وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور اراکین مرکزی کابینہ علامہ امین شہیدی ،علامہ شفقت شیرازی،علامہ حسن ظفرنقوی، علامہ اعجاز بہشتی،علامہ احمد اقبال رضوی او رابوذرمہدوی، ناصرشیرازی ،صوبائی سیکریٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی، سیکریٹری جنرل سندھ علامہ مختارامامی،سیکریٹری جنرل خیبر پختونخواعلامہ سبطین حسینی، سیکریٹری جنرل گلگت بلتستان علامہ شیخ نیئر عباس، سیکریٹری جنرل بلوچستان علامہ مقصودڈومکی اور سیکریٹری جنرل ریاست جموں کشمیرعلامہ تصور جوادی نے ایم ڈبلیوایم شعبہ قم المقدس کی سیکریٹری جنرل علامہ ڈاکٹرشیخ غلام محمد فخر الدین کی سانحہ منیٰ میں المناک شہادت پر اپنے مشترکہ بیان میں دلی رنج وغم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علامہ فخر الدین کی شہادت نا فقط اہل بلتستان بلکہ پوری ملت تشیع کا عظیم نقصان ہے،علامہ فخر الدین کی شہادت سے ملت تشیع ایک بڑے مدبر،شجاع ، نڈر، خطیب بے مثال اور مدافع ولایت سے محروم ہوگئی ہے، شہید کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، عہد شباب سے ہی شہید نے انقلاب اسلامی او رمقام معظم رہبری کی عملی اتباءاو ر پیروی کا آغاز کیا،ملک کے گوش وکنار میں حقیقی نظام ولایت کی سفیر بن کر گئے،یہاں تک کہ حج بیت اللہ کے موقع پر بھی وہ اپنی شرعی ذمہ داریوں سےکما حقہ عہدہ برآں ہوتے رہے ،دوران حج حکم امام خمینی کی تعمیل میں خود بھی برائت ازمشرکین کیلئے صف اول میں دکھائی دیتے بلکہ دیگر حجاج کو بھی اس عمل خیر کی تاکید کرتے،شہید کی غریب الوطنی اور دیار غیر میں شہادت پوری امت مسلمہ بالعموم اور مجلس وحدت مسلمین کیلئے بالخصوص بار گراں ہے،آغائے فخر الدین جیسے گوہر نایاب صدیوں میں جنم پاتے ہیں،اس عظیم سانحے پر ہم امام زمانہ عج، رہبر معظم انقلاب اور شہید خانوادے کی خدمت میں ہدیہ تعزیت اور تسلیت عرض کرتے ہیں ،ساتھ ہی پسماندگان کیلئے اس دکھ اور الم کی گھڑی میں خداسے خصوصی صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں ، خدا ہمیں شہید کے مشن کی تکمیل کی توفیق عنایت فرمائے۔
وحدت نیوز (پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبرپختونخوا کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سبطین حسین الحسینی نے پشاور میں منعقدہ شہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعۃ الشہید عارف حسین الحسینی شہید قائد کی یادگار ہے، لہذا ملت کو دین کی بہتر رہنمائی اور معارف و تعلیمات آل محمد (ع) سے آشنا کرانے کے لئے ضروری ہے کہ جامعۃ الشہید کی سرپرستی میں مرکز تبلیغات اسلامی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ اس ادارے کا ایک الگ تشخص ہو اور یہ ادارہ علوم و معارف اہل بیت (ع) کی ترویج و تبلیغ کے لئے ایک منظم انداز میں کام کرےاور اس سلسلہ کو آگے بڑھائے۔ رہنما ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ ہمارے شہداء صبر و استقامت کے پہاڑ تھے ، انہوں نے راہ حسین (ع) پہ چل کے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے اور شمع فروزاں بن کر ملت کو صبر و استقامت کا درس دیتے رہے۔ ہم بھی شہدا کے راہی ہیں اور زمانہ کے تمام تر ستم کے باوجود یاد و فکر شہدا زندہ ہے اور ہم اسے تابندہ رکھیں گے۔ 27 سال گزر جانے کے باوجود شہید قائد کی یاد اور دیگر شہدا ملت کا تذکرہ شہدا کی قربانیوں اور ان کے اخلاص کا نتیجہ ہے۔ ہم اس سفر کو جاری رکھیں گے اور تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یاد شہدا کو زندہ رکھیں گے۔
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام شیخ نیئر عباس مصطفوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ محرم حق و صداقت کی فتح اور ظلم و سرکشی کے زوال کا مہینہ ہے، ہر دور کے ظالم و جابر حکمران اپنے اقتدار کے چھن جانے کے خوف سے ماہ محرم میں بیجا پابندیاں عائد کرکے اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے ہیں، لیکن یہ خون حسین علیہ السلام کی تاثیر ہے کہ آج پوری دنیا حسین کے عشق میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محرم صبر و استقامت، فداکاری اور ایثار و قربانی کا مہینہ ہے اور محرم کی مجالس میں شرکت کرکے اپنی زندگی کو بابرکت بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں نواسہ رسول ؐ نے اپنے پورے خاندان کو دین اسلام کی آبیاری کیلئے خدا کی راہ میں قربان کر دیا اور رہتی دنیا تک ظلم و بربریت اور ناانصافی کے خلاف انسانیت کو استقامت و جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا درس دیا، آج کوئی اسلام اور انسانیت کی بات کرتا ہے تو یہ خون حسین کا صدقہ ہے۔
شیخ نیئر عباس مصطفوی نے تمام خطباء، علمائے کرام اور ذاکرین عظام سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی تقاریر اور وعظ و نصیحت کی محافل و مجالس میں واقعہ کربلا کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ امن، محبت اور بھائی چارگی کے سنہرے اصولوں پر اظہار خیال کریں۔ تمام اسلامی مسالک کے مابین فروعی اختلافات کو موضوع بحث نہ بنائیں بلکہ مشترکات کے تذکرے سے مسالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمارے اتحاد سے خوف زدہ ہیں اور نت نئی سازشوں کے ذریعے اسلامی مکاتب فکر کے درمیاں اختلافات کو ہوا دیکر فتنہ و فساد برپا کرنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے علاقے میں پائیدار امن کیلئے اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کریں۔
وحدت نیوز (مشہد مقدس) مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین عقیل حسین خان نے منیٰ واقعہ میں حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر غلام محمد فخر الدین کی شھادت پرگہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ حجۃ الاسلام والمسلمین شھید فخرالدین واقعا اسلام کا فخر تھے اورپاکستانی علماء میں ایک منفرد حیثیت کی شخصیت تھے ،کہ جن کی شھادت سے ایک ایسا خلا واقع ہوا ہے جس کے پر ہونے میں مدتیں لگیں گی۔
حجۃ الاسلام والمسلمین عقیل حسین خان نے کہا کہ علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین اپنے نام کی طرح ملت تشیع پاکستان کا فخر اور اپنی مثال آپ تھے جو علم و عمل میں اھل البیت علیہم السلام کے حقیقی پیروکار تو اخلاق و کردار اور گفتار میں شھید قائد علامہ عارف حسین الحسینی(رح) کی یادگار تھے۔
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس نے کہا شھید علامہ فخر الدین علم و عمل میں زھد و تقوی میں بے مثال تھے وہ مبلغ ولایت و نظریہ ولایت فقیہ تھے اور ہمیشہ نشر و تبلیغ علوم آل محمد علیہم السلام میں کوشاں تھے ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین عقیل حسین خان نے کہا علامہ ڈاکٹر شھید فخر الدین کی شھادت کے موقع پر ہم امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف ،مقام معظم رہبری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل ،ناصرملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور شھید کے خانوادہ محترم کی خدمت میں تسلیت وتعزیت پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدایا شھید کو جوار آئمہ میں بلند ترین مقام عنایت فرما اور شھید کے خانوادہ کو صبر جمیل عنایت فرما (آمین یا رب العالمین)
وحدت نیوز (مکہ مکرمہ) بلتستان کے نامور عالم دین، بلند پایہ خطیب، عالم مبارز مجلس وحدت مسلمین قم المقدسہ کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام علامہ شیخ غلام محمد فخرالدین کی سانحہ منٰی میں شہادت کی تصدیق ہوگئی، انکے جسد خاکی کی تدفین کل سعودی عرب میں ہوئی۔ خانوادہ شہید کو انکی شہادت کی اطلاع دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق رواں سال دوران حج سعودی حکومت کی مجرمانہ غفلت کے سبب پیش آنے والے دلخراش سانحے میں بلتستان کے سات حجاج گمشدہ تھے، ان میں ایک شیخ غلام محمد فخرالدین بھی شامل تھے۔ گذشتہ روز ایک کنٹینر سے علامہ موصوف کی لاش اتارنے کی خبر کی تصدیق ہوگئی ہے، جس کی سعودی عرب میں ہی تدفین کر دی گئی ہے۔ علامہ شیخ غلام محمد فخرالدین امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدرکی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں جبکہ ان دنوں وہ مجلس وحدت مسلمین قم کےسیکریٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ انکی شہادت کے بعد بلتستان میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے، جسے پر کرنا آسان نہیں۔ حجت الاسلام شیخ غلام محمد فخرالدین نے رواں سال 28 جنوری کو المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی قم ایران سے اپنے تحقیقی تھیسز کا کامیاب دفاع مکمل کرنے کے بعد قرآنیات میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ موصوف کو اس مقالے کی نہایت عالمانہ تکمیل پر ساڑھے اٹھانوے فیصد نمبر دیئے گئے اور وہ المصطفٰی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے بلتستان کے چوتھے دانشور تھے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو نظریے سے عمل کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ان کا کہنا ہے کہ کسی کے نظریے سے اس کے عمل کا پتہ چلتا ہے اور دوسرے وہ ہیں کہ جن کا کہنا ہے کہ کردار سے کسی کے نظریے و عقیدے کا پتہ چلتا ہے ۔
ہم فیصلہ تاریخ سے کرواتے ہیں ۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نظریے سے عمل کا نہیں بلکہ عمل سے نظریے و عقیدے کا پتہ چلتا ہے فرعون کوہی لے لیجیے فرعون کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ منکر خدا تھا اس نے حضرت موسی ٰ ؑ کے مقابلے میں آکر توحید کو جھٹلانے کی کوشش کی تھی اور اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا اپنی جھوٹی خدائی کو باقی رکھنے کےلیے بنی اسرائیل کے معصوم بچوں کا قتل عام کرتا تھا اسی طرح نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال کر خدا سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ میری بحث فرعون یا نمرود کے عقیدے و نظرے پر نہیں ہے ان کے عقیدے تو واضح تھے بلکہ یہ تو خود ہی اپنے عقیدے کا اظہار کرتے تھے اپنے آپ کو خدا کہلواتے تھے اور اپنی خدائی کو باقی رکھنے کےلیے لوگوں کا قتل عام کیا کرتے تھے ہم نے ان کو بطور نمونہ اور اپنی بات کے ثبوت کے لیے کہ عمل سے عقیدے کا پتہ چلتا ہے پیش کیا ہے ۔
میں بات ان کے عقیدے و نظریئے پر کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ظاہرا اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے جیسے یزید !
تاریخ گواہ ہے کہ یزید نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یزید نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں اسلام کو اتنا نقصان پہنچایا کہ جس کا ازالہ قیامت تک نہیں کیا جاسکتا ،اس کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی واقعہ کربلا رونما ہوا، اس نے کربلا کے میدان میں جو ظلم خاندان پیغمبر ؑ پر کیا اس سے انسانیت کانپ اٹھتی ہے،اس نے محسن انسانیت امام حسین ؑ کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا،یزید اپنے آپ کو خلیفہ رسولﷺ سمجھتا تھا اور نواسہ رسولﷺ کو اس خلافت کا باغی کہتا تھا اسی بات کو لے کر یزید نے اپنے بنائے ہوئے نام نہاد مفتیوں سے امام حسینؑ کے قتل کا فتوی جاری کروایا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی کا بک جانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ رسم تو یزید سے چلی آ رہی ہے ،یزید کے مظالم یہاں تک نہ رکے بلکہ مکے و مدینے کی سرحدوں کو بھی پار کر گے اس نے مکے پر دھاوا بول کر خانہ خدا کو آگ لگا کر حجاج کرام کو قتل کیا،پھر مکے سے نکل کر اس نے مدینے پر حملہ کر کے دس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے اور تین دن تک مسجد نبوی نیں اذان اور نماز نہ ہو سکی اور اپنے فوجوں پر مدینے میں رہنے والے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال قرار دیا اور کافی تعداد میں ناجائز بچے پیدا ہوئے۔[1]
ان سارے مظالم پر اس وقت بھی چند لوگوں کے سواء ساری امت مسلمہ خاموش رہی اور یزید کے ان تمام مظالم کو اسلام کا رنگ دیتی رہی ۔ یہ تھی یزید کے عمل کی اس کے نظریے و عقیدے پر دلالت ۔
اب بات تھوڑی سی آل سعود کے عقیدے و نظریے پر ہو جائے کہ ان کے عقیدے و نظریے کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں، آل سعود نے اقتدار میں آتے ہی کردار یزیدی کو دہرانا شروع کر دیا ،جس طرح یزید نے مدینے پر حملہ کیاا تھا اسی طرح اآل سعود کے پہلے خلیفہ محمد بن سعود نے مدینے پر حملہ کر کے مزارات اہلبیتؑ و اصحاب پیغمبرﷺ کو گرایا اور روزہ رسول کی بے حرمتی کی[2] ۔
جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ کو شہید کیا تھا اسی طرح آلِ سعودنے کربلا پہ حملہ کر کے امام حسین ؑ کے مزار کو گراکر یزید کی سنت پر عمل کیا، یزید نے کعبے پر حملہ کر کے خانہ خدا کو جلایا تھا اور بہت سارے حجاج کو قتل کیا تھا،آلِ سعود نے یزید کی اس سنت کو اسی سال منیٰ کے میدان میں پورا کیا،یزید نے کعبےکو جلایا تھا آلِ سعود نے حجاج کرام کی لاشوں کو سورج کی تپش سے جھلسا کر یزید کی سنّت ادادکی۔
یزید نے ذوالحجہ میں مدینے پر حملہ کیا تھا اور تقریباً چار ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے ،اس سال سانحہ منیٰ بھی ذوالحجہ میں پیش آیا ہے اوراس میں بھی تقریباً چار ہزار سے زائد حجاج کرام بڑی بے دردی سے مارے گئے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ یزید کا کارنامہ تھا اوریہ اآل یزید کا کار نامہ ہے۔
جس طرح سے یزید نے اپنے پالتو مفتیوں سے امام حسین کے قتل کا فتویٰ جاری کروایا تھا اسی طرح آلِ سعود نے بھی اپنے زر خرید مفتیوں کے ذریعے سے حجاج کرام کے قتل کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرایا ہے۔
یزید بھی حرام مہینوں میں مسلمانوں کو قتل کرتا تھا آلِ سعود نے بھی حرام مہینوں میں یمن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ، یزید اپنے آپ کو امیر المومنین کہتا تھا آلِ سعود اپنے آپ کو خادمین حرمین کہتے ہیں۔
جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں چھوٹے چھوٹے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اسی طرح یہ آل سعود آج یمن میں بچوں کا قتل عام کررہے ہیں ، نہتے یمنیوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح امت مسلمہ یزید کے ظلم پر خاموش تھی اسی طرح آج ال سعود کے مظالم پر بھی خاموش ہے۔ ماضی میں جس طرح یزید کی عیاشیوں، بدکاریوں اور مظالم کو چھپایاجاتاتھا اسی طرح آج آلِ سعودکی عیاشیوں،بدکاریوں اور مظالم کو چھپایاجارہاہے۔
لیکن ہمارے میڈیا،حکمرانوں،نام نہاد مفتیوں اور زرخرید دین کے ٹھیکیداروں کو تاریخ سے یہ عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتاہے۔حکومت اور دولت کی طاقت سے جب یزید اپنے آپ کو زیادہ عرسے تک امیرالمومنین نہیں کہلوا سکا تو آلِ سعود خادم الحرمین شریفین ہونے کا ڈھونگ کب تک رچائے رکھیں گے۔یزید کی طرح آلِ سعود کا ہر عمل ان کے باطل ہونے پر کھلاگواہ ہے۔
تحریر۔ سجاد احمد مستوئی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[1] :خلافت و ملوکیت ص 182،تاریخ طبری ج4ص472،ابن الشر ج3 ص310
[2] از تاریخ نجد و حجاز