وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کی حکمت کاتقاضا ہے کہ کائنات کی خلقت با ہدف اور بامقصد ہو کیونکہ فاعل حکیم سے کسی بھی فعل کاکسی مقصداورمعقول ہدف کےبغیر سرزد ہونا محال ہے۔قرآن مجید کی آیتوں  سےیہ بات واضح طور پر ثابت ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنہَمَا  لَاعِبِين}1اور ہم نے آسمان ،زمین اور ان کے درمیان کی تما م چیزوں کو کھیل تماشے کے لئے نہیں بنایاہے ۔{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنہَمَا بَاطِلا}2اور ہم نےآسمان ،زمین اوران دونوں  کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔مذکورہ آیات نیز ان سے مشابہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نےکائنات کو بیہودہ خلق نہیں کیا ہے بلکہ کائنات کی تخلیق حکیمانہ طور پر ہوئی ہے  ۔ قرآن کریم کی بعض آیتوں میں صراحتا بیان ہوا ہے کہ کائنات کی خلقت انسانوں کے لئے ہوئی ہے جیساکہ ارشاد ہوتاہے : {ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فی الْاَرْضِ جَمِيعًا}3خدا وہ ہے جس نے زمین کے اندرموجود تمام ذخیروں کوتم ہی لوگوں کے لئےپیدا کیا ہے  جب کہ انسان کی خلقت کا مقصد آخرت ہے ۔ جیساکہ ارشاد ہوتاہے :{أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَ أَنَّکُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون}4کیا تم نےیہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکارپیدا کیا ہےاورتم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاوٴ گے؟جبکہ کمال مطلوب، خدا کی عبادت و بندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتاہے:{وَ مَا خَلَقْتُ الجْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون}5میں نے جنات اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔

خداوند متعال کی حکمت اور عدل کا تقاضا ہے کہ انسان پرجن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان میں وہ آزاد وخود مختار ہوکیونکہ انسان پر ایسے کاموں کی ذمہ داری ڈالنا جواس کی طاقت اور توان سے باہر ہو ،غلط ہے جیساکہ کسی کو ایسے کام کی سزا دینا جس کے ترک کرنے پر وہ قادر نہ ہو۔ یہ سزا دینےکے معاملے میں عدل خداوند ی کے ساتھ منافات رکھتا ہے ۔قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{إِنَّا ہَدَيْنَاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا کَفُورًا}6یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے ۔ انسان شکر گذار بنے یا کفران نعمت کرنےوالا یہ انسان کے آزاد و خود مختار ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں  کے غلط تصور کے بارے میں جو قضا وقدر الہیٰ  کو مستلزم جبر  قرار دیتے تھے ،فرماتے ہیں :{ و لو کان کذلک لبطل الثواب و العقاب،والامروالنہی، ولسقط معنی الوعدوالوعید}7اگر انسان  کوکسی کام پر مجبور کیاجائے تو اس صورت میں امر و نہی، وعد و عید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔

کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا : کیا خدا نے انسان کو مختلف کاموں پر مجبور کیا ہے ؟امام ؑنے فرمایا:خداوند متعال عادل ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کرے پھراسے اس کی سزا بھی دے ۔8

انسان کے مختار ہونے کو درک کرنے کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ  انسان  اپنے ضمیر کی مختلف حالتوں پر غور و فکر کرےنیز دیکھے کہ وہ  اپنے کاموں کے بارے میں خود فیصلہ کرتا ہے کیونکہ انسان کاضمیر اس امر کی گواہی دیتاہے  کہ وہ کسی کام کے انجام دینے یا ترک کرنےمیں سےکسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود وجودی لحاظ سے وہ خود مختار نہیں ہے بلکہ اپنے وجود میں محتاج ہے ۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایتوں میں مذکورہ مطالب { یعنی انسان کے آزادا ور مختارہونے نیز وجودی لحاظ سے وابستہ ہونے}کی تعبیر  {امر بین الامرین} سے ہوئی ہے ۔ امرین سے مراد ایک  طرف سےنظریہ جبر اور دوسری طرف سے نظریہ تفویض ہیں ۔یعنی نہ انسان کے مجبور ہونے کا عقیدہ صحیح ہے اورنہ تفویض کا بلکہ صحیح نظریہ  [الامربین الامرین] کا نظریہ ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لاجبرولا تفویض بل امر بین الامرین}9نہ جبردرست ہے اور نہ تفویض بلکہ ان دو امور کے درمیان ایک تیسری چیز۔   انسان کی آزادی و اختیار ایک واضح سی حقیقت ہے جسے مختلف طریقوں سے درک کیا جا سکتا ہے ۔

الف: ہر انسان کا ضمیر و وجدان اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ کسی بھی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے میں سے کسی ایک کو انتخاب کر سکتا ہے اوراگر کوئی شخص اس واضح و مسلم ادراک کے بارے میں بھی شک و شبہ کرے تواسے کسی بھی واضح حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔

ب:انسانی معاشرے میں مختلف افراد کے سلسلے میں کی جانی والی تعریف و تمجید یا ملامت و مذمت {دینی و غیر دینی} اس بات کی دلیل ہے کہ تعریف یا مذمت کرنے والا شخص فاعل کو اس کے افعال میں مختار جانتاہے ۔اگر وہ کسی کام پر مجبور ہو  تو تعریف اور مذمت کرنے  کاکوئی معنی نہیں بنتا۔

ج: اگر انسان کی آزادی و اختیار کی حقیقت کونظرانداز کیا جائے توشریعت کا نظام بیہودہ و  بے ثمر ہو گا کیونکہ اگر انسان اس امر پر مجبور ہو کر وہ اس راہ پر چلے جواس کے لئے قبل از وقت معین ہو چکی ہے اور اس سے ذرہ برابر تجاوز اور خلاف ورزی نہیں کر سکتا تو اس صورت میں امر و نہی،وعد ووعید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔

د:تاریخ انسانیت میں ہمیں ایسے انسان ملتےہیں جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس کے نتائج بھی حاصل کئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ امر انسان کے مجبور ہونے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا ،کیونکہ جبر کی صورت میں یہ ساری جد و جہد بیہودہ و بیکار ہوں گے ۔بنابریں انسان ہر کام اپنے اختیارو ارادہ  کے ساتھ انجام دیتا ہے۔    10

لغت میں قضاحتمیت و قطعیت اور قدر اندازہ و مقدارکے معنی میں ہے ۔11

قضا وقدر اسلام کے قطعی اور ناقابل تنسیخ عقائد میں سےایک ہے جس کاذکر قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :{ إِنَّاکل كُ شَیءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَر}12

بےشک ہم نے ہر شئے کو ایک اندازے  کے مطابق پیدا کیا ہے ۔
کبھی یہ خیال کیا جاتاہے کہ قضاو قدرپر عقیدہ رکھنا انسان کے مختار و آزاد ہونے کے ساتھ منافات رکھتاہے لیکن اس مسئلے پر غور وفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قضا و قدر کا لازمہ انسان کا مجبور ہونا نہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ انسان کا مختار  و آزادہونا خود قضا وقدر کی تجلی ہے کیونکہ قدر الہیٰ  یہی ہے کہ وہ ہر موجود کو کچھ خاص شرائط اور اندازے  کے ساتھ خلق کرتا  ہے جبکہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کے انتخاب اور انجام دینے میں آزاد ومختار ہے ۔قرآن کریم اس بارےمیں ارشاد فرماتا ہے:{ وَ الَّذِی قَدَّرَ فَہدَی}13

جس نے تقدیر معین کی اور پھر ہدایت دی”۔ یعنی تقدیر الہیٰ  کا لازمہ ہدایت ہے اور انسان ہدایت تکوینی کے علاوہ ہدایت تشریعی کا بھی حامل ہے   جبکہ ہدایت تشریعی کی بنیاد انسان کے مختار اور آزاد ہونے پر ہے  جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{إِنَّا ہَدَيْنَاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا
کَفُورًا}14

یقینا ہم نےاسے راستے کی نشاندہی کی ہے چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والابن جائے ۔
قضائےالہیٰ سے مراد یہ ہے کہ کائنات پر کچھ اٹل ،ناقابل تغییراور قطعی قوانین حاکم ہیں جبکہ انسان کی زندگی پر حاکم دائمی اور حتمی نظام یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں اپنے علم وارادےسے انجام دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب انسان کسی کام کے کرنے کےبارےمیں قطعی فیصلہ کرتا ہےاور اس حوالےسےکوئی مانع بھی نہ ہوتو وہ کام حتما انجام پاتا ہے۔لہذا یہ قطعیت انسان کےاپنےاختیار سے وجود میں آئی  ہے  جو کسی بھی طریقے سے قضاءکے ساتھ منافات نہیں رکھتی ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :قدر کے معنی کسی چیز کا بقاء و فنا کے لحاظ سے اندازہ کرنا ہے اور قضا  سےمرادکسی چیز کی قطعیت و حقیقت حاصل ہونا ہے ۔15

مذکورہ مباحث سے واضح ہوا کہ علم ازلی اور ارادہ ازلی  دونوں قدرت و خالقیت الہیٰ کی طرح کسی بھی طریقے سے انسان کےمختار ہونےکے ساتھ منافات نہیں رکھتے۔کیونکہ خدا کا ازلی ارادہ اور علم،انسان کے ان افعال سے تعلق پیدا کرتےہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے انجام دیتا ہے ۔خداوند متعال کی خالقیت و قدرت حکیمانہ و عادلانہ ہیں جو کبھی  بھی انسان کے اختیاری نظام کو تبدیل نہیں کرتیں کیونکہ یہ عدل و حکمت الہیٰ  کے مطابق ہے ۔ قضا وقدر اور ان جیسے مسائل کی جزئیات کی وضاحت ان افراد کےلئے جو ایسے سخت مسائل کو درک کرنےیاسمجھنے کی صلاحیت وقدرت نہیں رکھتے، ضروری نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایسےافراد اپنےعقیدے کے بارے میں غلط فہمی اور شک و تردید سے دوچار ہوجائیں ۔اسی بناپر حضرت علی علیہ السلام ایسےافراد سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{طریق مظلم فلا تسلکوہ ،وبحرعمیق فلا تلجوہ وسر الله فلاتتکلفوہ}یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلیں،یہ ایک عمیق  سمند ر ہے اس میں غوطہ زن نہ ہو جائے یہ ایک سرالہی ہے اسے کشف کرنے کے لئے اپنےآپ کو زحمت میں نہ ڈالے ۔16

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی


حوالہ جات:
1۔انبیاء ،16۔
2۔ص،27۔
3۔بقرۃ،29۔
4۔مومنون،115۔
5۔ذاریات،56۔
6۔انسان،3۔
7۔توحید شیخ صدوق ،باب قضاوقدر ،روایت 28۔
8۔توحیدشیخ صدوق ،باب نفی جبر و تفویض،روایت 6۔
9۔بحار الانوار ،ج5،ص57۔
10۔جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ ،ص 151۔
11۔مقائیس  اللغۃ ج2 ص63۔مفردات راغب ،مادہ قضا و قدر۔
12۔قمر،49۔
13۔اعلی ، 3۔
14۔انسان،3۔
15۔اصول کافی،ج1،ص 158۔
16۔نہج البلاغۃ،کلمات قصار،287۔


وحدت نیوز( آرٹیکل)تاجربہت اداس تھا، طوطا بھی پریشان ہوگیا، اس نے پنجرے میں اپنے پر پھڑ پھڑائے، پنجرے کی سلاخوں کو چونچ سے ٹھوکریں ماریں، لیکن تاجر اس کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔ ننھا طوطا یہ سمجھ گیا کہ اس کا مالک اس سے آنکھیں چرارہا ہے، شام کو تاجر گھر لوٹا تو پھر وہی منظر تھا، تاجر کی ا داسی  اور طوطے کی پھڑ پھڑاہٹ۔

بالآخر طوطے نے مالک سے اداسی کی وجہ پوچھی، مالک نے گھبراتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھا، ماتھے سے پسینہ صاف کیا، اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا کہ میاں مٹھو! تمہارے لئے  بہت بری خبر ہے میرے پاس۔

طوطے نے کہا وہ تو میں جان ہی چکا ہوں ،  کئی دنوں سے آپ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہا ہوں، اب بتا بھی دیجئے!

تاجر نے کانپتے ہوئے بدن اور لرزتی ہوئی زبان سے جواب دیا کہ تمہارے نقشے کے مطابق جب میں فلاں باغ میں پہنچا تو وہاں تو عجب منظر تھا، ہرطرف چہک مہک تھی، سبزہ ہی سبزہ اور سبزے میں رنگ برنگے طوطے، میں نے اُن طوطوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اے فطرت کی رنگینیوں اور کائنات کے حُسن سے لطف اندوز ہونے والے آزاد پرندو تمہارے لئے فلاں علاقے کے فلاں تاجر کے پنجرے میں قید ایک طوطے نے سلام بھیجا ہے۔۔۔

یہ سُن کر  پنجرے میں قید طوطے نے ٹھنڈی آہ لی اور مالک سے پوچھا پھر کیا ہوا!؟

مالک نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنتے ہی سارے طوطے درختوں سے نیچے گر گئے اور ہرا بھرا باغ سنسان ہوگیا۔یہ سننا تھا کہ پرندے میں قید طوطے نے غم سے چیخیں ماریں اور پنجرے کی سلاخوں سے سر پٹخ کر وہیں مر گیا۔

تاجر کے غم اور دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا، اس نے طوطے کو پنجرے سے نکالا اور دور پھینک دیا ، طوطے نے فوراً اڑان بھری اور درخت پر جاکر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو کہنے لگا آزادی مبارک۔

اس حکایت سے ان گنت نتائج لئے جاتے ہیں، ان نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ  کسی کو جب قیدی اور غلامی سے نجات چاہیے ہوتو اس کے سامنے ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل موجود ہونا چاہیے جس کے عمل کے مطابق عمل کر کے غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔

پنجرے میں قید طوطے کے لئے باغ کے آزاد طوطوں نے ایک عملی پیغام بھیجا تھا جس پر عمل کر کے اس نے بھی آزادی حاصل کی۔ آج ہمارا ملک ، ہماری قوم ، اقتصادی، ثقافتی،سائنسی،تعلیمی اور سیاسی غلامی میں گرفتار ہے، کیا ان طرح طرح کی غلامیوں سے ہمارے یہ سیاستدان ، ہمیں نجات دلائیں گے! کیا ہمارے یہ سیاستدان ہمارے لئے رول ماڈل اور نمونہ عمل ہیں اور اِن کے نقشِ قدم پر چل کر ہم کوئی مثبت تبدیلی  حاصل کریں گے!؟

کیا آنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ لیڈر ہمارے ملک میں تبدیلی لائیں گے!؟

اتنی لاشیں اٹھانے  اور اتنی غربت و فقر کاٹنے کے باوجودکیا  ہم نے ابھی  تک دینِ اسلام کی طرف لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا!؟ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق پیغمبرِ اسلام ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور پیغمبرِ اسلام کے اسوہ حسنہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آزادی و خودمختاری کے ساتھ جینا ،دنیا کے ہرانسان کا بنیادی اور فطری حق ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی کہتے کسے ہیں؟

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کلین شیو کی جگہ داڑھی والا اقتدار میں آجائے، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض والا اسمبلی میں پہنچ جائے،انگلش کی جگہ اردو بولنے والا الیکشن میں جیت جائے، سرخ رنگ کے پرچموں کی جگہ سبز رنگ والے پرچم چھا جائیں تو یہ سب ہماری سادگی اور کم فکری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تبدیلی کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں، یہ سب کچھ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک کمرے میں کبھی سرخ رنگ کریں، کبھی سفید کریں، کبھی سیاہ کریں اور کبھی نیلا کریں لیکن اس سے کمرہ کشادہ ، کھلا اور آپ کی ضرورت کے مطابق وسیع نہیں ہو جائے گا۔

کمرے کے رنگ بدلنے سے کمرے کی گولائی، چوڑائی اور لمبائی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔آج ہماری سیاسی پارٹیاں حقیقی معنوں میں دیانت، شرافت، صداقت اور عدالت کھو چکی ہیں، ہر طرف  لوگوں کے جذبات سے کھیلنے،بے اصولی اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کا چلن ہے۔

ایک طرف جماعتوں کے سربراہ مشال خان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف جماعت  کے سرکردہ لوگ اور کارکنان قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، ایک طرف تعلیمی اداروں میں اسلامی کلچر کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور دوسری طرف  نعرے لگانے والوں کے ہاسٹلوں کے کمروں سے  دہشت گرد برآمد ہوتے ہیں، ایک طرف تبدیلی اور غیر موروثی سیاست کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے ۔

بحیثیتِ قوم یہ لوگ ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں بلاتفریق تعصب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسلامی تعلیمات میں  تبدیلی کے تین بنیادی عناصر ہیں:

۱۔ تمام بیت المال، زمینی، معدنی اور آبی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھا جائے

۲۔ تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے

۳۔  تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق ہر طرح کی دینی و مذہبی آزادی دی جائے اور کسی کی دل آزاری نہ کی جائے

جب ہمارا سیاسی و مذہبی  طبقہ تمام بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھے گا تو پھر امریکہ کے مفاد کے لئے بیت المال سے پیسہ دے کر لوگوں کے بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ نہیں دے گا۔

جب معدنی اور آبی زخائر کو اللہ کی ملکیت سمجھا جائے گا تو کسی صوبے کا حق نہیں مارا جائے گا، جب تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے گا تو پھر موروثی سیاست کا تصور ہی ختم ہوجائے گا اور کوئی وڈیرہ ، کوئی بدمعاش اور کوئی لٹیرا لوگوں پر زبردستی حکومت نہیں کر سکے گا ، اسی طرح جب  تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دی جائے گی تو کوئی مذہبی پنڈت کسی کی تکفیر نہیں کرے گا اور کوئی کسی کی عبادت گاہ کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔

آج ہمارے ہاں  بنیادی مسائل ہی یہ تین ہیں،  بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھنے کے بجائے ہمارے سیاستدان امریکہ اور یورپ کی امانت سمجھتے ہیں،  اور ان قومی وسائل اور ذخائر سے اسلام کے دشمنوں کی خدمت کرتے ہیں جیسا کہ ٹرمپ نے صرف سعودی عرب کے ایک دورے میں اربوں کے تحائف حاصل کئے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کا بندہ سمجھنے کے بجائے اپنے اپنے خاندان ، شخصیات، پارٹیوں اور تنظیموں کا بندہ، غلام اور نوکر سمجھا جاتا ہے اور مختلف قسم کے پروپیگنڈوں کے ذریعے لوگوں کو باقاعدہ ذہنی غلام بنایا جاتا ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ  ہمارے ہاں تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دینے کے بجائے اپنے فرقے یا پارٹی کو مسلط کرنے  کے لئے ساری حدود پھلانگ دی جاتی ہیں ۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی میں ایک فرقے  کے لیڈروں نے ایک  دوسرے فرقے کو دبانے کے لئے خود اپنے مدرسے کو آگ لگا دی اور اپنے لوگوں کو قتل کردیا۔

جب اس طرح کے مذہبی اور سیاسی لیڈر ہم پر حاکم ہیں تو اس وقت اس قوم کے سمجھدار اور باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  لوگوں کو بیدار اور خبردار کریں۔

جوخوددوسروں کولوٹ کر کھاتے ہیں، جن کی زبان پر گالیاں ہیں ، جن کے دامن پتھروں سے بھرے ہوئے ہیں، جن کے دماغوں میں سازشیں اور فتنے ہیں،جن کی سوچوں میں تعصب ہے،  جو فرقے اور صوبے کے نام پر بھائی کو بھائی سے لڑوا کر اور ایک دوسرے کو گالیاں دے کر نیز عوامی جذبات کو بھڑکا کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اُن سے کسی تبدیلی کی امید رکھنا حماقت ہے۔

ہمیں ابھی سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ا ٓنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ  سیاسی و مذہبی لیڈر ہمارے ملک میں  کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے، ہم سب کو ان سب  کا متبادل سوچنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے رہنماء سلیم احمد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسکردو شہر کا قریب ترین حلقہ ہونے کے باجود حلقہ نمبر دو اسکردو بدترین مسائل کا شکار ہے۔ عوام کی اکثریت پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور تعلیمی اداروں کی تعداد بھی شرمناک حد تک کم ہے۔ یہاں پر طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ اربارب اختیار کی کبھی توجہ اس حلقے کی طرف مبذول نہیں ہوئی۔ یہاں کی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں اور علاقے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ نمبر دو اسکردو رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بعض ضلعے کے برابر ہے لیکن ابھی تک حلقے سے آگے نہیں بڑھا، جو کہ یہاں کے نمائندوں کی نااہلی اور اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ سالوں میں حلقہ نمبر دو میں قدرتی آفات کے نتیجے میں سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے اور انکی بحالی کے لیے حکومتی اعلان پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ حلقے کے فنڈز اور ٹھیکوں میں بھی گھپلے اور من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ علاقے کے فنڈز کی تقسیم میں بھی انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔

سلیم احمد نے کہا کہ حلقہ نمبر دو اسکردو کے ساتھ جاری مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے اور ادارے اس حلقے کے ساتھ کھیلنے کا سلسلہ بند کرے۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حلقے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے جی بی کا بڑاحلقہ ہونے کے سبب یہاں کے سالانہ فنڈز پہلے تو کم ہے اور وہ بھی عوامی فلاح کی بجائے ذاتی مفادات کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی بی میں مردم شماری کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد حلقہ نمبر دو کے حوالے سے بھر پور تحریک چلائی جائے گی اور مزید حلقہ بندی یا ضلع کے حوالے سے مطالبہ تمام پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔

وحدت نیوز (ڈیرہ اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے روز ٹارگٹ کلنگ اور نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے خلاف کوٹلی امام حسینؑ کے سامنے ڈیرہ بنوں روڈ پر دھرنا دے دیا،ڈیرہ بنوں روڈ ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کردیا گیا، گاڑیوں کی لمبی قطاریں،تفصیلات کے مطابق  ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب سے کوٹلی امام حسین ؑ کے سامنے ڈیرہ بنوں شاہراہ پر احتجاجی دھرنا جاری ہے، اس موقع پر خواتین و حضرات سینکڑوں کی تعداد میں شاہراہ کو بلاک کرکے احتجاج کررہے ہیں،شرکاء  کی خیبرپختونخواحکومت اور تکفیری دہشت گردوں کے خلاف شدید نعرے بازی، قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ ۔

ایم ڈبلیوایم ضلع ڈی آئی خان کے سیکریٹری جنرل علامہ سید غضنفرعباس نقوی ، علامہ اظہر ندیم، مدوجان گوہر وزیر اور دیگر مقررین نے احتجاجی دھرنے کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کے پی کے حکومت بالخصوص ڈیرہ پولیس حالات کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے،چیف جسٹس ڈیرہ میں گرتی لاشوں پر سوموٹو ایکشن لیں،ڈیرہ کو سوچی سمجھی سازش کے تحت 2008-9 والے حالات کی طرف دھکیلا جارہا ہے،ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں ہے، چند عناصر حالات خراب کر رہے ہیں،شہر میں لاشیں گر رہی ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت شہر میں جشن اور رقص کی محفلیں سجا رہی ہے،آرمی چیف فی الفور دشت گردوں کے خلاف شہر میں بلاتفرق آپریشن کرکے دشتگردوں کو کیفرکردارتک پہنچائیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستا ن کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے ڈیرہ اسماعیل خان میں حالیہ دنوں میں جاری مسلسل دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ’’ مثالی پولیس‘‘ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ،ڈی آئی کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے وہاں کوئی محفوظ نہیں ہمارہ مطالبہ ہے کہ ڈی آئی خان کو فوج کے حوالے کیاجائے اور چیف جسٹس آف پاکستان ٹارگٹ کلنگ کا نوٹس لیں ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی سیکریٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، اس موقع پرمرکزی رہنما علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ اصغر عسکری، علامہ علی شیر انصاری ودیگر بھی موجودتھے۔


جب تک دہشت گردوں کے فکری رہنماؤں اور سہولت کاروں کو قانون کے شنکجے میں نہیں کسا جاتا تب تک دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے خاطر خواہ نتائج برآمد کرنا ممکن نہیں۔محکمہ پولیس کی غفلت اورفرض نا شناسی کے باعث ڈی آئی خان مکتب تشیع کی قتل گاہ بنا ہوا ہے اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردوں کے دفاتر کھل چکے ہیں اب وہاں پر عام آدمی کو قتل کیا جا رہا ہے رکشہ ڈرئیور،مزدور اور دوکاندار جیسے افراد ان کے نشانہ پر ہیں،شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے ۔گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہم نہ صرف دہشت گردی کا شکار ہے بلکہ پولیس کے نارواسلوک سے بھی اذیت میں بھی مبتلا ہے۔دہشت گرد ہماری لاشیں گرا رہے ہیں اور سیکورٹی ادارے اورپولیس الٹا ہمارے ہی لوگوں کو ہراساں کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ سے عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی سے وضاحت طلب کی جائے ۔وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کے پاس اتنا وقت بھی نہیں وہ عوام کو تحفظ فراہم کر نے کے اقدامات کریں اور شہدا کے گھروں میں جا کر اہل خانہ کی داد رسی کر سکیں۔ ڈی آئی خان کی ہر شاہراہ پر پولیس کے ناکے اور مسلسل گشت کے باوجود اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا ہمارے لیے شکوک و شبہات کا باعث ہے۔حکومت ہمارے کے خون کو سستا سمجھ رہی ہے۔ حکومت ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر قابو پانے کے لیے موثر حکمت عملی طے کرے۔ہمیں ضرب عضب اور ردالفساد ،دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت اور حب الوطنی کی سزا نہ دی جائے ۔ڈی آئی خان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہا پسندوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور آپریشن کا تقاضہ کر رہے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے موثر نتائج اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک کالعدم مذہبی جماعتوں سے دوستانہ تعلقات کا کھلم کھلا دعوی کرنے والے عناصر کو ملک دشمن قرار دے کر ان کے خلاف بھرپور کاروائی نہیں کی جاتی۔پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ وہ صوبے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا نوٹس لے اور وہاں کے مظلوم عوام کو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے تحفظ فراہم کریں۔

انہوں نے دہشت گردی کی حالیہ کاروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعات کے ذمہ داروں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔اُنہوں نے کہا کہ یہ طرز حکومت ہمارے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کی سرکوبی اور پاکستان کے تحفظ کے لیے حکومت کو اپنا آئینی کردار موثر انداز میں ادا کرنا ہو گا۔دہشت گردی کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ان دہشت گرد ساز فیکٹریوں کے خلاف آپریشن کیا جائے جہاں ناپختہ ذہنوں کی ایسے خطوط پر فکری رہنمائی کی جا رہی جس پر چل کر وہ ملک و قوم کے خلاف کاروائیوں کو عین عبادت تصور کرتے ہیں۔ شہید وں کے بلندی درجات اور اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

وحدت نیوز (کراچی) ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے واقعات کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کی جانب سے جامع مسجد نور ایمان ناظم آباد کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، مظاہرے کے شرکاءنے ہاتھوں میں بینرزاور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر صوبائی حکومت کی نااہلی کےخلاف اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کے حق میں نعرے درج تھے، احتجاجی مظاہرے کے شرکائے سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ صادق جعفری ، علامہ مبشر حسن، ناصر حسینی اور میر تقی ظفر نے کہا کہ کے پی کے حکومت بالخصوص ڈیرہ پولیس حالات کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے،ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پے در پے واقعات نے صوبائی حکومت کے گڈ گورننس اور مثالی پولیس کی تشکیل کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے،گذشتہ چند ہفتوں میں متعدد جوان بے دردی سے قتل کردیئے گئے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیجز میں قاتلوں کی واضح شناخت کے باوجود ایک بھی قاتل اب تک قانون کی گرفت میں نا آنا باعث تشویش ہے۔

رہنمائوں نے مزید کہاکہ حکومتی بے حسی سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ڈیرہ اسماعیل میں مارے جانے والے نا ہی اس ملک کے شہری ہیں اور ناہی انسان،سپریم کورٹ ڈیرہ میں گرتی لاشوں پر سوموٹو ایکشن لے،ڈیرہ کو سوچی سمجھی سازش کے تحت 2008-9 والے حالات کی طرف دھکیلا جارہا ہے،ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں ہے، چندتکفیری عناصر حالات خراب کر رہے ہیں،شہر میں لاشیں گر رہی ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت شہر میں جشن اور رقص کی محفلیں سجا رہی ہے،چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف فی الفور ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا نوٹس لیں اور دشت گردوں کے خلاف شہر میں بلاتفرق آپریشن کرکے دشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree