وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری علامہ امین شہیدی نے لائز ایریا مسجد و امام بارگاہ پنجتنی میں سالانہ مجلس عزاء بمناسبت شہادت امام حسن علیہ السلام سے خطاب میں کہنا تھا کہ امام حسن علیہ السلام کی سیرت بنی نو انسان کیلئے مشعل راہ ہے آل محمد علیہ السلام کی سر داری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سر ور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے کہ حسن و حسین علیہ السلام جوانان جنت کے سر دار ہیں اور ان کے والد بزرگوار یعنی علی ابن ابی طالب کا مقام بھی ان سے افضل ہے امام حسن علیہ السلام نے اپنے جد امجد کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر امن و محبت کا درس دیا ۔اسلام کی تاریخ میں صلح امام حسن علیہ السلام ایک عظیم معاہدہ ہے جس نے حق و باطل کے درمیان حد فا صل کھینچ دی۔ آج امت مسلمہ میں خلفشار کی بڑی وجہ دین اسلام سے دوری ہے پنجتن کا گھرانہ سے تمسک انسانیت کی فلاح و نجات کا زریعہ ہے 28صفر نواسہ رسول امام حسن علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے، جوانان جنت کے سردار کی سیرت نمونہ عمل و فلاح انسانیت کی ضامن ہے ۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سیدمہدی عابدی نے وحدت میڈیا سیل کے زمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکی دولت ھڑپ کرنے والے حکمرانوں کو اگر سزائیں نہیں ملی تو عوام کا اعتماد مقتدر اداروں پر اے اٹھ جاے گا ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کیا جائے عوامی دولت لوٹنے والوں اور معاشی حب کراچی کو تباہی کے دھانے پر لانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہئے بانی پاکستان و اقبال کا پاکستان کرپشن فافیا اور سیاسی لٹریروں کے ہا تھوں یر غمال بنتا جا رہا ہے بلا تفریق کاروائی کی گئی ان کو مزید کہہنا تھا کرپشن میں ملوث افراد نہیں چاہتے کہ رینجرز کو اختیارات دیے جائیں رینجرز کو اختیارات نہ ملنے پر دہشتگردوں اور ان کو سہولت کار ایک بار پھر بھرپور طاقت کے ساتھ کراچی سمیت پورے سندھ میں دہشتگردانہ کاروائیاں کریں گئے۔
مہدی عابدی نے کہا کہ کراچی میں امن کا قیام عارضی محسوس ہوتا ہے، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم بدستور جاری ہیں، دہشت گردی کامکمل قلع قمع کرنے کیلئے تکفیری نظریات کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، وفاقی دارالحکومت میں ریاست پاکستان کو چیلنج کرنے والے موجود ہیں ، پاک فوج کو ریاست بچانے کیلئے کڑوے گھونٹ پینا ہوں گیسندھ کو دہشتگردوں سے پاک کرنے لیے کراچی سمیت پورے سندھ میں رینجرز کو اختیارات دیے جائیں ریٹائر میجر احسن رضا کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں
وحدت نیوز (آرٹیکل) شہيد منٰی، علامہ ڈاكٹر غلام محمد فخرالدين کی شخصيت اور خدمات كو بہت سے دوستوں نے اپنے انداز میں مرقوم كيا ہے، ان كی شهادت كی يقينی خبر آنے كے باوجود مجھ پر بے يقينی کی سی کیفیت طاری ہے اور چونكہ مجھے ايک لمبے عرصے تک شہيد كے ساتھ مختلف امور ميں كام كرنے كا موقع ملا اور ميں نے نزديک سے ان کے اخلاق اور کام کرنے کی روش كو ديكھا اور ان سے بہت كچھ سيكھا ہے، لہذا میں چاہتا ہوں کہ ان کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جائے، تاکہ ان کی روش اور طریقہ کار اور ان کے اخلاق کو میدانِ عمل میں زندہ رکھا جاسکے۔ يہ كوئی 8 سال پہلے كی بات ہے، ان كے قريبی رشتہ دار حجۃ الاسلام آقای مختار مدبری كے توسط سے شہيد منٰی نے بنده حقير كو اپنے ساتھ اجتماعی، دينی، سياسی، ثقافتی، علمی اور فكری كاموں ميں حصہ لينے كے لئے اپنے سیٹ اپ setup ميں شامل ہونے كی دعوت دی۔ اگرچہ مرحوم نے بچپنے سے اپنے آپ كو انہی كاموں كے لئے وقف كر ركھاتھا ليكن قم المقدس ميں وه بعض دوستوں سے ملكر مذكوره كاموں ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ ميری ان كے ساتھ پہلے سے اچھی خاصی جان پہچان تھی اور ميرے دونوں بڑے بھائيوں كے ساتھ ان كی كالج كے زمانے سے اچھی دوستی تھی اور ميرے والد صاحب اور وه ايک دوسرے كو اچھی طرح جانتے تھے۔
جب ان كے ساتھ ہماری پہلی نشست ان كے قدیمی دوست حجۃ الاسلام والمسلمين آقای عبدالكريم قاسمی كے گھر ميں ہوئی تو ميرے ساتھ دو اور دوست حجۃ الاسلام آقای احسان دانش (چنداه) اور حجۃ الاسلام آقای تقی مطہری بھی مدعو تھے۔ نشست كا آغاز كلام الٰہی سے ہوا، اس كے بعد انهوں نے سب سے پہلے اپنے اغراض و مقاصد كو سامنے ركھا اور ہم سے كوئی چيز مخفی نہيں ركھی۔ باقی اغراض و مقاصد کی وضاحت كے بعد انہوں نے كہا کہ اس سياسی چپٹر (chapter) کی جب ہم تشريح كرتے ہيں تو بہت سے دوست شامل ہونے سے كتراتے ہيں اور معذرت چاہتے ہيں، يہ کہہ كر انہوں نے وضاحت شروع کی کہ ہمارا ہدف اور مقصد كسی کی مخالفت نہيں ہے۔ ہمارے لئے سب علماء، بزرگان، قابل احترام ہيں، ليكن جب بھی علاقے ميں كوئی سياسی اور دينی ايشو (issu) پيش آتا ہے تو ہماری ٹيم مل بيٹھ كر ديكھتی ہے کہ آيا ہماری كوئی ذمہ داری بنتی ہے يا نہيں، جب ہم تشخيص ديتے ہيں تو يہ نہيں ديكھتے کہ فلاں ساتھ دے رہا ہے يا نہيں۔
انہوں نے شہيد ضياءالدين کی نصاب تحریک كا حوالہ ديتے ہوئے كہا کہ اگرچہ سياسی طور پر ہم آغا شہيد ضياءالدين اعلی الله مقامہ سے اختلاف نظر ركھتے تھے، ليكن نصاب کی تحریک اس مرد مجاہد كا خالص الٰہی كام اور جائز مطالبہ تھا، كوئی ساتھ دے نہ دے ہم نے كھل كر ساتھ ديا۔ اسی طرح حجۃ الاسلام آغا راحت الحسينی کی رہائی كے لئے جو تحريک چلائی گئی، اس ميں بھرپور حصہ لينے كا بھی حوالہ ديا۔ اسی طرح چند اور ايشوز issues كا بھی حوالہ ديا۔ خلاصہ ان کی وضاحت كا نچوڑ يہ تھا کہ ہم اپنے وظيفے کی ادائيگی ميں كسی قسم كي بھی مصلحت كا شكار نہيں ہونگے، چاہے كوئی ہم سے ناراض ہی كيوں نہ ہو جائے۔ شہید نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ہمارا ذاتی اور شخصی كسی كے ساتھ اختلاف نہيں ہے، اختلاف نظرياتی اور فكري ہے، ہم سب كے احترام كے قائل ہيں، بس ہمارا قصور یہی ہے کہ ہم انجام مسئولیت كے لئے كسی سے ڈكٹيشن (dictation) نہيں ليتے، اسی لئے ہمارے قابل احترام بزرگان ہم سے خفا رہتے ہيں۔ اس وضاحت كے بعد انہوں نے شامل ہونے اور نہ ہونے کا اختیار ہمیں دے دیا اور كہا کہ چونکہ يہ ايک فكری اور نظرياتی تنظيم ہے، جس كے لئے اگر آپ سو فيصد اتفاق كرتے ہيں تو شامل ہوسكتے ہيں۔
اس كے بعد ہميں موقع ديا گيا اور ہم ميں سے بھی ہر ايک نے اظہار خيال كيا، چونكہ ان کی گفتگو اس قدر معقول، مدلل اور قانع كننده تھی کہ ہمارے لئے كوئی سوال اور عذر كی گنجائش باقی نہيں رہی تھی۔ سب نے شامل ہونے كا اصولی فيصلہ كرليا۔ اس دن سے ميرا اس عالم مبارز اور مرد مجاہد كے ساتھ تنظيمی سفر شروع ہوا۔ شروع ميں اكثر دوستوں کی رائے سے اس سیٹ اپ كا نام مركز تعليمات و تبليغات اسلامی ركھا گيا، بعد ميں جب 1388 شمسی كو ايران كے صدارتی اليكشن كے بعد اٹھنے والے فتنے كے بعد جب رہبر انقلاب اسلامی آيت الله خامنہ ای نے خواص كو اپنے اندر بصيرت پيدا كرنے کی تاكيد فرمائی تو شہيد نے خواہش ظاہر کی کہ مركز تعليمات و تبليغات اسلامی كا نام تبديل كركے بصيرت آرگنائزيشن ركھنا چاہيئے۔ اس پر سب دوستوں نے اتفاق كيا۔ وه چند سال اسی سیٹ اپ كے صدر رہے اور سب دوستوں کی خواہش تھی کہ وه ہميشہ صدر رہيں، ليكن شہيد كا اصرار تھا کہ ہر ايک كو موقع دينا چاہيئے، سب كو مديريت سيكھنے كا موقع ملنا چاہیئے۔ يہ درست نہيں کہ ايک آدمی تنظيم کے سياه و سفيد كا مالک بنا رہے (ہمارے ہاں عام طور پر یہی ہوتا ہے)۔ انكے انكار كرنے پر ہم نے شہيد كو تنظيم كا سرپرست اعلٰی بنايا۔
اگر میں شہید کے ساتھ اپنے تنظیمی تجربے کو بیان کرنا چاہوں تو بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ان میں خوبيوں كے علاوه كچھ نہيں ديكھا، وه ہميشہ اپنے ارادے ميں پكے نظر آئے، وه اپنے زمانے كے مالک اشتر تھے، وه كبھی مصلحت كا شكار نہيں ہوئے، وه ہميشہ ذاتی اور شخصی مفاد پر دينی اور قومی مفاد كو آگے ركھنے كے قائل تھے۔ ہمارے تنظيمی ہفتہ وار پروگرام ميں مختلف كتابوں كے مباحثے كا سلسلہ ہوتا تھا، اس ميں سب دوستوں کی خواہش ہوتی تھی کہ شہيد پڑھیں اور ہم سب استفاده كريں جبکہ شہيد كا اصرار ہوتا تھا کہ پڑھانے اور اسٹيج پر جانے کی عادت سب میں ہونی چاہيئے، اسی لئے وه صرف اپنی باری كے دن پڑھتے تھے اور دوسروں کی باری كے دن انتہائی توجہ كے ساتھ سنتے تھے اور تقريری باری كے دنوں ميں بھی وه ايک انٹرنيشنل ليول (LEVEL) كے خطيب ہونے كے باوجود اپنی باری كے دن انتہائی منظم انداز ميں خطابت كرتے تھے اور اور دوستوں كي گفتگو كو بھی انتہائی متانت سے سنتے تھے، وه تنظيمی دوستوں كے ساتھ انتہائی خنده پيشانی سے پيش آتے تھے اور بہت مہربان تھے، ان کی عدم موجودگی مٹينگوں اور پروگرامز کی بےرونقی كا سبب بنتی تھی۔
وه ہميشہ نظریئے اور فكر کی بات كرتے تھے، وه نظريہ ولايت فقيہ كے حقيقی مبلغ اور عاشق تھے، وه نظريہ فروشوں كے بڑے مخالف تھے، ہميشہ علمی بنيادوں كو مضبوط كرنے کی تلقين كرتے تھے، ان کی نظر ميں ظاہری القابات کی كوئی اہميت نہيں تھی اور اس سے خوش بھی نہيں ہوتے تھے۔ ايک دفعہ حوزه علمیہ كے طلّاب کی حاليہ خامياں بيان كرتے ہوئے انہوں نے كہا کہ آج كل طلّاب اپنے آپ كو حجۃ الاسلام كہلوانے سے زياده ڈاكٹر كہلوانا پسند كرتے ہيں، مختلف علوم ميں مهارت حاصل كرنا اچھا اقدام ہے، ليكن ڈگري لينا ہی حوزه والوں كا مقصد اور ہدف بن جائے، يہ زيب نہيں ديتا۔ وه ہميشہ وقت كے پابند تھے، وه كبھی بھی تنظيمی پروگراموں ميں معقول عذر كے بغير غير حاضر نہيں رہتے تھے، اكثريت کی رائے كا احترام كرتے تھے، وه منبر كي زينت تھے، ایک ايسا توانا خطيب تھے کہ ہر بات دليل اور تحليل كے ساتھ بيان كيا كرتے تھے۔ مختصر یہ کہ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت تھی اور ان کی موت بھی حج کی عظیم اسلامی تحریک سے وصل ہوئی، گویا ایک متحرک زندگی ایک متحرک موت سے گلے مل گئی۔ خدا ہميں ان کی امانت (فكر اور مشن) كو لے كر پايہ تكميل تک پہنچانے کی توفيق عطا فرمائے۔
دور تک جاده كردار ميں سناٹا ہے
اب تو اس راه ميں تا حد نظر كوئی نہيں
تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شریفی
وحدت نیوز (مشہد) مجلس وحدت مسلمین مشہد مقدس کے زیراہتمام سالانہ پانچواں عشرہ مجالس 21 صفرالمظفر سے جاری ہے، یہ عشرہ ہر سال دفتر مجلس وحدت مسلمین مشہد مقدس میں منعقد کیا جاتا ہے جس سے اُردو زبان کے مختلف علمائے کرام اور اسکالرز خطاب کرتے ہیں، اس سال اس عشرے سے مولانا ظہیر حسین مدنی، مولانا انصاف رضا غدیری، حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین تھہیم، حجتہ الااسلام والمسلمین اُلفت حسین جوئیہ، حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ عبدالخالق جعفری اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری خطاب کر رہے ہیں، مجلس عزاء میں پاکستانی طلاب اور زائرین شریک ہوتے ہیں۔ اس عشرے کا اختتام 30 صفر کو ہوگا، توقع کی جا رہی ہے کہ آخری مجلس عزاء سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری خطاب کریں گے جو اس وقت ایران کے شہر قم المقدسہ میں موجود ہیں۔
وحدت نیوز(قم) مدرسہ حجتیہ قم المقدس ایران میں رسولِ اکرم ﷺ و امام حسن مجتبیٰؑ اور شہدائے مِنیٰ خصوصاً شہید ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کی شہادت کی مناسبت سے بعد از نمازِ مغربین سے ایک عظیم الشّان سیمینار منعقد ہوا۔
ایم ڈبلیو ایم قم کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے اس سیمینار سے حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی،فرزندِ شہید محمد عباس فخرالدّین اور ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کیا۔
مقررّین نے نبی اکرم ﷺ اور امام حسن مجتبیٰ ؑکی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین دینِ اسلام کے مخلص مبلغ اور ولایت معصومینؑ کے حقیقی مدافع تھے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امتِ مسلمہ خصوصاً او آئی سی اور اسلامی مکاتب کے دینی و سیاسی سربراہوں کو چاہیے کہ وہ سانحہ مِنیٰ کو سنجیدگی سے لیں اور نااہل سعودی حکمرانوں کو بیت اللہ کے انتظامات سے الگ کیا جائے۔
وحدت نیوز (لیہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید عدیل عباس شاہ نے کہا ہے کہ تنویر جعفری کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اور قتل کے محرکات سامنے لائے جائیں، انہوں نے وفد کے ہمراہ کروڑ میں شہید تنویر عباس جعفری کی رسم قل میں شرکت کی، اور شہید کے لواحقین سے ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہید تنویر عباس جعفری کا قتل ضلع لیہ کی پرامن فضاء کو متاثر کرنے کی سازش ہے، تاہم ملت جعفریہ خصوصاً شہید کے لواحقین نے دشمن کی اس سازش کو بھانپ لیا، پولیس حکام کی جانب سے کیس میں خصوصی دلچسپی خوش آئند ہے، تاہم قاتلوں کو گرفتار کرکے ہی ملت جعفریہ خصوصاً شہید کے لواحقین کو مطمئن کیا جاسکتا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ شہید تنویر جعفری کے قاتلوں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔