The Latest
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری سیاسیات ناصر عباس شیرازی نے ایک وفد کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس موقع پر صوبائی سیکریٹری سیاسیات سندھ برادر عبداللہ مطہری، کراچی ڈویژن کی سیکریٹری جنرل مولانا صادق رضا تقوی اور ڈویژن سیکریٹری سیاسیات برادر اصغر عباس زیدی جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے فردوس نقوی اور علی زیدی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی آمد پر شکریہ ادا کیا اور بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کو جاری رکھنے کی تاکید کی ۔واضح رہے کہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت پی ٹی آئی نے بھی کی تھی اور اس سلسلے میں عمران خان خود کوئٹہ دھرنے میں اظہار یکجہتی کے لئے پہنچے تھے ۔
مجلس وحدت مسلمین نے بلوچستان میں امن وامان کی ابتر صورتحال پر انتیس جنوری کو کوئٹہ میں کل جماعتی کانفرنس بلالی ہے۔ جس کا عنوان آل پارٹیز امن کانفرنس دیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔وحدت سیکرٹریٹ اسلام آباد سے جاری بیان کے مطابق، کانفرنس کے کوآرڈینیٹر و ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصودڈمکی کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں شرکت کیلئے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور امید ہے کہ اس کانفرنس میں اچھی شرکت دیکھنے کو ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ اس کے علاوہ بی این پی مینگل کے رہنما میر اکبر ، جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنماء عبدالمتین اخونزادہ، جمعیت اہل حدیث کے رہنماء نجیب اللہ اور جمہوری وطن پارٹی کے سابق سیکرٹری اطلاعات میر عبدالرؤف نے شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائیگی۔علامہ مقصود ڈمکی کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا مقصد صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر تمام پارٹیز کا مشترکہ موقف حاصل کرنا اور دہشتگردی کیخلاف متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائیگا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت کے حوالے سے پاکستان کے مختلف حلقوں میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ، اسی تناظر میں ہفت روزہ وحدت نے ایم ڈنلیو ایم ایم کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی سے خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کیا نذر کیا جا رہا ہے
سوال : مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت کا اعلان کن بنیادوں پر کیا ؟
سید ناصر شیرازی : ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت دراصل اس حق کی حمایت ہے جو تمام پاکستانیوں کو حاصل ہے ،یہ وہ حق ہے جو آزادی اظہار رائے کی بنیاد پر جمہوریت کا امتیاز ہے ، یہی وہ حق ہے جس کی بنیاد پر نواز شریف نے لانگ مارچ کیا ، پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کیا ، جماعت اسلامی نے دھرنے دیئے اور بعض پارٹیوں نے روڈ مارچ بھی کیے، ۔ اختلاف رائے کا یہ حق اور اس کے استعمال کا یہ طریقہ ڈاکٹر طاہر القادری کا اپنا فیصلہ ہے ، ہم ان کے اس فیصلے کی نہیں ان کے اس حق کی حمائت کی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہا گیا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے لانگ مارچ میں باقاعدہ شرکت کی، یہ میڈیا کی پھیلائی ہوئی غلط فہمی ہے ، چونکہ لانگ مارچ میں باقاعدہ شرکت کچھ امور کی متقاضی تھی ، جن میں ہمارے تنظیمی اداروں کے فیصلہ جات اور دونوں تنظیموں میں مشترکہ فیصلہ سازی کے کسی نظام کا وضع ہونا تھا ، ان دونوں چیزوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین نے لانگ مارچ میں باقاعدہ شرکت کا اعلان نہیں کیا ، یہی وجہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم نے اپنے کسی ایک یونٹ کو بھی اس سلسلے میں کوئی ہدائت جاری نہیں کی، البتہ ایم ڈبلیو ایم نے ملک بھر میں لانگ مارچ کے شرکاء کو سہولیات فراہم کیں، ان کی اخلاقی مدد کی، ان کے لیے مثبت ماحول فراہم کیا اور انفرادی شرکت بھی ہوئی، حتیٰ کہ ان کے لانگ مارچ کو گزرنے کے لیے ایم ڈبلیو ایم نے اپنے دھرنوں میں راستہ دیا جس پر اہل سنت عوام ایم ڈبلیو ایم کے ممنون بھی ہیں ۔
ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکریٹری سیاسیات برادر ناصر عباس شیرازی نے ایک وفد کے ہمراہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ سے ان کی رہائش گاہ حیدر منزل پر ملاقات کی۔ اس موقع پر صوبائی سیکریٹری سیاسیات سندھ برادر عبداللہ مطہری، کراچی ڈویژن کی سیکریٹری جنرل مولانا صادق رضا تقوی اور ڈویژن سیکریٹری سیاسیات برادر اصغر عباس زیدی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ جلال محمود شاہ نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی آمد پر شکریہ ادا کیا اور بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کا اعلان کیا۔
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان اس وقت شدید دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، اور بے گناہ افراد کا آئے روزخون بہایا جا رہا ہے۔ اس دہشتگردی اور بریریت کی ایک مثال آپ دوستوں نے 10جنوری کو کوئٹہ کے علاقہ علمدار روڈ پر دیکھی۔ جہاں سو سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ جیسا کہ آپ حضرات بہتر جانتے ہیں کہ اس سے قبل بھی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کو کئی سال سے ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور محض گزشتہ سال 700سے زائد بے گناہ اہل تشیع شہاد ت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ حالیہ سانحہ کوئٹہ نے پاکستان کے ہر شہری کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہر باضمیر شخص اس ظلم عظیم پر غمزدہ نظر آیا۔ اس سانحہ کے بعد عوام کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اورکوئٹہ سمیت پاکستان بھر میں پرامن احتجاجی دھرنے دیئے گئے، جو نظم و نسق اور امن پسندی کی جیتی جاگتی مثال آپ تھے، جس کا ذکر آپ صحافی حضرات نے انتہائی تحسینی انداز میں کیا۔ اس تاریخی اور پرامن احتجاج میں صرف اہل تشیع ہی شامل نہیں تھے بلکہ درد دل رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے علما اور عوام سمیت سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی مظلومین کوئٹہ کے دکھ و درد کو بانٹتے ہوئے ان دھرنوں میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ صحافی برادری نے بھی اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اس احتجاج کی مناسب کوریج کی۔ جس پر ہم آپ صحافی حضرات کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔
محترم صحافی حضرات۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس پرامن احتجاج کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے کوئٹہ کے مظلومین کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے بلوچستانمیں گورنر راج نافذ کیا اور اس نااہل، کرپٹ اور مسخرے وزیر اعلی کو برطرف کیا جس کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام کو ہر سیاسی و مذہبی جماعت حتی کہ حکومت میں شامل جماعتوں نے بھی خوش آئند اور بلوچستان مسئلہ کی راہ حل قرار دیا۔ تاہم ایک سیاسی و مذہبی جماعت (جو کہ بلوچستان حکومت کا حصہ تھی)نے اس گورنر راج کی نہ صرف مخالفت شروع کردی بلکہ اس اقدام کیخلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا۔ اس مذہبی و سیاسی جماعت کے اکابرین کا یہ فیصلہ تمام پاکستانیوں اور باالخصوص ان مظلومین کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا جو چار روز تک شدید سردی اور بارش میں اپنے شہدا کے جنازوں کو سینے سے لگائے بیٹھے رہے۔آپ صحافی حضرات کے توسط سے میں ان شخصیات سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مظلوموں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو ان کے مطالبات کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ کیا دنیاوی اقتدار کسی انسانی جان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟کیاان عوامی نمائندوں کو جمہوری انداز میں اقتدار سے الگ کرنا جرم ہے جو اپنی ذمہ داریاں یکسر بھلا کر عیاشیوں میں مصروف ہوں؟ کیا پاکستان میں ظلم کے شکار ہونے والے افراد پر اپنا حق مانگنے پر کوئی پابندی ہے۔؟
ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے ان نادان دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہ غیر جمہوری مطالبہ اور تحریک ترک کرکے مظلوم عوام کے دکھوں کا مداوا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر عوام کے حقیقی نمائندے بنیں۔ بصورت دیگر آئندہ الیکشن میں ایسے افراد اور جماعتوں کو ہماری ملت تشیع یکسر مسترد کردیں گے ۔
قابل احترام صحافی حضرات! میں اس موقع پر ایک دوسری پہلو پر بھی آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہوں گا۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے صوبائی دارالحکومت پشاور میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہو گئی ہے۔ اور گزشتہ دنوں یہاں اہم اہل تشیع شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں ابرار حسین، سید ریاض حسین شاہ اور احتشام علی صاحب پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ابرار حسین اور ریاض حسین شاہ صاحب شہادت رتبہ پر فائز ہو گئے۔ ہم ان حملوں کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس سازش کو بے نقاب کرے۔ اور اعلی سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے کر سابقہ واقعات کی تحقیقات کرتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اس معاملہ کی جانب توجہ نہ دی تو ہم دیگر جماعتوں کیساتھ ملکر احتجاج کا راستہ پر مجبور ہوجائیں گے
۔ آپ حضرات کی تشریف آوری کو بہت بہت شکریہ !
والسلام
علامہ سبیل حسن مظاہری۔ (سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا)
علامہ سید مجتبیٰ حسینی (سیکرٹری شعبہ جوان مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا )
عابد علی ایڈوکیٹ ( سیکرٹری اطلاعاتمجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا)
سید قاسم رضا ( سیکرٹری تنظیم سازی مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا)
اعتبار علی ( سیکرٹری رابط مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا)
توقیر یوسف ( جنرل سیکرٹری آئی ایس اُو پشاور ڈویژن)
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ملتان کے زیراہتمام سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے ایصال ثواب کے لیے مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا۔ مجلس ترحیم سے معروف عالم دین علامہ الحاج قاضی شبیر حسین علوی، مولانا عمران ظفر، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ملتان کے ڈویژنل صدر تہور حیدری اور مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری میڈیا سیل محمد رضا نقوی نے خطاب کیا۔ مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے پوری دنیا میں شیعیت کی اصل شکل واضح کی ہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ تین دن تک پورا پاکستان سڑکوں پر تھا تمام اہم شہرائیں بلاک تھیں لیکن کہیں پر بھی ایک سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ اُنہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کی طرح دیگر صوبوں میں بھی امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کرے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بابصیرت اور مدبرانہ قیادت نے ملت جعفریہ کو عظیم کامیابی سے ہمکنار کیا اور پوری دنیا میں تشیع کا سر فخر سے بلند کردیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ملت کی وحدت کا سہرا شہدائے کوئٹہ کے نام ہے جنہو ں نے اپنی قربانی دے کر پوری ملت کو بیدار کردیا۔ شہداء کوئٹہ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب وانصار میں شامل ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں گورنر راج کے اعلان کے بعد جہاں مختلف قبائل اور بلوچستان کے عوام نے ایک بدکردار، کرپٹ اور نااہل وزیراعلٰی سے نجات پر سجدہ شکر ادا کیا، وہاں بعض اقتدار کے پجاری اور دہشت گردوں کے سرپرستوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ حال ہی میں بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں نے گورنر راج کے خلاف تحریک کا اعلان کرکے گویا دہشت گردوں کی باضابطہ حمایت اور بلوچستان میں جام شہادت نوش کرنے والے ہزاروں بےگناہ شہیدوں کی توہین کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسجد و امام بارگاہ ہزارہ نیچاری کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی شوریٰ عالی کے رکن علامہ سید ہاشم موسوی، صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری سید یوسف آغا، ضلع کوئٹہ کے سیکرٹری جنرل محمد یونس جعفری، علامہ سید ہادی محسنی اور منظور حسین بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں رئیسانی حکومت نے عوام کو کرپشن، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کے علاوہ کیا دیا؟ اگر اس پورے عرصے میں یہ دینی جماعتیں ان ہاوس تبدیلی کیلئے قدم اٹھاتیں تو آج پورا صوبہ فساد اور دھماکوں کا مرکز نہ بنتا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر اسلم رئیسانی حق حکومت کھوچکا تھا اور بلوچستان سمیت ملک بھر کے محب وطن عوام نے رئیسانی حکومت کو مسترد کر دیا تھا۔
مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ بلوچستان میں گورنر راج آئینی ہے، جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مخالفت نہ کریں۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی خیبر پختونخواہ اور کراچی سے مختلف ہے، سابق وزیر اعلی بلوچستان اسلم رئیسانی مبینہ طور پر دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سوائے مولانا فضل الرحمان کے گورنر راج کا کوئی بھی مخالف نہیں، ایوان کے اندر تبدیلی لانے کے دعویدار جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کی پارلیمانی پارٹی یہ کام پانچ سال میں کیوں نہ کرسکی۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ اور دھرنا دونوں کامیاب رہے، اور مجلس وحدت مسلمین کو استعمال کرنے کی بات حقائق کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں تحریک منہاج القرآن سمیت تمام محب وطن قوتوں سے اتحاد ہوسکتا ہے، اور ان کی جماعت انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔
آپ نے لاہور کی جامع مسجد صاحب الزمان کرشن نگر میں شہداء کوئٹہ کی مجلس ترحیم سے خطاب بھی کیا
امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی نے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے سے انسان محبوب الہٰی قرار پاتا ہے، لہذا ہم سب کو تقویٰٰ حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئیے۔ کوئٹہ سمیت پورے پاکستان کے اہل تشیع نے جس طرح انتہائی پرامن دھرنا دے کر استقامت کا مظاہرہ کیا، اس نے مثال قائم کردی اور اس ظالم و جابر وزیراعلٰی سے نجات حاصل کی، جس کے ہاتھ ملت تشیع کے خون سے رنگین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اللہ تعالٰی کی غائبانہ مدد کا نتیجہ ہے۔ جو ملت تشیع کی استقامت کا ثبوت ہے۔ اب اس کی برکات سے پاکستان کے تشیع میں اتفاق و اتحاد پیدا ہوا۔ دہشت گردوں کو شکست فاش ہوئی۔ جبکہ اہل بلوچستان کو ایک ظالم حکمران ٹولہ سے نجات ملی۔ دوسری طرف ملت تشیع کو وقار ملا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ ملت تشیع پاکستان پرامن اور محب وطن ہے، جو اپنی استقامت کے ذریعے پرامن دھرنا دے کر خون کو تلوار پر فتح دلا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام پاکستان کی ملت تشیع اور سیاسی جماعتوں کے شکر گزار ہیں، جنہوں نے وحدت کا ثبوت دیتے ہوئے کوئٹہ کے اہل تشیع کی بھرپور مدد کی، جبکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر وقت کے طاغوت کو یہ بتا دیا کہ ملت تشیع کربلا کی راہی ہے۔ کبھی بھی باطل اور یزیدی طاقتوں کے سامنے نہیں جھکے گی۔ انہوں نے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا محمد خان شیرانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مولانا اپنے قائدین سمیت گورنر راج کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کی بلوچستان میں وازتیں ختم ہوگئی ہیں، لیکن ان کو کوئٹہ میں بے گناہ تشیع کے خون کی نہیں اپنی کرسیوں کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بیداری کیلئے سو جنازے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہم اسی طرح متحد ہوکر صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو دہشتگردوں کو ہر سطح پر شکست سے دوچار کرینگے، انہوں نے کہا کہ شہداء کوئٹہ کی قربانیوں کیوجہ سے ملت تشیع کو جس طرح بیداری ملی، اس کی قدر دانی کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئیے اور منافقین کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جائے، جو ملت تشیع پاکستان کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے بہانے کی تلاش میں ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مختار احمد امامی نے کہا ہے کہ کوئٹہ سمیت پورے پاکستان کےعوام خاص کر اہل تشیع نے جس طرح مکمل پرامن دھرنا دے کر استقامت کا مظاہرہ کیا، اس نے مثال قائم کردی اور اس ظالم و جابر وزیراعلیٰ سے نجات حاصل کی کہ جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں خاص کر تشیع اور بلوچستان کی عوام کے خون سے رنگین تھے۔ گورنرراج کی مخالف جماعتیں اس وقت کہاں تھی کہ جب بلوچستان کی سرزمین پر بے گناہوں کا خون بہایا جارہا تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے گورنر راج کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے خلاف اپنے مذمتی بیان میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک گیر دھرنا اللہ تعالیٰ کی غائبانہ مدد، امام زمانہ (عج) کی تائید اور انسانیت دوت افراد اور ملت جعفریہ کی پرامن استقامت کا نتیجہ ہے لیکن کچھ قوتیں کوئٹہ کے مومنین کی طاقت سے خوفزدہ ہوکر بلوچستان میں گورنر راج کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کررہی ہیں۔
انہوں نے جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا محمد خان شیرانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مولانا شیرانی اپنے قائدین سمیت گورنر راج کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کی بلوچستان میں وازتیں ختم ہوگئی ہیں، لیکن ان کو کوئٹہ میں مظلوموں کے خون کی نہیں اپنی کرسیوں کی فکر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مولانا فضل الرحمان خود کوئٹہ آتے اور شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نا اہل وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاجی تحریک میں پوری قوم کے شانہ بشانہ ہوتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ بلوچستان میں مظلوموں کو قتل کرنے والے اسلم رئیسانی کے دست بازو بن گئے ہیں۔