وحدت نیوز(آرٹیکل) حضرت عیسی ٰ ؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ تمہاری جیب میں کچھ ہے؟ اس نے کہا میرے پاس دو درہم ہیں۔حضرت عیسیٰؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا یہ تین درہم ہو جائیں گے، قریب ہی آبادی ہے تم وہاں سے تین درہموں کی روٹیاں لے آؤ۔ وہ گیا اور تین روٹیاں لیں راستے میں سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹی حضرت عیسی ؑ بھی کھائیں گے اور آدھی روٹی مجھے ملے گی بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھالوں چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا۔ دونوں نے ایک ایک روٹی کھالی اور اس کے بعد حضرت نے پوچھا تین درہم کی کتنی روٹی ملی تھیں؟ اُس نے کہا دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔ حضرت عیسیٰؑ نے مزید کچھ نہیں فرمایا اور وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا ، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا اے اللہ کے نبی ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی؟ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا، میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہو اہو گا۔ آپ نے فرمایا : یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟ اُس نے کہا جی ہاں، میرا دل نور سے بھر گیا ہے، پھر آپ نے فرمایا : اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں؟ اس نے کہا :حضرت روٹیاں بس دو ہی تھی۔پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا یک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا، جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھا پر ٹھوکر مار کر کہا"اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا" ہرن زندہ ہوگیا اور دوڑتا ہوا اپنی منزل کی جانب راوانہ ہوا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر مزید حیران ہوا اور کہنے لگا خدا کا شکر ہے کہ جس نے مجھے آپ جیسے نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے۔حضر ت نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟ شاگرد نے کہا اے اللہ کے نبی میرا ایمان پہلے سے دگنا ہو چکا ہے، پھر آپ نے فرمایا بتاو روٹیاں کتنی تھیں؟ شاگرد نے کہا روٹیاں دو ہی تھیں۔ بحر حال دونوں نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچا اور دیکھا کہ سونے کی کچھ اینٹیں پڑی ہیں۔ آپ نے فرمایا ان کے نزدیک نہ جانا یہ باعث فتنہ و فساد ہے اور آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا دور چلنے کے بعد شاگرد سے رہا نہ گیا اس کا فکرسونے کی اینٹوں پر تھی اس نے کسی نہ کسی طریقے سے حیلے بہانے سے حضرت سے اجازت لی اور اپنے راہ کو جدا کر دیا اور حضرت عیسی سے چھپ کر وہ اس پہاڑ کے دامن میں پہنچا اور سونے کی اینٹوں کو گھر لے جانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ تین چور وں کا وہاں سے گزرا ہوا انہوں نے جب یہ منظر دیکھا تو شاگرد کو قتل کر دیا اور اینٹوں کو آپس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ لوگ سفر اوربھوک کی وجہ سے نڈھال تھے۔ لہذا انہوں نے ایک کو روٹیاں لینے بھیجایہ شخص راستے میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو میرے دونوں ساتھی مر جائیں گے اور یہ ساری اینٹیں مجھے مل جائے گا۔دوسری طرف باقی دو چوروں نے بھی مشورہ کیاکہ جب ان کا ساتھی واپس آئے گا تو وہ دنوں مل کر اسے قتل کریں گے اور سونے کی اینٹوں کو آپس میں تقسیم کریں گے۔جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبے کے مطابق اس کو قتل کیا اور انہوں نے روٹیاں بھی کھائی تو وہ دنوں بھی وہی پر مر گئے۔ حضرت عیسیٰؑ کا جب واپسی پر وہاں سے گزرا ہوا تو دیکھا کہ ان اینٹوں کے پاس چار لاشیں موجود ہیں، آپ نے ٹھنڈی سانس بھری اور فرمایا"دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے"مال و دنیا کسی کی جاگیر نہیں ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے سیالکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا:"احتساب کرنے والے بتائیں الزام اور مقدمہ کیا ہے؟کون سے پیسے دئے جو ہم لوٹ کر دبئی لے گئے، الزام لگانے والو!! کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آئی"۔ جسٹس عظمت سعید نے آبزرویشن دی کہ یہ درست ہے کسی اثاثے کے ساتھ وزیر اعظم کے براہ راست تعلق کو نہیں جوڑا جاسکا لیکن ایک چیز واضح ہے سب سے زیادہ فائدہ 88فیصد وزیر اعظم کو ہوا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گایا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کئے، سرمایہ دبئی سے جدہ، قطر اور لندن کیسے گیا، اس بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے گی لیکن فلیٹس کی معلومات چھپانے کیلئے تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں بنائی گئیں، منی ٹریل کی دستاویزات نہیں تھیں تو وزیر اعظم نے بیان کیوں دیا؟منی ٹریل معمہ ہے، وزیر اعظم سے کیسے یہ توقع رکھیں کہ بیان وہ دے اور ثابت کوئی اور کرے، دستاویزات نہیں دینگے تو کوئی اور نکال لائیگا، فاضل بنچ۔نواز شریف خود کو بری لزمہ ثابت نہیں کر سکے، شریف فیملی نے طے کیا تھا جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانا، فیصلہ کرلیں ثبوٹ ہمیں دینگے یا ٹرائل کورٹ میں: عدالت۔
میاں صاحب یہ آنکھ مچولی کا کھیل زیادہ دیر نہیں چلے گا ، سب سے پہلے تو ہمیں آپ سے پوچھنا چاہئے" میاں صاحب بار بار کعبہ کس منہ سے جاؤ گے؟؟" اس ملک میں کرپٹ کون ہے کون نہیں ہے آپ کو توضیح کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارے حکمران کتنے مخلص اور دیانت دار ہیں۔ یہ مال دنیا کسی کا ساتھ نہیں دیتا ، آپ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھیں آپ سے زیادہ چالاک ہوشیار اور ثروتمند حکمرانوں کے اس وقت نام و نشان بھی نہیں ہے پھر آپ کو تو بار بار کعبہ جانا ہوتا ہے نا، لہذا کچھ خدا کا ہی خوف کریں اور مسلمان ہونے کا ثبوت دیں آپ ابھی نہیں مانیں گے تو کسی نہ کسی دن تو اس کی پوری پول کھلنی ہے، اور خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، دریائے نیل میں ڈوبنے کے بعد جتنا بھی موسیٰؑ و موسیٰؑ کے خدا پر ایمان لے آئیں فائدہ نہیں ہوگا اور اگر آپ سیدھا سیدھا حساب کتاب دیں گے تو آپ کو گلو بٹ پالنے و سانحہ ماڈل ٹاون جیسے واقعات بھی کروانے نہیں پڑئیں گے۔
تحریر : ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) پانچ اگست تاریخ تشیع پاکستان کا وہ دردناک دن ہے جس میں فرزند صادق سید الشھداء و انقلاب اور اسلام ناب محمدی ؐ کے حقیقی علمبردار، محروموں اور مظلوموں کی آواز قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ نے جام شہادت نوش کی اور اپنے آبا و اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کربلا کی سرخ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ آپ نے اپنی مظلومانہ شہادت سے قوم و ملت کو اسلام ناب محمدی ؐکے حقیقی چہرے سے روشناس کرایا اور لوگوں میں فکر و شعور کی خیرات تقسیم کی۔ یہی وہ چیز تھی جسے زندہ رکھنے کی رہبر کبیر روح اللہ خمینی ؒنے ملت پاکستان کو تاکید کی۔
آج جب پوری دنیا دو بلاک میں تقسیم ہو چکی ہے ایک بلاک امام مھدی آخرزمان ؑکے ظہور کی زمینہ سازی کرنے والوں کا بلاک جبکہ دوسرا اس کاراستہ روکنے والوں کا بلاک ہے۔آج آل یہود،آل ہنود، آل سعودکا گٹھ جوڑکھل کراس جنگ کی تیاری کر رہاہے ۔آج قائداعظم ؒ اور اقبالؒ کاپاکستان تکفیریت اور انتہاء پسندی کی لپیٹ میں ہےاور دشمن پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو پارہ پارہ کرنے کے در پے ہے۔ایسے میں اہل حق، اہل اسلام اور انسانیت کے حقیقی غمخواروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لبیک یارسول اللہؐ، لبیک یا حسین ؑ اور لبیک یامھدی ؑکی صدائوں میں اپنا کردار ادا کریں۔
آیئے!!!
٭ آج شہید قائدؒ کی 29 ویں برسی کے موقع پر انکی روح سے تجدید عہدکریں کہ ہم اُنکے افکار و نظریات کو زندہ رکھیں گے اور انکے رستے سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
٭ ہم عہد کریں کہ ہم عدل و انصاف اور حق کے پرچم کو سرزمین پاکستان میں کبھی گرنے نہیں دیں گے۔
٭ امت مسلمہ کی وحدت کا خواب جو آپ نے دیکھا جس کے لئے آپ وطن عزیز کے گوش و کنار میں گھر گھر گئے اور عوام کو بیدار کیا، آج ان کے نظریاتی فرزند اسی پیغام کو لیکر آگے بڑھ رہیں ہیں اور مسلسل بڑھتے رہیں گے۔
٭ آپ کی قیادت میں ہونے والی جدوجہد محرومین و مظلومین پاکستان کے لئے امید اور بالخصوص امام عصر عج کے عالمی انقلاب کے لئے مقدمہ تھی ۔ہم اس جدوجہد کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ جاری و ساری رکھیں گے اور امام عصر عج کے عالمی انقلاب کی زمینہ سازی کے لئے اپنی جان ومال اور اولاد کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
٭ آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مستضعفین اپنے نجات دہندہ حضرت امام مہدی عج کے منتظر ہیں۔ انشا اللہ ہم پوری طاقت اوروحدت کےساتھ ہر میدان میں حاضر رہ کر انتظار امام زمانہ عج کے تقاضوں کو پورا کریں گے تاکہ ہمارا شمار بھی امام زمانہ عج کے اصحاب و انصار میں ہو۔
رونق شاخ کردار بنو!
لشکر ظلم سے لڑنے کے لئے
وقت کے میثم تمار بنو!
دست مظلوم کی تلوار بنو!
صبر کے سر کو جھکانے کیلئے
صبر سجاد ؑکا معیار بنو!
ہاتھ سے ہاتھ نہ چھٹنے پائے
تم سے زنداں بھی لرزجائیں گے
آہنی عزم کی دیوار بنو!
جرأت جذبہ مختار بنو!
تحریر۔۔۔ظہیر الحسن کربلائی
وحدت نیوز(اسلام آباد) وحدت یوتھ اسلام آباد کی یوتھ کونسل کا اجلاس مرکزی سیکریٹری یوتھ ڈاکٹر یونس حیدری اورڈپٹی سیکریٹری یوتھ برادر وفا عباس کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر یونس حیدری کا کہنا تھا کہ 6 اگست کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی 29 برسی کی مناسبت سےمہدی برحق کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں پاکستان بھر سے شیعہ سنی حضرات شرکت کریں گے۔ڈاکٹر یونس کا کہنا تھا کہ شہید کے افکار کو زندہ رکھنا ہمارا اہم فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت کے قیام سے لے کر آج تک ہم نے شہید حسینی ؒ کی فکر کو دنیا بھر میں پہنچایا ہے اور پہنچاتے رہیں گے۔ اس موقع پر ڈپٹی سیکریڑی یوتھ برادر وفا عباس نے کہا کہ اسلام آباد کے جوانوں کے لئے مرکزی اجتماع کی میزبانی باعث افتخار ہے۔ برادر وفا نے کہا کہ برسی کی تشہیری مہم اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے اور اس کو مزید ابھارنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جوان عوامی رابطہ مہم شروع کرکے اس عظیم اجتماع میں عوام الناس کو دعوت دیں اور ان کی شرکت کو یقینی بنائیں۔اس موقع پہ ضلع اسلام آباد کے سیکرٹری یوتھ برادر علی رضا بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(ٹھٹھہ) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی نے مرکزی ایگزیکٹیو پولٹیکل کونسل کے رکن محسن شہریار زیدی کے ہمراہ ضلع ٹھٹھہ و سجاول کا دورہ کیا ، اس موقع پر ٹھٹھہ جیم خانہ میں ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے تنظیمی ذمہ داران کے مشترکہ اجلاس میں آئندہ قومی انتخابات میں جماعتی حکمت عملی سمیت ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے علی حسین نقوی نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے، مغربی قوتیں اپنی ناکام اور متعصبانہ پالیسیوں کے باعث عالمی سطح پر مسلسل تنہائی کاشکار ہیں ، عرب اور خلیجی ریاستیں اپنے اقتدار کی ڈوبتی نائوکو بچانے کی خاطر امریکہ کے ڈولتی نائوکا سہارا لینی کی بے سود کوششوں میں مصروف ہیں ، پاکستان میں اس وقت سنگین داخلی اور خارجی مشکلات درپیش ہیں ، بین الاقوامی سطح پر رونما ہوتی تبدیلیاں اور اندرون ِ خانہ پانامہ کیس میں جگڑے حکمران دونوں وطن عزیز کیلئے مصیبت کا باعث بنے ہوئے ہیں، عوام کی تمام تر توجہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ کی جانب مرکوز ہیں جنہیں قومی سلامتی اور استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی خیر پر مبنی فیصلے کی توقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ الیکشن کے حوالے سے ایم ڈبلیوایم کی تیاریاں تیزی سے جاری ہیں ، ملک بھر کی طرح سندھ بھر سے آئندہ انتخابات میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں گے اور کرپٹ اشرافیہ کیلئے سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین ضلع سجاول کے سیکریٹری جنرل مظفر علی لغاری، ضلع ٹھٹھہ کے سیکریٹری جنرل سید اسد اللہ شاہ کاظمی اور دونوں اضلاع کی کابینہ کے دیگر اراکین بھی شریک تھے، میزبان رہنماوں کی جانب سے مہمان قائدین کی خدمت میں سندھ کی ثقافتی اجرک بھی تحفے میں پیش کی گئیں ۔
وحدت نیوز (گلگت) مستونگ میں محب وطن شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بلوچستان حکومت کی نا اہلی اور سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پورے ملک میں کالعدم جماعتوں کو لگام دینے میں حکومت کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے،کالعدم جماعتوں کو ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آشیرباد حاصل ہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی گوہر نے کہا ہے نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ دہشت گرد پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔حکومت سے عوام کا اعتماد روزبروز ختم ہوتا جارہا ہے،عوام کو انصاف اور تحفظ فراہم کرنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے منظم سازش کے تحت ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے ،قاتل معلوم ہونے کے باوجود حکومت انہیں لگام دینے سے احتراز کررہی ہے۔نواز حکومت شروع دن سے ہی تکفیری دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی آئی ہے ، کوئٹہ، پاراچنار اور کراچی میں شہید کئے جانیوالے شہداء سے لواحقین سے حکومت نے اظہار ہمدردی کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت دہشت گرد عناصر کو گرفتار کرنے کی بجائے محب وطن شہریوں اور علمائے کرام کو حب الوطنی کی سزا دے رہی ہے۔ہمارے علمائے کرام پنجاب سے اغوا ہورہے ہیںاور پنجاب حکومت کی بے حسی بتارہی ہے کہ ان کے دل میں کینہ اور بغض بھرا ہواہے۔کراچی سے گلگت بلتستان تک وطن عزیز کے وفادار بیٹوں کو دیوار سے لگادیا گیا ہے ،حکومت بد نیتی ،کینہ اور بغض کیساتھ زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ظالم حکمران ابھی تو پانامہ کے قہر و غضب کا شکار ہوئے ہیںجس دن مظلوم کی آہ وپکار کا قہر نازل ہوگا تو اس دن سب کچھ خاکستر ہوجائے گا۔ انہوں نے شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے افواج پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمیں انصاف دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے زیر اہتمام مستونگ میں کار پر تکفیری دہشت گردوں کی فائرنگ سے چار ہزارہ شیعہ شہریوں کے بہیمانہ قتل کے خلاف مسجدِ ولی عصر علمدار روڈ سے چوکِ شہداء تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، ریلی کی قیادت ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی نے کی اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا، علامہ ولایت جعفری اور عباس علی سمیت خواتین سمیت مردوں کی بڑی تعداد شریک تھی جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر دہشت گردی کے خلاف اور شیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں کی سزاکے حق میں نعرے درج تھے ۔
احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیوایم کے رہنماوں نے کہا کہ مستونگ میں شیعہ نسل کشی کا یہ سانحہ ہمارے مقتتدر حلقوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وفاقی اور صوبائی حکومت پر ایک ایسا سوالیہ نشان ہے، تواتر کیساتھ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اضلاع میں پولیس کو نشانہ بنائے جانے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس سے نمٹنے کیلئے کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آتی ، گذشتہ 18 سالوں میں جس طرح ایک منظم سازش کے تحت کوئٹہ اور اسکے گردنواں میں ہماری ٹارگٹ کلنگ اور پھر منظم طور پر ہماری نسل کشی کا منصوبہ بنایا گیا اس میں بعض خلیجی ممالک خصوصا سعودی عرب کے اسرائیل پرست اور امریکہ پرست افکار کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔
رہنماوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں،دہشتگردوں کے نرسری کالعدم شدت پسند گروہ کو بلوچستان میں مکمل آزادی دینا دہشتگردی کیخلاف جنگ کو ناکام بنانے کی سازش ہے، ان دہشتگردوں گروہوں نے نام بدل کر پورے پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اب یہ سارے دہشتگرد گروہ داعش کے کے تلے جھنڈے منظم ہوکر پاکستان کو اپنی آماجگاہ بنانے میں کوشاں ہےاور ہر سانحے کے بعد باقاعدہ طورپر داعش واقعے کی ذمہ داری نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ آئندہ بھی اسی طرح کے حملوں کی دھمکیاں دیتی ہے ،وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اگر عوام کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتے یا پھر وزیر داخلہ کے پاس اختیارات نہیں ہے تو اپنے عہدہ سے مستفی ہوجائیں ۔ رہنماوں نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ فاٹا کی طرز پر کوئٹہ ، مستونگ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں قائم داعش، طالبان اور لشکر جھنگوی کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف آپریشن خیبر فور کی طرز کا ٹھوس آپریشن جلد از شروع کیا جائے۔