وحدت نیوز (آرٹیکل) میڈیا نے شور مچا رکھا تھا، شام اور عراق سے دہشت گرد بھاگ کر پاکستان میں جمع ہو رہے ہیں ،طوفان دستک دے رہا تھا لیکن ہمارے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے، ملک میں شانتی ہی شانتی ہے، پھر پانچ دنوں میں آٹھ دھماکے ہوئے ، دھماکے اتنے زوردار تھے کہ لوگ پانامہ کیس کو بھول ہی گئے ، اب پتہ نہیں کہ یہ دھماکےہو گئے یا کروا دئیے گئے !خیر جانے دیجئے یہ سیاسی باتیں ویسے بھی آج کل لوگ بہت اداس  ہیں، حکمرانوں سے تو انہیں کوئی امید ہی نہیں رہی،  آخر قلندر کا مزار لہو لہان ہوا ہے، مزار میں بکھری ہوئی لاشوں پر رونے والوں کو کیا پتہ تھا کہ ان کے پیاروں کے جسم کے ٹکڑے گندگی کے ڈھیر سے ملیں گے۔ ایسا کیوں ہوا !؟ خیر ہونے دیجئے ،ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن ہمیں کبھی کبھار پتہ چلتا ہے۔

البتہ حکومت نے ایک اچھا کام بھی کیا ہے، اس دھماکے کے سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا ہے، اب مزے کی بات یہ ہے کہ سہولت کاروں کے نام منیر خان جمالی اور عبدالعزیز جمالی ہیں، دونوں بلدیاتی نمائندے ہیں، خیر سے دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، آخر ملکی تعمیر و ترقی میں اپوزیشن کا بھی کوئی رول  تو ہونا چاہیے۔

جی ہاں ملکی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے، اسی لئے اگر حکومت دہشت گردوں کے وجود سے انکار کرتی ہے تو اپوزیشن ان کی سہولت کار بنتی ہے۔ اب پاکستان میں خوشحالی ضرور آئے گی چونکہ یہاں  حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ملک و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کے مطابق دہشت گردی کے بغیر پاکستان کبھی خوشحال نہیں ہوسکتا، یہ غریب  لوگ جب تک مارے نہیں جائیں گے تب تک غربت کیسے ختم ہوگی!؟  جب  تک تجزیہ و تحلیل کرنے والے دانشوروں کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک سیاسی حالات کیسے ٹھیک ہو نگے!؟  جب تک مزاروں اور مساجد میں دھماکے نہیں ہونگے  اور زخمیوں اور شہیدوں کو معاوضہ دینے کا اعلان نہیں کیا جائے گاتب تک لوگوں کو  حکمرانوں کی ہمدردی کا یقین کیسے آئے گا!؟  اگر دیانتدار پولیس آ فیسرز  اور فرض شناس فوجی جوانوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جائے گا تو لوگوں کو  ہمارے مجاہد بھائیوں کی طاقت کا اندازہ کیسے ہوگا۱؟۔۔۔

لہذا  ملک کی خوشحالی اور غربت کے خاتمے کے لئےدہشت گردی ضروری ہے ،ہماری حکومت جانتی ہے کہ سی پیک منصوبے کی طرح دہشت گردی کا دائرہ کار بھی جتنا وسیع ہوگا خوشحالی بھی  اتنی ہی زیادہ ہوگی، لہذا دہشت گردی کا روٹ بھی سی پیک کے روٹ کی طرح پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔ہماری حکومت اور اپوزیشن کی جدوجہد سے جلد ہی  آزاد کشمیر سے لے کر کراچی تک اور کراچی سے لے کر خیبر تک نہ کوئی غریب رہے گا اور نہ غربت۔ جو زندہ بچ جائیں گے وہ اپنا اگائیں گے اور اپنا کھائیں گے۔

یا پھر گھاس کھائیں گے اور ایٹم بنائیں گے، ویسے اب مزید ایٹم بم بنانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، حکومت اور اپوزیشن کو اب چھوٹے چھوٹے دھماکوں کے ذریعے غربت ختم کرنے کے بجائے پورے ملک میں ایک دو ایٹم بم پھینکوا دینے چائیے تاکہ یہ روز روز کی ٹھک ٹھک سے جان چھوٹے،  ٹھک ٹھک سے یاد آیا کہ  یہ پولیس والے بھی بہت نالائق ہیں ، ویسے ہی  دھماکے کے سہولت کاروں یعنی جمالی برادران کو پکڑ لائے ہیں، انہیں کھلا چھوڑ دینا چاہیے  تاکہ وہ غریب مکاو سکیم کو تیزی سے آگے بڑھاتے رہیں، گلو بٹ بھی تو گرفتار ہوا تھا، یہ پولیس والے بھی عجیب ہیں کیسے کیسے شریف لوگوں کو  پکڑ لیتے ہیں، خیر پولیس والوں کے پکڑنے سے کچھ نہیں ہوتا ، شریف  لوگ چھوٹ بھی تو جاتے ہیں، آخر شریف برادران  کی حکومت بھی تو ہے اس ملک میں،  شریف شریفوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔۔۔

 اب مرنا چاہیے اس بیرسٹر کو بھی جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننا چاہتا ہے، جس نے چند دن پہلے دوبارہ ایمل کانسی کیس کی وجہ سے ملک کی معزز شخصیات کے عدالت سے دوبارہ نوٹس جاری کروائے ہیں، اس بیرسٹر کو بھی پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے، بے چارہ کہتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلی شہباز شریف، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان نے امریکہ سے بھاری رقم لے کر ایمل کانسی کوامریکہ کے حوالے کیا اور اس رقم سے دوسرے ممالک میں جائیداد خریدی، اب اس بیرسٹر کو کون سمجھائے  کہ اگر چار بندوں کو پیسے مل گئے ہیں تو اس میں جلنے کی کیا بات ہے، پیسے آئیں گے تو خوشحالی آئے گی، لہذا  اگر آپ ملکی و قومی خوشحالی چاہتے ہیں تو ایمل کانسی کو جانے دیجئے اور پیسے آنے دیجئے۔۔۔

 کچھ عرصہ پہلے بھی کچھ نادانوں نے شور مچایا تھا کہ فلاں صاحب کے گھوڑے سیب کا مربہ کھاتے ہیں، یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان زمین پر گر جائے گا، بھئی اس میں شور کی کیا بات ہے، گھوڑوں کا مربہ کھانا  علامت ہے خوشحال گھرانے کی،  آپ خود اندازہ لگائیں کہ جس گھر کے گھوڑے مربہ  کھاتے ہوں اس گھر والے خود کتنے خوشحال ہونگے اور جس ملک میں ایسے خوشحال گھرانے ہوں اس ملک کی خوشحالی کے کیا کہنے، سندھ کے لوگ خوشحالی میں دھمال بہت ڈالتے ہیں، البتہ دھمال تو سیاسی لوگوں کے جلسے جلوسوں میں ڈالنا چاہیے،  قلندر کے مزار پر دھمال ڈالنا تو پرانے لوگوں کی  رسم ہے،  نئے دور میں اور سی پیک کی دنیا میں تو  دھمال  ڈالنے کا حق صرف اسی کو ہے جس کے پاس اپنا سوئس اکاونٹ ہو یا  منی لانڈرنگ  سے آشنا ہو۔ سوئس اکاونٹ یا  منی لانڈرنگ   کے بغیر دھمال جچتا ہی نہیں اور جو زبردستی  ڈالے گا اس کی لاش کے ٹکڑے گندگی کے ڈھیر سے ہی ملیں گے۔

چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ آزاد کشمیر میں ایک  شیعہ عالم دین کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے ابھی اس خبر کے زخم ہرے ہی ہیں کہ یہ  خبر بھی آ گئی ہے کہ  چارسدہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مقامی امیر مولانا کلیم اللہ کو بھی نامعلوم دہشت گردوں نے گولی مار دی ہے ، اب کون ڈھونڈے گا دہشت گردوں کو اور پھر کون پکڑے گا ان کے سہولت کا روں کو صبح پھر چند مذمتی بیانات آجائیں گے اور یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ کام بھارت اور افغانستان کا ہے۔

 بہر حال ہم جانتے ہیں کہ  بھارت اور افغانستان  کو خواہ مخواہ میں کریڈٹ دیا جارہاہے ، ان حکمرانوں اور  اپوزیشن لیڈروں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی بھارت یا افغانستان کی ضرورت ہی نہیں۔لوگ  تیزی سےمر رہے ہیں تو کیا ملک  بھی تو تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)امریکا و ایران تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا دور انقلاب سے پہلے اور دوسرا انقلاب کے بعد کا ہے، پہلا دور 1979 iran-usجنوری تک کا دور ہے جس میں امریکا ایران تعلقات ایسے تھے جیسے کہ آج کے دور میں امریکا سعودی عرب تعلقا ت ہیں یعنی ایران مشرق وسطی میں امریکی پولیس کا کردار ادا کرتا تھا، شاہ ایران اپنی شاہ خرچی میں مگن رہتا اور نظامی معمالات چاہئے و اقتصادی ہوں یا سیاسی غیرملکی سنبھالا کرتے تھے، یہاں تک کے تعلقات اس قدر قریبی تھے کہ قانوں توڑنے یا قتل کرنے پر ایرانی کو تو سزا ملتی تھی لیکن فرھنگی کو استثناء حاصل تھا، مضبوط تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگالیں کے 1957 میں مارچ کی 5 تاریخ ایران اور امریکا نے صدر آئزن ہاور پیس پروگرام کے تحت ایٹمی توانائی کے سول استعمال کا باقاعدہ معاہدہ کیا،اس معاہدے کے تحت امریکا نے ایران کوکئی کلو گرام یورینیم کی افزودگی کو لیز کیا، آج یہی امریکا ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا سب سے بڑا حریف ہے جبکہ ایران کئی بار اپنے پرامن نیوکلیئر پروگرام کی یقین دہانی بھی کرواچکا ہے،لیکن امریکا کو قبول نہیں۔

دوسرا دور انقلاب اسلامی کے بعد کا ہے جس میں امریکی دشمنی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، 11 فروری 1979 سے منقطہ ہونےوالے ایران و امریکا تعلقات میں آج تک بحالی نہیں آسکی ہے، انقلاب اسلامی کے بانی نے امریکا کو شیطان بزرگ کہا تو دوسری جانب امریکا نے ایران کو برائیوں کی جڑ قرار دیا ہوا ہے، مختلف ادوار میں ان دونوں ممالک میں گرما گرمی بڑھتی رہی ہے،کبھی لفظوں کی جنگ تیز ہوجاتی ہے تو کبھی دونوں ممالک میںمفاہمت اور گفت و شنید بھی دیکھنے کو ملی ہے، یہ سب امریکا اور ایران کی حکومتوں اور انکی پالیسی پر منحصر ہے کہ وہ تعلقات کو کس حد تک آگے بڑھائیں۔

تاریخ حقائق بتاتے ہیں امریکا میں آنے والی ڈیموکیڑیٹ پارٹی کی حکومتوں کے ادوار میں امریکی پالیسی میں ایران کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم ریپبلیکن پارٹی کا رویہ جارحانہ ہے، حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنکا تعلق بھی ریپبلیکن پارٹی ہے اپنی صدارت سنبھالتے ہیں ایران پر برس پڑے،حتی کے اپنی صدارتی مہم کے دوران بھی انہوں نے ایران کے خلاف 40سے زائد تقریر یں کیں جسے عالمی میڈیا نے ریکارڈ کیا ہے، حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پانچ جمع ایک معاہدے کے بھی شدید مخالف ہیں، امریکی صدارت کے تبدیل ہوتے ہیں امریکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی واقع ہوتی دیکھائی دی جس میں سب سے پہلے امریکی صدر نے اپنے صدار تی حکم نامہ کے تحت 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی ان سات ممالک میں ایران سمیت عراق، شام، سوڈان، لیبیا و دیگر کے شہری شامل میں ،امریکی صدر کے اس اقدام کے رد عمل میں ایران نے بھی امریکا کے شہریوں پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ ایران کے مرکزی بینک نے یہاں تک اعلان کیاہے کہ آئندہ ڈالر کی جگہ دیگر کرنسی میں تجارت کی جائیگی ۔

اس موجود صورتحال سے ایران کی انقلابی ساخت کو تو شاید کوئی نقصاں نہیں پہنچےلیکن اصلا ح پسند طبقہ حالیہ الیکشن میں ضرور متاثر ہوگا، گذشتہ دنوں ایران کے انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای نے ایک تقریر میں تنزیہ کہا کہ ہمیں ٹرمپ کا شکر گذار ہیں کیونکہ اُس نے امریکا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ،جارحیت وتشدد اور عدم برداشت پر مبنی حقیقی چہرے کودنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے، انقلاب اسلا می کے سربراہ کے اس بیان سے واضح ہوتا دیکھائی دے رہا ہے کہ ایران کا انقلابی حلقہ ٹرمپ کے شدت پسندانہ رویہ کو انقلاب کی مزید کامیابی و مضبوطی کے لئے استعمال کرے گا ، اسطرح انقلابی حلقے کا وہ موقف سچ ثابت ہوتا جارہا ہے کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں، پانچ جمع ایک معاہدے کے دوران انقلاب اسلامی کے سربراہ نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں تاہم موجود ہ ایرانی حکومت کے پروپوزل پر اس معاہدے کو آگے بڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ امریکا کی طرح ایران میں بھی دو طرح کے گروپس یا طبقات اوررحجانات پائے جائے ہیں ایک رجحان اصول گر یعنی وہ طبقہ ہے جو انقلاب اسلامی کے بنیادی اصولوں کا شدت سےحامی ہے جبکہ دوسرا اصلا حات پسند ہیں یعنی یہ پالیسوں میں اصلا ح کے خواہش مند اور دنیا کے رائج قوائین کے تحت ملک کو چلانے کے قائل ہیں ، موجود ایرانی صدر اصلا ح پسند کہلاتے ہیں اسی لئے انہوںنےانقلابی روش سے ہٹ کر امریکاسمیت دیگر معمالات میں مذاکرت کی راہ کو منتخب کیا تاہم اب اُسی امریکا کا رپبلیکن صدر اُنکے لیے خطرہ بن گیا ہے اور اِسکی جانب سے اُٹھائے جانے والے اقدامات نے آئندہ آنے والے الیکشن میں اصول گروں (انقلابیوں ) کے لئے مزیدراہ ہموار کردی ہے ،کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات اصول گر صدارتی امیدوار کے لئے الیکشن مہم کا کردار ادا کریں گے۔

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق آئندہ ایران میں صدارتی الیکشن جون 2017 میں ہونے تھے تاہم رمضان المبارک کی وجہ سے یہ الیکشن مئی میں متوقع ہیں، اس حوالے سے معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ابھی تک اصلاح پسند وں کی جانب سے کوئی واضح شخصیت بحیثیت صدارتی امیداور سامنے نہیں آئی ہے، البتہ موجود ایرانی صدر حسن روحانی دوبارہ الیکشن لڑ سکتے ہیں، لیکن انکے خلا ف عدالتوں میں کئی کیسس موجود ہیں جسکی وجہ سے یہ گمان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں ڈی کولیفائی کردیا جائےگا۔ جبکہ اصول گر وں کی جانب سے مختلف شخصیات کے حوالے سے چیہ مگوئیاں کی جاری ہیں جن میں بڑا نام خود سابق ایرانی صدر احمد نژاد کا ہے،احمد نژاد کے حوالے سے خبر سامنے آئی تھی کہ انقلاب اسلامی کے سربراہ نے انہیں الیکشن لڑنے سے منع کیا ہے لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے منع نہیں کیا لیکن کسی بھی تصادم سے بچنے کے لئے احتیاط کرنے کو کہاگیا تھا،چونکہ یہ احتیاط اس وجہ سے بھی تھی کہ احمد نژاد اور مرحوم آیت اللہ رفسنجانی کے درمیان اختلافات موجود تھے ،آیت اللہ رفسنجانی اصلاح پسندوں کی بڑی شخصیات میں شامل تھے ، چونکہ اب مرحوم اس دنیا میں نہیں رہے اس وجہ سے شاید احمد نژاد دوبار الیکشن میں سامنے آجائیں، اسکے علاوہ چند اور نام بھی سامنے آئے ہیں۔

قوی امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ آئندہ ایران میں احمد نژاد اور موجود ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا، اور اگر احمد نژاد الیکشن جیت جاتے ہیں عالمی معمالات میں امریکا ایران اور لے کر مزید نئی تبدیلیاں اور تناو بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔

لیکن مضبوظ ذرائع کا کہناہے کہ حالیہ الیکشن میں اصول گرا ایک ایسی شخصیت کو سامنے لانے کے لئے کوشیش کررہے ہیں جو اس وقت انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیئے جاتے ہیں ، یہ شخصیت آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی ہے، آیت اللہ ابراہیم ریئسی مشہد میں حرم امام رضا کے مسئول ہیں، وہ ماضی میں ایرانی عدالتی نظام میں اہم عہدہ پر بھی فائر رہے ہیں جبکہ ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۶ تک آڑانی جنرل کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ہیں، وہ جنوبی خراسان صوبہ سےماہرین کونسل کے رکن بھی ہیں، آیت اللہ ابراہیم رئیسی کے بارے میں دی گارجین نے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی اور کہا تھا کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کو آئندہ رہبر یت کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں کون دنیا کی سپر طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا ہے اور ایرانی عوام اُسے منتخب کرتے ہیں، اسکا فیصلہ تو الیکشن کے بعد ہی سامنے آئے گا مگر یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ایرانی الیکشن کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔


تحریر۔۔۔۔سید محمد احسن

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے زیر اہتمام دربار لعل شہباز قلندر سیہون شریف میں 23فروری بروز جمعرات ایک عظیم الشان’’تحفظ مزارات کانفرنس‘‘کا انعقاد ہو گا۔جس میں سندھ کی مختلف مذہبی و سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی۔کراچی وحدت ہاوس صوبائی دفتر میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے کہا ہے کہ اولیا اللہ کے مزارات اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں۔یہ وحشت ناک کھیل کھیلنے والے درندے انسانیت کے مجرم ہیں۔آئے روز قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بننے والی تکفیری سوچ اور دہشت گردی کے خلاف تمام امن پسند قوتوں کو یکجا ہونا ہو گا۔سندھ کی پُرامن سرزمین کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے متعدل جماعتوں پر مشتمل ایک گرینڈ الائنس کی تشکیل کے لیے مشاورت جاری ہے۔اس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے۔یاد رہے کہ درگاہ لعل شہباز قلندر میں ہونے والے المناک سانحہ کے خلاف مجلس وحدت مسلمین سندھ موثر انداز سے اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔دہشت گرد عناصر سے نفرت کا عملی مظاہرہ مجلس وحدت مسلمین کی کال پر ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھرپور احتجاج کی صورت میں سامنے آیا۔انہوں نے مذید کہا کہ تحفظ مزارات اولیا کانفرنس تکفیریت اور انتہا پسندی کے خلاف ایک تاریخی اجتماع کے طور سندھ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔اجلاس میں علامہ مبشر حسن ،مولانا صادق جعفری،علامہ نشان حیدر، علی حسین نقوی،تقی ظفر، یعقوب حسینی سمیت دیگر ذمہ داران موجود تھے۔

وحدت نیوز (خیرپورناتھن شاہ) مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے خیرپور ناتھن شاہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ پر دھشت گرد حملہ پاکستان اور سندہ پر حملہ ہے، اس المناک سانحے میں تکفیری داعش ملوث ہے جسے لشکر جھنگوی اور طالبان جیسے دھشت گرد گروہوں کی مدد حاصل ہے۔ تکفیری مراکز اور مدارس دہشت گردی کی نرسری کا کام کرتے ہیں، جہاں طالبان کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور یہاں سے دھشت گردوں کے سہولت کار تیار کئے جاتے ہیں۔سندہ حکومت کی طرف سے حال ہی میں ۹۴۴ ایسے مراکز کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں دہشت گرد تیار کئے جاتے ہیں، مگر وفاقی حکومت اور ن لیگ کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور رانا ثناء اللہ کے دھشت گردوں سے روابط سے سبھی واقف ہیں۔ آج بھی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں کثرت سے دھشت گردوں کے سہولت کار اور وکلائے صفائی موجود ہیں ۔ ہم سوال پوچھتے ہیں کہ اپیکس کمیٹی سندہ نے دھشت گردی میں ملوث جن مراکز کی نشاندہی کی ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوئی۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے دھشت گردی اور مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کے خلاف قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ ملک گیر دھرنے اور شکارپور سے کراچی تک لانگ مارچ اس کی عمدہ مثال ہیں۔ایم ڈبلیو ایم صوبہ سندہ کے زیراہتمام ۲۳ فروری کو سہون شریف میں دھشت گردی اور مذہبی منافرت کے خلاف (تحفظ مزارات اولیاء اللہ کانفرنس) منعقد کی جارہی ہے۔ کانفرنس کا مقصد ملک میں اور خصوصا سندہ میں بڑھتے ہوئے دھشت گردی کے نیٹ ورک اور دھشت گردی کے تربیتی مراکز کی نشاندہی کرنا ہے۔ دھشت گردی اور مذہبی منافرت کے خلاف امن و اتحاد کا پیغام دینا ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے وطن عزیز پاکستان دھشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے ، دھشت گردوں کے ہاتھوں اب تک اسی ہزار پاکستانی شہری شہید ہوچکے، ہم ملک کی تمام امن پسند قوتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے دھشت گردی کے خاتمہ کے لئے ہمارا ساتھ دیجئے۔فوجی عدالتوں کے ہوتے ہوئے ہمیں انصاف نہیں ملا۔ ہزاروں شہداء کے وارث آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ سندہ حکومت بھی سانحہ شکارپور اور جیکب آباد کے متاثرین سے کئے گئے وعدے پر عمل در آمد نہیں کررہی۔
 ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے ارباب اختیار کا مزید غلطیاں کرنے کا پختہ ارادہ ہے، آزاری ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام سے جھوٹ بولا جاتا ہے، جبکہ فیصلے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر چند ریال اور ڈالر کے عوض اغیار کو خوش کرنے کے لئے کیئے جاتے ہیں۔ آخر حکومت عوام کی منتخب پارلیمنٹ میں ان معاملات کو لانے سے کیوں خائف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وسیع تر مشاورت کے نتیجے میں سندہ سطح کا الائنس تشکیل پائے جودھشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرے۔ اس سلسلے میں عنقریب سندہ سطح پردھشت گردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ آل پارٹیز کانفرنس سندہ کے عوام کے لئے بہتر نتائج کی حامل ہوگی، اور اس کے نتیجے میں عوام کے بنیادی مسائل کی نشاندہی ہوگی اور دھشت گردی کے خاتمہ کے لئے مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہوگا۔ آخر میں آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

وحدت نیوز( ملتان)مجلس وحدت مسلمین ملتان کی جانب سے ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے اعزاز میں جامع مسجد الحسین میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا، عشائیہ کی تقریب میں مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، صدر ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن ملتان ایم یوسف زبیر، جنرل سیکرٹری سید انیس مہدی، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر یافث نوید ہاشمی، ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی، ضلعی سیکرٹری جنرل سید ندیم عباس کاظمی،علامہ قاضی نادر حسین علوی، سید سمیع گردیزی ایڈووکیٹ، ملک بختیار مہدی ایڈووکیٹ، اقبال حسین خان کشفی، سید فیاض زیدی ایڈووکیٹ اور دیگر موجود تھے۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن ملتان کے صدرایم یوسف زبیر نے کہا کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت میں مجلس وحدت مسلمین کے شانہ بشانہ ہیں، ہمیں پاکستان کو دہشتگردوں ، فرقہ پرستوں اور انتہاپسندوں سے نجات دلانی ہے، محض چند دہشتگردوں کی وجہ سے عالم اسلام پر دشمنوں کی انگلیاں اُٹھانا ایک منظم سازش ہے۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ وکلاء ہمارے معاشرے کا ایک اہم ستون ہیں، معاشرے میں انصاف کے حصو ل کا ذریعہ ہیں، جس معاشرے میں انصاف کا حصول ناپید ہوجائے وہ تباہ ہوجاتا ہے، اُنہوں نے کہا کہ ملک پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے دیگر طبقات کی طرح وکلاء کی بھی بڑی قربانیاں ہیں، ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی پر جنوبی پنجاب کو محروم رکھنا پسماندہ علاقے کے وکلاء کے ساتھ زیادتی ہے، اس حوالے سے وکلاء کی تحریک اور احتجاج کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔اُنہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں موجود بار کونسل اور کچہریوں میں اضافی سیکیورٹی تعینات کی جائے۔ آخر میں علامہ اقتدار حسین نقوی نے ملکی سلامتی ، استحکام اور شہداء کے بلندی درجات کے لیے دعا کرائی۔

وحدت نیوز (سکھر) مجلس وحدت مسلمین ضلع سکھر کے کندھرا سیکٹر کی شوریٰ کا  اجلاس ضلعی سیکریٹری جنرل چوہدری اظہر حسن کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں اراکین شوریٰ نے کثرت رائے سے برادر میر انور علی ٹالپورکو ایک بار پھر بھاری اکثریت سے سیکٹر کندھرا کا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا، نو منتخب سیکریٹری جنرل میر انور ٹالپور سے ضلعی سیکریٹری جنرل چوہدری اظہر حسن نے حلف لیا،اجلاس میں سیکٹر کے تمام آٹھ یونٹس سمیت ضلعی کابینہ  کے برادر احسان علی شر ایڈوکیٹ،برادر منتظر مھدی، برادر سید ماجد شاہ، برادر فتح علی میرانی نے شرکت کی،اس موقع پر صوبائی سیکریٹری تعلیم  برادر آفتاب حسین میرانی و ضلعی سیکریٹری جنرل چوہدری اظہرحسن نے شرکاء اجلاس سے خطاب کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree