وحدت نیوز (جیکب آباد) وزیراعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے مطالبات پر عملدر آمد کی یقین دہانی پر جیکب آباد میں شیعہ رہنماوں نے دھرنا ختم کر دیا، جس کے بعد شہید ہونے والے سولہ افراد کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ وزیراعلٰی سندھ سے مذاکرات کے بعد شیعہ تنظیموں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد مجلس وحدت مسلمین صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود ڈومکی نے شہید ہونے والے افراد کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قائم علی شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیکب آباد خودکش دھماکے کی تحقیقات کرائی جا رہی ہے۔ پولیس اہلکاروں کی نااہلی ثابت ہوئی تو کارروائی ہوگی۔ کوشش ہے کہ کیس کو ملٹری کورٹ بھجوایا جائے۔ وزیراعلٰی قائم علی شاہ نے کہا ڈی ایس پی اور ایم ایس کو معطل کر دیا ہے، جبکہ بلدیاتی الیکشن کی وجہ سے ایس ایس پی کی معطلی کے لئے الیکشن کمیشن کو در خواست دے دی ہے۔ وزیراعلٰی سندھ نے جاں بحق افراد کے ورثاء کے لئے بیس بیس لاکھ، زخمیوں کو اپاہج ہونے کی صورت میں دس لاکھ اور نوکری دینے اور معمولی زخمیوں کیلئے دو، دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) سید شہداء امام حسینؑ کی قربانی اسلام کی بقا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے درس حریت و آزادی کا ناقابل فراموش نمونہ ہے،فلسطین،کشمیر، یمن،شام ،بحرین،لبنان اور عالم اسلام کے دیگر ممالک میں وقت کے یزید نے کربلائیں برپاکی ہوئی ہیں،جن کا مقابلہ کرنے والے دور حاضر کے حسینیؑ ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عاشورا کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کیا،انہوں نے کہا کہ 61 ہجری کی کربلا کی معرفت نہ ہو تو دور حاضر کے کربلا کی شناخت و پہچان ممکن نہیں،اسی لئے یزید اور اس کے ہمنوا اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر فرزند رسول و آل رسولﷺ کو قتل کرنے پر تیار ہوگئے تھے،آج بھی یزیدی فکر کے پیروکار مسلمانوں کی تکفیر،اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے اسلام کی حقیقی و اصلی تصویر کو مندمل کر دیا ہے،اور ان کی کوشش ہے کہ یزیدی فکر کے حامل نام نہاد اور جعلی اسلام کا پرچم دنیائے اسلام پر لہرائے۔اس سال عزاداران عزاداری سید الشہداء پر مجالس و جلوس عزاء کاگزشتہ سالوں سے زیادہ منظم انعقادکرائیں گے۔
علامہ اجہ ناصر عباس جعفری کا مزید کہنا تھا کہ دور حاضر کا یزید بے نقاب ہو چکا ہے،اس کے چہرے پر پڑا نقاب کھینچا جا چکا ہے،داعش ،طالبان اور النصرہ کے مکروہ چہرے بھی اب پہچانے جا چکے ہیں،اب ان کی طرف داروں اور سرپرستوں کی باری ہے،انہوں نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ امام عالہ مقام ؑ اور ان کے اصحاب باوفا کی عزاداری یماری شہ رگ حیات اور عقیدت کا معاملہ ہے،یہ عشق و معرفت کی انتہا ہے،جس پر کسی قسم کا قدغن اور پابندی ہم قبول نہیں کریں گے،پاکستان کا آئین و قانون عزاداری کا محافظ ہے،ہم اس آئینی و قانونی حق سے دستبردار نہیں ہونگے۔
انہوں نے بلوچستان کے علاقے نصیر آباد بولان میں نہتے عزاداروں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ہمیں موت سے ڈرا کر عزاداری کو محدود کرنے کی سازش میں ہیں،خدا کی قسم شہادت ہماری میراث ہے،جسے ہماری ماوُں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے،ہم عزاداری کے لئے اپنی جان،مال،اولاد سب قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں ،لیکن عزاداری سید شہداء سے ایک ایچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،ہماری جانیں،آل و اولاد نواسہ رسول کی امانت ہے،ہم اسے اسی راہ میں قربان کرنے میں ذراسی بھی دیر نہ کریں گے،ہمیں ملک بھر میں عزاداردوں کی سکیورٹی پر شدید تحفظات ہیں،ووفاقی و صوبائی حکومتیں بلخصوص پنجاب میں دہشت گردوں سے زیادہ عزاداروں کو ہراساں کرنے میں حکمران مصروف ہیں،پنجاب پولیس ملت جعفریہ کے گھروں کے چادر اور چادیواری کے تقدس پامال کرکے بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہی ہے،اس عمل میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف براہ راست ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ عزاداری وحدت و اخوت اور ظالم و جابر کے سامنے ڈٹ جانے کا پیغام دیتی ہے،سید شہداء کی ذات بابرکات کسی ایک فرقہ یا مذہب کی جاگیر نہیں،بلکہ نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین ابن علیؑ ہر دور کے مظلوموں کے پیشوااور ہادی و رہنما ہیں،امام حسین ؑ کی قربانی و قیام کا مقصد رہتی دنیا تک کے مظلوموں اور محروموں کو آزادی و حریت کیلئے آمادہ و تیار کرنا ہے،ہم سید شہداء کے راستے پر چل کر ہی ظالموں،جابروں اور آمروں سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) عزاداری سید شہداء ظالم قوتوں کے خلاف صدائے احتجاج ہے،رہتی دنیا تک اسے کوئی ظالم روک نہیں پائے گا،امام عالی مقام کی سیرت طیبہ پر مسلمان عمل پیرا ہوں تو معاشرے سے ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ ممکن ہو،عزاداری سید شہداء اور واقعہ کربلا نے ہی اسلام کو دائمی دوام بخشا،ظالم جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا ہی پیغام حسنیت ہے،کربلا والوں کی قربانی دین محمدیۖ کی احیاء کے لئے تھی،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عزاداروں سے خطاب میں کیا ،انہوں نے کہا کہ عزاداری واجب تھی لیکن اس برس پیروان حسینی اسے اوجب سمجھ کرانجام دیں،عزاداران امام مظلوم کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے دراصل اس عمل سے خوفزدہ ہے،اگر حسینیت کا پیغام عام ہو جائے تو ظالموں کا اثر معاشرے سے ختم ہو جائے گا،کربلا عقیدت مندوں کی نہیں حقیقت پسندوں کی درسگاہ ہے،اور یہ صرف شیعوں کا عقیدہ نہیں بلکہ انسانوں کا ایمان ہے۔
علامہ راجہ ناصر کا کہنا تھا کہ عزاداری سید شہداء کے خاطر ہم اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں لیکن مشن حسینی سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،ہم عزاداری کے راہ میں کسی رکاوٹ کو قبول نہیں کریں گے،انہوں نے علمائ، خطبائ،ذاکرین سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ممبر حسینی سے اخوت،بھائی چارہ اور وحدت کا پیغام عام کریں،دشمن فروعی اختلافات کو ہوا دے کر پیغام حسینیت کو روکنا چاہتے ہیں،ہم ان سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،نواسہ رسولۖ مرکز وحدت ہے،مجالس اور جلوس ہائے عزاء فکر حسینی کو دوام بخشنے کا ذریعہ ہے،اسے کسی مسلک کے ساتھ منسلک کرنا اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے،اسلام اگر آج زندہ ہے تو یہ کربلا والوں کا ہی احسان ہے۔
وحدت نیوز (لاڑکانہ) کربلا آئین زندگی کے عنوان سے منعقدہ عشرہ مجالس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ عصر حاضر کی یزیدیت کے مقابلے کے لئے پیغام کربلا پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کربلا حادثہ نہیں آئین زندگی ہے۔ کربلا طاغوتی نظام سے ٹکرانے کا نام ہے، عصر حاضر کی کربلا حسینیوں کو پکار رہی ہے۔ امام حسین عالی مقام ؑ انبیاء الٰہی ؑ کے وارث ہیں اس لئے انہوں نے مشن انبیاء ؑ کی تکمیل کرتے ہوئے وقت کے فرعون اور نمرود سے ٹکر لی۔
انہوں نے کہا کہ امام خمینی ؒ نے پیغام کربلا کا احیاء کرتے ہوئے شیطان بزرگ امریکہ اور یزید وقت اسرائیل سے ٹکر لی اور قرآن سنت پر مبنی الٰہی نظام قائم کیا۔ خمینیؒ بت شکن نے عاشقان کربلا کو اسوہ حسینی پر چلنے کا راستہ دکھایا۔ اس وقت دنیا بھر میں معرکہ حق و باطل گرم ہے حق و باطل کی اس جنگ میں ہم تماشائی نہیں، تماشائی بننا کوفیوں کا کردار ہے ہم کربلائی ہیں اوراہل حق کے ساتھ ہیں۔ عصر حاضر کی کربلا میں ہم تماشائی نہیں بلکہ کربلائی کردار ادا کریں گے،حسینیت کی راہ میں ہم اپنے لہو کا نذرانہ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عزاداری امام حسین ؑ ہماری شہ رگ حیات ہے اس کی راہ میں رکاوٹ قبول نہیں۔ چودہ صدیوں سے ایثار اور قربانیاں دے کر عاشقان اہل بیت ؑ نے ذکر حسین ؑ کو زندہ رکھا ہے، نواز حکومت کی شیعہ دشمن پالیسیاں آل سعود کی غلامی کی عکاس ہیں۔ ان رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) دين مبين اسلام سے عشق و محبت كے جذبہ سے سرشار برصغير كے مسلم اكابرين نے حضرت قائد اعظم محمد على جناح (رہ) کی ولولہ انگيز قيادت ميں متحد ہو كر آزادی و استقلال كی تحريک چلائی، جس كے نتيجہ ميں وطن عزيز پاكستان معرض وجود ميں آيا اور اس آزادی و استقلال كی تحريک كا بنيادی ہدف "مذہبی آزادی كا حصول" تها۔ برصغير كے مسلمان ہر قسم كی قربانياں دينے كيلئے اس لئے تيار تهے كہ انہيں ايک ايسا ملک نصيب ہوگا، جہاں پر وه مكمل آزادی كے ساتهـ اپنی مذہبی رسومات كو ادا كرسكيں گے۔ اب اگر اس ملک كے عوام كی مذہبی آزادی ہی سلب كر لی جائے تو نظریہ قيام پاكستان فوت ہو جاتا ہے اور یہ فلسفہ وجودی پاكستان سے انحراف ہے۔ اگر اس آزادی كو سلب كرنے والے خود پاكستانی حكمران ہوں تو يہ انكی پاكستان كے خلاف بہت بڑی خيانت ہوگی، كيونكہ ايسی پاليسی ملک كے امن اور سلامتی كيلئے خطرے كی گھنٹی ہے، پاكستانی عوام كو ايسے غدار حكمرانوں كے خلاف صدائے احتجاج بهرپور انداز میں بلند كرنی چاہیے اور انہیں ملک کے سياسی عمل سے بے دخل كر دينا چاہیئے۔
پاكستان كا ہر شہری جانتا ہے كہ صديوں سے شيعہ اور سنی مسلمان اس خطے ميں اكٹھے ره رہے ہیں، يہاں پر ہر مذہب اپنے نظريات اور معتقدات كے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا كرتا تها، ايک معروف فارمولہ انہوں نے اپنايا ہوا تها كہ "اپنے مذہب كو جھوڑو نہیں اور دوسروں کے مذہب كو چھیڑو نہیں۔" رواداری اور احترام متبادل كی ترويج پر زور ديا جاتا تها۔ علمی بحث و مباحثے اور مناظرے ہوا كرتے تهے، ليكن قوت كا استعمال ممنوع تها۔ كچھ مشتركہ مذہبی رسومات تھیں، جن میں عيد قربان، شب برأت، عيد ميلاد النبی (صلى الله عليه وآله وسلم) اور عزاداری نواسہ رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) و يوم حسين (عليه السلام) منانا۔ ہر مسلمان اپنے طور و طريقے كے مطابق مذہبی رسومات ادا كرتا تها اور دوسرے كا احترام كرتا تها۔ حتی كہ غير مسلم بهی نواسہ رسول كی عزاداری ميں شريک ہوتے اور منتيں مانگتے تهے، بلكہ خود مجالس بهی كرواتے تهے۔ امام حسين عليہ السلام سے عشق ركهنے والے فقط شيعہ و سنی مسلمان ہی نہیں بلكہ بڑی تعداد ميں ہندو، سكھ اور عيسائی بهی اس ملک ميں بستے ہیں۔
تکفیریت کا آغاز اور اہداف
ايسے ميں ايک تكفيری فكر اور سوچ نے حكمرانوں کی زير سرپرستی پھلنا پھولنا شروع كيا اور انہوں نے برملا مسلمانوں كو كافر اور مشرک بنانا شروع كر ديا۔ بات صرف وعظ و تبليغ اور خطابات اور غليظ لٹريچر تک محدود نہ رہی، بلكہ گلیوں اور بازاروں ميں كافر كافر كے نعروں كے ساتھ جلوس شہر شہر میں نكلنے لگے اور گذشتہ تين دہائيوں سے مسلسل نكل رہے ہیں۔ حكومتی ادارے ان نفرت آميز نعروں اور خطابات كو روكنے كی كوشش ہی نہیں كرتے، نہ ان كے خلاف ايف آئی آر درج ہونے دیتے اور نہ جج صاحبان نوٹس ليتے ہیں۔ نہ پارليمنٹ اسے روكنے كیلئے قانون سازی كرتی ہے، بعد ميں ان لوگوں نے قانون كو ہاتھ ميں ليا اور پہلے مرحلے پر جن كو كافر اور مشرک سمجهتے تهے، انہيں كبهی اجتماعی طور پر خودكش حملوں، لشكر كشيوں، مساجد، امام بارگاہوں، گرجہ گھروں اور ديگر مزارات و مقدس مقامات اور بسوں سے اتار کر مسافروں کو قتل کیا۔ كبهی ٹارگٹ كلنگ كے ذريعے جید اور معتدل علماء كرام، اسی طرح ڈاكٹرز، پروفيسرز اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ركهنے والے قومی سرمايہ كو ہدف بنايا گیا، بعد ميں دوسرے مرحلے ميں قانون نافذ كرنے والے حساس اداروں، فوجی مراكز، مدارس، اسی طرح صنعتی و تجارتی مراكز كی تباہی اور عوام كے قتل و غارت كا بازار گرم كيا، حتى كہ غير ملکی مہمان بهی انكے شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔
حکمرانوں کی ترجیحات کا محور ذاتی مفادات ہیں
ان دہشتگردوں نے مذہبی آزادياں سلب كرنے كی تبليغات اور دوسرے مسلمانوں كو جبری طور پر مذہب تبديل كرنے کی فقط دهمكياں ہی نہیں ديں بلكہ انہیں اپنے ظلم و تشدد كا نشانہ بھی بنايا۔ ہمارے حكمران ہميشہ ذاتی مفادات كو قومی مفادات پر ترجيح ديتے رہے، حتى كہ اس تكفيری سوچ كی كالی بهيڑيں حكومت كے حساس و غير حساس اداروں كے ريشوں كے اندر سرايت كر گئیں، اس تكفيری سوچ کے پروان چڑھنے سے ملک طرح طرح كے بحرانوں كا شكار ہوگيا اور اس ملک ميں زندگی كجا سانس لينا بهی دشوار ہوگیا۔ ملكی سرمايہ باہر منتقل ہوگيا اور ملک كا مستقبل تاريک ہوگیا، ملک کی وسيع اراضی پر حکومت كی رٹ ختم ہوگئی، آئين پاكستان كے خلاف آوازيں بلند ہونا شروع ہوئیں اور پاكستان كو تكفيرستان بنانے كی باتيں ہوئیں۔ بالآخر محب وطن قوتون نے متحد ہو كر وطن عزيز كو اس تكفيريت كے ناسور سے پاک كرنے كی آواز بلند كی اور مقبوضہ وزيرستان سميت پورے پاكستان پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور تكفيريت كے مراكز تباه كرنے كا مطالبہ كيا۔
سیاسی پارٹیاں دراصل تکفیریت کی سہولت کار ہیں
اس تكفيريت سے لڑنے كيلئے قومی ايكشن پلان بنا اور قانون سازی ہوئی، پاک آرمی نے آپریشن ضرب عضب كا آغاز كيا، اس ميں كافی كاميابياں حاصل كيں اور تكفيريت كو بہت بڑا دهچكا لگا۔ تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے چونکہ زرداری اور نواز شريف كے گہرے تعلقات ہیں اور انكی پارٹیوں ميں تكفيريوں كے سہولت كار موجود ہیں، لہذا انہوں نے نيشنل ايكشن پلان كی ڈائيورشن كی منصوبہ بندی كی اور پاكستان كو پوليس اسٹيٹ ميں تبديل كرنے كيلئے قومی خزانے سے نئے پولیس کے ادارے تشكيل دیئے، تاكہ انكی گرفت مضبوط ہو، انكے پرورده اور انكے غير ملكی آقاؤوں كے پيدا كرده تكفيری نیٹ وركس دہشتگردی سے جس مذہبی آزادی كو سلب نہیں کرسكے، وه اب اسی نيشنل ايكشن پلان كی آڑ ميں سلب كر ليں۔ اس سال حكمرانوں نے پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب ميں بالخصوص عزاداری نواسہ رسول كو محدود اور ختم كرنے كيلئے جو اقدامات كئے ہیں، جس طرح چادر و چارديواری كے تقدس كو پامال كيا ہے اور آئينی آزاديوں كو سلب كيا ہے۔ حسينيت سے دشمنی كی اس سے بڑی مثال ہمیں پاكستان كی تاريخ ميں نہیں ملتی۔ ميڈيا بر نشر ہونے والے محرم الحرام كے حوالے سے داعش، طالبان اور دیگر تكفيری گروہوں كے لٹریچر اور حكومت وقت كے بنائے ہوئے ضوابط و قوانين ميں مكمل مطابقت نظر آتی ہے۔ اگر حكومت اپنے شهريوں كی حفاطت كرنے سے قاصر ہے تو انہیں مزيد شكنجوں ميں تو نہ جكڑے۔ پاكستان كے شيعہ و سنی عوام حكومت كے بغير بهی ابنی عبادت گاہوں اور جلسے جلوسوں اور عزاداری كی حفاطت كر سكتے ہیں۔
تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں
ہماری مسلح افواج عسكری ميدان ميں تكفيريت كو كچل رہی ہیں اور ہمارے سياستدان سياسی ميدان ميں انہیں تقويت بخش رہے ہیں۔ ان تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں، جن لوگوں كی ذمہ داری حقيقی اسلام كی نشرواشاعت بنتی ہے، وه تكفيريوں كے لئے نرم گوشہ ركھتے ہیں يا انكی پشت پناہی كرتے ہیں۔ "ايسے خود غرض اور ناعاقبت انديش حكمرانوں كی موجودگی ميں دہشت گردی كيخلاف جاری جنگ كبهی بهی كاميابی سے ہمكنار نہیں ہوسكتی" اور انكی بيلنس پاليسی دہشتگردوں كے خلاف آواز بلند كرنے والے محب وطن علماء اور شخصيات جو اخوت و محبت اور امن و رواداری اور اتفاق و اتحاد كے علمبردار ہیں، ان پر پابندياں عائد كرنا دہشتگردی كی تقويت كا سبب بن رہی ہے، وه چاہتے ہیں كہ تكفيريت كے خلاف اٹھنے والی آوازيں بهی دبا دی جائيں اور ايسا كيوں نہ ہو، كيونكہ نيشنل ايكشن پلان اور اسكی قانون سازی كے اجلاس ميں اكثر وه لوگ شريک تهے، جنكے ڈائریکٹ يا ان ڈائریکٹ تكفيری دہشتگردوں سےرابطے ہیں، انكی ذاتی مصلحتيں اور مفادات تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے وابسطہ ہیں۔ دنيا بهر كے تكفيری داعش ہوں يا طالبان يا پاكستان كے اندر متعدد انكے نیٹ ورک، وہ برملا يزيد ابن معاويہ كو خليفۃ المسلمين مانتے ہیں اور اعلان كر رہے ہیں كہ قتل امام حسين عليہ السلام يزيد لعين كا صحيح اقدام تها، يزيد زنده باد كا نعره لگاتے ہیں اور عزاداری نواسہ رسول كو ختم كرنا انكا ہدف ہے۔
انهوں نے پوری امت مسلمہ كو بتا ديا كہ وه اہل سنت نہیں بلكہ يزيدی ہیں اور پاكستانی شيعہ و سنی مسلمان ہوں يا دنيا بهر كے مسلمان سب كے سب حسينی ہیں اور حسينيت زنده باد كا نعره لگاتے ہیں۔ ہماری حكومت بهی حسينيت زنده باد كے نعره كو دبانے كی بهرپور كوشش كر رہی ہے۔ حكومتی اور غير حكومتی ادارے مجالس عزاء كی مانيٹرنگ كر رہے ہیں، تاكہ كسی بہانے سے خطباء و ذاكرين كو جيلوں ميں ڈالا جائے، ليكن قانون كی دهجياں اڑانے اور نفرتيں پهيلانے والے تكفيری علماء كے خطابات سوشل ميڈيا پر پڑے ہیں، كيسٹس فروخت ہو رہی ہیں اور برملا خطابات كرتے پهرتے ہیں، انكے خلاف كوئی ايكشن نہیں ليتا اور اگر بعض اوقات كسی كو گرفتار كر ليا جاتا ہے تو تهوڑے عرصے بعد پريشر ميں آکر باعزت طور پر بری كر ديا جاتا ہے۔ حكمران عوام كو دهوكہ دينے كيلئے يہ ثابت كرنا چاہتے ہیں كہ دہشت گردی كا سبب وہابی و تكفيری سوچ نہیں بلكہ شيعہ و سنی خطباء و ذاكرين ہیں۔ خود حكومتی اداروں كے اعداد و شمار گواه ہیں كہ اس ملک كی تباہی و بربادی اور دہشتگردی وہابی تكفيريوں كی بدولت ہو رہی ہے اور ملک ميں كوئی ايک سنی يا شيعہ گروه ايسا نہیں جو ملک كے اندر دہشت گردی پھيلا رہا ہے۔ حكومت وقت اپنے غير ملكی آقاؤوں كو خوش كرنے كيلئے جتنا چاہتی ہے ظلم كر لے، ليكن حکومت کو اچھی طرح جان لينا چاہیئے كہ تاريخ گواه ہے كہ "حسينی كٹ تو سكتے ہیں ليكن عزاداری نواسہ رسول مقبول پر كوئی آنچ نہیں آنے ديں گے۔"
تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی زندگی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا۔ ان تمام ادوار کا آپس میں ایک خاص رشتہ قائم ہے اور اس اٹوٹ رشتے کے ذریعے یہ پانچ مراحل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ بنابرایں جسے بچپن میں صحیح تربیت ملے اس کا لڑکپن کافی حد تک بہتر گزرتا ہے اور جس کا لڑکپن معاشرے کی کثافتوں کی نذر نہ ہو تب اس کی نوجوانی بھی بہتر گزر جاتی ہے۔ جو نوجوانی میں غلط سوسائٹی، برےمعاشرے، برے گھرانہ اور برے مربّی سے محفوظ رہے اس کی جوانی ہوا و ہوس کے سیلاب میں غرق نہیں ہوتی اور جس کی جوانی تمام آفتوں سے بچ کر گزر جائے اس کا بڑھاپا تو سنور ہی جاتا ہے۔
البتہ ان تمام مراحل میں انسان کی اپنی ذاتی استعداد اور رجحانات کا بھی دخل بھی ضرورہے۔ بالخصوص اگر کوئی بچہ غیرمعمولی استعدادکاحامل ہوتو اس کے رجحانات بھی منفرد قسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت بچوں کو جب مطلوبہ وسائل مل جاتے ہیں تو جوان ہوکر وہ نا صرف اپنی ذات کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو، بلکہ بسااوقات پورے علاقے اور ملک کو برائیوں اور مصیبتوں سے نجات دلاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے تربیت یافتہ افراد بڑے عرصے بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں سے ایک منفرد اور چمکدارستارہ حجۃ الاسلام و المسلمین غلام محمد فخرالدین قدس اللہ سرّہ بھی تھے۔
موصوف نے 22نومبر 1971ء کو قمراہ سکردو میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد حاجی مہدی مرحوم صوم و صلوۃ کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ مداح اہل بیت علیھم السلام بھی تھے۔ علاوہ ازیں والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے آپ کو ایک خاص شفقت و محبت نصیب ہوئی۔ لہذا آپ کی تربیت کے لیے بنیادی درسگاہ بہترین گھرانہ قرار پائی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں قمراہ میں ہی حاصل کی۔ اس دوران بھی آپ کو دیندار اساتذہ سے کسب فیض کرنے کا سنہری موقع ملا۔ بعد ازاں نوجوانی کے عالم میں جب آپ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے سکردو آئے تب آپ کو آئی ایس او جیسا بہترین پلیٹ فارم ملا۔آپ نے نا صرف اس پلیٹ فارم کی بدولت اپنی ذات کو معاشرے کی آلودگیوں سے بچائے رکھا بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں کو بھی اس پلیٹ فارم کی طرف راغب کرکے ان کی تربیت کی اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار اداکیا۔
ڈگری کالج سکردو سے ایف اے اور بی اے اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد چونکہ آپ کو قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کے ساتھ ایک خاص شغف تھا لہذا آپ نے اپنے فن سخنوری کا لوہا بھی اسی دور میں ہی منوا یا۔
آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر علما کرام نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے تحریک جعفریہ پاکستان کے مسؤلین کی توجہ کو بھی اپنی طرف جذب کی۔ آپ نے اس ملکی سطح کی تنظیم میں خلوص نیت اور جذبہ ایمانی کے ساتھ حریم اہل بیت علیھم السلام کا بھرپور دفاع کیا۔
علوم محمد و آل محمد علیھم السلام سے آپ کی چاہت و بعض علما کے مفید مشوروں بالخصوص حجۃ الاسلام شیخ محمد حسن جعفری صاحب کی پدرانہ ہمدردی کے باعث آپ کوعُشّ آل محمد علیھم السلام قم المقدّسہ میں جیّد علما کے محضر میں زانوئے تلمذتہہ کرنے کا بہترین موقع نصیب ہوا۔ حوزے کے اساتذہ کو جب آپ کی صلاحیتوں کا ادراک ہوا تو انھوں نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا۔ کم وقت میں آپ نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ سطحیات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آپ نے مختلف مراجع عظام کے درس خارج میں بھی بھرپور شرکت کی۔
آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہاں ایک منفرد محقق بھی تھے۔ سیاسی تحلیل میں تو آپ اپنی مثال آپ تھے۔ جب آپ تحلیل کرنا شروع کرتے تھے تو جی کرتا تھا کہ سنتےہی رہیں، آپ حقائق کو الفاظ کا ایسا لبادہ پہناتے تھے کہ واقعیّت مجسم ہوکر سامنے آجاتی تھی۔ آپ ایک عالمی فکر کے حامل تھے۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کسی پرظلم ہوتا تو آپ بے چین ہوجاتے تھے۔
آپ نے منجی عالم بشریت امام زمان عجّل اللہ فرجہ الشریف سے خصوصی عقیدت کی بنا پر اپنے ایم فل تھیسسز کا موضوع ہی" احادیث تطبیقی مہدویت در صحاح ستہّ و کتب اربعہ" انتخاب کیا اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ بعد ازاں آپ کی گوناگوں تبلیغاتی مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے قرآن و حدیث میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے معینہ کلاسیں ختم کرنے کے بعد پی ایچ ڈی تھیسسز " نقد و بررسی آراء قرآنیون در مورد قرآن و سنت " کے موضوع پر لکھا۔ تھیسز کے دفاع کا منظر دیدنی تھا۔ ہم نے خود اس جلسہ دفاعیہ میں شرکت کی تھی۔ آپ ایسے علمی انداز سے اساتذہ کے اشکالات کا جواب دیتے تھے کہ مخاطب دنگ رہ جاتے تھے۔ وہاں اساتذہ نے بھی آپ کی شخصیت کو ایک منفرد شخصیت اور تھیسسزکو بھی نہایت عمیق اور مفید قرار دیا اور کہا کہ ایسی تحقیقات بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تھیسز میں آپ نے 98.75% نمبرلے کر تحقیقی دنیا میں پاکستان اور اسلام کانام روشن کیا۔ علاوہ ازیں آپ کی مزید دو کتابیں بعنوان "مہدویت اور انسان کا مستقبل " اور "قرآنی زندگی" چھپ چکی ہیں۔بعض دوسری کتابیں بھی عنقریب چھپنے والی ہیں۔ ان میں سےایک اہم کتاب " ولایت فقیہ " ہے۔
آپ نے اپنی عمر کے آخری دو سال سرزمین قم المقدسہ میں مجلس وحدت المسلمین کے سیکریڑی جنرل کے عنوان سے دینی خدمات انجام دیں ۔ بنابریں موصوف ایک ایسی شخصیت ہیں جس نے ہر پلیٹ فارم سے عالمِ اسلام کی خدمت ،رہبری اور فلاح و بہبود کے لئے کام کیاہے۔
آپ گزشتہ تین سالوں سے مسلسل تبلیغی سلسلے میں حج بیت اللہ سے مشرّف ہورہے تھے۔ اس سال بھی آپ اپنے خالق حقیقی سے لو لگانے گئے تھے۔ آخر کار اعمال حج کے بجاآوری کے دوران آل سعود کی نااہلی، عدم دقت، بے اعتنائی اور بدنظمی یاپھر سازش کے باعث ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منیٰ کے مقام پر حالت احرام میں اجلے ملبوس میں لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کے ساتھ اپنے حقیقی معشوق سے جا ملے۔
یوں ہم ایک عالم باعمل، محقق کم نظیر، خطیب توانا، پیکر تقویٰ، مدرس بے بدیل، تابناک ماضی، امید مستقبل، عالم بصیرو مبارز سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ آپ کے مقدس جسدِ مبارک کو مکہ میں ہی قبرستانِ مِنیٰ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
آخر میں خدا کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ائمہ معصومین علیھم السلام کے جوار میں جگہ عنایت کرے اور ہمیں ان کے مشن کو احسن طریقے سے جاری رکھنے کی توفیق دے۔
تحریر۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ( حوزہ علمیہ قم)