وحدت نیوز (نصیرآباد) مجلس وحد ت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے ضلع نصیر آباد کے مختلف علاقوں کا دورا کیا اور ڈیرہ مراد جمالی میں تنظیمی اجلاس کی صدارت کی۔ گوٹھ دلوش خان لہر میں خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ، معاشرے کے مظلوم اور ستمدیدہ عوام کی آواز ہے ، جس نے ہمیشہ ظلم اور ظالم کے خلاف موثر آواز بلند کی ہے۔ دھشت گردی سمیت مختلف عوامی مسائل پر بھرپور آواز بلند کرکے ایم ڈبلیو ایم نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کی ترجمان جماعت ہے۔

اس موقع پر نصیر آبادعوامی تحریک کے چیئرمین ماما الٰہی بخش کھیازئی، ایم کیو ایم کے رہنما امداد حسین مری،ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید عبدالقادر شاہ نے علامہ مقصود علی ڈومکی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر نصیر آباد عوامی تحریک کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ اوچ پاور پراجیکٹ سے ڈیرہ مراد جمالی اور گرد و نواح کے علاقوں کو بجلی فراہم کی جائے اور پراجیکٹ کی ملازمتوں میں علاقے کے عوام کو ترجیح دی جائے۔

انہوں نے بلوچستان کے ساحل پر سو سے زائدکورین لانچوں کوٹرالنگ کی اجازت دینے کو افسوسناک فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے بلوچستان کے ماہی گیر شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ جو پہلے ہی غیر قانونی ٹرالنگ کے باعث فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غریب ماہی گیروں کے معاشی مفادات کو ترجیح دیتے ہوتے عوام دشمن فیصلہ واپس لیا جائے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ احمدا قبال رضوی نے گزشتہ پندرہ روز میں شہر قائدمیں پچاس سے زائد شیعہ نوجوانوں کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اد اروں کی جانب سے ملت جعفریہ کے افراد کی بلاجواز گرفتاریاں برداشت نہیں کی جائیں گی ۔شیعہ نوجوانوں کی گرفتاری کے بعدپولیس کی جانب سے اہل خانہ کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ان خیلات کا اظہار وحدت ہاؤس کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کیا اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکرٹری جنرل حسن ہاشمی ،مولانا صادق جعفری، علامہ مبشر حسن ،علامہ علی انور جعفری،علامہ احسان دانش،علی حسین نقوی ،رضا نقوی ،ڈاکٹر مدثر حسین ،سجاد اکبر،زین رضا،احسن عباس ،رضوان پنجوانی موجود تھے ۔علاہ احمد اقبال کا کہنا تھا کہ ایک منظم سازش کے تحت ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے پر امن افراد کو پریشان کیا جا رہا ہے شہر میں موجود دہشتگرد کالعدم جماعتیں داعش میں شمولیت اختیارکر رہی ہیں سندھ حکومت کالعدم جماعتوں کو شیلٹر فراہم کر رہی تو دوسری جانب ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں سے گرفتارکر کے ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اہل خانہ سے جھوٹے مقدمات قائم نہ کرنے اوررہائی کیلئے رشوت طلب کی جارہی انہوں نے وزیر اعلیٰ و آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ پولیس کی جانب سے بلا جواز گرفتاریوں اور محکمہ میں موجود کالی بھڑوں کے خلاف نوٹس لیں بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو ملت جعفریہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرے گی ۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) 11 جنوری کی رات کو جلال آباد اور چھموگڑ سے دو ڈھائی سو لوگ مقپون داس پہنچے اور شہیدوں کے مزار کے سامنے روڈ کی دوسری طرف تعمیراتی کام شروع کر دیا،صبح وہاں پر موجود لوگوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں کو اطلاع دی اور ایک ہی گھنٹے کے اندر ہنوچل اور شوتہ نالہ سے کافی لوگ جمع ہوگئے ،پولیس بھی تب تک پہنچ چکی تھی،پولیس کی موجودگی میں طرفین میں تصادم ہوا،گولیاں چلیں اور شدید پتھروں کی بارش ہوئی جسکے نتیجے میں کئی  لوگ زخمی ہوئے اور شوتہ نالہ سے تعلق رکھنے والے ایک  عمر رسیدہ  عبدالرحمن  نامی شخص کو دو گولیاں لگیں ،ایک گولی سینے میں اور دوسری ٹانگ میں، جس کو فوری طور پر اسپتال پہنچا دیا گیا اور ابھی اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے۔

اسکے بعد پولیس اور این ایس فورسز ،ڈی سی صاحب ،شیخ مرزا صاحب بھی علماء کے وفد کے ساتھ پہنچ گئے اور طرفین سے مذاکرات کرکے طرفین کو شرعی فیصلے پر راضی کرلیا اور جلال آباد سے چھموگڑ اور حراموش سے آئے ہوئے  لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کر خود بھی واپس  چل دیے۔

               اس واقعے کو اب تین دن گزر گئے ہیں لیکن طرفین اپنی اپنی  جگہ پرڈٹے ہوئے ہیں۔گویاپورا جلال آباد،چھموگڑ،حراموش مقپون داس ۔۔۔ سب  ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں ، کشیدگی اور جنگ کے چانسز سو فیصد موجود،ڈی سی کی آ مد اور طرفین کو ہٹائے بغیر فورسز کے ساتھ اچانک غائب ہونا اور طرفین کو اسی جنگ کی حالت میں اپنے حال پر چھوڑ دینا،انتظامیہ کا خاموش تماشائی بننا، وزیر اعلی سمیت تمام عوامی نمائندوں کا دلچسپی نہ لینا،یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں بلکہ  اس کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔

                پہلی وجہ یہ ہے کہ   اقتصادی راہداری کے مسئلے پر حکومت کے اوپر جو پریشر ہے اور بالخصوص وزیر اعلی کے اوپر گلگت بلتستان کی تقسیم کے ایشوپر عوام کی طرف سے جوردّعمل سامنے آیا ہے اس سے جان چھڑوانے کے لئے اس مسئلے کو گرم کیاگیاہے۔

                دوسری وجہ  یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی بڑا حادثہ کروا کر گلگت بلتستان کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

               تیسری وجہ یہ بھی  ہے کہ حکومت عوام کو آپس میں لڑا کر اقتصادی راہداری زون کے لئے اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چونکہ اقتصادی راہداری زون کے لئے گلگت بلتستان میں جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ سب سے مناسب ہے اور حکومتی اداروں میں مقپون داس اقتصادی راہداری زون کے لئے زیر بحث ہے۔

               اور چوتھی وجہ یہ  بھی ہوسکتی ہے کہ خود  خود طرفین کے کچھ افراد بکے ہوئے ہوں اور وہ سرکار کے ایجنڈے کو عملی کرنے کے لئے کشت و خون کرواناچاہتے ہوں۔

 ہمارا موقف یہ ہے کہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اس کو اقتصادی راہداری زون کے لئے حاصل کرنا چاہتی ہے تو کیا صرف یہی ایک حل ہے کہ لڑا واور حکومت کرو ، اور سادہ لوح عوام کا قتل عام کروا دو۔

حکومت کو اس کے علاوہ دیگر طریقوں پر بھی سوچناچاہیے۔ چلیں حکومت کو رہنے دیں کیا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ  درمیان میں آکر اس مشکل کو رفع دفع کریں اور قیمتی جانوں کے زیاں سے لوگوں کو بچائیں۔

  ان کو بھی رہنے دیں وہ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کہاں ہیں جو انتخابات کے دوران گھر گھر،قریہ قریہ جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتی ہیں اور بیچارے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لیتی ہیں۔طرفین میں تمام پارٹیوں کے ووٹرز موجود ہیں،پی پی ہو یا نون لیگ، تحریک انصاف ہو یا تحریک اسلامی۔ وحدت مسلمین ہو جماعت اسلامی۔کہاں ہیں یہ سب پارٹیاں!؟

کیاابھی اس کا انتظارکیاجارہاہے  کہ  پہلےچالیس پچاس آدمی قتل ہوجائیں اور پھرسامنے آیاجائے تاکہ میڈیا میں کوریج بھی مل جائے اور سوشل پروٹوکول کا بھی مناسب انتظام ہو۔ چلیں ان کو بھی رہنے دیں،اس علاقے کے وہ عمائدین،سماجی اور دینی شخصیات کہاں ہیں جو انتخابات میں اپنے آپ کو کئی  کئی مہینے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمپین کے لئے وقف کرتی  ہیں!؟

               کیا بلتستان،استور،نگر جلال آباد،بگروٹ،حراموش اور دوسرے علاقوں کے عمائدین کا اخلاقی فریضہ نہیں بنتا کہ درمیان میں آکر اس مشکل کو سلجھانے کی کوشش کریں۔

ہم یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ   اپنی اہمیت کے اعتبار سےمقپون داس حراموش بلتستان کا گیٹ وےہے۔یہ گلگت اور بلتستان کو ملانے والے پل عالم بریج سے چند قدموں کے فاصلےپر ہے۔مقپون داس ایک وسیع وعریض میدان ہے جو کہ جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان میں منفرد ہے چونکہ یہ دو دریا،دریائے بلتستان اور دریائے گلگت کا سنگم اور قدرت کا بے نظیر خوبصورت منظر ہے۔اس پر نہ صرف پاکستانی حکومت کی نظریں ہیں بلکہ اپنی جغرافیائی منفرد نوعیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں خاص طور پر چائنہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

 یہ زمین کا خوبصورت ٹکڑا دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے لیکن یہاں پر پانی میسر نہیں۔ اس کی وجہ پاکستانی حکومت کی بالعموم اور گلگت بلتستان کی حکومت کی بالخصوص عدم توجہ ہے۔ پورے پنجاب کو سیراب کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا دریا،دریائے سندھ اسی بنجر میدان کے کنارے سے گزرتا ہے۔چونکہ یہ میدان دریا سے کافی بلندی پر واقع ہے جسکی وجہ سے ابھی تک یہ آباد نہیں ہے۔جو لوگ اس وقت وہاں زندگی گزار رہے ہیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کے شکار ہیں ،اس وقت وہاں کی کل آبادی 103 گھرانوں پر مشتمل ہیں جن کا تعلق حراموش کے دو گاؤں ہنوچل اور شوتہ نالہ سے ہے اور اس میں 88 جنگ میں شہید ہونے والے بلتستان کے دو شہیدوں کا مزار بھی ہے۔

 یہاں پر رہنے والے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئے پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔کافی سال پہلے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر چینل بنانا شروع کر دیا اور ابھی بھی زیر تعمیر ہے۔ اور اس واٹر چینل پرکام تیزی سے نہ ہونے کی وجہ لوگوں کی اقتصادی مشکلات اور حکومت کی عدم توجہ ہے۔

               یہ وسیع وعریض میدان حراموش اور جلال آباد ،چھموگڑ کے لوگوں کے بیچ متنازعہ ہے ۔چند سال پہلے ان دو فریقوں کے درمیان ایک ہفتہ جنگ ہوئی اس کے بات کئی سال کورٹ میں اس کا کیس چلتا رہا یہاں تک کہ ڈیڑھ سال پہلے سیشن کورٹ نے اس کا فیصلہ حراموش کے حق میں سنا دیا۔جس کے فورا بعد حراموش کے لوگوں نے یہاں گھر بنا نےشروع کر دیے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں سمیت لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور اس میدان کو اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کا راز سمجھتے ہیں۔

اس وقت ہمارے حکومتی ادارے اور کرپٹ عناصر اس خوبصورت وادی کو خون سے رنگین کرکے،اس جنت ارضی کو جہنم بناکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔یہ دانشوارانِ ملت،علمائے کرام اور مخلص سیاستدانوں کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے کو فوراً حل کروائیں۔

 

تحریر۔۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر

وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱  کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پرگلگت بلتستان  کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے کبھی بھی   دریغ سے کام  نہیں لیا۔

اس کے باوجود ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے (جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انھیں کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔

بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انھیں کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔

 البتہ پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے ، بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/ اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے  کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾ اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چین اور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔ دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر   سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنے حقائق سامنے آنے کے بعد وزیر اعلی خود سے  ان کی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ  ہر صورت میں اتنا تو ضرور واضح ہوگیا کہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کا وزیر اعلی قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا  حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں گے۔

حوالہ جات:1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015

2: روزنامہ آج،4ستمبر2009

3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات

4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009

5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015

6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔

7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔

8:ایضا

 

 

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اس تناؤ اور کشیدگی  کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ دونوں ممالک کے ماضی پر بھی نگاہ ڈالنی پڑے گی۔

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے ۹۰ برسوں پر محیط دوطرفہ تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کے شکار رہے ہیں، اگرچہ کسی موڑ پر بھی یہ تعلقات دوستانہ اور قریبی نہیں تھے، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب  آل سعود نے برسراقتدار آتے ہی ایک طے شدہ سمجھوتے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہابی افکار کا پرچار شروع کر دیا اور جنت البقیع میں واقع آئمہ معصومین (ع)  اورصحابہ کرام کے مزارات؛  خاص طور پر رسول اللہ (ص) کے لخت جگر جناب فاطمہ (س) کے مزار کو مسمار کر دیا جو آج بھی آل سعود کے دامن پر ایک بدنما دھبہ ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ آل سعود نے اس ظالمانہ اقدام سے دنیا بھر کے شیعوں کے سینوں میں چھری گونپ دی لہذا ایک شیعہ اکثریت مملکت کے ناطے ایرانی شیعوں کے دل بھی اس واقعے سے داغ دار ہوئے۔ جس  کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ۳۴  برسوں تک  معطل رہے اور اس دونوں ملکوں کے سربراہانِ مملکت نےایک  دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا ، ۱۹۷۹ میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایماء پر ڈیکٹیٹر صدام حسین کے توسط سے ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو سعودی عرب نے عراق کی بعثی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس سےدونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔

۳۱ جولائی  ۱۹۸۷ کو  مکہ مکرمہ میں ایرانی حجاج مشرکین سے بیزاری کے سلسلے میں پُرامن احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران سعودی انتظامیہ نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد شہید ہو گئے، اس اقدام کے ردِعمل میں تہران میں مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا اور یوں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔

اکسیویں صدی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی تھی،  تاہم جب  رفتہ رفتہ  ایران خطے میں ایک طاقتور کے طور پر ظاہر ہونے لگا  تو خطے میں ایران کے دو بڑے دشمن اسرائیل اور سعودی عرب  ایران کی برق رفتار ترقی سے بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے، لہذا وہ مسلسل ایران کے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے عالمی اداروں کو اعتماد میں لینے کی کوششیں کرنے لگے تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے، جب وہاں سے مایوسی ملی تو سعودی عرب نے اسرائیل کو ہی ایران پر حملے کی پیشکش کی اور اسے یقین دلایا کہ ایران کے خلاف جنگ کا سارا خرچ ہم برداشت کریں گے۔

اسی طرح انہوں نے ایران میں امن و امان خراب کرنے کے لیے "جنداللہ"  نامی دہشت گرد گروہ کی بنیاد رکھی جو گذشتہ  ایک دہائی دہائی سے ایرانی سرحد پر دہشت گردانہ واقعات کرتی رہی ہے۔ اس گروہ کے کمانڈر عبدالمالک ریگی تھے جس نے گرفتاری کے بعد میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ  وہ  تمام دہشت گردانہ کاروائیاں سعودی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے رہے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، گذشتہ سال  یہ کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب ایرانی زائرین کا یک کاروان  عمرہ ادا کرنے کے بعد واپس ایران آ رہا  تھا کہ  جدہ ہوائی اڈے پر سکیورٹی اہلکاروں کے غیر اخلاقی حرکت کے باعث ایرانی حکومت کو عمرہ پر پابندی لگانی پڑی۔اور اسی سال حج کے موقع پرحج انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ہزاروں حجاج دم گھٹنے اور پاؤں تلے دبنے سے شھید ہوگئے، ان میں ساڑھے چار سو سے زائد  تعداد ایرانیوں کی تھی اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی لاشوں کو بھی ایران کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

اب گذشتہ دنوں سعودی عرب نے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ شیخ باقر النمر (رہ) کا سر قلم کر دیا، ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک  حق گو  اور نڈر عالم دین تھے، وہ سعودی حکمرانوں کے عیاشیوں اور عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے، انہوں نے شیعہ سنی تمام مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر دی تھی جس سے ظالم اور سفاک سعودی حکمرانوں کی نیندیں آڑ گئیں تھیں، لہذا اقتدار کے نشے میں مست خونخوار سعودی حکمرانوں نے حق کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہوئے شہید باقر النمر (رہ) کو اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا، یقینا انہوں نے اس اقدام سے اپنے جنازے میں آخری کیل پیوست کی ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہ مقدس اور بے گناہ خون لاکھوں  باقر النمر(رہ) کو جنم دے گا جو ان کے ۹۰ سالہ اقتدار کو خاک میں ملائے گا۔

 بہرحال زہد و تقویٰ کے پیکر آیۃ اللہ باقر النمر (رہ) کی شہادت پر پوری دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،  دنیا کے ہر گوشے میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف ریلیاں نکالیں گئیں، دیگر مسلمانوں کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے ایران کے شیعہ سنی مسلمانوں نے مل کر احتجاجی جلوس نکالے اور اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کی، اس موقع پر کمین میں بیٹھے فرصت طلب سامراجی قوتوں کے کارندے بھی مظاہرین میں شامل ہو گئے، جنہوں نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر دیا اور مشتعل مظاہرین کو بھڑکایا جس کے بعد سعودی سفارت خانے پر پھتراؤ ہوا اور اشتعال زا مواد پھینکے گئے،  یوں سعودی حکومت نے اپنا سفیر واپس بلالیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کے تعلقات منقطع ہو گئے۔

در حقیقت اس اقدام سے ان کا مقصد سعودی عرب کی حالیہ جنایات پر پردہ ڈال کر اس واقعہ سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانا تھا  اور اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوئے، کیونکہ ان دنوں سامراجی قوتوں کے زیرِ سایہ عالمی ذرایع ابلاغ سعودی مظالم پر تنقید کرنے کے بجائے سعودی سفارت خانے پر حملے کو کوریج دیتے رہے ہیں۔

اب آخر میں سعودی عرب کے ۳۴ ممالک پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا سعودی عرب اور اس حواری واقعی طور پر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں یا وہ " چور بھی کہے چور چور" کا مصداق بن کر اپنے آپ سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام ہٹانا چاہتا ہے اور پس پشت اس کے عزائم کچھ اور ہیں؟

تو عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسے ملک کا اتحاد تشکیل دینا مضحکہ خیز ہے جس نے سب سے پہلے سرکاری طور پر طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی، بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟  کیا خانہ کعبہ کو خطرہ لاحق ہوا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو وہ اللہ  دوبارہ اپنے گھر کی حفاظت کرے گا جس نے ابابیلوں کے ذریعہ ابرھہ اور اس کے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے میں بدل دیا تھا اور اگر انہیں  القاعدہ، جبھۃ النصرہ اور داعش جیسی دہشت گرد گروہوں سے  خطرہ ہے تو وہ  توساری  سعودی عرب کے دست پروردہ ہیں جو عملی طور پر خطے میں انکے  مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔  جبکہ امریکا اور اسرائیل جیسے تسلط پسند ممالک سے بھی انہیں خائف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے فرمانِ الہی [1] کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل اور امریکا کو اپنا ہم پیمان بنایا ہوا ہے،  پس ان سے خوف کس بات کی اور ڈر کس بات کا؟! لہذا بات صاف واضح ہے کہ سعودی عرب کو  خطے میں ایران کا باعزت  اور خود مختاروجود برداشت نہیں ہو رہا اور کسی نہ کسی بہانے سے ایران کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی جارہی  ہیں۔ تاہم وہ اس مقصد  میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت  اسلامی جمہوریہ ایران دینا کا واحد ملک ہے جو (اشداء علی الکفار و رحماء بینھم) کا مصداق بن کر سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئےہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس نے امیرالمؤمنین امام علی (ع)  کے اس فرمان کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا ہوا ہے کہ "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بنو" چاہے وہ مظلوم مسلمان ہوں یا غیر مسلم، شیعہ ہوں یا سنی، وہ مسلمان بوسنیا کے ہوں یا فلسطین اور یمن کے، انکا تعلق  عراق کے ہو یا شام سے، وہ  نائیجریا کے رہنے والے ہوں یا میانمار کے۔ اور  یہ اللہ تعالیٰ کا  قرآن میں سچا وعدہ ہے کہ "اللہ  کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے" [2]
 

[1]۔ اے ایمان والو، تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو تم میں سے اس کو دوست بنائے گاوہ انہی میں سے ہے۔ ( سورہ مائدہِ آیہ ۵۱۔)

[2] ۔ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ آیہ ۵۶)

 

 

تحریر۔۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (بھٹ شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تبلیغات علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی نے بھٹ شاہ میں حلقہNA-218سےضمنی الیکشن میں ایم ڈبلیوایم کے نامزدامیدوار سید فرمان علی شاہ کاظمی کےانتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ   غریبوں اور ناداروں کافرعونوں کے مقابل صاحب اقتدارہونا وعدہ الہٰی ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے عظیم جدوجہد کی اور زمانے کا فرعون سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غریب لوگ موسی علیہ السلام کی قیادت میں اسے شکست سے دوچارکریں گے،لیکن اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کے ولایت تکوینی کاامتحان بھی لینا تھا کہ  فقیرانہ لباس اور ایک لاٹھی کے ساتھ کس طرح زمانے کی سپرد طاقت کو خاک میں ملایا جاتا ہے،جس کے بعدغریب و نادار لوگوں نے طاقت اور حکومت اپنے  ہاتھ میں لی۔

علامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ سندھ کے محروم عوام بھی وقت کے فرعونوں کے مقابل سینہ سپر ہوجائیں ،اپنی کمر کس لیں ،خدا مظلوموں کے حقوق غصب کرنے والوں کو کسی صورت نہیں بخشے گا، عوام کو ان کا حق مل کرہی رہے گا،یہ ایک طویل جدوجہد سے ہی ممکن ہے، اخلاص ، تقویٰ الہٰی اور توکل الاللہ شرط ہے،ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں موجود سیاسی فرعونوں نے قیام پاکستان سے لے کراب تک غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی، انکے منہ کے نوالے چھینے ایک دن آئے گا کہ کہ جب یہ انسان دشمن حکمران عذاب الہٰی کا شکار ہوں گے، انہوں نے کہا کہ بھٹ شاہ کی عوام اپنے پیر ومرشد حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے فکر وفلسفے پر عمل کرتے ہوئے غریبوں، لاچاروں،محروموں کے غم گذارفرمان شاہ کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree