وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ نیئر عباس مصطفوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی پہلے تین مہینوں میں ہی اصلیت سامنے آنا شروع ہوگئی ہے، ایس سی او کے مغویوں کو بازیاب کرانے میں حکومت عدم دلچسپی سے کام لے رہی ہے، اخباری بیانات سے دہشت گردی کا صفایا ممکن ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ دیامر کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، علاقے میں فوجی آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ضلع دیامر میں ایس سی او کے انجینئرز کا اغوا کوئی انوکھا واقعہ نہیں، اس سے قبل اسی علاقے میں مسافروں، سیاحوں، افواج پاکستان اور پولیس کے اعلٰی افسروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور دہشت گرد پورے علاقے میں دندناتے پھر رہے ہیں، ان کی گرفتاری سے حکومت کترا رہی ہے۔ چھشی پولیس چوکی پر حملے کرنے والے ملزموں کی تاحال عدم گرفتاری سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کی گرفتاری میں مخلص ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجینی محلہ گلگت میں فائرنگ کرکے تین جوانوں کو شدید زخمی کرنے والے مجرم وزیراعلٰی کے محلے میں موجود ہیں۔ عاشورا کے روز سونیکوٹ میں عزاداروں پر فائرنگ کرنے والے اصل مجرموں کی گرفتاری کی بجائے خانہ پری کی جا رہی ہے، حکومت ہمارے صبر کو کمزوری پر محمول نہ کرے اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ ہم عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور حکومت کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں، لیکن اگر ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے تو پھر اقتدار کے حکومتی گھمنڈ کو خاک میں ملانے کا گرُ بھی جانتے ہیں۔
وحدت نیوز (ہری پور) عزاداری، غم حسین (ع) منانا اور جلوس عزاء نکالنا ہمارا قانونی حق ہے۔ جلوس عزاء کا راستہ روکنے والا ظالم ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا دعویٰ کیا، لیکن ایام غم میں سیدالشہداء کی یاد منانے والوں کے خلاف سب سے زیادہ ایف آئی آر کی پی کے میں کاٹی گئیں۔ ناچ گانے پر کوئی پابندی نہیں, لیکن یاد نواسہ رسول (ع) منانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ حکومتیں کفر سے تو چل سکتی ہیں ظلم سے باقی نہیں رہ سکتیں۔ جب حکمران قانون شکن ہونگے تو عوام کیسے قانون کا احترام کرسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے دربار بُچکا سرکار، توفکیاں، ضلع ہری پور میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آدم سے خاتم تک ہر نبی ظلم مٹانے اور عدل کا بول بالا کرنے کے لئے آیا، اللہ کو گوارہ نہیں کہ زمین پر ظلم ہو۔ فقط نبی کا ہونا عدل کے لئے کافی نہیں بلکہ لوگوں کا ساتھ بھی لازمی ہے۔ نبی کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں تک پیغام پہنچائیں، اگر لوگوں نے قبول نہیں کیا تو لوگ مجرم ہیں۔ عدالت خواہی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک انسان ظلم سے نہ ٹکرائے۔ فرعون کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا عدالت خواہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم کی کوکھ سے یزید، حرملہ اور خولی پیدا ہوتے ہیں۔ بے حس انسان عدل کے لئے نہیں قیام کرسکتا۔ عدل یہ ہے کہ پاکستان میں آئین و قانون کی حکومت ہو، قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہوں۔ بنیادی شہری حقوق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عزاداری، غم حسین (ع) منانا اور جلوس عزاء نکالنا ہمارا قانونی حق ہے۔ جلوس عزاء کا راستہ روکنے والا ظالم ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا دعویٰ کیا، لیکن ایام غم میں سیدالشہداء کی یاد منانے والوں کے خلاف سب سے زیادہ ایف آئی آر کی پی کے میں کاٹی گئیں۔ ناچ گانے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن یاد نواسہ رسول (ع) منانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ حکومتیں کفر سے تو چل سکتی ہیں ظلم سے باقی نہیں رہ سکتیں۔ جب حکمران قانون شکن ہونگے تو عوام کیسے قانون کا احترام کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی مجالس کے ذریعے معصومین علیہ السلام کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا، حسین (ع) آدم سے لیکر خاتم (ص) تک ہر نبی کی جدوجہد کا وارث ہے۔ محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی ظلم، بربریت، قانون شکنی کے خلاف تحریک کا آغاز ہو جانا چاہیئے، عدالت خواہی کے عظیم پیشوا کی یاد میں تحریک شروع کی جانے چاہیئے۔ تاکہ مظلومین جہان ہمیں اپنی پناہ گاہ سمجھیں۔ پھر عزاداری کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ منبر سے ایسی بات نہ کی جائے جس سے مظلوموں کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ اقتدار پرستوں اور دنیا داروں کے خلاف مادر وطن کے تمام مظلومین اکٹھے ہو جائیں۔ منبر سے تفرقہ کی بات نہ کی جائے، اس کا فائدہ صرف اور صرف تکفیری اور یزیدی عناصر کو ہوگا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)کسی بھی ملک کی آرمی اس کی بقا اور سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔کہیں پر بھی آرمی جتنی پیشہ ور اورنظریاتی ہوتی ہے وہ ملک اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی دشمن طاقتیں عرصہ دراز سے ہی پاکستان آرمی[1] کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان آرمی کو بدنام کرنے کے لئے سب سے پہلے جس بغاوت پرآرمی کو اکسایا گیا اسے راولپنڈی سازش کیس کہاجاتاہے۔[2]
’’پاکستان میں فوجی حکومتیں ‘‘کے مصنف مرتضیٰ انجم کے مطابق پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ایوب خان کو وزیر دفاع کی حیثیت سے گورنر جنرل محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے ۔ جنرل ایوب خان نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ فوج کا سربراہ بھی رہے گا۔ اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ فوج کا سیاسی کردار بڑھتا گیا ۔ حتیٰ کہ اکتوبر ۱۹۵۸ میں سکندر مرزا نے حکومت برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا۔ تین ہفتے کے بعد ان کے اپنے ساتھ یہی معاملہ پیش آ گیا ۔ جنرل ایوب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر پاکستان بھی بن گئے ۔
پاکستان آرمی کی تاریخ اس طرح کی چھوٹی موٹی بغاوتوں اور سیاسی مداخلتوں سے بھری پڑی ہے۔یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتارہا اوربعد ازاں پاکستان آرمی پر سعودی لابی کے کنٹرول کا دور شروع ہوگیا۔یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف،سعودی عرب نواز جماعتِ اسلامی کی قیادت میں بھرپور تحریک چلائی گئی اور ضیادور کا مارشل لا لگ گیا۔اس مارشل لا میں سعودی حکومت کا اتنا ہاتھ تھا کہ ضیاءالحق کا مارشل لاءلگتے ہی جماعت اسلامی کے محمد طفیل اور ضیا ءالحق کے مابین ماموں بھانجے کا فرضی رشتہ مشہور ہو گیا۔
اس دور میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر پاکستان آرمی ،سعودی اور امریکی اثرورسوخ کے تحت آئی،جہادِ افغانستان اور جہادِ کشمیر کے نام پر لگائی گئی سعودی جہاد انڈسٹری کے زیرِ سایہ پاکستان آرمی کے اندر ایک مخصوص فرقے کی تبلیغ کی جانے لگی اور یوں پاکستان آرمی میں تبلیغی بغاوتیں اور فرقہ وارانہ نفرتیں شروع ہوئیں۔
پاکستان نیوز کے بیوروچیف جاوید رانا کے مطابق اس دور میں “ خود فوج کے اندر بھی مذہبی رجحان رکھنے والے افسروں اور جوانوں کو ترجیح دی جانے لگی جس کا نتیجہ بے نظیر کے دور میں ایک فوجی بغاوت کے انکشاف کی صورت میں نظر آیا اس بغاوت پر فوری قابو پا لیا گیا لیکن اس نے فوج کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا۔”[3]
برس ہابرس تک جب سعودی لابی پاکستان آرمی کو اندر سے کھوکھلا کرکے پاکستان میں تبدیلی لانے میں ناکام رہی تو پھر سعودی فرقے کے نام نہاد مجاہدین نے کھل کر پاکستان آرمی کے ہیڈ کوارٹر، کیمپوں اورٹھکانوں پر براہِ راست حملے شروع کردئیے۔بالآخر 16 دسمبر 2014ء کو سعودی کیمپوں کے تربیت یافتہ نام نہاد مجاہدین نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کی اور وہاں پر ننھے منّے بچوں کو گولیاں ماریں اس کے علا وہ ادارے کے سربراہ کو آگ لگائی۔ سعودی کارندوں کی اس کاروائی میں۹ اساتذہ ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کُل 144 افراد شہید اور 113سے زائدزخمی ہوئے۔
پاکستان آرمی میں سعودی عرب کے اثر و نفوز کے بعد وہ پاکستان جو تمام اسلامی مذاہب و مسالک کا نشیمن تھا اب اس ملک کو بنانے والے شیعہ اور سُنّی اچھوت بن کر جی رہے ہیں۔اگرچہ یہ ملک اس لئے بنایاگیاتھا کہ برّصغیر میں بسنے والے تمام مسلمان اس میں آزادی کے ساتھ اپنی عبادات اور مذہبی رسومات ادا کریں گے لیکن اب یہاں سعودی فرقے کے علاوہ کسی اور کو مسلمان ہی نہیں سمجھا جاتا۔
اب پاکستان میں عملاً سعودی مدارس،اسرائیلی مجاہدین،امریکی ڈالروں،ناصبی افکاراور آلِ سعود کی جہاد انڈسٹری کی حکومت ہے۔یہ لوگ جسے چاہتے ہیں اُسے جینے کا حق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں اسے کافر اور مشرک کہہ کر واجب القتل قرار دے دیتے ہیں۔
اب یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں،کوئی سُنّی ہو یا شیعہ ، عید میلاد النّبیﷺ کا جلوس ہو یا روزِ عاشورہ کا،چرچ ہو یا مندر،مسجد ہویا کلیسا،امام بارگاہ ہو یا کسی ولی کا مزار، پولیس کا مرکز ہویا آرمی کا ہیڈکوارٹر ،فوج کے جوان ہوں یا ایف سی کے اہلکار ہر محبِّ وطن پاکستانی سعودی دہشت گردوں کی زد پر ہے۔
ایسے میں ملتِ پاکستان کی توقعات اور امیدیں بجاطور پر پاکستان آرمی سے وابستہ ہیں۔ چونکہ کسی بھی ملک کی آرمی اس کی بقا اور سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔ پاکستان آرمی ماضی کی طرح آج بھی ملت پاکستان کے لئے شمعِ امید ہے۔اس شمعِ امید کی حفاظت کرنا ہم سب کا دینی و ملی فریضہ ہے۔
یہ پاکستان آرمی کے لئے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ پاکستان آرمی اپنی گزشتہ غلطیوں کی تلافی کرے،اپنی صفوں سے ضیاالحق کی باقیات اور سعودی عرب کے جاسوسوں کا صفایا کرے۔پاکستانی حکام کو اب یہ باور کرلینا چاہیے کہ پاکستان کی بقا کے لئے پاکستان آرمی کا فرقہ واریت اور سیاسی دھڑے بندیوں سے پاک ہونا انتہائی ضروری ہے جب آرمی خود سعودی نظریات سے پاک ہوگی تو تبھی وہ سعودی عرب کے پالتو دہشت گردوں کے خلاف حقیقی آپریشن بھی کرپائے گی۔
آج پاکستان آرمی کے اعلیٰ حکام کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ فرقہ واریت ایک ناسور ہے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والا اور دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے والا ہر ملک اور ہر شخص اسلام اور پاکستان کا دشمن ہے وہ خواہ سعودی عرب ہی کیوں نہ ہو۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[1] پاکستان فوج کا قیام ۱۹۴۷ میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔یہ ایک رضاکارپیشہ ور جنگجوقوت ہے۔انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز (انگریزی: (International Institute for Strategic Studies-IISS)) کے مطابق اپریل ۲۰۱۳ میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت ۷،۲۵،۰۰۰ تھی۔اس کے علاوہ ریزرو یا غیر فعال ۵،۵۰،۰۰۰ افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سرانجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ ۱۲،۷۵،۰۰۰افراد تک پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ آئین پاکستان میں جبری فوجی بھرتی کی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے. ۔
[2] پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف 1951ء میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ ایک بغاوت بخلاف ریاست کی کوشش تھی۔ منتخب حکومتوں کے خلاف یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلی بغاوت کی کوشش تھی۔ میجر جنرل اکبر خان، دیگر فوجی افسراں اور بائیں بازو کی پاکستانی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر یہ پاکستانی فوج کے سینئر کمانڈروں کی طرف سے بغاوت کا ایک منصوبہ تھا۔
وحدت نیوز (قم المقدس) شہیدحجۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین،عالم اسلام کو درپیش مسائل کا قبل از وقت جائزہ لینے کے عادی تھے،وہ حالاتِ حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے تھے،قومی و ملکی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ فکرمند رہنا ان کی زندگی کا معمول تھا۔ان خیالات کا اظہار قم المقدس میں ایم دبلیو ایم قم کے زیرِ اہتمام شہیدحجۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کے چہلم کی مناسبت سے منعقد کئے جانے والے پروگرام میں کیا گیا۔پروگرام سے خصوصی خطاب ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے خارجہ امور کے سیکرٹری حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی اور حجۃ الاسلام غلام حر شبیری نے کیا،مقررین نے شہید کی زندگی کی مختلف خصوصیات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید نظام ولایت فقیہ کے حقیقی ،نڈر اور بابصیرت مبلغ تھے۔ پروگرام کے بعد ایم دبلیو ایم قم کے آفس میں شہید کی یاد میں ایک لائبریری کا بھی افتتاح کیا گیا۔
وحدت نیوز(گلگت) داریل میں ایس سی او کے انجینئراور ٹیکنیشن کا دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا سٹیٹ کو کھلم کھلا چیلنج ہے ماضی میں بھی پولیس چوکیوں پر حملے کئے گئے،غیرملکیوں کو نشانہ بنایا گیا ،بے گناہ مسافروں کو خاک و خون میں نہلادیا گیا لیکن آج تک دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں ہوئی۔مغویوں کی بہ حفاظت رہائی کو یقینی بناکر پورے علاقے میں ٹارگٹڈ فوجی آپریشن کیا جائے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر دہشت گردوں نے دیامر میں اپنی رٹ قائم کی ہے کبھی شاہراہ قراقرم پر مسافروں کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی غیر ملکیوں پر حملے کئے جارہے ہیں ،اس پر مستزاد پولیس چوکیوں پر حملہ اور پاک فوج اور پولیس کے اعلیٰ آفیسروں تک کو نہیں چھوڑاگیا۔ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں میں دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور مختلف حیلے بہانوں سے ان دہشت گردوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کا اغوا انتہائی افسوسناک ہے اگر بروقت کاروائی کرکے مغویوں کو بحفاظت رہا نہ کروایا گیا تو وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کیا جائیگا۔انہوں نے فورس کمانڈر گلگت بلتستان سے خصوصی اپیل کی کہ وہ مغویوں کی رہائی کیلئے کردار ادا کریں۔
وحدت نیوز (قم) حوزہ عملیہ قم ایک عظیم نعمتِ الٰہی ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس نعمت الٰہی سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار حجۃ الاسلام غلام حر شبیری نے ایم ڈبلیو ایم قم کی کابینہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے اس موقع پر شہیدِ مِنیٰ حجۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ شہید نے حوزہ علمیہ سے بھرپور استفادہ کیا اور اپنی مختصر زندگی میں دین و ملت کے لئے عملی جہاد کیا ہے،انہوں نے کہا کہ جو لوگ شہید سے محبت کا دم بھرتے ہیں انہیں چاہیے کہ شہید کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم کریں۔