وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی سیکریٹریٹ میں کامیاب مرکزی تنظیمی اجلاس شوری ٰ عمومی کے انعقادپر منتظمین سالانہ اجلاس کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ،صوبائی سیکرٹری جنرل خیبرپختونخواہ اور شوری عالی کے رکن علامہ اقبال حسین بہشتی ،مرکزی سیکریٹری تعلیم و چیئر مین سالانہ مرکزی تنظیمی اجلاس برادر نثار فیضی ،اسلام آباد کے سیکر ٹری جنرل مولانا سید محمد حسین شیرازی ، راولپنڈی کے سیکر ٹری جنرل مولانا سید علی اکبر کاظمی ،صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی صوبہ پنجاب مولانا نیازحسین بخاری ، صوبائی سیکریٹری تعلیم صوبہ پنجاب برادراظہر حسین کاظمی کے علاوہ سالانہ مرکزی تنظیمی اجلاس کی کور کمیٹی اور اجرائی کمیٹیوں کے تمام اراکین ودیگرتنظیمی افراد شریک ہوئے۔ تقریب سے پہلے شب جمعتہ المبارک کی مناسبت سے دعائے کمیل کی تلاوت کی سعادت بین الاقوامی شہرت یافتہ قاری سروری نے حاصل کی اور تقریب سے پہلے تلاوت قرآن پاک کا شرف بھی انہوں نے ہی حاصل کیا۔
چیئر مین مرکزی شوری عمومی اجلاس برادر نثار علی فیضی نے تمام کمیٹیوں کے اراکین کو انکی کاوشوں پر خراج تحسین پیش کیا اور شرکاء سے اظہار خیال کیا اور آئندہ پروگرامات کو مزیدبہتر بنانے کے لیے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نےسب سے پہلے ولادت باسعادت امام حسین ؑ کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اورکہا کہ آج کی رات ہمارے لئے بہت اہم رات ہے اس رات کو سالار ازادگان و شہیدان و آسمان ولایت و امامت کے تیسر ے ستارے حضرت امام حسین کی میلاد کی رات ہے۔انہوں کہاکہ ہم جس نہضت اور تحریک کا حصہ ہیں وہ انبیاء کی نہضت ہے اور انبیاء کی نہضت کا تسلسل نہضت کربلا ہے اور ہم تب کربلائی اور حسینی نہضت کا حصہ بن سکتے ہیں جب ہمارے اندر انبیائی اور حسینی صفات موجود ہونگی۔ انبیاء علیہم السلام کی نہضت اور مقاومت میں راتوں کا قیام ہے اور راتوں میں قرآن کی تلاوت ہے۔ اخلاص ،تقوی اور توکل علی اللہ ہے۔جتنی ذمہ داری عظیم ہیاتنا ہی’’ قیام ا لیل‘‘ کی تاکید کی
گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پیغمبر اسلام کی رسالت سے پہلے کا ذکر ہے اور حسینی مقامت میں شب عاشور کاتذکرہ ہے۔اسی طرح مقامت زینبی(س) میں شام غریبان اور شب یتیمان کا ذکر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیٰ نبینا کو بھی’’ اربعین لیلاً ‘‘کاوعدہ کیا۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جوان ولائی ہو اور مقاومت کا ادعا بھی کرے اور اس کے اندر ’’راتوں کا قیام‘‘ اور ’’راتوں میں تلاوت قرآن‘‘ نہ ہو۔ عزیزان ایسا نہیں ہو سکتا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس انبیائی اور حسینی سفر میں کامیاب ہو جائیں تو آپ کو تین کام کرنے ہونگے۔ پہلا کام یہ کہ آپ اللہ پر بھروسہ کریں آپ کا ہر کام خدا کے لئے ہو۔ دوسرا آپ کو اللہ کی راہ میں معنوی اور مادی ہجرت کرنا ہو گی۔ آپ تب اللہ کی راہ میں ہجرت کرسکیں گے جب آپ گناہوں سے ہجرتکرجائیں۔تیسرا یہ کہ ائمہ اطہار سے توسل کرتے رہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی میں اور میدان مقاومت میں یہی تین کام اہم ہیں ان کو اپنا لیں آپ کامیاب ہیں اور یقین کرلیں کہ آپ راہ حسینی پرقائم ہیں۔ ورنہ شیطان کے چیلے تمہیں اغوا کرلیں گے جیسا کہ شیطان نے اللہ کی ذات کی قسم کھا کر کہا تھا کہ میں ان کو اغوا کروں گا۔شیطان کے چیلوں سے صرف مقاومت کربلائی کے اصول پر عمل پیر ا ہو کر ہی بچا جا سکتا ہے۔
وحدت نیوز(نصیرآباد) صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین بلوچستان علامہ سید ظفر عباس شمسی نے باری شاخ مرکزی امام بارگاہ علی رضا علیہ سلام میں نماز جمعہ کے خطبہ میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے ھم کوجینا بھی سکھایا اور مرنا بھی سکھایا ہے،دین بھی سکھایا ہے اور دنیا میں ہنا بھی سکھایاہے، ظالم کے ظلم پر خاموش نارہو بلکہ ظالم کے سامنے ڈٹ جائو ، ظالم سے نفرت کرو،انہوں نے کہا ظالم امریکہ نے ایک مسلمان ملک شام پر 120 میزائل مار کر بربریت کامظاہرہ کیا کہ شام ظالم امریکہ کے سامنے ڈٹ گیا اور اپنا دفاع کرتے ہوئے ان میں اکثر میزائیلوں کو فضا میں ہی ختم کر کے امریکہ کو شکست دیدی ،یہ جو امریکہ نے شام پر میزائیل مارے اس میں سعودی عرب کا ہاتھ تھا،تین عالمی ایٹمی قوتوں کی جارحیت کےمقابل نہتے شام نے استقامت کا بہترین مظاہرہ کیاہے۔
انہوںنے خطبہ میں کہاکہ جب بھی امریکہ نے کسی مسلمان ملک پر حملہ کیا اس میں سعودی عرب کے تعاون سے کیا . مسلم ملک افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا سعودی عرب ساتھ شامل تھا . سعودی عرب کے کہنے پر افغانی مجاھد بنے . امریکہ نے جب افغانیوں سے اپنا مطلب نکال لیا اور اب افغانستان سے روس کو باہر نکال دیا گیا تو وہ افغانی اب مجاہد نہیں رہے بلکہ دھشتگرد بن گئے تو سعودی عرب نے بھی انکو امریکہ کے کہنے کے مطابق دھشت گرد کہا . القائدہ کا سربرہ اسامہ سعودی عرب کا تھا امریکہ کے کہنے کے مطابق مجاھد اور امریکہ کہ کہنے سےھشتگرد بنا سعودی عرب نے وہی کیا جو امریکہ نے کہا ۔
انہوں نے کہا کہ عراق میں جب امریکہ نے حملہ کیا تو سعودی عرب امریکہ کے ساتھ تھا پھر عراق پرسعودی عرب نے امریکہ کے تعاون سے داعش سے حملہ کروایا لیکن شکست فاش ہوئی بحرین میں سعودی افواج امریکہ کی تائید سے شیعہ مسلمانوں پر ظلم کر رھا ھے ،امریکہ کے تعاون سے دو سال ہو گئےہیں،سعودی یمن والوں پر فضائی حملے کر رہاہے جس سے ہزاروں کی تعداد میں یمنی مارے جا چکے ہیں، دھشتگردوں کو امریکہ کی رضامندی سے سعودی مالی تعاون دیتا رہتاہے، القائدہ ،طالبان ، سپاہ صحابہ . لشکر جھنگوی سب دھشتگرد گروپ سعودی عرب کے مالی تعاون سے پناہ پاتے رہتے ہیں، امریکہ،برطانیہ ،فرانس، اسرائیل اور اس جیسے مسلم دشمن ملک سعودی عرب کو عزیزہیں مگر مسلمان ممالک عزیز نہیں کیونکہ سعودی عرب عیسائی اور یہودیوں کا دوست ہے مسلمانوں کا نہیں ۔
وحدت نیوز(گلگت) پاکستان تحریک انصاف کا سینٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے والے بے ضمیروں کیخلاف ایکشن قابل ستائش اقدام ہے۔مجلس وحدت مسلمین نے جی بی کونسل کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے رکن اسمبلی کیخلاف کاروائی کرکے پاکستان کی تاریخ میں مثال قائم کی اور اب تحریک انصاف پاکستان بھی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے نقش قدم پر چل نکلی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنما و میڈیا سیل کے انچارج شبیر حسین نے پاکستان تحریک انصاف کا بے ضمیر اراکین کے خلاف تادیبی اقدام کو سراہتے ہوئے اسے سیاسی جماعتوں کی بقا اور مضبوطی کا ضامن قرار دیا۔اگر تمام سیاسی جماعتیں ووٹ بیچنے والوں کے خلاف کاروائی کریں تو اس اقدام سے ضمیر فروشی کے بازار کا کاروبار ٹھپ ہوسکتا ہے لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتیں ضمیر فروشوں سے بھری پڑی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو شخص اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے اس سے ملک وقوم کے تحفظ کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر ووٹ بیچنے والے رکن کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لاکر ڈی سیٹ کرنے کی درخواست دی لیکن ہماری درخواست کو مسترد کرکے ایک بے ضمیر کو ابھی تک اسمبلی میں رکھاگیاہے۔انہوں نے کہا کہ کاش دوسری جماعتیں بھی مجلس وحدت مسلمین کی پیروی کرتی تو گلگت بلتستان اسمبلی ضمیر فروشوں سے خالی ہوتی۔انہوں نے نیب سے مطالبہ کیا کہ کونسل کے الیکشن میں جن جن اراکین نے اپنا ووٹ بیچا ہے ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائے تاکہ اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت سرے سے ہی ختم ہوجائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ابھی ذیشان اشرف بٹ کا خون تازہ ہے، مقتول صحافی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ شیخوپورہ میں سیوریج کے منصوبے میں مبینہ طور پر غیر معیاری مواد استعمال ہونے کی کوریج کرنے والے ڈان نیوز کے رپورٹر پر تشدد کے بعد انہیں غیر قانونی طور پر مقامی جنرل کونسلر کے دفتر میں بند بھی کردیا گیا۔ ڈان نیوز کے مطابق شیخوپورہ پریس کلب کو شکایتی خط موصول ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گَھنگ روڈ کا سیوریج نظام تباہ ہوچکا ہے، جبکہ جنرل کونسلر کی ہدایات پر شہر کے چند علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی کام میں استعمال ہونے والا مواد غیر معیاری ہے۔ جب رپورٹر اور ان کی ٹیم گھنگ روڈ پہنچی اور فوٹیج ریکارڈ کرنا شروع کی تو کونسلر رائے محمد خان اپنے عملے کے ہمراہ وہاں پہنچے اورصحافیوں پر تشدد شروع کر دیا کیمرہ مین اپنی جان بچاتے ہوئے جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جبکہ کونسلر ،بلال شیخ کا موبائل فون چھین کر انہیں گاڑی میں اپنے ڈیرے (دفتر) لے گئے۔ڈیرے پر بھی ڈان نیوز کے رپورٹر پر گنے سے تشدد کیا گیا اور بلدیاتی چیئرمین امجد لطیف شیخ کے دفتر میں محصور کر دیا گیا۔
یہ اس ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ سچ بولنے کی قیمت ہے ، یہ بے لاگ صحافت کا اجر ہے، یہ حق اور حقیقت کی خاطر قلم اٹھانے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب صحافی حضرات کے ساتھ یہ برتاو ہو رہا ہے تو آپ خود اندازہ کیجئے کہ عام عوام کے ساتھ مختلف اداروں میں کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر تشدد اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں صحافیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سال ۲۰۱۷ سے لے کر اب تک ان گنت صحافیوں کو ملک کے اطراف و کنار میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس تشدد کے جواب میں بعض اوقات چند روز احتجاجی جلسےجلوس ہوتے ہیں اور پھر معاملہ ٹھپ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ اب رکنے میں نہیں آتا۔
صحافیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اب ایک منظم احتجاج کی ضرورت ہے۔دوسری طرف یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ایک انسان کی زندگی کے لئے جس طرح ہوا اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ایک معاشرے کی زندگی کے لئےآزادی رائے، آزادی صحافت ،جمہوریت اور انسانی حقوق کی ضرورت ہے۔اگر معاشرے میں صحافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا، صحافیوں کو گولیاں ماری جائیں گی، انہیں اغوا کیا جائے گا اور ان پر تشدد کیا جائے گا تو ایسے معاشرے سے زندگی کی رمق بھی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں آزادی رائے کوایک منظم لابی مسلسل کچل رہی ہے۔ عصرِ حاضر کے فرعون معاشرے کو غلام رکھنے کے لئے معاشرے کی اجتماعی سوچ کو مسل رہے ہیں، معاشرتی ڈکٹیٹر ایک طرف تو معاشرے میں کرپشن اور دیگر برائیوں کو خود رواج دیتے ہیں اور دوسری طرف اگر کوئی صحافی ان کی نقاب کشائی کرتا ہے تو جواب میں کہتے ہیں کہ سارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔
سارے معاشرے کو برا کہنا درا اصل برے لوگوں کو بچانے کی ایک عمدہ چال ہے۔ ہمارے ہاں کچھ چالاک لوگوں نے عوام کو سیاسی بصیرت ، معاشرتی رواداری ا ور اخلاقی اقدار کے بجائے نعروں، ووٹوں اور سیٹوں کے پیچھے لگا رکھا ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی کو عوامی رائے اور اپنے حقوق کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوجانے کا نام ہی جمہوریت اور ووٹ ڈالنے کا نام ہی آزادی رائے ہے۔ لوگوں کو ذہنی طور پر اتنا محدود اور چھوٹا کر دیا گیا ہے کہ وہ حق اور سچ کہنے کے بجائے، پارٹیوں ، برادریوں ، مسالک اور شخصیات کی پرستش کرتے ہیں۔لوگ الیکشن میں بھی ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو انسانوں سے زیادہ اپنے کتوں سے پیار کرتے ہیں اور جو انسانیت اور شرافت کے بجائے بدمعاشی اور دھونس پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے پڑھے لکھے اور دانشمند طبقے کو اس حقیقت کو سمجھنے اور آگے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کبھی بھی ایک منظم لشکر اور مرتب سوچ یعنی ایک مستقل لابی کا مقابلہ ایک پراگندہ لشکر اور منتشر سوچ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں لینے اور زیادہ
ووٹ لینے سے کسی کی انسانیت ، آدمیت اور شرافت میں اضافہ نہیں ہو جاتا، بلکہ معاشرے میں انسانیت، آدمیت اور شرافت کی حاکمیت کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام مسائل میں فاسق و فاجر لوگوں کی مخالفت کریں ۔ جولوگ اپنے ،ماں باپ ، اپنے ہمسایوں اور اپنے عزیزو اقارب سے زیادہ اپنے کتوں اور پالتو بدمعاشوں سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیں کیا جمہوری اقدار سکھائیں گے اور ہمارے ساتھ کیا بھلائی کریں گے اور وہ ہمیں کیا آزادی رائے دیں گے! عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ عوام خود اپنے ساتھ بھلائی کرے، بھلے اور نیک لوگوں کا ساتھ دے اور بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھنے سے قطعاً نہ کترائے۔ ہاں اس راستے میں ذیشان اشرف بٹ کی طرح ہماری جان بھی جا سکتی ہے اور بلال شیخ کی طرح کسی کو اغوا کر کے اس پر تشدد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رکھیں حق اور سچ کے راستے میں جولوگ ڈٹ جاتے ہیں وہی تاریک راتوں میں روشنی کے ستارے بن کر چمکتے ہیں اور جو بِک یا ڈر جاتے ہیں وہ اپنے پیچھے سیاہ رات چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
آج بحیثیت قوم ہمارے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو قوم کو مغرب کی طرز پر معاشرتی آزادی، آزادی رائے اور آزادی صحافت دینے کے دعوے کرتے ہیں جبکہ عملا ً عوام کو مصر کے فرعونوں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو عوام کی دینی رہبری اور قیادت کے دعویدار ہیں لیکن معاشرے میں آزادی رائے اور آزادی صحافت کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ لوگوں کے خون سے لا تعلق رہتے ہیں۔ اب ملک ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں ہم نے خود ہی اپنے معاشرے کی زندگی یا موت کا فیصلہ کرنا ہے،ہمارے دانشمند حضرات خواہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں یا دینی مدارس سے ، انہیں اپنے ملک میں معاشرتی آزادی، سماجی عدالت، عوامی حقوق اور رائے عامہ کی آزادی کے حوالے سے سکوت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
خصوصاً اگر دینی اداروں کے دانشمند معاشرے کی تعریف، معاشرتی آزادی، اظہارِ رائے ، رائے عامہ اور صحافت کے خدوخال کو علمی و عملی قالب میں عوام کے سامنے نہیں رکھیں گے اور ملی آزادی اور اظہار رائے کا تحفظ نہیں کریں گے تو رائے عامہ خود بخود غیروں کے آگے مسخر ہوتی چلی جائے گی۔ دینی اداروں کو چاہیے کہ آزادی صحافت کو وہ بھی اپنا مسئلہ سمجھیں اور صحافیوں کے بہنے والے خونِ ناحق کا نوٹس لیں، جس طرح ملک کی جغرافیائی سرحدوں پر لڑنے والے اس قوم کے مجاہد ہیں اسی طرح اس ملک میں کرپشن، بدعنوانی ، فراڈ اور دھوکہ دہی کو بے نقاب کرنے والے صحافی بھی عظیم مجاہد ہیں۔لہذا دینی حلقوں کی طرف سے صحافیوں پر ہونے والے تشدد پر خاموشی بلاجواز ہے۔
آئیے وطن عزیز سے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاہ رات کے خاتمے اور آزادی رائے کی خاطر قربانیاں دینے والے صحافیوں کے حق میں ہر پلیٹ فارم سے آواز بلند کریں اور متحد ہوکر حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ وہ صحافیوں پر تشدد اور حملے کرنے والے مجرمین کو قرار واقعی سزا ئیں دے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ تو زندہ ہو لیکن صحافت مردہ ہو، ہمیں اس معاشرے میں صحافت کو زندہ رکھنے کے لئے عوام و خواص کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنی ہوگی اور تمام پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کو معاشرتی دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا۔یاد رکھئے !صحافت معاشرے کا دل اور دماغ ہے، صحافت زندہ رہے گی تو معاشرہ بھی زندہ رہے گا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(گلگت ) اتحاد کمیٹی گلگت کے چھلمس داس پر دعویٰ کی کوئی حقیقت نہیں ، اگر وہ اپنے دعوے میںسچے ہیں تو عدالت میں اپنا حق ثابت کریں۔اخباری بیانات سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے ،چھلمس داس پر اہالیان نومل کا حق ثابت شدہ ہے،مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری اطلاعات علی حیدر نے کہا ہے اتحاد کمیٹی چھلمس داس پر دعویٰ کرنے سے قبل گلگت شہر سے متصل کونوداس میں اپنا حق ثابت کریں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے چھلمس داس کو نومل کی ملکیت قرار دیا ہے جبکہ حکومت کالا قانون ناتوڑ رول سے استفادہ کرکے نومل کے عوام پر زیادتی کررہی ہے۔ٹیکنیکل کالج کیلئے نومل کے عوام نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفت زمین فراہم کی اور قراقرم یونیورسٹی کیلئے بھی 2004 میں زمین فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ،اس کے باوجود حکومت نے درپردہ چھلمس داس کو مختلف اداروں کے نام الاٹمنٹ کی جو کہ صریحاً عوام دشمنی ہے۔
انہوں نے کہا نواز لیگ کی حکومت چھلمس داس میں الاٹمنٹ کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال کر خود دھود کا دھلا ہوا ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اگر سابقہ حکومت نے الاٹمنٹ کی ہے تو عوام کے مفاد میں ان تمام الاٹمنٹس کو کینسل کرے وگر سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت کی عوام دشمنی میں کوئی فرق نہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کے رہنما حق ملکیت کے جعلی نعرے سے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جبکہ عوام ان کی اصلیت جان چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نومل کے عوام جان دے سکتے ہیں لیکن چھلمس داس سے ہرگز دستبردار نہیں ہونگے۔حکومت ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھے اور جبری طور پر چھلمس داس پر قابض ہونے کا خیال دل سے نکال دے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) کائنات میں اس عصر میں تین ایسی کتابیں ہیں جن کی کوئی مثل نہیں اور جن کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان میں سے ایک قرآن کریم دوسرا صحیفہ سجادیہ اور تیسرا نہج البلاغہ ہے جو مدینۃ العلم کے ان خطبات و مکتوبات اور حکمت کے گوہر پاروں پر مشتمل ہے جسے سید رضی نے فصاحت و بلاغت کے شہ پارے اور صراط مستقیم کے طور پر انتخاب کیا ہے ۔اسی لئے ہر عصر اور ہر دور کے نامور ادیب اور عالم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ یہ مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہیں ۔کیوں نہ ہو چونکہ یہ ایک ہستی کا کلام ہے جس نے ببانگ دھل یہ اعلان کر دیا جو پوچھنا ہو پوچھ لو علی ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔
اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا تعارف آیت تطہیر اور پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث میں آیاہے اور جنہیں ہر قسم کی خطاوٴں اور جملہ گناہوں سے پاک قرار دیاگیاہے ۔
ہم یہاں حضرت علی علیہ السلام کے فرامین اور افکار سے آشنا ہوتے ہیں جو در علم نبی اور حق و باطل کی شناخت کا معیار ہے۔آپؑ اہل بیت علیہم السلام کے مقام و منزلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:{ہم عیش العلم و موت الجہل.. ...لا یخالفون الحق ولا یختلفون فیہ ہم دعائم الاسلام و ولائج الاعتصام ، بہم عاد الحق فی نصابہ و انزح الباطل عن مقامہ .......}1یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ۔ یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں ۔یہ اسلام کے ستون اور حفاظت کے مراکز ہیں۔انہی کے ذریعے حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔یہ صرف سننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اور اس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں۔2
ایک اور مقام پر آپ ؑفرماتے ہیں :{ فاین یتاہ بکم و کیف تعمہون و بینکم عترۃ نبیکم وہم ه أزمۃ الحق و اعلام الدین وألسنۃ الصدق فانزلوہم باحسن منازل القرآن وردوہم ورود الہیم العطاش} 3
تمہیں بھٹکایا جا رہا ہے اور تم بھٹکتے جا رہے ہو ۔دیکھو تمہارے درمیان تمہارے نبی کی عترت موجود ہے ۔یہ سب حق کے زمام دار ،دین کے پرچم اور صداقت کے ترجمان ہیں۔انہیں قرآن کریم کی بہترین منازل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح سے وارد ہو جس طرح سے پیاسے اونٹ چشمے پر وارد ہوتے ہیں ۔4
ابن ابی الحدید حضرت علی علیہ السلام کےکلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر کہا جائے کہ امام کا یہ کلام اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر دلالت کرتاہے تو آپ کی اس بارے میں کیا راےٴ ہے ؟ اس کے بعدجواب دیتے ہیں کہ ابو محمد بن متوبہ نے الکفایۃ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام معصوم ہیں اگرچہ ہم امام کی حیثیت سے ان کی عصمت کو واجب نہیں سمجھتے کیونکہ عصمت امامت کی شرائط میں شامل نہیں ہےجبکہ نصوص آپ ؑ کے معصوم ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلےمیں یہ صفت آپ ؑکی ذاتی خصوصیت شمار ہوتی ہے ۔5
اسی طرح ایک اور مقام پرآپؑ ا رشاد فرماتے ہیں :{انْظُرُوا أَہْلَ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَہُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَہُمْ فَلَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ ہُدًی وَ لَنْ یُعِیدُوکُمْ فِی رَدًی، فاِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَہَضُوا فَانْہَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوہُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَاتتاَخَّرُوا عَنْہُمْ فَتہْلِکُوا.} 6اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام پرنگاہ مرکوزرکھو اور ان کے راستےکو اختیار کرو۔ان کے نقش قدم پر چلتے رہو کہ وہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے جائیں گے اور نہ ہلاکت میں پلٹ کر جانے دیں گے۔ وہ ٹھہر جائیں توٹھہر جاوٴ اوراٹھ کھڑے ہوں تو کھڑے ہو جاوٴ ۔خبردار ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جاوٴ گے اور ان سےپیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جاوٴگے۔
امام علی علیہ السلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:{آل النبي عليہ الصلاۃ و السلام ہُمْ مَوْضِعُ سِرِّہِ وَلجاُ أَمْرِہِ وَ عَيْبۃُ عِلْمِہِ وَ مَوْئِلُ حکْمِہِ وَ کُہُوفُ کُتُبِہِ وَ جِبَالُ دِينِہِ بِہِمْ أَقَامَ انْحِنَاءَ ظَہْرِہِ وَ أَذہَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَا یُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ(ص) مِنْ ہَذِہِ الاْأُمَّۃِ أَحَدٌ وَ لَا یُسَوَّی بِہِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُہُمْ عَلَیْہِ أَبَدا،ہُمْ أَسَاسُ الدِّینِ وَ عِمَادُ الْیَقِینِ، إِلَیْہِمْ یَفِیءُ الْغَالِی وَ بِہِمْ یُلْحَقُ التَّالِی وَ لہُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَایَۃِ وَ فِیہِمُ الْوَصِیَّۃُ وَ الْوِرَاثَۃُ، الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَی أَہْلِہِ وَ نُقِلَ إِلَی مُنْتَقَلِہِ}7 وہ سر خداکے امین اوراس دین کے پناہ ہیں علم الٰہی کے محزن اورحکمتوں کے مرجع ہیں ،کتب آسمانی کی گھاٹیاں اوردین کے پہاڑ ہیں،انہی کے ذریعہ اللہ نے اس کی پشت کا خم سیدھا کیا اوراس کے پہلووں سے ضعف کی گھبراہٹ کو دورکی۔۔۔اس امت میں کسی کو آل محمدؐپر قیاس نہیں کیاجاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہیں وہ ان کے برابرنہیں ہوسکتے ۔وہ دین کی بنیاداوریقین کے ستون ہیں آگے بڑ ھ جانے والے کوان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اورپیچھے رہ جانے والےکو ان سے آکر ملنا ہے۔حق ولایت کی خصوصیات انہی کیلئے ہیں اورانہیں کے بارےمیں پیغمبرؐکی وصیت اورانہی کےلئے نبی کی وراثت ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :{بِنَا اہْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وَ تَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَۃَ الْعَلْيَاءِ وَ بِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ} 8ہماری وجہ سے تم نے گمراہی کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی ،اوررفعت وبلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھااورہمارےسبب سےاندھیری راتوں کی اندھیاریوں سے صبح (ہدایت )کے اجالوں میں آگئے ۔
وحی الہی اس گھرانے میں نازل ہوئی اور انہوں نے دین کی تعلیمات خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کی ہیں۔ اسی لئے اہل بیت علیہم السلام دین کی بنیاد اور علم و حکمت کا دروازہ ہے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{تَاللّہ ِ لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّساَلاتِ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْکلِمَاتِ وَ عِنْدَنَا أَہْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُکمِ وَ ضِيَاء ُ الاْمْرِ } 9 خدا کی قسم مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیت{نبوت} کے پاس علم و معرفت کے دروازے اورشریعت کی روشن راہیں ہیں۔
اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام تمام لغزشوں سے پاک و منزہ اور فتنوں سے دور ہیں ۔اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: {نَحْنُ أَہْلَ الْبَیْتِ مِنْہَا بِمَنْجَاۃٍ وَ لَسْنَا فِیھَا بِدُعَاۃٍ} 10 ہم {اہل بیت رسول} ان فتنہ انگیزیوں کے {گناہ} سے بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
ایک اورمقام پر اہلبیت علیہم السلام کو علم کا معدن اورحکمت کا سر چشمہ قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :{نَحْنُ شَجَرَۃُ النُّبُوَّۃِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَۃ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِکَۃِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ وَ يَنَابِيعُ الْحُکْمِ نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمۃَ وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَۃ}11 ہم نبوت کاشجرہ،رسالت کی منزل ،ملائکہ کی فرودگاہ ،علم کا معدن اورحکمت کاسرچشمہ ہیں۔ہماری نصرت کرنے والااورہم سے محبت کرنے والارحمت کے لئے چشم براہ ہے۔اورہم سے دشمنی وعنادرکھنے والے کو قہرالٰہی کامنتظررہناچاہیے۔
اہل بیت علیہ السلام علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:{۔۔۔۔۔فانہم عيش العلم ، وموت الجہل ،ہم الذين يُخبرکم حُکمُہم عن علمہم ، وصَمتُہم عن منطقہم ، وظاہرہُم عن باطنہم ، لا يخالفون الدين ، ولا يختلفون فيہ ، فہو بينہم شاہدُ صادق ، وصامت ناطق}12جوہدایت والے ہیں انہی(اہل بیت علیہ السلام )سے ہدایت طلب کرو وہی علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا{دیا ہوا} ہرحکم ان کے علم کا اوران کی خاموشی ان کی گویائی کاپتہ دےگی اوران کا ظاہر ان کے باطن کاآئینہ دارہے وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اورنہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں دین ان کے سامنے ایک سچاگواہ ہے اورایک ایسابے زبان ہے جوبول رہاہے۔
اہل بیت علیہم السلام آسمان امامت و ولایت کے درخشان ستارے ہیں جن کی عالمانہ وحکیمانہ رہنمائی اورہدایت کی وجہ سے ہی انسان دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{أَلَا إِنَّ مَثَلَ آلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله علیہ وآلہ) کَمَثَلِ نجومِ السَّمَاءِ، إِذَا خَوَی نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ، فکا َنَّکُمْ قَدْ تَکَامَلَتْ مِنَ اللہ ِ فِيکُمُ الصَّنَائِعُ وَ أَرَاکُمْ مَا ْتامُلُون}13تمہیں معلوم ہونا چائیے کہ آل محمد ع آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں جب ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھر آتا ہے۔گویا تم پر اللہ کی نعمتیں مکمل ہو گئی ہیں اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے وہ اللہ نے تمہیں دکھا دیا ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہی قرآن کی نفیس آیتیں نازل ہوئی ہیں۔اس بارے میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:{نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الاصْحَابُ وَ الْخَزَنَہُ وَ الابوَابُ وَ لا تُؤْتَی الْبُیُوتُ إِلّا مِنْ أَبْوَابہَا فَمَنْ أَتَاہَا مِنْ غَیْرِ أَبْوَابہَا سُمِّیَ سَارِقاً فِیہمْ کَرَائِمُ الْقُرْآنِ وَ ہُمْ کُنُوزُ الرَّحْمَنِ إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ یُسْبَقُوا} 14ہم قریبی تعلق رکھنے والے اورخاص ساتھی اور خزانہ دار اوردروازے ہیں اورگھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھور کر کسی اورطرف سے آئے اس کانام چور ہوتا ہے۔{آل محمد ع} انہیں کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں۔اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اوراگرخاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں ۔
ائمہ اہلبیت علیہم السلام راسخون فی العلم ہیں ۔ہدایت کی طلب اور گمراہی سے نجات کی خواہش صرف انہیں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ امامت ان کے علاوہ کسی اور کو زیب نہیں دیتا اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اس عظیم منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :{اَیْنَ الَّذِینَ زَعَمُوا اَنَّہُمُ الرّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ دُونَنا کَذِباً وَ بَغْیاً عَلَیْنا، اَنْرَفَعَنَا اللہ ُ وَ وَضَعَہُمْ وَ اَعْطانا وَ حَرَمَہمْ وَ اَدْخَلَنا وَ اَخْرَجَہُمْ، بِنا یُسْتَعْطَی الْہُدی وَ یُسْتَجْلَی الْعَمی، اِنَّ الاَئِمَّۃَ مِنْ قُرَیْش غُرِسُوا فِی هذَا الْبَطْنِ مِن ہاشِم، لا تَصْلُحُ عَلی سِواہُمْ وَ لا تَصْلُحُ الْوُلاہُ مِنْ غَیْرہِمْ}15 کہاں ہے وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اورہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم۔چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اورانہیں گرایا ہے اورہمیں منصب امامت دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اورہمیں {منزل علم میں}داخل کیا ہے اورانہیں دور کر دیا ہے ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جاسکتی ہے۔بلا شبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے۔نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ اس کا اہل ہو سکتا ہے۔
کائنات میں امام کی مثال جسم کے لئے قلب و دل کی مثال جیسی ہے۔اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک فرد قیامت تک اس زمین پر حجت الہی ہیں اور زمین ابتدائے خلقت سےقیامت تک کبھی بھی حجت الہی سے خالی نہیں ہو گی اوراگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندردھنسا لے گی۔اس بارے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: {اَللّہُمَ بَلي لاتَخْلُو الاَرْضُ مِنْ قائِمٍ لللہ بِحُجَہٍ ، اِمّا ظاہِراً مَشْہوراً وَ اِمّا خائِفاً مَغْمُوراً ، لِئَلاً تَبْطُلَ حُجَجُ اللّہ ِ وَ بَيِناتُہُ}16ہاں مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر وہ مشہور یاخائف وہ پنہان تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام حقیقت میں قرآن کریم اور سنت نبوی کے ترجمان تھے۔ انہوں نے جوکچھ فرمایا ہےوہ قرآن و سنت کی تفسیر ہے۔ جیساکہ قرآن و سنت کے بارے میں ذکر ہواہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس کا ذکر قرآن کریم اور سنت نبوی میں موجود نہ ہو۔قرآن کریم اور سنت نبوی میں موجود علوم اور دینی احکام کو راسخون فی العلم اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے وارثوں کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا جیساکہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :{ذلک القرآن فاستنطقوہ،و لن ینطق و لکن اخبرکم عنہ ،الا ان فیہ علم ما یاتی والحدیث عن الماضی ودواء دائکم، و نظم ما بینکم}17اور وہ یہی قرآن ہے۔اسے بلوا کر دیکھو۔ یہ خود نہیں بولے گالیکن میں اس کی ترجمانی کروں گا {یعنی حقایق اور معارف کو بیان کروں گا}یاد رکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اور ماضی کی داستان ہے۔تمہارے درد کی دوا اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے ۔اسی طرح امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{کتاب الله،فیہ نبا ما قبلکم و خبرمابعدکم و فصل ما بینکم و نحن نعلمہ}18 کتاب خدا میں تم سے پہلے اور جو تم سے بعد کی باتیں مذکور ہیں۔اس میں تمہارے باہمی نزاعات کا فیصلہ بھی ہےاور ہم ان سب باتوں کو جانتے ہیں ۔اسی طرح ایک اورمقام پرآپ ؑفرماتےہیں:{نحن راسخون فی العلم و نحن نعلم تاویلہ}19 ہم ہی راسخون فی العلم اور ہم ہی تاویل قرآن کےجاننے والے ہیں۔نیز آپ ؑفرماتےہیں:{والله انی لاعلم کتاب الله من اولہ الی آخرہ کانہ فی کفی فیہ خبر السماء و خبر الارض،و خبر ما کان و خبر ما هو کائن قال الله عزوجل :فیہ تبیان کل شی} 20میں کتاب خدا کا اول سے آخر تک جاننے والا ہوں۔ گویا وہ میری مٹھی میں ہے۔ اس میں آسمان وزمین کی خبر ہے۔ جوکچھ ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ اس میں مذکورہیں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے :اس میں ہر شئے کا بیان ہے ،اس بارےمیں ائمہ اطہار علیہم السلام سےاور بھی بے شماراحادیث نقل ہوئی ہیں۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔نہج البلاغۃ،خطبہ 239،ص825۔
2۔ ترجمہ نہج البلاغۃ ،علامہ ذیشان حیدر جوادی ۔
3۔نہج البلاغۃ ،خطبہ، 87۔
4۔ترجمہ نہج البلاغۃ ،علامہ ذیشان حیدر جوادی۔
5۔شرح نہج البلاغۃ ،ابن ابی الحدید، ج4 ،ص 131۔
6۔نہج البلاغۃ،97۔
7۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ، 2۔
8۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ، 4۔
9۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ 120۔
10۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،93۔
11۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،108۔
12۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،145۔
13۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،98۔
14۔ایضا ً،خطبہ 157۔
15۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،142۔
16۔ نہج البلاغۃ ،حکمت،147۔
17۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،152۔
18۔اصول کافی ،ج1،باب الرد الی الکتاب و السنۃ ،حدیث 9۔
19۔ایضا ً،کتاب الحجۃ ،باب راسخین فی العلم ،حدیث4،ص 178۔
20۔ایضا ً،باب ، انہم علمون الکتاب علم الکتاب کلہ،حدیث4،ص178۔