وحدت نیوز(کوئٹہ) شہدائے کیرانی روڈ کوئٹہ کی پانچویں برسی کے موقع پر کوئٹہ یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ تعزیتی جلسہ عام میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر سید فیصل رضا عابدی، مشیر خزانہ بلوچستان ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی اور کوئٹہ کے امام جمعہ علامہ محمد جمعہ اسدی سمیت دیگر رہنماؤں نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
سانحہ کیرانی روڈ کی پانچویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ آج کا احتجاجی جلسہ اس بات کی گواہ ہے کہ دشمن چاہے جتنی سازشیں کرلیں، شیعہ ہزارہ قوم حسینیت کا راستہ کبھی بھی نہیں چھوڑے گی،انہوں نے کہا کہ جس طرح سانحہ علمدارروڈ اور سانحہ کرانی روڈ کے بعد کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم نے ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا، وہ پوری پاکستانی قوم کے لئے نجات کا باعث بنی۔
تعزیتی جلسہ عام سے خطاب میں وزیر داخلہ بلوچستان کا کہنا تھا کہ میں شیعہ ہزارہ قوم کے شہیدوں کے پسماندگان کا غم سمجھتا ہوں۔ آج پانچ سالوں بعد بھی شہیدوں کی برسی کی تقریب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے نہ کبھی دہشتگردوں کے آگے سر جھکایا اور نہ آئندہ جھکائینگے۔ شیعہ ہزارہ قوم نے دہشتگردوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس نظریئے کو وہ بندوق کے ذریعے ہم پر مسلط کرنا چاہتے تھے، اسکو آپ نے مسترد کر دیا ہے۔
امام جمعہ کوئٹہ و جامعہ امام صادق کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی کا کہنا تھا کہ کرانی روڈ کے شہیدوں کے پسماندگان کے غم میں پوری پاکستان کی شیعہ برداری برابر کی شریک ہے۔ جس طرح دہشتگردی کے خلاف ہماری قوم متحد ہوئی، اسی طرح ہمیں اپنے تمام قومی مفادات کے حصول کے لئے متحد ہوکر حکومت اور دنیا کے سامنے اکٹھے ہوکر کھڑے ہونا ہوگا۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان سے دہشتگردی کے ناسور کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔
احتجاجی جلسے سے خطاب میں ہزارہ قومی جرگے کے صدر حاجی قیوم علی چنگیزی کا کہنا تھا کہ ہمارے قاتل آج بھی کوئٹہ میں دندناتے پھرتے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے دو دہشتگرد حافظ عثمان اور ضیاء الحق شاہوانی کو اڑھائی سال قبل ملٹری کورٹس سے موت کی سزا سنائی گئی لیکن آج تک انہیں تختہ دار پر لٹکایا نہیں گیا۔
احتجاجی جلسے کے آخر میں سابق سینیٹر سید فیصل رضا عابدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ ہزارہ قوم گذشتہ پانچ سالوں سے کرانی روڈ کے شہداء کی یاد میں برسی نہیں بلکہ انصاف نہ ملنے پر احتجاج کر رہی ہے۔ دنیا میں ہم سے زیادہ مظلوم کون ہوگا، جو گذشتہ سترہ سالوں سے نہ بجلی مانگتی ہے، نہ گیس، نہ دیگر مراعات بلکہ صرف اپنے بے گناہ لاشوں کا انصاف مانگ رہی ہیں۔ ملٹری کورٹس سے جن دہشتگردوں کو سزائے موت دی گئی ہیں، سپریم کورٹ نے ان پرعملدرآمد کو غیر قانون طور پر روکا ہوا ہے۔ جب ہم اپنا حق لینے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹائیں تو ہم پر توہین عدالت کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ جتنی لاشیں اس قوم نے اٹھائی، اگر دو لاشیں ان ججز کے گھر میں آجاتی تو وہ کہرام مچا دیتے، کیونکہ ان میں وہ برداشت ہے ہی نہیں۔
وحدت نیوز (کراچی) نوجوان سید رمیز حسین شاہ کا اغواءقابل مذمت ہے، دس روز گذرجانے کے باوجود تاحال بازیاب نا ہوناباعث تشویش ہے، قانون نافذکرنے والے ادارے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، وزیر اعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ ، ڈی جی رینجرز نوجوان رمیز حسین شاہ کی بازیابی کیلئے فوری اقدامات کریں، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری اطلاعات سید احسن عباس رضوی نے مدینہ کالونی کھوکراپار کے رہائشی سید نسیم حسین شاہ سے وحدت ہائوس کراچی میں ملاقات کے بعد میڈیا کو جاری بیان میں کیا۔
انہوں نے کہاکہ تھانہ کھوکراپار ملیر کی حدودسے پندرہ سالہ نوجوان سید رمیز حسین شاہ ولد سید نسیم حسین شاہ کے مبینہ اغواءکو دس روز گذرگئے ہیں لیکن تاحال سکیورٹی ادارے مغوی کو بازیاب کروانے اور اغواء کاروں کی گرفتاری میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، مغوی بچہ 9فروری 2018بروز جمعہ شام 7 بجے ماں سے پیسے لیکر نذدیکی دکان سے چیز لینے گیا اور تاحال واپس نا آیا، مغوی کے اہل خانہ سے انتہائی تک ودو کے بعد تھانہ کھوکراپار میں نوجوان کے اغواءکی نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے ، لیکن پولیس تاحال کسی بھی نتیجے پر پہنچنے پر ناکام دیکھائی دیتی ہے،مغوی کے اہل خانہ اس وقت شدید اضطراب میں مبتلا ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہماری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی بھی نہیں ۔
انہوں نے مزید کہاکہ گذشتہ تین سالوں میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے کراچی آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم سمیت اغواءکی وارداتوں میں کمی دیکھنے میں آئی تھی لیکن گذشتہ چند ماہ سے شہر قائد میں اسٹریٹ کرائمز اور اغواء کی وارداتوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جوکہ سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کے ناکوں کے باوجود ڈاکوئوں اور اغواءکاروں کا دھندناتے پھرنا شہریوں کیلئے خوف کا باعث بنا ہوا ہے ، انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ نوجوان سید رمیز حسین شاہ کی فوری باحفاظت بازیابی کو یقینی بنانے کیلئے جلد از جلد اقدامات اٹھائے جائیں اور متعلقہ اداروں سے بازپرس بھی کی جائے۔
وحدت نیوز (انٹرویو) اپنے خصوصی انٹرویو میں سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے منافقانہ روش ترک کرنا ہوگی، امریکی اور سعودی بلاک سے نکلنا ہوگا، دہشتگردوں کے سہولتکاروں کو بھی سزا دینا ہوگا، کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے سے اجتناب برتنا ہوگا، ایم ایم اے دور میں تکفیری ذہنیت کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا، ڈیرہ اسماعیل کے حالات کی خرابی کی ایک وجہ پولیس میں موجود تکفیری ذہنیت ہے۔ عمران خان کے وزیر ڈرپوک ہیں، ڈرپوک قیادت دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، انہوں نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کرکے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ علمی حوالے سے بہت مضبوط ہیں، اسکے علاوہ حالات حاضرہ کا بہت ہی زبردست تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ ایران کی سرزمین قم المقدس میں دینی تعلیم حاصل کی، اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجلس کے مرکزی پروگراموں میں اہل سنت جماعتوں کے قائدین موجود ہوتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے علامہ ناصر عباس جعفری سے موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ
سوال : دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کی جانیوالی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آپ دہشتگردی کے درخت کو نہیں کاٹیں گئے یا فقط اس کی شاخیں کاٹتے رہیں گے، آپ پاکستان کے عوام کی جان اور مال کی حفاظت نہیں کرسکتے، دہشتگردی کے مقابلے کے لئے چار سے پانچ اقدامات ضروری تھے، جو کرنے چاہیئے تھے، مثال کے طور پر ان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا، سیاسی لحاظ سے تنہا کرنا، سماج میں ان کی جڑوں کو ختم کرنا، مذہبی طور پر ان کا مقابلہ کرنا اور عسکری لحاظ ان کو غیر مسلح اور ان کا مقابلہ کرنا، اس کے علاوہ عوام کو شعور دینا کہ یہ عوام اور ملک کے دشمن ہیں، ان سے تعاون نہ کریں۔ حکمران کہتے ہیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے، بھائی صاحب انکا مذہب ہے، یہ اللہ اکبر کہتے ہیں، یہ اپنا مکتب فکر رکھتے ہیں، یہ بکتے اور دوسروں کے لئے کام کرتے ہیں۔ جب تک آپ دشمن کے بارے میں کنفیوژ ہیں اور سوسائٹی کو آگاہ نہیں کرتے، دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہے گا، چند لوگوں کو آپ مار کر کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کو مار دیا، اصل کام تو آپ نے کیا ہی نہیں، دہشتگرد ہمارے معاشرے میں سکیورٹی تھریٹ ہیں اور یہ تھریٹ کم ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع کوشش نہیں ہو رہی، آپ نے دیکھا کہ پچھلے دنوں تکفریوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک بیانیہ تیار کرایا گیا اور اس پر دستخط کرائے گئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس نے تکفیر کی، کیا اس کو سزا ملنی چاہیے؟، جس نے انتہا پسندی کو فروغ دیا، اس کو کیا سزا ملی۔؟ ضیاءالحق کے دور سے انتہا پسندی کو زیادہ ہوا ملی ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری افغان پالیسی تھی، اس افغان پالیسی نے پاکستان کو عوام کے لئے جہنم بنا دیا، پالیسی بنانے والوں سے کسی نے پوچھا ہے کہ تم نے یہ پالیسی کیوں بنائی تھی؟، کسی کو جواب دینے کے بلایا گیا؟، جب احتساب ہی نہیں تو پھر ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے کیا ہوگا۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ناقص اپروچ اور ناقص پلاینگ کی گئی ہے، اس پلاننگ میں انتہا پسندی پھیلانے والوں کو ٹچ تک نہیں کیا گیا۔
سوال: ناقص اپروچ سے مراد کیا ہے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: دیکھیں پاکستان جس بلاک میں تھا، اس بلاک نے دہشتگردی کو دنیا میں پھلایا ہے، وہ امریکن بلاک کہلاتا ہے، تمام دنیا میں بڑے بڑے دہشتگرد بنانے میں امریکہ کا بڑا رول ہے، اس دہشتگردی پھیلانے میں سعودی عرب بھی ملوث ہے، امریکی آل سعود کے ساتھ ملکر داعش کو اس خطے میں لائے ہیں، ویسٹرن ایشیاء کے بعد اب افغانستان میں داعش کو لایا جا رہا ہے، مقصد اس ریجن کو ڈسٹرب رکھنا ہے، ہم (حکمران) کہتے ہیں کہ امریکہ اور آل سعود ہمارے دوست ہیں، یمن کے اندر القاعدہ مصبوط ہو رہی ہے، داعش کو مضبوط کیا جا رہا ہے، یہ یمن کے ان علاقوں میں ہو رہا ہے، جہاں سعودیوں کا ہولڈ ہے یا پھر یو اے ای کا اثرو رسوخ ہے، آپ نے دیکھا کہ شام میں پوری دنیا سے تکفیریوں کو جمع کیا گیا، ان دہشتگردوں کو ٹرینگ دی گئی اور مسلح کیا گیا۔ یہی حال عراق کا ہے، اب اگر آپ دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپکو اس بلاک سے نکلنا ہوگا، اس اپروچ کے ساتھ کہ امریکہ اور سعودی عرب ہمارے دوست ہیں، دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔
سوال: تو آپکی نگاہ میں کیسے اقدامات کی ضرورت ہے، جس سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہو۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ پورے پاکستان کے اندر بغیر کسی تمیز کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بےنقاب کرکے ان کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی۔ اداروں میں موجود گھس بیٹھیئے جو ضیاء الحق کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں بھی بےنقاب کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو امریکی بلاک سے نکلنا پڑے گا، یاد رکھیں کہ امریکہ کو اس ریجن میں ناامنی سوٹ کرتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک کے آپس میں تعلقات بہتر نہ ہوں۔ لہٰذا پاکستان کو اس طرف آنا پڑے گا۔
سوال: ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہی۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ڈی آئی خان ایک مظلوم علاقہ ہے، یہاں کے لوگ پاکستان سے اور آپس میں محبت کرنے والے لوگ ہیں، اس علاقے کیساتھ وزیرستان لگتا ہے، اسٹریٹیجک حوالے سے بہت اہم علاقہ ہے، سی پیک کا مغربی روٹ یہاں سے گزرنے والا ہے، یہاں کئی عوامل کارفرما ہیں، زمینوں کی اہمیت بڑھ چکی ہے، ڈیرہ میں عام عوام اور غریب لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، اہلیبت علیہ السلام کے ماننے والوں کو مارا جا رہا ہے، یہ ٹارگٹ کلنگ خیبر پختونخوا کی حکومت اور اس کی مثالی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہاں پر جگہ جگہ پولیس اور ایف سی کی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پوسٹیں عوام کیلئے نہیں بلکہ دہشتگردوں کی حفاظت کیلئے بنائی گئی ہیں، جب کوئی مارا جاتا ہے تو وزیراعلٰی بات تک نہیں کرتا، یہ لوگ وہاں جاتے تک نہیں، سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھیں کہ کیسے بےخوف ہوکر لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ کیا آپ ڈیرہ کی تین سڑکوں کی حفاظت نہیں کرسکتے؟، اتنی چیک پوسٹیں ہونے کے باوجود قاتل کیسے قتل کرکے چلے جاتے ہیں، اس کا کوئی جواب دے گا۔؟ دراصل یہ آپس میں ملے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ جیل ٹوٹی تو انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا، ان کو پہلے سے پتہ تھا کہ جیل ٹوٹے گی، ڈیرہ میں جو کینٹ کا بریگیڈیئر تھا، اس نے پہلے وزٹ کیا اور بتایا کہ جیل کو کیسے محفوظ بنانا ہے، اس کی سکیورٹی کرنی ہے، اس کے بعد جیل پر حملہ ہوتا ہے، جیل کے تالے ٹوٹتے ہیں، جیل کے تمام قیدیوں کو وہ ساتھ لیکر چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں جتنے بھی شیعہ قیدی تھے، ان کو وہاں پر شہید کردیا جاتا ہے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ ڈی آئی خان سے لیکر وزیرستان تک کئی چک پوسٹیں آئیں، لیکن ایک بھی فائر نہیں کیا گیا، وہ محفوظ انداز میں اپنی منزل پر پہنچ گئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس بندے کی ڈیوٹی تھی، اس علاقے کی سکیورٹی کی، اس کو نکالا نہیں جاتا بلکہ اس کی پرموشن کی جاتی ہے۔ یہ سب جوابدہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک کا نظام درست نہیں ہے، گڑبڑ کرنے والے لوگ اداروں میں موجود ہیں، جیل ٹوٹ گئی، دہشتگرد آئے اور گزر بھی گئے، راستے میں کتنی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، کتنے کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا، کسی نے روکا تک نہیں، میں کہتا ہوں کہ پاکستان کو بربادی کی طرف لیکر جایا جا رہا ہے، شاخیں کاٹ رہے ہیں، دہشتگردی کی جڑیں نہیں کاٹ رہے، ان کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور میں داخل ہوچکا ہے، پاکستان کے اندر اگر درست اقدامات نہ ہوئے اور اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ فقط غریب لوگ مارے جا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ انکے بچے بھی مارے جائیں گے، پشاور آرمی سکول کا واقعہ ان کو جنجھوڑنے کیلئے کافی تھا۔ یہ آگ ان کے گھروں تک پہنچے گی، پہلے بھی پہنچی تھی اور آئندہ بھی پہنچے گئی، ڈیرہ میں جو رکشہ ڈرائیور اٹھارہ سال کا مارا گیا، وہ بھی کسی کا بلاول اور کسی کا حمزہ تھا۔ امام علی علیہ السلام کا قول ہے کہ حکومتیں کفر سے باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم پر نہیں۔
سوال: بھوک ہڑتال کے دنوں عمران خان خود چل کر آپکے پاس آئے تھے، اسکے باوجود ڈیرہ میں حالات نہیں بدلے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: مجھے تو لگتا ہے ان کی حکومت بہت کمزور ہے، یہ لوگ دہشتگردوں سے خوف زدہ ہیں، پچھلے واقعات کے اندر جب عمران خان نے اپنے ایک وزیر کو فوکل پرسن بنایا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے، میں نے تو یہاں رہنا ہے، یہاں ان کا ہولڈ ہے، اب اندازہ لگائیں کہ ان کے تو وزیر دہشتگردون سے ڈرتے ہیں، یہ عوام کا تحفظ کیسے کریں گے۔ یہاں تو عوامی نمائندوں کا یہ حال ہے تو یہ دہشتگردوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ میں عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ ڈی آئی خان میں تو آپ کا ایک ایم پی اے موجود ہے، وہ لوگوں کے پاس کیوں چل کر نہیں جاتا۔ دیکھیں وہاں ہم پر ظلم ہو رہا ہے، لوگوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے، ڈی آئی خان ہماری قتل گاہ بنا ہوا ہے، عمران خان کو خود وہاں پر جانا چاہیے تھا، ابھی تک کیوں نہیں کیا۔؟ عمران خان پنجاب میں تو جگہ جگہ پہنچ جاتا ہے، کسی اور صوبے میں ظلم و زیادتی ہو تو فوراً پہنچ جاتا ہے، لیکن اپنے صوبے میں یہ جانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ پوائنٹ سکورنگ کرتا ہے، دوسروں کو نیچا دکھاتا ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے، عمران خان کے لوگ دلیر نہیں ہیں، یہ ڈرتے ہیں، ڈرپوک حکمران دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
ہمیں عمران خان سے مایوسی ہوئی ہے، انہیں خود ڈی آئی خان جانا چاہیے تھا، وہاں پر ہماری زمینوں پر قبضے کئے جا رہے ہیں، تین سو ستائیں کنال سے زیادہ زمین وہاں امام بارگاہ کے نام پر وقف ہے، محکمہ اوقاف کی جانب سے نگران دور میں جعلی طور پر انتقال کرایا گیا اور قبضہ کیا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ زمین انتقال چڑھ چکی تھی، اب اس پر قبضہ کرکے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں، افسوس اس بات ہے کہ ہندوں اور عیسائیوں کی زمین پر قبضہ نہیں کیا گیا، لیکن سرکاری سرپرستی میں وہاں پر 2013ء میں یعنی نگران حکومت کے دور میں قبضہ کیا گیا۔ ہم نے بار بار کہا کہ جعلی انتقال کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے، لیکن وہ نہیں کر رہے۔ عمران خان تحریک انصاف کی بات کرتا ہے انصاف چاہتا ہے، بابا دیگ کا ایک چاول چک کرو تو پوری دیگ کا پتہ چل جاتا ہے، ہمیں افسوس ہے کہ ڈیرہ میں امن قائم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا، ہم کہتے ہیں کہ آرمی چیف خود دلچسپی لیں۔ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں۔ ہم سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر بھی مشاورت کر رہے ہیں۔
سوال: 2018ء کے الیکشن کے حوالے کیا سوچ رہے ہیں۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ان شاء اللہ الیکشن میں بھرپور شرکت کریں گے، لوگوں کی رہنمائی کریں گے، کوشش کریں گے کہ کسی مناسب پارٹی سے اتحاد ہو جائے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھی کوشش کر رہے ہیں، بلآخر ہم ایک مذہبی سیاسی جماعت ہیں۔
سوال: کیا ایم ایم اے کا حصہ بنیں گے، اگر رابطہ کیا جائے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ہم ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنیں گے، ایم ایم اے نے جو کام کیا، کے پی کے میں ہم ابھی تک اسے بھگت رہے ہیں، ان لوگوں نے متعصب لوگوں کو بھرتی کیا، میرٹ کی پامالی کرکے تکفیریوں کو بھرتی کیا گیا، ہر ادارے کے اندر تکفیری سوچ کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان لوگوں نے جو ایک بڑا کام کیا وہ یہ کہ ایجوکیشن، ہیلتھ، پولیس اور ایجنسی میں جگہ جگہ پر اپنے لوگوں کو بھرتی کیا، اگر ایم ایم اے کی کسی بھی صوبے میں حکومت آگئی تو آپ سمجھیں کہ وہ صوبہ برباد ہو جائے گا، یہ لوگ ہر ادارے میں اپنی سوچ کے حامل افراد بیٹھانا چاہتے ہیں، یہ میرٹ کے قاتل ہیں۔ ان کی چھتری تلے دہشتگرد اور انتہا پسند پرواز چڑھتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں پولیس میں ان کے لوگ ہیں، یہ لوگوں کی ریکی کرواتے ہیں، ڈی آئی خان میں اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ ہمارے لئے ایم ایم اے دور میں بھرتی کئے گئے لوگ بڑا مسئلہ ہیں، اس وقت جو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور قتل عام ہو رہا ہے، اس کی ایک وجہ وہ لوگ ہیں، جو اس وقت بھرتی کئے گئے۔ ایم ایم اے میں تکفیری اور انتہا پسند لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔
سوال: کسی جماعت نے رابطہ کیا۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ہمارے ساتھ پیپلزپارٹی نے رابطہ کیا ہے اور عمران خان نے بھی رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دماغ کی غذا علم ہے، ساری غذائیں چمچ سے نہیں کھائی جاتیں، کچھ ہاتھ سے، کچھ گلاس سے اور کچھ کپ سے لی جاتی ہیں، اسی طرح ہر غذا کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے، صبح ناشتے میں جو غذائیں پسند کی جاتی ہیں وہ دوپہر کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں اور رات کے کھانے میں جن چیزوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ ناشتے اور دن کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں۔
جس طرح جسم کے رشد اور ارتقا کے لئے مختلف غذاوں کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح دماغ کے رشد اور ارتقا کے لئے بھی مختلف علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرینِ تعلیم، طالب علم کی عمر ،اس کے ماحول اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق علوم کی بھی درجہ بندی کرتے ہیں۔
ہر عمر کے تناسب سے طالب علم کو مناسب مقدار میں علم دیا جاتا ہے اور ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق طالب علم کو مفید علم سیکھنے اور حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بدن کی غذا کی طرح دماغ کی غذا یعنی علم دینے کے بھی مختلف طریقے اور روشیں ہیں جن سے مناسب استفادہ ضروری ہے۔
جس طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اسی طرح مجموعی طور پر ایک ملت کو بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ دانشمندوں اور ہمارے ماہرین تعلیم کا کام ہے کہ وہ بحیثیت ملت اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔
مسجد کےمحراب و منبر سے لے کر میڈیا تک یہ سب انسانی تعلیم و تربیت کے ذرائع ہیں، انہی ذرائع کو بروئے کار لاکر ہم اپنے ملی و قومی شعور میں بطریقِ احسن اضافہ کر سکتے ہیں۔ انسان فطری طور پر علم کا تشنہ ہے، اگر انسان فطری تقاضوں کا ساتھ دے تو پورا نظامِ کائنات اس کی مدد کرتا ہے۔
آج ہمارے ہاں ہر چیز میں بگاڑ ہے، ہر شخص ناراض ہے، ہر شعبہ خراب ہے چونکہ ہم بحیثیت قوم نظامِ فطرت سے ہٹے ہوئے ہیں، جس طرح اسلام، دینِ فطرت ہے اسی طرح علم، انسان کی فطری ضرورت ہے ، چنانچہ دینِ اسلام میں بھی بار بار حصولِ علم کی تاکید کی گئی ہے ۔
کبھی کہا گیا ہے کہ علم حاصل کرو مہد سے لے کر لحد تک یعنی علم حاصل کرنے میں عمر کی کوئی قید نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے یعنی علم کی خاطر ہجرت کرنے میں اور دوسرے ممالک کی طرف جانے میں کوئی مضائقہ نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مردو عورت پر فرض ہے یعنی علم کے حصول میں لڑکے اور لڑکی کا کوئی فرق نہیں۔
بلاشبہ علم انسانی معاشرے کی مسلسل ضرورت اور انسانی فطرت کی مسلسل آواز ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر طور پر اُن لوگوں کا منبر و محراب اور میڈیا پر قبضہ ہوتا ہے جو خود علمی طور پر عقب ماندہ ہوتے ہیں۔ جب محراب و منبر اور میڈیا پر عقب ماندہ لوگ براجمان ہوتے ہیں تو معاشرہ بھی پسماندگی کی طرف جاتا ہے اور معاشرے پر ایسے لوگ حکومت کرتے ہیں جن کی تعلیمی ڈگریاں تک جعلی ہوتی ہیں۔
جب محراب و منبر ، میڈیا اور سیاست میں تعلیمی و اخلاقی طور پر زوال پذیر لوگ چھائے ہوئے ہوں تو ماہرین تعلیم اور دانشمندوں کی اوّلین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ منبر و محراب، سیاست اور میڈیا کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور شائستہ اور بہترین افراد کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھائیں۔
جب تک ہم اپنی قوم کی تعلیمی و شعوری سطح بلند نہیں کرتے ، بچوں کی طرح مساجد و مدارس اور سیاست دانوں نیز میڈیا پرسنز کے ایک مخصوص تعلیمی و اخلاقی معیار کے قائل نہیں ہوجاتے اس وقت تک صرف ووٹ ڈالنے اور الیکشن کرانے سے ملکی و قومی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
سیاسی شعور اور بازار سے آٹا اور صابن خریدنے کے شعور میں بہت فرق ہے، جب ووٹ ڈالنے والے کو ہم نے سیاسی شعور ہی نہیں دیا اور اس کی سیاسی تربیت ہی نہیں کی تو وہ کبھی آٹے کی ایک بوری کی خاطر اور کبھی برادری، فرقے یا علاقائی و لسانی تعصب کی خاطر ہی ووٹ دے گا۔
اس وقت انتخابات سے پہلے سیاسی دانشوروں اور عمومی مفکرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو سیاسی طور پر بیدار کریں، انہیں ملک و قوم کا نفع و نقصان سمجھائیں، انہیں سیاست کی ابجد سے آشنا کریں اور ان کے سامنے ایک صاف و شفاف سیاسی نظریہ پیش کریں۔
خصوصا جو تنظیمیں اپنے آپ کو الٰہی و نظریاتی کہتی ہیں ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو الٰہی سیاست کے اصولوں کی تعلیم دیں۔
چونکہ جس طرح تعلیم و تربیت کے بغیر بچہ عقب ماندہ رہ جاتا ہے اسی طرح تعلیم و تربیت کے بغیر اقوام بھی پسماندہ اور عقب ماندہ رہ جاتی ہیں ۔
آج ہمیں ایک ایسی اسلامی حکومت کی ضرورت ہے کہ جسمیں کم از کم مندرجہ زیل خصوصیات پائی جائیں:
۱۔ لوگوں کا انتخابات میں انتخاب اُن کے ایمان ، تعلیم اور کردار کی وجہ سے کیا جائے
۲۔ کچہری سسٹم اور عدالتی نظام میں رشوت خور بابو حضرات اور ہرکاروں کا خاتمہ کیا جائے
۳۔امیر و غریب سب کے بچوں کے لئے ایک جیسا معیاری اور جدید نظامِ تعلیم فراہم کیا جائے
۴۔کام اور روزگار کے مواقع رشوت اور سفارش کے بجائے ، تعلیم، میرٹ اور تجربے کی بنیاد پر سب کے لئے یکساں ہوں
۵۔ تھانوں اور دیگر سرکاری داروں میں عوام کے احترام کو یقینی بنایا جائے اور سرکاری اہلکاروں کی تربیت و نگرانی کی جائے تاکہ رشوت و سفارش کا خاتمہ ہو
۶۔ عوام کو قانونی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی تعلیم اور شعور دیا جائے
۷۔بنیادی انسانی حقوق پر سب کا حق تسلیم کیا جائے
۸۔ صحت کے سہولتیں امیر و غریب کے لئے ایک جیسی ہونی چاہیے
یہ ہم نے کم از کم خصوصیات کا ذکر کیا ہے ۔ جب تک ہم عوام کو اسلامی نظام ریاست و سیاست سے آشنا نہیں کریں گے ، عوام کو آٹے کی بوری اور برادری سے باہر نہیں نکالیں گے تب تک ، پاکستان بحرانات سے نہیں نکل سکتا اور عوام کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (میونخ، جرمنی /مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کیمپوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس چلے جائیں۔جرمنی کے شہر میونخ میں جاری تین روزہ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں پاکستان کےآرمی چیف نے کہا کہ سرحد کے ساتھ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔آرمی چیف نے کہا کہ ’پاکستان وہی کاٹ رہا ہے جو 40 سال پہلے بویا گیا تھا جب بڑی تعداد میں لوگوں کو مسلح کیا گیا اور نظریاتی طور پر انتہا پسند بنایا گیا اب انھیں وہ پسند نہیں ہیں تو اسے فوری طور ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اسے ختم کرنے میں وقت درکار ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی اب عالمی مسئلہ ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے بھی عالمی سطح پر جدوجہد کرنا ہو گی۔پاکستان کی فوج کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں خود مختار ملک ہیں اور دونوں کی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے۔انھوں نے پاکستان میں مقیم 27 لاکھ افغان پناہ گزین کی افغانستان واپسی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے مابین سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو گی۔’خراب تعلقات کے ذمہ دار پاکستان اور افغانستان دونوں ہیں‘آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہیں ہیں تاہم مختلف شکلوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور تحریکِ طالبان پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کیمپوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور وہاں سے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور وہاں پناہ لی جاتی ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک وآپس چلے جائیں۔‘آرمی چیف نے جماعت الاحرار، تحریک طالبان پاکستان اور دولت اسلامیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔
انھوں نے پاکستان میں دہشت گردی اور جہاد کے حوالے سے مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی اور پاکستان کا موقف پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کوہے اور خود پر قابو رکھنا بہترین جہاد ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ جہاد کو انتہا پسندی کے پرچار کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، جو جہاد نہیں بلکہ انتہا پسندی ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف آپریشن کیا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ شدید نقصان کےباوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں کھڑا ہے اور دہشت گردی ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل پیرا ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیئے گئے قومی دولت کو واپس لانے کے لئے موثر اقدامات ہونے چاہئیں ۔لیکن ظالم اور خائین حکمران سب سے بڑی رکاوٹ ہیں یہ پاکستانی عوام کا پیسہ ہے صرف عادل حکمران ہی اس ظلم اور ناانصافی کا رستہ روک سکتے ہیں ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بلکسر میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام جب تک ان چورں لٹیروں ڈاکوں کو منتخب کرتے رہیں گے ان کے پیسوں پر ایسے ہی لوٹ مار جاری رہے گی ۔ان کے پاکستان میں بھی محلات ہیں اور دبئی امریکہ و یورپ میں بھی محلات بنا رکھے ہیں۔پاکستانی عوام کے نام پر قرضے لئے جاتے ہیں اور یہ چند ہزارلٹیرے ہیں جو عوام کا مال لوٹ کر باہر لے جاتے ہیں پاکستان مذید قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جار ہا ہے ۔ان کو عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں ان کے ہر منصوبے کا مقصد زیادہ سے زیادہ اور نئے طریقوں سے عوام کے مال کی لوٹ کھسوٹ کرنا ہوتا ہے ۔پاکستانیوں کی صرف دبئی میں کھربوں روپے کی جائیدادیں ہیں ،یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ اکیس کروڑ کے ملک میں صرف گیارہ لاکھ لوگ فائلرز ہیں ۔قومی دولت لوٹنے والوں کا بلاامتیاز احتساب کرنا ہوگا اوریہ تب ہی ممکن ہو سکتاہے جب عوام جماعتی وابستگی برادری علاقہ و زبان کی سیاست سے بالا تر ہو کر نیک اور عادل افراد کو پارلیمنٹ میں پہنچائیں گے ۔موجودہ سسٹم اور حکمران لوٹی گئی ملکی دولت کو واپس لانے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ عادل حکمران ہی اس ظلم اور ناانصافی کا رستہ روک سکتے ہیں ۔