وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 23 مارچ سے یکم اپریل تک جنوبی پنجاب کا دس روزہ تنظیمی و تربیتی دورہ کریں گے، ملتان سے جاری بیان کے مطابق ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے ترجمان ثقلین نقوی نے کہا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 23 مارچ جمعۃ المبارک سے میانوالی سے دورے کا آغاز کریں گے، 24، 25 مارچ کو بھکر کا دورہ کریں گے، دریا خان، کوٹلہ جام میں مختلف اجتماعات اور تنظیمی شخصیات سے ملاقات کریں گے، 26 مارچ لیہ میں گزاریں گے اور مختلف تقریبات سے خطاب کریں گے۔ 27 مارچ کو مظفرگڑھ اور 28 مارچ کو علی پور کا دورہ کریں گے، 29، 30 مارچ دو دن رحیم یار خان میں گزاریں گے، 31 مارچ کو بہاولپور کا دورہ کریں گے، یکم اپریل کو ملتان کا دورہ کریں گے۔ ثقلین نقوی کے مطابق دورے کا مقصد آئندہ عام الیکشن کے حوالے سے سیاسی جوڑ توڑ، اُمیدواروں سے ملاقات اور سیاسی شعور کو بلند کرنا ہے۔ دورے کے دوران ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے صوبائی سیکرٹری علامہ اقتدار حسین نقوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی اور محمد اصغر تقی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ دورے کے اختتام پر ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنر ل محترمہ سیدہ زہرا نقوی نے مسلم لیگ نواز کے سابق نااہل وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نوازکی جانب سے رسول اکرم (ص) اور دختر رسول (ص)حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی شان اقدس میں گستاخی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے مذمتی بیان میں انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار مریم نواز کی جانب سے توہین رسول (ص) و دختررسول (ص)کا فوری سوموٹو نوٹس لیں، اعلانیہ مستند کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کا خود کو رسول (ص) اور آل رسول (ص) سے تشبیہ دینا توہین رسالت(ص) کے زمرے میں آتا ہے، پیغمبر اکرم (ص) اور ان کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراؑکی ذات اقدس تمام مسلمانوں کے نذدیک انتہائی قابل احترام ہے،جس کی توہین سے تمام امت مسلمہ کے قلب رنجیدہ ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ نواز کے سابق سربراہ اور نااہل وزیر اعظم میاں نواز شریف اعلیٰ عدلیہ سے سارٹیفائیڈ چور، جھوٹے اور لٹیرے قرار پائے ہیں ، جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز بھی کسی صورت اپنے والد سے پیچھے نہیں ان کے بعض ناقابل بیان کارنامے بھی زبان زدِ عام ہیں، ایسے لوگوں کی جانب سے خود کا دنیا کے سب سے بڑے صادق اور امین ،رحمت اللعالمین ، خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) اور ان کی پاکیزہ دختر، خاتون جنت، شہزادی کونین ، مادرحسنین کریمین ؑ حضرت فاطمتہ الزہراؑ سے موازنہ انتہائی قابل مذمت اور قابل سزا اقدام ہے ،انہوں نے معززعدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان سے آئین اور قانون کے مطابق مریم نواز شریف کے خلاف کاروائی اور سزا کا مطالبہ کیا ہے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) انڈہ مزے دار تھا، اگرچہ چوری کا تھا لیکن ماں نے خوب مرچ مصالحے ڈال کر بنایا تھا، اگلے دن گھر میں مرغی پکی وہ بھی بہت مزے دار تھی، اگرچہ وہ بھی چوری کی تھی، اگلے دن بکری کا گوشت پکا ، وہ بھی بہت ہی مزے دار تھا اگرچہ وہ بھی چوری۔۔۔ پھر ایک دن گھر میں ہر چیز خوبصورت اور بڑھیا تھی اگر چہ ہر چیز چوری کی تھی، بالاخر چور پکڑا گیا، قانونی کارروائی ہوئی، عدالت نے موت کی سزا سنائی ، چور نے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا کہ اسے اس کی ماں کے ساتھ ملوایا جائے، ماں آئی تو اس نے کہا کہ وہ اپنی ماں کے کان میں کوئی خصوصی بات کرنا چاہتا ہے،جس کے بعد ماں کے کان کو دانتوں سے پکڑ کر اس نے چبا ڈالا۔
اس نے وجہ یہ بتائی کہ مجھے ڈاکو بنانے کا اصلی سہرا میری ماں کے سر جاتا ہے۔ جس دن میں انڈہ چوری کر کے لایا تھا اگر اسی روز میری ماں مجھے ڈانٹ دیتی تو میں مرغی اور بکری چوری نہ کرتا اور آخرکار اتنا بڑا چور بن کر پھانسی کے پھندے پر نہ جھولتا۔
سلطانہ ڈاکو کی یہ کہانی تقریبا ہم سب نے سُن رکھی ہے۔
ضیاالحق نے پاکستان میں جس شدت پسندی کے بیج بوئے تھے، میاں نواز شریف نے اسی فصل کو سینچا تھا، زرداری صاحب نے اسے اپنے انداز میں پروان چڑھایا تھا اور عمران خان صاحب انہی شدت پسندوں کے مدرسے کو بھاری گرانٹ عطا کر کے انہیں اپنی سرپرستی کا عندیہ دے چکے ہیں۔
چند سالوں سے قدیمی طالبان کا ٹرینڈ، زرا بدنام ہوگیاہے ، سیاسی لیڈروں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ ان کے جلسوں میں سپاہِ صحابہ، لشکر جھنگوی، داعش اور القاعدہ کے کلاشنکوف بردار نظر آئیں لہذا شدت پسندی کو ایک جدید انداز میں سیاسی طور پر استعمال میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس جدید طرز کو پھیلانے کے لئے بھی ہمارے سیاستدانوں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے، اس کا آغاز سیاست میں گالیوں سے کیا گیا، اگر شیخ رشید صاحب نے بلاول کو ایک فنکارہ کے نام سے یاد کیا تو عمران خان نے آزاد کشمیر کے صدر کو گھٹیا اور زلیل آدمی کہا صرف یہی نہیں بلکہ کسی کے بارے میں کہا کہ مونچھوں سے پکڑ کر گھسیٹوں گا اور کسی کے بارے میں کہا کہ گریبان سے پکڑوں گا، باقی رہی سہی کسر امیر طریقت مولانا خادم رضوی کی گالیوں نے پوری کر دی۔
اب کسی پر سیاہی پھینکی جاتی ہے اور کسی پر جوتا اور کسی کو تھپڑ مارے جاتے ہیں، یہ ہے وہ سیاسی کلچر جو ہمارے سیاسی اشرافیہ نے ہماری نئی نسلوں کو دیا ہے۔
مذہبی طالبانوں کے ساتھ ساتھ اب سیاسی طالبان تیار کئے گئے ہیں تاکہ کوئی سمجھدار اور شریف آدمی پاکستان کی سیاست میں آنے کی سوچے بھی نہیں، جس طرح پہلے ہر طرف کلاشنکوف بردار دندناتے پھرتے تھے اب ہر طرف بدتمیز ، بداخلاق اور جوتا بردار لشکر مٹر گشت کریں گے جس کے بعد ایک دوسر ے کے صوبے میں جانا تو دور کی بات ایک دوسرے کے محلے میں جانا بھی خطرناک ثابت ہوگا۔
یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا کہ کچھ جذباتی لوگ ایسا کر رہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل سوچ کارفرما ہے تاکہ سیاست میں آئندہ وہی چل سکے جس کے پاس غنڈے اور بدمعاش ہوں۔
بھلا عشقِ رسولﷺ کا گالیوں، بدتمیزی اور بداخلاقی کے ساتھ کیا جوڑ بنتا ہے۔اس شدت پسندی کو ضیالحق کے دور میں انڈے کی صورت میں ہی ختم کردیا جاتا تو مسئلہ حل تھا لیکن بعد والوں نے اسے کامیابی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا اور اب اسے جدید صورت میں استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی کے طالبان کلاشنکوف بردار تھے اور نئے طالبان جوتا بردار ہیں۔اب اسے ہی طاقتور سمجھا جائے گا جس کی پشت پر جوتا برداروں کا لشکر ہوگا اور وہی سیاست کی وادی میں قدم رکھنے کی سوچے گا جس کے پاس جوتا بردار فورس ہو گی۔یہ سیاہی پھینکنا، جوتے مارنا اور تھپڑ لگانا نئی سیاست کی ابتدا ہے۔ہمیں ایک باشعور قوم ہونے کے ناطے اس سلسلے کو یہیں پر روکنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح مذہبی میلان رکھنے والے لوگ ماضی میں خونخوار طالبان ، داعش اور القاعدہ کے نام سے معروف ہوئے ہیں اسی طرح اب نئے طالبان، القاعدہ اور داعش کو بھی مذہبی حلقوں سے ہی ڈھونڈا جارہاہے۔یہ ہمارے مذہبی اور دینی حلقوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نام نہاد سیاستدانوں کی چالوں کو سمجھیں اور ان کے ہاتھوں میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال نہ ہوں۔
طالبان چاہے کلاشنکوف بردار ہو ں یا جوتا بردار بدنامی تو مذہب کی ہی ہوتی ہے اور یہی ہمارے ہاں کے لبرل سیاستدان چاہتے ہیں۔ اسی طرح اگر بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا کلچر فروغ پائے گا تو دینی حلقے خود بخود دیوار کے ساتھ لگ جائیں گے لہذا دیندار اور باشعور افراد کو اس طرح کے منفی رجحانات کی فوراً حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے سکیورٹی اداروں سے کہا کہ جو بھی ملزمان ہیں، یہ ان کا انفرادی عمل ہے، جامعہ نعیمیہ کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ دیگر مذہبی اداروں اور شخصیات کو بھی چاہیے کہ وہ اس طرح کے افراد سے اظہار لاتعلقی کریں اور ملک کو سیاسی انارکی کے بجائے اسلامی سیاست کی ڈگر پر ڈالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔بحیثیت قوم ہمیں اس جدید شدت پسندی کی لہر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، اس جدید شدت پسندی کا بانی بھی کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی سیاستدان ہیں اور ان کے اپنے مذموم مقاصد ہیں۔لہذا اس طرح کے افعال کو عشق رسول ﷺ کہنا سراسر مکار سیاستدانوں کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کی صوبائی شوریٰ کا دو روزہ اجلاس صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی کی صدارت میں جامعہ شہید مطہری میں شروع ہوگیا، اجلاس میں رحیم یارخان، بہاولپور، بھکر، میانوالی، لیہ، لودھراں، علی پور، ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور ملتان کے اراکین شوریٰ نے شرکت کی، اجلاس کے پہلے روز ولادت باسعادت حضرت سیدہ فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے ''مدافعہ نظام ولایت و امامت ''سیمینار منعقد ہوا، سیمینار سے مرکزی سیکرٹری تربیت مولانا ڈاکٹر یونس حیدری نے خطاب کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی، سید ندیم عباس کاظمی، ثقلین نقوی، مولانا ہادی حسین ہادی، مولانا قاضی نادر حسین علوی اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ اجلاس اتوار کو شام 6 بجے اختتام پذیر ہوگا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر یونس حیدری کا کہنا تھا کہ جانب سیدہ سلام اللہ علیہا نے بیک وقت کئی محاذوں پر اسلام کی سربلندی اور سرشاری کے لئے اپنا کردار ادا کیا، آپ ایک بے مثال زوجہ، بیٹی، ماں ہونے کے ساتھ ساتھ نبوت، امامت اور ولایت کی محافظہ و مدافعہ بھی ہیں۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) بسلسلہ میلاد با سعادت سیدہ فاطمۃ الزہراء ؑ رضا آباد میں ’’سیدۃ النساء العالمینؑ کانفرنس ‘‘منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے اختتام پر شجرکاری مہم کے سلسلے میں خصوصی پروگرام منعقد ہوا۔اس موقع پرکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ سیدۃ النساء العالمین حضرت صدیقہ کبریٰ ؑ کی حیات طیبہ عالم انسانیت خصوصا صنف نسواں کے لئے اسوہ اور قابل تقلید نمونہ عمل ہے۔ دین مقدس اسلام ، پیغام دین اور نظام امامت و ولایت کا دفاع ، اسوہ فاطمی کا اہم ترین پیغام ہے۔ مسجد نبوی ﷺ میں آپ ؑ کا خطبہ دین شناسی کا جامع نصاب ہے، جو آپ ؑ کے علم و عرفان کی عظمت کا بین ثبوت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عصر حاضر میں مغربی تہذیب نے صنف نسواں کی عزت و عظمت انسانی کو تاراج کرتے ہوئے حیاء اور عفت جیسے انسانی کمالات کو پامال کیا ہے، مسلم خواتین مغربی سراب کی اندھی تقلید کی بجائے سیدہ طاہرہ فاطمہ زہراء ؑ کے نقش قدم پہ چلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یمن کے مظلوم مسلمانوں پر جاری بمباری پر شدید تشویش ہے، آل سعود کے اقدامات اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔ حجاز مقدس میں ایک عالم دین کو حق گوئی کے جرم میں دوران خطبہ ذلت و رسوائی کے ساتھ گرفتار کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر’’ سیدۃ النساء العالمین کانفرنس ‘‘سے علامہ سہیل اکبر شیرازی، مولانا ارشاد علی سولنگی، برادر فخرالدین انڑ اور سید شبیر علی شاہ نے خطاب کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر شجرکاری کی گئی۔ شجرکاری مہم میں مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی، ضلعی سیکریٹری سیاسیات برادر فضل حسین ، مولانا حسن رضا غدیری،مولانا منور حسین سولنگی و دیگر شریک ہوئے۔ اس موقعہ پر المصطفیٰ اسکاؤٹس کے جوانوں نے بھی شجرکاری مہم میں حصہ لیا۔
وحدت نیوز(گلگت) وزیر اعلیٰ محض زبانی دعووں کی بجائے عملی کام کرکے ثبوت فراہم کریں۔خالصہ سرکار کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کا بیان خوش آئند ہے۔اپنے دور اقتدار میں خالصہ سرکار کے ظالم قانون کا خاتمہ کرکے تاریخ رقم کرے اور گلگت بلتستان کا سپوت ہونے کا ثبوت دیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری اطلاعات علی حیدر نے وزیر اعلیٰ کے خالصہ سرکار کے حوالے سے بیان کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے موقف پر قائم رہیں تو یہ گلگت بلتستان کیلئے نیک شگون ہوگا۔اس وقت گلگت بلتستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ حق مالکیت ہے اورماضی کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں عوامی زمینوں کو سرکاری تحویل میں لیکر آج حق مالکیت کا ڈھونگ رچارہے ہیں۔
انہوں نے وزیراعلیٰ کا خالصہ سرکار کے متعلق بیان جس میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی سرکاری پراجیکٹ کو مفت زمین فراہم نہیں کی جائیگی کو انتہائی خوش آئند قرار دیا ہے اور وزیر اعلیٰ تھوڑی اور ہمت کرکے خالصہ سرکار کے قانون کو ختم کرکے سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو بحال کرے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام سکون کیاسانس لے سکیں۔انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی گلگت بلتستان کے عوام کے مفاد میں کام کرے گا اس کو بھرپور سپورٹ کرینگے۔ماضی میں ٹیکس لگاکر اور عوامی زمینوں کو سرکاری اداروں کو الاٹ کرنے والے حق مالکیت کے نعرے سے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے۔