وحدت نیوز(آرٹیکل) آج ہم ایک برائے نام انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانیت فقط برائے نام ہے ، اسی طرح ہم اسلامی عقائد کے بجائے اپنے من گھڑت عقائد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے عقائد کے پیچھے کسی قسم کی تحقیق کے بجائے دوسروں سے سنی سنائی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔
ہم جب کسی سے لڑتے ہیں، کسی کے خلاف یا حق میں فتوے دیتے ہیں، کسی کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا کسی کو گلے سے لگاتے ہیں، یا کسی کو اچھا برا کہتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی اصول ، ضابطہ ، اخلاقی جذبہ یا قانونی و آئینی پہلو نہیں ہوتا۔
درحقیقت سب کچھ ہماری نادانی اور خاندانی جہالت کے گرد گھومتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود عقلِ کل بن کر بولتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے وقوف اور جاہل بولنا بند کردیں تو دنیا کے مسائل ہی حل ہو جائیں۔
اب ہم نے اپنی نادانی کے باعث کچھ اس طرح کے عقائد بنا رکھے ہیں اور دوسروں کوبھی ان کی تعلیم دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں:
۱۔ پاکستان کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی
۲۔ہمارے ارد گرد سب لوگ راشی، مرتشی اور بد دیانت ہیں
۳۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوجائے وہیں چاپلوسی کرنی اور رشوت دینی شروع کردیں
۴۔ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہنے کے بجائے سب کو اچھا کہنے یا سب کو برا کہنے کا راگ الاپیں
۵۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا،مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر چپ سادھ لینی چاہیے، یعنی طاقتور کے خلاف احتجاج در اصل بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے
۶۔ یہاں تو دہشت گردی کبھی رُک ہی نہیں سکتی، دیگر ممالک کا اثرو نفوز ختم نہیں ہو سکتا
۷۔ اجتماعی ناانصافی کے باعث یہاں بے روزگاری اور فقر کبھی ختم نہیں ہو سکتا
۸۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات سب کتابی باتیں ہیں
۹۔ اور ۔۔۔۔
اس طرح کے عقائد اور سوچ کا منبع خدا سے ناامیدی ہے، جب لوگ خدا کے بجائے اقوام، قبیلوں، صوبوں، زبانوں، نوکریوں، دولت اور سٹیٹس کی پرستش شروع کر دیتےہیں تو اپنی اور معاشرے کی اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں اورجہاں پر لوگ مایوس ہو جائیں وہاں پر انحرافات ، برائیوں اور منکرات کے خلاف جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم خدا کی توحید اور یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس خدا نے ہمیں یہ ملک عطا کیا ہے اس کی مدد و نصرت سے اس کی اصلاح بھی ممکن ہے، اللہ پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں منکرات کے خلاف جدوجہد اور حرکت کریں ۔ حرکت اور جدوجہد زندگی کی علامت ہے۔ توحید انسانوں کو زندگی دیتی ہے اور توحید پر عدمِ ایمان انسانوں اور معاشروں کی موت ہے۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انسانی افکار کی زندگی اور انسانی سماج کی اصلاح کا انحصار عقیدہ توحید پر ہے۔اگر ہم اصلاح اور جدوجہدسے مایوس ہیں تو در اصل ہمارا عقیدہ توحید کمزور ہے۔
ارشادِ پروردگار ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کونسی اللہ کی رسی ہے اور وہ کونسی نعمت تھی جس نے متفرق لوگوں کو متحد کر دیا، دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا، کالے اور گورے ، عربی و عجمی کے فرق مٹا دئیے ، اگر ہم تدبر کریں تو اس میں سب سے بڑی نعمت ہمیں توحید ہی نظر آئے گی۔
بقولِ اقبال:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی!
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو!
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا‘ نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز(شکارپور) وارثان شہداء کمیٹی شکارپور کا اہم اجلاس چئیرمین علامہ مقصودعلی ڈومکی کی زیر صدارت شکارپور میں برادر سکندر علی دل کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں وائس چیئرمین شہداء کمیٹی علامہ عبدالمجید بہشتی، آئی ایس او کے ڈویژنل صدر برادر ندیم علی ڈومکی، اصغریہ کے رہنماء انعام علی آغانی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع شکارپور کے سیکریٹری جنرل برادر فدا عبا س لاڑک اور شہداء کے وارث شریک ہوئے۔
اس موقع پر اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ شہدائے سانحہ شکارپور کی تیسری برسی 30 جنوری کوعظمت شہداء کانفرنس کے عنوان سے انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جائے گی۔ جس میں ملک بھر سے علمائے کرام اور شخصیات شریک ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ شکارپور میں دھشت گردی کے مقدمات کی پیروی اور شہداء کے قاتلوں کو سزا دلوانا ، سندہ گورنمنٹ کی وعدہ خلافیوں کے باوجود معاہدے پر عمل در آمد کے لئے مسلسل جدوجہد کرنا، شہداء کے ذکر اور فکر کو زندہ رکھنا شہداء کمیٹی کا قابل فخر کارنامہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندہ حکومت حسب وعدہ شہداء کا یادگار ٹاور تعمیر کرے ، گورنمنٹ نے یادگار شہداء تعمیر نہ کی تو یہ کام ہم خود انجام دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین روز اول سے اب تک جدوجہد کے ہر مرحلے پر وارثان شہداء کے ساتھ تھی اور ساتھ ہے۔
در ایں اثناء مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے خانپور میں ایم ڈبلیو ایم رہنماء برادر اصغر سیٹھار کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ ملک میں تکفیری مدارس اور کالعدم تکفیری جماعتیں دھشت گردوں کی نرسری کا کام کر رہی ہیں۔ دھشت گرد نرسریوں کے ہوتے ہوئے دھشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگر حکومت اور ریاستی ادارے دھشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں پہلے ان نرسریوں کو ختم کرنا ہوگا۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے بازیابی کے بعد’’ روزنامہ جنگ لاہور‘‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا جرم جبری لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانا تھا، میں پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا اور اس ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتا تھا، اس لیے مجھے غیر قانونی طریقے سے اٹھا کر اذیت ناک جگہ رکھا گیا، 31دن سورج نہیں دیکھا، اگر میں اس ملک کے مفادات کے خلاف کوئی کام کررہاتھا تو میرا اوپن ٹرائل کیوں نہیں کیا گیا، جس ادارے نے مجھے اٹھایا اس نے یہ الزامات آج تک کسی بھی فورم پر کیوں پیش نہیں کیئے، مجھے 31دن غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا گیا، اس دوران تین بار میری جگہ تبدیل کی گئ، مجھے لاہورکے ایک گنجان آباد علاقے سے میرے معصوم بچوں کے سامنے اٹھایا گیا، انہوں نے کہا کہ اس دوران میرے چہرے پر ماسک چڑھادیا گیااور دو بار گاڑیاں تندیل کرکے مجھے تین گھنٹے بعد ایک نا معلوم مقام پر ٹھہرایا گیا، آخری بار جہاں سے میری رہائی کے احکامات آئے میں فیصل آباد کے کسی حراستی مرکز میں تھا ، انہوں نے کہاکہ مجھے حراست میں لینے سے میری رہائی تک میرے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ہی رہا، نقاب اتارنے کی کوشش کرتا تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا، جس جگہ مجھے رکھا گیاوہاں دو، دو سال سے لوگوں کو رکھا ہواہے، میں ادارے کی ہی تحویل میں تھا، انہوں نے کہا کہ جس طرح مجھے اٹھایا گیا اس سے تو لگتا ہے کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہے، مجھ سمیت جن افراد کو وہاں رکھا گیا تھا اس کے ساتھ انسانوں سے بدتر سلوک ہوتا تھا اور مجھے ایک تفتیشی کمرے میں لے جاکرکسی آفیسر کے سامنے بٹھادیا جاتااور کہاجاتا کہ صاحب جو پوچھے اس کا درست جواب دوجس کے بعد مجھ سے پوچھا جاتا کہ میرے کیا سیاسی مقاصداور اہداف ہیں، میں کن کن لوگوں سے ملتا ہوں ، میری جماعت آگے کیا کرنا چاہتی ہے اور میں ہیومن رائٹس اور خصوصاًلاپتہ افراد کیلئے کیوں اور کس کے کہنے پر آواز اٹھاتا ہوں ، ناصرشیرازی نے بتایا کہ مجھے چھوڑنے سے پہلے مجھے یہ پیغام بھی دیاگیا کہ اگر میں آوازاٹھائی یا اپنی گمشدگی پر شور شرابا کیا تو نہ صرف دوبارہ اٹھالیا جائے گا بلکہ آئندہ جو سلوک کیا جائے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
http://e.jang.com.pk/12-04-2017/lahore/pic.asp?picname=171.png
وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید طالب حسین ہمدانی، ترجمان مولانا سید حمید حسین نقوی، سیکرٹری یوتھ سید شاہد علی کاظمی ، ضلع پونچھ کے رہنماء مولانا سید شاہنواز کاظمی، ضلع میرپور کے سیکرٹری جنرل سید ناظر عباس کاظمی، تنظیم سازی کونسل کے ممبر مولانا حسن کاظمی، ضلع مظفرآباد کے سیکرٹری تنظیم سازی سید محسن بخاری، ضلع نیلم کے کوآرڈینیٹر سید سعادت علی کاظمی اور سید وقار حسین کاظمی نے مرکزی ایوان صحافت میں پرہجوم و مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالم اسلام کو ایام ربیع الاول یعنی جشن عید میلاد النبی ص کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین 12 تا 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کے طور مناتی ہے جس کا مقصد اتحاد بین المسلمین کے لیے عملی کاوشیں کرنا ہے۔ 15 نومبر 2017 کو ہم نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی کے جبری اغوا کے حوالے سے مذمت اور احتجاجی تحریک چلائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ میڈیا سمیت جتنی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں ہماری مدد کی ہم تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے خوشخبری سناتے ہیں کہ برادر ناصر عباس شیرازی بازیاب ہو کر اپنی فعالیت کا آغاز کر چکے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا کہ گزشتہ پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کے کیس کے حوالے سے سوالات کیے گئے تھے کیا تھا جس پر ہم نے آئندہ پریس کانفرنس میں جامع و مفصل جواب کا کہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی دعاؤں کی بدولت علامہ تصور نقوی رو بہ صحت ہیں اور انشاء اللہ جلد عوام الناس کے درمیان ہوں گے۔ ایم ڈبلیو ایم آزادکشمیر کے رہنماؤں نے کہا کہ علامہ سید تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ محترمہ پر 15 فروری کو دن دیہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور ایک کار پر سوار تھے۔ کار اور کار سواروں کا آج تک پتہ نا چل سکا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ انتظامیہ طرح طرح کے حیلے بہانوں سے ٹرخائے جا رہی ہے۔ نو ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے ہم کیا کریں؟ بس انہی حیلے بہانوں و طفل تسلیوں پر گزارہ کریں۔ مارچ 2017 میں پولیس افسران آصف درانی اور وحید گیلانی کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم مجرمان کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ جب قریب پہنچ چکے تھے تو بتایا جائے دور کیوں ہوئے؟ حکومت آزادکشمیر نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حادثے کے ہو جانے کے بعد ایک ماہ قبل وزیراعظم عیادت کو تشریف لائے مگر بیٹھنے کا وقت نہیں تھا۔ مظفرآباد ڈویژن سے وزراء اور ممبران اسمبلی نے پتہ نہیں کس خوف کے تحت ہمدردی کے دو بول بولنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ یہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں شاید اقتدار ساری زندگی کے لیے مل گیا ہے۔ لیکن نہیں انہوں نے ایک دن عوام کے پاس اور بالآخر خدا کی بارگاہ اقدس میں جواب دینا ہے۔ علامہ تصور نقوی پر حملہ کرنے والوں کا نہ پکڑے جانا اور حکومتی عدم توجہی کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ریاست آزاد کشمیر کے امن کو تار تار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مظلوم کشمیری عوام اور اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی اور ترجمان شخصیت کو راستے سےہٹانے کی مذموم ترین کوشش کی گئی۔ حکومت و انتظامیہ کا یوں چپ ہو جانا دشمن کے ناپاک عزائم کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے عام شہری اور خصوصی طور پر ملت جعفریہ میں شدید بے چینی اور اضطراب ہے۔ یہ مسئلہ شہری و ریاستی امن کا مسئلہ ہے۔ جب امن کی بات کرنے والا اور اتنا اہم اور معزز فرد محفوظ نہیں تو کل کوئی عام شہری کیسے محفوظ ہو گا؟ حکومت آزادکشمیر کی غیر سنجیدگی پر تشویش ہے۔ خدا نہ کرے یہ آگ کل ان کے ایوانوں میں پہنچ جائے۔ ہم سوال کرتے ہیں کیا اس وقت بھی یہ ایسے ہی خاموش رہیں گے؟ اگر نہیں تو پھر کس وجہ اور مصلحت کے تحت اس مسئلے کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے؟ ہمیں اب جواب چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بہت وقت دیا ہم نے۔ شاید کہ ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری سے تعبیر کیا گیا۔ حالانکہ ہماری خاموشی صرف اس لیے تھی کہ کل ہمیں یہ نہ کہا جائے آپ نے وقت نہیں دیا یا ساری توجہ آپ کی طرف تھی۔ ہم نے جس طرح حادثے والے دن اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور مظفرآباد ڈویژن جام ہو کر رہ گیا تھا۔یہ عمل ہم طویل مدت تک جاری رکھ سکتے تھے یا دوباره کر سکتے تھے مگر ہم نے صبر و حوصلے سے کام لیا اور انتظامی اداروں کو لمبا وقت اور اپنی قوم کو حوصلے کا درس دیا مگر افسوس کے ساتھ آج ہم اعلان کر رہے ہیں کہ کیس پر کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی یہ ادارے کسی قسم کی تحقیق میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے ہم اپنی قوم کے سامنے لاجواب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ہر آپشن موجود ہے ہم سڑکیں بھی بند کر سکتے ہیں اور ایوانوں کا گھیراؤ بھی۔ یو این او مبصر مشن کی جانب مارچ بھی کر سکتے ہیں یا اعلی عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکٹا سکتے ہیں۔ ہمیں راست اقدام کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔
مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر انتظامی اداروں خصوصا پولیس کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اس واقعے کے بعد جس طرح سے انتظامیہ کی جانب سے علامہ سید تصور نقوی کی کردار کشی گئی اور طرح طرح کے من گھڑت واقعات کو علامہ صاحب سے منسوب کیا گیا پرزور طریقے سے مذمت کرتے ہیں۔ علامہ صاحب کا کردار و شخصیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اتحاد بین المسلمین ، مظلومین جہاں بالعموم اور مظلومان مقبوضہ کشمیر بالخصوص کی آواز بننا ان کا شیوہ تھا۔ وہ ایک معزز گھرانے کے فرد ہیں۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل اپنی نااہلی کو چھپانے کے درپے تھے۔ مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر باقاعدہ ایک تحریک کا اعلان کرتی ہے جس کا عنوان #justice for jawadi ہے۔ اس تحریک کے حوالے سے انشاء اللہ پورے کشمیر سے آواز احتجاج بلند ہو گی۔ ہم تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اے۔پی۔سی بلائیں گے جس میں علامہ سید تصور نقوی کیس کے حوالے سے مشاورت کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا۔ تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر بھرپور آواز احتجاج بلند کی جائے گی۔ جو چارٹر آف ڈیمانڈ وزیراعظم آزاد کشمیر کو دیا گیا اس پر من و عن عمل درآمد کیا جائے ۔ اگر علامہ سید تصور نقوی الجوادی کیس کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا تو ہم ایک دھرنا دیں گے جومطالبات کے حل تک جاری رہے گا۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماء کے اغواء کے خلاف آواز بلند کرنے والی شخصیات اور جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ناصر عباس شیرازی کی ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے خلاف تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آواز کی، جس کے لیے ہم ان سب کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی بی میں علامہ شیخ حسن جعفری نے جس موثر انداز میں اس کارروائی کی مذمت کی اور انکی رہائی کا مطالبہ کیا نہایت ہی قابل قدر ہیں۔ پاکستان بھر کی طرح جی بی میں آئی ایس او پاکستان، امامیہ آگنائزیشن، پاکستان تحریک انصاف، شیعہ علماء کونسل، پاکستان پیپلز پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ قاف، جی بی یوتھ الائنس، بلتستان یوتھ الائنس، انجمن تاجران، جی بی تھنکرز فورم، انجمن امامیہ، انجمن تاجران، ائمہ جمعہ و جماعت، تنظیمی مسؤلین، کارکنان، خیرخواہان اور بزرگان نے اس معاملے میں ہمارا ساتھ دیا ان سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سید ناصر عباس شیرازی کی بازیابی ان تمام جماعتوں کی کوششوں اور دعاوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری غیر موجودگی میں بلتستان بھر سے اس معاملے پر موثر آواز اٹھا کر اور ہم سے اظہار ہمدری کر کے ثابت کیا کہ یہ قوم متحد ہے اور کسی بھی ظلم پر خاموش رہنے والی نہیں ہے۔ ہم صحافی برادری کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس معاملے میں مختلف طریقے سے ہمارا ساتھ دیا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) اسلام آبادمیں نمازیوں پر فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے ممتاز قانون دان شہید سید سیدین زیدی ایڈووکیٹ کے ایصال ثواب کے لئےمسجد باب العلم آئی ایٹ مرکز میں مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا تھا ۔اس مجلس ترحیم میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے مومنین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اس موقعہ پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےسربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے شہید سید سیدین زیدی کی قومی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا،انہوں نے کہا کہ شہید سیدین زیدی ایک کریم اور نجیب انسان تھے ۔انسانی کرامت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسان اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے نہیں آیا مگر جب جاتا ہے تو ہمیشہ کے لئے چلا جاتا ہے انسان موت وحیات کی سرحد پر کیسے پہنچتا ہے یہ انتخاب اس کا اپنا ہے کس کیفیت اور کس حال میں اپنے امام ؑ کا دیدار کرتا ہے ۔اس کے لئے ہر مسلمان اور خصوصاً ہر مومن کو تیار رہنا چاہئیے ۔جو لوگ کریم ہوتے انہیں ایسے مقام و منصب نصیب ہوتے ہیں کرامت کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔اللہ تعالیٰ کریم ہے اور جو بھی اس کی طرف سے آتا ہے وہ کریم ہے ۔ انبیاء کرام کریم ہیں ،ملائکہ کریم ہیں ،کتاب الہی کریم ہے ۔ کریم ایک کرامت کا قبیلہ ہے بس جس انسان کا ہدف الہی ہو جائےوہ کریم ہوتا ہے ۔ کریم اور کرامت بڑھائی (بزرگی) کا نام ہے ۔ کریم انسان پست نہیں ہوتا اس کی سوچ کریمانہ ہوتی ہے ۔ کریم انسان مظلوموں کا حامی اور ظالموں سے نفرت کرنے والا ہوتا ہے ۔ہمارے آئمہ اطہارؑ کریم تھے ۔ کریم باوقار ہوتا ہے ۔ داد رس اور ہمدرد ہوتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ شہید سید سیدین زیدی امریکہ چھوڑ کر اپنے مظلوم عوام کی ہمدردی کے لئے پاکستان لوٹے تھے ۔ جب سانحہ راولپنڈی میں مظلوم مومنین کو بے گناہ اور بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کیا گیا تو شہید سے رہا نہ گیا اپنی فیملی کی پرواہ کیے بغیر وطن واپس لوٹ آئے اور راولپنڈی کے مومنین کی دن رات بے لوث خدمت کی اور انہیں عدالتوں سے باعزت بری کرایا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس رتبے اور مقام کے لئے منتخب کیا تھا آج وہ اس عظیم مقام جس کی آرزو انبیاء اور آئمہ کرام نے اپنی مناجات کی ہے ،پر فائز ہوئے۔ شہیدسید سیدین زیدی پوری شیعہ قوم کے لئے باعث فخر اور افتخار ہیں ۔شہیدکہتے تھے کہ امام خمینی ؒ اور امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کا راستہ عزت ووقار راستہ ہے اور شہید اسی راستے کے راہی تھے ۔شہید پیرو امام اور پیرو خط ولایت فقیہ تھے ۔ شہید کے اندر ایک بڑا پن اور مظلوموں کے لئے ہمیشہ تڑپ رہتی تھی ۔ شہید کے اندر قوم کا بے پناہ درد موجود تھا۔ان کی مذہبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں نے اس قوم کو اپنے ایک قیمتی اثاثے سے محروم کر دیا ہے،وہ ایک گھر کا شہید نہیں بلکہ پوری ملت کا شہید ہے ، ہم شہداء کے وارث ہیں ہم ان کے پاکیزہ خون کی لاج ضرور رکھیں گے ۔ پاکستان میں جتنے بھی شہید ہوئے ہیں وہ ملت پاکستان کا ایک عظیم اثاثہ ہیں ۔ہم اس سرمایہ عظیم کی حفاظت کریں گے اور کبھی بھی ان شہداء کو فراموش نہیں ہونے دیں گے ،ہمارا مطالبہ ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو فوری طور پر بے نقاب کر کے سولی پر چڑھایا جائے۔ ہم ایک بیدار قوم ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا زندہ و بیدار قوموں کا خاصا ہے۔ ہم اپنے شہدا کے خون کاانصاف چاہتے ہیں۔ حکومت دہشت گردوں کے ساتھ مفاہمتی رویہ ترک کرے اور قانون وانصاف کے تقاضوں کے مطابق انہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔
مجلس ترحیم سے شہید کے بیٹے سید مزمل حسین زیدی نے بھی خطاب کیا اور شہید کی زندگی کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ میرے بابا کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ ایک محب وطن باایمان اور مظلوں کے دادرسی تھے ، ہم پوری فیملی اس بات کے گواہ ہیں کہ انہیں فیملی سے زیادہ مظلوموں اور محروموں کی فکر رہتی تھی ان سے کوئی بھی ایک ملتا تو ان کا ہوکر رہ جاتا ہمیں اپنے بابا کی شہادت پر ناز ہے اور ہماری فیملی کو اتنے بڑے اعزاز اور رتبے پر فخر ہے ۔