وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی سید محمد رضا رضوی(آغا رضا) نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لبرل طاقتوں نے دنیا پر ناجائز تسلط حاصل کرنے اور کمزور اقوام و ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے شدت پسندی اور انتہا پسند نظریات کا اختراع اور اپنے استعماری منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تکفیریت اور دہشتگردی کو نام نہاد جہاد و اسلامی رنگ دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش کی۔نادان مسلمان جوانوں کو جہاد کے نام پر درندہ صفت بناکر خود مسلمانوں کا قتل عام کرایا گیا۔ تمام لبرل مغربی دنیا نے روس کو افغانستان میں شکست دینے کیلئے وطن عزیز کے اس وقت کے آمر ضیاالحق اور بعض اسلامی ممالک کا استعمال کرکے طالبان کی صورت میں دہشتگرد گروہ بنائے۔ اس وقت لے بعد وطن عزیز میں طالبان مخالف اور افغان پالیسی کے مخالف مسالک کو دبانے کی خاطر بے رحم دہشتگرد کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیادہشتگردی کے جواز کی خاطر انتہائی خطرناک سٹریٹسٹی اپنائی گئی۔ اسلام کے دو بازوں شیعہ سنی مسالک کو لڑانے کیلئے توہین اور تکفیر والے پیدا کئے گئے اور اس کی آڑ میں دونوں طرف اسلام پسند نظریات رکھنے والے علماء، شخصیات اور عوام کا قتل عام کرایا گیا۔دوسری طرف سے دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ مشترکہ عوامی رد عمل کیلئے بعض نام نہاد قوم پرست لبرل پارٹیاں بنا کر دہشتگردوں کو بعض اسلامی ممالک کے پراکسی وار کا نام دیا گیا۔عوام کو کنفیوز، دہشتگردوں کی وکالت اور نادیدہ قوتوں کو خوش کرنے کیلئے پراکسی وار کا شوشہ چھوڑا گیا جس کے ذریعے شہیدوں ، ذخمیوں اور متاثرہ اقوام کی مظلومیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔آج بھی عالمی لبرل قوتیں اسلامی ممالک میں داعش و دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کرکے محکوم اقوام کو غلام بنا کر عالمی استعماری واستکباری حکومت قائم کرنے کے منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوش کررہے ہیں۔دوسری جانب وطن عزیز اسلاامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل و سیکولر بنانے کے تباہ کن نعرے بلند ہو رہے ہیں۔جو عوامی خواہشات اور آئین کے ضافی ہے۔لبرل ازم اور شدت پسندی دونوں ہی وطن عزیز کیلئے نقسان دہ ہیں۔ملک کو تکفیریت کی ضرورت نہ ہی لبرل ازم کی بلکہ وطن عزیز کو معتدل اسلامی جمہوری نظریات کی ضرورت ہے جو نظریہ پاکستان اور عوامی خواہشات سے ہم آہنگ نظریہ ہے۔معتدل اسلامی نظام جمہوری نظریات رکھنے والوں کو سیاسی، سماجی، علمی، اقتصادی غرض تمام میدانوں میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید عباس علی موسوی کے جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہکسی بھی معاشرے میں بہتری اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک وہاں کے رہائشی خود کسی تبدیلی کے خواہاں نہ ہو، ملکی سلامتی اور قیام امن کیلئے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ایک پرسکون، ترقی پسند اور ترقی یافتہ معاشرے کیلئے جدو جہد کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت وطن عزیز شدید مشکلات اور بدترین حالات سے دوچار ہے، بیرونی قوتیں وطن عزیز میں دہشتگردی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہم آپس میں جتنا لڑیں گے دشمن کو اتنا ہی فائدہ ہوگا، ہمارا اتحاد ملک کو اس سنگین حالات سے نکال سکتا ہے ۔ کسی بھی کام کیلئے پہلا قدم شرط ہے، اگر ہم خوشحالی اور ترقی کے خواہاں ہیں تو ہمیں تبدیلی کی ابتداء اپنی ذات سے کرنی ہوگی کیونکہ قومیں اپنی اصلاح کرکے آگے بڑھتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردی کے علاوہ طبقاتی نظام، سیاسی کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، مہنگائی، بے روزگاری، توانائی بحران ، زندگی گزارنے کی سہولیات کے فقدان اور دیگر مسائل نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ برسوں ہم بحیثیت ایک قوم ملک کی فلاح کیلئے کام نہیں کررہے تھے، امن کی بحالی کی امیدیں ختم ہو چکی تھی اور ہم اس بات کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ ہمارا اتحاد اور ہماری یکجہتی وہ قوت رکھتی ہے جو تمام مشکلات کا سامنا کر سکتی ہے۔ ہمیں ایسے معاشرے کے قیام کیلئے جدو جہد کرنا چاہئے جہاں ہم آہنگی، برداشت، امن، خوشحالی کا راج ہو اور جہاں لوگ سکون سے رہ سکے اور اپنی ترقی کا سفر طے کریں۔ بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل کے حل کیلئے عملی کاؤشیں کرنا ہوگی تاکہ عوام کو ریلیف مل سکیں اور وہ معاشی آسودگی کے بعد ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے استحکام پاکستان میں اپنا حصہ ڈال سکیں کیونکہ معاشی طور پر خوشحال عوام ہی ریاست کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سیکرٹری یٹ میں سانحہ گلش اقبال پارک میں شہید ہونے والے افراد کے لیے عائے مغفرت کی گئی جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے خصوصی دعا کی گئی اس موقع پر علامہ مختار امامی نے گلشن اقبال پارک میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ملک اور اسلام دشمنوں کی کارروائی قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات نے ضرب عضب آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کو بے نقاب کردیا ہے۔ ریاستی اداروں کو واضح کرنا چاہیے کہ درجنوں ایجنسیوں کی موجودگی اور ٹائٹ سکیورٹی کے دعووں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائی لاہور میں کیسے ہوئی ؟ ان کا نیٹ ورک ابھی تک کیوں نہیں تو ڑا جاسکا ۔ دہشت گرد ،جب اور جہاں چاہتے ہیں بے گناہوں کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔ علامہ مختار امامی نے کہا کہ پنجاب سمیت جہاں بھی دہشت گردی ہیں، ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ چاہے فوجی اور رینجرز کے آپریشن ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو۔

 انہوں نے کہا کہ تخریبی کارروائیوں کے جاری رہنے سے لگتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان سے دہشت گردوں کو تو نقصان نہیں انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب دوہرے معیار کے باعث اپنی افادیت کھو رہی ہے۔حکومت دہشت گردوں کے خلاف اچھے بُرے کی تمیز سے بالاتر ہو کرطالبان،دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کرے بصورت دیگر ملک میں امن کا قیام محض خواب بنا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بے گناہ محب وطن افراد کو ہراساں کیا گیا جبکہ ملک دشمن عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ہم متعدد بار یہ مطالبہ دوہرا چکے ہیں کہ ان مدارس اور کالعدم جماعتوں کے خلاف موثر کاروائی کی جائے جو دہشتگردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں۔پنجاب حکومت کے پاس ان تمام مدارس اور کالعدم جماعتوں کے مکمل کوائف موجود ہیں لیکن ان پر ہاتھ ڈالنے سے حکومْت کو اپنے ووٹ بینک کے متاثر ہونے کا ڈر ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان مکمل ناکام ہو چکا ہے۔حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ سے بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب دوہرے معیار کے باعث اپنی افادیت کھو رہی ہے۔حکومت دہشت گردوں کے خلاف اچھے بُرے کی تمیز سے بالاتر ہو کرطالبان،دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کرے بصورت دیگر ملک میں امن کا قیام محض خواب بنا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بے گناہ محب وطن افراد کو ہراساں کیا گیا جبکہ ملک دشمن عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ہم متعدد بار یہ مطالبہ دوہرا چکے ہیں کہ ان مدارس اور کالعدم جماعتوں کے خلاف موثر کاروائی کی جائے جو دہشتگردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں۔پنجاب حکومت کے پاس ان تمام مدارس اور کالعدم جماعتوں کے مکمل کوائف موجود ہیں لیکن ان پر ہاتھ ڈالنے سے حکومْت کو اپنے ووٹ بینک کے متاثر ہونے کا ڈر ہے۔پنجاب حکومت میں موجود چند شخصیات کے دہشت گردوں سے گہرے مراسم رکھتے ہیں ۔یہی تعلقات دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔حکومت کی اس تساہل پسندی نے ملک میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے لیے آئے دن کسی بڑے واقعہ کی ضرورت رہتی ہے۔کیا ان مذموم عناصر کے خلاف اس وقت تک کاروائی ممکن نہیں جب تک یہ لاشیں نہ گرائیں۔

علامہ ناصر عباس نے مطالبہ کیا کہ فوج ایسے عناصر کے خلاف بلاتاخیر فیصلہ کن آپریشن شروع کرے۔ مدارس کی فنڈنگ،تعلیمی نصاب اور طلبا کی غیر نصابی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا جائے اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر پر بھی ہاتھ ڈالے جائیں جو مضبوط تائیدکندگان کے طور پر ان مذموم قوتوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں.دریں اثنا مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمداقبال کامرانی نے اپنے وفد کے ہمراہ ہسپتال کا دورہ کیا اور لاہور بم دھماکے کے زخمیو ں کی عیادت کی۔زخمیوں سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ کامرانی نے کہاکہ دہشت گرد طاقتیں وطن عزیز کو عدم استحکام کا شکارکرنا چاہتی ہیں۔ہم نے وحدت کے ہتھیاراور عزم سے شکست دینا ہو گی۔

وحدت نیوز (انٹرویو) اقرار حسین ملک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری روابط ہیں، اس کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم کے سالانہ تنظیمی کنونشن کے چیئرمین بھی ہیں اور وہ اس وقت تنظیمی کنونشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، بنیادی تعلق دینہ سے ہے۔ آئی ایس او راولپنڈی ڈویژن میں 1990ء میں بطور ممبر رہے ہیں، اس کے علاوہ  دو سال شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے زیرتربیت بھی رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی کی شہادت کے بعد سے ابتک ملی اور قومی سفر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اقرار حسین ملک سے تنظیمی کنونشن کی تیاریوں اور ایم ڈبلیو ایم کے 6 سالہ تنظیمی سفر پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

سوال : ایم ڈبلیو ایم اپنی تاسیس کی باضابطہ طور پر دوسری ٹرم مکمل کرنے جا رہی ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ اب مجلس وحدت مسلمین کہاں کھڑی ہے، متعین کردہ اہداف میں کامیابی کا گراف کیا رہا ہے۔؟

اقرار حسین ملک: میں بہت مشکور ہوں کہ اسلام ٹائمز نے مجھے اس موضوع پر لب کشائی کا موقع دیا۔ آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، دیکھیں میں سمجھتا ہوں کہ قومیات چند سالوں یا برسوں کا نام نہیں ہے، قوم بنتے بنتے کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں، اس کیلئے کوئی ایک دو ٹرم کافی نہیں ہوتیں کہ آپ قوم کے تمام مسائل حل کرسکیں یا ہو جائیں، ہاں ہم نے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا اس سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں، کئی امور میں کامیابی سمیٹی ہیں۔ مجلس کی کارکردگی اور کامیابیوں کا تجزیہ کرنے سے قبل اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس کی تاسیس سے پہلے کیا صورتحال تھی، پاراچنار کا 3 سالہ محاصرہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ اور کراچی سمیت کوئٹہ کے حالات ایسے بن گئے تھے کہ یہ جماعت وجود میں آگئی، اس سے پہلے کوئی ایسی منظم سوچ موجود نہیں تھی کہ ہم نے کوئی جماعت بنانی ہے، تشیع کیخلاف ہونے والے مظالم کے خلاف جمع ہوئے، ریاست اور ریاستی اداروں کی چشم پوشی اور طالبان کو فری ہینڈ دینے کے خلاف ہم اکٹھے ہوئے، اس کے بعد سب اس نتیجے پر پہنچے کہ مکتب کی حفاظت اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے اجتماعی سفر ناگزیر ہے، تب جا کر مجلس کے قیام کا فیصلہ ہوا۔

آپ نے دیکھا کہ گلگت بلتستان کے غیور فرزندوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو اور سانحہ چلاس یا دوسرا سانحہ، اسی طرح ڈیرہ اسمعیل خان کے حالات ہوں یا پارہ چنار کی صورتحال، کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری کا قتل عام ہو یا پھر کراچی اور اندرون سندھ میں ہونے والے سانحات، ہر معاملے پر مجلس میدان میں نظر آئی ہے، مجلس نے سیاسی میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تو عام الیکشن میں تجربات نہ ہونے کے باوجود ہم نے کوئٹہ سے ایک ایم پی اے کی نشست حاصل کی اور اس ممبر صوبائی اسمبلی کے کام دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک وزیر بھی اتنے کام نہیں کرسکتا، جتنے اس اکیلئے بندے نے کئے ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں الیکشن میں گئے، تمام حکومتی اور ریاستی مخالفت کے باوجود ہماری نمائندگی اسمبلی میں موجود ہے، اسی طرح مخدوم امین فہیم جہاں سے ہر بار جیتتے تھے اور ان کی رحلت کے بعد مجلس نے ضمنی الیکشن لڑا تو مخدوموں کو پہلی بار کسی جماعت سے پالا پڑا۔ ایم ڈبلیو ایم نے ضمنی الیکشن میں 17 ہزار ووٹ لیکر سب کو حیران کر دیا اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

یہ یاد رکھیں کہ اس ضمنی الیکشن میں نون لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سمیت کسی قوم پرست جماعت نے حصہ لینے کی جرات تک نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفر جاری ہے اور مخلص رہنما اس فیلڈ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور انشاءاللہ ایک دن ایک قوت بن کر دکھائیں گے۔ یاد رکھیں کہ جب مجلس کا قیام عمل میں آیا تھا تو ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ قوم کو مایوسی سے نکالیں گے، اس کی دبی ہوئی آواز کو بلند کریں گے، اس قوم نے یہ صورت حال بھی دیکھی کہ چالیس پچاس جنازے اٹھے، لیکن کسی سیاسی جماعت نے تعزیت تک کرنا گوارہ نہ کی، کوئی ہمیں پوچھتا تک نہ تھا، حتیٰ میڈیا پاراچنار کے ایشو پر کوئی خبر چلاتا تھا تو اسے دوگرہوں کی لڑائی کرکے چلاتا تھا، کوئٹہ کے واقعات پر خبریں دبا دیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے سب کچھ کر لیا ہے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ بہت حد تک ہم نے ایسے کام کئے ہیں، جس کی بنیاد پر قوم میں امید کی کرن جاگی ہے۔ اس لحاظ سے آپ کامیابیوں کے گراف کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

سوال : ان چھ برسوں میں فلاحی اعتبار سے مجلس کہاں کھڑی ہے؟

اقرار حسین ملک: جی مجلس وحدت مسلمین نے اپنی تاسیس کے بعد خیرالعمل فاونڈیشن کا ادارہ بنایا ہے، جس نے ابتک اسپتالوں کے قیام، ڈسپنسریاں، سیلاب زدگان کیلئے گھروں کی تعمیر اور مساجد نیٹ ورک پر کام کیا ہے۔ الحمد اللہ یہ ادارہ اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے، اس وقت یہ ادارہ ایک اچھی خاصی رقم اپنے فلاحی منصوبوں پر صرف کرچکا ہے، ان منصوبوں پر ابتک کتنی رقم صرف ہوئی ہے، اس کے صحیح اعداد و شمار خیرالعمل فاونڈیشن سے مل سکتے ہیں۔

سوال : آپکی جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ ہم شہید قائد کا علَم لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، شہید کی فکر پر کتنا کام کیا ہے؟

اقرار حسین ملک: جی میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت تک ایم ڈبلیو ایم کی جتنی بھی فعالیت ہوئی ہے، اس کا رخ اور جہت شہید قائد کی فکر پر مشتمل ہے۔ شہید قائد نے مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کے موقع پر جو جہت دی تھی، ہم اسے لیکر آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے سفر کی جانب گامزن ہیں، اہداف کا گراف کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوسکتا ہے، اس کی وجہ حکومتوں کی تبدیلی، سکیورٹی صورتحال اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ یقیناً یہ چیزیں آپ کی تنظیمی سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں، اس کے علاوہ شہید قائد نے اتحاد و وحدت کیلئے جو علَم بلند کیا تھا، اسی وجہ سے انہیں شہید وحدت بھی کہا جاتا ہے، ہم اس کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، ہم جہاں اتحاد بین المومنین کیلئے کوشاں ہیں، وہیں ہم نے اتحاد بین المسلمین کیلئے بھی کام کیا ہے، ہم نے تمام مذہبی جماعتوں سے رابطے بڑھائے ہیں، پاکستان میں پہلی بار عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر شیعہ سنی مشترکہ اجتماعات کا انعقاد کیا گیا، ہماری طرف سے سنی بھائیوں کے استقبال کیلئے استقبالیہ کمیپ لگائے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک مختصر تکفیری ٹولہ ہے، جو دونوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ سیاسی حوالے سے شہید نے قرآن و سنت کانفرنس میں ایک دستور دیا، ہم اس پر بھی گامزن ہیں۔

سوال : اس بار کنونشن کو کیا نام دیا گیا ہے اور اسکے کیا اہداف مقرر کئے گئے ہیں؟

اقرار حسین ملک: جی اس بار ہم نے کنونشن کو ’’پیام وحدت‘‘ کا عنوان دیا ہے، ہم نے یہ نام مقامی اور عالمی حالات کے تناظر میں دیا ہے اور یہی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی فکر ہے اور ان کی تقاریر میں ملتا ہے، پیام وحدت سے مراد کہ اس ملک کے باسی ملکر رہنا چاہتے ہیں، ہم کسی تفرقے کے قائل ہیں اور نہ ہی کسی کو اجازت دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے امن کو تہہ و بالا کر دے۔ ہماری جماعت کا نام بھی وحدت مسلمین ہے تو ہم وحدت کے داعی ہونے کے ناطے اس پر عمل پیرا ہیں۔ کنونشن میں فوکس داخلی وحدت کو کیا گیا ہے، اس حوالے سے تمام شیعہ جماعتوں کو مدعو کرنیکا سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے تمام مدارس کو بھی اس حوالے سے مدعو کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کنونشن اتحاد و وحدت کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

سوال: دعوتی عمل کہاں تک پہنچا ہے اور کونسی بڑی شخصیات کی شرکت متوقع ہے؟

اقرار حسین ملک: آئی ایس او، آئی او اور شیعہ علماء کونسل سمیت دیگر کئی جماعتوں کو دعوت دے رہے ہیں، اسی طرح شخصیات کی بات کریں تو شیخ محسن نجفی اور علامہ سید جواد نقوی صاحب ہیں۔ اسی طرح مدارس دینیہ سے تعلق رکھنے والے احباب ہیں، سب کو مدعو کر رہے ہیں، تقریباً 80 فیصد دعوتی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ باقی اسی ہفتہ تک مکمل کرلیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ تمام شیعہ اسٹیک ہولڈرز کو کنونشن میں لائیں اور انہیں مدعو کریں، اس سے اتحاد بین المومنین کے حوالے سے اچھا پیغام جائیگا اور یہی قوم کے ہر فرد کا مطالبہ ہے۔ یہ کنونشن 8، 9 اور 10 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔ اس کا پروگرام مکمل کر لیا گیا ہے اور انتطامات اپنی حتمی شکل کی طرف جا رہے ہیں۔

سوال : شیعہ علماء کونسل کو بھی دعوت دے دی ہے یا ابھی دینا باقی ہے؟

اقرار حسین ملک: جی ہماری شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی صاحب سے دو مرتبہ ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے، آجکل میں انہیں باضابطہ طور پر کنونشن کی دعوت دیں گے، کیونکہ وہ لاہور میں جامعۃ المنتظر میں ہونے پروگرام میں شریک تھے، جیسے ہی راولپنڈی پہنچیں گے تو ہم وفد کی صورت میں انہیں اور ان کی جماعت کو دعوتی کارڈ دیں گے۔

سوال: کنونشن کا بڑا ایونٹ کیا ہے؟

اقرار حسین ملک: دیکھیں، بنیادی طور پر یہ ایک تنظیمی کنونشن ہے، جس میں ملک بھر کے تمام اضلاع سے مرکزی شوریٰ کے ارکان شرکت کریں گے، اس بار کنونشن کی خاص بات یہ ہے کہ نئے سیکرٹری جنرل کا انتخاب عل میں لایا جائیگا۔ تین روزہ کنونشن کے اختتام پر ہماری عمومی نشست ہوگی، جس میں ہم نے ’’پیام وحدت‘‘ کانفرنس رکھی ہے، جس میں تمام تنظیموں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے اور اسی نشست میں ہی نئے سیکرٹری جنرل کا باضابطہ طور پر اعلان کیا جائیگا۔

سوال: کیا اس بار مجلس وحدت مسلمین نئی قیادت یا نیا چہرہ سامنے لائے گی؟
اقرار حسین ملک: دیکھیں یہ ایک جمہوری عمل ہے، مجلس کے ادارے موجود ہیں، دستور موجود ہے، جس میں نئے سیکرٹری جنرل کے چناو کا مکمل طریقہ کار موجود ہے، تمام صوبوں سے اور مرکزی کابینہ سے نئے سیکرٹری جنرل کے لئے نام شوریٰ عالی کو بھجوا دیئے گئے ہیں، اب یہ شوریٰ عالی کا اختیار ہے کہ وہ ان ناموں میں سے دو اور اپنی طرف سے ایک نام شامل کرکے تین نام مرکزی شوریٰ کو پیش کرے، اس کے بعد یہ اختیار شوریٰ مرکزی کے پاس چلا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے سیکرٹری جنرل کو چنیں۔ تو اس تمام صورتحال میں اس بارے میں کچھ بھی کہنا غلط اور قبل ازوقت ہوگا۔ ہم کہتے ہیں انتظار کیجئے اور دیکھیے کہ مجلس کے ادارے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، اچھا فیصلہ کریں گے۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے نئے شمسی سال ۱۳۹۵ کے آغاز کی مناسبت سے ایرانی ہم وطنوں، عید نوروز منانے والی اقوام ، خاص طور پر شہداء کے اہل خانہ کو عید نوروز اور نئے شمسی سال کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے اور شہیدوں اور امام بزرگوار رح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نئے سال کو " استقامتی معیشت، اقدام اور عمل" کا نام دیا ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے نئے شمسی سال ۱۳۹۵ کے ابتدائی اور اختتامی ایام، حضرت فاطمہ زہرا سلام الللہ علیہا کی ولادت کے ایام کے ہمراہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ سال، ملت ایران کے لئے مبارک سال ہوگا اور ان عظیم خاتون کی رہنمائی اور انکی زندگی سے درس حاصل کیا جانا چاہئے اور انکی معنویت سے بہرمند ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ سال کا جائزہ لیتے ہوئے، گذرے ہوئے سال یعنی ۱۳۹۴ شمسی کو دوسرے سالوں کی مانند، تلخیوں اور شیرینیوں، فراز و فرود اور چیلنجز اور مواقع کا سال قراردیا اور فرمایا کہ منیٰ کے حادثے کی تلخی سے لے کر ۲۲ بہمن کی ریلی اور ۷ اسفند کے انتخابات اور اسی طرح مشترکہ ایٹمی پلان کا تجربہ اور وہ امیدیں جو روشن ہوئیں اور انکے ساتھ ساتھ جو پریشانیاں تھیں، یہ تمام سال ۹۴ شمسی کے واقعات تھے۔

آپ نے نئےسال میں درپیش امیدوں، مواقع اور چیلنجوں کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہنر یہ ہے کہ مواقع سے حقیقی معنی میں استفادہ کیا جانا چاہئے اور چیلنجز کو بھی مواقع میں تبدیل کر دینا چاہئے، اس انداز سے کہ جب سال کا اختتام ہو تو ملک میں تبدیلی کو محسوس کیا جائے لیکن امیدوں کے برآنے کے لئے جدوجہد، دن رات محنت اور بغیر وقفے کے سعی و کوشش کی جانی چاہئے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں ملت ایران کی مجموعی حرکت کے بارے میں بنیادی اور اصلی نکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کو چاہئے کہ وہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو نقصان پہنچنے کی سطح سے باہر نکالے اور دشمن کی جانب سے نقصان پہنچنے کی شرح صفر فی صد ہو جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کام کے لئے سب سے پہلا اور فوری قدم اقتصاد کو قرار دیا اور فرمایا کہ اگر ملت، حکومت اور تمام حکام معیشت کے مسئلے میں صحیح، بجا اور منطقی کام انجام دیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ کام اجتماعی مسائل اور مشکلات، اخلاقی اور ثقافتی مسائل سمیت دیگر مسائل میں بھی موثر واقع ہو سکتا ہے۔

آپ نے "ملکی پیداوار"، "روزگار کی فراہمی اور بے روزگاری کے خاتمے"، " اقتصادی رونق اور خوشحالی اور کساد بازاری سے مقابلے" کو بنیادی اقتصادی مسائل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ موارد عوام کے مبتلا بہ مسائل ہیں اور عوام انکو محسوس کرتے ہیں اور انکا تقاضہ کرتے ہیں اور رپورٹیں اور حکام کی اس سلسلے میں گفتگو بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عوام کا تقاضہ بجا اور درست ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے" استقامتی معیشت" کو اقتصادی مسائل اور مشکلات کو علاج اور عوام کے مطالبات کا جواب قرار دیا اور فرمایا کہ استقامتی معیشت کے زریعے بے روزگاری اور کساد بازاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، دشمنوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جا سکتی ہے اور ملک کے لئے بہت سارے مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ان توفیقات کے حصول کی شرط  استقامتی اقتصاد کی بنیاد پرجدوجہد اور کوشش کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ سرکاری اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں بہت وسیع پیمانے پر اقدامات کئے گئے ہیں لیکن یہ اقدامات، مقدماتی اور مختلف اداروں کی رپورٹوں اور احکامات پر ہی مشتمل ہیں۔

آپ نے استقامتی اقتصاد کے سلسلے میں عملی اقدامات انجام دینے کو حکام کا وظیفہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لازم ہے کہ استقامتی اقتصاد کے پروگرام پر عملی اقدامات کا سلسلہ جاری رہے اور اسکے زمینی حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے " استقامتی معیشت، اقدام اور عمل" کو ایک سیدھا اور روشن راستہ قرار دیا کہ جو ملکی ضرورتوں کے پورا کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں جدوجہد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ توقع نہیں کہ جا سکتی کہ یہ اقدامات اور ان پر عمل ایک سال کے اندر اندر مشکلات کو حل کر دیں گے لیکن اگر یہ اقدامات اور ان پر عمل صحیح پلاننگ کے ساتھ ہو تو یقیننا سال کے آخر تک اس کے آثار اور اثرات قابل مشاہدہ ہوں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree