وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین،جعفریہ الائنس،شیعہ علماکونسل،شیعہ ایکشن کمیٹی،زاکرین امامیہ،ہیت آئمہ مساجد و علما امامیہ،باسبان عزا،پیام ولایت اور دیگر شیعہ جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملت تشیع کے لاپتا افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ملت کے لاپتا افراد پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔کسی بھی شہری کو اس طرح حراست میں رکھنا آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔لاپتا افراد کے معاملے میں پوری شیعہ قوم ایک پیج پر کھڑی ہے۔جبری گمشدہ افراد کے لیے شروع کی گئی تحریک کا دائرہ کار بہت جلد پورے ملک تک پھیلایا جا رہا ہے۔بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی نے لاپتا افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجاََ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر کے ملت کے درد سے سب کو آگاہ کیا ہے۔علامہ احمد اقبال نے کہا کہ اگلے جمعے کو وہ خود کو بھی گرفتاری کے لیے پیش کریں گے۔ہمارا یہ احتجاج اختیارات سے تجاوز کے مرتکب اداروں اور غیر قانونی طرز عمل کے خلاف ہے۔جب تک لاپتا افراد کو بازیاب نہیں کرایا جاتا تب تک ہمارا یہ پُرامن احتجاج اسی انداز سے جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر عمل ہماری حب الوطنی کا برملا اظہار ہے۔ہمیں کسی سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔وطن عزیز میں اہل تشیعوں کی ٹارگٹ کلنگ سب سے زیادہ کی گئی۔ہمارے نوجوان کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔اگر عدالتیں لاپتہ جوانوں کو مجرم ثابت کردیں تو انہیں سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان میں آپریشن کرنا چاہیے۔ عدلیہ اور فوج کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرنے کی جوکوشش نون لیگ کر رہی ہے وہ ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ ملک دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر ملک کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی اس کوشش کو قوم اپنے بصیرت و و دانش سے ناکام بنا دے گی۔شیعہ علما کونسل کے رہنماعلامہ ناظر نقوی نے کہا کہ اس تحریک کا بنیادی مقصد لاپتہ افراد بارے معلومات حاصل کرنا اور انکو بازیاب کرانا ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا آئینی حق ہے کہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں قانون و آئین کے مطابق سزا دی جائے۔پانچ کروڑاہل تشیعوں میں کوئی مسلح گروپ نہیں ہے۔ہم نے ہمیشہ آئینی راہ اختیار کی۔فوجی عدالتوں میں صرف سرکاری تنصیبات پر حملے کرنے والوں کو سزا دی گئی۔ملت تشیع کے شہدا کے لواحقین آج تک انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے تشیع کے قاتلوں کو بھی سولی پر لٹکایا جائے۔ گرفتار شدگان کو نوے دن کے اندر عدالت میں پیش کرنے کے قانون کی خلاف ورزی خود حکومت کر رہی ہے۔ ہم آرمی چیف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی جائیں۔جعفریہ الائنس کے رہنما سلمان مجتبی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کے معاملے کو حکومت سنجیدگی سے لے۔ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ہمارے بچوں کے اہل خانہ کئی سالوں سے ان کا راہ تک رہے ہے۔ہمیں ان کی خیریت سے آگاہ کیا جائے۔بیت آئمہ مساجد کے رہنما مولانا نعیم الحسن نے کہا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں۔ہمارے لیے کو ئی بھی متعصبانہ طرز عمل قابل قبول نہیں۔ہمیں آگاہ کیا جائے کہ کس قانون کے تحت ہمارے نوجوانوں کو اتنے سالوں سے یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ذاکرین امامیہ کے رہنما نے نثار قلندری کہا کہ کہا کہ جیل بھرو تحریک نے اگر شدت پکڑ لی تو حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ہمارے نوجوانوں کو فوری طور پر بازیاب نہ کرایا گیا تو ملت تشیع آئندہ انتخابات میں پورے ملک میں مسلم لیگ نون کے خلاف تحریک چلائے گی۔ پریس کانفرنس میں ممتاز بزرگ شیعہ عالم دین مولانا مرزا یوسف حسین، شیعہ علما کونسل کے رہنمایعقوب شہباز جعفریہ الائنس کے رہنما شبر رضا،آئی ایس او کے رہنما قاسم عباس،پاسبان عزا کے رہنما راشد رضوی ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علی حسین نقوی،علامہ اظہر نقوی،علامہ مبشر حسن،علامہ علی انور جعفری،علامہ صادق جعفری،حسن ضغیر،عارف ترابی،ساجد چکوالی اور شیعہ ایکشن کمیٹی کے صغیر عابد رضوی اور سہیل حسن بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز (ڈیرہ اللہ یار) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ برکت علی مطہری نے کہا ہے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ایما پر پاکستان میں اہل تشیع کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشتگردوں کیخلاف نہیں کررہیں، بلوچستان میں انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، سانحہ درگاہ فتح پور شریف اور کوئٹہ فائرنگ اور شیعہ نوجوانوں کی گمشدگی قابل مذمت عمل ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اللہ یار میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سید شبیر شاہ اور دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ علامہ برکت مطہری کا کہنا تھا کہ ملک کے مختلف شہروں سے شیعہ نوجوانوں کو بغیر کسی جرم کے اغواء کیا جارہا ہے،لاپتہ شیعہ افراد کی رہائی کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید حسن ظفر نقوی نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کرکے خود گرفتاری پیش کردی ہے، آئے روز شیعہ شہریوں پر حملے کئے جارہے ہیں، ان حملوں میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل نواز دہشتگرد ملوث ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سانحہ فتح پور اور کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ پر ہونے والوں حملوں کے دہشتگردوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے بصورت دیگر ملک بھر میں منظم تحریک شروع کرینگے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری سیاسیات سید علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملت جعفریہ کے مسنگ پرسنز کے بارے میں آگاہی دینا ریاستی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ کسی بھی ادارے کے تحویل میں نہیں ہیں تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ جو انہیں لے گئے ہیں وہ ایلینز تھے اور ھمارے لاپتہ افراد کسی دوسرے سیارے سے ملیں گے۔ خاموشی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ آئین پاکستان اور قانون پاکستان ہمیں یہ سوال پوچھنے کی اجازت دیتی ہے کہ ہمارے لاپتہ افراد کہاں ہیں۔لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے علماء کی گرفتاری پیش کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایک ذمہ دار ملت ہیں اور نازک حالات کا ادراک رکھتے ہیں۔ ہم وہ ملت ہیں جنہیں بسوں سے اتارکر شناختی کارڈ چیک کرکے مارا گیا لیکن ملت جعفریہ نے آئین قانون اور اداروں پر اپنا اعتماد برقرار رکھتے ھوئے  قانون کو ہاتھ میں صرف اس لئے نہیں لیا کہ اس ارض پاک کے گلشن میں ھمارے لہو رنگ گل بدلے اور نفرت کی آگ سے جھلس نہ جائیں۔ ہمارے انجینیئرز ھمارے ڈاکٹرز ھمارے پروفیسرز ھمارے علماء ھمارے ادیب دانشور شعراء ھمارے بینکرز ھمارے گولڈ میڈلسٹ ھونہار طالب علم اور جوانوں کو مسلک کی بنیاد پر چن چن کر مارا گیا۔ ھم نے ایک ایک دن میں سو سو جنازوں کی تدفین کی لیکن اسکے باوجود ھم نے پاکستان پائیندہ باد کا نعرہ لگاکر یہ ثابت کیا کہ ارض پاک کی مٹی سے ہمیں پیار ہے اور دشمن کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی ہرسازش کو ہم ہر قدم پر ناکام بناتے رہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ ھمیں گلگت بلتستان سے لیکر کراچی تک روزانہ کی بنیاد پر قتل کیا گیا اور پھر ان قتلوں کی ذمہ داری ببانگ دہل میڈیا پر قبول کیا جاتا رہا ہمیں یہ علم ہونے کے باوجود کہ ھمارا قاتل کون ہے ھمارے علماء نے ہمیں کبھی انتقام لینے کا درس نہیں دیا۔
ھمارے امام بارگاہ اور مساجد جلائ گیئں بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے حکومتی مشنری کے حفاظتی حصاروں میں ھمارے خلاف کافر کافر کے نعرے لگائے گے لیکن جواب میں ہم نے کبھی کسی کو کافر قرار دیا؟کب تک آپ ہم سے ھماری حب الوطنی کا ثبوت مانگتے رہو گے؟
 کیا اتنی قربانیاں دینے کے باوجودملت جعفریہ کا حب الوطنی کا امتحان ختم  نہیں ھوتا۔؟ یاد رکھیئے ہمارے لہو میں ظلم کیخلاف مزاحمت کا عنصر شامل ہے ہم کربلا سے لیکر آج تک ظلم کیخلاف مزاحمت کرتے چلے آئے ہیں 1400 سو سال کا جبر ہمارے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکا۔ تو یہ زنداں اور یہ خاموشی ہمارے حوصلوں کو کہاں شکست دے سکتی ہے۔ اس وطن کی بنیادوں میں ھمارا لہو شامل ہے اس چمن کی آبیاری ہم نے اپنے خون سے کی ہے اسلیئے اس ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیئے ملت جعفریہ کے مسنگ پرسنز کے خانوادگان کو انکا آئینی و قانونی حق دلانے کے لیئے ہم ہر قربانی دیں گے۔ یہ جیل بھرو تحریک ملک کے طول و عرض میں پھیلے گی اور ملت جعفریہ کے مسنگ پرسنز کے خانوادگان کو انصاف دلانے کے لیئے آئین پاکستان اور قانون پاکستان  کی بالادستی قائم  ھونے تک جاری رہے گی۔

وحدت نیوز (لاہور) نون لیگ سیاست بچانے کے لئے ریاست کو داوُ پر لگانے سے باز رہے، لیگی حکومت فرقہ واریت کو ہوا دے کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے، پنجاب میں دہشتگردوں کاسب سے بڑا سہولت کار راناثنااللہ ہے،پنجاب میں کالعدم شدت پسندوں کو اب بھی پنجاب حکومت کے وزیر قانون کی آشیرباد حاصل ہے،پنجاب کے مختلف اضلاع میں اب بھی شدت پسند پولیس پر دباوُ ڈال کر مخالف مسالک کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے میں مصروف ہیں،ناروال،فاروق آباد میں پنجاب پولیس انتہا پسندوں کیساتھ مل کر فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں،آئی جی پنجاب ان واقعات کا نوٹس لیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں مختلف اضلاع سے آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا پنجاب میں آپریشن ردالفساد کے باوجود انتہا پسندوں کا کھل کر مخالفین کیخلاف جھوٹی کاروائیاں لمحہ فکریہ ہے،پنجاب میں انتہا پسندوں کیخلاف کاروائی کاغذوں اور رپورٹس کے حد تک محدود ہے،کالعدم شدت پسند گروہ اسی طرح متحرک ہے،ملت تشیع کیخلاف اس محرم میں درجنوں ایف آئی آر درج ہوئے ،پنجاب میں ہمیں مقبوضہ کشمیر جیسے حالات کا سامنا ہے،ہمیں مذہبی آزادی جیسے آئینی قانونی حق سے محروم کیا جا رہا ہے،دہشتگردوں کیساتھ بیلنس پالیسی کے تحت ہمارے درجنوں علماء اور نوجوانان تاحال غائب ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کے جن جن صوبوں میں ن لیگ کی حکمرانی ہے ملت جعفریہ وہاں مظالم کا شکار ہے،ہم انشااللہ جناح کے پاکستان کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دینگے،قیام پاکستان سے اب تک ملکی سالمیت و بقا کے لئے ہم قربانیاں دیتے آئے ہیں انشااللہ دفاع پاکستان کے لئے بھی ہم اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرینگے،پاکستان میں بسنے والے تمام پاکستانی متحد ہیں،اور دشمن کے کسی بھی ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) درد اسی کو ہوتا جس کا کوئی چلا جائے ۔ اور اس سے کہیں زیادہ درد اس وقت ہوتا ہے جب کسی کا کوئی عزیزگم ہوجائےاوراس کی تلاش میں دن رات ایک کردیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں کہ شاید میرےبیٹے،باپ ،بھائی یا شوہر کا کوئی سراغ مل سکے ۔ لیکن جب آگےسے یہ کہا جائے کہ اپنے پیاروں کو سرد خانوں ،یا تھانوں میں تلاش کرو! ہو سکتا اپنی مراد کو پہنچ جائو ! تویقین کریں یہ سن کر جو دل پر چوٹ لگتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔جب ہر طرف سے امید ٹوٹنے لگے توپھر کچھ صاحبان علم ودانش نے یہی فیصلہ کریں نا! اگر انہیں واپس نہیں کرتےہو، تو ہمیں بھی ان تک پہنچا دو ۔ہو سکتا ہمارے اس عمل سے کسی عمررسیدہ باپ ،ستم رسیدہ ماں،بہن کا بیٹا اور بھائی یا کسی کا سہاگ بچ جائے اور ان کی دعائوں کے ظفیل ہم بھی اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور اپنے کریم پروردگار سے یہ کہہ سکیں کہ آج ہم نے اپنی اخلاقی ،قومی اور ملی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ تو ہم سب پر رحم فرما ۔ظالمین کو ان کے انجام تک پہنچا!!

کسی نےمجھ سے سوال کیا کہ تحریک آزادی ،تحریک انقلاب ، عوامی تحریک کا تو سنا تھا مگر جیل بھرو تحر یک کا پہلی بار سن رہا ہوں ۔ہوسکتا ہے مجھے اس کا سامنا نہ رہا ہو یا پھر ۔۔۔ جیل بھرو تحریک آخر ہے کیا؟لوگ تو پولیس اور تھانے کا نام سن کے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ان پرپولیس والے بے جا ظلم نہ کریں ،اور تو اور پولیس کی ڈر سے لوگ کسی احتجاج ،ریلی اور تحریک وغیرہ میں شرکت کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں لیکن یہ لوگ جیل بھرو تحریک کا آغاز کر کے خود کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں؟آخر کیوں؟کیا انہیں اپنی زندگی عزیز نہیں ہے؟کیا ان کےبال بچے نہیں ہے؟اور اگر زندگی سب سے پیاری ہے تو زندگی کو خطرے میں ڈال کر یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ٹھوری دیر سوچنے کے بعدوہ بولے جیل بھرو تحریک کا آغاز اس لئے ہوا ہے تاکہ کسی معصوم بچے کو اس کے باپ کے چہرئے کی زیارت ہوسکے، ستم رسیدہ ماں اور بہن اپنے گم شدہ بیٹے اور بھائی کا دیدار کر سکیں اور عمر رسیدہ باپ اپنے بوڑھاپے کے وقت کےسہارے کا سایہ دیکھ سکے،کاش ہم اس ملک میں پیدا ہی نہ ہوتے توکم از کم ہم اس اذیت سے ہمکنار بھی تو نہ ہوتے ،ٹھیک کہا نا میں نے،،وہ بولے!!اس کی داد رسی کے لئے میرئے پاس سوائے جی جی کےکہنے کو اور کچھ نہ تھا،جب وہ چلے گئے تو میں سوچ میں پڑ گیااور سوچنے لگا کہ اس نے آخر کہا کیا ہے ؟ یقیناًآپ اس بات سے مانوس ہیں کہ ملک عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے،اس دو قومی نظریے کا فلسفہ بھی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن ہو تاکہ مسلمان اپنے عقیدے کی بنا پر زندگی گزار سکیں،انہیں اپنے طوروطریقے سے زندگی گزارنے کی مکمل آذادی ہو اور جب وطن عزیز اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے وجود میں آیا توانگریزوں اور ہندوؤں کے ظلم سے مجروح اور بے بس مسلمانوں کے قائد، قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے نوزائیدہ مملکت کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا:’’ کہ آپ لوگ آج کے بعد آفیسراور حکمران کی روپ میں اس قوم اور اس ملک میں بسنے والے تمام مسلک ورنگ ونسل کے خدمت گزارہیں،اس ملک کو بچانے کے لئے آپ نے ایک خادم کی سی خدمت انجام دینا ہے‘‘ اور آپ نے یہاں تک فرمایا تھا:’’کہ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے جان اورمال کے آپ محافظ ہے۔‘‘
لیکن افسو س آج اس وطن عزیز پاکستان میں قائداعظم ؒکے فرامین کا مذاق اڑائی جارہا ہے،قائداعظم ؒ کے فرمان کے مطابق کسی بھی شہری کے جان ومال کے ذمہ دا ری سرکاری کرسی پہ بیٹھے ہوئے لو گوں پر عائد ہوتی ہے،ایک عام سپاہی سے لیکر اسٹبلشمنٹ اور وزیر اعظم تک سب کے سب اس ذمہ داری کو انجام تک پہنچانے میں برابر کے شریک ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چور، لٹیروں اور کرپٹ مافیا نے ملک کو آج اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ایک عام شہری اپنے ہی غلاموں کے آگے ہاتھ پھیلائے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے اور یہ لوگ اپنے محسنوں کے خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی جمہوریت کے ہاتھوں غلام بنے ہوئے ہیں جو اپنے ہی شہریوں کو حفاظت دینے سے بالکل قا صرہےیہی وجہ ہے کہ مسنگ پرسنز کی تعداد آئے روز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے،اعلی عہداران کوسب معلوم ہے کہ کون کہاں ہے ؟سب کچھ جانتے ہوئےبقول قائداعظم ؒکے قوم کے یہ خادم اعلیٰ عوامی خدمت سے لاتعلق ہیں ہیں ،ان سے مسنگ پرسن کی ریکوری نہ ہو نے سے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یا تو اعلی عہداران شہریوں کی گمشدگی میں خود شیریک ہیں یا جان بوجھ کے اس ملت کو تنگ کر رہے ہیں،جناب اعلی اس ملک کو بنانے میں تمام شہریوں کا حصہ ہے اور تمام فرقے کے لوگ اس ملک کو وجود میں لانے کے لئے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے خدارا !اس ملت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں ،اس ملک میں اتنا ہمارابھی حق ہے جتنا تمہارا حق ہے،ملک عزیز پہلے سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کی ریکوری کو یقینی بنائے تاکہ مسنگ پرسنزکی فیملیز کو ذہنی سکون حاصل ہو اور شہر ی آزادی کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو سکیں۔
 

تحریر۔۔۔۔ظہیر کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے، غیرت مند لوگ اپنی ماں کی طرح ریاست سے محبت اور اس کی حفاظت کرتےہیں، بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں چند سالوں سے اس دھرتی کے بیٹے لاپتہ ہونا شروع ہو گئے ہیں،  ان لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں فی الحال  ٹھیک طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن  کی  اگست2017کی  جاری شدہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد 1372 ہے، عوام کی سہولت کے لئے کمیشن نے www.coioed.pk کے نام سے ویب سائٹ بنا دی ہے جس پر کیسوں کی تفصیل اور سماعت کی تاریخوں سمیت دیگر معلومات دستیاب ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ پنجاب لاہور میں کمیشن کا باضابطہ طور پر سب آفس قائم کر دیا گیا ہے اس سب آفس کا رابطہ نمبر042-99210884ہے۔

تاہم دوسری طرف آزاد ذرائع کےمطابق صرف بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ  ملک کے دیگر حصوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔

ہماری دانست کے مطابق اب ریاستی اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چایے۔ مثلا بلوچستان کے عوام کو جسمانی طور پر اغوا کرنے کے بجائے ان کےانسانی حقوق ادا کئے جائیں، انہیں وڈیروں کی غلامی اور قبائلی تعصب سے نکالا جائے ، تعلیم اور صحت سمیت رفاہِ عامہ  پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان کے عوامی  مطالبات کو  بخوشی قبول کیا جائے اور غلط فہمیوں کو ختم کر کے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔

 اسی طرح ملک کے دیگر حصوں سے اگر لوگوں کو دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو ہماری عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے سارے مراکز ہماری ایجنسیوں کو پتہ ہیں، بلا شبہ ان پر پابندی لگنی چاہیے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ جہاد کے عنوان کو اپنے لئے مخصوص کرے ، کسی بھی مدرسے یا مولوی کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ جہاد کا علم بلند کرے۔

اگر حکومت کو یہ ضرورت ہے کہ لوگوں کو جہاد کی تربیت دی جائے تو یہ کام مسلکوں، مسجدوں اور فرقوں سے بالاتر ہوکر  حکومتی مراکز میں ، حکومت کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔

تعلیمی اداروں سے کلاشنکوف کلچر اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ماضی کے این سی سی کے کورس کی طرح کے کورسز لانچ کر کے جوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جانی چاہیے۔

اسی طرح جن لوگوں کو افغانستان، شام یا کشمیر میں جاکر جہاد کرنے کے شک میں اٹھایا گیا ہے،حکومت کو ماننا چاہیے کہ ان سارے مسائل میں خود حکومت ہی قصور وار ہے۔

ملک میں کسی کو بھی مسلکی ، علاقائی یا لسانی بنیادوں پرہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے،  لیکن ہمارے ہاں ماضی میں حکومت نے ایک مخصوص مسلک کو عسکری تربیت دی اور ان کے لئے بیرونِ ملک جاکر لڑنے کے دروازے کھولے، آج اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب حکومتی ادارے انہی لوگوں سے ڈر رہے ہیں۔

اس وقت حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاد کے حوالے سے تمام مسالک و مکاتب کے لئے یکساں پالیسی کااعلان کرے ، اور  جو لوگ حکومت کی نئی جہاد پالیسی کو تسلیم کریں اور تعاون کا عہد کریں ، انہیں اغوا اور لاپتہ کرنے کے بجائے ، اُن سے ملک کے دفاع کے لئے استفادہ کیا جائے۔

ماضی میں جب حکومت خودایک مخصوص فرقے کے  لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر مسلح کرتی تھی تو اس سے خود بخود دوسرے مسالک کے لوگوں کو بھی مسلح ہونے کی ترغیب ملتی تھی۔ یہ اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ آج عقیدے کی جنگ میں پاکستانی جوان ہر محاز پر نظر آتے ہیں۔

یہ حکومت کی ہی بنائی ہوئی پالیسی ہے لہذا اب حکومت کو ہی اس کا مثبت حل سوچنا چاہیے۔اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین نے جیلیں بھرو تحریک کا آغاز کر رکھا ہے، سرکاری اداروں کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ ان افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین کو اپنے اعتماد میں لیں اور  ملکی سلامتی کے لئے ان سے عہد لے کر ان کے پیاروں کو ان کے حوالے کریں۔

 یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے،لہذا جولوگ اپنے وطن کے وفادار ہیں انہیں عقوبت خانوں سے رہائی ملنی چاہیے۔یہ وقت کی آواز، انسانی ضمیر کا فیصلہ  اور یہی ریاست کے بہترین مفاد میں ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree