وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی نے معروف قانون دان ، ایم ڈبلیوایم کے سابق صوبائی قانونی مشیرسید جعفرشاہ ایڈووکیٹ اور ان کے ساتھی عمران پٹھان ایڈووکیٹ کے دن دھاڑے اغواءکی پرروز الفاظ میں مذمت کی ہے، انہوں نے کہاکہ کراچی سے سکھرواپسی پر کنڈیاروکے مقام پر انہیں نامعلوم افراد نے اغواءکیا اور ان کی گاڑی کوقریبی سی این جی پمپ پرچھوڑ کر فرار ہو گئے، علامہ مقصودڈومکی نے سید جعفرشاہ ایڈووکیٹ کے اغواء کو ریاستی اداروں کی اہلی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ سندھ بھر میں کالعدم تکفیری جماعتوں کے دہشت گرد ریاستی سرپرستی میں دھندناتے پھر رہے ہیں ، جبکہ محب وطن شہری لاپتہ کیئے جارہے ہیں، خیر پور کے معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والےجعفرشاہ ایڈوکیٹ، سابق صدر خیرپور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ، سابق ڈویژنل صدر آئی ایس او اور سابق قانونی مشیر ایم ڈبلیوایم سندھ رہے ہیں،ان کا اس طرح دن دھاڑے اغواء بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے، انہوں نے کہاکہ پاکستان کے طول وعرض سے سینکڑوں شیعہ علماء، جوان، قانون دان، بانیان مجالس بلاجوازاغواء کیئے گئے ہیں جن کا تاحال کچھ معلوم نہیں کے وہ کس حال میں ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے اپیل کرتے ہیں کے وہ ملک بھر سے جبری طورپر لاپتہ شیعہ جوانوں کی فوری بازیابی کیلئے اقدامات کریں ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا واحد حل اتحاد بین المسلمین میں مضمر ہے۔عالم اسلام اتحاد واخوت کے ہتھیار سے یہود ونصاری کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ضلع راولپنڈی شعبہ خواتین کی سیکرٹری جنرل سیدہ قندیل زہرہ نقوی نے البصیرہ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد مثالی ہے۔جس کا عملی مظاہرہ عید میلاد النبی کے جلوسوں میں اہل تشیع کی شرکت اور عزاداری کے ہروگراموں میں اہل سنت برادران کی طرف سے سبیلیں لگا کر کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کے لیے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار ہر میدان میں مشعل راہ ہے. عصر حاضر کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے خواتین کو ثانی زہرا س کی سیرت و کردار سے رہنمائی لینا ہو گی۔البصیرہ دورے کے دوران خواہر صدیقہ، خواہر روزینہ،خواہر سمن زہرا اور فروا نقوی بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
وحدت نیوز (کراچی) کے الیکٹرک کی ظالم انتظامیہ شہریوں کی جان کی دشمن بن چکی ہے، شدید گرمی میں بدترین لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب بنا دی ہے، رات بھر اور صبح فجر تک ظالمانہ لوڈشیڈنگ نے شہریوں کا سکون غارت کردیا ہے، کے الیکٹرک کے مظالم پروفاقی اور صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے،کے الیکٹرک کی انتظامیہ اور سندھ حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے، تووزیر اعلیٰ ہائوس اور کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس کا رخ کریں گے، شدید گرمی میں بدترین لوڈشیڈنگ سے اگر کسی شہری کی جان خطرے میں پڑی، تو ذمہ دار کے الیکٹرک ہوگی، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کے الیکٹرک کے اس غیر انسانی رویئے کا فوری نوٹس لیں، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے رہنما احسن عباس رضوی، علامہ نشان حیدر، عارف زیدی اور سعید رضوی نے گلشن وقار جوگی موڑ تا آئی بی سی کے الیکٹرک بن قاسم تک احتجاجی ریلی اور مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر مظاہرین نےبینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے،مظاہرین نے کے الیکٹرک کےخلاف شدید نعرے بازی کی اور شہر میں جاری ظالمانہ لوڈشیڈنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔
مقررین نے کہا کہ غیر اعلانیہ اور بدترین لوڈشیڈنگ کے باعث شہری ذہنی کرب واذیت میں مبتلا ہیں، کے الیکٹرک کی ظالم انتظامیہ نے شہریوں کے سماجی ، تاجروں کے معاشی اور طلبہ کے تعلیمی مستقبل کو دائو پر لگا دیاہے، حکومت فوری طور پر شہریوں کو کے الیکٹرک کے ظلم سے نجات دلائے،کےالیکٹرک نے ماضی میں شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ سے انسانی جانوں کے نقصان سے سبق حاصل نہیں کیا،کے الیکٹرک نے ہوش کے ناخن نا لیئے تو احتجاج کا دائرہ وسیع کردیا جائے گا، کےالیکٹرک نے شہریوں سے جینے کا حق بھی چھین لیاہے۔رہنمائوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کی انتظامیہ بھاری بھرکم بلوں کی وصولی کے باوجود شہریوں کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں ناکام ہے، ہمارے بچوں کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، شدید گرمی میں بدترین لوڈشیڈنگ کے باعث معصوم بچوں اور بزرگوں کی طبیعت بگڑنے اور بے ہوشی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے ، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کے الیکٹرک کے اس غیر انسانی رویئے کا فوری نوٹس لیں۔
وحدت نیوز (گلگت) امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا شام پر حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور کھلی جارحیت ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی خطے کے سب سے بڑے ناسور اسرائیل کو بچانے کیلئے شام پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لیکر چڑھائی کررہے ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام اور عراق میں مقاومتی بلاک کے ہاتھوں بدترین شکست ہوچکی ہے۔قطر اور ترکی نے اتحادیوں کے حملے کی حمایت کرکے اپنی اصلیت آشکار کی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما شیخ نیئرعباس نے تنظیمی عہدیداروں کے ایک اجلاس میں شام پر امریکہ اور اتحادیوں کے میزائل حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کیلئے حالات ہموار کرنے پر لگا ہوا ہے ۔خطے میں صرف شام ہی وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل کو آنکھیں دکھارہا ہے ۔مسلم ممالک کا شام پر ہو نے والے حملے پر خاموشی معنی خیزہے،جبکہ قطر ، سعودی عرب اور ترکی کا رویہ قا بل مذمت ہے۔
انہوں کہا کہ 39 ممالک کا اتحاد امریکی جارحیت پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے اور یہ اتحاد درپردہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سپورٹ کیلئے بنایا گیا ہے۔اس وقت یمن اور شام میں بیگناہ عوام کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے اور معصوم بچوں،عورتوں اور جوان اور بوڑھوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور اسلامی ممالک کا یہ اتحادنہ صرف تماشائی ہے بلکہ یمن میں براہ راست خونریزی میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاداسلامی ممالک کایہ اتحاد آخر کس مرض کی دوا ہے جبکہ کشمیر، افغانستان، فلسطین ،یمن اورشام میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور ان کے منہ سے مظلوموں کی حمایت میں ایک لفظ نہیں نکل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اہل عالم کو تفرقہ اور تعصب کے خول سے نکل کر حقیقت اور سچائی تلاش کرلینی چاہئے تاکہ عالم اسلام کو سامراجی سازشوں سے نجات دلواکر طاغوتی نظام کے خاتمے کیلئے امت مسلمہ کو تیار کرسکیں۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) اس وقت مشرق وسطی کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے ہزاروں ٹھوکریں کھانے کے باوجود ابھی تک کوئی سبق حاصل نہیں کیے ہیں۔کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے شام میں امریکی نئے پروپگینڈے اپنے عروج پر ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی بار آزما چکے ہیں۔جب سے مغربی پشت پناہی میں شامی حکومت کے ساتھ لڑنے والی دہشت گردوں کو شکست ہوئی ہے امریکہ و اسرائیل سخت پریشان ہیں اور شامی حکومت پر بے بنیاد الزامات لگارہے ہیں۔ اوپر سے اسرائیل بھی امریکہ کے اشارے پر شام اور فلسطین میں اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہیں اور حال ہی میں ایک شامی ائربیس پر بھی میزائل داغے گئے ہیں۔مشرق وسطی میں جاری سیاسی کشمکش ایک طرف،لیکن مجھے تعجب اُن مسلمان حکمرانوں پر ہے جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوئے ہیں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہیں۔ در حال کی جزیر ۃالعرب مسلمانوں کا مقدس ترین سرزمین ہے جہاں سے اسلام کی ابتداء ہوئی، کعبہ ، مسجد نبوی، مسجد الحرام غرض ہمارے سارے مقدس مقامات اسی سرزمین میں ہی موجود ہیں جس کی وجہ سے تمام مسلمان اس سرزمین سے خاص لگاو رکھتے ہیں ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ سعودی بادشاہت جو اپنے آپ کو خادم الحرمین شریفین کہتے ہیں ان کے ذاتی اور سیاسی اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑرہے ہیں۔مغربی طاقتیں خصوصا امریکہ و برطانیہ نے مسلمانوں کو جو نقصانات پہنچائے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، امریکہ کی تاریخ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین اور سیاہ ہے امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں جو مستقیم اور غیر مستقیم طریقے سے مداخلت یا حملے کئے ہیں ان میں اب تک ایک اندازہ کے مطابق چودہ ملین افراد موت کے منہ جا چکے ہیں لیکن نہ کوئی ان کے خلاف بولتا ہے اور نہ کوئی ان کو دہشت گرد کہتا ہے کیونکہ ہمارے ذہنوں میں مغربی حوالے سے ایک افسانوی خاکہ غالب آچکا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے کرسکتا ہے، اور وہ جو کرتا ہے صحیح کرتا ہے، پھر کچھ اندرونی طور پر ڈالروں کی چمک دھمک اور مفادات بھی خاطر نظر ہوتی ہے۔ بعض مسلمان سعودی عرب کے خلاف مقدس مقامات کی وجہ سے کچھ سننے کو تیار نہیں ، لیکن مسلمانوں کے اس اعتقاد کا احترام اپنی جگہ لیکن دوسری جانب ہم زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں نے جس طرح آل سعود حکمرانوں کو قابل اعتماد سمجھے ہوئے تھے جس کا جواب انہوں نے حالیہ کچھ دنوں میں کچھ اس طرح دیا ہے کہ جس نے تمام دنیا میں موجود مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جن میں سے تین اہم واقعہ یہ ہیں، پہلا غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا گویاعالم اسلام کے قلب میں خنجر مارنے کی مانند ہے، دوسرا بھارتی مسافر بردار جہاز نے پہلی بار اسرائیل جانے کے لئے سعودی فضائی حدود کا استعمال کیا اور یوں آل سعود نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ روابط کا سلسلہ بھی شروع کردیا ، پہلے تو سعودی اسرائیلی تعلقات کی کہانی پشت پردہ ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد بن سلمان نے کھل کر اسرائیل سے تعلقات کو آشکار کیا ہے جس نے عالم اسلام میں مخصوصا فلسطین کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی نئی لہر ایجاد کی ہے۔تیسرا:سعودی عرب کا امریکہ ،برطانیہ اور فرانس سے اسلحہ کی خریداری۔آج دنیا کے مسلمانوں کایہ ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی اندورونی تبدیلیاں ، آل سعود کا روشن ہوتااصل چہرہ اور امریکہ، برطانیہ ، فرانس سے بلینز ڈالرز کی اسلحہ کی خریداری!آخر یہ سب کیوں اور کس لئے؟، کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ اسلام کا اصل دشمن امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ہے دوسری طرف خادم الحرمین اسلام کے دشمنوں سے دوستی اور ان سے جنگی وسائل خرید رہے ہیں اوریہ امر باعث تعجب ہے کہ آخر سعودی عرب نے ان اسلحوں کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ آیا یمن کے نہتے غریب عوام پر استعمال کرنا ہے یا شام ، عراق، لیبیا، افغانستان میں موجود تکفیریوں کو سپلائی کرنا ہے؟ یا کسی اور اسلامی ملک کے خلاف؟ ہرصورت میں نقصان مسلمان ممالک اور دین اسلام کاہے اور فائدہ صرف اور صرف اسلام دشمن عالمی استعماری طاقتوں کو ہیں۔اسلام کے مقابلے میں اسلام دشمن عناصر سے جو دوستی کرتے ہیں جیسے آل سعود انہی کے بارے میں قرآن کریم میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہیں: "آپ ان میں سے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ اپنے لئے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے"۔ سورہ مائدہ آیت 80
بعض لوگ اس کو سیاست کا بھی نام دیتے ہیں لیکن سیاست ٹھیک ہے ہمیں ہر وقت اپنی دشمنوں سے جنگ نہیں کرنی چاہئے کبھی سیاسی اور دوسرے طریقوں سے بھی مسائل کا حل نکالنا چاہئے لیکن اس سیاسی ڈیلنگ کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں، کیونکہ ہم جو بھی کام انجام دیں یہ کبھی بھی ہم سے خوش نہیں ہونگے جب تک کہ ہم اپنے دین اور ایمان سے ہاتھ نہ اٹھالیں، سورہ بقرہ میں خداوند متعال فرماتا ہیں: "اور آپ سے یہود و نصاری اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔ کہہ دیجٗے یقیناًاللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لٗے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کار ساز ہوگا اور نہ مددگار"۔ بقرہ: ۱۲۰کبھی ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ شاید عالمی طاقتوں سے دوستی میں ہی ہماری بقاء ہے اور اس دوستی میں ہم اپنی حدین پار کر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اب دوستی نبھانے کی باری اُن کی ہے تو "ڈو مور" کا مطالبہ سنے میں آتا ہے۔ اب پچھتائے کیا جب چڑیا چک گئی کھیت،خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب دودھ دینے والی گائے ہیں جب تک دودھ ہے اس کوکامل دھولو یعنی جب دودھ ختم ہوجائے تو صدام ، قذافی کی طرح ان کا کام تمام کردو ۔ ابھی اگر امریکہ و مغربی طاقتیں آل سعود کی پذیرائی کر رہے ہیں تو یہ ان کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ان کے مال و ثروت اور قدرتی وسائل کی وجہ سے ہیں اسی طرح گر کسی دوسرے اسلامی ملک کو ااہمیت دے رہا ہے تو وہ بھی صرف اپنی مفادات کی خاطر ہیں،لیکن افسوس کہ ہم ابھی تک خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے ہیں۔اسلام کے دشمن کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا یہ لوگ فقط ہمیں اپنی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، جس طرح روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں مسلمانوں کو استعمال کیاگیا اور اس سے پاکستان سمیت عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے ہم سب باخبر ہیں ۔
مگر ہم نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ کبھی تجربہ اور تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرنا ہے۔آج شام میں عالمی طاقتیں مسلمانوں کے ساتھ وہ کھیل کھیل رہی ہیں کہ اگر اب بھی مسلمان بیدار نہ ہوئے اوراس ناپاک عزائم کو نہ سمجھیں تو اس کا خمیازہ ہماری اگلی نسلوں کو اٹھانا پڑے گا۔ اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ دقت کی بھی ضرورت نہیں بس صرف امریکہ ، اسرائیل اور برطانیہ کی تاریخ کو سامنے رکھ کر حالات حاضرہ پر رنگ و نسل، جذبات اور مفادات کی عینک اتار کر انسانیت اور مسلمانیت کی عینک سے دیکھیں تو حقیقت کو جانے میں مشکل نہیں ہوگی ۔ شام کے حالات سے عالم اسلام اور عالمی حالات پر گہرا اثر پڑے گا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بصیرت کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کی ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہئے اور کس کے ساتھ دینا چاہئے۔ قرآن کریم سورہ النساء میں خداوند متعال ارشار فرماتا ہیں:"جو ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا یہ لوگ ان سے عزت کی توقع رکھتے ہیں؟ بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے"۔ النساء: 139
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) امریکہ کہ جس کی ایک سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہو تا ہے کہ امریکی استعمار نے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں مختلف حیلے بہانوں سے نہ صرف جارحیت کی ہے بلکہ کئی ایک ممالک پر متعدد مرتبہ فوجی چڑھائیاں بھی کی ہیں، حالیہ صدی میں امریکی فوجی یلغار افغانستان اور عراق بڑی مثالیں موجود ہیں جبکہ امریکہ جو کہ سات سمندر پار موجود ہے لیکن پوری مسلم دنیا میں اس نے فوجی اڈے بنا رکھے ہیں ، اس کے بحری بیڑے دنیا کے تمام سمندروں میں موجود ہیں اور کسی بھی وقت کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بھی جھوٹ پر مبنی حیلے بہانے بنا کر حملوں کا آغاز کر دیا جا تا ہے، پہلے یہی امریکہ افغانستان کے جہادیوں کے ذریعہ روس کے خلاف جہاد میں ان کی مدد کرتا رہا اور پھر یکا یک انہی جہادیوں کا دشمن بھی بن گیا اور ان کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا اسی طرح عرا ق میں صدام جیسے ظالم وفاسق مجرم کے ذریعہ کبھی ایران پر حملہ کروایا تا کبھی کویت بھی عراقی جارحیت سے محفوظ نہ رہا، اور پھر اچانک امریکہ کو عراق
میں WMDs یاد آ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عراق میں فوجیں پہنچ گئیں اور پھر عرا ق کے قدرتی ذخائر بشمول سونا و تیل پر امریکیوں نے قبضہ جما لیا۔بہر حال جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ امریکی شیطان کی جارحیت اور ظلم و جبر کی داستان ایک سوسال سے بھی طویل ہے اور ا س کو بیان کرنے کے لئے سیکڑوں کتابیں بھی لکھی جائیں تو بھی کم ہیں۔حالیہ دنوں ستائیسوں رجب المرجب کی با برکت شب کو دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ نے شام پر فرانس اور برطانیہ کی مدد سے حملہ کیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ پچاس کے لگ بھگ کروز میزائل داغے گئے ہیں جبکہ یہ حملہ کرنے کے لئے جہاں میڈیٹیرین سمندر میں موجود برطانوی و فرانسیسوں افواج موجود ہیں وہاں اس حملہ میں قطر کی سرزمین بھی استعمال کی گئی ہے ۔امریکہ نے شام پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب شام کی افواج نے دیگر اپنے اتحادیوں بشمول روس اور ایران کے ساتھ مل کر شام کے متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کر دیا ہے اور
گذشتہ دنوں مغربی میڈیا پر جس طرح من گھڑت خبروں کا پرچار کیا جا رہاتھا اس کا منہ توڑ جواب شامی علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے ہزاروں شہریوں کو با حفاظت نکال کر دیا ہے جس کی درجنوں ویڈیوز مختلف ٹی وی چینلز نے نشر کی ہیں ۔اس تمام صورتحال کا اگر کسی کو فائدہ پہنچ رہا تھا تو وہ شامی حکومت اور عوام تھے کہ جو مسلسل دہشت گردوں سے نبرد�آزما ہیں اور حالیہ دنوں بڑی کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے نجات حاصل کر رہے تھے ایسے حالات میں امریکی وبرطانوی ڈرامہ نگاروں میں شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ ایسے ہی علاقے میں رچانے کی کوشش کی کہ جس کا کنٹرول اب شامی افواج سنبھال رہی تھیں ، بھلا ایسا کوئی کیوں کرے گا کہ جب کامیابی بھی ملے اور وہ اپنی کامیابی کو خود اپنے ہاتھ سے ضائع کر دے؟پوری دنیا اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن کسی کو ابھی تک اس بات کا جواب نہیں ملا ہے کہ شامی حکومت خود ہی اپنے ماتحت علاقوں پرکیوں کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کرے گی؟شامی علاقہ دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اقوام متحدہ بھی حرکت میں آگئی اور پوری دنیا میں موجود امریکی پے رول پر چلنے والے ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر اسلامی لبادوں میں چھپے امریکی نوکر بھی سوشل میڈیا پر سرگرم ہو گئے جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی کیمیائی حملہ دوما نامی علاقہ میں ہوا ہی نہیں، کیونکہ دوما کے مقامی اسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تا حال ان کے پاس کوئی ایک متاثرہ مریض کہ جس کو کیمیائی حملہ نے نقصان پہنچایا ہو رپورٹ نہیں ہوا ہے۔دوسری طرف اقوام متحدہ میں امریکہ،ا سرائیل ، برطانیہ اور فرانس سمیت چند ایک عرب ممالک نے خوب بڑھ چڑھ کر شامی حکومت پر الزام عائد کیا اور حملوں کی دھمکی دی اور پھر ستائیسوں شب کو حملہ کیا بھی گیا۔یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب ایک طرف اقوام متحدہ کا کمیشن دوما کے علاقے میں تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ جمع کروانے ہی والا تھا لیکن اس رپورٹ کے جمع کروانے سے قبل ہی امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ کر دیا ہے۔ب
ہرحال ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے شامی حکومت پر عائد کیا جانے والا الزم جھوٹ پر مبنی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف شام پر امریکی حملہ کا جواز پیدا کرنا ہے کیونکہ اب شام کے تقریبا تمام علاقوں میں ان تمام دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کیا جا رہاہے کہ جن کی مدد امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، فرانس، قطر، ترکی، سعودی عرب، اردن اور دیگر یورپی و عربی ممالک کر رہے تھے، یکے بعد دیگر تمام دہشت گرد گروہوں کا صفایا ہو رہاہے اور تمام ماندہ علاقے شامی حکومت کے کنٹرول میں آ رہے ہیں ، ایسے اوقات میں ترکی کی عفرین نامی علاقوں میں جارحیت اور فوجی کاروائی اور اسی طرح امریکی و یورپی اتحادیوں کا شام پر حملہ دونوں ہی درا صل شام کی حکومت کو کمزور کرنے اور شام کے عوام کے حقوق کو پائمال کرنے کے مصداق ہیں۔ایک اور اہم بات تو یہ بھی ہے کہ جس طرح پاکستان اور چند ایک ممالک میں سوشل میڈیا پر موجود اسلامی لبادہ اوڑھے امریکی خدمت گار شام کے علاقہ غوطہ اور اس سے قبل حلب کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ جس دوران ان کے ہم خیال دہشت گردوں کے خلاف کاروائی جاری تھی لیکن اب یہی فیس بکی جہادی امریکہ کے خلاف کچھ بولنے یا لکھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ کیا ان کی خاموشی کو اس طرح سمجھا جائے کہ امریکہ کو اختیا ر حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے جب چاہے حملہ کرے؟ اور اگر امریکہ ن کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ ہی استعمال کیا ہے تو پھر پوری دنیا کو مل کر سب سے پہلے امریکہ کے خلاف حملے کرنے چاہئیں کیونکہ دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کا فراہم کرنے اور استعمال کرنے والا امریکہ ہی ہے، جس نے پہلے ماضی میں ایر ان کے خلاف عراق کو کیمیائی ہتھیار فراہم کئے جس کا صدام نے ایران کے خلاف استعمال کیا تھا اور اسی طرح امریکہ نے ایٹم بم ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرا کر دنیا میں انسانی حقوق کی پائمالی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے،اسرائیل کی غاصب جعلی ریاست امریکی سرپرستی میں دسیوں ہزار فلسطینیوں سمیت دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں قتل و اغوا جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے ،
اسی طرح ویت نام ، افغانستان، عراق، یمن، لیبیا، افغانستان، پاکستان میں جاری ڈرون حملے وغیرہ یہ سب جواز ہیں کہ دنیا امریکہ کے خلاف مشترکہ حملہ کا اعلان کرے۔خلاصہ یہ ہے کہ شام کو تقسیم کرنے کا امریکی ایجنڈا ناکام ہو چکا ہے اور اسرائیل کی سیکورٹی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں کیونکہ شام سے فرصت کے بعد شام میں امریکی، صیہونی و عربی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل قوتیں بالآخر مقبوضہ فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی آزادی کی طرف بڑھیں گی، خطے کے حالات نے تمام راستے القدس کی آزادی کی طرف کھول دئیے ہیں، ایسے حالات میں اب امریکہ کا نہ صرف تنہا بلکہ یورپی بیساکھیوں کا سہارا لینا اور ناکام قسم کا حملہ کرنا اس بات کی دلیل ہے دنیا کی شیطانی طاقتیں اب زیادہ دیر تک طاقت کے مزے میں گم نہ رہیں گی بلکہ ان کا ضعف اور ناتوانی اب دنیا پر آشکار ہو چکی ہے کہ جب حالیہ شام میں ہونے والے حملوں میں شامی افواج نے پرانے قسم کے ایئر ڈیفنس سے امریکی جدید ترین میزائلوں کا رخ بدل ڈالا اور نشانہ لگا کر متعدد میزائلوں کو ہوا میں ہی تباہ کر دیا۔اس ساری صورتحال میں امریکہ و اسرائیل کی پریشانی مزید بڑھ رہی ہے اور امریکہ کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ شام سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی شیطانی سیاست ناکام ہو چکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی و یورپی ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوئے چند ایک عرب خائن بادشاہوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور افغانستان کے جہادیوں اور عرا ق و لیبیا کے ڈکٹیٹروں کے ساتھ امریکیوں کا برتاؤ یاد رکھتے ہوئے اپنے انجام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے اگر ان عرب حکمرانوں نے اسی طرح حسنی مبارک، قذافی، صدام یا افغانستان کے جہادیوں جیسا تعلق و رویہ رکھا تو پھر مسلم امہ ان کی پشت پر کھڑی نہ ہو گی اور اگر بہادر اور دلیر ی دکھائی اور بشار الاسد کی طرح شیطانی امریکی و صیہونی قوتوں کے مد مقابل قیام کیا تو یقیناًدنیا کا ہر مسلمان ان کے ساتھ ہو گا۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان