وحدت نیوز( تہران) ڈاکٹر سید ابن حسن مجلس وحدت مسلمین شعبہ تہران کے سیکریٹری جنرل نامزدکردیئے گئے ہیں،شعبہ امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایک عرصے سے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ تہران میں پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد رہتی ہے اس لئے ان سے روابط قائم کرنے اور انہیں مجلس وحدت مسلمین سے مربوط کرنے کے لئے شعبہ قائم کیا جائے،مرکزی سیکرٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اس ضرورت کے پیش نظر اصولی طور پر فیصلہ کرتے ہوئے سینئر تنظیمی برادر ڈاکٹر سید ابن حسن کو مجلس وحدت مسلمین شعبہ تہران کی سیکریٹری جنرل شپ اور نمائندگی کے فرائض سونپ دئیے ہیں، برادر سید ابن حسن اس وقت تہران یونیورسٹی سے شعبہ قانون میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور ایک تجربہ کار ، فعال ،مخلص وبابصیرت اور متدین شخصیت ہیں ،امید کی جاتی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو بطور احسن انجام دیں گے۔
وحدت نیوز(لاڑکانہ) مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے ضلع لاڑکانہ کے مختلف یونٹس کا تنظیمی دورہ کیا، اس موقع پر ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا محمد علی شر، تحصیل کے رہنما استعانت علی و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر انہوں نے رتو دیرو میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
اس موقع خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ نائیجریا میں جاری مظالم پر ہمیں تشویش ہے، بے گناہ معصوم شیعیان علی ؑ کا قتل عام ، نائیجرین حکمرانوں کا ناقابل معافی جرم ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود بزرگ رہنماء علامہ شیخ محمد ابراہیم زکزاکی کو قید رکھنا، نائیجیرین حکومت کے مجرمانہ کردار کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائیجیریا سے بحرین تک آل سعود کے ہاتھ معصوم انسانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ بیت المقدس قبلہ اول اور فلسطین سے غداری کا بدنما داغ بھی آل سعود کے سیاہ کارناموں میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جبر و تشدد کے ذریعے اہل حق کو نہیں جھکایا جاسکتا، جبر اور لاقانونیت کے خلاف سید ناصر عباس شیرازی کی استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے مخلصانہ جدوجہد کے ذریعے پاکستان میں قوم و ملت کو عزت و سربلند ی کا رستہ دکھایا۔ فکر شہید عارف الحسینی ؒ ملت کی سربلندی کی ضامن ہے۔ مجلس وحدت ، شہید قائد ؒکے فکر و فلسفہ کے پیروکاروں کی جماعت ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی ایڈووکیٹ کی بازیابی کی خوشی میں ایم ڈبلیوایم پنجاب کے صوبائی سیکریٹری روابط رائے ناصرعلی کی جانب سے رائے ہاوس مانگا منڈی میں پر تکلف عشائیہ دیا گیا، عشائیے میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی،مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسدعباس نقوی،مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان انصر مہدی ، صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک موسوی،علامہ محمداقبال کامرانی بمعہ صوبائی کابینہ پنجاب ، ضلع لاہور ، قصور ،سرگودھااور گجرانوالہ کے معززین ملت جعفریہ نے شرکت کی،رائے ہاوس مانگا منڈی پہنچنے پر برادر سید ناصر شیرازی کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔عشائیے کی تقریب سے علامہ سید احمد اقبال رضوی، سید ناصرعباس شیرازی ، علامہ مبارک علی موسوی سمیت دیگر رہنماوں نے خطاب بھی کیا، ناصرشیرازی نے اپنے اعزاز میں شاندار تقریب کے انعقاد پر میزبان رائے ناصرعلی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز(کویت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما شہباز شیرازی کی سربراہی میں کویت میں مقیم پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے نمائندہ وفد نے سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان غلام دستگیر صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات کی ،جس میں محترم سفیر صاحب کو 07دسمبر 2017بروز جمعرات مسجد شعبان سالمیہ میں منعقدہ محفل میلاد کے لئے بطور مہمان خصوصی دعوت نامہ پیش کیا، علاوہ ازیں وفد نے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر (جو کہ مغربی سرحد سے شروع ہو رہی ہے )کے بارے میں انتہائی تشویش کا اظہار کیااور سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کو سراہا،نمائندہ وفد نے پاکستان میں ملت تشیع کو درپیش مسائل ،دہشتگردی او رپاکستان کے مختلف شہروں سے مختلف ریاستی اداروں کے ہاتھوں مسلسل جاری شیعہ عزاداروں اور زائرین امام حسینؑ کےجبری اغواء کے خلاف مذمتی قرار دادبھی پیش کی جوکہ پاکستانی سفیر غلام دستگیر صاحب نے وزارت داخلہ پاکستان کو بھجوانے کا وفد سے وعدہ کیا۔
سفیراسلامی جمہوریہ پاکستان سے ملاقات کیلئے نئی یادداشت
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم یاد داشت برائے حکومت پاکستان بزریعہ عزت مآب سفیر پاکستان کویت کویت میں مقیم پاکستانی کمیونٹی ملک بھر میں پاکستانی شہریوں خصوصا ملت جعفریہ کے بے گناہ افراد کی جبری گمشدگی اور ماورائے آئین گرفتاریوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتی ہے اور ملک بھر میں حکومتی اداروں کی جانب سے شیعہ شخصیات عزادارن اور زائرین کے اغواء کو ریاستی دہشتگردی اور آپریشن ردالفساد پر سوالیہ نشان قرار دیتی ہے۔ اور ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ محب وطن اور پرامن شیعہ شخصیات عزادارن اور زائرین کا آئے روز جبری گمشدگان کا سلسلہ اور انکا خاندانوں کے سامنے اغواء ماورائے آئین اور جمہوری اقدار کے منافی عمل ہے، پاکستان کی معزز عدلیہ کے بار بار اصرار کے باوجود مغویان کو عدالت میں پیش نہ کرنا عدالت کے ساتھ مذاق اور توہین عدالت کے مترادف ہے۔ ان عزادارن زائرین اور شیعہ شخصیات کو اغواء کرکے حکومتی ادارے ریاستی دہشتگردی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حالیہ دنوں میں لاہور کی اہم شاہراہ سے ایلیٹ فورس کی گاڑی میں آکر مسلح اہلکاروں کی جانب سے ناصر شیرازی کو اغواء کرنا اور اس پر حساس اداروں کی جانب سے ایک ماہ تک لاعلمی کا اظہار جہاں ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، وہیں ملکی سالمیت کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے۔ اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ریاستی اداروں کی رٹ یا تو مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے یا یہ ادارے پنجاب حکومت کی ایماء پر ماورائے آئین و قانون عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آئندہ اس طرح کا سلسلہ روکا جائے اور جن بے گناہ شیعہ عزادران زائرین یا شخصیات کو اغوا یا غائب کیا گیا ہے انہیں فوری طور پر رہا کرنے میں وزیر اعظم پاکستان اپنا کردار ادا کریں۔اسلام آباد میں مسجد باب العلم کے باہر دہشت گردی کے نتیجے میں سابق اٹارنی جنرل صوبہ سندھ سید سیدین زیدی اور حبدار شاہ کی شھادت ،خیر پور سندھ میں سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے جلوس پر حملہ سمیت پورے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور ملک میں آئین وقانون کی بالا دستی اور معزز شہریوں کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہیں،ملک بھر خصوصا ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی ، پنجاب سندھ ،گلگت سے ماورائے عدالت وقانون اٹھائے گئے شیعہ شہریوں کو قانون وعدالت میں پیش کرنے اور بے گناہ شہریوں کو فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ملک عزیز پاکستان کے استحکام اور پاکستان مخالف قوتوں کی نابودی کی دعا کیساتھ
وحدت نیوز(آرٹیکل)* 4 دسمبر کا دن فقط یمنی کانگرس پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے قتل ہونے کا دن ہی نہیں بلکہ یمن پر 30 ماہ سے زیادہ عرصے سے مسلط کرنے والے نام نہاد ظالم اتحادی قوتوں کی وحشیانہ جنگ کے برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔
* اور یہ دن ان ظالم طاقتوں کے اسٹریٹیجک پارٹنر کے خاتمے کا دن بھی ہے۔
* اس دن سعودی عرب امارات اور انکے اتحادیوں کے منصوبے خاک میں مل گئے۔
* وہ تحریک انصار اللہ کو سیاسی وعسکری منظر نامے سے آؤٹ کرنے اور اس کے مکمل خاتمے کے لئے جس پارٹی اور جس خائن لیڈر پر اعتماد وانحصار کر رہے تھے اور جس پر سعودی عرب وامارات اور انکے ماوراء امریکہ واسرائیل کی یمن پر فتح حاصل کرنے کے لئے نگاھیں تھیں وہ یمن کے صدام علی عبداللہ صالح تھے۔
* اب یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔
* سعودی عرب اور امارات اور انکے اتحادی تحریک انصار اللہ کو میدان سے آوٹ کرنے کی سازشیں کر رہے تھے آج وہ خود میدان سے عملی طور پر آوٹ ہو چکے ہیں۔
* عاصفہ الحزم نامی سعودی جارحیت اربوں اور کھربوں ڈالرز کے خسارے ، بیگناہ یمنی عوام کے قتل اور اس ملک کی تباہی کا گناہ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے باوجود اپنی کامیابی اور فتح کی آخری امید پر بھی علی عبد اللہ صالح کی بغاوت والے اس خود کش حملے سے پانی پھیر چکا ہے۔
*پہلے جب عوامی فورسسز اور یمنی فوج امارات پر حملے کا پروگرام بناتے تو صالح آڑے آ جاتا تھا. اب ان حملہ آوروں کا ایجنٹ دفاعی فورسسز کے درمیان نہیں رھا. اب فقط ریاض اور ابو ظہبی پر ایک آدھ نہیں کئی میزائل جوابا گر سکتے ہیں۔
* اب انصار اللہ اور یمنی فوج کے پاس زمین سے زمین پر فائز ہونے والے ، زمین سے سمندر اور سعودیہ وامارات کے وسط اور آخری سرحد تک رینج والے میزائل ہیں. اور یمنی دفاعی پوزیشن اس بغاوت کی سرکوبی اور چند گھنٹوں میں اتحادی افواج کی بین الاقوامی سازش اور اندونی خیانت وخباثت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد بہت مضبوط ہو چکی ہے اور یمنی عوام کے حوصلے بلند اور ارادے پختہ تر ہو چکے ہیں. اب اس مسلط کردہ کے سیاسی حل کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔
تحریر:علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔ اغواء قتل وغارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذراسی بات پر تلواریں نکل آتیں اورخون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔دنیاچشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی ۔راہزن رہنماء بن گئے ۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرابن گئےاور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔
تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑدیے۔دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑکر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اورآپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔
امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔
رہبر انقلا ب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ اس بابرکت دن کے بارے میں فرماتےہیں:روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اورجس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{و لیعقل العباد عن ربہم ما جہلوہ، فیعرفوہ بربوبیتہ بعد ما انکروا ، و یوحدوہ بالالویہہ بعد ما عندوا}اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت ،ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔
آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرتہ}تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروہم منسی نعمتہ}انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے ۔{و یحتجوا علیہم بالتبلیغ}تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا :{و یثیروا لہم دفائن العقول}تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا:{ویروہم الایات المقدرۃ، من سقف فوقہم مرفوع،ومہاد تحتہم موضوع ....} تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپرموجودبلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کےذریعے۔۔۔۔}
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پراتمام حجت کرنا:{وجعلہم حجۃ لہ علی خلقہ، لئلا تجب الحجۃ لہم بترک الاعذار الیہم} اللہ نے انبیاءکو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے ۔
آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہےاور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل وشہود اور حواس ہیں جو محدودہونے کی بنا پر ہدایت ا ور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔علاوہ از یں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتےبلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل بھی کراتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کامحتاج ہوتا ہے۔ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضابھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :{ رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلی اللَّہِ حُجَّۃ
ُ بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینےوالے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کےاہداف میں شمار کرتاہے :
1۔لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا:{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فی کُلّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّہَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت} یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ہم نےاپنےرسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کےساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔انسان کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: {فطری لحاظ سے}سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اورڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی ، اجتماعی،مادی او رمعنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الہیٰ ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلا م انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں ۔{و ان لللہ علی الناس حجتین :حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنۃ : فاما الظاہرۃ فالرسل و الانبیاء و الائمہ علیہم السلام و اما الباطنۃ فالعقول}
خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و ا خروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہونیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر وکمال پر مشتمل ہواور امور دینی میں ان کی مدد کرےعلاوہ از یں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں ۔
حوالہ جات:
۱۔امام خمینی رح
۲۔امام خامنہ ای ۔[17 نومبر 1998ء]۔
۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۴ ۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
۵۔ نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
۶۔نساء،165۔
۷۔نحل،36۔
۸۔حدید،25۔
۹ ۔جمعہ،2۔
۱۰ ۔بقرۃ،213۔
۱۱۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
۱۲۔تلخیص المحصل،ص367۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی