وحدت نیوز (مظفرآباد) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا ہے کہ امام حسین ؑ کی عظیم قربانی کی یاد منانا عین عبادت ہے، امام حسین ؑ دین کی راہ میں قرآنی اصولوں کی سرفرازی اور اقدار کے احیاء کے لیے اپنی جان ، مال ، اولاد سب کچھ قربان کر گئے۔ آپ کی عظیم قربانی انبیاء ؑ کی محنتوں تبلیغات اور کاوشوں کا تحفظ بھی کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجہوئی میں جلوس عزا سے خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ اور توحید پرور دگار اور آسمانی کتب کی حقانیت کے لیے جنگ کی۔ کربلا کی جنگ کسی اقتدار کے لالچ یا حکومت کے حصول کے لیے نہ تھی، بلکہ خیر و شر اور حق و باطل کا معرکہ تھا۔ جس کے اختتام پر اگرچہ امام حسین ؑ شہید ہو گئے ، آپ کے انصار و اعوان ، خانوادہ کے افراد جام شہادت نوش کر گئے ۔ خانوادہ کے باقی ماندہ افراد اور خواتین کو بے مقنہ و چادر قیدی بنا لیا گیا ۔لیکن ان سب کے باوجود قیامت تک فتح حق اور خیر کی ہوئی ۔ اور شکست شر و باطل کا مقدر ٹھہری ، آج پوری دنیا میں جہاں بھی حق و حقیقت کے علمبردار رہتے ہیں وہ امام حسین ؑ کو اپنا ہیرو اور رہبر مانتے ہیں ۔ جبکہ امام حسین ؑ نے وقت کے طاغوت و استبداد کے خلاف جو مجاہدت فرمائی اس کے نتیجے میں دنیا بھر کی حریت پسند تحریکیں امام عالی مقام ؑ کو اپنا قائد تسلیم کرتی ہیں ۔علامہ تصور جوادی نے کہا کہ آج بھی امام حسین ؑ کے عزم و استقلال اور مقاومت و ثابت قدمی سے سبق حاصل کر کے اپنے اپنے دور اور علاقے کی طاغوتی قوتوں سے نبرد آزما ہیں ، امام کی یاد میں منعقد ہونے والی مجالس و محافل میں بھی ضرورت اس چیز کی ہے کہ امام حسین ؑ جیسی مقاوم و ثابت قدم شخصیت کی زندگی ، اور جہاد کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے ۔
شہید منیٰ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کے مختصر حالات زندگی
میرے بابا ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین ۲۲ نومبر 1971بمطابق ۴ ذالحجہ کو پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے نواحی گاوں قمراہ کے ایک متدین خاندان میں پیدا ہوئے۔شہید کے والدین پہلے سے ہی۴ بیٹوں سے محروم ہوچکے تھے اور اب شہید ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔ شہید کے والدین نے آپ کی تربیت کی خاطر بہت زیادہ زحمات اور مشکلات برداشت کیں۔ شہید کی والدہ یعنی ہماری دادی کہتی ہیں کہ میں نے شہید کو دوران شیرخوارگی بغیر وضو دودھ نہیں پلایا تھا۔ شہید نے پانچ سال کی عمر میں قرآن سیکھنا شروع کیا، قرآن سیکھنے کے علاوہ اسی عمر میں علوم اسلامی و معارف از جملہ احکام(توضیح المسائل) و عقائد کی کا بھی علم حاصل کیااور اسی طرح عقائد ابتدائی اپنے علاقے کے ایک معروف استاد اخوند احمد فلسفی سے سیکھے۔
دس سال کی عمر میں پاقاعدہ پانچ وقت نماز پڑھنا شروع کی اور دیگرمسائل دینی کو ذوق و شوق سے سیکھنا شروع کردیا ۔بچپن کے دوران بالغ ہونے سے تین ،چار سال قبل روز رکھنا چاہا،لیکن والدین اس راہ میں حائل ہوئے ۔ اسی عمر میں دروس اسلامی کے ساتھ ساتھ اسکول کی تعلیم بھی اپنے آبائی گاوں کے ایک اسکول سے شروع کی اور مدرسے میں اپنے استاد سے مختلف کتابیں جیسے بوستان و گلستان سعدی۔۔۔ وغیرہ پڑھنا شروع کردیں۔
شہید کوبچپن سے ہی خطابت اور تقریر کا بہت شوق تھا۔ شہید کی والدہ کہتی ہیں کہ بچپن میں ان کا کھیل منبر و فن خطابت تھا اور دوستوں کو اپنے اردگرد جمع کرتے اور خود ایک کپڑے کو عمامہ بنا کر اپنے سر پر باندھ لیتے اورمصائب پڑھنا شروع کردیتےاور اسی طرح قرآن کی تلاوت سے بھی ان کو بچپن سے ہی محبت تھی۔
الحمدللہ !ان کی آواز بھی بہت اچھی تھی اور بچپن میں ہی حلال و حرام کی تمیز کرتے تھے ۔نجس اور پاک چیزوں کے حوالے سے بھی بہت دقیق تھے ۔جب مڈل سکول میں جشن وغیرہ کی محافل ہوتی تو بہت شوق سے شرکت کرتے چنانچہ انہوں نے اسی دوران فن خطابت بھی سیکھ لیااور اس دور میں بھی اپنے خطاب میں تاریخ اسلام کے مختلف پہلو لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔اسی طرح گھر کے اندر بھی تمام خاندان کو جمع کرتے اور ان میں تاریخ اسلام پڑھتے تھے۔کالج کے دوران میں آپ علاقے کے مشہور خطیب کے نام سے جانے جاتے تھے اور امام بارگاہوں میں مجالس سے خطاب کرتے تھے ۔
محرم الحرام کے ایام میں مسلسل خطاب کرتے تھے اور اس دوران نماز شب بھی پڑھتے تھے بعد ازاں دروس اسلامی اور کالج کے دروس جاری رکھنے کے لئے آپ نے اسکردو شہر کا رخ کیا ۔آپ ہمیشہ کالج اور اسکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتے تھے ۔
مطالعہ کرنے سے آپ کو خاص لگاوتھا،اکثر اوقات نہج البلاغہ ،حیات القلوب اور حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ۔سیاسی کتابوں کے حوالے سے تحریرو تحقیق میں مصروف رہتےتھے ۔آپ انقلاب اسلامی ،حضرت امام خمینی ،رھبر معظم واستاد شہید مطہری سے متعلق دلی لگاو رکھتے تھے ،انقلاب اسلامی سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرتے اور انقلاب اسلامی کو اپنے لئے اسوہ قرار دیتے تھے ،آپ اکثر اوقات بزرگ علماءاور اہل علم کے حضرات کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ،اسی وجہ سے سکول کے دوران سے ہی سکول اور کل بلتستان میں ”آخوند محمد “ کے نام سے معروف ہوئے۔
اسی دوران کالج میں (آئی ایس او ۔۔امامیہ اسٹوڈٹنس آرگنائزیشن پاکستان ) جوکہ امامیہ طلبہ تنظیم ہے اس میں شہید نے اپنی فعالیتوں کا آغاز کیا۔شہید کے آئی ایس او میں فعالیت کرنے سے بہت سے لوگ مخالف تھے آپ نے ان سب کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا،اوراسی دوران آپ آئی ایس اوکے مسئول بھی بن گئے ،اور اسی وجہ سے آپ کو ان فعالیتوں کی بنیاد پر پر گرفتار کرلیا گیا اور سات دن جیل میں قید کرکے رکھا۔آپ نے جیل سے رہا ہوتے ہی فعالیتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور بلتستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔کالج کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد آپ کی شادی اپنے استاد کی بیٹی سے قرار پائی 1990 - ۱۹۹۱ میں آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر منتخب ہوگئے ۔
آپکے ساتھ کالج میں مختلف مکاتب فکر کے طلبا پڑھتے تھے، آپ ان سے مذاہب اور ادیان کے حوالے سے گفتگو کرتے ،اور دوستوں کے ساتھ اہل سنت کے مختلف علماءسے ملاقاتیں کیا کرتے تھے ۔
سال ۱۹۹۱ میں جب قائد بلتستان علامہ شیخ محمد علی الغروی کی قیادت میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیاتو آپ بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے اور بلتستان کے تمام لوگوں کو آگاہ کیا ،اس دوران آپ آئی ایس او بلتستان کے بے مثل خطیب اور ڈویژنل صدر تھےاور اپنی فصیح و بلیغ گفتگو سے لوگوں کو انتخابات کےبائیکاٹ کرنے کا اصلی ہدف سمجھاتے رہے۔
یونیورسٹی میں ااپ نے علوم انسانی میں داخلہ لیا اور تعلیم جاری رکھی،پڑھائی کے دوران مختلف لوگوں کے ساتھ گروہی شکل میں مختلف شہروں کا دورہ کرتے تھے۔سیاسی فعالیتوں کو جاری رکھنے کی خاطر آپ نے موضوع کو تبدیل کر کے اقتصاد یعنی اکنامکس میں داخلہ لیااور اسی شعبے میں ”ایم اے“ کی ڈگری حاصل کی،اسی دوران ۳۲ سال کی عمر میں آپ کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ۔”ایم اے “ کرنے کے بعد آپ نے مذہبی اور سیاسی فعالیتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پچیس سال کی عمر میں علوم اسلامی و معارف اہلیبت ؑ سے دلی وابستگی کی بنیاد پر حوزہ علمیہ قم (ایران )کا رخ کیا۔
علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین نے حوزہ علمیہ میں آمد کے بعد بزرگ اساتید کے سامنے زانوتلمذ تہہ کئے اور متعدد علوم سے مستفید ہوئے از جملہ استاد ۔۔ حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی ،حضرت آیت اللہ وحید خراسانی ،آیت اللہ غلام عباس رئیسی اور حجة الاسلام و المسلمین سید حامد رضوی حفظ اللہ سے کسب علوم محمد و آل محمد کیا۔
شہید تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور سیاسی فعالیت بھی کرتے رہے ۔حوزہ علمیہ میں مختلف پروگراموں میں مختلف مناسبتوں کے عنوان سے لیکچرزدیاکرتے تھے اور مجالس پڑھا کرتے تھے اس کے ساتھ ساتھ مختلف تنظیموں اوراداروں کی سرپرستی بھی کیاکرتے تھے اور ایک بہترین جامع مجلہ بنام ” بصیرت “ آپ کی زیر سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔
کالج کے دور میں جب تحریک جعفریہ عروج پر تھی تو اس وقت آپ تحریک جعفریہ بلتستان کے سیکرٹری جنرل ،اور امام جمعہ شیخ حسن جعفری کے خزانچی تھے اور جب سے مجلس وحدت بنی تب سے آخر عمر تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما اور پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل تھے ۔
شہید اپنے اہلِ خانہ کے درمیان
انسان کے حقیقی اخلاق کا پتہ اس کے اہلِ خانہ سے چلتاہے۔ ہمارےوالدمحترم ہمیشہ گھر میں ہمارے ساتھ بہت محبت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ حتیٰ کہ سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ بھی آپ کھیلتے تھے ،اور ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کیا کرتے تھے اور اگر ہم میں سے کسی سے غلطی ہوجاتی تو نہایت ملائم انداز میں تھوڑا بہت خفگی کا اظہار کرتے تھے اور جلدہی یہ نارضگی ختم ہوجاتی تھی اور اگر کبھی ہم میں سے کوئی ناراض ہوجائے تو فوراً مذاق کرکے ہمیں منا لیتے تھے ۔
اکثر اوقات گھر میں مہمانوں کا آنا جانا رہتا تھا، بابا شہید بڑے جوش اور خوش اخلاقی سے مہمانوں کی پذیرائی کرتے تھے ۔ہمیں یاد ہے کبھی بھی دوسروں کے سامنے ہمیں نہیں ڈانٹا ۔۔اگر ہم کسی مہمان کے ہوتے ہوئے اشتباہ کرتے تو مہمانوں کے جاتے ہی ہمیں ہمارے اشتباہات کی طرف اشارہ کرتے اور ہم متوجہ ہوجاتے تھے ۔
بابا شہید اپنی ان گنت مصروفیات کے باوجود بہت ہی ہنس مکھ تھے۔ گھر کے اندر فُل ٹائم قاری قرآن تھے ،بعض اوقات ہمیں شوق دلانے کی خاطر قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اور ہم بھی بہت شوق سے سنتے تھے ۔بابا شہید مداح ِ اہل بیتؑ بھی تھے اور مختلف مناسبتوں کے حوالے سے گھر میں قصیدے اور منقبت وغیرہ پڑھتے تھے ۔
شہید بابا اپنے والدین کے حوالے سے بھی بہت احترام کے قائل تھے ،اپنی والدہ محترمہ سے ایک پل بھی جدا ہونے کے لئے آمادہ نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ خود جب بھی تبلیغ کے لئے پاکستان جاتے اپنی والدہ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔وہ اپنی والدہ کی خوشی اور ناراضگی کا حد سے زیادہ خیال رکھتے تھے ۔اسی طرح ہمارے بابا شہید ہماری والدہ گرامی یعنی اپنی ہمسرکے ساتھ بھی ایک مہربان دوست کی رح نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے،المختصر یہ کہ بابا کی موجودگی میں ہمارے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔
شہید کی نصیحتیں :
بابا شہید ہمیشہ تحصیل علم میں موفقیت کی خاطر کوشش محنت ۔۔ کرنے کی تلقین کرتے اور ہمیشہ اہداف و مقاصد کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتے ۔ٹائم پہ نماز پڑھنے کے حوالے سے بہت ہی حساس تھے اور ہمیں وقت پر نماز پڑھنے کے لئے تشویق دلاتے ،حلال و حرام کے معاملے میں بھی بہت حساس تھے ۔ہمیشہ کہتے تھے کہ دنیا میں کس حد تک مال و ثروت ہونی چائیے اورکس طرح کیسے زندگی کزاری جائے، مہم یہ نہیں ہے کہ ہم دینا میں مال ثروت جمع کریں ،بلکہ مہم یہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے آخرت کے لئے کتنا اور کیا جمع کیاہے ۔
ہم ہمیشہ کہتے تھے کہ بابا ہمیں شہادت کا بہت شوق ہے، تو بابا کہتے تھے کہ شہادت آسانی کے ساتھ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اس کے لئے بھی شرائط اور لیاقت چاہیے ۔بابا شہید کہتے تھے کہ میرے نزدیک ایک مبلغ شائستہ وہ نہیں کہ اپنی پوری زندگی فقط دروس وغیرہ میں صرف کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی مہم ہے۔
بابا شہید کہتے تھے کہ انسان جب اس دنیا سے ناگہان طور پر چلا جاتا ہے تو یہ مہم ہے کہ کیسے جاتا ہے اور کیا سعادت ہے کہ کوئی اس دنیا سے شہادت کی صورت مرجائے ۔شہید پدر ہمیشہ تواضع اور فروتنی کے ساتھ نصیحت کرتے تھے کہ غرور و تکبر وہ خطا ہے جسکی وجہ سے شیطان کو درگاہ خداوندی سے نکالا گیا،کہاکرتے تھےکہ انسان کی زندگی کا سرمایہ معرفت خدا اور شناخت ہستی ہے ،اگر انسان کو معرفت خدا حاصل ہوجائے وہ اپنے لئے راہ ڈھونڈنکالتا ہے ،کہتے تھے اگر موت اور قیامت سے ڈرتے ہو تو اپنے اعمال کی فوراً تصحیح کرو ،بابا شہید کہتے تھے موت ہر انسان کا حق ہے جس سے دستبرداری ممکن نہیں ۔وہ ہمیں ہمیشہ مذہبی و دینی محافل میں شرکت کے لئے نصیحت کرتے اور وعظ و نصیحت سننے حتیٰ ٹیلی ویژن کے ذریعے سے سننے کی تلقین کرتے ،اکثرہمارے ساتھ ولایت فقیہ کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے اور ہمیشہ ولایت فقیہ کی پیروی کرنے کی نصیحت کرتے ۔آپ جمعے کی نماز میں شرکت کے حوالے سے بہت پابند تھے ۔
آپ نے انتہائی سادہ زندگی گزاری اور ہمیں بھی ہمیشہ سادگی کی نصیحت کی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک دفعہ گھر کے لئے ہم نے صوفے خریدے تو بابا اتنے اداس ہوگئے کہ ہم نے خود ہی صوفے گھر سے اٹھوا دئیے۔
بابا شہید ہمیشہ فرماتے تھے کہ اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہت ہو تو نماز شب پڑھا کرو،آپ خود بھی تمام مستحبات انجام دیتے تھے ، حتّیٰ کہ نیند کے اوقات کے مستحبّات بھی انجام دے کرسوتے تھے ۔
شہید کی اپنے اہلِ خانہ کو آخری نصیحت:
اس سال حج کے ایّام نزدیک اانے لگے تو ہمارے گھر والوں نے متعدد موقعوں پر بابا سے کہا کہ اس سال سعودی عرب کے حالات مناسب نہیں ہیں،اگر ہو سکے تو آپ نہ جائیں ۔۔بابا نے کہا ہر دفعہ نہایت اطمینان سے یہی جواب دیا کہ انسان ہر وقت موت کا منتظر ہے ،میں کیسے موت کے تبلیغِ دین کے فریضے کو چھوڑ کر موت کے ڈر سے گھر میں چھپ کر بیٹھ جاوں۔
بابا شہید نے اس مرتبہ پاکستان جانے سے پہلے امّی کو کچھ نصیحتیں کیں ،تمام چیزیں امّی کی سپرد کیں اور امّی سے کہا کہ بچوں کے ساتھ مہربانی کے ساتھ پیش آنا اور ہم سب کو دل لگاکر پڑھنے کی نصیحت کی۔
؎ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
بشکریہ:۔ ابراہیم بلتی
پیشکش :۔ مجلس وحدت مسلمین قم میڈیا سیل
وحدت نیوز (بولان) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے چھلگری تحصیل بھاگ ضلع کچھی بولان کاظمیہ امام بارگاہ مسجد میں شہداء کی نماز جنازہ پڑھائی اور عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناقص سیکورٹی انتظامات کے باعث یہ المناک سانحہ رونما ہوا، بلوچستان میں دھشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور سہولت کاروں کے خلاف کوئی آپریشن کیا جاتا تو یہ المناک سانحہ رونما نہ ہوتا، حکومت اپنا پورا زور عزاداری امام حسین عالی مقام ؑ کو محدود کرنے پر لگاتی رہی ، بلوچستان میں آج بھی کالعدم فرقہ پرست جماعتوں کی شر انگیز سرگرمیاں جاری ہیں،جس کے باعث یہ حساس صوبہ ملک دشمن فرقہ پرست دھشت گردوں کے نشانے پر ہے۔
در ایں اثناء صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی، سیکریٹری داخلہ ودیگر کے ہمراہ چھلگری پہنچے۔ اس موقعہ پر ایم پی اے آغا رضا، علامہ سید ہاشم موسوی، علامہ جمعہ اسدی، حاجی عبدالقیوم چنگیزی ودیگر بھی موجود تھے۔اس موقع پر وارثان شہداء کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے بارہ نکات پر مبنی مطالبات پیش کئے ،انہوں نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن بارود کے ڈہیر پر ہے جہاں دھشت گردی کے اڈے قائم ہیں۔ نصیر آباد ڈویژن میں اس سے قبل بھی دھشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں لہذا دھشت گردوں کے مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور نیشنل ہائی وے پر بختیار آباد کے مقام پر یادگار شہداء قائم کی جائے،اس موقع پر وزیر داخلہ نے یقین دلایا کہ وہ ان مطالبات سے متعلق وزیر اعلیٰ سے بات کریں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجوداہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کاآغازکردیا اور دیکھتے ہی دیکھتےناصبی اپنے اوپر اسلام کالیبل لگاکر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔ایک سروئے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جولوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے،ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلاکو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے ۔ گویاجوزہررشدی کے قلم نے رسولِ اکرم ۖ کے خلاف اگلاتھا وہی نواسہ رسول ۖ کے خلاف اگلاجانے لگا۔پوری دنیا میں خصوصاً عراق،افغانستان ،سعودی عرب،ہندوستان اور پاکستان میں ایسےتجزیہ نگار،مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی ،انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کر کے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین[ع] پر تنقید کی جانے لگی،اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی وہ مجموعی طورپراس بات سےغافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھارہے ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین پر تنقید کرتا ہے،کوئی چینل یزید کی تعریف کرتاہے،کوئی صحافی دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین{ع} تو پہنچا ہے پیغامِ حسین{ع} نہیں پہنچا۔اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ ناصبیّت کو بے نقاب کر نے کےلئے پیغام کربلا کو عام کریں۔تحریک ِکربلا پر لکھیں،کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں،تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں،اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصدکربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔ آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہوجانے کا اہم سبب وہ دانشمند،خطباء اور ادباء ہیں جنہیں حسین ابن علی [ع]کی چوکھٹ سے علم کارزق،افکار کا نور،قلم کی بلاغت،زبان کی فصاحت اوربیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلاکو عوام تک نہیں پہنچاتے،اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔ اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب،جمال وجلال،عشق و عرفان اورخون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تودنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہرمنصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوجاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں،جس نے دین ِ اسلا م کو لازوال کردیا،جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کردیا،جس نے سنّت کو زندہ کردیا،جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کردیا،جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا،جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا،جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنادیا،جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطاکیا،جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا،جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کردیا،جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کردیا،جس کے علم کا پھریر ا آفاقِ عالم پر چھایا ہواہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔ کربلاتو وہ ہے۔۔۔جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہوتو شہکارِ رسالت ہے،اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے،اگرآغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ کربلاتو وہ ہے ۔۔۔جس کے امیرنے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جمادیا،جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کردیا،جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلادیا۔ بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔ یہ ہمارے واعظین ،خطباء،ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کرکربلا پر تحقیق کریں،کربلا لکھیں،کربلا پڑھیں،کربلاخود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔
اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھرہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے:
ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا
رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک باربار ڈوب جاتی ہے
جواِک آنکھ دنیا پر اور اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں
شہادت کی گھڑی ان کی زباں سوکھ جاتی ہے جھوٹ کے چشمے سے سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا
مرمرکاپتھر پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا
جومصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑجائے
وہ ہاتھ سلام یا حسین {ع} نہیں لکھ سکتا
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) کربلا توحید کی فتح کا نام ہے۔ امام حسین نے کربلا میں قربانی دے کر توحید، نبوت ،ولایت اور جرات و شجاعت کو ابدی حیات بخشی اور کربلا کے بعد کوفہ و شام کے بازاروں و درباروں میں جاکر ثانی زھراء حضرت زینب ؑاور امام سجادؑ نے قربانی و مقصد امام حسینؑ کو حیات جاوید انی عطاءکی ۔
جی چاہتا ہے کہ آج بات کچھ یزید کے مکروفریب کی ہاجائے، یزید کے مکر پر بات کرنے سے پہلے ہم تھوڑی سی بات مادہ “مکر “پر بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی اردو زبان میں مکر ،دھوکہ و فریب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور عربی میں مکر کا معنی چال ،چالاکی ، دوراندیشی ، منصوبہ بندی اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں۔
قرآن میں بھی اللہ نے مادہ مکر کو خفیہ تدبیر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ “کافروں نے بھی مکر کیا اور اللہ نے بھی “اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے[1] .
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کربلا کی جنگ کے بعد یزید نے کیا مکر کیا اور اللہ نے کیا خفیہ تدبیر کی۔ اس کو ہم اس مثال سے واضح کرتے ہیں کہ تاریخ کے اوراق میں بات درج ہے کہ نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا، ایک بندے کو جلانے کے لیے کتنی لکڑیوں کی ضرورت ہے ،بیس کلو ،چالیس کلو، زیادہ سے زیادہ دو من ،دومن لکڑی کے کر نمرود حضرت ابراہیمؑ کو جلا دیتا ،کیوں اس نے اعلان کیا کہ میری سلطنت میں رہنے والا ہر شخص لکڑیاں لے کے آئے ۔۔۔
دراصل نمرود ایک چال چل رہا تھا وہ یہ کہ نمرود دنیا والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ میں توحید کو جھٹلا کر اپنے مقابلے میں آنے والے نمائندہ توحید کو جلانے جا رہا ہوں۔گویا میں اعلانِ توحید کا مقابلہ کرنے جا رہا ہو ں ،لوگو! آکر دیکھو میرے مقابلے میں آنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ لوگ گھوڑوں ، اونٹوں، کدھوں پر لکڑی لاکر جمع کرنے لگے لکڑیوں کا ایک بہت بڑا ڈھیر لگ کیا آگ جلائی گی آگ کی شدت اتنی تھی کہ کئی کلو میٹر تک اس کی تپش جارہی تھی ایک منجنیق کے ذریعے سے حضرت ابراہیمؑ کو اس آگ میں ڈالا گیا ،اب نمرود نے انتا بڑا انتظام کیا ،لکڑی جمع کی ،لوگ بلائے ۔۔۔لیکن پروردگار نے صرف آگ کوحکم دیاکہ گلزار ہو جا !
آگ گلشن میں تبدیل ہوگی اور نمرود کی ساری کی ساری منصوبہ بندی پر پانی پھر گیا۔ اسی طرح اللہ نے اپنی خفیہ تدبیر کے ذریعے سے اپنے نبی کو امتحان میں کامیاب فرما کر توحید کو فتح عنایت فرمائی ۔
دوسری طرف یزید نے بھی واقعہ کربلا کے سلسلے میں ایک چال چلی،اس وقت عرب میں یہ قانون تھا کہ جنگ کے بعد بچ جانے والوں کو قیدی بناکر قید خانے میں رکھتے تھے ،یا کچھ رقم لے کر چھوڑ دیتے تھے، لیکن یزید نے اپنے منصوبے کے مطابق کربلا کی جنگ کے بعد زندہ رہ جانے والے بچوں و خواتین کو قیدی بنا کر بازاروں میں لے جانے کا حکم دیا اور کوفہ و شام میں منادی کرا دی کہ فلاں دن سارے لوگ بازاروں میں جمع ہو کر خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے والے قیدیوں کا تماشا دیکھیں۔
یزید اور ابن زیاد یہ چاہتے تھے کہ جونہی یہ قیدیوں کا قافلہ بازار میں داخل ہو گا ہم اعلان کریں گے کہ لوگو! دیکھو جس خدا کے بارے میں یہ بنو ہاشم کہتے تھے وہ کہاں ہے ،اگر خدا ہوتا تو اپنے ان بندوں کی مدد کرتا پس ان کی بیچارگی و بے بسی سے ثابت ہوا کہ کوئی خدا نہیں ہے ۔
یہ یزید کا مکر تھا کہ اس نے اتنا بڑا انتظام کیا، لوگوں کو جمع کیا ،بازار سجائے۔۔۔لیکن اب خدا کی خفیہ تدبیر دیکھیے ،جونہی قافلہ بازار میں داخل ہوا تو اللہ تعالی نے امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر اقدس سے قرآن جاری فرما کر لوگوں میں یہ ثابت کر دیا کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو اس کٹے ہوئے بغیر جسم کے سر سے قرآن پڑھوا رہی ہے اور اس صاحب سر کا اس ہستی سے گہرا تعلق ہے کہ مر کر بھی زبان پر ذکر صرف خدا کا ہے۔
اسی طرح سے اللہ تعالی نے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان مقدس ہستیوں کے ذریعے اپنی توحید کو فتح عطاء کی خصوصاًجب کوفہ کے دربار میں یہ قافلہ پہنچا تو ابن زیاد نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا خدا کہا ں ہے بلکہ کہا کہ دیکھو اللہ نے تمھیں کتنا ذلیل کیا ہے اس پر حضرت زینب ؑ نے ایک خوبصورت جملہ کہا کہ مارایت الّا جمیلا یعنی میں نے اللہ کے جمال کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ۔
اور یوں یزید کی بچھائی ہوئی بساط الٹ گئی،توحید کو فتح اور کفر و شرک کی حیلہ کاروں کو دائمی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اب ہر سال محرم الحرام آکر اعلان کرتاہے۔۔۔مکروا ومکراللہ واللہ خیرالماکرین
[1] ومکروا و مکر اللہ واللہ خیر المٰکرین (آل عمران آیت 54 )
تحریر۔ سجاد احمد مستوئی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) بس اب محرم ختم ہوگیا؟ عاشورہ کے جلوس سے واپسی پر بیٹے نے باپ سے پوچھا
باپ۔۔۔ نہیں بیٹا ، ابھی محرم ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو سادات پر مظالم کی ابتداء ہوئی ہے
بیٹا۔۔۔ پھر لوگ واپس گھروں کو کیوں جارہے ہیں ؟
باپ۔۔۔ کیونکہ اب جلوس عزا اختتام پذیر ہوگیا ہے نا
بیٹا۔۔۔ ہیں بابا یہ لوگ اتنی تعداد میں اس دن گھروں سے باہر کیوں آتے ہیں گھر بیٹھ کے بھی تو رویا جا سکتا ہے؟
باپ۔۔۔ باہر آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اظہار غم کے ساتھ ساتھ دنیا تک یہ پیغام بھی پہنچائیں کہ حسینؑ ابن علیؑ مظلوم تھے
بیٹا۔۔۔ مظلوم کیا ہوتا ہے ؟
باپ۔۔۔ مظلوم اس شخص کو کہا جاتاہے کہ جسے بغیر کسی جرم و خظاء کے قتل کیا جائے اس لیے امام حسینؑ کو مظلوم کہا جاتاہے
بیٹا۔۔۔امام حسینؑ کو کہاں او رکس نے مارا؟
باپ۔۔۔ یزید نے حسینؑ ابن علیؑ کو سرزمین کربلا میں بڑی بے دری سے شہید کیا
بیٹا۔۔۔ کیوں بابا کیا امامؑ کا یزید سے کوئی جھگڑا تھا؟
باپ۔۔۔ نہیں تو
بیٹا۔۔۔ تو پھر کیوں قتل کیا؟
باپ۔۔۔ وہ اس لیے کہامام حسین ؑ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے
بیٹا۔۔۔ تو کیا یزید اللہ کو نہیں مانتا تھا ؟
باپ۔۔۔ یزید بھی اللہ کو مانتا تھا مگر صرف اپنے مفاد کی خاطر اور دین اسلام کے دائرے میں رہ کر نظام الہی کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنا چاہتا تھا۔۔۔
بیٹا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یزید ایک مطلبی شخص تھا مگر یہ یزید تھا کون اور کہاں رہتا تھا؟
باپ۔۔۔ یزید شام کا حاکم تھا اور یہ معاویہ بن ابو سفیان کا بیٹا تھا
بیٹا۔۔۔ اسے حکومت کس نے دی ؟
باپ۔۔۔ اس کے باپ معاویہ نے اپنے بعد اسے حاکم بنایا
بیٹا۔۔۔ کیا اس کا باپ حاکم مقرر کرتے وقت اس کی برائیوں سے آگاہ نہیں تھا ؟
باپ۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ اس کا بیٹا شرابی ہے ، جوّا کھیلتا ہے کتّےو بندر بازہے پھر بھی پتہ نہیں کیوں ایسا کیا
بیٹا۔۔۔ یعنی یزید بہت برا تھااور اس کا باپ بھی یہ جانتا تھا
باپ۔۔۔ بلکل اسی لیے تو تمام مسلم و غیر مسلم یزید سے نفرت اور امام حسینؑ سے محبت کرتے ہیں
بیٹا۔۔۔ جولوگ امام حسینؑ کی محبت میں روتے اور ماتم کرتے ہیں وہ کون ہیں ؟
باپ۔۔۔ انہیں شیعہ کہتے ہیں
بیٹا۔۔۔ کیا شیعہ اللہ کو نہیں مانتے ؟
باپ۔۔۔ کیوں نہیں
بیٹا۔۔۔ تو پھر لوگ انہیں کافر کیوں کہتے ہیں ؟
باپ۔۔۔ کیوں کہ کل کی طرح آج بھی شیعہ یاحسینؑ یاحسینؑ کرتے ہیں جبکہ یزید و آل یزید کو یہ شدید ناگوار گزرتا ہے اس لئے یزیدی پہلے نعوزباللہ امام حسینؑ کو باغی اور کافر کہتے تھے اور اب سارے مسلمانوں کو خواہ وہ شیعہ ہوں یاسنّی انہیں کافر کہتے ہیں۔
بیٹا۔۔۔ کیا آج بھی یزیدی موجود ہیں ؟
باپ۔۔۔ ہاں کیوں نہیں آج یہ جو ہر طرف بدامنی و افراتفری کا دور دورا ہے ، بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے کبھی مساجد میں نمازیوں کو مارتے ہیں تو کبھی امام باگاہوں میں عزداران حسینی کو کبھی بازاروں میں خون کی ہولی کھیلتے ہیں تو کبھی سکولوں میں معصوم بچوں کو بڑی بے رحمی سے موت کی نیند سلاتے ہیں ، یہ سب یزیدی ہی تو ہیں۔
بیٹا۔۔۔ کیا ہم بھی حسینی بن سکتے ہیں ؟
باپ۔۔۔ جی ہاں کیوں نہیں،بشرطیکہ ہم یزیدیوں والے کام نہ کریں۔
بیٹا۔۔۔ یزیدیوں والے کام ؟؟
باپ۔۔۔ ہاں بیٹا یزیدی ہمارے اور پورے عالمِ اسلام کے داخلی دشمن ہیں۔
بیٹا۔۔۔ داخلی دشمن؟
باپ۔۔۔ہاں داخلی دشمن ! ایسا دشمن کہ جو کسی نظام و سسٹم کے اندر رہ کر اسی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے صدر اسلام سے لے کر آج 1437 ھ تک جتنا نقصان اسلام کو داخلی دشمن نے پہنچایا ہے اتنا خارجی دشمن نہیں پہنچا سکے۔ہمیں چاہیے کہ عاشورہ کے بعد ہم اپنے عمل سے اپنے حسینی ہونے کو ثابت کریں۔
بیٹا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ عاشورہ کے دن ماتم و عزاداری کے بعد ہماری ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں !
باپ۔۔۔ ہاں بیٹا بلکل ایساہی ہے ،عملی کام تو عاشورہ کے بعد شروع ہوتاہے۔
بیٹا۔۔۔گھر کی دہلیز سے اندر قدم رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔بابا کیا اچھے اچھے کام کرکےسب لوگ حسینی بن سکتے ہیں؟
باپ ۔۔۔ہاں،ضرور ،سب بن سکتے ہیں
بیٹا ۔۔۔کیا چھوٹے بچے بھی۔۔۔؟
باپ۔۔۔مسکراتے ہوئے،ہاں چھوٹے بچے بھی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
تحریر۔ ساجد گوندل