The Latest
میں سچا مسلمان کیسے بنوں؟ وسعت اللہ خان
ایک سنی دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے والا وسعت اللہ خان خود کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لئے کہاں تک جائے، کیا کرے ؟؟؟
شاید شیعوں کو مارنے سے میرا کام نہیں چلے گا۔ شائد اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
تو کیا بو علی سینا کی قبر پر جا کے تھوک دوں؟
بابائے الجبرا الخوارزمی کے فارمولے جلا دوں؟
بابائے کیمیا جابر بن حیان کی ہڈیاں زمین سے نکال لوں؟
بابائے فلکیات البیرونی کے مزار کو آگ لگادوں؟
مورخ المسعودی کی تاریخِ اسلام حرام سمجھ لوں؟
حضرت معروفِ کرخی کے تصوف، ملا صدرا کے نظریہِ وجودیت اور سیّد علی ہمدانی کی تبلیغ کو شرک کے خانیمیں رکھ دوں؟
عمرِ خیام کی رباعیات چھلنی کر دوں؟
شاہ نامہ والے فردوسی کا تہران یونیورسٹی میں لگا مجسمہ گرا دوں؟
ڈاکٹر علی شریعتی کو مرتد مان لوں؟
جو بھی قلی قطب شاہ، میر، غالب، انیس، دبیر، اکبر الہ آبادی، جوش، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور جون ایلیا کے شعر پڑھے، پڑھائے یا حوالہ دے، کیا اس کا منہ نوچ لوں؟
اردو کا سب سے بڑا ناول آگ کا دریا، دریا برد کردوں؟ خاک اچھا ہوگا ایسا ناول جسے قرت العین جیسی شیعہ نے لکھا ہو۔
اور صادقین نامی شیعہ کی قرانی کیلی گرافی کسی تہہ خانے میں چھپا دوں؟
کیا جہانگیر کی ایرانی محبوبہ نور جہاں کو بھی ذہن سے مٹا دوں؟
تاج محل کو ڈائنامائیٹ لگا دوں جس میں سنی شاہ جہاں کی شیعہ اہلیہ ممتاز محل سو رہی ہے؟
نادر شاہ کا تذکرہ صفحات سے کیسے کھرچوں؟
بتائیے حیدر علی شیعہ اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے والے فتح علی ٹیپو سلطان کے ساتھ کیا کروں؟
جنگِ آزادی کی ہیروئن بیگم حضرت محل کا تذکرہ کہاں لے جاؤں؟
جس شخص کو بانیِ پاکستان کہا جاتا ہے اس پر سے شیعت کا دھبہ کیسے مٹاؤں؟ اسے تو غالباً سنی علامہ اقبال نے ضد کرکے انگلستان سے بلوایا تھا نا۔
اور یہ راجہ صاحب محمود آباد اپنی شیعت بھول بھال کر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت پر دامے درمے کیوں قربان ہوگئے۔ شاید وہ پاکستان کو شیعہ ریاست بنانا چاہتے تھے۔تبھی تو !!!!
اور ایوب خان کو کسی راسخ العقیدہ نے بروقت کیوں مشورہ نہیں دیا کہ ایک سنی اکثریتی نظریاتی ملک کی حسّاس فوجی قیادت ایک ہزارہ شیعہ جنرل موسی کے حوالے نا کرے۔ اور دیکھو ایوب خان نے مزید کیا غضب کیا کہ پینسٹھ کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری بھی جنرل موسی کو تھما دی۔
اور سادہ لوح سنیوں نے یہ کیا کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کندھے پر اٹھا لیا۔ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ وہ شیعہ ہے اور سینہ زوری دیکھو کہ خبردار کرنے کے باوجود بھی اس کی بیٹی کو دو دفعہ وزیرِ اعظم بنا لیا ؟؟؟
شاید گلگت اور بلتستان کے شیعوں کو بالکل ٹھیک سزا مل رہی ہے۔ آخر کس نے کیپٹن حسن، صوبیدار میجر بابر اور ان کے ساتھیوں کو کہا تھا کہ خود ہی بندوق اٹھا لیں، خود ہی کشمیر کی ڈوگرہ حکومت کی غلامی کندھوں سے اتار پھینکیں اور آزادی کمانے کے لگ بھگ بیس روز بعد ہی پاکستان سے آئے ہوئے پہلے پولٹیکل ایجنٹ کو سیلوٹ مار کے گلگت بلتستان کی چابیاں اس کے حوالے کردیں۔ آج بھی ان کی نسلیں اس پر اتراتی ہیں کہ باقی پاکستان تو میز پر بنا۔ ہم نے اپنا حصہ بندوق سے آزاد کروایا۔ مگر ان نسلوں کو اتنی عقل نہیں
ہے کہ قومی شناختی کارڈ پر اپنا نام ہی تبدیل کروالیں۔
اور یہ نگر اور ہنزہ کی اسماعیلی شیعہ ریاستیں کس برتے پر پاکستان میں مدغم ہو گئیں؟
جانے کیا سوچ کر حوالدار لالک جان انیس سو ننانوے میں کارگل کی چوٹیوں پر جان دے کر نشانِ حیدر والوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ تو کیا میں یہ مطالبہ کردوں کہ اس شیعہ سے نشانِ حیدر واپس لیا جائے اور اسے شہید نہ کہا جائے اور یہ نشانِ حیدر کس نے نام رکھا؟ کیا پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز کا نام نشانِ صحابہ، نشانِ جھنگوی، نشانِ جیش، نشانِ طالب یا نشانِ قاعدہ رکھتے ہوئے ہتک محسوس ہوتی ہے ؟؟؟
مجھے پانچ سال کی عمر میں انگلی پکڑ کے اے بی سی ڈی سے متعارف کرانے والے استاد کے سنگِ مزار پر سے حمید حسن نقوی کا نام کھرچوا کے دلاور خان یا خورشید صدیقی یا اسلم فاروقی یا بابر بلوچ یا پھر بھگوان داس لکھوانے سے کیا کام چل جائے گا ؟؟؟؟
بتائیے نا! آخر کیا کروں خود کو ایک اچھا سچا مسلمان ثابت کرنے کے لئے ؟؟؟؟
ماخوز شدہ بی بی سی اردو سائئڈ
العارف ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا مختار امامی کا کہنا ہے پولیس اور رینجرز ملت جعفریہ کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہے، ریاستی سرپرستی میں شیعہ عمائدین کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، دہشت گرد شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور شیعہ عمائدین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب پولیس اور رینجر کی جانب سے فرقہ وارانہ اور مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے جائیں گے تو پھر شہر میں قیام امن کیے ممکن ہوسکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پولیس، رینجرز و دیگر میں سے کالی بھیڑوں اور متعصب افسران اور اہلکاروں کو نکالیں، تاکہ دہشت گردوں کے سرپرستی کا سلسلہ ختم ہو۔
مولانا مختار امامی کا کہنا تھا کہ صرف آٹھ گھنٹے کے اندر تین شیعہ عمائدین سید فراز حسین، شہزاد عباس اور اے ایس آئی گوہر عباس کا دن دہاڑے قتل عام پولیس اور رینجرز کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیراعلٰی سندھ فوری طور پر ملت جعفریہ کے قتل میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سرپرست پولیس اور رینجرز افسران کو گرفتار کریں، تاکہ شہر میں بڑھتے ہوئے ملت جعفریہ کے قتل عام کے سلسلہ کو روکا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کراچی کا ضلع وسطی ملت جعفریہ کی مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے اور صرف گذشتہ تین سالوں میں سو سے زیادہ علماء کرام، ڈاکٹرز، تاجروں اور اساتذہ کو قتل کیا جاچکا ہے، لیکن کسی ایک کا بھی قاتل گرفتار نہیں ہوا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایس ایس پی ضلع وسطی کیپٹن عاصم قائم خانی کے کالعدم تنظیموں سے رابطے کا نوٹس لیا جائے اور شیعہ نوجوانوں کے قتل میں اس کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔
گلگت بلتستان حکومت نے مسافر گاڑیوں کی حفاظت کے لیے پلان کو حتمی شکل دے دی ہے۔ شام 4 بجے سے بشام اور بصری چیک پوسٹ سے مسافر گاڑیاں کانوائے کی صورت میں چلیں گی جبکہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ہر مسافر بس میں سیکورٹی گارڈ کی موجودگی یقینی بنائیں گے۔ جمعرات کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی ہدایت پر سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر فیصل ظہور اور آئی جی بی گلگت بلتستان کیپٹن (ر) عثمان ذکریا کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد سے چلنے والی گاڑیاں شام 4 بجے تک ہر صورت میں بشام پہنچیں گی۔ اسی طرح گلگت سے چلنے والی گاڑیاں بھی شام کے 4 بجے تک بصری چیک پوسٹ پہنچیں گی۔ بصری چیک پوسٹ سے تمام گاڑیوں کو کانوائے کی شکل میں بشام پہنچایا جائے گا۔ قراقرم ٹاسک فورس گاڑیوں کی حفاظت پر مامورہو گی۔ قراقرم ٹاسک فورس کے جوانوں کی کل تعداد 422 ہے جن کو 31 گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں۔ قراقرم ہائی وے پر بصری تک قراقرم ٹاسک فورس مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی جبکہ بصری چیک پوسٹ سے بشام اور بشام سے واپس بصری چیک پوسٹ تک خیبرپختونخواہ حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہو گی۔ ٹرانسپورٹ کی تمام بڑی کمپنیاں ہر گاڑی کے اندر کمپنی کی طرف سے حفاظتی گارڈ فراہم کریں گی جبکہ گلگت شہر میں موٹر سائیکل کی سواری پر تا حکم ثانی مکمل پابندی ہو گی۔
اس قبل بھی حکومت اس قسم کے کئی پلان بنا چکی ہے جس پر دو فیصد بھی عمل نہیں ہوا ،پلان کے نام پر کروڑوں روپے حاصل کئے جاتے ہیں جس کی بعد بندر بانٹ کی جاتی ہے
عوام احتجاج کرے تو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے اور حکومت اپنے حامیوں کے زریعے ڈرا دھمکاتی ہے
عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اب حکومتی سیکوریٹی اداروں پر ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے روز روز نئے نئے ناکام پلان نے عوام کو بے اعتمادی کا شکار کیا ہے اور عوامی مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام کو ہمسائیہ ممالک میں تعلیمی اور ضروریات زندگی کے حصول کے لئے مکمل زمینی راستے کھولنے کے ساتھ ساتھ ضروری اقدامات انجام دئے جائیں
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک بھر میں آج یوم احتجاج منایا گیا، اس موقع پر کوئٹہ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء علامہ سید ہاشم موسوی نے سانحہ بابوسر اور یوم القدس کراچی کیخلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ نماز جمعہ کے بعد شام کو شیعہ نسل کشی کیخلاف ایک احتجاجی ریلی کوئٹہ امام بارگاہ نیچاری علمدار روڈ سے برآمد ہوئی۔ ریلی کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے۔ جن پر حکومت اور انتظامیہ کیخلاف نعرے درج تھے۔ ریلی میں سینکڑوں مظاہرین نے شرکت کی۔ ریلی کی قیادت امام جمعہ کوئٹہ اور مجلس وحدت مسلمین کے رکن شوریٰ علامہ سید ہاشم موسوی اور رکن شوری عالی علامہ مقصود علی ڈومکی کر رہے تھے کر رہے تھے۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید ہاشم موسوی نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کراچی سے لیکر گلگت تک پاکستانی شیعہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے لیکن ملک کی ریاستی قوتیں اس وحشیانہ تشدد کیخلاف کوئی ردعمل نہیں دیکھا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کیخلاف کام کرنے والے سازشی عناصر شیعہ سنی میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں لیکن دونوں مکاتب فکر کے رہنماؤں نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کو ہی ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے شیعہ عوام کو پاکستان کے دوسرے اہل تشیع سے الگ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
علامہ سید ہاشم موسوی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی میں ملوث عناصر کیخلاف جلد کارروائی کی جائے۔ بصورت دیگر پاکستان کے تمام شیعوں کو اسلام آباد کارخ کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک پاکستان کے اہل تشیع عوام نے صبر کا دامن تھامے رکھا ہے لیکن ہمارے صبر کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی اور علامہ ولایت حسین جعفری، سردار سعادت علی ہزارہ نے بھی خطاب کیا۔ احتجاجی ریلی بہشت زینب (ہزارہ قبرستان) پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔ جہاں پر شُہدائے کوئٹہ کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
ملت جعفریہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف ملک بھر کی طرح گلگت میں بھی علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر منائے جانے والے یوم سوگ کے
موقع پر نماز جمعہ کے بعد احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کا اہتمام امامیہ آرگنائزیشن، مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس او نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر دہشت گردی کے واقعات کے خلاف نعرے درج تھے جبکہ مظاہرین حکومت مخالف نعرے بھی لگا رہے تھے۔ امامیہ مسجد سے نکلنے والی ریلی نے خزانہ روڈ پر پہنچ کر جلسے کی صورت اختیار کرلی۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما مولانا شیخ بلال سمائری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں شیعوں پر جتنا ظلم ہوا ہے وہ کسی اور دور میں نہیں ہوا ہے، وزیراعلیٰ کو آج کے بعد کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اقتدار کی اس کرسی پر بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو ہم 8 دن کی مہلت دیتے ہیں کہ اگر اس مظلوم ملت کے قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا نہیں دلائی تو اس کے بعد ہم آپ کو اس کرسی کا غاسق سمجھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ جب بھی کسی کو یہاں بھیج دیتی ہے تو انہیں بریف کرکے بھیج دیتی ہے کہ جاؤ شیعوں کو جتنا دبا سکتے ہو تو دباؤ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سکیورٹی فورسز، سرکار سب کچھ ہمارے مخالف ہیں۔ مولانا شیخ بلال سمائری نے گلگت بلتستان میں قیام امن کے لئے جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان کے بزرگوں اور گلگت کے امن پسند افراد کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر آئیں اور ہم سے بات کریں ہم آپ کو تحفظ کی ضمانت دینگے آپ ہمیں تحفظ کی ضمانت دو۔
انہوں نے کہا کہ حکومت قیام امن کے لئے سنجیدہ نہیں ہے اور ظالم اور مظلوم کو ایک ہی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں مایوسی اور بے چینی پائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا ملت تشیع سے تعلق رکھنے والے بے گناہ مسافروں کو چن چن کر مارا گیا اور آج تک حکومت نے ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا ہے جبکہ حکومت بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے اور عملدر آمد نہیں کر رہی ہے جو کہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔
اس موقع پر مرکزی امامیہ مساجد بورڑ کے ممبر سید محمد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم انتظامیہ کے رویے سے مطمئن نہیں ہیں صرف زبانی دعوے کرکے ہمیں ٹرخایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ کے مطابق گرفتاریاں اور سزا جزا کا نظام رائج ہو اور خالی جگہوں کو پر کرنے والے سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گلگت میں امن چاہتے ہیں جو قیام امن کا مخالف ہے وہ اس ملک و علاقے کا مخالف ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے مختلف میٹنگز اور اجلاس کرکے مذاکرات کئے، لیکن حکومت ہماری تجاویز پر عملدر آمد کروانے میں تاخیری حربے اپنا رہی ہے، چند بیوروکریٹ ایک پیالی چائے اور بسکٹ کھلا کر ہمیں ٹرخا رہے ہیں، احتجاجی مظاہرے کے آخر میں قائد ملت جعفریہ گلگت بلتستان مولانا سید راحت حسین الحسینی نے قیام امن کے لئے دعا کروائی۔
سانحہ بابوسر اور ملت جعفریہ پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف گلگت میں نکالی جانے والی اس احتجاجی ریلی کے آخر میں ایک قرارداد بھی پیش کی گئی۔ جس میں سانحہ بابوسر کے مجرموں کی گرفتاری میں گلگت بلتستان حکومت اور ایجنسیوں کی غیر سنجیدگی کی بھرپور مذمت کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ شاہراہ قراقرم پر سفر کے دوران ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی حفاظت کیلئے حکومت اسلحہ کا لائسنس دے۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت اور اسکردو کیلئے روزانہ سی 130 جہاز کی سروس شروع کی جائے۔
ادھر یوم احتجاج کے نومل میں بھی ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جبکہ بعض علاقوں میں اسماعیلی برادری بھی یوم احتجاج میں شریک نظر آئی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ ملک دشمن قوتیں پاکستانی عوام کو سازشوں میں الجھا
کران کی توجہ ملکی مسائل سے ہٹانا چاہتی ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان عدم استحکام کا شکار رہے اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے راستے ہموار ملیں ، ہم ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان عمل میں ہیں اور رہیں گے ، دشمن اپنے مذموم مقصد کبھی پورے نہیں کر سکے گا ، انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں مرکزی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ، اتحاد بین المسلمین ، وطن دوستی کے فروغ اور قومی و مذہبی نظریات کے تحفظ کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائے گی اور قوم کو وحدت کی لڑی میں پرو کر پاکستانی عوام کی اجتماعی طاقت سے دشمن کی ہر سازش ناکام بنائے گی ، پاکستان کی بنیادوں میں ہمارے آبائو اجداد کا خون شامل ہے اس لیے ہم ارض وطن کو ملک دشمن قوتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، ہم ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کا ہر صورت میں دفاع کریں گے ، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا دشمن چاہتا ہے کہ ملک میں بد امنی اور انتشار پھیلا کر اس خطے کے مکینوں کو مایوس کی دلدل میں دھکیل دے ،اس لیے ہر محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ پورے اعتمادکے ساتھ میدان میں رہ کردشمن کے عزائم خاک میں ملا دے ، ایم ڈبلیو ایم ایک نظریاتی جماعت ہے، انشاء اللہ کسی بھی مشکل گھڑی میں قوم کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ انہوں نے اراکین کابینہ پر زور دیا کہ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں قوم کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں ۔ ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور شیعہ کشی کے بارے میں کابینہ کی اہم تجاویز،خصوصی کیمٹی آئندہ دو روز میں لایحہ عمل مرتب کریگی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر سانحہ ء بابوسر، سانحہء یوم القدس کراچی اور کوئٹہ کے خلاف ملک گیر یوم احتجاج منایا گیا ۔اس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کی جانب سے مرکزی احتجاجی مظاہرہ جامع مسجد نور ایمان ناظم آباد کے باہر منعقد کیا گیا جسمیں مولانا مرزا یوسف حسین ، مولانا صادق ر ضا تقوی نے خطاب کیا۔ اس علاوہ ایم ڈبلیو ایم ڈسٹرکٹ ایسٹ کی جانب سیجامع مسجد امامیہ ٹرسٹ ڈرگ روڈ سے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جسمیں مولانا محمد عباس مواحدی نے خطاب کیا۔ ایم ڈبلیو ایم ڈسٹرکٹ ملیر کی جانب سے ضلع کے تین مقامات پر احتجاج منعقد ہوا۔ جامع مسجد حسینیؑ ماروی گوٹھ قائد آباد کے باہر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیاجسمیں مولانا رحمت علی سولنگی نے خطاب کیا۔ حسینیؑ جامع مسجد برف خانہ ملیر کے باہر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جسمیں مولانا غلام محمد فاضلی اور برادر احسن عباس رضوی نے مظاہرین سے خطاب کیا۔عزاخانہ ء صغریٰ کورنگی 31/2 نمبر پر بھی احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جسمیں مولانا محمد رضا ثمائری نے خطاب کیا۔اسلام آباد میں مرکزی امام بارگاہ G-6/2 تا چائنہ چوک تک احتجاجی ریلی نکالی گئی جسمیں مولانا شیخ شفاء نجفی، مولانا اصغر عسکری اور مولاناسخاوت قمی نے خطاب کیا۔ لاھور میں مرکزی احتجاجی ریلی جامع مسجدامامیہ ثمن آباد سے نکالی گئی جسمیں مولانا احمد اقبال رضوی نے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یوم احتجاج کے سلسلے میں اجتماعات منعقد کیئے گئے اور مومنین کی بڑی تعداد نے ان اجتماعات میں شرکت کی۔
جمعہ کو ملک بھر میں یوم احتجاج منایا گیا جس میں احتجاجی مظاہر ے کئے گئے اور متفقہ طور پر قرار دادیں منظور کی گئیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے
سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک بھر میں جمعہ کے دن کو یوم احتجاج کے طور پر منایا گیا چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں برآمد ہوئیں اور مظاہرے کئے گئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ سانحہ بابو سر /سانحہ چلاس، کوہستان پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ستمبر سے پہلے ان سانحات کے پس پردہ حقائق بے نقاب اور قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک بھر میں یوم جمعہ کو یوم احتجاج کے طور پر منایا گیا، پاکستان بھر کی تمام مساجد میں آئمہ جمعہ نے ملک میں جاری شیعہ کلنگ کی مذمت اور حکمرانوں سمیت اعلیٰ عدلیہ کی بے حسی پر احتجاج کیا گیا۔
اسلام آبادمیں جی سکس ٹو سے ریلی برآمد ہوئی اور چائنہ چوک میں شرکاء نے دھرنا لگایا جہاں علمائے کرام نے تقاریر کیں پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغرعسکری اور اسلام آباد کے سیکرٹری علامہ فخر علوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتہ گذرنے کے باوجود بھی اب تک حکومت نے اس سانحے کے حوالے سے کسی قسم کا عملی قدم نہیں اٹھایا انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی یہی پالیسی ہے تو پھر کسی بھی قسم کی احتجاجی تحریک کامکمل حق رکھتے ہیں۔
لاہور۔۔۔۔۔
لاہور میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں رہنما مجلس وحدت مسلمین علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ سانحہ بابوسر اور یوم القدس کراچی کے ملزموں کی عدم گرفتاری نے شیعہ قوم کے غم غصے میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمران فقط میڈیا پر بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کر رہے، حکمرانوں کی اس بے حسی سے کربلا کے راہیوں کو راست اقدام اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے ورنہ یہ قوم دنیا میں واحد قوم ہے جو بڑیہ سے بڑے شیطان کو زیر کر چکی ہے اور وطن عزیز کی سالمیت کے درپے ان مٹھی بھر دہشت گردوں کو سبق سکھانا بھی جانتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ آئین پاکستان اور قانون کے خلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا
کراچی۔۔۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر سانحہ ء بابوسر، سانحہء یوم القدس کراچی اور کوئٹہ کے خلاف ملک گیر یوم احتجاج منایا گیا ۔اس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کی جانب سے مرکزی احتجاجی مظاہرہ جامع مسجد نور ایمان ناظم آباد کے باہر منعقد کیا گیا جسمیں مولانا مرزا یوسف حسین ، مولانا صادق ر ضا تقوی نے خطاب کیا۔ اس علاوہ ایم ڈبلیو ایم ڈسٹرکٹ ایسٹ کی جانب سیجامع مسجد امامیہ ٹرسٹ ڈرگ روڈ سے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جسمیں مولانا محمد عباس مواحدی نے خطاب کیا۔ ایم ڈبلیو ایم ڈسٹرکٹ ملیر کی جانب سے ضلع کے تین مقامات پر احتجاج منعقد ہوا۔ جامع مسجد حسینیؑ ماروی گوٹھ قائد آباد کے باہر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیاجسمیں مولانا رحمت علی سولنگی نے خطاب کیا۔ حسینیؑ جامع مسجد برف خانہ ملیر کے باہر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جسمیں مولانا غلام محمد فاضلی اور برادر احسن عباس رضوی نے مظاہرین سے خطاب کیا۔عزاخانہ ء صغریٰ کورنگی 31/2 نمبر پر بھی احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جسمیں مولانا محمد رضا ثمائری نے خطاب کیا۔اسلام آباد میں مرکزی امام بارگاہ G-6/2 تا چائنہ چوک تک احتجاجی ریلی نکالی گئی جسمیں مولانا شیخ شفاء نجفی، مولانا اصغر عسکری اور مولاناسخاوت قمی نے خطاب کیا۔ لاھور میں مرکزی احتجاجی ریلی جامع مسجدامامیہ ثمن آباد سے نکالی گئی جسمیں مولانا احمد اقبال رضوی نے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یوم احتجاج کے سلسلے میں اجتماعات منعقد کیئے گئے اور مومنین کی بڑی تعداد نے ان اجتماعات میں شرکت کی۔
ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود سانحہ بابو سر میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی قابل ذکر قدم اٹھایا گیا ، حکومت
کو شاید حالات کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ، ملک بھر میں اہل تشیع میں سخت بے چینی، تشویش اور اضطراب پایا جاتاہے اور ریاستی اداروں سے ان کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری نے ایم ڈبلیو ایم اسلام آباد راولپنڈی کی جانب سے سانحہ بابوسر کے خلاف نکالی جانے والی احتجاجی ریلی کے اختتام پر چائنہ چوک میں مظاہرین سے خطاب کے دوران کیا، علامہ اصغر عسکری نے کہا کہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ حکومت قاتلوں کو پکڑنے کی بجائے گلگت بلتستان میں پر امن احتجاج کا راستہ روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے ،کیا اہل تشیع کا خون اس قدر ارزاں ہے کہ جنگلی موروں کے مرنے پر پوری ریاست حرکت میں آ جاتی ہے ، جبکہ کوئٹہ سے لے کر گلگت بلتستان تک سینکڑوں افراد کے قتل عام پر جنبش بھی نہیں ہوتی ، انہوں نے کہا کہ اخباری بیانات میں بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا جاتا ، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ سی ون تھرٹی سروس کو دو روز بعد ہی بند کر دیا گیا ، سینکڑوں طلبہ اور مریض ، گلگت اور راولپنڈی میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ سفر نہیں کر سکتے، علامہ اصغر عسکری نے کہا کہ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اگر کوئی قدم اٹھتا نظر نہ آیا تو ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی جو احتجاجی دھرنے اور اسلام آباد کی جانب ملین مارچ سمیت کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے ، مظاہرین سے ایم ڈبلیو ایم اسلام آباد کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ فخر علوی اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ، قبل ازیں مرکزی امام بارگاہ اثنا عشری جی سکس ٹو سے سانحہ بابو سر کے خلاف ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی ، شرکائے ریلی نے بڑے بڑے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر دہشت گردی کے خلاف نعرے درج تھے ،مظاہرین قاتلوںکی فوری گرفتار ی اور شاہراہ ریشم کو سفر کے لیے محفوظ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین راجہ ناصر عباس جعفری نے وائس چانسلر
المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی آیۃ اللہ علی رضا اعرافی سے ملاقات کی اورپاکستان سمیت عالم اسلام کے مختلف حالات پر تبادلہ خیال کیا۔آقائے اعرافی نے اس ملاقات میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین جس خط پر گامزن ہے یہی خط امام خمینی و شہید حسینی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر شعبہ میں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں انہوں نے پاکستانی طلاب میں پوشیدہ صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علما ء پاکستان سے گزارش کی کہ وہ ان با صلاحیت و با استعداد طلاب کی، نشر و اشاعتِ دینِ اسلام میں راہنمایی کریں۔ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سکیرٹری امور خارجہ حج? الاسلام سید شفقت شیرازی، مرکزی ویلفئر سیکرٹری برادر نثار علی فیضی، شعبہ قم کے مسؤل علامہ تقی شیرازی و دیگرعلماءھی موجود تھے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام ولمسلمین راجہ ناصر عباس جعفری نے قم میں مسؤلین مدرسہ امام علی علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کی موجود? صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقعہ پر حجۃ الالسلام سید سلمان نقوی ، حجۃ الالسلام سید احتشام زیدی، حجۃ الالسلام امان اللہ جعفری اور رحمت اللعالمین فاونڈیشن کے حجۃ الالسلام ملک اشرف صاحب اور دیگر علما ءبھی موجود تھے