وحدت نیوز (ڈی آئی خان) ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ شہریوں کی جبری اور ماورائے قانون گمشدگی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام جی پی او چوک پر احتجاجی کیمپ لگایا گیا، جس میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ بشمول انکے بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر احتجاج کرنے والوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کے پیاروں کی رہائی کیلئے نعرے درج تھے۔ ایم ڈبلیو ایم ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے سیکرٹری جنرل سید غضنفر علی نقوی نے کہا کہ پاکستان امن دشمن امریکہ، اسرائیل، سعودیہ تکفیری اور ریاستی دہشتگردی کےذریعہ فرزندان پاکستان اور ملک کی دفاعی فرنٹ لائن یعنی شیعہ کو نشانہ بنارہے ہیں، اہل تشیع جہاں پر دہشتگردی کا نشانہ ہیں وہاں پر حکومتی غیر آیئنی و حقوق بشریت کے منافی اقدام، پر امن شہریوں کو عرصہ دراز سے حراست میں رکھنا انتہائی مذموم عمل ہے جو آیئن پاکستان کی توہین ہے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

وحدت نیوز (ٹنڈو محمد خان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹنڈو محمد خان کی جانب سے لاپتہ شیعہ مومنین کی بازیابی اور جیل بھرو تحریک کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ضلعی رہنماؤں مولانہ محمد بخش غدیری۔محمد اشرف اور فیاض علی نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں دہشتگردی عروج پر ہے، ایسے میں حکمران متعصبانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھر سے محب وطن شہریوں کی بلاجواز گرفتاری اور گمشدگی قابل مذمت ہے۔ ملک بھر سے شیعہ افراد کو بلاجواز گرفتار کرکے انہیں لاپتہ کیا جارہا ہے جن کو اب تک بازیاب نہیں کیا گیا۔ اگر ان لاپتہ افراد کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیشے کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک بھرمیں دہشتگردی کا نشانہ بھی ہمیں بنایا گیا اور آج اسیر بھی ہمیں بنایا جارہا ہے۔ ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور ہم جیل بھرو تحریک کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بغدادی تھانہ لیاری میں بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی سے ملاقات کی۔انہوں نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے علامہ حسن ظفر نقوی کے عزم و حوصلے کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ پورا ملک لاقانونیت اور عدم تحفظ کی فضا میں جھکڑاہوا ہے۔قانون و انصاف کی حکمرانی کتابی قصے کہانیاں بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

 انہوں نے علامہ حسن ظفر نقوی کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کیا۔بعد ازاں علامہ ناصر عباس جعفری نے مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے ارض پاک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔پارلییمنٹ کے وقار کو مجروح اورذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر مقدم کیا جا رہا ہے۔نواز شریف اینڈ کمپنی ملک کی اس تباہی کی ذمہ دار ہے۔ قومی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر من پسند افراد کو اربوں روپے کے فائدے پہنچائے جا رہے ہیں۔وزرا ملک بچانے کی بجائے ایک خاندان کے دفاع میں مصروف ہیں ۔ملک میں غیر یقینی صورتحال نے بیرونی سرمایہ کاروں کا راستہ روک رکھا ہے۔ملک کو بچانے کے لیے کرپٹ حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا قانون و انصاف کا یہ حال ہے کہ اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے ہمیں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود بے حس حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ملت تشیع کے سینکڑوں نوجوان کئی سالوں سے لاپتا ہیں۔انہیں غیر آئینی طریقے سے گھروں سے اٹھایا گیا اور کئی سال گزرنے کے بعد بھی انہیں نہ تو عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اہل خانہ کو ان کی خیریت کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔کیا ان نوجوانوں نے احسان اللہ احسان جیسا جرم کیا ہے کہ انہیں عدالتوں کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا۔قانون نافذ کرنے والے خود قانونی شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔لاپتا لوگ اگر مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کر کے سزا دلائی جائے۔مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاستی ادارے ہماری اس بے چینی سے دانستہ طور پر لاعلم بنے ہوئے ہیں۔ہمیں نہ صرف ریاستی جبر کا سامنا ہے بلکہ اس ملک میں دہشت گردی کا بھی سب سے زیادہ شکار ہم رہے ہیں ۔ ہمارے ہزاروں نوجوان مختلف سانحات کی نذر ہوئے لیکن آج تک ذمہ دارن کو سزا نہیں سنائی گئی۔پورے دنیا جانتی ہے کہ مظلوم کربلا کے ماننے والے کبھی ظالم نہیں ہو سکتے ۔ہم عزاداری کرتے ہیں پھر بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ جو عناصر مذہب کے نام پر دہشت اور فرقہ واریت پھیلاتے ہیں انہیں ریاست تحفظ فراہم کرتی ہے۔حکومت کا متعصبانہ طرز عمل ہمارے اندر سے وطن کی محبت ختم نہیں کر سکتا۔اپنے مطالبات قانونی و آئینی طریقے سے منوا کر رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئین و قانون کی بالادستی کے بغیر اس ملک میں استحکام نہیں آ سکتا۔حکومتی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں اس ملک کے استحکام کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ ان کو بھی عیاں کرنا ہو گا،انہوں نے کہا کہ علامہ حسن ظفر نقوی اور گمشدہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک کی وہ مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اس موقعہ پر علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے حکومت کی طرف سے مذاکرات میں ہمیں جو یقین دہانی کرائی جاتی ہے وہ سوائے طفل تسلی کے اور کچھ نہیں،ہم حکومت کو واشگاف انداز میں بتانا چاہتے ہیں کہ جیل بھرو تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارے نوجوانوں کو بازیاب نہیں کرایا جاتا۔(کل) نمازجمعہ کے بعد جامع مصطفے عباس ٹاؤن کراچی سے علامہ احمد اقبال رضوی جیل بھرو تحریک کے سلسلے میں اپنی گرفتاری پیش کریں گے، پریس کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما سید ناصرشیرازی، علامہ باقر زیدی،علامہ نقی نقوی، علی حسین نقوی اور احسن عباس رضوی بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس سے پہلے کہ شیعہ لاپتہ جوانوں کی رہائی کے لئے چلائی جانے والی جیل بھرو تحریک پر بات کریں، اصل مسئلہ کی بہتر تفہیم کی خاطر کچھ دیگر موارد کو سمجھنا ضروری ہے ۔ گذشتہ 3 سے 4 سالوں میں عالمی منظر نامہ بالخصوص مشرق وسطٰی کی خراب صورتحال نے پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں، جسکے نتیجہ میں عالمی کھلاڑیوں نے نئے سرے سے اپنی صف بندیاں ترتیب دی ہیں۔ تسلط پسند قوتیں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور آل سعود شام میں اپنی شکست کا بدلہ ہر اس فرد، ادارے اور ملک سے لیں گی اور لے رہی ہیں، جو اُن کے ظالم تسلط پسندانہ نظام کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ گذشتہ کچھ ماہ سے مقام معظم رہبری کی جانب سے اسی تسلط پسند نظام  کے بارے میں ایک اصطلاح ''نظام سُلطہ'' کے نام سے بہت زیادہ استعمال ہو رہی ہے، جس کی عوام میں تشریح و ابلاغ کے لئے اصرار بھی کیا گیا ہے۔ "نظام سُلطہ" یعنی تسلط پسند قوتیں، جن میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، آل سعود و دیگر شامل ہیں۔ جنھوں نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ایک نیا مرحلہ وار نظام تشکیل دیا ہے، جسے مقام معظم رہبری نے "نظام سُلطہ" کا نام دیا ہے۔ یہ مذکورہ قوتیں اپنے مفادات کے حصول اور دیگر ممالک کو اپنے زیر تسلط لانے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتیں ہیں، حتٰی اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی اسی نظام سُلطہ کے زیر تسلط ہے، اسی وجہ سے ان کے خلاف اقوام متحدہ سے آج تک کوئی اہم قرارداد منظور نہیں ہوسکی، کیونکہ اقوام متحدہ جیسے فورم کی تشکیل ہی ان تسلط پسند قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے دی گئی ہے۔ یہ تسلط پسند طاقتیں مختلف بہانوں سے اپنے جائز و ناجائز مفادات کے حصول کی خاطر مختلف طریقہ کار اپناتی ہیں، جو ممالک اندرونی طور پر کمزور ہوتے ہیں، یہ اُن پر براہ راست حملہ آور ہوتی ہیں، جیسے کہ فلسطین، شام، عراق، یمن، لبنان اور افغانستان جیسے ممالک کی مثال موجود ہے۔

جن ممالک میں نظام حکومت بہتر ہو اور حکومت کو عوامی حمایت بھی میسر ہو، تو ایسے ممالک میں ان کے لئے اپنا تسلط جمانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے تو اس مشکل کو حل کرنے کے لئے نظام سلطہ میں شامل ممالک کے پاس اقوام متحدہ جیسا ادارہ موجود ہے، جو ان کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے ان مخالف ممالک پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا دیتا ہے، مثلاً، ایران، روس، قطر اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی کی مثال آپ دیکھ سکتے ہیں۔ تیسرا سب سے موثر ہتھکنڈہ جو یہ عالمی تسلط پسند قوتیں اپناتی ہیں، وہ مختلف ممالک کے حکمرانوں کو خرید کر اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتیں ہیں، جس کے بعد ان ممالک کے حکمران اپنے ملکی مفادات اور عوامی امنگوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے بیرونی آقاوں کی خوشنودی کے لئے ہر اقدام انجام دیتے ہیں۔ اس ہتھکنڈے کے زیر تسلط ممالک میں بحرین، نائیجریا، برما، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔ نائجیریا جہاں پر عالمی تسلط پسند قوتوں نے جب دیکھا کہ ایک ایسی تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے، جو مستقبل میں اُن کی راہ میں روکاوٹ بن سکتی ہے تو نائجیریا کی حکومت نے انہی بیرونی آقاوں کی ایماء پر  ہتھیار ذخیرہ کرنے اور ملک دشمنی کا بہانہ بناتے ہوئے اپنے ہی سینکڑوں شہریوں کو قتل کرکے اسلامی تحریک کے سربراہ آیت اللہ ابراہیم زکزاکی کو زخمی حالت میں اسیر کر لیا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ بعد میں اس سانحہ کی تفتیش کے لئے جو فرضی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جس نے چالیس روز بعد اپنی روپورٹ پیش کی تو اس رپورٹ کے مطابق مرکزی حسینیہ اور آیت اللہ زکزاکی کے گھر سے  برآمد ہونے والے اسلحہ کی لسٹ میں کچھ پرانے زمانے کی تلواریں، تیر، 2 پستول اور 2 بندوقیں ظاہر کی گئیں، جو کہ کسی صورت بھی ریاست کے لئے خطرہ نہیں تھیں۔ اسطرح بحرین میں آل سعود کی ایماء پر ادھر کے شہریوں پر مظالم کی ایک طویل داستان ہے۔

تاسیس پاکستان سے یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج تک پاکستان میں فوجی حکومت ہو یا سیاسی، پاکستان کبھی بھی امریکی و سعودی تسلط سے باہر نہیں آسکا۔ آل سعود کی جانب سے پرویز مشرف کو تحفے میں لندن کے پوش علاقہ میں خوبصورت گھر، شجاع پاشا کو امارات میں ریاستی سکیورٹی آفیسر اور راحیل شریف کی بھاری رقم کے عوض آل سعود کی نوکری سے ایک ایسی مذموم رسم کی ابتداء ہوگئی ہے کہ فوج میں موجود ہر جنرل ریٹائرمنٹ کے بعد اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھونا چاہے گا اور اس کے حصول کی خاطر ریٹائرمنٹ سے قبل ہی آل سعود اور امریکہ کے لئے دستیاب ہوگا۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا بھی ہے، حکومت بنائی بھی انہی عالمی طاقتوں کی حمایت سے جاتی ہے، گرانے کے لئے بھی اِنکی ہی حمایت درکار ہوتی ہے اور پھر سیاسی پناہ بھی انہی ممالک میں لی جاتی ہے۔ مشرق وسطٰی میں نظام ُسلطہ امریکہ، اسرائیل و آل سعود کے پیدا کردہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی عبرت ناک شکست کے بعد بدلہ لینے کی خاطر ایک طرف سے داعش کی ملت تشیع جہاں کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں میں تیزی آئی ہے، مثال کے طور پر افغانستان میں شیعہ نشین علاقوں پر داعش کے مسلسل حملے، ایران میں امام خمینی رضوان اللہ کے مزار اور پارلیمنٹ پر حملے اور پاکستان میں پاراچنار، اندرون سندھ اور کوئٹہ بلوچستان میں درگاہوں پر خودکش حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ دوسری طرف داعش کے خالق نظام سُلطہ میں شامل ممالک کے زیر تسلط ممالک بالخصوص پاکستان میں آل سعود کے حکم پر ریاستی سطح پر ملت تشیع پاکستان کی اجتماعی و قومی جدوجہد کو روکنے کے لئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں، جس میں عزاداری کو محدود کرنا، ملت کے فعال علماء و خواص کو شیڈول فورتھ میں ڈال کر مقدمات میں الجھانا، قومیات میں سرگرم جوانوں کو غیر قانونی طریقہ سے لاپتہ کرنا شامل ہے۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے شروع ہوکر سندھ میں کالعدم جقسم، متحدہ قومی موومنٹ، دہشتگرد سپاہ صحابہ سے ہوتا ہوا ملت تشیع تک آپہنچا ہے۔ مذکورہ سب جماعتیں براہ راست ریاست توڑنے اور سینکڑوں لوگوں کے قتل میں ملوث تھیں، مگر سوال یہ ہے کہ ملت تشیع نے کبھی مملکت خداداد کے بارے برا سوچا تک نہیں، ہمیشہ اپنے کردار سے وطن دوستی کا ثبوت دیا تو پھر ان کو لاپتہ کیوں کیا گیا۔؟ جبکہ ملت تشیع میں سے کسی جوان نے کسی فیکٹری میں 200 افراد کو زندہ نہیں جلایا، کسی ریاستی ادارے پر حملہ نہیں کیا، کبھی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا، تو پھر ریاست ایسا سلوک کیوں کر رہی ہے۔ اس سوال کا جواب اگر ادارے نہ بھی دیں تو ملت جعفریہ کو اس کا جواب معلوم ہے کہ یہ سب آل سعود کی ایماء پر کیا جا رہا ہے۔ ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو شیعہ لاپتہ جوانوں کا مسئلہ آج سے 4 سال پہلے تک اتنا سنگین نہیں تھا۔ 2006ء میں فقط دو سے چار شہروں میں چند ایک واقعات ریکارڈ ہوئے تھے، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان نمایاں تھا۔ مگر گذشتہ 2 سے 3 سال میں ریاست کی طرف سے ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ گمشدگی کے ان پے در پے واقعات نے ایک ایسی گھٹن کی سی فضاء بنا دی ہے، جس میں کوئی اس حساس ایشو کے بارے بات کرنے کو تیار نہیں۔ جو بزرگان و خواص اس بارے میں تھوڑی ہمت کرکے متعلقہ اداروں سے سوال کر ہی لیتے تو جواب میں سرد خانوں کی راہ دکھا دی جاتی یا کم از کم شیڈول فور کی دھمکیاں دی جاتیں۔ کراچی میں کچھ افراد تو وہ ہیں، جو ان لاپتہ شیعہ جوانوں کے کیسز کی پیروی کر رہے تھے، ان کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ کہیں شنوائی نہ ہونے کے بعد اگر ان لاپتہ جوانوں کے رشتہ دار یا دوست اس حساس ایشو کو اجاگر کرنے کے لئے میڈیا کا رخ کرتے تو میڈیا ہاوسز اور اخبارات خبر لگانے سے معذوری کا اظہار کر دیتے۔

دوسری طرف  ان لاپتہ جوانوں کے ضیعف والدین کی حالت دیکھ کر سانسیں بند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر گزرتے دن، ہفتے اور مہینے گھر کا سماں ایسے ہے جیسے صحن میں مستقل ایک جنازہ پڑا ہو، جسے دفنایا جاسکتا ہو اور نا جلایا جاسکتا ہو۔ فراق یوسف ؑ میں حضرت یعقوب ؑ جیسے جلیل القدر نبی خدا اپنی آنکھیں سفید کر دیتے ہیں، یہ ضیعف والدین تو اتنا صبر نہیں رکھتے۔ اس خوف اور گھٹن کی فضاء میں اپنے ان لاپتہ جوانوں کی رہائی کے لئے جیل بھرو تحریک کو شروع کرنا کراچی کی شیعہ عوام، علماء و خواص، تنظیمات کا بالعموم اور حجت الاسلام علامہ حسن ظفر نقوی کا بالخصوص دلیرانہ فیصلہ ہے۔ علامہ حسن ظفر نقوی کی احتجاجاً گرفتاری کے وقت عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی سے ایک عوامی پریشر بنا اور سوشل میڈیا پر موجود جوانوں کی ایک ٹیم نے بہترین انداز میں اس تحریک کو ٹاپ ٹرینڈ تک پہنچایا، جسکے بعد وہ میڈیا جو ایک خبر لگانے سے اجتناب کر رہا تھا، اسے لائیو کوریج دینا پڑ گئی۔ نتیجہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوگا، مگر وہ جو خوف اور گھٹن کی فضاء بنی ہوئی  تھی، وہ اس تحریک سے ٹوٹ گئی ہے۔ اب پاکستان کی دیگر شیعہ قومی جماعتوں جن میں شیعہ علماء کونسل اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے بھی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، جس سے ملت جعفریہ میں عملی اتحاد و وحدت کی فضاء قائم ہوئی ہے، جس کے بعد یہ تحریک اور زور پکڑ گئی ہے۔

تاحال قائدین نے اس تحریک کو  کراچی تک محدود رکھا ہوا ہے اور پہلے مرحلہ میں خود حجۃ الاسلام علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے گرفتاری پیشی کی ہے، اس کے بعد 13 اکتوبر کو حجۃ الاسلام علامہ سید احمد اقبال رضوی عباس ٹاون سے گرفتاری دینے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے باقی تمام صوبوں کے بڑے شہروں میں علماء کرام تیار ہیں اور اس سلسلہ میں لاہور، ملتان، اسلام آباد، کوئٹہ اور گلگت بلتستان میں پریس کانفرنسز کے ذریعے اعلان کرچکے ہیں کہ اگر قائدینِ تحریک نے اعلان کیا تو اس احتجاج کا سلسلہ پورے پاکستان میں پھیلا دیا جائے گا۔ ابھی تک یہ تحریک کامیابی سے جاری ہے، مگر اس تحریک کو موثر سے موثر تر بنانے کے لئے کچھ مزید اقدامات کی گنجائش باقی ہے، جیسا کہ ریکارڈ سازی جاری ہے، یہ ریکارڈ سازی اور لسٹیں مرتب کرنے کے بعد ایک اجتماعی پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کروانے کی ضرورت ہے، جس کی پیروی کے لئے وکلاء کا ایک پورا پینل ہو اور اس پٹیشن کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ملکر بڑے شہروں میں پریس کانفرنسز کروانی چاہییں، تاکہ بات فقط احتجاج تک محدود نہ رہے۔ باخبر افراد اور میدان میں وارد علماء بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب امور کی انجام دہی اتنی سادہ و آسان نہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کیا کچھ داو پر لگا کر یہ تحریک شروع کی گئی ہے۔ عین ممکن ہے جماعتی سطح پر وقتی بہت کچھ کھونا پڑے، مگر حاصل ہونے والا قوم کا اعتماد اور ان مظلوم ضیعف والدین کی دعائیں یہ سارا نقصان پورا کر دیں گی، کیونکہ ایسے مشکل مراحل میں ثابت قدمی الٰہی تحریکوں کے لئے ہمیشہ احیاء کا باعث بنتی  ہے۔

 تحریر۔۔۔۔وفا عباس نقوی

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ملت جعفریہ کے لاپتہ افراد پر اگر کوئی الزام ہے، تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، کسی بھی شہری کو اس طرح حراست میں رکھنا آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں پوری شیعہ قوم ایک پیج پر کھڑی ہے، جبری گمشدہ افراد کیلئے شروع کی گئی تحریک کا دائرہ کار بہت جلد پورے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے، بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی نے لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجاََ خود کو گرفتاری کیلئے پیش کرکے ملت کے درد سے سب کو آگاہ کیا ہے۔کل بعد نماز جمعہ میں خود جامع مسجد مصطفیٰ عباس ٹاون سے گرفتاری دوں گا۔

 علامہ احمد اقبال نے کہا کہ  ہمارا یہ احتجاج اختیارات سے تجاوز کے مرتکب اداروں اور غیر قانونی طرز عمل کے خلاف ہے، جب تک لاپتہ شیعہ افراد کو بازیاب نہیں کرایا جاتا، تب تک ہمارا یہ پُرامن احتجاج اسی انداز سے جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر عمل ہماری حب الوطنی کا برملا اظہار ہے، ہمیں کسی سے وطن حب الوطنی اور وفاداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان میں اہل تشیع مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ سب سے زیادہ کی گئی، ہمارے نوجوان کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں، اگر عدالتیں لاپتہ شیعہ جوانوں کو مجرم ثابت کر دیں، تو انہیں سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان میں آپریشن کرنا چاہیے، عدلیہ اور فوج کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرنے کی جو کوشش نواز لیگ کر رہی ہے، وہ ملک کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کر سکتی ہے، ملک دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر ملک کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی اس کوشش کو قوم اپنی بصیرت و دانش سے ناکام بنا دے گی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفد کے ہمراہ  بغدادی تھانہ لیاری میں  لاپتہ شیعہ علماءوجوانوں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجاًگرفتار بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی اور دیگر گرفتارشدگان سے ملاقات کی، وفد میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرشیرازی ،صوبائی رہنما علی حسین نقوی، احسن عباس رضوی ودیگر موجود تھے،  علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے علامہ حسن ظفر نقوی کے عزم و حوصلے کی تعریف کی،انہوں نے کہا کہ پورا ملک لاقانونیت اور عدم تحفظ کی فضا میں جھکڑاہوا ہے،قانون و انصاف کی حکمرانی کتابی قصے کہانیاں بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، لاپتہ جوانوں کی بازیابی تک ہماری یہ مہذب او ر پر امن احتجاجی تحریک جاری رہے گی، اس موقع پر مختلف پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان کے وفد سمیت علمائے کرام، سیاسی وسماجی شخصیات نے بھی علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور علامہ حسن ظفر نقوی سے خصوصی ملاقات کی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree