ایم ڈبلیوایم کے زیر اہتمام کوئٹہ میں کانفرنس، متنازعہ نصاب تعلیم مسترد اور 1975 کے متفقہ نصاب کی بحالی کا مطالبہ

11 مئی 2025

وحدت نیوز(کوئٹہ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام کوئٹہ میں صوبائی نصاب تعلیم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ماہرین تعلیم، علمائے کرام، اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس دینیہ سے وابستہ شخصیات شریک و دیگر سماجی و سیاسی شخصیات شریک ہوئیں۔ اس موقع پر متفقہ قرارداد میں متنازعہ نصاب تعلیم کومسترد  اور 1975 کے متفقہ نصاب کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ کانفرنس کی صدارت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری نشر و اشاعت اور نصاب تعلیم کمیٹی کے کنوینئر علامہ مقصود علی ڈومکی نے کی۔

شرکاء میں صوبائی صدر ایم ڈبلیو ایم علامہ سید ظفر عباس شمسی، نائب صدر اول علامہ شیخ ولایت حسین جعفری، جنرل سیکرٹری علامہ سہیل اکبر شیرازی، پروفیسر ریٹائرڈ محمد علی ہزارہ، یزدان خان اسکول کے پرنسپل عمران الحسینی، ہزارہ قومی جرگہ کے حاجی محمد اعجاز، المصطفی پبلک اسکول کے پروفیسر مختار حسین، الحمد یونیورسٹی کے پروفیسر محمد حسین حسینی، نیو کوئٹہ اسکول کے سید عبدالروف سجادی، مدرسہ خاتم النبیین کے مولانا سید علی عمران نقوی، محقق و مصنف مولانا ذاکر حسین درانی، بی این پی کے مبارک علی ہزارہ، پیپلز پارٹی کے در محمد ہزارہ اور محمد عیسیٰ چنگیزی، جامعہ بلوچستان کے ڈاکٹر لیاقت علی ہزارہ، ایم ڈبلیو ایم کے عیوض علی ہزارہ، حاجی الطاف حسین ہزارہ، حاجی غلام حسین اخلاقی، فرید احمد، سید مہدی ابراہیمی، آغا سید ضیاء اور دیگر شخصیات شامل تھیں۔ کانفرنس کے اختتام پر متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔

اس موقع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ ہم متنازعہ نصاب تعلیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے کروڑوں شیعہ و سنی مسلمانوں کے تحفظات کو دور کیا جائے۔ ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ 1975 کے طرز پر تمام مکاتب فکر کی مشاورت سے ایک متفقہ دینی نصاب ترتیب دیا جائے۔ علامہ سید ظفر عباس شمسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ نصاب یک طرفہ ہے اور ملت کے عقائد کو نظرانداز کرکے اسے زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ پروفیسر محمد علی ہزارہ نے تجویز دی کہ صوبائی نصاب تعلیم کمیٹیاں وزرائے تعلیم، سیکرٹریز اور ڈائریکٹرز سے براہ راست ملاقاتیں کرکے ملت جعفریہ و محبان اہل بیت اہل سنت کے تحفظات پیش کریں۔ پرنسپل عمران الحسینی نے سوال اٹھایا کہ 1975 کے اس نصاب کو کیوں ختم کیا گیا، جس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق تھا؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نصاب تحریر کرنے والی اور نظرثانی کی تمام کمیٹیوں میں اہل تشیع کی مؤثر نمائندگی دی جائے۔ پروفیسر محمد حسین حسینی نے کہا کہ کروڑوں طلبہ و طالبات کے عقائد کو نظرانداز کرکے نصاب مرتب کرنا تعلیم کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر لیاقت حسین ہزارہ نے کہا کہ قائد ملت جعفریہ علامہ سید محمد دہلوی اور علامہ مفتی جعفر حسین نے نصاب تعلیم کے مسئلے پر برسوں جدوجہد کی، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی اس جدوجہد کو ضائع نہ ہونے دیں۔

کانفرنس کے اختتام پر قرارداد پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ پاکستان ایک کثیر المذاہب اور کثیر المکاتب اسلامی ریاست ہے، جہاں آئین پاکستان تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ تعلیم ایک قومی فریضہ ہے، جو نہ صرف علم کی ترویج بلکہ قومی وحدت و ہم آہنگی کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ تاہم حالیہ برسوں میں جو یکساں قومی نصاب (SNC) متعارف کرایا گیا ہے، وہ ایک مخصوص مکتب فکر کی ترجمانی کرتا ہے، اور دوسرے مکاتب فکر بالخصوص ملت جعفریہ کے عقائد، آئمہ اہل بیتؑ اور ان کے علمی و روحانی مقام کو جان بوجھ کر نظرانداز کرتا ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف مذہبی امتیاز بلکہ فرقہ واریت کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ شرکاء نے پانچ نکات پر مشترکہ طور پر اتفاق کیا۔ پہلے نکتہ میں کہا گیا کہ ہم یکساں قومی نصاب کی موجودہ شکل کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ یہ تکفیری سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور یہ دین اسلام کی متفقہ تعلیمات اور ملت جعفریہ کے عقائد و نظریات کے خلاف ہے۔ دوسرے نکتہ میں حکومت پاکستان، وفاقی وزارت تعلیم اور صوبائی وزارتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ موجودہ نصاب تعلیم کو فی الفور واپس لیا جائے۔ تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کے ساتھ نئی نصاب ساز کمیٹی قائم کی جائے۔ نصاب میں ائمہ اہل بیتؑ، حضرت فاطمہ زہراؑ، کربلا کے شہداء کے حالات زندگی اور صحیفہ سجادیہ و دعائے کمیل جیسی اہم علمی و روحانی روایات کو شامل کیا جائے۔

شرکاء نے کہا کہ درود ابراہیمی کو مکمل اور مستند الفاظ کے ساتھ شامل کیا جائے۔ اور نصاب میں موجود تکفیری، نفرت انگیز یا جانبدار مواد کو فی الفور نکالا جائے۔ تیسرے نکتہ میں کہا گیا کہ ہم یہ باور کراتے ہیں کہ ملت جعفریہ پاکستان کا ایک پرامن، باشعور اور آئینی طور پر برابر کا شہری حصہ ہے۔ ان کے عقائد، دینیات اور تشخص کو پامال کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چوتھے نکتہ میں کہا گیا کہ ہم تمام مکاتب فکر، صحافتی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور والدین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نصاب تعلیم میں اس تعصب کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ پانچویں نکتہ میں کہا گیا کہ ہم اس قرارداد کو جلد وفاقی اور صوبائی حکومتوں، وزارت تعلیم اور نصاب ساز اداروں تک پہنچائیں گے، اور اگر مطالبات نہ مانے گئے تو آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، جس میں آئینی اور جمہوری احتجاج بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اس قرارداد کو صوبائی نصاب تعلیم کانفرنس کے شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کیا۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree