وحدت نیوز (مظفرآباد) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا ہے کہ امام حسین ؑ کی عظیم قربانی کی یاد منانا عین عبادت ہے، امام حسین ؑ دین کی راہ میں قرآنی اصولوں کی سرفرازی اور اقدار کے احیاء کے لیے اپنی جان ، مال ، اولاد سب کچھ قربان کر گئے۔ آپ کی عظیم قربانی انبیاء ؑ کی محنتوں تبلیغات اور کاوشوں کا تحفظ بھی کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجہوئی میں جلوس عزا سے خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ اور توحید پرور دگار اور آسمانی کتب کی حقانیت کے لیے جنگ کی۔ کربلا کی جنگ کسی اقتدار کے لالچ یا حکومت کے حصول کے لیے نہ تھی، بلکہ خیر و شر اور حق و باطل کا معرکہ تھا۔ جس کے اختتام پر اگرچہ امام حسین ؑ شہید ہو گئے ، آپ کے انصار و اعوان ، خانوادہ کے افراد جام شہادت نوش کر گئے ۔ خانوادہ کے باقی ماندہ افراد اور خواتین کو بے مقنہ و چادر قیدی بنا لیا گیا ۔لیکن ان سب کے باوجود قیامت تک فتح حق اور خیر کی ہوئی ۔ اور شکست شر و باطل کا مقدر ٹھہری ، آج پوری دنیا میں جہاں بھی حق و حقیقت کے علمبردار رہتے ہیں وہ امام حسین ؑ کو اپنا ہیرو اور رہبر مانتے ہیں ۔ جبکہ امام حسین ؑ نے وقت کے طاغوت و استبداد کے خلاف جو مجاہدت فرمائی اس کے نتیجے میں دنیا بھر کی حریت پسند تحریکیں امام عالی مقام ؑ کو اپنا قائد تسلیم کرتی ہیں ۔علامہ تصور جوادی نے کہا کہ آج بھی امام حسین ؑ کے عزم و استقلال اور مقاومت و ثابت قدمی سے سبق حاصل کر کے اپنے اپنے دور اور علاقے کی طاغوتی قوتوں سے نبرد آزما ہیں ، امام کی یاد میں منعقد ہونے والی مجالس و محافل میں بھی ضرورت اس چیز کی ہے کہ امام حسین ؑ جیسی مقاوم و ثابت قدم شخصیت کی زندگی ، اور جہاد کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے ۔

وحدت نیوز (بولان) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے چھلگری تحصیل بھاگ ضلع کچھی بولان کاظمیہ امام بارگاہ مسجد میں شہداء کی نماز جنازہ پڑھائی اور عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناقص سیکورٹی انتظامات کے باعث یہ المناک سانحہ رونما ہوا، بلوچستان میں دھشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور سہولت کاروں کے خلاف کوئی آپریشن کیا جاتا تو یہ المناک سانحہ رونما نہ ہوتا، حکومت اپنا پورا زور عزاداری امام حسین عالی مقام ؑ کو محدود کرنے پر لگاتی رہی ، بلوچستان میں آج بھی کالعدم فرقہ پرست جماعتوں کی شر انگیز سرگرمیاں جاری ہیں،جس کے باعث یہ حساس صوبہ ملک دشمن فرقہ پرست دھشت گردوں کے نشانے پر ہے۔

در ایں اثناء صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی، سیکریٹری داخلہ ودیگر کے ہمراہ چھلگری پہنچے۔ اس موقعہ پر ایم پی اے آغا رضا، علامہ سید ہاشم موسوی، علامہ جمعہ اسدی، حاجی عبدالقیوم چنگیزی ودیگر بھی موجود تھے۔اس موقع پر وارثان شہداء کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے بارہ نکات پر مبنی مطالبات پیش کئے ،انہوں نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن بارود کے ڈہیر پر ہے جہاں دھشت گردی کے اڈے قائم ہیں۔ نصیر آباد ڈویژن میں اس سے قبل بھی دھشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں لہذا دھشت گردوں کے مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور نیشنل ہائی وے پر بختیار آباد کے مقام پر یادگار شہداء قائم کی جائے،اس موقع پر وزیر داخلہ نے یقین دلایا کہ وہ ان مطالبات سے متعلق وزیر اعلیٰ سے بات کریں گے۔

سلام یا حسین {ع}

وحدت نیوز (آرٹیکل) جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجوداہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کاآغازکردیا اور دیکھتے ہی دیکھتےناصبی اپنے اوپر اسلام کالیبل لگاکر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔ایک سروئے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جولوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے،ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلاکو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے ۔ گویاجوزہررشدی کے قلم نے رسولِ اکرم ۖ کے خلاف اگلاتھا وہی نواسہ رسول ۖ کے خلاف اگلاجانے لگا۔پوری دنیا میں خصوصاً عراق،افغانستان ،سعودی عرب،ہندوستان اور پاکستان میں ایسےتجزیہ نگار،مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی ،انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کر کے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین[ع] پر تنقید کی جانے لگی،اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی وہ مجموعی طورپراس بات سےغافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھارہے ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین پر تنقید کرتا ہے،کوئی چینل یزید کی تعریف کرتاہے،کوئی صحافی دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین{ع} تو پہنچا ہے پیغامِ حسین{ع} نہیں پہنچا۔اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ ناصبیّت کو بے نقاب کر نے کےلئے پیغام کربلا کو عام کریں۔تحریک ِکربلا پر لکھیں،کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں،تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں،اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصدکربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔ آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہوجانے کا اہم سبب وہ دانشمند،خطباء اور ادباء ہیں جنہیں حسین ابن علی [ع]کی چوکھٹ سے علم کارزق،افکار کا نور،قلم کی بلاغت،زبان کی فصاحت اوربیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلاکو عوام تک نہیں پہنچاتے،اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔ اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب،جمال وجلال،عشق و عرفان اورخون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تودنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہرمنصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوجاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں،جس نے دین ِ اسلا م کو لازوال کردیا،جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کردیا،جس نے سنّت کو زندہ کردیا،جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کردیا،جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا،جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا،جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنادیا،جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطاکیا،جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا،جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کردیا،جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کردیا،جس کے علم کا پھریر ا آفاقِ عالم پر چھایا ہواہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔ کربلاتو وہ ہے۔۔۔جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہوتو شہکارِ رسالت ہے،اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے،اگرآغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ کربلاتو وہ ہے ۔۔۔جس کے امیرنے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جمادیا،جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کردیا،جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلادیا۔ بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔ یہ ہمارے واعظین ،خطباء،ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کرکربلا پر تحقیق کریں،کربلا لکھیں،کربلا پڑھیں،کربلاخود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔

اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھرہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے:

ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا

رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک باربار ڈوب جاتی ہے

جواِک آنکھ دنیا پر اور اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں

شہادت کی گھڑی ان کی زباں سوکھ جاتی ہے جھوٹ کے چشمے سے سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا

مرمرکاپتھر پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا

جومصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑجائے

وہ ہاتھ سلام یا حسین {ع} نہیں لکھ سکتا

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) کربلا توحید کی فتح کا نام ہے۔ امام حسین نے کربلا میں قربانی دے کر توحید، نبوت ،ولایت  اور جرات و شجاعت کو ابدی حیات بخشی اور کربلا کے بعد کوفہ و شام کے بازاروں و درباروں میں جاکر ثانی زھراء حضرت زینب ؑاور امام سجادؑ نے قربانی و مقصد امام حسینؑ کو حیات جاوید انی عطاءکی ۔

جی چاہتا ہے کہ آج بات کچھ یزید کے مکروفریب کی ہاجائے، یزید کے مکر پر بات کرنے سے پہلے ہم تھوڑی سی بات مادہ “مکر “پر  بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی اردو زبان میں  مکر ،دھوکہ و  فریب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور عربی میں مکر کا معنی چال ،چالاکی ، دوراندیشی ، منصوبہ بندی اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں۔

 قرآن میں بھی اللہ نے مادہ مکر کو خفیہ تدبیر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ “کافروں نے بھی مکر کیا اور اللہ نے بھی “اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے[1] .

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کربلا کی جنگ کے بعد یزید نے کیا مکر کیا اور اللہ نے کیا خفیہ تدبیر کی۔ اس کو ہم اس مثال سے واضح کرتے ہیں کہ  تاریخ کے اوراق میں بات درج ہے کہ نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا، ایک بندے کو جلانے کے لیے کتنی لکڑیوں کی ضرورت ہے ،بیس کلو ،چالیس کلو، زیادہ سے زیادہ دو من ،دومن لکڑی کے کر نمرود حضرت ابراہیمؑ کو جلا دیتا ،کیوں اس نے اعلان کیا کہ میری سلطنت میں رہنے والا ہر شخص لکڑیاں لے کے آئے ۔۔۔

دراصل  نمرود ایک چال چل رہا تھا وہ یہ کہ نمرود دنیا والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ میں توحید کو جھٹلا کر اپنے مقابلے میں آنے والے نمائندہ توحید کو جلانے جا رہا ہوں۔گویا میں اعلانِ توحید  کا مقابلہ کرنے جا رہا ہو ں ،لوگو! آکر دیکھو میرے مقابلے میں آنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے  ۔ لوگ گھوڑوں ، اونٹوں، کدھوں پر لکڑی لاکر جمع کرنے لگے لکڑیوں کا ایک بہت بڑا ڈھیر لگ کیا آگ جلائی گی آگ کی شدت اتنی تھی کہ کئی کلو میٹر تک اس کی تپش جارہی تھی ایک منجنیق کے ذریعے سے حضرت ابراہیمؑ کو اس آگ میں ڈالا گیا ،اب نمرود نے انتا بڑا انتظام کیا ،لکڑی جمع کی ،لوگ بلائے ۔۔۔لیکن پروردگار نے صرف آگ کوحکم دیاکہ گلزار ہو جا !

آگ گلشن میں تبدیل ہوگی اور نمرود کی ساری کی ساری منصوبہ بندی پر پانی پھر گیا۔ اسی طرح اللہ نے اپنی خفیہ تدبیر کے ذریعے سے اپنے نبی کو امتحان میں کامیاب فرما کر توحید کو فتح عنایت فرمائی ۔

 دوسری طرف یزید نے بھی واقعہ کربلا کے سلسلے میں ایک چال چلی،اس وقت عرب میں یہ قانون تھا کہ جنگ کے بعد بچ جانے والوں کو قیدی بناکر قید خانے میں رکھتے تھے ،یا کچھ رقم لے کر چھوڑ دیتے تھے، لیکن یزید نے اپنے منصوبے کے مطابق کربلا کی جنگ کے بعد زندہ رہ جانے والے بچوں و خواتین کو قیدی بنا کر بازاروں میں لے جانے کا حکم دیا اور کوفہ و شام میں منادی کرا دی کہ فلاں دن سارے لوگ بازاروں میں جمع ہو کر خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے والے قیدیوں کا تماشا دیکھیں۔

 یزید اور ابن زیاد یہ چاہتے تھے کہ جونہی یہ قیدیوں کا قافلہ بازار میں داخل ہو گا ہم اعلان کریں گے کہ لوگو! دیکھو جس خدا کے بارے میں یہ بنو ہاشم کہتے تھے وہ کہاں ہے ،اگر خدا ہوتا تو اپنے ان  بندوں کی مدد کرتا پس ان کی بیچارگی و بے بسی سے ثابت ہوا کہ کوئی خدا نہیں ہے ۔

یہ یزید کا مکر تھا کہ اس نے اتنا بڑا انتظام کیا، لوگوں کو جمع کیا ،بازار سجائے۔۔۔لیکن اب خدا کی خفیہ تدبیر دیکھیے ،جونہی قافلہ بازار میں داخل ہوا تو اللہ تعالی نے امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر اقدس سے قرآن جاری فرما کر لوگوں میں یہ ثابت کر دیا کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو اس کٹے ہوئے بغیر جسم کے سر سے قرآن پڑھوا رہی ہے اور اس صاحب سر کا اس ہستی سے گہرا تعلق ہے کہ مر کر بھی زبان پر ذکر صرف خدا کا ہے۔

 اسی طرح سے اللہ تعالی نے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان مقدس ہستیوں کے ذریعے اپنی توحید کو فتح عطاء کی  خصوصاًجب کوفہ کے دربار میں یہ قافلہ پہنچا تو ابن زیاد نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا خدا کہا ں ہے بلکہ کہا کہ دیکھو اللہ نے تمھیں کتنا ذلیل کیا ہے اس پر حضرت زینب ؑ نے ایک خوبصورت جملہ کہا کہ مارایت الّا جمیلا یعنی میں نے اللہ کے جمال کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ۔

اور یوں یزید کی بچھائی ہوئی بساط الٹ گئی،توحید کو فتح اور کفر و شرک کی حیلہ کاروں کو دائمی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اب ہر سال محرم الحرام آکر اعلان کرتاہے۔۔۔مکروا ومکراللہ واللہ خیرالماکرین

[1] ومکروا و مکر اللہ واللہ خیر المٰکرین (آل عمران آیت 54 )


تحریر۔ سجاد احمد مستوئی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) بس اب محرم ختم ہوگیا؟ عاشورہ کے جلوس سے واپسی پر بیٹے نے باپ سے پوچھا

باپ۔۔۔ نہیں بیٹا ، ابھی محرم ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو سادات پر مظالم کی ابتداء ہوئی ہے

بیٹا۔۔۔ پھر لوگ واپس گھروں کو کیوں جارہے ہیں ؟

باپ۔۔۔ کیونکہ اب  جلوس عزا اختتام پذیر ہوگیا ہے نا

بیٹا۔۔۔ ہیں بابا یہ لوگ اتنی تعداد میں اس دن گھروں سے باہر کیوں آتے ہیں  گھر بیٹھ کے بھی تو رویا جا سکتا ہے؟

باپ۔۔۔ باہر آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اظہار غم کے ساتھ ساتھ  دنیا تک یہ پیغام بھی پہنچائیں کہ حسینؑ ابن علیؑ مظلوم تھے

بیٹا۔۔۔ مظلوم کیا ہوتا ہے ؟

باپ۔۔۔ مظلوم اس شخص کو کہا جاتاہے کہ جسے بغیر کسی جرم و خظاء کے قتل کیا جائے اس لیے امام حسینؑ کو مظلوم کہا جاتاہے

بیٹا۔۔۔امام حسینؑ کو کہاں او رکس نے مارا؟

باپ۔۔۔ یزید نے حسینؑ ابن علیؑ کو سرزمین کربلا میں بڑی بے دری سے شہید کیا

بیٹا۔۔۔ کیوں بابا کیا امامؑ کا یزید سے کوئی جھگڑا تھا؟

باپ۔۔۔ نہیں تو

بیٹا۔۔۔ تو پھر کیوں قتل کیا؟

باپ۔۔۔ وہ اس لیے کہامام  حسین ؑ لوگوں تک  اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے

بیٹا۔۔۔ تو کیا یزید اللہ کو نہیں مانتا تھا ؟

باپ۔۔۔ یزید بھی اللہ کو مانتا تھا مگر صرف اپنے مفاد کی خاطر اور دین اسلام کے دائرے میں رہ کر نظام الہی کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنا چاہتا تھا۔۔۔

بیٹا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے  کہ یزید ایک  مطلبی شخص تھا مگر یہ یزید تھا کون اور کہاں رہتا تھا؟

باپ۔۔۔ یزید شام کا حاکم تھا اور یہ معاویہ بن ابو سفیان کا بیٹا تھا

بیٹا۔۔۔ اسے حکومت کس نے دی ؟

باپ۔۔۔ اس کے باپ معاویہ نے اپنے بعد اسے حاکم بنایا

بیٹا۔۔۔ کیا اس کا باپ حاکم مقرر کرتے وقت اس کی برائیوں سے آگاہ نہیں تھا ؟

باپ۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ اس کا بیٹا شرابی ہے ، جوّا کھیلتا ہے کتّےو بندر بازہے پھر بھی پتہ نہیں کیوں ایسا کیا

بیٹا۔۔۔ یعنی یزید بہت برا تھااور اس کا باپ بھی یہ جانتا تھا

باپ۔۔۔ بلکل اسی لیے تو تمام مسلم و غیر مسلم یزید سے نفرت اور امام حسینؑ سے محبت کرتے ہیں

بیٹا۔۔۔ جولوگ امام حسینؑ کی محبت میں روتے اور ماتم کرتے ہیں وہ کون ہیں ؟

باپ۔۔۔ انہیں شیعہ کہتے ہیں

بیٹا۔۔۔ کیا  شیعہ اللہ کو نہیں مانتے ؟

باپ۔۔۔ کیوں نہیں

بیٹا۔۔۔ تو پھر لوگ انہیں  کافر کیوں کہتے ہیں ؟

باپ۔۔۔ کیوں کہ کل کی طرح آج بھی شیعہ  یاحسینؑ یاحسینؑ کرتے ہیں جبکہ یزید و آل یزید   کو یہ شدید ناگوار گزرتا ہے اس لئے یزیدی پہلے نعوزباللہ امام حسینؑ کو باغی اور کافر کہتے تھے اور اب سارے مسلمانوں کو خواہ وہ شیعہ ہوں یاسنّی انہیں کافر کہتے ہیں۔

بیٹا۔۔۔ کیا آج بھی یزیدی موجود ہیں ؟

باپ۔۔۔ ہاں کیوں نہیں  آج یہ جو ہر طرف بدامنی و افراتفری کا دور دورا ہے ، بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے کبھی مساجد میں نمازیوں کو مارتے ہیں تو کبھی امام باگاہوں میں عزداران حسینی کو کبھی بازاروں میں خون کی ہولی کھیلتے ہیں تو کبھی سکولوں میں معصوم بچوں کو بڑی بے رحمی سے موت کی نیند سلاتے ہیں ، یہ سب یزیدی  ہی تو ہیں۔

بیٹا۔۔۔ کیا ہم بھی حسینی بن سکتے ہیں ؟

باپ۔۔۔ جی ہاں کیوں نہیں،بشرطیکہ ہم یزیدیوں والے کام نہ کریں۔

بیٹا۔۔۔ یزیدیوں والے کام ؟؟

باپ۔۔۔ ہاں بیٹا  یزیدی ہمارے اور پورے عالمِ اسلام کے داخلی دشمن ہیں۔

بیٹا۔۔۔ داخلی دشمن؟

باپ۔۔۔ہاں داخلی دشمن ! ایسا دشمن  کہ جو کسی نظام و سسٹم کے اندر رہ کر اسی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے صدر اسلام سے لے کر آج 1437 ھ تک جتنا نقصان اسلام کو داخلی دشمن  نے پہنچایا ہے اتنا خارجی  دشمن نہیں پہنچا سکے۔ہمیں چاہیے کہ عاشورہ کے بعد ہم اپنے عمل سے اپنے حسینی ہونے کو ثابت کریں۔

بیٹا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ عاشورہ کے دن ماتم و عزاداری کے بعد ہماری ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں !

باپ۔۔۔ ہاں بیٹا بلکل ایساہی ہے ،عملی کام تو عاشورہ کے بعد شروع ہوتاہے۔

بیٹا۔۔۔گھر کی دہلیز سے اندر قدم رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔بابا کیا اچھے اچھے کام کرکےسب لوگ حسینی بن سکتے ہیں؟

باپ ۔۔۔ہاں،ضرور ،سب بن سکتے ہیں

بیٹا ۔۔۔کیا چھوٹے بچے بھی۔۔۔؟

باپ۔۔۔مسکراتے ہوئے،ہاں چھوٹے بچے بھی     

 

 


This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

تحریر۔ ساجد گوندل

وحدت نیوز (گلگت) قدرتی آفت کے نتیجے میں داعی اجل کو لبیک کہنے والوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں ،ناگہانی آفات کے ذریعے قدرت قدرت ہم سے امتحان لینا چاہتی ہے پوری قوم ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہے اور اس مشکل گھڑی میں انشاء اللہ سرخرو ہوگی،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت کی رکن صوبائی اسمبلی بی بی سلیمہ نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

انہوں نے گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان میں غمزدہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ غمزدہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں اس ۔انہوں نے اس قدرتی آفت کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو قومی نقصان سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زلزلہ زدگان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر ہمدردی کی ضرورت ہے اور ہنگامی بنیادوں پر تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس ایسے آفات سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہوں اور بروقت امدادی کاروائیاں ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔حالیہ زلزلے کی وجہ سے پورے گلگت بلتستان کا آپس میں اور دیگر علاقوں سے رابطہ بالکل ختم ہوگیا ہے جسے فوری بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دورافتادہ علاقوں تک رسائی ممکن ہو۔انہوں نے پورے پاکستان خاص طور پر گلگت بلتستان میں قدرتی آفت کے نتیجے میں قیمتی جانیں گنوابیٹھنے والے خاندانوں سے دلی ہمدردی اور گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree