وحدت نیوز(اٹلی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ اور دیگر شیعہ لاپتہ افراد کی خلاف قانون اور آئین گرفتاریوں کے خلاف اٹلی میں شنگین ممالک کی فعال قومی شخصیات، مختلف قومی اداروں اور انجمنوں کے عہدیداران کا احتجاجی اجتماع منعقد ہوا، جس سے مجلس وحدت مسلمین یورپ کے سابق سیکریٹری جنرل اور امام جمعہ پیرس علامہ سید انیس الحسنین شیرازی، بریشیاامامیہ اٹلی کے صدر اور ہدایت ٹی وی کے ڈائریکٹر سید سجاد حسین بخاری اور مقامی انجمن کے مسئول توقیر عباس نے خطاب کیا ، اس موقع پرمجلس وحدت مسلمین یونان کے سیکریٹری جنرل علامہ صفدر عباس صفدری سمیت اٹلی میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
احتجاجی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید انیس الحسنین شیرازی نے کہا کہ پنجاب سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے شیعہ جوانوں بلخصوص ایم ڈبلیوایم کے رہنما سید ناصرشیراز ی ایڈوکیٹ کا ماورائے عدالت اغواء غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے، اعلیٰ عدلیہ تمام اسیران ملت جعفریہ کی فوری بازیابی کے لئے اقدامات کریں ، بصورت دیگر قائد وحدت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کے حکم پر یورپ گیر احتجاج کا سلسلہ کیا جائے گا۔
سید سجاد حسین بخاری نے کہاکہ یہاں اٹلی سے ہم حکومت پاکستان اور بلخصوص حکومت پنجاب کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملت جعفریہ کے خلاف ظلم وبربریت کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے، شیعہ جوانوں کی غیر قانونی گرفتاریاں کسی صورت قبول نہیں، اگر کوئی مجرم ہے تو اسے قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے اور سزا دی جائے، پاکستان کے نا اہل حکمران ہمیں کسی راست اقدام پر مجبور ناکریں ۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کراچی کی جانب سے تمام اسیرانِ ملت بلخصوص اسیرِ ملت و فخرِ ملتِ تشیع پاکستان برادر ناصر شیرازی کی جبری گمشدگی و گرفتاری سے جلد از جلد رہائی کے لئے دعائے توسل و مناجات کا اہتمام کیا گیا۔جسمیں مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی مرکزی سیکرٹری جنرل محترمہ زہرہ نقوی نے کراچی کے تمام اضلاع و یونٹس سے شرکت کرنے والی خواہرانِ وحدت کیساتھ ایک خصوصی ملاقات کی اور خطاب کیا، خصوصیت کیساتھ ملتِ تشیع کے جوانوں کی جبری اسیری و گرفتاری بلخصوص برادر ناصر شیرازی کے حوالے سے گفتگو کی اور خواہرانِ وحدت کو آنے والے دنوں میں تحریکِ آزادی برائے اسیرانِ ملت کے لئے ہر طرح سے تیار رہنےاور ہر طرح کی قربانی کےلئے خود کو آمادہ کرنے کی درخواست کی۔اسکے علاوہ آئندہ آنے والے دنوں میں برادر ناصر شیرازی و دیگر تمام اسیرانِ ملت کی جبری گرفتاری کے حوالے سے خواہرانِ وحدت کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیئے گئےاور دیگر تنظیمی امور کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔
آخر میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی کہ جنھوں نے اسیرانِ ملت کیساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے خاص طور پہ خود اپنی گرفتاری پیش کی،مولانا آغا احمد اقبال نے اسیرِ ملت و فخر تشعیو پاکستان برادر ناصر شیرازی اور دیگرِ اسیران کی گرفتاری اور موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں خطاب کیا اور اس تحریک اور اسکے نتائج کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا بھر کا میڈیا جب سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا عین اُسی وقت سعودی خاندان اور ریاست کے اندر انتہائی خفیہ اور پُراسرار طور پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ بحیرہ احمر کے کنارے شرعی قوانین اور صنفی اختلاط کی پابندی سے مبرا ’ریزورٹ منصوبے‘ کا اعلان بھی دنیا کے لیے حیران کن خبر تھی۔
ایک اور سرپرائز سعودی خواتین کو نئے سال کے آغاز پر اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا اعلان تھا۔ اِن سب اقدامات کو سعودی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک آئی واش قرار دے رہے ہیں۔
4 نومبر کی رات، سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے 11 اہم ترین افراد سمیت درجنوں وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔
سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔
اِس کارروائی کو ایران اور اسامہ بن لادن کے مبینہ تعلق کے حوالے سے سی آئی اے کی جاری کردہ تازہ دستاویزات، قطر بحران، لبنان کے تازہ سیاسی دھماکے، امریکا کے سعودی عرب سے گرم جوش ہوتے تعلقات، متحدہ عرب امارات کی خطے میں مرکزی کردار کی خواہش، سعودی عرب میں مصنوعی لبرل ازم، کمزور پڑتی سعودی معیشت جیسے اہم عناصر سے الگ رکھ کر دیکھنا ایک نظری مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔
شاہ سلمان نے پہلے شاہی فرمان میں اپنے جانشینوں کا اعلان کیا۔ شہزادہ مقرن کو ہٹا کر شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد جبکہ اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا اور اُنہیں ’نائب ولی عہد‘ بنادیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیردفاع، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرامکو کے چیئرمین کا عہدہ اِس سے پہلے شاہی خاندان سے ہٹ کر صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی دیا جاتا تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے شراکت اقتدار پاتے ہی پاؤں پھیلائے، یمن جنگ چھیڑی، سعودی عرب کا تیل سے انحصار ختم کرکے ریاست کو صنعت و کاروبار کی طرف لانے کے اعلانات کئے اور ساتھ ہی سفارتی سطح پر رابطے بڑھائے۔
مارچ 2017 میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں لنچ پر ملاقات کی، یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک معتمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ ملاقات امریکا سعودی عرب تعلقات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی۔‘
اِس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر اُٹھی اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار کی کشمکش میں امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِسی ملاقات میں ٹرمپ کا پہلا دورہِ سعودی عرب بھی طے پایا۔ پھر مارچ میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ 21 جون کو سامنے آیا، جب امریکا اور سابق صدر اوباما کے منظورِ نظر سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن نائف کو نہ صرف ولی عہد سے ہٹایا گیا بلکہ ریاست کے تمام عہدوں سے ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا گیا، اور نائب ولی عہد کا فرمائشی عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔
اِس بڑے اور غیر معمولی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب اندرونی کشمکش بڑھ جائے گی جسے روکنے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو برطرف ولی عہد محمد بن نائف کے ہاتھوں کو چومتے دکھایا گیا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں کے درمیان کوئی چپقلش نہیں ہے۔ لیکن اِس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ اطلاعات مستقل آتی رہیں کہ محمد بن نائف نظر بند ہیں اور کوئی اُن سے ملاقات نہیں کرسکتا۔
ولی عہد بنتے ہی محمد بن سلمان نے شاہ سلمان تک اہم افراد کی رسائی بھی محدود کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن کر قطر کے خلاف محاذ کھولا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار کی کشمکش پر جرمن خفیہ ادارہ بی این ڈی نے 2016 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ محمد بن سلمان کی دیگر ریاستوں میں مداخلت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کے ساتھ سعودی ریاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔
سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار تمام افراد اہم ہیں لیکن 2 شہزادوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سب سے پہلے شہزادہ الولید بن طلال، جو شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کے بڑے اور کھلے ناقد ہیں۔ شہزادہ الولید بن طلال، محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں بالخصوص سعودی آرامکو کے حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کے عمل کی شہزادہ ولید نے کھل کر مخالفت کی۔
امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والے شہزادہ ولید نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کو امریکا کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا تھا جس کا جواب ٹرمپ نے ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ شہزادہ ولید باپ کی دولت کے بل پر امریکی سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سے ملاقات ہے، جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے۔ شہزادہ ولید اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے درمیان اُس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ گرفتاریوں کے اعلان سے ایک ہفتہ ہی پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز، بلومبرگ سمیت امریکی میڈیا نے اِن سب عوامل کو بھی شہزادہ ولید کی گرفتاری سے جوڑا ہے۔
اِسی طرح شہزادہ متعب کی گرفتاری بھی اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے کیونکہ شہزادہ متعب کو تخت کے جائز اُمیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شہزادہ متعب سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ اُنہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔
سعودی شہزادوں کی کرپشن کے نام پر گرفتاریوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی سرکاری علماء سے فتویٰ بھی جاری کرایا گیا لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ شاہی خاندان کی دولت اور سرکاری خزانے کے استعمال میں آج تک کوئی فروق روا نہیں رکھا گیا۔ کرپشن کی تعریف ہی متعین نہیں کہ شہزادوں پر کون سا مال حلال ہے اور کون سا حرام؟
جرمن انٹیلی جنس ایجنسی کا انتباہ اپنی جگہ، مگر مئی 2017 میں محمد بن سلمان نے العربیہ ٹی وی اور سعودی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔ اُس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے بارے میں فرقہ وارانہ انداز میں گفتگو کی اور کہا کہ ایران مکہ اور مدینہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر شیعہ نظریات نافذ کرکے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔
ایران کے عزائم پر شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ایک طرف لیکن سعودی عرب خود خطے میں کس طرح کے عزائم رکھتا ہے، اِس کا اندازہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہونے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے ایک عشرے کے لیے 350 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کرکے سعودی عرب نے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی حمایت کی قیمت ادا کی۔ ٹرمپ اِس معاہدے کو اپنے بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں اور کسی قدر وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ صدر اوباما کے دور میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور تناؤ کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر سمجھوتہ تھا جسے اوباما اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو نہ صرف ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے موڈ میں بھی ہیں۔ جس کا واضح اشارہ یکم نومبر کو سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات ہیں، جن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور ایران کے مبینہ تعلقات کا ذکر ہے۔ اِن دستاویزات کے اجراء پر امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی ایران کے خلاف جنگی مہم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بھی اِن دستاویزات کے اجراء کے پیچھے چھپے ارادوں پر تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔
ایرانی اثر و رسوخ کے توڑ کے لیے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت اہم سعودی عہدیداروں نے عراق کے 3 دورے کئے اور اِن دوروں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جون میں ریاض جاکر سعودی شاہ سلمان سے ملاقات بھی خطے میں بنتے نئے اتحادوں کی طرف اہم اشارہ ہے۔ دو دن پہلے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کا سعودی ٹی وی کے ذریعے ویڈیو بیان میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھی خطے میں کشمکش کا نکتہ عروج ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اتنے بڑے منصب سے استعفیٰ کی وجوہات ہمیشہ سیاسی یا ذاتی بتاتا ہے، لیکن سعد الحریری نے لبنان میں حزب اللہ اور ایران کی سرگرمیوں، اپنے قتل کی سازش کو استعفیٰ کی بنیاد بنایا۔ سعد الحریری کا بیان بھی ایران کے لیے ایک چارج شیٹ ہے۔
سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔آصف شاہد(بشکریہ ڈان نیوز)
وحدت نیوز(اسلام آباد) آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد امجد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیوٹر پراپنے ایک پیغام میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سیدناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ کے لاہور سے سادہ لباس سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں اغواء کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، اپنے بیان میں انہوں نے ناصرشیرازی ایڈوکیٹ کے اغواءپر پنجاب حکومت کی خاموشی کو مجرمانہ فعل قرار دیا ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ناصر شیرازی کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے تاکہ ان کے اہل خانہ اور جماعت کے اضطراب کا خاتمہ ہو۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی
وحدت نیوز (آرٹیکل) عرصہ دراز سے پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں نہ صرف مسائل بلکہ ان میں روزبروزاضافہ ہوتا چلا جارہا ہے پاکستانی شیعوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر اُن کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ،کبھی بیلنس پالیسی کے تحت نظربندیاں اوشیڈول، کبھی قتل وغارت گری ، کبھی کافر کافر کے نعرے ، کبھی عزاداری پرحملے، اور کبھی سرکاری سرپرستی میں عزاداری کو بند کرنے کے مکروہ منصوبے ، کبھی بسوں سے اتار کر شناختی کارڈدیکھ کرقتل عام ، کبھی زائرین کو زیارات پر جانے سے روکنے کے حیلے بہانے، کبھی ٹارگٹ کلنگ ، کبھی بم دھماکے، کبھی مذہبی پروگرامز پر انتظامیہ کی طرف سے ڈھیروںFIR's ،کبھی جلوسوں پر پابندی، کبھی مجالس پر پابندی،کبھی سپیکر پر پابندی، کبھی زبان بندی، کبھی چاردیواری کی پابندی اور کبھی چار دیواری کے تقدس کی پامالی اور کبھی متحرک شیعہ تنظیم مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش ،کبھی ہراسمنٹ، کبھی دھونس، اور کبھی مذہبی وسیاسی شیعہ تنظیموں کے کاکنوں کااغواء،کبھی ان پر ملک دشمنی کے مقدمات ، کبھی ان پر دہشت گردی کے مقدمات گو میں یہ کہہ سکتا ہوں کبھی ہماری ماؤں بہنوں کے سہاروں کو قتل کرکے رلایا جا رہا ہے کبھی بے جا مقدمات میں ملوث کرکے کبھی دہشت گرد کہہ کر کبھی اغوا کرکے ماؤں کے کلیجوں میں چھرا گھونپا جارہا ہے اور کبھی سیاسی مخالفین اور کبھی مذہبی مخالفین کے حملے، بے چاری ماؤں کو رلایا جارہا ہے بچوں کو یتیم بنایا جارہا ہے سہاگنوں کے سہاگ لوٹے جارہے ہیں بہنوں سے بھائی چھینے جارہے ہیں اتنا سب ہونے کے بعد میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں شیعہ قوم نے مادروطن پاکستان کے خلاف کبھی کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی آئین پاکستان کو پامال کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ایسی حرکات پر یقین رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود تسلسل سے اس کام کا جاری رہنا ملت جعفریہ کیلئے باعث تشویش تو ہے ہی سوچنے کا بھی مقام ہے کہ آخر کب تک؟؟؟؟؟؟؟
سید ناصرعباس شیرازی ایڈووکیٹ کو گزشتہ دنوں واپڈا ٹاؤن لاہور سے مسلح افراد نے اغوا کرلیا تاحال کوئی اداراہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ،یہاں دوستوں میں بحث چل رہی ہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے لیکن میں اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہ سب ہماری کمزوری کی وجہ سے ہورہا ہے بلکہ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں یہ ہماری طاقت کی وجہ سے ہورہا ہے۔
مثال کے طور پر جب دہشت گردتنظیمیں کسی دہشت گردی کی کاروائی قبول کرلیتی ہیں تو کیا اس سے وہ اپنی کمزوری کا اظہار کرنا چاہتی ہیں یا طاقت کا یقیناًوہ اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہتی ہیں اور ان طاقتوں کو پیغام دیتی ہیں کہ ہم آپ کی طاقت سے خوفزدہ ہیں اور آپ کی تمام طاقت کو ہم نے حملہ کر کے ملیا میٹ کردیا ہے۔ دوسری طرف ریاست پاکستان اتنی کمزور ہے کہ وہ لوگوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے اور پھر ماننے سے انکاری ہو جاتی ہے یہ یقیناًریاستی اداروں کی یا تو کمزوری ہے یا بددیانتی اگر کمزوری ہے تو اسے طاقت میں بدلنا چاہئیے اور اگر بددیانتی ہے تو یہ آئین پاکستان سے غداری کے زمرہ میں آتا ہے۔ایسی ریاست جس میں کم ازکم سات فعال ایجنسیاں کام کررہی ہوں اور بھی بہت سارے ادارے ہوں وہاں دن دیہاڑے ایک بندہ اغوا ہوجائے اور وہ کہیں ہمیں معلوم نہیں ،اس کا مطلب کیا ہے؟یہ اداروں کو خود سوچنا چاہئیے ہم جو بولیں گے شکایت ہو گی۔
یہ ایک بزدلانہ اقدام ہے جو مجرمانہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ ہمیں خبرنہیں تو حکومت کیسی؟ یہ تو جنگل ہوا جس کا جودل چاہے کرے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو لیکن یہ سیاہ دور زیادہ عرصہ نہیں چلے گا اور ہم اپنے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے تمام ڈکٹیٹروں سے حساب برابر کریں گے۔ لیکن میں تصویر کا ایک اور رخ بھی دکھانا چاہتا ہوں مجھے معاف کردینا جب ناصرشیرازی جیسے محب وطن ، ہمدرد قوم، شیعہ قوم کی عزت کا خواب دیکنے والے شیعہ قوم کو طاقتور بنانے کا عزم کرنے والے اس طرح دن دیہاڑے اغوا کرلئے جائیں گے اور اکابرین ملت خاموش رہیں گے تو قلم خون ہی روئے گا ۔ فضل الرحمٰن سے مصافحہ کرنے والے کسی کے خلاف پاکستان میں کوئی خلاف قانون کام ہو تو بابانگ دہل اس کا ساتھ دیتے ہیں وہ ناصر شیرازی کے اغوا پر لب کشادہ کیوں نہیں ۔۔شیعہ قوم کو لوٹنے والے لٹیرے مختلف رنگوں اور بہروپوں میں موجود ہیں لیکن اس قومی ہیرو کے ساتھ جو زیادتی اور ناانصافی ہورہی ہے اس پر خاموشی؟وہ سوچ لیں ابھی مجلس وحدت مسلمین ان کی حفاظتی دیوار ہے اگر یہ گر گئی تو آپ سب تک رسائی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اپنی ذمہ داری محسوس کرو! میں ہر عالم دین ، خطباء حضرات ،ذاکرین عظام ، تنظیمی عہدیداران اور لیڈران سے درخواست کرتا ہوں کہ سید ناصر عباس شیرازی کی بازیابی کے لئے زبان کھولیں اور نہ صرف زبان کھولیں بلکہ عملی میدان میں نکلیں اور شیعت کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنادیں اور آنے والی نسلوں کو محفوظ پاکستان کی نوید سناتے جاؤ۔
وحدت نیوز(ہری پور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین خیبر پختون خوا نے جماعت کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی کی اغواء کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اغواء میں صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کی ایما پرصوبائی حکومت ملوث ہے جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کو انارکی کی طرف نہ لے کے جائے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین خیبر پختون خوا کی صوبائی سیکرٹری جنرل راضیہ جعفری ایڈوکیٹ ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل مسز روبینہ واجد او ر ضلعی جنرل سیکرٹری تصور نقوی نے اپنے مشترکہ بیان میں کیا۔
ان کا کہناتھا کہ سید ناصر شیرازی نے پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر کیا جس کی پاداش میں ناصر شیرازی کو بیوی بچوں کے ہمراہ سفر کے دوران وردی میں ملبوس افراد نے اغواء کیا جن کا اس کے بعد کوئی پتہ نہیں جو کہ انتہائی افسوس ناک اور شرم ناک بات ہے پنجاب حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر اوچھے ہتھکنڈوں اتر آئی ہے جس کی مذمت کرتے ہیں اورمطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک کو انارکی کی طرف نہ لے کرجائے بصورت دیگر اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ اگر ناصر شیرازی کو رہا نہ کیاگیا تو مرکزی قیادت کی کال پر خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہوں گی ۔