وحدت نیوز (آرٹیکل) موت ایک ایسا موعظہ ہے جو کبھی پرانانہیں ہوتا۔ دنیا کی محبت کو کم کرنے اور مٹانے کا ایک بہترین طریقہ موت کو یاد کرناہے،مرنے والا جتنا عظیم ،آفاقی اور پاکیزہ نفس ہوتاہے،اس کی موت اسی قدر شدّت سے دلوں کی تطہیر کرتی ہے۔ کسی کی موت پر صرف اس کے گھر اور محلّے والے اشک بہاتے ہیں اور کسی کی موت سے پورے عالم میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین گزشتہ دنوں جب  کربلاسے واپس  ایران آئے  اور پھر پاکستان جانے لگے تو ہمارے اصرار پر انہوں نے  ہماری دعوت قبول کی اور پاکستان جانے سے صرف ایک دن پہلےہم  چند دوست  ان کے اردگرد بیٹھ گئے۔

ہماری  جو آخری نشست ان کے ساتھ ہوئی اس میں انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ ایک طالب علم کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا پڑھے اور کس سے پڑھے۔یعنی اپنے نصاب اور استاد کاانتخاب سوچ سمجھ کرکرے۔ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی کی ضرورت صرف نصاب میں نہیں ہے بلکہ استاد میں بھی ہے۔ یعنی پورے نظامِ تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ہمارے درسی متون میں بہت ساری چیزوں کے حذف و اضافے کی بات کی اور باتوں باتوں میں سوال و جواب کا سلسلہ چل نکلا۔

ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی،البتہ آغاصاحب نے جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دیدیاتھا کہ حقیقی طالب علم بنو!

ان کے ایک قریبی دوست حجۃ الاسلام والمسلمین آقای تقی شیرازی کے بقول  قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے بعدقم المقدس ایران میں اچھے اور نظریاتی دوستوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے سلسلے میں جتنی بھی کاوشیں ہوئیں ان کے اصلی محرّک حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین تھے اور انہی کی فکر بعد میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی صورت میں مجسّم ہوکر سامنے آئی۔

یہ حسنِ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز ایم ڈبلیو ایم قم کے قائم مقام سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری  کے ہمراہ مجھے

حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی[1]  سے ملاقات کا موقع ملا ۔

حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی  ان کے ستاد ہیں،ان کا کہنا تھا کہ انہیں دس سالوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیاہے کہ وہ  حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کو قریب سے جانتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا ،جو اس وقت نذر قارئین ہیں:

۱۔تعلیمی سرگرمیوں میں صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے

ان کے استادِ بزرگوار کاکہنا تھا کہ وہ اپنی پڑھائی میں ہمیشہ آگے آگے رہے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے فرصت یامہلت مانگی ہو۔اس لحاظ سے وہ دوسروں کے لئے نمونہ عمل تھے۔

۲۔حقیقی مبلغِ اسلام تھے۔

ان کے استاد گرامی کے بقول وہ تبلیغ ِاسلام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر محنت کرتے تھے اور ہزاروں مبلغین کے درمیان ممتاز تھے۔

۳۔ترجمہ وتالیف

وہ ترجمے اور تالیف کے کاموں کو بھی عین عباد ت اور اوّلین فریضہ سمجھ کرخلوص کے ساتھ انجام دیتے تھے۔

۴۔ادب و احترام

ادب و احترام ان کی  ایک ایسی صفت ہے جس کا اعتراف شہید کے تمام جاننے والوں اور استادوں نے کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی   نے  بھی کہا کہ جیسے جیسے ان کے علمی مدارج طے ہوتے گئے وہ اخلاقی طور پر بھی نکھرتے چلے گئے۔

۵۔ظاہری آراستگی اور خوبصورتی

انہوں نے کہا کہ شہید انتہائی منظم اور لطیف مزاج تھے۔چانچہ ظاہری طور پر بھی ہمیشہ خوبصورت لباس زیبِ تن کرتے اور بن سنور کررہتے۔

۶۔نیک ا ولاد کی تربیّت

بہت سارے لوگ اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں اور یا پھر اجتماعی کاموں میں اپنی اولاد کی تربیّت سے غافل ہوجاتے ہیں۔لیکن شہید نے نیک اور بہترین اولاد کی تربیّت کی ہے۔

۷۔عطیہ خداوندی

ان کے استادِ بزرگوار کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ آلِ سعود کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں اور ہمیں اس بات پر افسوس ہے لیکن وہ روئے زمین پر سب سے مقدس مقام مِنیٰ میں مقدس ترین لباس میں اور مقدس ترین دن شہید ہوئے ہیں،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اللہ کے خالص بندوں اور اولیائے الٰہی میں سے ہیں۔

آخر میں، میں بھی بس اتنا  ہی کہوں گا کہ جس شخص کا مقام اپنے استادوں کی نگاہ میں اتنا بلند ہو کہ استاد اس پر رشک کریں،جو اپنے دوستوں کے درمیان اتنا محبوب ہو کہ دوست اس پر فخر کریں،جو اپنے شاگردوں کے اتنے قریب ہو کہ شاگر داسے اپنا روحانی باپ سمجھیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر جواسلامِ حقیقی اور ولایتِ فقیہ کا حقیقی مبلّغ ہو اس کے راستے  کو علمی و عملی طور پر آگے بڑھانا ،اس کے چھوٹ جانے والے کاموں کو مکمل کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے ،جو موت کو اپنے لئے ایک موعظہ سمجھتاہے اور جسے یقین ہے کہ  زندگی ایک مختصر سی فرصت ہے۔

آقا فخرالدّین واقعتا ایسے ہی تھے،انہوں نے زندگی کے لمحات سے صحیح فائدہ اٹھا یا اور جولوگ زندگی کے لمحات کو صحیح استعمال کرتے ہیں،استاد ان پررشک کرتے ہیں،دوست ان پر فخر کرتے ہیں اور زمانہ ان کااحترام کرتاہے۔


[1] حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی،ایران کی ایک نامی گرامی علمی شخصیت ہیں اور ان دنوں قم المقدس میں مدرسہ عالی امام خمینی میں مدرسہ عالی  قرآن و حدیث  ،دانشگاہِ مجازی المصطفیٰؑ  سمیت  متعدد تعلیمی  و تحقیقی اداروں کی سرپرستی کررہے ہیں۔


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ شب سریاب روڈ میں لوکل بس میں دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کوئٹہ سریاب روڈ پر مسافر بس میں دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں کم ازکم 10 شہید اور متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں،میڈیا ذرائع کے اطلاعات کے مطابق مسافر بس کوئٹہ اور سریاب کے درمیان چلنے والی آخری بس تھی جس میں زیادہ تر کوئٹہ کی نواحی آبادیوں کے لوگ سوار تھے ایک اندازے کے مطابق بس میں50سے زائد افراد سوار تھے جبکہ بس کی چھت پر بھی مسافروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

پرنٹ میڈیا کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دھماکا بس کے اندر ہوا جس کے بعد افراتفری پھیل گئی،دھماکے کے بعد زخمی اور جاں بحق افراد کوقریب واقع اسپتال منتقل کیا جارہاہے۔ علاوہ ازیں ریسکیوذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکے سے شہید ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دھماکہ کراچی بس ٹرمینل پر کھڑی بس میں ہوا جس میں پچاس سے زائد مسافر سوار تھے۔دھماکہ اس قدر شدید تھا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی اور بس ٹرمینل کے پاس کئی دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔اسپتال ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے اس موقع پر کہاکہ ہم اس دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں کہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ جس نے ایک شخص کی جان لی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان لی ۔ لہذا حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد دہشت گردوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ کیونکہ کوئٹہ امن کو ایک بار پھر خراب کیاجارہاہے۔ عوام جو کچھ وقت کے لیے سکھ کا سانس لے رہے تھے گزشتہ شب کے واقعے نے ایک بار پھر عوام کو ذہنی کوفت اور اذیت میں متبلا کر دیاہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ محرم الحرام کے ایام میں تمام اسکاوٹس اپنے اردگرد ، مشکوک اشخاص اور گردنواح ہر چیز پر نظر رکھیں تاکہ خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔ علاوہ ازیں ایم ڈبلیو ایم کے رضا کاروں کو بھی ہدایت کی گئی کہ اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سے تعاون کریں ۔

وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں عزاداری کو محدود کرنے کی حکومتی سازشوں کو مسترد کرتے ہیں، گلگت بلتستان حکومت بھی پنجاب حکومت کی تقلید میں غیر ضروری پابندیاں عائد کر کے عزاداری کو محدود کرنے خواب دیکھ رہی ہے جو ان کی بھول ہے۔ عزاداری سید الشہداء کو محدود کرنے اور پیغام کربلا کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرنے والے صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں گے اور نواسہ رسول ؐ کا ذکر قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں ماہ محرم کے شروع ہوتے ہی اہل سنت اور اہل تشیع امام عالی مقامؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے سبیل حسین علیہ السلام کا انتظام کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ گلگت بلتستان میں امام عالی مقامؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے والوں پر پابندیاں عائد کرنے کا مطلب امام حسین ؑ سے دشمنی کے سوا کچھ نہیں جبکہ انہی سڑکوں پر بیہودہ ناچ گانے کی اونچی آوازوں پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا اور ماہ محرم میں نوحے اور مرثیوں سننے والوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹے جانا نواسہ رسولؐ سے کھلی دشمنی کا ثبوت ہے۔

انہوں نے صوبائی حکومت کے رویے کو انتہائی توہین آمیز قرار دیتے ہوئے اسے پنجاب حکومت کی تقلید میں عزاداری کو محدود کرنے کی سازش سے تعبیر کیا ہے۔ تمام ادیان ماہ محرم کا احترام کرتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام سے محبت میں خیرات اور تبرک کا اہتمام کرتے ہیں اور حسب حیثیت عزاداران امام حسینؑ کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں پورے پنجاب میں علماء کرام پر پابندیاں عائد کرنا محض انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے مترادف ہے جبکہ یہی علماء کرام اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں اور ملک سے فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عزاداری کی راہ میں کسی بھی پابندی کو خاطر میں نہیں لائیں گے چاہے ہمیں جان کی بازی لگانا پڑے۔

وحدت نیوز (سیالکوٹ) مجلس وحدت مسلمین سیالکوٹ کے سیکرٹری جنرل آغا قیصر نواز کی جانب سے جعفری پورہ علی ؑ مسجد میں مجلس امام حسین ؑ منعقد کی گئی جس سے علامہ سید اعجاز حسین نقوی نے خطاب فرمایا دورانِ خطاب انہوں نے فضائل و مصائب شھدائے کربلا بیان فرمائے بعدازاں جلوسِ شبیہہ علم وذوالجناح برآمدہوااور سنگت دستہ امامِ زمانہ نے سینہ زنی و نوحہ خوانی کی جلوس اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا آغا قیصر نواز کے گھر اہتمام پذیر ہوا دورانِ جلوسِ عزا سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے بعد ازں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آغا قیصر نوازاور ان کے ہمرا جناب عقیل عباس جنجوعہ،سید ثقلین شاہ صاحب، سید عامر علی نقوی اور سید عاصم رضا نقوی ،سید صدا حسین بخاری نے کہا کہ عزاداری امام حسین ؑ ہمارے جسموں میں خون کی طرح اہم ہے اور اسے ہم کسی صورت نہ چھوڑیں گے نہ محدود کریں گے اور عزاداری سیدالشھداء امام حسین ؑ ہر طرح کے حالات میں جاری و ساری رہے گی ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے معروف عالم دین علامہ سید باقرعباس زیدی کو ایم ڈبلیوایم کے فلاحی شعبے خیرالعمل فائونڈیشن کا چیئرمین نامزد کردیا ہے،مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق علامہ باقرعباس زیدی کی بحیثیت مرکزی چیئرمین خیرالعمل فائونڈیشن نامزدگی کےاحکامات مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نےجاری کیئے ہیں،واضح رہے کہ علامہ باقرعباس زیدی ایک برجستہ وباعمل عالم دین ہیں،جو کہ درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں،مختلف فلاحی امورکی انجام دہی میں شب روز کوشاں ہیں،عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں،جبکہ رہبر ولی امر مسلمین آیت خامنہ ای کی استفتاءکا اردوزبان میں ترجمہ علامہ باقرعباس زیدی کی علمی خدمات میں ایک عظیم کارنامہ ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) زندہ قومیں اپنے محسنوں کی یاد منایا کرتی ہیں اور اگر کوئی  محسن  ایسا ہو جس کا احسان صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ پوری انسانیت پر ہو تو ان کی یاد میں مجالس کا اہتمام اور انعقاد  عقلِ سلیم اور فطرت ِ انسانی  کا تقاضا ہے اور  اگر یہ مجالس ہمیں حسین (ع) کی اس آفاقی تحریک کے ساتھ منسلک اور متمسک رہنے کا ذریعہ بنیں تو انکی ارزش اور قیمت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ عزاداری کا مقصد صرف غم حسین (ع) میں  گریہ اور آنسو بہانا نہیں ہے   بلکہ جب ایک عزادار صفِ عزا میں شریک ہو جاتا ہے  تو وہ اپنے آپ کو اس مقصد سے ہماہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس مقصد کے لیے سید الشھداء(ع) نے اتنی عظیم قربانی دی ہے۔

شہید مطہری (رہ) فرماتے ہیں:  شہید کے لئے رونے کے معنی' اس کی شجاعت میں شرکت' اس کی روح سے ہم آہنگی اور اس کے جذبہ شہادت سے موافقت کے ہیں۔ (فلسفہ شہادت۔ ص ٥٤)

لہذا عزاداری اور  ان مجالس کے انعقاد کا مقصدصرف گریہ اور آہ  و زاری  نہیں ہے،  بلکہ عزاداری کا مقصد یہ ہے کہ ان مجالس کے ذریعہ مکتب ِ اہل بیت (ع)کو زندہ رکھا جائے۔

 روایت ہے کہ ایک دن امام صادق(ع) نے اپنے صحابی فضیل سے پوچھا: اے فضیل! کیا تم لوگ ہمارے جد بزرگوار حسین ابن علی(ع)کے لئے مجالس عزا کا انعقاد اور پھر ان مجالس میں ان کی مصیبت کا ذکر کرتے ہو؟ فضیل نے کہا: جی ہاں مولا! ہماری جانیں آپ پر فدا ہوں'ہم ایسی مجالس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ امام (ع) نے فرمایا: ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں۔  رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَنَا، اللہ تعالیٰ  اس شخص پر رحم کرےجو ہمارے امر (مکتب) کو زندہ کرے۔ (وسایل الشیعہ، حدیث نمبر ۱۵۵۳۲)

امام خمینی (رہ) اکثر فرمایا کرتے تھے کہ سید الشھداء اباعبداللہ الحسین (ع) کے غم میں بہنے والے اشکوں کی ارزش اور قیمت کم نہیں ہے بلکہ یہ ظلم و بربریت کے خلاف ایک تحریک ہے "ہمارا (یوں) جمع ہونا اور گریہ کرنا ایک سطحی عمل نہیں ہے، بلکہ  ہم سیاسی گریہ کرنے والی قوم ہیں' ہم وہ قوم ہیں جو ان اشکوں سے سیلاب بنا کر اسلام کے خلاف کھڑی ہونے والی رکاوٹوں کو پاش پاش کرتی ہے۔'' (صحیفہ نور۔ ج ٨۔ ص ٢٩)

کربلا کی یہ تحریک ایک عالمی اور آفاقی تحریک ہے، کیوں کہ امام حسین (ع) نے پوری انسانیت کو بیداری اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا تھا اور فرمایا تھا کہ "لعین نے مجھے شہادت اور بیعت میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب میں مخیر کر رکھا ہے، لیکن " هَيْهَاتَ مِنِّا الذِّلَّةُ " زلت ہم (اہل بیت (ع)) سے بہت دور ہے" (موسوعہ کلمات الامام الحسین، ص ۴۲۳) اور فرمایا:  " إِنِّيْ لا أَرَيَ الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَالحَياةَ مَعَ الظّالِمِينَ إِلّا بَرَما " میں راہ خدا میں شہادت کو اپنے لیے سعادت اور زندہ رہ کر ظالموں کے ساتھ جینے کو اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا ہوں۔ (مناقب، ابن شهر آشوب،ج۴، ص۶۸)

اور جب لعین نے بیعت کا مطالبہ کیا تو امام (ع) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ میں تو حسین بن علی ہوں، میری رگوں میں تو علی(ع) کا خون دوڑ رہا ہے، میرا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یاد رکھ " مِثْلِی لَا یُبَایِعُ مِثْلَه "  مجھ جیسا بھی اس ( یزیدلعنہ)جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور واضح کیا کہ اے ظالم! تو  میری بیعت پر اصرار مت کر، کیونکہ  یہ سر کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔

سجدے میں سر جھکا ہوا، نیزے پہ سر بلند

اقرار بھی کمال ہے، انکار بھی کمال

امام حسین (ع) نے رہتی دنیا تک انسانوں کو حریت اور آزادی کا درس دیا  اور انہیں خبردار کرایا کہ اگر کہیں عزت و حمیت کا مسئلہ ہو، اگر کہیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی بات ہو تو ڈرو مت، اگے بڑھو، باطل کے مقابلے میں سیسہ پلائی فولاد کی مانند ڈٹ جاؤ اور  ظلم و ستم کی زنجیریں توڑ ڈالو چاہے اس راہ میں تمھیں اپنی جان، مال اور سب کچھ کیوں قربان نہ کرنا پڑے اور آج  دنیا بھر میں آزادی کی جو تحریکیں نمودار ہو رہی ہیں  انہوں نے یہ درس کربلا اور عاشورا سےلیا ہے۔

ظالم کے سامنے نہ جھکائے جو اپنا سر

سمجھو کہ اس کے ذہن کا مالک حسین (ع) ہے

یہی تو وجہ ہے کہ آج نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کا ہر آزاد فکر انسان حسین (ع) کا عاشق، گرویدہ اور مداح ہے۔

این حسین (ع) کیست کہ عالم ھمہ دیوانہ اوست

این چہ شمعی است کہ عالم ھمہ پروانہ اوست

وقت کے یزید (لعنہ) نے تو حسین (ع) والوں کی آواز دبانے کی کوشش کی تھی، تاہم وہ خود تو صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود حسین (ع) کی یاد آج بھی زندہ ہے اور  قیامت تک زندہ  رہے گی۔

میری نظر میں کربلا والوں کی یاد کی بقاء کا راز یہ ہے کہ دربارِ شام میں علی(ع) کی بہادر اور شیردل بیٹی اور حسین (ع) کی تحریک کی محافظ و پاسبان بی بی زینب (س) نے شام میں یزید (لعنہ) کو چیلنج دی  تھی، جب اہل حرم کے سامنے  یزید (لعنہ) اقتدار کے نشے میں مست تخت پر بیٹھا تھا، تو سیدہ (س) نے اپنے تاریخی خطبہ دیا اور فرمانے لگی: كِدْ كَيْدَكَ وَ اجْهَدْ جُهْدَكَ فَوَ اللہ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا،اے لعین! تو جتنا مکر و فریب کر سکتے ہو کر لو، جتنی کوشش کر سکتے ہو کرلو، پس  اللہ  کی قسم!  تو ہمارا ذکر نہیں مٹا سکتا (لہوف، ص ۱۸۱ تا ۱۸۶، نفس المہموم، ص ۲۵۳ تا ۲۵۶، بحارالانوار جلد۴۵، ص ۱۳۳- ۱۳۵)

یہ زینب کبریٰ (س) کی دعاؤں کا اثر ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کربلا والوں کی یاد ابھی زندہ ہے اور انکی یہ تحریک بڑی تیزی سے پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے، یہ کوئی معجزہ سے کم نہیں کہ آج افریقا کے جنگلوں میں بھی حسین (ع) حسین (ع) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔


ذرا بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (ع)


تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree