ناصرشیرازی کے اغواکے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں علامہ اقتدار نقوی کی زبان بندی کا حکم نامہ جاری
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے علامہ اقتدار حسین نقوی کی زبان بندی کے احکامات جاری کر دیے، واضح رہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے آج سید ناصر عباس شیرازی کی جبری گمشدگی کے خلاف اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ دوسری جناب ''وحدت نیوز''سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقتدار نقوی کا کہنا تھا کہ پنجاب اور ملتان انتظامیہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے، حکومت ہمارے عزائم کو متزلزل نہیں کرسکتی، حکومت سید ناصر عباس شیرازی کو فی الفور بازیاب کرائے بصورت دیگر حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور آئی ایس او پاکستان کے مرکزی رہنما سید ناصر عباس شیرازی کی جبری گمشدگی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
وحدت نیوز(کراچی) نوجوانوں کے ذریعے ہی ملک میں تبدیلی لائیں گے۔نوجوان ایک بڑی طاقت اور قوت ہیں۔سازش کے تحت نوجوانوں کو قتل و غارت کی سیاست میں دھکیلا گیا۔پاکستانی نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے۔ سیاست دانوں نے نوجوانوں کو اپنی بھٹی کا ایندھن بنایا،ایم ڈبلیو ایم نوجوانوں کی صلاحیتوں کا تعمیری کاموں میں استعمال کرے گی۔ان خیالات کا اظہار وحدت یوتھ کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل محمد کاظم نے شہید حسینی ہال ملیر جعفرطیار میں وحدت یوتھ کی جانب سے منعقدہ ’’نوجوان امید پاکستان ‘‘سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل میثم عابدی ،فرحان رضوی ،سجاد چنگیزی نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پرمختار منگی،رضا رضوی،حامد حسین و دیگر موجود تھے۔
محمد کاظم نے کہا کہ نوجوانوں نے ہمیشہ تبدیلی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد 50فیصد سے زیادہ ہے۔نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد اور قوت ملکوں میں انقلاب برپا کردیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وحدت یوتھ پر عزم،بہادر اور جرات مند نوجوانوں کا قافلہ ہے،انہوں نے کہا کہ نوجوانان ملت جعفریہ اپنے اورقوم کے حقوق کے لیے متحدہوجائیں،اور ظالم قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دئیے بغیر کسی قسم کا ٹیکس نافذکرنا غیر آئینی عمل ہے،ستر سالوں سے آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کیلئے کسی بھی وفاقی حکومت نے سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا۔ سات دہائیوں سے یہاں کے عوام استحصال کا شکار ہیں، پاکستان میں سب سے زیادہ محب وطن گلگت بلتستان کے شہری ہیں لیکن انکی جذبہ حب الوطنی اور وفاداری کا صلہ دینے کی بجائے انکے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ یہاں کے عوام خطے کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کے لیے تحریکیں چلا رہے ہیں لیکن مقتدر حلقے ان کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں، گلگت بلتستان پاکستان کی عظمت وسربلندی کا ضامن ہے، وطن کی حفاظت میں آج بھی جی بی کے سپوت سینہ سپر ہیں ، حقوق کی عدم فراہمی اور وفاقی جماعتوں کی خطہ دشمن پالیسیوں کے سبب احساس محرومی میں روز افزو ں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ ریاست کے حق میں نہیں،وہاں کے عوام کو مطمئن کرنا ریاستوں اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پاک چین راہداری کا ایک بڑا حصہ گلگت بلتستان کو روندتا ہوا چین کو جاتا ہے لیکن اس بڑے منصوبے میں بھی اس خطے کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں نام نہاد صوبائی سیٹ اپ دیکر مختلف ٹیکسز نافذ کرناظلم ہے، عوام کو چاہیے کہ اپنے اندر اتحاد قائم کر کے اس ظلم کے خلاف ڈٹ جائیں۔ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والے مظالم پر کبھی خاموش نہیں رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں موجود توانائی کے بیش بہا ذخائر ہیں انہیں استعمال میں لاکر نہ صرف جی بی کو روشن کیا جا سکتا ہے بلکہ پورے ملک کو درپیش بجلی بحران کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جی بی میں سیاحت کو فروغ دے کر اور وہاں کے قدرتی و انسانی وسائل کو استعمال میں لاکر ملکی معیشت کو حل کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان جیسا حسین اور وسائل سے بھرپور خطہ دنیا میں کہیں نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ یہاں کے عوام کو انکے پاوں پر کھڑا کریں اس خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے ٹھوس پالیساں بنائیں کیونکہ یہ خطہ ملک کا انتہائی حساس اور وفاعی اہمیت کا حامل خطہ ہے اسے نظر انداز کرنا یا اس خطے کے عوام پر بوجھ ڈالنا ملکی دفاع کو زیر سوال لانے کے مترادف ہیں، گلگت بلتستان کے عوام آئینی تشخص چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انکے فیصلے انکے ہی ہاتھ میں ان پر فیصلے تھوپنے کا سلسلہ ختم کرنے انہیں سیاسی طور پر مضبوط اور بااختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی محرومی بھی ختم ہو جائے۔ ہم گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ ہر محاذ پر لڑتے رہیں گے۔
وحدت نیوز( کراچی) ماہ مبارک ربیع الاول کے انتظامات کے حوالے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر اہتمام میئر کراچی وسیم اختر کی ذیر صدارت اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی علامہ صادق جعفری کی زیر قیادت شرکت، وفد میں ڈویژنل رہنما میر تقی ظفر اور سبط اصغربھی شامل تھے، علامہ صادق جعفری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہ محرم الحرام میں صفائی ستھرائی میں کوتاہیوں کو ماہ مبارک ربیع الاول میں دور کیاجائے ، انشاءاللہ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی شیعہ سنی ملکر رسول اکرم ﷺ کی ولادت کا جشن منائیں گے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے مرکزی جامع مسجد و امام بارگاہ جعفریہ کمپلیکس اسٹیل ٹاؤن میں خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ شعبہ فلاح وبہبود مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے زیر تعمیر سرد خانہ برائے میت کے منصوبے پر تعمیراتی کام کا جائزہ لینے کیلئے دورہ کیا ، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مقامی رہنما اور ٹرسٹ کے عہدیداران بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، واضح رہے کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد چند ماہ قبل علامہ احمد اقبال رضوی نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا ،بن قاسم ٹاؤن اور گلشن حدید سمیت اطراف کی آبادیوں میں اس پروجیکٹ کی انتہائی سخت ضرورت پائی جاتی تھی عوام کو اپنے پیاروں کی میتیں محفوظ رکھنے کیلئے دور دراز علاقوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصرو ف ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هہوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هہے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا:ہم اس کے شاگرد هہیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هہو ؟
شاگرد نے کہا:ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور وہ جو کام کرنا چاہتا هہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال هہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں هے جو تم سمجھ رہے هہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وہ مفہوم و معانی نہیں هہیں جو آپ نے سمجھا هہے؟ وہ کہے گا: هہاں یہ احتمال پایا جاتا هہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل هہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے هہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!ہوسکتا هہے قرآن کا مفہوم کچھ اورہو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی هو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے هہوں!۔
شاگرد اپنے استاد کے پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ہو بہو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں غرق ہو گیااس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔ استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رہا اورشاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رہاآخر کاراسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی پیداوارنہیں هے اور ممکن هہی نہیں هہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے اذہان میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔
اس دفعہ شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا هہے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔۱
تاریخ میں نقل ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا قید میں تھے،شدید قحط پیش آگیا خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں، نماز استسقاء بجالائیں اور خداوندمتعال سے بارش کی دُعا کریں ۔مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن بارش نہ برسی۔
چوتھے دن جاثلیق نصرانی مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لیے صحرا گئے۔وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش برسنے لگی۔اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کیلیے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے بارش برسنا شروع ہو گیا اور لوگ سیراب ہوئے۔لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا،اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے ۔
خلیفۂ وقت کے لئے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح بن وصیب کو حکم دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کوآزاد کر دے اور اس کے پاس لے آئے۔ حضرت نے خلیفہ سے فرمایا:لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں۔خلیفہ کہنے لگا:لوگوں کی ضرورت پوری ہوئی ہےاور دوبارہ طلب باران کی اب ضرورت نہیں ۔حضرت نے فرمایا میں چاہتا ہوں لوگوں کے اذہان سے شک نکال دوں اور اس واقعے سے اُنہیں نجات بخشوں۔
خلیفہ نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب تیسرے دن بھی طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں۔خلیفے کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے تمام مسیحو ں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا،اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا،اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش برسنے لگی۔اس موقع پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو کھولے،جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے۔پس امام علیہ السلام نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی،ایک کپڑےے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا:اب طلب باران کرو۔راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے سورج ظاہر ہوگیا۔
لوگوں نے اس واقعے سے مزید تعجب کیا۔اس وقت خلیفہ نے حضرت سے سوال کیا:یا ابا محمد! اس امر کی وجہ بیان فرمائیں ۔ حضرت نے فرمایا:ان لوگوں نے کسی قبرستان میں ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی وضاحت پر یقین کرلیا،پھر اسی طرح خود بھی آزمائش کر کے دیکھا تو قضیہ ویسے ہی تھا جیسے حضرت نے بیان فرمایا تھا۔اس واقعہ کے بعد لوگوں کے اذہان سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے۔ خلیفہ اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے۔یہاں حضرت نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی خلیفے سے فرمایا اور خلیفے نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا
جائے۔
حوالہ جات
۱۔مناقب، ج۴، ص۴2۴۔
۲۔ زندگی حضرت امام حسن عسکری(ع)، علیاکبر جہانی، ص۱۳۵۔
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی