وحدت نیوز (آرٹیکل) سکندر ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا۔ ایک دفعہ اس نے  کسی شہرکا  دورہ کیا۔ وہاں کی حالت دیکھ کر وہ دھنگ رہ گیا۔ نہ وہاں پولیس تھی نہ فوج۔ نہ دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ وہاں کا ہر شخص بروقت اپنے کام پر جاتا تھا۔ مخلصانہ ڈیوٹی دیتا تھا۔ وقت مکمل کرکے واپس گھر آتا تھا۔ نہ انھیں روکنے والا ہے اورنہ ٹوکنے والا۔ وہاں اس نے ایک اور عجیب حالت بھی دیکھی۔ ہر گھر کے سامنے دوتین قبریں تھیں۔ اس کے  استفسار پر کسی نے  جواب دیا کہ ہم اپنے عزیزوں کو گھروں کے سامنے دفناتے ہیں۔ روزانہ صبح کام سے جاتے وقت ہم ان قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبروں  پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہی تئیں یہ بات کرتے ہیں کہ ان کا جو انجام ہوا ہے وہی انجام ہمارا بھی ہوگا۔ آخر کار پانچ میٹر کپڑا اور پانچ فٹ کی زمین ہی ان کے کام آئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو کارنامے انجام دیئے وہی ان کے کام آئیں گے۔ انھوں نے جو انسانیت کی خدمت بجا لائی ہے وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے۔ خدا کی جو خوشنودی مول لی ہے وہی انھیں فائدہ پہنچائے گی۔ حلال و حرام کی جو رعایت کی ہے اسی کا صلہ انھیں ملے گا۔ نمازیں جو انھوں نے وقت پر  پڑھی ہیں وہی ان کے لیے نجات بخش ثابت ہوں گی۔ ایسی ہی باتیں کرنے کے بعد ہم بروقت اپنے کام پر نکلتے ہیں اور اہم میں سے ہر کوئی ایسا ہی کرتے ہیں۔ دن بھر اپنے روزمرہ کاموں میں ان باتوں کو اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ نہ دوران زندگی ہم کسی کا حق چھینتے ہیں۔ نہ کسی چوری ڈاکے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی دل آزاری کرتے ہیں۔ نہ کسی کو بے جا تنگ کرتے ہیں۔ نہ کسی کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ نہ کسی چغلی ا ور تہمت میں وقت گزارتے ہیں۔ نہ کسی کی غیبت میں ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ نہ ہم  انسانیت کے حدود کو عبور کرتےہیں۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے احترام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر مطمئن ہوکر شام گئے ہم گھروں کو واپس لوٹتے ہیں ۔ اس وقت ان قبروں پر ایک دفعہ پھر حاضری ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔ یہاں حاضر ہوکر پورے دن کی ڈائری ہم  وہاں پیش کرتے ہیں۔ آج کے دن دفتری کاموں سے لیکر محنت مزدوری  تک کے امور میں ہم نے کسی سے خیانت نہیں کی۔ حق الناس نہیں کھائے۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ مروت کا لحاظ رکھا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ برادرانہ سلوک روا رکھا۔ نہ کسی نے عہدہ دار ہونے پر ناز کیا اور نہ ہی کسی مزدور کی دل شکنی کی گئی۔ نہ کسی نےاپنی بڑائی کا لوہا منوانے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو اس کی  غربت کا احساس ہونے دیا۔ کیونکہ ہمیں احساس ہے کہ بادشاہ اور غلام سب نے آخر اسی پانچ فٹ کی مٹی کے اندر ہی جانا ہے۔ یہ تمام باتیں ہم دہرانے کے بعد ہم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہی ہم میں سے ہر ایک کے روزانہ کا معمول ہے۔ لہذا نہ ہمیں کسی پولیس کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کی۔ کیونکہ ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھاتے ہیں۔
کاش آج ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہوتا! نفرت کی جگہ محبت ہوتی۔ دوری کی جگہ قربت آجاتی۔ ایک دوسرے کا احترام روز کا معمول بن جاتا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے حالت رشد میں ہوتے۔ 25،30 سال عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے نہ پڑتے۔ لاکھوں کروڑوں روپے انصاف کے حصول کے نام پر تلف نہ ہوجاتے۔طبقاتی نظام کو روز بہ روز فروغ نہ ملتا اور اشرافیت کی زیر سلطہ ہماری عمریں نہ کٹ جاتیں۔ نہ کوئی فقیردکھائی دیتا نہ کوئی بھیکاری،نہ کوئی قاتل دکھائی دیتا نہ کوئی غاصب،نہ کوئی ظالم دکھائی دےدیتا نہ کوئی مظلوم،نہ کوئی چوردکھائی دیتانہ کوئی ڈاکو،نہ کہیں دہشتگردی ہوتی اورنہ کہیں قتل وغارت کابازارگرم ہوتا،نہ جھگڑافسادہوتااورنہ نفرت وکدورت،نہ جھوٹ روزمرہ کامعمول ہوتااورناہی چغلخوری ایک عام سی بات بن جاتی،نہ بھائی بھائی کاگلاگھونٹنےکادرپےہوتا۔ ہماری اکثر غلطیوں کا بنیادی سبب موت کو فراموش کرنا ہے ورنہ اولیائے الہی تو موت کو گلے لگانے کے آرزومند ہوتے  ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی  کے ہر موڑ پر خدا کی اطاعت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ ہم سب ابدی بن بیٹھے ہیں۔ حضرت بلال حبشی کا یہ واقعہ بھی کتنا دل انگیز ہے۔ بلال حبشی پیغمبر کے مؤذن تھے۔ جب آپ بیمار ہوکے بستر بیماری پر پڑ گئے۔ تب آپ کی  بیوی سراہنے آکر کہنے لگی: افسوس میں مشکلات میں پھنس گئی!حضرت بلال نے کہا: یہ وقت تو خوش و خرم ہونے کا ہے نہ کہ پریشانی کا۔ ابھی تک میں پریشانی میں مبتلا تھا۔ تجھے کیا معلوم کہ موت ہی حقیقی زندگی کی شروعات ہیں۔ بیوی کہنے لگی: اب جدائی کا وقت آگیا۔ بلال کہنے لگے: فراق نہیں اب وصال کا وقت آپہنچا ہے۔ بیوی کہنے لگی: آج آپ دیار غیر کی طرف عازم سفر ہو۔ بلال کہنے لگے: میں اپنے اصلی وطن کی طرف جارہا ہوں۔ بیوی کہنے لگی: اس کے بعد میں تمہیں کہاں دیکھ پاؤں گی۔ بلال نے کہا: خاصان الہی کے زمرے میں۔ بیوی کہنے لگی: ہائے افسوس تیرے جانے کے بعد گھربار سب اجڑ جائیں گے۔بلال کہنے لگے: یہ ڈھانچہ مختصر وقت کے لیے بادل کی مانند آپس میں جڑے رہتے ہیں پھر جدا ہوجاتے ہیں۔ کاش آج ہمارے درمیان میں بھی بلال و بوذر و قمبر کے صفات رکھنے والے افراد موجود ہوتے تو ہمارا معاشرہ کتنا بہترین ہوتا۔ آج ان ہستیوں کی صفات سے آراستہ پیراستہ  افراد کی تربیت کی ضرورت ہے۔

اسی طرح رحمت عالم کے شب معراج کا واقعہ کتنا سبق آموز ہے۔ رسول اللہ ص نے فرمایا: شب معراج مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی۔ وہاں میں نے ایک فرشتے کو دیکھا کہ نور کی ایک تختی اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فرشتہ اس تختی کی طر ف ایسے دھیان سے دیکھ رہے تھے کہ دائیں بائیں کی طرف بھی اس کی توجہ نہیں جاتی تھی۔ ایک غمگین شخص کی مانند وہ اپنی دنیا میں غرق تھا۔ میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ اس نے جواب میں کہا: یہ موت کا فرشتہ عزرائیل ہے۔ یہ روحوں کو قبض کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے تقاضا کیا کہ مجھے اس کے پاس لے چلیں تاکہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں! جبرئیل نے مجھے اس کے پاس لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اس سے  یہ سوال کیا: اے موت کا فرشتہ کیا جتنے انسان مرتے ہیں یا آئندہ جو مریں گے ان  کی روح تم ہی نکالتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ پھر کہنے لگا: اللہ تعالی نے پوری کائنات کو میرے ہاتھ میں ایسے قرار دیا ہے جیسے کوئی پیسا ہاتھ میں ہو۔ جس طرح وہ شخص اپنی مرضی سے پیسوں کو آگے پیچھے کر سکتا ہے  ویسے ہی  لوگوں کی قبض روح  میرے لیے ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مکان نہیں جس میں، میں پانچ مرتبہ روزانہ نہ جاتا ہو۔ جب کسی کی فوتگی پر اس کے رشتے دار اس  پررونے لگ جاتے ہیں تب میں ان سے کہتا ہوں کہ رونا نہیں میں  پھر تمہارے پاس حاضری دیتا رہوں گا یہاں تک کہ تم سب کی قبض روح  مکمل ہوجائے۔ علامہ مجلسی کا  واقعہ صاحبان عقل کے لیے کتنا سبق آموز ہے۔آپ کے قریبی شاگرد نعمت اللہ جزائری نقل کرتے ہیں کہ میں اور میرے استاد علامہ مجلسی کے درمیان یہ وعدہ ہوا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے اس دنیا سے چلا جائے تو وہ خواب میں آکر دوسرے کو وہاں کی بعض حال احوال  بیان کرے گا۔ اتفاق سے مجھ سے پہلے میرے استاد کی رحلت ہوئی۔ سات دن تک فاتحہ خوانی کا سلسلہ چلتا رہا۔ یکایک میرے ذہن میں وہی وعدہ یاد آیا۔ میں ان کی قبر پر گیا۔ قرآن کی تلاوت کی۔ ان پر گریہ کیا۔ اتنے میں مجھے وہاں نیند آگئی۔ خواب میں نے اپنے استاد کو خوبصورت لباس میں ملبوس پایا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ قبر سے باہر آگئے ہیں۔ان کی جدائی کا داغ میرے دل پر تھا۔ میں نے ان کےداہنے ہاتھ کا انگوٹھا تھام کرعرض کیا  کہ جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے نبھا لیجیے!علامہ کہنے لگے: میں بیمار تھا۔ آہستہ آہستہ بیماری اتنی شدت اختیار کرگئی کہ میری برداشت سے باہر ہوگئی۔ اس وقت میں نے خدا کو پکارا۔ اے اللہ!اب میرے اندر اسے مزید سہنے کی طاقت باقی نہ رہی ۔ تو ہی اپنی رحمت واسعہ سے میرے لیے کوئی راستہ نکال لیجیے! اتنے میں ایک نورانی بزرگوار میرے سرہانے سے نمودار ہوکر  میرے پاؤں کی جانب بیٹھ گئے۔ اس نے میری احوال پرسی کی۔ میں نے  انھیں اپنے حالات سے آگاہ کیا۔ اس ہستی نے اپنا ہاتھ میرے پاؤں کی انگلی پر رکھ کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا درد میں کچھ افاقہ ہوگیا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے میرے سینے کی طرف لایا۔ ساتھ ہی درد بھی ٹھیک ہوتا گیا۔ جونہی سینے تک اس کا ہاتھ پہنچ گیامیرا جسم وہاں پڑا رہا اور میری روح اس سے  الگ ہوگئی۔ مکان کے کنارے سے  وہ اس  جسم کی طرف دیکھتی رہی۔ میرے رشتے دار، دوست احباب اور ہمسائے آکر رونے  اور آہ و فغان کرنے لگے۔ میری روح ان سے کہہ رہی تھی کہ میری حالت ٹھیک ہے، میں پریشان نہیں ہوں، کیوں تم مجھ پر رو رہے ہو؟  لیکن کوئی میری باتوں کو سن نہیں پاتا تھا۔ پھر انھوں نے آکر میرے جنازے کو اٹھایا، غسل و کفن دیا، نماز جنازہ ادا کردی اور میرے جسم کو  قبر میں اتارا گیا۔ اتنے میں منادی ندا دینےلگا!اے میرا بندہ محمد باقر!آج کے لیے تم کیا چیز تیار کرکے لائے ہو؟ میں نے جتنا بھی نماز ، روزہ، کتاب کی تالیف  وغیرہ کو گنا لیکن ان میں سے کوئی بھی مورد قبول قرار نہیں پایا۔ اتنے میں ایک اور عمل میرے ذہن میں آیا۔ ایک دن بازار میں قرض ادا نہ کرپانے کے جرم میں کسی مؤمن کی پٹائی ہورہی تھی۔مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے خود اس کا قرض ادا کرکے قرض خواہ  کے چنگل سے اسے نجات دلا دی۔ میں نے جونہی اس کاتذکرہ کیا۔ تب اللہ تعالی نے میرے اس کام کی بدولت میرے دوسرے اعمال کو بھی مورد قبول قرار دیا۔ جنت کا پروانہ دیکر  مجھے جنت (بہشت برزخی) کی طرف روانہ کردیا۔  کاش آج ہمارے درمیان بھی قرض خواہوں کے قرض کو ادا کرنے والے ،دکھیاروں کا دکھ بانٹنے والے اور غریبوں کی مدد کرنے والے افراد ہوتے تو کتنا خوبصورت معاشرہ ہوتا۔غریبوں کی زندگی بھی سنور جاتی۔ ان کی مدد کرنے والے بھی دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے۔موت  اور قبر کی تاریکی کو یاد کرکے خود سدھر جائیے معاشرہ اور ملک خودبخود سدھر جائے گا۔
(یکصد موضوع پانصد داستان،صفحات:720-723)


تحریر۔۔۔۔۔۔ ایس ایم شاہ

وحدت نیوز (مظفرآباد) سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لیں گے، حلقہ تین سٹی میں بھی مشاورتی عمل شروع ہو گیا ، مشاورتی عمل اختتامی مراحل میں ہے ، بہت جلد میڈیا اور عوام کے سامنے لائحہ عمل پیش کریں گے ، ان خیالات کا اظہار ریاستی سیکرٹری سیاسیات سید محسن رضا سبزواری ایڈووکیٹ میں مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر کی ریاستی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ، اجلاس کی صدارت ریاستی سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کی ، اجلاس میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل خالد محمود عباسی ، مولانا طالب حسین ہمدانی، عابد علی قریشی ، سید حسین سبزواری ، سید عمران حیدر سبزواری ،سید ممتاز نقوی کے علاوہ ریاستی کابینہ کے تمام اراکین نے شرکت کی ، اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری سیاسیات سید محسن رضا سبزواری ایڈووکیٹ نے کہا کہ مشاورتی عمل اختتامی مراحل میں ہے ، حلقہ کوٹلہ ، لچھراٹ ، حلقہ چھ، باغ کے علاوہ اب حلقہ تین سٹی میں مشاورتی عمل جاری ہے، عمائدین سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں ، عوام کی طرف سے مثبت ردعمل اور مجلس وحدت مسلمین پر اعتماد سامنے آ رہا ہے ، جلد پولیٹیکل کونسل کا اجلاس بلا کر تمام لائحہ عمل میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کریں ، ہٹیاں بالا کے مسلسل دورہ جات جاری ہیں ، کل سے ریاستی سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد حلقہ پانچ کا تفصیلی دورہ کرے گا، دورے کے دوران جہاں اہم شخصیات ، عمائدین و معززین سے ملاقاتیں ہوں گی ، وہاں ویلج ٹو ویلج کارنر میٹنگز بھی کیں جائیں گی، امیدواران کا حتمی فیصلہ مجلس وحدت مسلمین پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں تشکیل پانے والا پارلیمانی بورڈ کرے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت بہت جلد ہمارے درمیان ہو گی ، ہم نے ایک شعار کے تحت اپنی سیاست کو آگے بڑھانا کہ ’’وحدت کا یہ نعرہ ہے ہر مظلوم ہمارا ہے‘‘ہم نے ہر مظلوم کا ہاتھ تھامنا ہے ، علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین سیاسی جماعت ہے ، عام سیاسی پارٹیوں کی نسبت خدمت خلق کی سیاست کریں گے ، ہمارا مقصدا اقتدار نہیں ، ہم کسی کرسی کے طالب نہیں ، بلکہ چاہتے ہیں کہ حق دار کو اس کا حق ملے ، کشمیر کے مجموعی مسائل حل کیے جائیں ، ہر شہری کے بنیادی مسائل کی جانب توجہ دی جائے، ریاست آزاد جموں و کشمیر کو ماڈل ریاست بنایا جائے ، امیدواران کی اہلیت ، قابلیت اور استعداد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں گے ، پیغام مجلس وحدت گھر گھر پہنچائیں گے ۔ کرپٹ عناصر کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے ، مجلس وحدت مسلمین کا میدان میں ہر وقت موجود رہنا ہی اِس کا خاصہ ہے۔ کثیر تعداد میں عوام کی جانب سے رجوع یہ ثابت کر رہا ہے کہ مجلس وحدت ان کے حقوق کی ترجمان بنے گی ،انشاء اللہ بہت جلد مجلس کا کلی لائحہ عمل عوام کے سامنے آئے گا ، جس کا معیار میرٹ و عادلانہ نظام ہو گا۔ علامہ تصور جوادی نے مزید کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کا بیان کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مساوی سلوک ہو گا، خوش آئند ہے ،مگر اسے عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی شوریٰ اعلی کے رکن اور امام جمعہ کوئٹہ جناب سید ہاشم موسوی نے پانامہ لیکس کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور انکے بیٹوں پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں اور انکی جانب سے اس بات پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا جارہا،انہوں نے یہ باتیں نماز جمعہ کے خطبے میں عوام سے خطاب کے دوران کہی اور پانامہ لیکس کے بارے میں عوام کو مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس جنوبی افریقہ کا ایک ادارہ ہے، اس ادارے نے دنیا بھر کے اقتصادی معاملات پر نظر رکھا اور مختلف ممالک کے اقتصادی مسائل کا مشاہدہ کیا اسکے بعد اپنے تمام نتائج جمع کرکے ایک اعلانیہ جاری کیا، جس میں دنیا بھر کے ان معتبرین کا نام شامل تھا جو کرپشن میں ملوث ہیں اور اس جاری کردہ لسٹ میں ہمارے ملک کے موجودہ وزیر اعظم کا نام بھی شامل ہے ۔ ماضی میں پانامہ لیکس کے تمام تر رپورٹس درست ثابت ہوئے ہیں اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مملک خداداد پاکستان، جسکا قیام ہی لا الہ الاللہ کے بنیاد پر ہوا تھا، اس کے وزیر اعظم کا نام کرپشن میں ملوث افراد کی لسٹ میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پانامہ لیکس کے ماضی کی باتیں درست ثابت ہوئے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ پانامہ لیکس کے تمام باتیں درست ہیں مگر ہمارے وزیر اعظم کا نام لیا گیا ہے اور اب یہ ملک کے عزت کا سوال ہے، اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک کا وزیر اعظم کوئی کرپٹ شخص نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی کرپٹ شخص وزیر اعظم کے کرسی پر بیٹھے تو دنیا کے سامنے ہمارے ملک اور اسلام کی ایک غلط شبیہ پیش ہوگی۔ پانامہ لیکس کا معاملہ صرف نواز شریف یا انکے بیٹوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔ پانامہ لیکس نے وزیر اعظم نواز شریف کے کرپٹ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اب یہ وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر کسی ردعمل کا اظہار کرے اور انہیں غلط ثابت کرے۔ انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ جنوبی افریقہ کے ادارے کی جانب سے کئے گئے دعوے کی تحقیقات کی جائے۔ اس تحقیقات کیلئے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو عادلانہ فیصلہ کرے کہ ہمارے وزیر اعظم پر لگے یہ الزامات درست ہیں یا غلط، اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو وزیر اعظم کو چاہئے کہ اس کے بعد وہ اپنی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا استفیٰ قوم کے سامنے پیش کردے۔ پانامہ لیکس کے لسٹ میں بعض دیگر ممالک کے وزرائے اعظم کا نام بھی آیا تو انہوں نے فوراً اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور استفیٰ دے دیا، مگر ہمارے وزیر اعظم کسی ردعمل کا اظہار ہی نہیں کررہے بلکہ تحقیقات سے فرار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے دعوے کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کی آپ بنائی کمیشن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کمیشن کے اراکین انکے مرضی کے افراد ہونگے اور اس بات کاخطرہ ہے کہ وہ اراکین عادلانہ فیصلے کے بجائے اپنے مرضی کے فیصلے پیش کرے۔ بہتر یہ ہوگا کہ قومی پارلیمنٹ یا سینٹ کے زیر نظر کمیٹی تشکیل دی جائے ، جو تحقیقات کے بعد پانامہ لیکس کے دعوے کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے اور اگر ہمارے وزیر اعظم اس کمیٹی کے نظر میں مجرم قرار پائے تو پھر استفے کے علاوہ انکے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔

وحدت  نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی  نے کہا ہے کہ آئس لینڈ، پولینڈ اور اسپین کے وزار سمیت دیگر مقتدر شخصیات کا مستعفی ہونا پانامہ لیکس کے درست ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ پوری قوم وزیراعظم نواز شریف کے فوری استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت راجن پور میں وہی عمل دہرا رہی ہے جو اس نے ماڈل ٹائون میں کیا تھا، پنجاب انتظامیہ نے جان بوجھ کر پولیس اہلکاروں کو چھوٹو گینگ کے حوالے کیا ہے۔ صوبہ پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب میں کراچی طرز کا ملٹری آپریشن ہمارا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ لیکن حکومت انہیں فوج کے ہاتھوں گرفتار کروانے کی بجائے پولیس کی مدد سے ختم کرنا چاہتی تھی تاکہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ثبوت کو مٹایا جا سکے۔

انہوں نے مذید  کہا کہ پنجاب حکومت میں وزرا، ایم پی ایز اور اعلی حکومتی عہدیداران چھوٹو گینگ کے سہولت کار ہیں۔ راجن پور میں بھرپور فوجی آپریشن نے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنااللہ کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ پنجاب میں کوئی نوگو ایریا موجود نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ رینجرز کو پنجاب میں سندھ اور کراچی طرز کے اختیارات دیے جائیں۔ جن شخصیات کے کالعدم جماعتوں سے رابطے ہیں ان کے خلاف بھی بھرپور فوجی آپریشن کیا جانا چاہیے۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان سیکرٹریٹ سے جاری ایک اعلامیہ کے مطابق ایم ڈبلیوایم بلتستان کے سیکرٹری جنرل و رکن شوریٰ عالی علامہ آغاسید علی رضوی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پررکن جی بی اسمبلی کاچو امتیاز حیدر خان کی بنیادی تنظیمی رکنیت معطل کر دی ہے۔ گلگت بلتستان الیکشن 2015 میں کاچو امتیاز نے سکردو حلقہ 2 مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔گلگت بلتستان کونسل کے حالیہ انتخابات میں ان پر بھاری مالی فائدہ کے عوض سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا الزام ہے۔انہوں نے اپنا ووٹ مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار کی بجائے مد مقابل کو دے کر ایم ڈبلیو ایم کو ایک اہم نشست سے محروم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور جماعت کی سیاسی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی ہے جس پر ایم ڈبلیو ایم بلتستان کی اعلیٰ صوبائی قیادت نے سخت نوٹس لیتے ہوئے رکن اسمبلی کی پارٹی رکنیت کی فوری معطلی کے احکامات صادر کیے ہیں۔ جماعت کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تین سینئر عہدیدران پر مشتمل تحقیقاتی کونسل بنانے کے حکم دیتے ہوئے اس واقعہ کی دس روز کے اندر رپورٹ طلب کر لی ہے۔کاچو امتیاز اگر دس یوم کے اندر اندر کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکے توانہیں اسمبلی کی رکنیت سے خارج کرنے کے لیے بھی قانونی و آئینی کاروائی کی جائے گی۔

وحدت نیوز(کراچی) ایم ڈبلیویم ضلع ملیر کے سیکریٹری امور فلاح وبہبود سید اسدعلی زیدی نے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کراچی ، ضلع ملیر کے فلاحی شعبے خیر العمل فائونڈیشن کی جانب سے مسجد وامام بارگاہ نادعلی ؑپپری گوٹھ میں سکیورٹی خدشات کے باعث CCTVکیمرے نصب کردیئے گئے ہیں،مذکورہ کیمروں کی تنصیب کی درخواست مسجد کے پیش امام مولانا منصور علی روحانی نے فلاحی شعبے کو پیش کی تھی، جس پر عمل درآماد کرتے ہوئے  مسجدکے داخلی اورخارجی چارمقامات پر جدیدقسم کےیہ CCTVکیمرے نصب کیئے گئے ہیں،مانٹرنگ سسٹم کا باقائدہ افتتاح روز ولادت امام علی ؑکے موقع پر کیا جائے گا، CCTVکیمروں کی تنصیب پر مسجدکے خطیب مولانا منصور علی روحانی اور متولی محمد علی پیرزادہ نے ایم ڈبلیوایم کا شکریہ ادا کیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree