The Latest
گذشتہ ہفتے ہونے والے سانحہ بابوسرٹاپ نے نہ صرف اہل وطن کو بلکہ پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون ،ہیومن راٹئس کمیشن سمیت متعدد اہم اداروں اور شخصیات نے سخت الفاظ میں مذمت کی تو دوسری طرف پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی مومنٹ کے قائد نے اہل تشیع کے قتل عام کو پاکستان اور بانی پاکستان کے قتل سے تعبیر کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی جبکہ ملک اور ملک سے باہر شدیداحتجاج ہوا میڈیا نے اس دلخراش سانحے پر خصوصی ٹاک شوز کئے
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر دہشت گرد پاکستان کی تیس فیصد آبادی(عالمی اداروں نے اس تعداد کا ذکرکیاہے)سے کیا چاہتے ہیں کوئٹہ ،کراچی سے لیکر انتہائی پرامن علاقہ گلگت بلتستان تک اہل تشیع کے قتل کے کیا مقاصد ہیں ؟
ممکن ہے کہ اس قتل عام کے کئی پہلو ہوں لیکن تجزیہ کار جن پہلوپر زیادہ بحث کرچکے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں
یہ قتل وہ افراد انجام دے رہیں جن کا ایک خاص نقط نظر ہے اور اپنے مخالف نقطہ نظر کو وہ دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہوئے واجب القتل سمجھتے ہیں جن کو ضیاء الحق کے زمانے میں خاص حالات کی وجہ سے بھر پور طاقت فراہم کی گئی
کچھ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں قتل کا مقصد ایران سے تعلقات کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ ملک مخالف بلوچ شدت پسندوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کو ملک سے ملانے والی شاہراہ قراقرم میں بد امنی کا مقصد چین کو زک پہنچانا ہے
جبکہ کچھ تجزیہ کار اسے صرف فرقہ واریت قراردیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ فرقہ واریت دومتحارب فرقوں میں ہوتی ہے جبکہ یہاں صرف ایک ہی مسلک کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے
کچھ کا خیال ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی میں چونکہ اہل تشیع آسان ٹارگٹ ہیں اسلئے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے بعد وہ تمام طاقتیں جو اس کے حق میں نہیں تھیں سرگرم ہوچکیں
ان تمام تجزیوں کو اگر بغور دیکھا ئے تو سوائے فرقہ واریت کے باقی تمام تجزئے ایک دوسرے سے متصادم نہیں بلکہ اس قتل عام کے پیچھے اکھٹے ہوسکتے ہیں
لیکن قاتل کیا چاہتے ہیں ؟
قاتل چاہتے ہیں کہ ملک کی دفاعی لائن کمزور ہو ،قاتل ملک کے خیر خواہوں کو ملک کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں ،قاتل پاکستان میں خانہ جنگی کے متلاشی ہیں ،قاتل پاکستان کو ہمسائیوں کی نظروں سے گرانا چاہتے ہیں قاتل ملک میں ایسی انارکی چاہتے ہیں جس کا نتیجہ بین الاقوامی سطح پر ایک ناکام ریاست کے طور پر منوانا ہے
قاتل یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک کی پانچ کروڈ آبادی اصلی مسائل کی جانب متوجہ نہ رہے اور ان کی تمام تر مصروفیات سرنوشت ساز مسائل سے ہٹ کر دوسری جانب رہے
قاتل کامقصد ملک میں اس ایجنڈے کی تکمیل ہے جسے عالمی سامراجی طاقتیں عرصہ داراز سے کوشش کر رہی ہیں کیونکہ قاتل ملک کے پانچ کروڈسے زائد اہل تشیع کو اس ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ سمجھتے ہیں اس لئے نشانہ بنارہے ہیں تاکہ اہل تشیع کی رائے میں بھی کچھ بے وقوف بلوچوں کی طرح تبدیلی آئے ،کیونکہ قاتل جانتے ہیں کہ شیعہ کبھی کسی بیرونی ملک دشمن طاقت کا آلہ کار نہیں رہا،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل تشیع کی مکتبی تعلیمات وطن کے دفاع کو جان کے دفاع سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔
کیونکہ دشمن سمجھتا ہے کہ اہل تشیع کبھی بھی کسی ملک دشمن بیرونی قوتوں کے سازش کا شکار نہیں ہو سکتیں لہذا انہیں اس قدر ماروکہ ان میں یہ احساس محرومی و عدم تحفظ اس قدر بڑھے کہ ان کی سوچ میں تبدیلی آئے ۔
یہاں یہ نکتہ اہم ہے کہ سامراج نے جن قاتلوں کو اس کام کے لئے چنا ہے وہ مکمل طور پر مذہبی جنونی اور عقل و خرد سے بے بہرہ لوگ ہیں جنکو خاص سوچ کے تحت ایسے ٹرین کیاگیا ہے کہ وہ اس سوچ سے آگے پیچھے سوچ ہیں نہیں سکتے کیونکہ ان کے عقل کے استعمال کی تمام راہیں بندکی گئی ہیں اور وہ ایک ایسے غلام کی مانند ہوچکے جو صرف اطاعت کرنا جانتے ہیں ،وہ اس ربوٹ کی مانند ہیں جو صرف فیڈ شدہ ڈیٹا پر ہی عمل کرتے ہیں
ایسے میں صاحبان عقل و خرد کو وہ تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ان غلاموں اور ربوٹس کو لگام دیا جا سکے
ملک میں پہلی بار آزاد میڈیا نے کھل کر ان قاتلوں کی حقیقت کو کسی حد تک پہلی بارکھول دیا وگرنہ تو یہاں ایسے معاملات میں پہلی سے رٹی رٹائی اصطلاحات اور چند مخصوص انداز کی گفتگو کے بعد اس موضوع پر مزید کچھ کہنا شجر ممنوعہ کی مانند تھا ۔
اس وقت ہماری ذمہ داری اس ایک جملے میں خلاصہ ہوتی ہے جسے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت نے بھی واضح کردیا ہے کہ ’’میدان میں حاضر رہنا‘‘حالات کیسے بھی ہوں ہم میدان سے جانے والے نہیں اور ہمارے قاتل چاہتے ہیں کہ ہم میدان سے ہٹ جائیں اور میدان خالی کریں اصلی اور اصولی مسائل سے توجہ ہٹادیں ۔۔۔تحریر ع صلاح ایم ڈبلیو ایم میڈیا سیل
جناب قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ 1914ء میں پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد ماجد حکیم چراغ دین نے آپ کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری آپ کے تایا حکیم شھاب الدیں کے سپرد کر رکھی تھی ۔پانچ برس کی عمر میں تایا نے آپ کو قرآن کریم کے علاوہ عربی زبان کی تدریس بھی شروع کر دی تھی ، جس کے بعد تقریباً سات سال کی عمر میں آپ بے حدیث و فقہ کی تعلیم کا آغاز کیا ۔ جناب مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ نے قران حکیم ،عربی ،حدیث اور فقہ کی تعلیم اپنے تایا حکیم شھاب الدین کے علاوہ ، مولانا چراغ علی خطیب جامع مسجد اہل سنت اور حکیم قاضی عبدالرحیم ، جو کہ ندوی لکھنو کے فارغ التحصیل تھے ، سے بھی حاصل کی ۔ آپ نے بارہ برس کی عمر تک طب حدیث فقہ اور عربی زبان میں کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا ۔ 1926ء میں مرزا احمد علی مرحوم آپ کو اپنے ہمراہ لکھنو لے گیے جھاں آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں مولانا ابوالحسن عرف منن صاحب ، جناب سعید علی نقوی ، جناب مولانا ظھورالحسن اور جناب مفتی احمد علی مرحوم سے کسب علم وفیض فرمایا ۔ مدرسہ ناظمیہ میں تحصیل علم کے دوران آپ اپنی ذہانت کے باعث کافی معروف ہوئے ۔ آپ نے وہاں امتحانات میں نہ صرف یہ کہ امتیازی اور نمایاں حیثیت حاصل کی بلکہ کچھ اعزازی سندیں بھی حاصل کیں ۔ نو سال تک لکھنوء میں تحصیل علم کے بعد آپ 1935ء میں اعلی تعلیم کے لیے باب العلم علیہ السلام کے شہر نجف اشرف (عراق) میں تشریف لے گئے جھاں پانچ سال تک جوار امام علی علیہ السلام میں حوزہ علمیہ کے جید علماء کرام وفقہاء عظام سے کسب فیض کیا ، کہ جن میں دیگر علماء کرام کے علاوہ صاحب شریعت ، عالم باعمل جناب آیت اللہ العظمی آقای سید ابوالحسن اصفہانی رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں ۔ نجف اشرف (عراق) سے پانچ سال کے بعد آپ فارغ التحصیل ہوکر 1940ء میں گوجرانوالا میں تشریف لاءے تو آپ حجۃ الاسلام مفتی جعفر حسین کے نام متعارف ہوئے آپ جید عالم دین ھونے کے ساتھ ساتھ بہترین مبلغ اور مقرر بھی تھے ۔ آپ ایک نڈر ، بے باک ، راست گو اور سادہ انسان تھے ، آپ پر جو بھی مذھبی فرایض عاید ہوئے آپ نے انھیں ھمیشہ لگن ، محنت اور دیانتداری سے انجام دیا ۔ بالآخرہ بروز پیر 29اگست 1982ء کوداعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دارفانی سے ایک قوم کو گریاں چھوڑتے ہوئے وفات فرماگئے ۔ آپ کی خدمات درجہ ذیل ہیں
1 ترجمہ نھج البلاغہ
2 ترجمہ صحیفہ کاملہ
3 سیرت امیرالمومنین علیہ السلام
4 ملت جعفریہ کی قیادت
ترجمہ نھج البلاغہ
یہ کتاب حضرت علی علیہ الاسلام کے خطبات ، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ہے ۔ قرن 4ھ میں سید شریف رضی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت کے یہ خطبات ،خطوط اور کلمات قصار کہ جو ان کی نظر میں فصاحت وبلاغت کے انتھایی آخری درجہ کو پہنچے ہوئے تھے ، جمع کیے اور اسی مناسبت سے اس کتاب کانام نھج البلاغہ (یعنی بلاغت کا راستہ) رکھا ۔ یہ کتاب پوری دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھنے کی بنا پر مشھور ہے ۔اس کتاب پر زبان عربی ،فارسی اورانگریزی میں بھت ساری شروحات اور ترجمہ لکھے جاچکے ہیں ۔ مفتی صاحب نے اھل اردوزبان پر احسان کرتے ھوءے اس عظیم شہ پارے کواردوزبان میں ترجمہ اور مختصر شرح کے ساتھ پیش کیا۔ آج تک جس کسی نے اس کتاب کو ایک مرتبہ پڑھا ہے پھر اس کا گرویدہ ھو گیاھے ۔
ترجمہ صحیفہ کاملہ
یہ کتاب چوتھے امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام کی دعاووں پر مشتمل ہے ان تمام دووں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اورخود امام عالی موام علیہ السلام سے ھم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے ۔یہ کتاب جوکہ زبور آل محمد (ص) کے نام سے مشھور ھےتمام مسلم دنیا میں معروف ہے ۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشھور عالم دین طنطاوی جوھری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران ، اور یہ اھل بیت (ع) میں سے ایک مشھور بزرگ ھستی کے کلمات ہیں ۔ یہ دونوں کلام ، وہ ااسمان سے نازل شدہ کلام ، اور یہ اھل بیت کے صدیقین مین سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں ۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ھوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک مین اے فرزندان اسلام ، اے اھل سنت ، اے اھل تشیع ۔ کیا اب بھی وقت نھین آیا کہ تم قران اور اھل بیت کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلارھے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف ، جن سے عجاءب قدرت منکشف ھوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ھوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آواور ان ھدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرواور سورج کے نیچے ، زمین کے اوپر زندہ رھنے کا سامان کرو۔ آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے ۔
سیرت امیرالمومنین علیہ السلام
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔ جسمیں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے ۔
ملت جعفریہ کی قیادت
علمی میدان کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی آپ علیہ رحمہ نے کافی خدمات انجام دی ہیں جن میں سے صرف شیعیان پاکستان کی عظیم الشان رھبری سرفھرست ھےآپ ھی وہ عظیم ھستی کہ جنھوں نے شیعیان پاکستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے تحریک جعفریہ پاکستان کی سب سے پھلی صدارت قبول فرمایی اور قاید ملت جعفریہ پاکستان کے نام ھمیشہ آپ کا احسان شیعیان پاکستان پر باقی رہ جایے گا۔
سرگودھا کی تحصیل خوشاب کے محلے نامے والی میں گزشتہ سیلاب سے متاثرہونے والی مسجد امام محمد باقرعلیہ السلام کی تعمیر نوکا کام مکمل ہوگیا اور مسجد اہل محلہ کے حوالے کر دی گئی ۔ اس مسجد کی تعمیر نو کا کام مجلس وحدت مسلمین کے شعبہ ء ویلفیئر خیر العمل فاؤنڈیشن کی جانب سے کیا گیاہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا ہے پاکستانی عوام کو درپیش تمام مشکلات اور مسائل کا واحد حل قومی اتحاد اور وحدت امت ہے ، اگر پوری قوم یک زبان ہو کر دہشت گردی ، لاقانونیت اور دیگر معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کے تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں ، انہوں نے ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ، بالخصوص سانحہ بابو سر ٹاپ، سانحہ چلاس اور کوئٹہ میں شیعہ قتل عام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی خاموشی کیخلاف مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے پندرہ ستمبر کو اسلام آباد میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ا عوام کو مسائل و مشکلات کے گرداب سے نکالنے کے لیے اٹھایا جانے والا مستحسن اور موثر اقدام قرار دیا ۔ علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا کہ موجودہ ملکی حالت کے تناظر میں پوری قوم کو ا یک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے اور اور ظلم و ناانصافیوں کے خلاف قومی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ مجلس وحدت مسلمین ایک نظریاتی جماعت ہے جس نے ہر مشکل گھڑی اور ہردور ابتلا میں قوم کو حوصلہ دیا اور عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرتے ہوئے ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ، انشاء اللہ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے اٹھا یا جانے وا لا یہ اقدام بھی نتیجہ خیز ثابت ہو گا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ اور پھر مرکزی سیکرٹری جنرل کی قیادت میں ایگزکٹیو کیمٹی کی اہم میٹنگز کے بعد ملک بھر میں شیعہ نسل کشی کے خلاف احتجاجی تحریک کے آغاز کے لئے ایم ڈبلیو ایم ضلع راولپنڈی اور اسلام آباد کی ایک اہم میٹنگ ہوئی اس میٹنگ کی ابتداء میں مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مختصر گفتگو کی ۔
آپ نے اپنی گفتگو میں ضلع کے عہدہ داران کو آل شیعہ کانفرنس اور احتجاجی تحریک کے حوالے سے اہم ہدایات دیں اور رہنمائی کی آپ نے فرمایا کہ تاریخ تشیع خون کی سرخی سے استقامت اور شجاعت سے لکھی گئی ہے ہم میدان میں حاضر ہیں ،دشمن ہماری بیداری سے خوف زدہ ہے اور ہمیں اپنے اصولی اور اصلی اہداف سے ہٹانا چاہتا ہے ،کیونکہ ہم اس وطن کی پہلی دفاعی لائن ہیں لہذا ہمیں بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہیے ہم کبھی بھی میدان سے ہٹنے والے نہیں ۔
اس اہم میٹنگ میں احتجاجی تحریک کے سلسلے میں لگائی جانے والی احتجاجی کیمپ اور آل شیعہ پارٹیز کانفرنس کے بارے میں ضلع کے عہدہ داران نے گفتگو کی اور تقسیم کار کیا
واضح رہے کہ یہ احتجاجی کیمپ اسی ہفتے میں دارالحکومت اسلام آباد میں لگائی جائے گی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے سانحہ بابوسر، سانحہ یوم القدس کراچی اور دیگر شہدائے ملت جعفریہ پاکستان کے ایصال ثواب کے لئے عزاخانہ زہرا ( س ) سولجر بازار کراچی میں ایک مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا۔ مجلس سے خطاب ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ترجمان علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کیا۔ مجلس میں علامہ آفتاب حیدر جعفری، علامہ شبیر الحسن طاہری اور دیگر علمائے کرام کے علاوہ مومنین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر نوحہ خوانی کے فرائض ممتاز نوحہ خوان علی صفدر نے انجام دیئے۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملت جعفریہ کی نسل کشی میں حکمران اور چیف جسٹس ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تھپڑ پر سوموٹو ایکشن لینے والے چیف جسٹس کو گلگت اور کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں ملت جعفریہ پر پے در پے حملے نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ صابر ہے اور اپنے عزم و استقامت کے ذریعے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنائے گی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ کی ایگزکٹیو کیمٹی نے گذشتہ روز اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں ملک بھر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اہم فیصلہ جات کئے جن میں سے ایک اہم فیصلہ مزید صلح مشورے اور مشترکہ لائحہ عمل کے لئے آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا ہے
اس سے قبل بھی مجلس وحدت مسلمین نے عزداری کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے ایک اہم آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلائی تھی جس کے انتہائی مفید اور اہم نتائج برآمد ہوئے تھے اس کانفرنس سے قبل ملک بھر میں ایک خاص اندازسے عزاداری کے جلوس کے خلاف ایک منظم پروپگنڈہ شروع ہوچکا تھا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا کہنا ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں بھی بلا تفریق تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو دعوت دی جائے گی جو مل بیٹھ کر ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کے حوالے سے ممکنہ اقدامات پر غور کرینگے
البتہ مجلس وحدت مسلمین ملک میں ملت جعفریہ کے قومی پیلٹ فارم ہونے کی حثیت سے صرف آل پارٹیز کانفرنس ہی کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ دیگر ضروری اقدامات کی جانب بھی ملت کو متوجہ کررہا ہے جن میں پرامن احتجاج،احتجاجی کیمپ ،اہم ملاقاتیں وغیرہ شامل ہیں
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ کی ایگزکٹیوکیمٹی کا اہم اجلاس مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی صدارت میں ہوا جس میں ملک بھر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اہم فیصلہ جات ہوئے اس اہم اجلاس میں مرکزی کیمیٹی کے جو اراکین موجود تھے ان میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ،علامہ محمد امین شہیدی،علامہ شبیر بخاری،علامہ حسنین گردیزی،علامہ مظہر کاظمی،ناصر عباس شیرازی،اقراحسین شامل تھے ۔کیمیٹی نے ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اپنی شدید فکرمندی کااظہار کرتے ہوئے حکومت اور سیکوریٹی فورسز کی جانب سے اس مسئلے پر عدم توجہ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ،اجلاس میں شہدائے ملت جعفریہ کے لئے فاتحہ پڑھی گئی اور لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا
کیمٹی کے اہم فیصلے
کیمٹی نے اس سلسلے میں اہم فیصلہ جات کئے جن میں سے چند ایک یہ ہیں
الف:شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے 15ستمبر کو اسلام آباد میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی
ب:اسلام آباد میں اس مسئلے کے حل کے لئے ایک احتجاجی و تشہیراتی کیمپ لگایا جائے گا
ج:اس مسئلے کے مستقل راہ حل کی تلاش کے لئے مختلف جماعتوں ، شخصیات اور متعلقہ ذمہ دار اداروں کے ساتھ ملاقاتیں کی جاینگی
جبکہ 8/9ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے مرکزی شوری کے اجلاس کا ایک اہم ایجنڈہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہی ہوگا
تفصیلات
مجلس وحدت مسلمین نے ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ، بالخصوص سانحہ بابو سر ٹاپ، سانحہ چلاس اور کوئٹہ میں شیعہ قتل عام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی خاموشی کیخلاف آئندہ کا مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے پندہ ستمبر کو آل پاکستان شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کانفرنس اسلام آباد میں طلب کی گئی ہے جس میں تمام شیعہ تنظیموں کے سربراہان، جید علمائے کرام اور اہم شخصیات کو دعوت دی جائیگی۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ اور آئندہ کا لائحہ عمل جاری کیا جائیگا۔
آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی مرکزی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ تین روز تک جاری رہنے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں سانحہ بابوسر اور ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف اسلام آباد میں مستقل احتجاجی کیمپ لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، یہ کیمپ اس وقت تک لگا رہے گا جب تک شیعہ قوم کے مطالبات نہیں مان لیے جاتے اور عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ کیمپ میں تمام سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد کو شرکت کی دعوت دی جائیگی۔
مرکزی کابینہ نے 8،9 ستمبر کو اسلام آباد میں تنظیمی کنونشن بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ تنظیمی کنونشن میں ملک بھر سے 80 سے زائد اضلاع کے تنظیمی عہدیداران اور چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان کے صوبائی عہدیدارن شریک ہونگے۔ تنظیمی کنونشن میں ایم ڈبلیو ایم کی شوریٰ عالی اور شوریٰ نظارت کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں ملک کی بدلتی ہوئی صورتحال اور تنظیمی لائحہ عمل پر غور کیا جائیگا۔ مرکزی کابینہ نے علماء اور ٹیکنوکریٹ پر مشتمل ایک وفد گلگت بلتستان بھیجنے کی بھی منظوری دی، یہ وفد گلگت بلتستان جا کر تمام سیاسی و مذہبی تنظیموں سمیت اہم شخصیات اور سانحات میں متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کرے گا اور حالیہ ہونے والے نقصانات پر اپنی جائزہ مرتب کرے گا جس کی روشنی میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔
مرکزی کابینہ کے اجلاس میں سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ محمد امین شہیدی، علامہ شبیر بخاری، علامہ مظہر حسین کاظمی، سرفراز حسینی، ناصر عباس شیرازی اور اقرار حسین سمیت دیگر شریک تھے۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے عزاداری سیل کے سربراہ حیدر علی مرزا کی قیادت میں میکلوڈ روڈ لاہور میں شہریوں نے گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث گروہ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع حیدر علی مرزا نے کہا کہ پاکستان میں ملت تشیع کے لئے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور وفاقی حکومت اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں کرفیو سے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جبکہ عید کی چھٹیوں پر وہاں جانے والے طلباء اور سرکاری ملازمین ابھی تک واپس نہیں آ سکے جبکہ خصوصی طیارہ سروس بھی شروع نہیں کی گئی جو وفاقی حکومت کے دوہرے معیار کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملت تشیع محب وطن قوم ہے اور ہم نے ہی پاکستان بنایا تھا اور اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں، حکومت نے اگر دہشت گردوں کو لگام نہ دی تو ہم راست اقدام کرنے پر مجبور ہوں گے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔
حیدر علی مرزا نے کہا کہ کوئٹہ، کراچی اور گلگت بلتستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں امریکہ ملوث ہے اور ان کے مقدمات امریکی قونصل جنرل کے خلاف درج کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو مخصوص سازش کے تحت خانہ جنگی میں دھکیلا جا رہا ہے ہم ملک دشمن قوتوں کی یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید اسد عباس نقوی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین بہت جلد اس پر اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرئے گی اور ہم خود ملک میں قیام امن کا فارمولا دینگے جس کے بعد امریکی غلام حکمرانوں کو بھی اپنے اقتدار کے لالے پڑ جائیں گے
میں سچا مسلمان کیسے بنوں؟ وسعت اللہ خان
ایک سنی دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے والا وسعت اللہ خان خود کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لئے کہاں تک جائے، کیا کرے ؟؟؟
شاید شیعوں کو مارنے سے میرا کام نہیں چلے گا۔ شائد اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
تو کیا بو علی سینا کی قبر پر جا کے تھوک دوں؟
بابائے الجبرا الخوارزمی کے فارمولے جلا دوں؟
بابائے کیمیا جابر بن حیان کی ہڈیاں زمین سے نکال لوں؟
بابائے فلکیات البیرونی کے مزار کو آگ لگادوں؟
مورخ المسعودی کی تاریخِ اسلام حرام سمجھ لوں؟
حضرت معروفِ کرخی کے تصوف، ملا صدرا کے نظریہِ وجودیت اور سیّد علی ہمدانی کی تبلیغ کو شرک کے خانیمیں رکھ دوں؟
عمرِ خیام کی رباعیات چھلنی کر دوں؟
شاہ نامہ والے فردوسی کا تہران یونیورسٹی میں لگا مجسمہ گرا دوں؟
ڈاکٹر علی شریعتی کو مرتد مان لوں؟
جو بھی قلی قطب شاہ، میر، غالب، انیس، دبیر، اکبر الہ آبادی، جوش، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور جون ایلیا کے شعر پڑھے، پڑھائے یا حوالہ دے، کیا اس کا منہ نوچ لوں؟
اردو کا سب سے بڑا ناول آگ کا دریا، دریا برد کردوں؟ خاک اچھا ہوگا ایسا ناول جسے قرت العین جیسی شیعہ نے لکھا ہو۔
اور صادقین نامی شیعہ کی قرانی کیلی گرافی کسی تہہ خانے میں چھپا دوں؟
کیا جہانگیر کی ایرانی محبوبہ نور جہاں کو بھی ذہن سے مٹا دوں؟
تاج محل کو ڈائنامائیٹ لگا دوں جس میں سنی شاہ جہاں کی شیعہ اہلیہ ممتاز محل سو رہی ہے؟
نادر شاہ کا تذکرہ صفحات سے کیسے کھرچوں؟
بتائیے حیدر علی شیعہ اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے والے فتح علی ٹیپو سلطان کے ساتھ کیا کروں؟
جنگِ آزادی کی ہیروئن بیگم حضرت محل کا تذکرہ کہاں لے جاؤں؟
جس شخص کو بانیِ پاکستان کہا جاتا ہے اس پر سے شیعت کا دھبہ کیسے مٹاؤں؟ اسے تو غالباً سنی علامہ اقبال نے ضد کرکے انگلستان سے بلوایا تھا نا۔
اور یہ راجہ صاحب محمود آباد اپنی شیعت بھول بھال کر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت پر دامے درمے کیوں قربان ہوگئے۔ شاید وہ پاکستان کو شیعہ ریاست بنانا چاہتے تھے۔تبھی تو !!!!
اور ایوب خان کو کسی راسخ العقیدہ نے بروقت کیوں مشورہ نہیں دیا کہ ایک سنی اکثریتی نظریاتی ملک کی حسّاس فوجی قیادت ایک ہزارہ شیعہ جنرل موسی کے حوالے نا کرے۔ اور دیکھو ایوب خان نے مزید کیا غضب کیا کہ پینسٹھ کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری بھی جنرل موسی کو تھما دی۔
اور سادہ لوح سنیوں نے یہ کیا کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کندھے پر اٹھا لیا۔ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ وہ شیعہ ہے اور سینہ زوری دیکھو کہ خبردار کرنے کے باوجود بھی اس کی بیٹی کو دو دفعہ وزیرِ اعظم بنا لیا ؟؟؟
شاید گلگت اور بلتستان کے شیعوں کو بالکل ٹھیک سزا مل رہی ہے۔ آخر کس نے کیپٹن حسن، صوبیدار میجر بابر اور ان کے ساتھیوں کو کہا تھا کہ خود ہی بندوق اٹھا لیں، خود ہی کشمیر کی ڈوگرہ حکومت کی غلامی کندھوں سے اتار پھینکیں اور آزادی کمانے کے لگ بھگ بیس روز بعد ہی پاکستان سے آئے ہوئے پہلے پولٹیکل ایجنٹ کو سیلوٹ مار کے گلگت بلتستان کی چابیاں اس کے حوالے کردیں۔ آج بھی ان کی نسلیں اس پر اتراتی ہیں کہ باقی پاکستان تو میز پر بنا۔ ہم نے اپنا حصہ بندوق سے آزاد کروایا۔ مگر ان نسلوں کو اتنی عقل نہیں
ہے کہ قومی شناختی کارڈ پر اپنا نام ہی تبدیل کروالیں۔
اور یہ نگر اور ہنزہ کی اسماعیلی شیعہ ریاستیں کس برتے پر پاکستان میں مدغم ہو گئیں؟
جانے کیا سوچ کر حوالدار لالک جان انیس سو ننانوے میں کارگل کی چوٹیوں پر جان دے کر نشانِ حیدر والوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ تو کیا میں یہ مطالبہ کردوں کہ اس شیعہ سے نشانِ حیدر واپس لیا جائے اور اسے شہید نہ کہا جائے اور یہ نشانِ حیدر کس نے نام رکھا؟ کیا پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز کا نام نشانِ صحابہ، نشانِ جھنگوی، نشانِ جیش، نشانِ طالب یا نشانِ قاعدہ رکھتے ہوئے ہتک محسوس ہوتی ہے ؟؟؟
مجھے پانچ سال کی عمر میں انگلی پکڑ کے اے بی سی ڈی سے متعارف کرانے والے استاد کے سنگِ مزار پر سے حمید حسن نقوی کا نام کھرچوا کے دلاور خان یا خورشید صدیقی یا اسلم فاروقی یا بابر بلوچ یا پھر بھگوان داس لکھوانے سے کیا کام چل جائے گا ؟؟؟؟
بتائیے نا! آخر کیا کروں خود کو ایک اچھا سچا مسلمان ثابت کرنے کے لئے ؟؟؟؟
ماخوز شدہ بی بی سی اردو سائئڈ