وحدت نیوز (آرٹیکل) بیداری ایک مسلسل عمل کا نام ہے، افراد کی بیداری سے اقوام بیدار ہوتی ہیں، اور اقوام کی بیداری ممالک و معاشروں کی بیداری کا باعث بنتی ہے، جس طرح نیند اور غفلت میں ایک نشہ اور مستی ہے اسی طرح بیداری میں بھی ایک لذّت، طراوت اور شگفتگی ہے۔
اگر ہم انتخابات کے ذریعے اپنے ملک میں بیداری اور تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں گام بہ گام تمام شعبہ ہای زندگی میں بیداری کے ساتھ درست انتخاب کی عادت ڈالنی ہوگی۔ہمیں عملی طور پر اپنا آئیڈیل، رول ماڈل اور نمونہ عمل رسولِ اعظمﷺ کی ذاتِ گرامی کو بنانا ہوگا۔
پیغمبرِ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کی طرح سیاسی زندگی میں بھی بطورِ رہبر ہماری رہنمائی کی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان ایک مکمل اور بھرپور سیاسی زندگی گزار کر ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے سیاستدانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔
مدینے سے ہجرت کے دوران جب آپ ﷺ قبا کے مقام پر کچھ دن کے لئے ٹھہرے تو یثرب سے لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے آتے تھے، آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اور مسلمان ہوکر پلٹتے تھے، بلاشبہ تلواریں توفقط شر سے دفاع اور احتمالی ضرر سے بچاو کے لئے تھیں چونکہ لوگ تو آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر دیوانہ وار کلمہ پڑھتے جارہے تھے۔
مورخ کو یہ لکھنے میں قطعا کسی قسم کی تردید نہیں کہ مدینہ پیغمبرِ اسلام کے اخلاق کی وجہ سے مفتوح ہوا، آج جب ہم کسی کو اپنا سیاسی لیڈر یا رہنما منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے اخلاق اور عادات و اطورا کے بارے میں بھی جانیں۔
مدینے میں جب رسولِ گرامی ﷺ کی سواری داخل ہوئی تو ہر طرف ایک جشن کا سماں تھا، کبھی کسی قبیلے کا رئیس آپ کی اونٹنی کی لگام تھام لیتا تھا کہ ہمارے ہاں تشریف رکھئے ، کبھی کسی گروہ کا کوئی معزز فرد آپؐ کی اونٹنی کی باگ تھام کر اپنے گھر میں ٹھہرنے کی التجا کرتا تھا، کبھی کوئی بڑا تاجر آگے بڑھ کر دستِ ادب دراز کر کے شرفِ میزبانی حاصل کرنے کی اپیل کرتا تھا اور کبھی کسی محلے کا کوئی بزرگ آپ کے نعلین مقدس کو چوم کر اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دیتا تھا، لیکن آپ نے سب سے یہی کہا کہ میری اونٹنی کو چلنے دیجئے یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، یہ جہاں خود ٹھہرے گی میں وہیں قیام کروں گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ اونٹنی نہ کسی سردار کے گھر ٹھہری، نہ کسی وڈیرےکےہاں اس نے ڈیرہ ڈالا ، نہ کسی بزرگ کے ہاں اس نے زانو ٹیکے بلکہ مدینے کے ایک عام شخص حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔
حضرت ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام میں اہلِ اسلام کے لئے یہ پیغام تھا کہ رسولِ اسلام کے تعلقات کسی کے ساتھ کسی کی خاندانی شرافت و منزلت، قبائلی جاہ و حشمت اور خاندانی مال و ثروت کی بناپر نہیں ہونگے بلکہ ایک عام مسلمان بھی رسولِ اکرم کے نزدیک اتناہی محترم تھا جتنے کہ قبائل کے امرا و سردار تھے۔
یہ اسوہ حسنہ ہے آج پاکستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے کہ ہم اپنے ملک میں سیاسی رہبر ی و قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں کہ جن کے نزدیک امرا اوفقرا کی کوئی تمیز نہ ہو۔
اور ہاں! سیرت النبیﷺ اس بات پر شاہد ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ، غربا، فقرا اور مساکین پر زیادہ توجہ دیتے تھے تاکہ زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے گھر کے سامنے کچھ زمین خالی پڑی ہوئی تھی، اس کے مالک دو یتیم بچے تھے، نبی اکرمﷺ نے مسجد کے لئے وہ زمین اپنی جیب سے خریدی اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کے کام میں صحابہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا اور اپنا پسینہ بہایا۔
آج کل ہمارے ہاں ہمارے لیڈر شجر کاری مہم کے افتتاح کے لئے زمین پر ایک ضرب لگاکر لاکھوں تصویریں بنواتے ہیں اور اگر کسی غریب فقیر کی مدد کر دیں تو اخبارات و جرائد ان کے بیانات سے بھر جاتے ہیں۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کی زمین اپنی جیب سے خرید کر اور مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح کام کر کے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کا لیڈر وہ ہو جو دینی امور کے نام پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور دین کے کاموں میں عملاً مشقت میں کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو۔
جب تک ہمارے لیڈر بیت المال کو چوسنے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے اور عوام کے ساتھ برابر مشقت اٹھانے کی عادت نہیں اپنائیں گے اس وقت تک معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
جب مسجد کے لئے موذن کے انتخاب کا وقت آیا تو سروروعالمﷺ نے بڑے بڑے رئیس زادوں، آقا زادوں، تاجروں، مالداروں، مہاجروں، انصار اور نامی و گرامی شخصیات کے ہوتے ہوئےحبش کے ایک سیاہ رنگ کے شخص کا انتخاب کیا جس کی زبان میں بھی لکنت تھی۔
حضرت بلال حبشیؓ کو بطور موذن منتخب کر کے آپ نے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ دینِ اسلام میں کسی کی ظاہری خوبصورتی، رنگ و نسل، قوم و قبیلے، برادری اور علاقے نیز ملک و خطے کی کوئی اہمیت نہیں دینِ اسلام میں ایمان، تقویٰ اور اسلام پر عمل ہی اصل میزان ہے۔
پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم سیرت النبیﷺ سے انتخاب کا طریقہ سیکھیں اور انتخابات میں عشقِ رسولﷺ کا مظاہر کریں۔
اگر ہم نعرے تو عشقِ رسولﷺ کے لگاتے رہیں اور ووٹ بدمعاشوں اور شرابیوں کو دیتے رہیں تو اس سےہمارا اعمال نامہ بھی اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔
کتنے بدقسمت ہیں ہم لوگ کہ جو سیرت النبیﷺ کے ہوتے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (اسلام آباد) ن لیگ کا دور حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہا کوئی بھی قومی ادارہ منافع میں نہیں ملکی آمدن کا سب سے اہم حصہ شعبہ زراعت حکومتی نااہلی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کسانوں کے وفد سے ملاقات میں کیا،ان کا کہنا تھا پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر شعبہ زراعت نااہل حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت دن بدن تنزلی کی طرف جار ہا ہے ۔ملک کے کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔حکومتی پالیساں صرف سرمایہ دار طبقے کو فائدہ دے رہی ہیں ۔مرکزی و صوبائی سطح پر کوئی مربوط اور جامع زرعی پالیسی موجود نہیں ۔
انہوں نے مزید کہاکہ جنوبی پنجاب کے کسانوں کو مجبور کیا جار رہے کہ وہ اپنا گنا سستے داموں فروخت کریں ۔ایسے اقدام چھوٹے کسانوں کوشدید مالی مشکلات کا شکار کررہی ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومت خود ایسے اقدامات کر رہی کہ چھوٹے کسان خود کشی پر مجبور ہو جائیں ۔ملک میں جنگی بنیادوں پر مربوط زرعی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔زراعت کے جدید اور زیادہ منافع بخش طریقوں کو فورغ دینا وقت کی اہم ضروت ہے ۔زرعی شعبے کی ترقی ملکی خوشحالی کی ضامن ہے جس کے لئے ملک کے کسانوں کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل ہونا ضروری ہیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا ہے کہ عالمی قوتیں امت مسلمہ کے تنازعات کے حل میں قطعی مخلص نہیں ہیں۔ہمیں اپنے معاملات کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے انہیں خود حل کرنا ہو گا۔انہوں نے کہ یہود و نصاری دوستی کے لبادے میں چھپے ہوئے دشمن ہیں جو آڑے وقت میں اپنی اصل صورت کے ساتھ ظاہر ہو جا تے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں صرف مسلمان ممالک کی روبہ زوال ہیں۔اس تنزلی میں عالمی شیطانی قوتوں کی مکارانہ حکمت عملی کا پورا عمل دخل ہے۔وہ ممالک جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپین سمجھتے ہیں کشمیر ،فلسطین ،یمن سمیت دیگر مسلم ممالک میں ڈھائے جانے والے مظالم پر بولتے ہوئے ان کی زبان پر چھالے نکلنے لگتے ہیں۔عالم اسلام کو مسلکی تفریق اور گروہ بندی میں الجھا کر ایک دوسرے سے بدظن کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت نصف صدی پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے تھی کہ مغربی استعمارنے مسلمان حکمرانوں کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ دوستی کے لبادے میں چھپے ان دشمن سے جتنی جلد ممکن ہو پیچھا چھڑا لینا ہی بہتر ہے۔انہوں نے کہا امریکہ،اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے کبھی بھی دوست رہے ہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ہمیں ان کی گفتار میں اخلاص ڈھونڈنے کی بجائے ان کے کردار سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔امت مسلمہ کو اقتصادی، دفاعی اور معاشی اعتبار سے مضبوط بنانے کے لیے امت واحدہ بننا ہو گا۔ نظریاتی و فکری اختلاف کو علمی مباحث تک محدود رکھا جانا ہی ہم سب کے حق میں ہے۔ان اختلافات کوبنیاد بنا کر تصادم کر راہ اختیار کرنا سب کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی مضبوطی کے لیے نہ صرف حکومتی اور سفارتی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے بلکہ علما، پروفیسر، سیاسی و مذہبی رہنماؤں سمیت ہر ایک کو اپنی اپنی دسترس کے مطابق اس کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔عوامی کی شعوری رہنمائی سے انہیں ان کی اصل منزل کا پتا مل سکتا ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ الله تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ معاشروں میں اعتدال قائم رکھنے کے لئے انسانوں کی تعداد میں مختلف حوالوں سے ایک توازن رکھتا ہے۔ جیسے مرد و زن کی تعداد میں ایک قدرتی توازن برقرار رہتا ہے اسی طرح معاشروں میں عقل و دانش اور ضروری ہنر و فن کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھی ایک توازن برقرار رہتا ہے- مرد و زن کی تفریق اور دیگر صلاحیتوں کو متوازن رکھنے میں فرق صرف یہ ہے کہ مرد و زن کو ظاہری جسمی علامتوں سے تشخیص دینا آسان ہے جبکہ دیگر صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت کرنا قدرے محنت طلب کام ہوتا ہے۔ نظام تعلیم جہاں انسانی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے وہاں ان صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت میں مدد بھی دیتا ہے۔
آج کی دنیا میں ہمارا خطہ دو قسم کے بنیادی تعلیمی نظاموں میں تقسیم ہے_ انگریزی (جو دنیاوی علوم کے نام سے مشہور ہے) اور عربی (جو دینی علوم کے نام سے مشہور ہے)- میں انگریزی نظام تعلیم اس لئے کہتا ہوں کہ انگریز سرکار کے غلبہ کے بعد اس نظام کو رائج کیا گیا اور سر سید احمد خان کی حکیمانہ جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے اسے وقت کی ضرورت کے تحت قبول بھی کر لیا جبکہ اس سے پہلے جو نظام تعلیم رائج تھا اس کی بنیاد وہ مسلمان بادشاہ تھے جنہوں نے صدیوں اس زمین پر اپنی حکومت قائم رکھی- اس نظام تعلیم کی بنیاد عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں رائج تعلیم کا سلسلہ تھا اور انہی تین زبانوں اور مقامی سنسکرت و ہندی کے امتزاج کے ساتھ اردو زبان معروف وجود میں آئی جو مسلمانوں کی زبان بن گئی اور اب ایک ورثہ کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں ہے-
انگریزی نظام تعلیم رائج کرنے والوں کی نظر میں یہ ہدف تھا کہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق اسی معاشرے سے امور مملکت چلانے کے لئے افراد مہیا کئے جائیں جبکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کے پیشِ نظر اچھے روزگار کا حصول اور مالی پریشانیوں سے پاک زندگی کا حصول تھا جو آج تک قائم ہے- اسی دور میں عربی نظام تعلیم بھی متبادل کے طور پر چلتا رہا اور ان اداروں کو مدارس کا نام دے دیا گیا جبکہ انگریزی تعلیم کے ادارے اسکول و کالج کہلائے- عربی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی تھی لہذا انہیں دینی مدارس بھی کہا جانے لگا- یہی وہ وقت ہے جب دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم ہوئی- دینی علوم کے مدارس سے فارغ ہونے والے عوام کی دینی ضروریات جیسے نکاح و طلاق، امامت نماز، تراویح و خطبہ جمعہ کو پورا کرنے دھن میں لگ گئے جبکہ دنیاوی علوم نے اچھے کھاتے پیتے مغرب سے متاثر افراد تیار کرنے شروع کر دئے-
انگریزی نظام تعلیم نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو فلٹر اور جذب کرنا شروع کر دیا- گویا اس نظام نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو چنا اور انہیں اپنے نظام کو چلانے کے لئے استعمال کیا- جب معاشرے کے بہترین ذہن انگریزی تعلیم کی طرف چلے گئے تو دینی مدارس کے پاس متوسط یا کمزور اذہان کے طالب علم آئے- البتہ چند استثنائات کو چھوڑ کر-
یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس کے تدارک کے لئے ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے- اگر آج ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ منبر رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں یا تفرقہ بازی کی باتیں ہوتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دینی علوم سے معاشرے کے بہترین اذہان کو دور رکھا گیا ہے بلکہ ان دو نظام تعلیم کی تقسیم نے مہذب اور غیر مہذب افراد کو بھی الگ الگ کر دیا ہے۔
آج کا دور اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک منفرد دور ہے کیونکہ اس دور میں دین شناسی کی تڑپ میں اضافہ ہوا ہے- اس دور میں دینی علوم کے ماہرین سے دینی ہدایت اور راہنمائی طلب کی جا رہی ہے گویا ہدایت کا جو پیغمبرانہ کام تھا اس کا تقاضا کیا جارہا ہے- اب منبرِ رسول سے حکمت و دانش کی باتوں کی امید کی جا رہی ہیں- دینی راہنماؤں سے امت کو لڑانے کے بجائے انہیں جوڑنے کی فرمائش کی جا رہی ہے- دین کی ان تعبیروں کو زندہ کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے جو ایک صاف ستھرے اور مہذب معاشرے کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے-
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں ہمارے ملک پاکستان میں عوامی اور ملکی سطح پر مذہبی رجحان بہت زیادہ بڑھا ہے۔ اس رجحان میں اضافے کی وجہ سے دینی ہدایت اور دینی راہنمائی اور قیادت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے۔
کیا ہمارے آج کے دینی مدارس اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا نفی میں جواب دینے میں شاید ہی کسی ذی فہم کو تامل ہو لیکن اگر ہم اس نظام تعلیم کی اصلاح کر سکیں جس کے ذریعے معاشرے کے بہترین اذہان کو ان علوم کی طرف مائل کر سکیں اور معاشرے کے مہذب گھرانوں کے افراد کی پہلی ترجیح دینی علوم کو بنا سکیں تو شاید یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا- کیونکہ ہدایت کا کام الله تعالیٰ نے ہمیشہ معاشرے کے بہترین انسانوں سے لیا ہے-
دنیاوی علوم کے مقاصد کو بھی صرف اچھے روزگار کے حصول سے موڑ کر کائنات کی حقیقت، اس کی ابتدا و انتہا اور اس دنیا میں ایک سعادت مند زندگی کے معیارات سمجھنے کا ذریعہ بھی بنانا ہو گا- آج کا دور معاشرے کے لئے بابو تیار کرنے کا دور نہیں ہے بلکہ دین فہم ، معاشرہ ساز ہادی بنانے کا دور ہے جو اصل میں انسان کا کام ہے-
تحریر۔۔۔پروفیسر سید امتیاز رضوی
وحدت نیوز (ٹنڈو محمد خان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹنڈو محمد خان کیجانب سے ضلعی کابینہ کی نامزدگی کے سلسلے میں نو منتخب ضلعی سیکریٹری جنرل مولانامحمد بخش غدیری کے زیرصدارت اجلاس منعقد ہوا جس میں ضلعی کابینہ کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا گیا، ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا محمد بخش غدیری نے 16اراکین پر مشتمل ایم ڈبلیوایم ضلع ٹنڈومحمد خان کی کابینہ کا اعلان کردیا جس میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل محمد اشرف،ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید مشتاق شاہ ،ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید نذیر شاہ،سیکریٹری تنظیم سازی فیاض علی ،سیکریٹری مالیات زوار حسین ،سیکریٹری روابط اسد عباس کربلائی،سیکریٹری نشرواشاعت نواز علی مشہدی،سیکریٹری میڈیا سیل جمشید جعفری،سیکریٹری وحدت یوتھ میرغلام علی،سیکریٹری تبلیغات مولانا منظور احمد،سیکریٹری تربیت مولاناکاظم علی مطہری ،سیکریٹری تعلیم عاشق علی بھٹو،سیکریٹری فلاح بہبودسجاد علی،سیکریٹری آفیس نیاز علی،سیکریٹری تحفظ عزاداری سید بقادار شاہ اور سیکریٹری شماریات سید صدام شاہ،خادم حسین شامل ہیں ۔
وحدت نیوز (گلگت) گلگت بلتستان کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت کسی بھی مرکزی رہنما کا شرکت نہ کرنا گلگت بلتستان سے پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت ہے۔پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آئی لیکن گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے متنازعہ بیانات کے سوا کچھ نہیں دیا۔گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے مقامی قائدین آئینی حقوق کے حوالے سے جھوٹے بیانات کے ذریعے گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ آئینی حقوق سے متعلق سیمینار میں پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین میں سے کسی ایک رہنما نے بھی شرکت نہ کرکے علاقے کے عوام اور ان کے بنیادی حقوق سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا گلگت بلتستان جو پاکستان کی شہ رگ ہے کو نظرانداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ شروع دن سے گلگت بلتستان کے عوام نے پیپلز پارٹی ویلکم کیا ہے اور تاحال ایک اکثریت پیپلز پارٹی سے والہانہ عقیدت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آکر اس علاقے کے عوام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مقامی رہنمائوں کو اپنے مرکزی قائدین کے رویے سے متعلق سوچنا ہوگا اور جب تک مقامی رہنما اپنی جماعت کے اندر گلگت بلتستان کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی نہیں لائینگے تب تک اس جماعت سے کوئی توقع رکھنا فضول اور عبث ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کو وقت دینے کیلئے تیار نہیں تو جب اقتدار میں ہونگے تو بعید نہیں کہ ہم سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہ ہونگے۔