وحدت نیوز(آرٹیکل) میں سردیوں میں بہت سرد اور گرمیوں میں جلادینے والی گرمی کا حامل ہوں، خشک پہاڑوں کے ان گنت سلسلے میرے اطراف کو گھیرے ہوئے ہیں، لہذا نہ میرے ہاں زیادہ بارش ہوتی ہے اور نہ ہی حیات انسانی اور حیوانی کے آثار ہیں۔
ایران کا بارڈر قریب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے مجھے بسانے کا فیصلہ کیا اور محدود تعداد میں لوگوں نے بسیرا ڈالا کہ جن میں سے اکثر دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔
پھر کیا تھا؟ مقدس مقامات پر زیارت کرنے والے لوگ جب یہاں جاتے ہوئے پہنچتے تو نہ راستہ ان کے لئے کٹھن تھا، نہ میری سرزمین ان کے لئے تنگ، جاتے ہوئے کھلکھلاتے چہرے سے مجھے خدا حافظ کہتے تھے اور وطن کی محبت کا اظہار ادھر دیکھنے کے لائق تھااور حسب حال میں بھی انکی جو خدمت ہوتی وہ کرتا، اگرچہ نہ میں اتنا سرسبز تھا اور نہ ہی خوش آب و ہوا۔
اور جب یہی مسافر واپس میری سرزمین میں قدم رکھتے تو فرط محبت سے میری مٹی کو چومتے، مادر وطن میں ہونے کا احساس ان کے آنکھوں کے بند توڑ دیتا اور جذبات اور احساسات کے ملے جلے انداز کا نشیمن گاہ بھی میں ہی تھا۔
کہتے ہیں زمانہ ایک جیسا نہیں رہتا، مجھے بھی کسی بدنظر کی نظر لگ گئی اور جہاں مجھے سرزمین استقبال و بدرقہ کہا جاتا تھا آج میرے مسافروں کو اذیتناک مراحل سے گذرنا پڑ رہا ہے۔
میرے سینے پر انکا لہو بہایا گیا، ان کو لوٹا گیا، ان کے دلوں میں خوف ڈالا گیا، انکی خواتین کی بیحرمتی کی گئی، ان کے بچوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ان کے آنے اور جانے کے راستے میں جیل بنایا گیا۔
جہاں میں ہر روز اس بات کا شاہد ہوں کہ نہ انکو صحیح رہائش دی جاتی ہے، نہ مناسب کھانا، وہ پانی کی بوند کو ترستے ہیں، گرمی کی شدت اور سردی کے زور کے آگے بہت سوں نے جان کی بازی ہار لی، بہت سے لاعلاج مرض میں گرفتار ہوئے۔
اب میں کیا کروں کیسے ان معصوم مسافروں کی دل گیری کروں کہ مجھ کو اپنوں نے ایسے حال میں دھکیلا ہے، مجھے رحمت سمجھنے والے اب میرے نام سے لرز جاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔محمد جواد عسکری
وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ عجیب دور ہے، مصلح کو مفسد بنا کر رکھ دیا گیا ہے! سپیکر کے استعمال پر پابندی، جلسے پر پابندی، جلوس پر پابندی، نعرے پر پابندی،شہر سے باہر نکلنے پر پابندی ، شہر میں داخل ہونے پر پابندی ، فورتھ شیڈول میں نام۔۔۔ عجیب نفسانفسی کا عالم ہے کہ کوئی طالب علم مدرسے سے گھر جاتے ہوئے گم اور کوئی گھر سے مدرسے جاتے ہوئے لاپتہ …
کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ یہ ساری پابندیاں دیندار حضرات خصوصا مولوی حضرات پر ہی کیوں لگائی جاتی ہیں۔۔۔!
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض شخصیات نے اپنے مفادات کے لئے چند نا سمجھ دیندار لوگوں کو استعمال کر کے مکمل طور پر علمائے دین کو ہی بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔
اگر ان پابندیوں اور فورتھ شیڈول کا تعلق شدت پسندی ، تعصب ، گالی گلوچ اور الزامات و تہمات سے ہے تو باعرض معذرت ہمارے سیاستدانوں میں یہ سب کچھ مولوی حضرات کی نسبت کہیں گنا زیادہ پایا جاتاہے۔
ہم پرانے مردے نہیں اکھاڑتے ، ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ جب کسی چھوٹے موٹے سیاستدان نے نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزاد کشمیر کے صدر کو زلیل آدمی کہا، شیخ رشید نے کہا کہ اس فاروق حیدر کو سی ایم ہاؤس سے نکال کر جو تیاں مارو، پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان نے جہاں اور بہت کچھ کہا وہاں یہ بھی کہا کہ کیا پدی اور پدی کا شوربا، اپنی اوقات کے اندر رہو، اپنی حیثیت کے اندر رہو اپنے پاجامے کے اندر رہو یہ جو تمہارا پاجاما ہے نا اس کے اندر رہ کر بات کرو۔
ایسے میں عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں کہا کہ میں’’ تُو‘‘ کر کے بات کر رہاہوں’’ُ تُو‘‘ کر کے، تیری اوقات کیا ہے!
یہ سب کچھ ایک ملک کے وزیراعظم ، ایک ملت کے سربراہ، ایک ایوان کے قائد ایوان اور ایک ریاست کے رہنما کے بارے میں کہا گیا ۔ لیکن کسی ادارے نے ازخود نوٹس کی زحمت نہیں کی، کسی سیاسی رہنما نے اسے شدت پسندی نہیں کہا، کسی عالم دین نے اس طوفان بدتمیزی پر بد اخلاقی کا فتوی نہیں لگا یا، کسی قاضی نے اس گستاخی پر وارنٹ جاری نہیں کئے چونکہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ شدت پسندی نہیں ہے، سیاستدان جو مرضی ہے کریں ، ہمیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ شدت پسند صرف مولوی حضرات ہوتے ہیں۔
اسی طرح گلالہ لئی نے جو انکشافات کئے ہیں ان پر بھی تحقیقات کے بجائے ، مسلسل الزامات اور تہمات کا سلسلہ جاری ہے۔
اگر اس طرح کے بیانات کوئی عالم دین دیتا اور اس پر گلالہ لئی جیسے الزامات ہوتے تو پھر ہمارے عوام ، میڈیا اور سیاستدانوں کے مذمتی بیانات کا تانتا لگ جاتا۔
یہ ہماری ملکی تاریخ کی کڑوی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں نے چند نافہم مولوی حضرات کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر کے دینی مدارس اور علما حضرات کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا سیاستدان جسے عدالت نااہل قرار دے کر اس کے کرپٹ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے وہ بھی ریلیاں نکالتا ہے،کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آیا عدالتی فیصلے کو عوامی ریلیوں کے ذریعے چیلنج کرنا بھی شدت پسندی ہے یا نہیں!
مقام فکر ہے کہ اگر کسی عدالتی فیصلے کے بعد کوئی مولانا صاحب اسی طرح کی ریلی نکالتے تو کیا انہیں اس کی اجازت دی جاتی!؟
عجیب افسوسناک صورتحال ہے کہ جس وقت کرپشن کے حق میں ریلی نکالی جارہی تھی عین اسی دوران اپر دیر کے علاقے تیمر گراہ میں پاک فوج کے جوان، ایک میجر سلمان علی اور تین دیگر فوجی شہیدوں کے غم میں آنسو بہا رہے تھے لیکن ان کی دلجوئی کے لئے کوئی ریلی نہیں نکلی۔
یعنی اس ملک کے دارلحکومت میں عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے والے شدت پسندوں کی ریلی تو نکلی لیکن شدت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے جوانوں کے حق میں کوئی ریلی نہیں نکلی۔
آج اس ملک میں جو کچھ بھی ہے ، وہ پاک فوج کی قربانیوں کے باعث ہے، لیکن ہمیں تو دینی مدارس کی طرح پاک فوج پر بھی فقط تنقید کرنا ہی سکھایا گیا ہے۔ چنانچہ ہمارے میڈیا نے بھی تیمر گراہ کے ان شہدا کے بجائے کرپشن نواز ریلی کو ہی بھرپورکوریج دی ۔
اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاون کوہی لیجئے، بے گناہ افراد کو شہید کرنا ایک جرم ہے لیکن اس جرم کے خلاف بغیر احتجاج کے ایف آئی آر کا درج نہ ہونا بالکل سیاسی انتہا پسندی ہے لیکن کسی نے بھی اسے انتہا پسندی نہیں کہا۔
فرض کریں، سانحہ ماڈل ٹاون کا یہی واقعہ اگر کسی دینی مدرسے سے منسوب ہوتا تو کیا اسے انتہا پسندی نہ کہا جاتا!؟
یہ پاکستان کے دیندار حلقوں اور باشعور علمائے کرام کی زمہ داری ہے کہ وہ نام نہاد سیاستدانوں کے آلہ کار بننے ، ان سے اتحاد کرنے اور انہیں گلے لگانے کے بجائے اپنے دینی حلقوں کی طرف محبت اور اخوت کا ہاتھ بڑھائیں اور معاشرے میں سیاسی آلودگیوں سے پاک ایک دینی و سیاسی کلچر متعارف کروائیں۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پشین اسٹاپ کوئٹہ میں ایف سی اہلکاروں پر خودکش حملے میں فوجیوں اور شہریوں کی قیمتی جانوں کے نقصان پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وطن عزیز کہ جشن آزادی سے ۲ روز قبل بم دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے،انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں جو کسی رعایت کے مستحق نہیں،دہشت گرد طاقتیں بلوچستان کو عدم استحکام کا نشانہ بنا کر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، قوم و ملک کے دشمن کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
انہوں نے کہاکہ کوئٹہ میں کالعدم مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں، جوکبھی ہزارہ شیعہ شہریوں اور کبھی سکیورٹی فورسز کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہیں،بھارت اور ملک دشمن قوتوں پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کے لیے کالعدم جماعتوں کو استعمال کر رہے ہیں،سیکورٹی فورسز پر حملے کی یہ بزدلانہ کاروائی ہمارے عزم و حوصلے کو پست نہیں کر سکتی،داعش اور کالعدم تنظیموں کہ خلاف اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں،کوئٹہ میں سانحہ کےوقت وزیراعلی بلوچستان کی لاہور میں نااہل وزیراعظم کے استقبالیہ میں موجودگی افسوسناک ہے،حکمران جماعتی وفاداریاں نبھانے کے بجائے قومی سلامتی واستحکام پر توجہ دیں ۔
علامہ راجہ ناصرعباس نے سانحہ میں شہید ہونے والوں کے غم زدہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ مجلس وحدت مسلمین دکھ کی اس گھڑی میں آپ کے غم میں برابر کی شریک ہے، اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم ملت تشیع سے زیادہ بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا جس نے بیک وقت سو سو عزیزوں کے جنازے اٹھائے لیکن کبھی وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کا سودا نہیں کیا، انہوں نے شہداء کی بلندی درجات اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتا نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی شروع سے ہی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔
اللہ تعالی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اورالہی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اوراس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منی میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں ہزار ہا رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حثیت و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیہم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتا اللہ تعالی کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعہ قرب الہی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر غیر سلی ہوئی کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام مین اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارات ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ آک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔
حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے،حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میںسے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاء ُ عَلی الکُفّارِ رُحَمَاء ُ بَيْنَہُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔
متعصب آل سعود کی نالائقی سے پیش آنے والے منٰی کے ہولناک سانحے کو تقریبا دو سال کا عرصہ ہو رہا ہے جس میں کئی ہزار افراد عید قربان کے دن، احرام کے لباس میں، شدید دھوپ میں، تشنہ لب اور مظلومیت کے عالم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ مسجد الحرام میں بھی کچھ لوگ عبادت، طواف اور نماز کے عالم میں خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے۔ سعودی متعصب حکام دونوں سانحوں میں قصوروار ہیں۔ زخمی حجاج کو، جن کے مشتاق قلوب اور فریفتہ وجود عید قربان کے دن ذکر اللہ اور آیات الہیہ کے ترنم میں ڈوبے ہوئے تھے، بچانے میں کوتاہی کی گئی۔ قسی القلب اور مجرم سعودی افراد نے زخمی حجاج کو شہید حجاج کے ساتھ بند کنٹینروں میں محبوس کئےیہاں تک کہ ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کے چند قطرے پہنچانے کے بجائے انھیں موت کے منہ میں پہنچا دئے۔ آل سعود کی ناہلی اورنالائقی کی وجہ سے مختلف اسلامی ممالک کے بہترین افراد،نخبگان، ڈاکٹرز، وکلاء،دانشمند، قاری قرآن، علماءاور پروفیسرز سر زمین منی میں تڑپتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔
فتنہ انگیز آل سعودنے اسلام سے خیانت کرتے ہوئے شیطان صفت تکفیری گروہوں کوتشکیل دے کراور انھیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر کےبے گناہوں مسلمانوں کاقتل عام کیا ہے ۔ یمن، عراق، شام اور لیبیا اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔ یمن کے مظلوم مسلمانوں کو حج جیسی عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ حجاج کرام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے دعا کریں کیونکہ مسلمان ایک خدا ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والے ہیں اور ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے بھی دعا کریں۔
تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین صوبہ جنوبی پنجاب کے سیکریٹری امور سیاسیات انجینئرمہر سخاوت علی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نااہل اور ظالم وزیراعظم نوازشریف اپنی نااہلی چھپانے کیلئے عوام کو پاکستان کے اعلیٰ اداروں کے خلاف محاز آرائی کیلئے اکسارہے ہیں جو کہ پاکستان میں انتشار کی وجہ بنے گا ۔ ظالم اپنے ظلم چھپانے کیلئے مظلوم کا روپ دھار کر پاکستان کی عوام کو دھوکہ دینا چاہتا ہے ۔ مگر پاکستانی عوام اس مکار کی مکاری اور فنکاری سے خوب آگاہ ہیں اس لیے جی ٹی روڈ پر فلاپ شو کے بعد اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ اس کا پروٹوکول معصوم لوگوں کو کچلتا ہوا تیزی سے گزر رہا ہے ۔ لالہ موسیٰ میں ننھے معصوم حامد کو کچلنے کی مزمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی FIR نوازشریف کے خلاف کاٹی جائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ علاقوں میں جنگ لے جانے کی حکمت عملی
اس منصوبے کو اس طرح آگے بڑھایا جائے گا:
۱۔ بعثی لیڈرز اور متشدد سنی گروہوں (القاعدہ، داعش) کے درمیان مختلف نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ حکومت کے حصول کے علاوہ شیعوں کی مخالفت پر یہ سب گروہ آپس میں متفق ہیں۔
۲۔ اس معرکے کے لیے دو سال سے تیاری جاری ہے۔ جنگ کو عراق کے وسطی اور جنوبی علاقے تک لے جانا ہے۔ اس سے "معرکہ کبری" کا نام دیا جائے گا اور اس کے دو مرحلے ہوں گے۔ پہلے مرحلے کو "صرخۃ الحق" اور دوسرے کو "صرخۃ الامام " کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ بڑی بڑی عراقی لیڈر شپ اس وقت سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دورے کر رہی ہیں اور یہ لیڈرز ان ممالک سے غیر محدود امداد وصول کر رہے ہیں۔
۴۔ حالیہ دنوں میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں جو مظاہرے اور احتجاجات دکھائی دئیے وہ کسی خاص مطالبے کی خاطر نہیں تھے، بلکہ پری پلانڈ تحرک تھا۔ یہ انہی حالات کے مشابہ ہے جب داعش کے قبضے سے پہلے بڑے لیول پر مظاہرے ہوئے تھے جو عراق کے ایک تہائی علاقوں تک پھیل گئے تھے۔ لیکن طریقہ کار مختلف تھا۔
۵۔ یہ مظاہرے وسطی اور جنوبی علاقوں تک محدود رہیں گے۔ مقصد لوگوں کو موجودہ حکومت سے متنفر کرنا ہے تاکہ دھرنوں تک کی نوبت آئے اور پھر حالات خرابی کی طرف نکلیں۔ اس مرحلے کو معرکہ کبری کا نام دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزارت دفاع مختلف عناصر کی علیحدگی شروع ہوگی۔
۶۔ جو منصوبہ بنایا گیا ہے اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ داعش کو اس کے تمام عناصر (عربی، عراقی، اجنبی) وادی حوران میں منتقل کیا جائے گا ، اور پھر جنگ کو وسطی اور جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔
۷۔ مظاہروں اور دھرنوں کے بعد والے مرحلے میں حالات کو اچانک خراب کیا جائے گا۔ ایک ساتھ چار مختلف صوبوں میں جنگ چھڑ جائے گی۔نخیب اور بابل کے شمالی علاقے سے داعش، حلہ اور کربلا میں داخل ہوگی ۔ وزارت دفاع فورا بغداد کی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود لے گی اور پھر بڑی آسانی کے ساتھ بغیر جنگ کے بغداد کو ان کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خفیہ پلان بھی موجود ہے جس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ان سب کے علاوہ قوی امکان ہے آنے والے دنوں میں داعش کا نام تبدیل کیا جائے گا۔ ترکی سے مختلف خفیہ راستوں سے متعدد علاقوں میں اسلحے کی منتقلی جاری ہے جن میں اسمگلنک کے سمندری راستے بھی شامل ہیں۔
معلومات بتا رہی ہیں کہ ترکی میں مختلف ٹریننگ سنٹرز ہیں جہاں سے منحرف جماعتوں کو جن میں "صرخیہ" "یمانیہ" اور "جند السماء" جیسی تنظیمیں شامل ہیں ، کو ٹریننگ دینے کے بعد جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہدف ان کا دینی اور سیاسی لیڈرز کو ٹارگٹ کرنا اور مظاہرات ، احتجاجات کے ذریعے سڑکوں کو مشغول رکھنا اور اپنےاہداف کا حصول ہے۔
جو لیڈرز اس فائل کودیکھ رہے ہیں:
۱۔ جنرل زیاد عجلی، جن کو زیاد موسوی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی کی دھائی میں پہلے بصرہ میں اور پھر عمارہ میں سیکیورٹی آفیسر تھے۔ان علاقوں میں اس کے وسیع تعلقات ہیں۔
۲۔ محمد رجب حدوشی۔ حسین کامل کا معاون ہے اور اس کے بعد دوسرے درجے کا اہم شخص ہے۔
۳۔ احمد رشید
۴۔جنرل فاضل حیالی
۵۔ ابو محمد عربی۔ قطر کی ایجنسی کا بندہ ہے۔
۶۔ جنرل عیال۔ صدام کے دور کا سابق آفیسراور اس کا گارڈ۔
۷۔ سعودی عرب اور ترکی کے چند دیگر بڑے اہلکار۔
اس پلان میں ہے کہ (جنوہ، تل ابیض، درنہ، یلوہ، اسبارکہ) کے علاقوں میں دہشت گردی کے کیمپ بنانا۔
حملے والے دن کو "صرخۃ الحق" یعنی حق کی چیخ کا نام دیا ہے۔
بصرہ اور ناصریہ کے علاقے کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ (انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔)
ترجمہ وترتیب۔۔۔سید عباس حسینی