وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحد ت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کوئٹہ میں پولیو مھم کے دورا ن پولیو مرکز کے قریب خود کش دھماکے اور افغانستان میں پاکستانی قونصلیٹ پر داعشی دہشت گردوں کے حملے اور انڈونیشیا میں دھشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید افسوس ہے۔ دہشت گردی سے متعلق سامراجی ممالک اور بعض ریاستوں کا منافقانہ کردار دہشت گردی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس سے بڑھ کر منافقت اور کیا ہوگی کہ بعض ریاستیں دہشت گردی کے لیے بھاری سر مایا خرچ کررہی ہیں ، اور دھشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر آمریکہ اور اتحادی ممالک فروغ دھشت گردی کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔ جنہوں نے لاکھوں ڈالر فروغ دھشت گردی کے لئے خرچ کئے ان سے امن و انصاف کی کوئی امید نہیں۔
در ایں اثناء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس میں بلوچستان سمیت چھوٹے صوبوں کی نمائندگی نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ مردم شماری کے ذمہ دار ادارے میں چھوٹے صوبوں کی نمائندگی انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام قومی اداروں میں تمام صوبوں کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ اور مشترکہ مفادات کونسل کو فعال کرتے ہوئے چھوٹے صوبوں کے مسائل کو اہمیت دی جائے، نواز لیگ کے دور حکومت میں چھوٹے صوبوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری روابط اور کونسلر کربلائی رجب علی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمارے علاقے میں میٹرو پولیٹن کے ملازمین اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں، ا سٹریٹ لائٹز کا کام مکمل ہوگیا ہے اور مزید کاموں کا آغاز کرکے بحیثیت کونسلر علاقے میں اپنے خدمات سرانجام دیں گے۔
انہوں نے اپنے علاقے میں ا سٹریٹ لائٹز کی مرمت اور مزید لائٹز لگانے پر اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایس ڈی او شیخ سمیع مندوخیل، ایکیشن اشفاق بادینی ، لینس سپرڈنٹ نسیم اور ان کے عملے کے شکرگزار ہیں جنہوں نے عوام کی خدمت میں ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے ساتھ پورا تعاون کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیئے۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں جو مسائل نظرآتے ہیں ہم انکے حل کیلئے کوششیں شروع کر دیتے ہیں، علاقے کے عوام ہم پر اعتماد رکھتی ہے اور یہ ہمارا عظم ہے کہ ہم عوام کے امیدوں پر پورا اترے گے۔ آخر میں کربلائی رجب علی نے کہا کہ میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے میٹروپولیٹن کارپوریشن کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور علاقے میں اسٹریٹ لایٹز کے کام کی اجازت دی۔
وحدت نیوز(گلگت) وزیر اعلیٰ کی میڈیا ٹیم بوکھلاہٹ کا شکار ہے تقسیم گلگت بلتستان کے حوالے سے وزیر اعلیٰ موصوف کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد مزید وضاحتوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔وزراء اخباری بیانات کے ذریعے سے حقائق پر پردہ ڈالنے کی بجائے متنازعہ بیان پر وزیر اعلیٰ کا احتساب کریں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عارف قنبری نے کہا ہے کہ لیگی وزیر اعلیٰ نے گلگت بلتستان کی اکائی کو متنازعہ بنانے کی دانستہ کوشش کی ہے اور دیدہ دلیری کے ساتھ ان کی یہ جسارت گلگت بلتستان کے عوام کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش ہے۔ ان کی یہ جسارت علاقائی حقوق کی خاطر برسر اٹھنے والی تحریک کو کچلنا مقصود ہے لیکن آج پورے گلگت بلتستان کے عوام نے ایک کال پر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کرکے ثابت کردیا کہ وہ ایک اکائی کا حصہ ہیں اور گلگت بلتستان کی تقسیم کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنائینگے۔انہوں نے صوبائی وزراء اور لیگی اراکین اسمبلی کے وضاحتی بیانا ت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوئی وضاحت کام نہیں آئیگی بہتر یہ ہے کہ اس متنازعہ بیان کو وزیر اعلیٰ سے وضاحت طلب کریں ۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا میڈیا سیل بوکھلاہٹ میں اسے ایک افواہ قرار دے رہا جبکہ حقیقت کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے جس کا خمیازہ وزیر اعلیٰ کو بھگتنا پڑے گا۔گلگت بلتستان کو دولخت کرنے کی تجویز ہماری شناخت اور وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش ہے استور ،سکردو،کھرمنگ،گانچھے اور شگر سے منتخب اراکین خاموشی اور سکوت کو توڑدیں تو لیگی حکومت کا اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکتا ہے۔انہوں نے کشمیر اسمبلی کی قرارداد کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری اپنی فکر کریں ہمیں اپنے حال پر چھوڑیں۔گلگت بلتستان نہ کشمیر کا حصہ تھا نہ ہے اور نہ رہے گیا۔کشمیری رہنما بتائیں کہ آج تک انہوں نے گلگت بلتستان کے عوامی حقوق پر کیا کسی فورم میں آواز اٹھائی ہے جوآج اٹھ اٹھ کر بیانات دے رہے ہیں کہ گلگت کشمیر کا حصہ ہے۔یہ علاقہ کسی کے کہنے سے کشمیر کا نہیں ہوگا اس بات کا فیصلہ یہاں کے عوام کرینگے کہ کس کے ساتھ چلنا ہے۔
وحدت نیوز (نصیرآباد) مجلس وحد ت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے ضلع نصیر آباد کے مختلف علاقوں کا دورا کیا اور ڈیرہ مراد جمالی میں تنظیمی اجلاس کی صدارت کی۔ گوٹھ دلوش خان لہر میں خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ، معاشرے کے مظلوم اور ستمدیدہ عوام کی آواز ہے ، جس نے ہمیشہ ظلم اور ظالم کے خلاف موثر آواز بلند کی ہے۔ دھشت گردی سمیت مختلف عوامی مسائل پر بھرپور آواز بلند کرکے ایم ڈبلیو ایم نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کی ترجمان جماعت ہے۔
اس موقع پر نصیر آبادعوامی تحریک کے چیئرمین ماما الٰہی بخش کھیازئی، ایم کیو ایم کے رہنما امداد حسین مری،ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید عبدالقادر شاہ نے علامہ مقصود علی ڈومکی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر نصیر آباد عوامی تحریک کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ اوچ پاور پراجیکٹ سے ڈیرہ مراد جمالی اور گرد و نواح کے علاقوں کو بجلی فراہم کی جائے اور پراجیکٹ کی ملازمتوں میں علاقے کے عوام کو ترجیح دی جائے۔
انہوں نے بلوچستان کے ساحل پر سو سے زائدکورین لانچوں کوٹرالنگ کی اجازت دینے کو افسوسناک فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے بلوچستان کے ماہی گیر شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ جو پہلے ہی غیر قانونی ٹرالنگ کے باعث فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غریب ماہی گیروں کے معاشی مفادات کو ترجیح دیتے ہوتے عوام دشمن فیصلہ واپس لیا جائے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) 11 جنوری کی رات کو جلال آباد اور چھموگڑ سے دو ڈھائی سو لوگ مقپون داس پہنچے اور شہیدوں کے مزار کے سامنے روڈ کی دوسری طرف تعمیراتی کام شروع کر دیا،صبح وہاں پر موجود لوگوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں کو اطلاع دی اور ایک ہی گھنٹے کے اندر ہنوچل اور شوتہ نالہ سے کافی لوگ جمع ہوگئے ،پولیس بھی تب تک پہنچ چکی تھی،پولیس کی موجودگی میں طرفین میں تصادم ہوا،گولیاں چلیں اور شدید پتھروں کی بارش ہوئی جسکے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور شوتہ نالہ سے تعلق رکھنے والے ایک عمر رسیدہ عبدالرحمن نامی شخص کو دو گولیاں لگیں ،ایک گولی سینے میں اور دوسری ٹانگ میں، جس کو فوری طور پر اسپتال پہنچا دیا گیا اور ابھی اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے۔
اسکے بعد پولیس اور این ایس فورسز ،ڈی سی صاحب ،شیخ مرزا صاحب بھی علماء کے وفد کے ساتھ پہنچ گئے اور طرفین سے مذاکرات کرکے طرفین کو شرعی فیصلے پر راضی کرلیا اور جلال آباد سے چھموگڑ اور حراموش سے آئے ہوئے لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کر خود بھی واپس چل دیے۔
اس واقعے کو اب تین دن گزر گئے ہیں لیکن طرفین اپنی اپنی جگہ پرڈٹے ہوئے ہیں۔گویاپورا جلال آباد،چھموگڑ،حراموش مقپون داس ۔۔۔ سب ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں ، کشیدگی اور جنگ کے چانسز سو فیصد موجود،ڈی سی کی آ مد اور طرفین کو ہٹائے بغیر فورسز کے ساتھ اچانک غائب ہونا اور طرفین کو اسی جنگ کی حالت میں اپنے حال پر چھوڑ دینا،انتظامیہ کا خاموش تماشائی بننا، وزیر اعلی سمیت تمام عوامی نمائندوں کا دلچسپی نہ لینا،یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی راہداری کے مسئلے پر حکومت کے اوپر جو پریشر ہے اور بالخصوص وزیر اعلی کے اوپر گلگت بلتستان کی تقسیم کے ایشوپر عوام کی طرف سے جوردّعمل سامنے آیا ہے اس سے جان چھڑوانے کے لئے اس مسئلے کو گرم کیاگیاہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی بڑا حادثہ کروا کر گلگت بلتستان کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت عوام کو آپس میں لڑا کر اقتصادی راہداری زون کے لئے اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چونکہ اقتصادی راہداری زون کے لئے گلگت بلتستان میں جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ سب سے مناسب ہے اور حکومتی اداروں میں مقپون داس اقتصادی راہداری زون کے لئے زیر بحث ہے۔
اور چوتھی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خود خود طرفین کے کچھ افراد بکے ہوئے ہوں اور وہ سرکار کے ایجنڈے کو عملی کرنے کے لئے کشت و خون کرواناچاہتے ہوں۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اس کو اقتصادی راہداری زون کے لئے حاصل کرنا چاہتی ہے تو کیا صرف یہی ایک حل ہے کہ لڑا واور حکومت کرو ، اور سادہ لوح عوام کا قتل عام کروا دو۔
حکومت کو اس کے علاوہ دیگر طریقوں پر بھی سوچناچاہیے۔ چلیں حکومت کو رہنے دیں کیا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ درمیان میں آکر اس مشکل کو رفع دفع کریں اور قیمتی جانوں کے زیاں سے لوگوں کو بچائیں۔
ان کو بھی رہنے دیں وہ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کہاں ہیں جو انتخابات کے دوران گھر گھر،قریہ قریہ جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتی ہیں اور بیچارے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لیتی ہیں۔طرفین میں تمام پارٹیوں کے ووٹرز موجود ہیں،پی پی ہو یا نون لیگ، تحریک انصاف ہو یا تحریک اسلامی۔ وحدت مسلمین ہو جماعت اسلامی۔کہاں ہیں یہ سب پارٹیاں!؟
کیاابھی اس کا انتظارکیاجارہاہے کہ پہلےچالیس پچاس آدمی قتل ہوجائیں اور پھرسامنے آیاجائے تاکہ میڈیا میں کوریج بھی مل جائے اور سوشل پروٹوکول کا بھی مناسب انتظام ہو۔ چلیں ان کو بھی رہنے دیں،اس علاقے کے وہ عمائدین،سماجی اور دینی شخصیات کہاں ہیں جو انتخابات میں اپنے آپ کو کئی کئی مہینے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمپین کے لئے وقف کرتی ہیں!؟
کیا بلتستان،استور،نگر جلال آباد،بگروٹ،حراموش اور دوسرے علاقوں کے عمائدین کا اخلاقی فریضہ نہیں بنتا کہ درمیان میں آکر اس مشکل کو سلجھانے کی کوشش کریں۔
ہم یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی اہمیت کے اعتبار سےمقپون داس حراموش بلتستان کا گیٹ وےہے۔یہ گلگت اور بلتستان کو ملانے والے پل عالم بریج سے چند قدموں کے فاصلےپر ہے۔مقپون داس ایک وسیع وعریض میدان ہے جو کہ جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان میں منفرد ہے چونکہ یہ دو دریا،دریائے بلتستان اور دریائے گلگت کا سنگم اور قدرت کا بے نظیر خوبصورت منظر ہے۔اس پر نہ صرف پاکستانی حکومت کی نظریں ہیں بلکہ اپنی جغرافیائی منفرد نوعیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں خاص طور پر چائنہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
یہ زمین کا خوبصورت ٹکڑا دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے لیکن یہاں پر پانی میسر نہیں۔ اس کی وجہ پاکستانی حکومت کی بالعموم اور گلگت بلتستان کی حکومت کی بالخصوص عدم توجہ ہے۔ پورے پنجاب کو سیراب کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا دریا،دریائے سندھ اسی بنجر میدان کے کنارے سے گزرتا ہے۔چونکہ یہ میدان دریا سے کافی بلندی پر واقع ہے جسکی وجہ سے ابھی تک یہ آباد نہیں ہے۔جو لوگ اس وقت وہاں زندگی گزار رہے ہیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کے شکار ہیں ،اس وقت وہاں کی کل آبادی 103 گھرانوں پر مشتمل ہیں جن کا تعلق حراموش کے دو گاؤں ہنوچل اور شوتہ نالہ سے ہے اور اس میں 88 جنگ میں شہید ہونے والے بلتستان کے دو شہیدوں کا مزار بھی ہے۔
یہاں پر رہنے والے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئے پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔کافی سال پہلے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر چینل بنانا شروع کر دیا اور ابھی بھی زیر تعمیر ہے۔ اور اس واٹر چینل پرکام تیزی سے نہ ہونے کی وجہ لوگوں کی اقتصادی مشکلات اور حکومت کی عدم توجہ ہے۔
یہ وسیع وعریض میدان حراموش اور جلال آباد ،چھموگڑ کے لوگوں کے بیچ متنازعہ ہے ۔چند سال پہلے ان دو فریقوں کے درمیان ایک ہفتہ جنگ ہوئی اس کے بات کئی سال کورٹ میں اس کا کیس چلتا رہا یہاں تک کہ ڈیڑھ سال پہلے سیشن کورٹ نے اس کا فیصلہ حراموش کے حق میں سنا دیا۔جس کے فورا بعد حراموش کے لوگوں نے یہاں گھر بنا نےشروع کر دیے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں سمیت لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور اس میدان کو اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کا راز سمجھتے ہیں۔
اس وقت ہمارے حکومتی ادارے اور کرپٹ عناصر اس خوبصورت وادی کو خون سے رنگین کرکے،اس جنت ارضی کو جہنم بناکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔یہ دانشوارانِ ملت،علمائے کرام اور مخلص سیاستدانوں کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے کو فوراً حل کروائیں۔
تحریر۔۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر
وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱ کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پرگلگت بلتستان کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے کبھی بھی دریغ سے کام نہیں لیا۔
اس کے باوجود ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے وزیر اعظم نے (جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں کے پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انھیں کشمیری مجاہدین قرار دے دیا۔
بعد ازاں جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انھیں کے دور میں گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی ملا۔
البتہ پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے ، بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ بلند کیا۔آخر کار 9/ اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں کوئی نمائندگی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟
جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جیتنے کی صورت میں ہم آپ کو مکمل آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی سناٹا چھا گیا۔ اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی حکومت نے اس معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح آئینی حیثیت کا تعین موجودہ حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی ہے" ﴿6﴾ اب یہاں پر چند سوالات جنم لیتے ہیں:
کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟ کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا ایجنٹ بن کر ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾ اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟
اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں: کیا یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چین اور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ پڑے ۔ دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اب اتنے حقائق سامنے آنے کے بعد وزیر اعلی خود سے ان کی تائید کریں یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہر صورت میں اتنا تو ضرور واضح ہوگیا کہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کا وزیر اعلی قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور قومی و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔ پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے تو اگلے مرحلے میں عوام ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں گے۔
حوالہ جات:1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2: روزنامہ آج،4ستمبر2009
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔
7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔
8:ایضا
تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی