وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سے جاری شدہ بیان میں علامہ ہاشم موسوی نے 10جنوری 2013سانحہ علمدار روڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں چند اہم دنوں میں سے ایک دس جنوری دو ہزار تیرہ ہے، جب قوم کو اپنی طاقت، اپنے وجود، اپنے حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا تھا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے پورا ملک سراپا احتجاج ہوا تھا۔ علمدار روڈ میں دھماکوں کے بعد احتجاج میں پورے ملک نے ہمارا ساتھ دیا تھا اوراس وقت کے حکومت کو انکی بے حسی کا احساس دلا دیا۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہم اپنے شہیدوں کو بھول جائے، شہدائے علمدار روڈ نے پورے ملک کو بیدار کر دیا، سانحہ علمدار روڈ جیسے دہشت ناک اور المناک واقعے پر دنیا بھر میں مختلف ممالک کے لوگ احتجاج کیلئے سڑکوں پرنکلے تھے ، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان خود علمدار روڈ آئے اور شہدائے علمدار روڈ کے لواحقین کے مطالبات تسلیم کئے علاوہ ازیں اُس وقت کے جاہل وزیر اعلیٰ کی حکومت کوختم کردیا گیا تھا ، یہ سب کسی انقلاب سے کم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ علمدار روڈ میں دیا گیا دھرنا،تاریخی دھرنا تھااور اسکا شمار پاکستان کے اہم واقعات میں ہوتاہے، ملک بھر کے میڈیا میں علمدار روڈ کے دھرنے میں امن و امان، نظم و ضبط اور صبر و تحمل کی مثالیں دی جاری تھی۔ پورے ملک میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ لوگ سراپا احتجاج تھے مگر اس کے باوجودکسی قسم کے تشدد کا واقع پیش نہیں آیانقصان تو دور کی بات ایک ٹائر تک نہیں جلائی گئی۔ صرف احتجاجوں سے پورے ملک کا پہیہ جام ہوگیا تھا اور حکومت وقت پہلی بار خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہوئے ،بے حسی کو پیچھے چھوڑ کر ملک کی حالت کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔ ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ظالم چاہے جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے، یہ درس ہمیں واقعہ کربلاء سے ملا ہے جسکی پیروی نے جنوری 2013 میں ہمیں سرخ رو کردیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین مظلوموں کا حامی جماعت ہے، ہماری مرکزی قیادت سمیت تمام علاقائی قیادتوں نے ہمیشہ ظالم کے خلاف ہر میدان میں جنگ لڑی ہے۔ قوم ہم پر اعتماد رکھتی ہے ، یہ اعتماد ہماری کارکردگی کا نتیجہ ہے ۔ اس کے علاوہ شہدائے علمدار روڈ کی برسی کے موقع پر ایک جلسے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے جس میں شہدائے انقلاب کی یاد کو تازہ کیا جائے گا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) جس طرح سے دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی( 1945_1991) دنیا کی موجودہ صورتحال لگ بھگ اسی طرح ہوچکی ہے۔ امریکہ اور سعودیہ اپنے تمام اتحادی ممالک اور دہشت گردوں سمیت ایک طرف اور ایران دنیا بھر کے مظلومین سمیت دوسری طرف۔ 1945 _ 1991 کا زمانہ جس کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ایک بلاک کی سرپرستی امریکہ کررہا تھا اور ایک کی سرپرستی سوویت یونین کررہا تھا۔سوویت یونین کے زوال کے بعد سرد جنگ ختم ہوگئی ۔ امریکہ کو تنہا world power  کے طور پر پوری دنیا کے ممالک نے تسلیم کر لیا سوائے ایران کے۔ 1991_2001تک کا زمانہ عالمی سطح پر پرامن رہا لیکن 9/11کے بعد عالمی حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔

افسانوی کردار،عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کی تلاش کا بہانہ بناکر امریکہ نے 2001 ایک میں افغانستان پر حملہ کردیا اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔War against Terrorism. پاکستان مارشل لاء کے دور سے گذر رہا تھا ۔امریکی صدر جارج بش کے حکم پر مشرف نے جنگ میں امریکی اتحادی بننے کافیصلہ کرلیا۔جس کی سزا ابھی تک پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔2003 میں عالمی دہشت گرد امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بناکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

               اس کے بعد شام کی باری آئی تو اس میں امریکہ اور اسرائیل نے پرانی جنگی حکمت عملی تبدیل کر دی بجائے  اس کے کہ direct attack کرتے ترکی،قطر اور سعودیہ کو بشارالاسد کی حکومت کو تہس نہس کرنے کی ذمہ داری دےدی اور بشارالاسد کے خلاف داخلی فوج free army کی شکل میں سامنے آگئی اور 2011 کے اوائل میں فری آرمی نے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے کئی اور دہشت گرد تنظیمیں سامنے آگئیں جن میں سرفہرست داعش، جبہۃ النصرہ ، احرارالشام، جیش الاسلام اور القاعدہ وغیرہ وغیرہ ہیں۔  پانچ سال اس جنگ کو گذر گئے پر امریکہ،اسرائیل،ترکی،سعودیہ،قطر اور اس کے اتحادی ممالک اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوگئے۔شام،عراق،افغانستان اور پاکستان میں ہزاروں بےگناہ افراد کا خون نا حق گرانے کے بعد بھی آ رام نہ ملا تو یمن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اس جنگ کو کئی ماہ گذر چکے، ہزاروں بےگناہ افراد کا قتل عام ہوا اور ہو رہا ہے۔  تب بھی قرار نہ آ یا تو اس سال دسمبر میں تحریک اسلامی نائیجیریا کے بےگناہ افراد کا نائیجیریا کے آرمی کے ذریعے قتل عام کروادیا اور تحریک اسلامی نائیجیریا کے سربراہ کو پابند سلاسل کیا،  اس پہ بھی سکوں نہ آیا تو مرد حر ،مرد مجاہد شیخ النمر کو حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں تختۂ دار پہ لٹکا دیا۔

               امریکہ شیطان بزرگ ہے اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں، لیکن بنی سعود بھی امریکہ سے پیچھے نہیں۔ امریکہ نے جب بھی کسی مسلمان ملک پر حملہ کرنا ہو یا کروانا ہو ہمیشہ عرب دنیا کے شیطان بزرگ کی خدمات لیتا رہا ہے اور سعودیہ بھی با کمال میل اپنےحواریوں اور جواریوں کےساتھ لبیک یا پدر کرکے اسرائیل اور امریکہ کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے۔ ترکی اور سعودیہ مسلمانوں کے تاریخی غدار ہیں۔ اس میں بھی کسی کو ذرہ برابر شک نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن ایسا کیوں ہے ؟ اس پہ بحث کی ضرورت ہے۔

               اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں 1979 سے تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 1979 میں ایران میں جب خمینی بت شکن رحمت اللہ علیہ کی سربراہی اور سرپرستی میں اسلامی انقلاب آیا تو اس زمانے میں پورا  world  دو  blocks  میں تقسیم ہوچکا تھا (communism)  اور (capitalism)۔کیمونسٹ بلاک کی رہبری سوویت یونین کررہا تھا اور کیپٹلسٹ بلاک کی رہبری امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ان دونوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا بننا تقریبا ناممکن تھا۔جو بھی نیا ملک معرض وجود میں آتا تھا اپنی بقا اور  survival  کےلیے ان دو بلاکس میں سے کسی ایک کو  join  کرنا ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی جب پاکستان بنا تو اس کو بھی کسی ایک کو   join کرنا پڑا اور اس نے امریکی بلاک کو  join  کرلیا جس کا بدلہ سوویت یونین نے 1971کی جنگ میں پاکستان سے لےلیا۔

               اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے دونوں بلاکس کو no بول دیا اور لا شرقية ولا غربيه کا شعار بلند کیا جس سے امریکی ایوان میں زلزلہ آ گیا اور American policy makers نے اسلامی انقلاب کو اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اس نئے انقلاب کو شروعات میں ہی دبانے اور ختم کرنے کا plan  بنالیا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے منحوس ڈکٹیٹر صدام حسین کا انتخاب کرلیا اور یوں دیکھتے دیکھتے عراق نے ایران پر حملہ کردیا۔فرنٹ پر عراق اور پشت پر امریکہ سمیت اس کے پجاری،آٹھ سالوں تک اپنی پوری قوت لگادی لیکن ذلت او رسوائی کے سوا انہیں کچھ نہیں ملا۔ سعودیہ کا کردار ایران عراق جنگ میں قابل فراموش نہیں۔سعودیہ نے بڑھ چڑھ ک عراق کی مدد کی اس کی دو اہم وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ خطے میں اس کی monopoly خطرے میں تھی اور دوسری وجہ اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی جو کہ بنی سعود کو اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی تھی۔جنگ میں ناکامی کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلابی ساتھیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو کمزور کرنے کی سازش کی اور پورے پارلیمنٹ کو بمب سے اڈا دیا لیکن اس سے بھی انقلاب کو کوئی فرق نہیں پڑا اور دشمن ہمیشہ کی طرح ذلیل و خوار ہوگیا۔

               امام رحمۃ  اللہ علیہ کی رحلت کے بعد دشمن کو لگا کہ اب انقلاب کا  The end  ہے لیکن ان کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔  انقلاب اسلامی کو مقام معظم رہبری سید علی خامنہ ای ارواحنا لہ الفدا جیسا لیڈر ملا اور یوں انقلاب اسلامی ایران سے نکل کر آہستہ آہستہ دنیا کے گوشہ و کنار میں پہنچا۔اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ جیسی تنظیم بنی،فلسطین کی اسرائیل کے خلاف مقاومت طاقتور ہوگی اور کچھ ہی سالوں میں ایران تمام اعتدال پسند، انقلابی، مظلومین، محرومین اور مستضعفین جہاں کی آواز بن گیا۔

               انقلاب اسلامی سے پہلے دنیا میں ظلم اور ظالم کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا کوئی نہ تھا، ظلم سے ِٹکرانے اور ظالم کے خلاف ڈٹ جانے والا کوئی نہ تھا۔لیکن انقلاب اسلامی کے بعد دنیا میں کہیں بھی ظلم ہوا ایران نے اس کے خلاف صدائے حق بلند کیا، ظالم سے لڑا اور مظلوم کی حمایت کی۔  یوں پوری دنیا میں ایران ظلم کے خلاف جنگ اور ٹکر کا symbol بن گیا۔  بس ایران کا یہی  style دنیا کے ظالم اور جابر حکمرانوں کو پسند نہ آیا ۔

               اب جبکہ انقلاب اسلامی پوری دنیا میں پہنچ چکا ہے، ظالموں کے خلاف تحریکیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں ایسے حالات میں دشمن نگران و پریشان الٹی سیدھی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ عراق اور شام میں ناکامی کے بعد دشمن نے اب نئی حکمت عملی تیار کی ہے اور حکمت عملی بہت خطرناک ہے اور وہ ہے مسلمان کو مسلمان سے لڑانا اور اس کى   ذمہ داری اپنے پرانے وفادار سعودیہ کو سونپی ہے۔ اور یہ وہی برطانیہ کی پرانی پالیسی،(divide and rule), لڑاو اور حکومت کرو والى پالیسی ہے جس کو سعودیہ کے ذریعے پوری دنیا میں implement کررہا ہے۔ نائیجیریا کے بےگناہ افراد کا قتل عام،شیخ زازاکی کی گرفتاری، شیخ النمر کی پھانسی،  یمن پر جنگ مسلط کرنا، بحرین کے مسلمانوں پر ظلم، سعودیہ کے شعیوں پر ظلم یہ سب اسی منحوس پالیسی کا نتیجہ ہے۔

               شیخ زکزکی کی گرفتاری اور شیخ النمر کی پھانسی کے بعد دشمن یقینا خوش ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والى پالیسی میں کامیاب ہوگیا ہے اور ظاہرا ایسا ہی لگ رہا ہے لیکن انشاءاللہ اس میں بھی دشمن ذلیل و خوار ہوگا۔چونکہ بنی سعود کا ہزار پردوں کے پیچھے چھپا ہوا اصلی چہرہ آ ہستہ آ ہستہ پوری دنیا کے سامنے آرہا ہے اور اس ناپاک اور مکروہ چہرے کو بےنقاب کرنے میں منی کے آٹھ ہزار شہیدوں کا ،نائیجیریا کے ہزار بےگناہ شہیدوں کا ، یمن کے لاکھوں بےگناہ شہیدوں کا،شہید مقاومت شہید شیخ النمر ،شام اور عراق، افغانستان اور پاکستان میں بے شمار بےگناہ افراد کے قتل عام شامل ہے۔  چونکہ اب دنیا کو پتا چل چکا ہے دنیا میں جہاں پر بھی دہشت گرد اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں ان سب کے پیچھے امریکہ،اسرائیل اور سعودیہ ہیں، انہوں نے ہی ان دہشت گرد تنظیموں کو بنایا ہے، یہی ان کو جنگی جرائم کے لئے جنگی وسائل فراہم کر رہے ہیں، یہی ان کی سرپرستی کررہے ہیں۔ اور پوری دنیا سے دہشت گردوں کو جمع کر کے شیعیان حیدر کرار سے لڑنے کا task دیا ہے۔ یہ ایک عالمی جنگ ہے جس کا آغاز سعودیہ کی سرپرستی میں ہوچکا ہے اور جسکی پشت پر امریکہ اور اسرائیل ہیں۔شیعہ اور سنی کو آ پس میں لڑانے کا منصوبہ عملی ہوچکا ہے۔

 ایسے حالات میں اصلی دشمن کو اور اس کے عزائم کو پہچاننے کی اشد ضرورت ہے۔سعودیہ کی قیادت میں 34 سنی ممالک کا اتحاد اسی سازش کا حصہ ہے۔لیکن دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ یہ اسلام کے دو بازو ہیں،  ان دونوں کے بیچ کبهى جنگ نہیں ہوگی،  بلکہ یہ دونوں مل کر کل کفر، بنی سعود اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے عالمی دہشت گردوں کا مقابلہ کرینگے اور اپنی صفوں سے کالی بیھڑوں کو نکال کر باہر پھینک دینگے۔

            یہاں پر   ملت پاکستان سے اور رہبران پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ ان حالات میں جبکہ دشمن ہمارے خلاف متحد ہوچکا ہے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اس مشکل وقت کو غنیمت سمجھ کر عملی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ تمام شیعہ اور سنیّ مسلمان مل کر آلِ یہود اور آلِ سعود کی سازشوں کا مقابلہ کریں۔

تحریر۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر۔سیکریٹری سیاسیات ، ارتباطات MWM قم
پیشکش،مجلس وحدت مسلمین قم شعبہ میڈیا

وحدت نیوز (کراچی)  ڈاو میڈیکل یونیورسٹی موسمیات کے پاس شیعہ تاجر مختار حسین زیدی کی ٹارگٹ کلنگ کی شدید مذمت کرتے ہیں،آپریشن کے باوجود وقفہ وقفہ سے شیعہ وکلاء .ڈاکٹر. علماء .مساجد کے ٹرسٹیز کو نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ سب شہر کی پرامن فضا کو خراب کرنے کی سازش ہے، یہ بات مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویڑن کے ڈپٹی سیکرئڑی جنرل رضا نقوی نے وحدت ہاوس کراچی سے جاری اپنے بیان میں کیا۔ رضا نقوی نے کہا کہ مختار حسین شیعہ تاجر پہلے شیعہ تاجر نہیں جنہیں ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا بلکہ کراچی شہر میں سیکڑوں شیعہ تاجر کالعدم تکفیری جماعتوں کے دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں، کراچی آپریشن پر مکمل اعتماد ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ اس آپریشن کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور تکفیری دہشتگرد مدارس جو کراچی اور اسکے مضافات میں ہیں انکے خلاف بھی آپریشن کیا جائے اور اپنے مدارس میں تکفیری نظریات کا پرچار کررہے ہیں، یہ مدارس دہشتگرد مذہبی جماعتوں کی آمجگاہیں اور سہولت کار بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی بدسطور جاری ہے ،قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس رینجرز سے شہر میں موجود کالعدم جماعتوں کے خلاف کاروائی اور مختار حسین کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

دریں اثناء ایم ڈبلیو ایم رہنماؤں نے شیعہ تاجر مختار حسین کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور لواحقین سے تعزیت کی نماز جنازہ مسجد و امام بارگاہ خیر العمل انچولی میں ادا کی گئی نماز جنازہ میں سیکڑوں افراد نے شر کت کی اور جلوس جنازہ کے ہمراہ لبیک یاحسین ؑ سمیت سندھ حکومت اور کالعدم جماعتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی جبکہ مختار حسین کی تدفین وادی حسین قبرستان میں کی گئی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہاہے کہ 34 رکنی مسلم ممالک کے اتحاد میں شمولیت کا مسئلہ پارلیمینٹ میں لایا جائے۔اہم قومی امور پر پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔ ملک کی اکثر جماعتیں حکومت کے اس فیصلے سے متفق نہیں اور اسے نواز شریف کے آل سعود سے خاندانی تعلقات کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں قومی نوعیت کے انتہائی اہم فیصلے میں پارلیمنٹ کو نظر انداز کرناشکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دن رات جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپنے والے ، اہمیت کے حامل قومی مسائل کو پارلیمینٹ میں لانے سے کیوں خائف ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ آل سعود کی غیر شرعی اور غیر جمہوری ،آمریت سے حجاز مقدس کے عوام بیزارہیں ،لہذا حرمین شریفین کے مقدس نام پر آل سعود کی بادشاہت کا تحفظ کرنے والے اسلامی تعلیمات سے انحراف کر رہے ہیں۔ شیخ باقرالنمر کو امر بالمعروٖ ف کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاک، چین اقتصادی راہ داری منصوبہ ملک کی قسمت بدلے گا، ملکی تقدیر سے وابستہ مسائل کو شفاف رکھا جائے اور ان منصوبوں میں وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس منصوبے پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے انہیں سنجیدہ لیا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ راہداری منصوبے کے روٹ پر انرجی زون،صنعتی زون، بجلی،گیس، فائر آپٹک ،ایل این جی،اقتصادی زون ،ریلوے لائن بھی تعمیر کی جائے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) شیخ باقر النمر ایک عظیم شخصیت کے مالک اور امام حسین ؑ کے سچے عاشق و پیرو کار تھے،آپ نے اپنے مولا ؑ کی طرح شہادت کو تو گلے لگا لیا مگر آل سعود کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا ، آپ کی پوری زندگی اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ اور الہی و قرآنی نظام کے نفاذ اور اتحاد بین المسلمین کے لئے وقف کیئے رکھی،ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے زیر اہتمام مرکزی امام بارگاہ پیر سید علم حسین شاہ بخاری میں مجلس ترحیم و تکریم شہید آیت اللہ باقر النمر سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ آپ حجاز مقدس میں عادلانہ نظام حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے تھے، کیوں کہ اسلام میں ایک خاندان کی حکومت یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔وقت کے یزیدوں ، ابن زیادوں ، شمروں اور طاغوت کے ایجنٹوں نے بھرپور کوشش کی کسی طرح یہ سر جھک جائے، کسی طرح یہ سر بک جائے مگر شیخ باقر النمر نے اپنا سر کٹوا تو دیا لیکن ظالم نظام کے سامنے خود کو جھکایا نہیں ہے اور اپنے خون کی بوند بوند سے یہ پیغام دیا ہے کہ حسینیوں کے سر کٹ تو سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے جو سر اللہ کے سوا کسی کے آگے جھکتا ہے وہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور جو کٹ جاتا ہے وہ ہمیشہ سرفراز و سر بلند ہوتا ہے۔آج پوری دنیا کے لوگ شیخ باقر نمر کی یاد منا رہے ہیں اور یہ اس بات کی غماز ہے کہ آل سعود کی حکومت نے ایک نمر کا سر کاٹ کر اس کی آواز کو خاموش کرنا چاہا لیکن یہ خوف نا حق کوچہ و بازار تک آگیا ہے ، اور اپنی مظلومیت کے ساتھ بیداری اور خود حجاز مقدس میں عرب بہار تحریک کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ شیخ باقر النمر کا سر کاٹ کر آل سعود نے اپنی شکست کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے اعلان کردیا شیخ جیت گئے ہم ہار گئے، کیوں کہ یہ سر کٹ تو گیا مگر جھکا نہیں ہے ،انہوں نے مثل میثم موت تو قبول کی مگر ذکر مظلوم کو نہ چھوڑا ، ذکر مظلوم ان کا شیوہ، مظلوم کی خدمت ان کا شعار، مظلوم کی خدمت ان کا نعرہ، مظلوم کے حقوق ان کی منزل ، شیخ سرفراز ہوگئے، ایک اور کربلا بپا ہوگئی، مؤمنین کے دلوں کو گرما گئی، علامہ تصور جوادی نے کہ شیخ باقر النمر کا قصور یہ تھا کہ وہ آل سعود کی طرف سے پیغبر اسلامؐکے اصحابؓ ، ازواجؓ اور اہلبیتؑ کی قبور کی مسمارگی و بے حرمتی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مطالبہ کرتے تھے کہ جنت المعلیٰ اور جنت البقیع کی از سر نو تعمیر اور حجاز مقدس میں موجود فرقہ ورانہ تعلیمی نظام خے بجائے تمام مکاتیب فکر سے ہم آہنگ نظام تعلیم کے قیام اور تمام فرقوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تقاضہ کرتے تھے۔

انہوں نے کہا شیخ باقر النمر نے آل سعود کی وفاداری کے بجائے اللہ سے وفاداری کو ترجیح دی ، وہ مظلوموں و محکوموں کی بات کرتے تھے، وہ حجاز مقدس میں آل سعود کے ظلم پر آواز بلند کرتے تھے، جمہوریت کی بات کرتے تھے، انسانی حقوق کی بنیاد پر ان کا مقدمہ شفاف ٹرائل سے نہیں گزارا گیا ، بلکہ ایک درباری عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی ، آل سعود اپنی خاندانی بادشاہت کے خلاف بغاوت برداشت نہیں کرتے ، اس لیئے شیخ کو سزائے موت دی کہ کہیں ان کے ہوتے ہوئے ہماری بادشاہت نہ چلی جائے۔ مجلس عزا سے ممبر علماء و مشائخ کونسل آزاد کشمیر ، چئیرمین النور ویلفیئر ٹرسٹ آزاد کشمیر علامہ سید فرید عباس نقوی، صدر مرکزی انجمن جعفریہ میجر (ر) سید بشیر حسین کاظمی ، سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ، سید بشیر حسین نقوی اور مولانا سید حافظ محبت حسین کاظمی نے بھی خطاب کیا۔

وحدت نیوز (گلگت) خطہ گلگت بلتستان صدیوں سے ایک اکائی کے طور پر دنیا کے نقشے پر ثبت ہے جس کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی کسی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیا جائیگا۔گلگت بلتستان کے جغرافیے کو تبدیل کرنا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو خطہ گلگت بلتستان سے زیادہ کشمیر کے مفادات زیادہ عزیز ہیں ان کی درپردہ سازشوں سے اس کی مخصوص سوچ کی عیاں ہوگئی ہے۔وزیر اعلیٰ موصوف کا گلگت بلتستان کو دو اکائیوں میں تقسیم کرنے کی تجویز خطے سے غداری کے زمرے میں آتی ہے ۔نواز لیگ کو اقتدار کی کرسی تک پہنچا نے والے بہت جلدانہی کے خلاف سڑکوں پر ہونگے ،عوامی ترجمانی کے برخلاف ڈکٹیشن پر چلنے والی جماعت کو بہت جلد رسوائی نصیب ہوگی۔انہوں نے وفاقی حکومت پرکڑی تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ عوامی خواہشات کے برخلاف کسی بھی عبوری صوبے یا علاقے کو تقسیم کرنے سے پورے علاقے میں بے چینی کی لہر پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ آئین پاکستان میں ضروری ترامیم کے بعد اس علاقے کو ایک مکمل آئینی صوبہ بنادے جو یہاں کی بیشتر سیاسی جماعتوں کا مطالبہ رہا ہے ۔یہ علاقہ ابھی جوانمردوں سے خالی نہیں ہوچکا کہ وفاق اپنی مرضی کے فیصلے ہم پر مسلط کریں ایوان بالااور ایوان زیرین میں مبصر کی حیثیت سے نمائندگی اس خطے کے عوام کا کوئی مطالبہ نہیں اور 68 سال بعد محض اقتصادی راہداری کی خاطر اس خطے کی شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔

یہ بات اظہر من الشمن ہے کہ 68 سالوں سے کسی حکمران نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنانے کی نہ صرف کوشش نہیں کی بلکہ اس آزاد خطے کو پاکستان سے محبت کی خاطر الحاق کرنے والوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا اور آئینی حیثیت دینے کا موجودہ شور شرابہ بھی اقتصادی راہداری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے ہے اور یہاں کے عوام سے ہمدردی کی بنیاد پر نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس خطے کے عوام اپنی جان تو دے سکتے ہیں لیکن علاقے کی تقسیم کو ہرگز برداشت نہیں کرینگے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree