وحدت نیوز( آرٹیکل) خامس آل عبا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور مصیبت اس قدر عظیم تھی کہ گریہ و زاری آپ کے نام سے ملی ہوئی تھی اورجس طرح حریت،شجاعت، غیرت، دفاع از دین وغیرہ، امام حسین علیہ السلام کے نام سے ملی ہوئی ہیں۔اس دلخراش حادثے نے نہ صرف اہل اسلام کو متاثر کیا بلکہ عرشیان اورساکنان آسمان کے لئے یہ حادثہ سنگین ترہوا۔[ و جلت و عظمت المصیبۃبک علینا و علی جمیع اہل السلام و جلت و عظمت المصیبۃ بک علینا و علی جمیع اہل السموات]
تاریخچہ عزاداری مظلومیت امام حسین علیہ السلام کوہم تین حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک پرقسم مختصرروشنی ڈالیں گے۔
1۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے قبل ان کے لئے عزاداری:
روایت میں ہے کہ انبیاء الہی امام علیہ السلام کی ولادت سے کئی ہزار سال پہلے جب ماجرائے کربلا سے باخبر ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ کیا۔روایت میں ہے کہ جب جبرئیل[ع]حضرت آدم علیہ السلام کو توبہ کرنے کے لئے کلمات کی تعلیم دے رہے تھے اور جب انہوں نے خداوند متعال کو پانچ مقدس اسماء سے پکارا،اور جب نام امام حسین علیہ السلام پر پہنچے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہو گئی ۔
جناب آدم [ع]جبرئیل سے پوچھتے ہیں کہ میں جب پانچویں شخصیت پر پہنچاتونہیں معلوم کیوں ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی اور آنسو جاری ہوگئے ؟جبرئیل[ع] کہتے ہیں اس شخصیت پر ایک عظیم مصیبت آئے گی کہ تمام مشکلات و مصائب اس مصیبت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں ۔انہیں غریبانہ بالب تشنہ بغیریارو مدد گار شھید کر دیا جائے گا ۔جبرئیل امام حسین علیہ السلام اور انکے خاندان پرڈھائے جانے والے مصا ئب حضرت آدم علیہ السلام کو بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ جبرئیل [ع] وآدم [ع] مثل مادر[فرزند مردہ]ان پر روتے ہیں {فبکی آدم و جبرئیل بکاء الثکلی }اور جب خداوند متعال نے حضرت موسی[ع] کے لئے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شھادت اور اہل حرم کی اسیری اور سر شھداء کا مختلف شھروں میں پھیرانے کی خبرسنائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی گریہ و زاری کیا ۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی جب جبرئیل[ع] سے پانچ مقدس شخصیات کے نام سیکھ لئے اور جب امام حسین علیہ السلام کا اسم مبارک انکی زبان سے جاری ہوا تو ایک عجیب سی حالت ان پر طاری ہو گئی اور اشک جاری ہوئے۔خداوند متعال سے عرض کی خداوندا! کیوں جب ان چہار مقدس شخصیات کے نام لیتا ہوں توغم و اندوہ مجھ سے ختم ہو جاتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام کا نام میری زبان پر جاری ہوتا ہے تو آنسو جاری ہو جا تے ہیں؟خداوند متعال نے مصائب امام حسین علیہ السلام میں سے بعض مصائب حضرت زکریا علیہ السلام کو سنائے اور جب حضرت زکریا علیہ السلام ان مصائب سے آگاہ ہوئے تو تین دن تک مسجد سے باہر نہیں آئے اور لوگوں سے بھی ملاقات نہیں کی اور ان تمام مدت میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ و زاری کی۔
روایت میں منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جب حضرت عیسی علیہ السلام ا پنے حواریوں کے ساتھ کربلا کی سر زمین سے گزرے تو گریہ کرنا شروع کردیا ۔حواریین نے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ گریہ شروع کردیا اور جب حواریین نے حضرت عیسی علیہ السلام سے گریہ کی وجہ پوچھی تو حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : اس سر زمین پر پیامبر اسلام [ص]اور فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا کا فرزند قتل کیا جائیگا۔
2۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر انکی ولادت کے بعد عزاداری:
امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام علی علیہ السلام اور حضرت زھراء[س] جب انکی مظلومیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی ۔
رسول خدا [ص]کا گریہ:
روایت میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زھراء[س]کےگھر تشریف لے گئے اور اسماء سے فرمایا: میرے بیٹے کو لے آو۔اسماء نے امام حسین علیہ السلام کو ایک سفید کپڑے میں ملبوس کر کے رسول خدا[ص]کو دیا ۔پیغمبر اکرم [ص] نے امام حسین علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور انہیں آغوش میں لے کر گریہ کیا ۔ اسماءنقل کرتی ہیں جب میں نے حضرت[ص] سےپوچھا کہ میرے ماں باپ آپ[ص] پر فدا ہو جائیں آپ کیوں گریہ کر رہےہیں ؟آپ[ص] نے فرمایا: اس فرزند کی خاطر رو رہا ہوں ۔اسماء کہتی ہیں یہ فرزند تو ابھی ابھی متولد ہوا ہے اس پر آپ [ص]کو خوشحال ہونا چاہیے ۔آپ[ص] نے فرمایا [ تقتلہ الفئتہ الباغیتہ من بعدی لا انا لھم اللہ شفاعتی] میرے بعد ان کو ایک گروہ ستم کار شھید کرے گا کہ ہرگز خداوند متعال انہیں میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔ اسکے بعد آپ[ص] نے فرمایا [یا اسماء لا تخبری فاطمۃ بھذا فانھا قریبتہ عھد بولادتہ]اے اسماء فاطمہ [س]کو اس سے آگاہ نہیں کرنا چونکہ وہ ابھی تازہ اس بچے کی ماں بنی ہے ۔
امام علی علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ:
ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ میں اورامیر المومنین علی علیہ السلام صفین جاتے وقت ساتھ تھے اور جب نینوا کے مقام پر پہنچے تو بلند آواز میں مجھ سے فرمایا : اے ابن عباس اس مکان کو پہچانتے ہو ؟ میں نے عرض کی میں نہیں جانتا ہوں ۔فرمایا :اے ابن عباس جس طرح میں اس سر زمین کو جانتاہوں اسی طرح تم اسکے بارے میں جانتے تو حتما میری طرح گریہ کرتے ہوئے اس سر زمین سے گزرتے۔ اسکے بعد امام علیہ السلام کافی دیر تک گریہ کرتے رہے یہاں تک آنسو آپکی محاسن سے سینہ مبارک کی طرف سرازیر ہوگئے ۔میں بھی امام علیہ السلام کے ساتھ گریہ کرنے لگا امام[ع] نے اسی حالت میں فرمایا وای ،وای ابوسفیان کو مجھ سے کیا کام ؟مجھے آل حرب سے کیا کام؟یہ لوگ حزب شیطان اور اولیائے کفر ہیں ۔اے ابا عبد اللہ صبر کرو چونکہ آپکے والد کو بھی اسی گروہ سے وہی ظلم و ستم پہنچے گے جس طرح تمھیں پہنچے گے۔[اوہ اوہ مالی و لآل سفیان؟ مالی و لآل حرب حزب الشیطان؟ و اولیاء الکفر؟صبرا یا ابا عبد اللہ فقد لقی ابوک مثل الذی تلقی منھم]
گریہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شھادت امام حسین علیہ السلام اور انکے مصائب کی خبر اپنی بیٹی کو سنائی تو حضرت زھراء [س] نے سخت گریہ کیا اور اسکے بعد اپنے والد سے پوچھتی ہیں کہ یہ ماجرا کس زمانے میں واقع ہوگا ؟ رسول خدا [ص]نے فرمایا : یہ حادثہ اس زمانے میں رونما ہو گا جب نہ میں اس دنیا میں ہونگا اور نہ تم اور نہ علی اس دنیا میں ہو نگے ۔جب یہ سنا تو حضرت فاطمہ[س] شدید گریہ کرنے لگیں اسکے بعد رسول خدا[ص]نے انہیں امت کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کے لئے عزاداری کی خبر دی اور اس گریہ و زاری کی جزاء بھی بیان فرمائی۔
3۔ امام حسین علیہ السلام پر ان کی شہادت کے بعد عزاداری:
آخر کار ابتدائے خلقت میں اولیاء الھی کو جس دلخراش و دلسوزناک واقعے کی اطلاع دی گئی تھی وہ61ہجری کو سر زمین کربلا پر واقع ہوا ۔وہ حادثہ جو واقع ہو نے سے پہلے ہی اشکوں کو جاری کر دیتا تھا دسویں محرم 61ہجری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مومنین کے دلوں میں آگ کی طرح حرارت وجود میں لے کر آیا جو قیامت تک خاموش نہیں ہوگی۔اس قدر یہ حادثہ المناک تھا کہ روز عاشورا کو روز عزاداری و سوگواری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور رہیگا چونکہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:[ ان القتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا] یقینا امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت بھر دی ہے جو کبھی بھی خاموش نہیں ہوگی ۔9
جب اہل حرم کی نظر شہداء کے جسموں پر پڑی تو فریاد کرنے لگے اس وقت زینب بنت علی[س] بھی فریاد کرنی لگی۔]وا محمداہ صلی علیک ملیک السماء ھذا حسین مرمل بالدماء مقطع الا عظاء و بناتک سبایا [اے پیغمبر ،درود خدا ہو آپ[ص] پر :یہ آپ کا فرزند حسین[ع] ہے جو اپنے خون میں غلطان ہے اور انکے جسم کو قطعہ قطعہ کیا گیا ہے اور یہ آپ[ص]کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہو چکی ہیں ۔ زینب بنت علی[س] نے جب گریہ شروع کیا تو منقول ہے کہ [فابکت واللہ کل عدو و صدیق]خدا کی قسم دوست و دشمن سب گریہ کرنے پر مجبور ہوئے اور سب نے گریہ کیا۔
اسیروں کے کاروان کو کوفہ و شام لے جانے کے بعد امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب[س] کے خطبوں نے شہر دمشق میں ہلچل مچا دی ، یہاں تک کہ یزید کے محل میں ہی مراسم عزاداری برپا ہوئی اور اموی خاندان کی عورتوں نے بھی مراسم میں شرکت کی اور یہ برنامہ تین تک دن جاری رہا ۔[فخرجن حتی دخلن دار یزید فلم تبق من آل معاویہ امراۃ الا استقبلھن تبکی و تنوح علی الحسین فا قاموا علیہ المناحۃ ثلاثا]
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں:
امام حسین علیہ السلام کی عزادری امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کےزمانے میں بھی منعقد ہوا کرتی تھی ۔کمیت اسدی امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں شھداء کربلا پر مرثیہ سرائی کرتےیہاں تک امام علیہ السلام کے آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔امام صادق علیہ السلام ابو ہارون مکفوف سے امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کے لئے فرمایا: اور ابو ہارون مرثیہ خوانی شروع کی۔
امرر علی جدث الحسین
فقل لا عظمہ الزکیتہ
امام[ع] کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں آخر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں[یا ابا ہارون من آنشد فی الحسین فابکی عشرۃ فلہ الجنۃ]اے ابا ہارون جو کوئی امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کرے گا اور دس افراد کو رلائے گا اس کی جزا جنت ہے ۔امام رضا علیہ السلام نے دعبل خزاعی سے فرمایا: اے دعبل ایام عاشورا ہمارے لئے بہت غمگین و اندوھناک ہیں لذا اسی مناسبت سے چند اشعار پڑھو ۔
دعبل نے مرثیہ خوانی شروع کی اور امام[ع] نے اپنے جد بزرگوار پرگریہ کیا ۔
غم امام حسین علیہ السلام میں نہ صرف انسان بلکہ فرشتے اور آسمان والوں نے بھی گریہ و زاری کیا ۔٦١ ہجری سے آج تک غم حسین علیہ السلام میں آنسو بہائے جا رہے ہیں اور ہر سال یہ مراسم پر رونق تر ہو رہیں ہیں اس لئے کہ حسین علیہ السلام نے درس بندگی اور درس آزادی دیا ۔آج جسے بھی امام حسین علیہ السلام کی ذرہ برابر معرفت ہو وہ بھی اس عظیم کاروان میں شامل ہو جاتا ہے جس کاروان کا امیر رسول خدا [ص]،علی مرتضی[ع] ،زھرامرضیہ [س]حسن مجتبی[ع] اور باقی ائمہ علیھم السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام ہیں جو فرماتے ہیں :[فلا ندبنک صباحا و مساء و لا بکین علیک بدل الدموع دما حسرۃ علیک و تا سفا و تحسرا علی ما دھاک و تلھفا حتی اموت بلوعۃ العصاب و غصۃالاکتیاب]
یعنی اے میرے جد مظلوم و غریب !اس قدر تجھ پر صبح و شام گریہ کروں گا اور اس قدر رووں گا کہ آنسووں کے بدلے آنکھوں سے خون رواں ہو گا ۔ایسا رونا جس کی بنیاد تجھ پر حسرت و افسوس ، غم و اندوہ اور جگر سوز ہے۔اس المناک اور دردناک عظیم سانحہ کی وجہ سے جو تیرے ساتھ پیش آیا۔یہاں تک کہ تیری اس جگر سوز اور اندوہناک مصائب کی وجہ سے قریب ہے کہ میری روح پرواز کر جائے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
منابع:
١۔زیارت عاشورا
٢۔بحارالانوار،ج٤٤،ص٢٤٥
٣۔معالی السبطین،ج١ص١٨٦
٤۔احتجاج طبرسی،ج٢،ص٥٢٩
٥۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٣
٦۔بحار الانوار،ج٤٣،ص٢٣٩
٧۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٢
٨۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٩٢
٩۔مستدرک الوسائل ،ج١٠ص ٣١٨
١٠۔بحارالانوار،ج٤٥،ص٨١کامل بن اثیر ، ج ٤ ،ص٨١
١١۔تاریخ طبری،ج٤٥ص١٤٢
١٢۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٨٧
١٣۔زیارات ناحیہ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت جب ہم لوگ اربعین امام حسین ؑ کے پروگرام فائنل کرنے میں مصروف ہیں ،کسی نے کربلا جانا ہے اور کسی کو اپنے ہاں مجلس ،جلوس،نیاز،ماتم داری کا اہتمام کرنا ہے،کوئی جلوسوں کو پر امن بنانے کیلئے سیکیورٹی معاملات کو آخری شکل دے رہا ہے،ہماری قوم پر ایک شدید وار پنجاب کے حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا ہے،،گذشتہ شب یہ خبر ملی کہ مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جو ایک وکیل اور سابق طالبعلم رہنما کے طور پہ بھی جانے جاتے ہیں کو کالے ڈبل کیبن والی پارٹی نے زبردستی ان کے گھر کی نزدیکی مارکیٹ سے اس وقت اغوا کیا ہے جب ان کی فیملی اور گارڈ بھی ہمراہ تھے،یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی اور اس پر رد عمل آنا شروع ہوا،ظاہر ہے مجلس وحدت جو اس وقت اہل تشیع کا سب سے فعال اور مربوط قومی پلیٹ فارم ہے جس کی فعال ترین شخصیت کو بے جرم و خطا انتہائی بھونڈے ا نداز میں اٹھالیا جانا کسی بھی طور مناسب نہیں بلکہ ایسے اشتعال انگیز اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے ذمہ داروں کو کورٹ میں لایا جانا چاہیئے، سید ناصر عباس شیرازی کوئی عام کارکن یا معمولی فرد نہیں وہ ایک تاریخ ہے جس نے زمانہ اسکول سے شیعہ قومیات میں حصہ لینا شروع کیا اور یونیورسٹی کے زمانہ میں پورے پاکستان کے طلبا کی قیادت کی،جبکہ موجودہ قومی پلیٹ فارم تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا،حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے ان کا تعلق پنجاب سے ہو یا مرکز سے،ہماری خفیہ ایجنسیاں ان کا تعلق فیڈرل سے ہو یا صوبے یہ توقع نہیں رکھتی تھیں کہ شیعہ قوم ایک بار پھر ابھر آئے گی اور اپنے مسائل کے حل اور ایشوز منوانے کیلئے سٹریٹ پاور کی سیاست کر سکے گی،جب مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں آیا تو اس قومی پلیٹ فارم نے عوامی ترجمانی کا حق ادا کیا،اور اپنی بھرپور فعالیت سے ڈیرہ اسماعیل خان،پاراچنار،ہنگو،کوئٹہ،اور ملک کے دیگر ان علاقوں جہاں شیعیان حیدر کرار ؑ کا قتل بے دریغ اورآئے روز کی مشق بن چکا تھا ان علاقوں کے یوتھ کو فعال بنانے میں ایک کردار ادا کیا۔مجوروں اور مظلوموں کی آواز کو اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچایا۔بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا،امیدیوں کے بادلوں کو امید میں تبدیل کیا،علما ء سے فرار کر جانے والے قوم کے نوجوانوں کو ایک بار پھر علما ء پر اعتماد کی صورت میں مجتمع کیا،ملت کی دبا دی گئی آواز کو ایک طاقت می تبدیل کیا،اسی طاقت نے دینی و مکتبی اجتماعات کیساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر بھی اپنے لوہے کو منوایا،اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے پہلی بار بھرپور روبط قائم ہوئے اور قومی وزن محسوس کیا جانے لگا،وہ لوگ جو اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے ایک بار پھر اپنے آبائی علاقوں میں واپس لوٹ آئے اور ان کا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال ہوا،قوم نے مجلس وحدت مسلمین کی شکل میں اپنے مسائل کا حل سمجھا تو قائدین کو بھی اعتماد ملااور انہیں بڑے فیصلے کرنے کی ہمت بڑھی اسی حوالے سے ہم نے دیکھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے سولہ برس کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا،یہ اجتماع اگرچہ سخت گرمی میں منعقد ہوا مگر قوم اور قائدین کو داد دینا پڑے گی کہ دونوں طرف سے بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کیاگیا،اور علماء ،ذاکرین،عمائدین،اور عوام نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ دشمن کے منہ کھلے رہ گئے،ایجنسیوں اور سازشیوں کی انگلیاں دانتوں تلے دبی ہوئی دیکھی گئیں،اور پھر ہم نے دیکھا کہ سازشیں شروع ہو گئیں،کہ کسی بھی طرح یہ قوم اکٹھی نا ہو،منظم نا ہوسکے اور پاکستان میں ایکبھرپور قومی کردار ادا نہ کر سکے،اسی دوران یمن پر سعودیہ نے حملہ کیا،عراق و شام میں دولت اسلامیہ کے نام سے عالمی دہشت گردوں کا ٹولہ سامنے آیا اور اسلام کی ایک انتہائی مکروہ شبیہ پیش کی،جسے عالمی استعمار کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل رہی،پاکستان کے نوجوانوں میں بھی عراق و شام کے جہادی جذبوں کے اثرات مرتب ہوئے،مزارات آئمہ کے تحفظ کے عنوان سے مجلس وحدت مسلمین نے بھرپور تحریک چلائی اور ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے عملی آمادگی کا اظہار کیا۔
ہمارے ملک میں عجیب طریقہ رائج ہے کہ ملک کے سیکورٹی اداروں کو ناکوں چنے چبوانے والے دہشت گردوں کو تو کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ان سے تو مزاکرات کا دور چلایا جا سکتا ہے مگر اہل تشیع پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا،یہ بعض انتہائی موثر لوگوں کی ایک ایسی پالیسی ہے جو ضیا ء کے دور سے چلی آ رہی ہے،اور اس کا خمیازہ ہم ہمیشہ بھگتتے چلے آ رہے ہیں،اسی پالیسی کے نتیجہ میں ایک بار پھر ہمیں توڑنے کی سازشیں ہوئیں،اور ایک منظم قومی پلیٹ فارم کو مختلف قسم کے الزامات کے تحت مشکلات کا سامنا کرنا پرا حتی یہ کہ اگر کسی ایریا میں ایک بندے نے ذمہ داری کا حلف اٹھایا تو دوسرے دن اسے استعفے دینا پڑا یعنی اسے اس قدر ڈرایا گیا کہ وہ بیچارہ اپنی جان بچانے کیلئے سائیڈ پہ ہو گیا،چنیوٹ،جھنگ،کوئٹہ،پشاور،اسلام آباد،فیصل آباد،خانیوال،ملتان،وہاڑی،سکردو،گلگت،راولپنڈی،اور ملک کے اکثر اضلاع میں سی ٹی ڈی کے نام پہ لوگوں کو ڈرایا گیا،انہیں تھانوں کے چکر لگوا کے زدوکوب کیا گیا،ان کے خلاف پرچے کاٹے گئے،انہیں تنگ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب مجلس عہدیداران اور ہمدردوں کو نشانہ بناتے ہوئے جبری طور پہ غائب کیا جانے لگا،اس وقت بھی مجلس کے کئی ذمہ دار اور ہمدرد جبری طور پہ غائب ہیں،ان میں علما کی کی بھی تعداد ہے اور کارکنان بھی شامل ہیں۔
قارئین! آپ آگاہ ہیں کہ انہی جبری غائب کردہ افراد قوم کی رہائی کیلئے کئی ہفتوں سے کراچی سے ایک تحریک اٹھی ۔جسے مجلس وحدت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی لیڈ کر رہے ہیں ،علامہ احمد اقبال رضوی اور اسیران کے ورثا بھی اس تحریک کے تحت گرفتاریاں پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔یہ تحریک ابھی چل رہی تھی اور دنیا کی توجہ حاصل کر رہی تھی کہ گزشتہ رات برادر ناصر عباس شیرازی کو جبری طور پہ اغوا کر کے غائب کر دیا گیاہے،یہ وقوعہ صوبائی دارالحکومت میں پیش آیا ہے جس کے گواہ برادر ناصر شیرازی کی فیملی اور سرکاری گارڈ بھی ہیں ،برادر موصوف کاا س انداز میں اٹھایا جانا موجودہ حکمرانوں کا ایک متجاوز اقدام ہے جس سے ملت تشیع کے قلوب میں نون لیگی حکومت اور اس کے متعصب قائدین کیلئے نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے ،نون لیگ کی متعصبانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کرپٹ و نااہل حکمرانوں کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا جائے گا،برادر ناصر عباس شیرازی چونکہ مرکزی سیاسی سیکرٹری بھی رہے ہیں اور ان کے روابط دیگر سیاسی جماعتوں سے بھرپور ہیں اور انہوں نے موجودہ متعصب وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے خلاف ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے لہذا ان کی شخصیت سے خوف زدہ یہ حکمران اپنے اختیارات اور اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طرح کے بھونڈے اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ اب نون لیگی چراغوں میں روشنی باقی نہیں رہی ،یہ بجھا ہی چاہتے ہیں،عوام ان کو اس ملک اور اقتدار سے اٹھا کر باہر پھین دیں گے اور کرپشن کی سزا دینگے،رہا سوال برادر ناصر شیرازی کے جبری غائب کیئے جانے کا تو یہ سلسلہ ہمارے لیئے نیا نہیں،یہ چودہ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے،ہم محبت علی کا خراج ادا کرتے آ رہے ہیں اور کرتے رہینگے ،ہمیں کسی قسم کی گھبراہٹ یا پچھتاوا نہیں ہوتا،ہم اپنے ہدف کے حصول تک چراغ سے چراغ جلاتے رہینگے تاوقتیکہ حضرت حجت فرزند اباعبد الللہ الحسین ؑ پردہ غیبت سے ظاہر نہیں ہو جاتے اور مظلوموں اور مجبوروں کے ہاتھ میں اقتدار کا علم نہیں تھما دیتے،برادر ناصر عباس شیرازی کی گرفتاری اور جدوجہد اسی راہ اور راستے میں آنے والی مشکلات و مصائب کا حصہ ہیں وہ ہم سب سے زیادہ باہمت ہیں اور اس کا ادراک انہیں اٹھانے والوں کو بھی باخوبی ہو گیا ہو گا،مولا کریم ان کی حفاظت فرمائے،اور وہ ابا عبداللہ الحسین ؑ کے اربعین کیلئے انہیں سلام پیش کرنے کربلا میں نظر آئیں۔۔۔انشا اللہ
از۔۔۔۔ علی ناصر الحسینی
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے سوشل میڈیا ذرائع پر جاری اپنے ایک آڈیو پیغام میں ملت جعفریہ سے اپیل کی ہے کہ وہ چہلم امام حسین ؑ کے موقع پر ملک بھر سے جبری طور پر گمشدہ عزاداروں بالخصوص ایم ڈبلیوایم کےمرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ کے پنجاب حکومت کے ہاتھوں اغواءکے خلاف مجالس عزاء اور مرکزی جلوس ہائے عزا میں بھرپور اور موثرصدائے احتجاج بلند کریں،انہوں نے اربعین حسینی ؑ کے موقع پر نجف ، کربلا، سامرہ ، کاظمین، قم ومشہد میں موجود زائرین سے بھی گذارش کی ہے کہ وہ مقامات مقدسہ پر پاکستان کے طول وعرض سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ تمام عزاداروں خصوصاً مظلوموں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف شیعہ سنی اتحاد کے داعی اور مادر وطن کے باوفا بیٹے سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ کی صحت وسلامتی اور فوری بازیابی کیلئے خصوصی دعائیں کریں ۔
وحدت نیوز(لاہور) لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد امین کی پولیس کو مجلس وحدت مسلمین کے لاپتہ رہنما سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ کو عدالت میں پیش کرنے کیلئے دو دن کی مہلت،ناصر شیرازی اغواء کیس کی آئندہ سماعت کیلئے بدھ 8نومبر کی تاریخ دے دی، تفصیلات کےمطابق لاہور ہائی کورٹ میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی کی غیر قانونی گرفتاری (اغواء) کے خلاف مغوی کے بھائی کی مدعت میں دائر درخواست کی پہلی سماعت معزز جج لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار نعیم احمد کے چھٹی پر چلے جانے کے باعث کئی گھنٹے تاخیر کے بعد فاضل جج جسٹس محمد امین کی عدالت میں شروع ہوئی ، معزز جج نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ہمیں کسی بھی صورت بندہ عدالت میں حاضر چاہئے،جس پر عدالت میں موجود ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے عدالت سے ایک ہفتے کی مہلت مانگی ، جسٹس محمد امین نے کہا کہ ایک ہفتہ تو بہت ہے آپ کو جمعرات تک کا وقت دیا جاتا ہے، استغاثہ کے وکیل نے عدالت میں اعتراض پیش کیا ہے جمعرات کو چھٹی ہے اور عدالت برخاست رہے گی لہذٰاپولیس کو بدھ تک کی مہلت دی جائے، جس پر فاضل جج نے پولیس حکام کو حکم جاری کیا کے مغوی ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کو آئندہ دو روزبعدیعنی بروز بدھ 8نومبرکو لازمی عدالت میں پیش کیا جائے چاہے کائونٹرٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) سے لیکر آئیں یا کہیں اور سے ۔
واضح رہے کہ ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی کو چند روز قبل واپڈا ٹاون لاہور سے ان کے اہل خانہ کے ہمراہ سادہ لباس سکیورٹی اہلکاروں نے بغیر وارنٹ اغواء کیا تھا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا ،ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کہ اغواء کہ خلاف انکے بھائی نے شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کہ خلاف اغواء کی درخواست بھی مقامی تھانے میں جمع کرائی تھی لیکن اس پہ تاحال عملدرآمد نہ ہوسکا جسکے بعد انکے اہل خانہ کی طرف سے جمعرات کو ہائی کورٹ میں اغواء کہ خلاف پٹیشن جمع کرائی تھی ۔ پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے معزز جج لاہور ھائی کورٹ جسٹس سردار نعیم احمد نے CCPO لاہور پولیس کو حکم دیا کہ ہر صورت میں سید ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کو پیر تک رانا ثناء اللہ یا کسی بھی جگہ سے بازیاب کراکے عدالت کہ روبروپیش کیا جائے ۔
وحدت نیوز( اسلام آباد) سابق صدرپاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ کےاغواء کی شدید مذمت کی ہے، انہوں نے کہا کہ ناصر شیرازی کے اغواء میں پنجاب حکومت ملوث ہے، آصف علی زرداری نے ناصر شیرازی کی فوری طور پر بازیابی کا بھی مطالبہ کیا ہے ،پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی میڈیا سیل سے اپنے بیان میں انہوں نے گذشتہ دنوں واپڈا ٹاون لاہور سے سادہ لباس اہلکاروں کے ہاتھوں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ناصر عباس شیرازی ایڈوکیٹ کے اغواءکو غیر جمہوری اقدام قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیاہے، ان کا مذید کہنا تھا کہ ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے شریف برادران کے دعوے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ، حکومت عوام کو مذید دھوکادینے کی کوشش نا کرے ۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹری علامہ مبارک موسوی نے لاہور میں صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت مکمل طور پر ایک استبدادی حکومت کا روپ دھار چکی ہے، منفی ہتھکنڈوں سے ملت تشیع پاکستان کو دبایا نہیں جا سکتا، ہمارے بیگناہ کارکنوں و رہنماؤں کی جبری گمشدگیاں عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں، ہم اپنے آئمہ کرام کی سیرت پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس ظلم و ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز حکومت ہوش کے ناخن لے اور بیرونی ایجنڈے پر عمل کرکے ملک کے اندر بے چینی پھیلانے سے گریز کرے، ہمارے بے گناہ مرکزی رہنما اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی کو جلد از جلد رہا کیا جائے، ورنہ پوری ملت تشیع پاکستان سڑکوں پر ہوگی۔ علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ سید ناصر عباس شیرازی کے اغوا کو 5 روز گزر گئے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی بھی ادارہ یہ ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، کیا اس ملک میں جنگل کا قانون ہے؟ گڈ گورننس کا دعویٰ کرنیوالے حکمرانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، ہمیں معلوم ہے کہ ملت جعفریہ کیخلاف حکومتی سرپرستی میں جاری متعصبانہ اقدامات کا حکم کہاں سے دیا جا رہا ہے، ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ بیرونی ایجنڈے پر ملک کی شیرازہ بندی کو پاش پاش کرنے سے باز رہے اور ملک کو عراق، شام، لیبیا اور یمن جیسے حالات کی طرف نہ دھکیلے، ہم عہد کرتے ہیں کہ ایسی وطن دشمن سازشوں کا منہ توڑ جواب دینگے، حکومت عدالتی حکم کا احترام کرتے ہوئے سید ناصر عباس شیرازی کو عدالت میں پیش کرے۔