری ہیں۔ حقیقی جمہوریت کا مطلب عوام کے یکساں حقوق اور ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں نابرابری کی صورتحال ہی پیدا نہ ہوں۔ تاریخ و سیاست کے مستندمفکرین کا منصب سیاست اور حق حکمرانی کو معاشرے میں اخلاقی لحاظ سے کمال اور کردار کے لحاظ سے مثال کا درجہ رکھنے والے افراد کے لیے مخصوص کرنا اسی وجہ سے ہے کہ سیاست سے منسلک طبقہ نا صرف ریاست کے اداروں میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور کمزرویوں پر چیک رکھتا ہے بلکہ عوام کی سوچ کو مثبت سانچے میں ڈال کر سماجی رویے بھی متعین کرتا ہے۔ نمائندوں اور حکمرانوں کے انتخاب کے معاملے میں ہمیں جہاں اخلاقی بے راہ روی یا دیانتداری کے حوالے سے کسی پر معمولی سا الزام بھی سامنے آنے پر سسٹم اور سیاسی جماعتیں امیدواری کے مرحلے پر ہی ایسے افراد کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کرنا چاہیے۔ لیکن ہماری بد قسمتی کہ قومی سیاست صرف مفادات کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ پولیٹکل سسٹم کی اوور ہالنگ کے لیے بھی ایک عدد ایک ایکشن پلان وضع کرنا ناگزیر قومی ضرورت بن چکا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree