وحدت نیوز (گلگت) باچا خان یونیورسٹی پر حملہ جہالت کا نور پر حملہ ہے ،قیمتی انسانوں کا ضیاع قومی نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ملک میں برسوں سے جاری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ریاست درست سمت میں اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے،سہولت کاروں اور دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے خلاف کاروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاترہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان شعبہ خواتین کی رہنما و رکن صوبائی اسمبلی بی بی سلیمہ نے اپنے ایک بیان میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن تعلیمی اداروں کو نشانہ بناکر ملکی ترقی و خوشحالی کو روکنا چاہتے ہیں لیکن یہ دشمن کی بھول ہے کہ یہ قوم ملت شہید پرورہے اور شہیدوں کے لہو سے علم کا چراغ روشن ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کی کہیں پر بھی Will نظر نہیں آرہی ہے اور نیشنل ایکشن پلان کی روح کو دفن کیا گیا ہے اور امن دشمن سرگرمیوں پر نظر رکھنی کی بجائے ملک کے وفادار بیٹوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جارہے ہیں ۔ہماری حکومت کوداخلی امن سے آل سعود کی ناجائز حکومت کے تحفظ کی زیادہ فکر ہے جن حکمرانوں کی غیر ملکی دستر خوان پر نظر ہوگی وہ ملک و قوم کی صحیح سمت میں کیسے رہنمائی کرسکتے ہیں۔جو جماعتیں اور تنظیمیں بہ بانگ دہل داعش،طالبان اور جنگجوؤں کی حمایت پر کمربستہ ہیں جو ان ملک دشمن عناصر کو مالی و اخلاقی سپورٹ فراہم کرتے ہیں ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت صرف اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہے اور ملکی مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی صوبائی حکومت کی کارکردگی محض اخباری بیانات کی حد تک ہے عملی طور پر علاقائی مسائل سے لاتعلق دکھائی دے رہی ہے۔گلگت بلتستان میں گندم کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے جہاں عوام پریشان ہیں وہاں امن و امان کی صورت حال بھی بگڑی ہوئی ہے۔گلگت شہر میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ کا کوئی نوٹس نہ لینا انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان سہولت کاروں اور سیاسی سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا،انتہا پسند گروہ اب بھی سرگرم ہے،مصلحت پسندی اور سیاسی مفادات کے لئے ملکی سلامتی کو داوُ پر لگا دیا گیا ہے، حکومت نیشنل ایکشن پلان سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال کر رہی ہے،جنوبی پنجاب میں دہشتگرد وں کیخلاف کاروائی کا نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے شہدائے باچا خان یونیورسٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بلائے گئے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے بزدلانہ عزائم ہمیں جھکا نہیں سکتے،اسلام کے نام پر بربریت اور ظلم کی تاریخ رقم کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں،ملک پر مٹھی بھر مخصوص نظریہ اور سوچ حامل گروہ کو مسلط نہیں ہونے دینگے،اسلام آباد میں داعش کے حامیوں کیخلاف سینٹ میں پیش کردہ ثبوت پر حکومت کاروائی کرے،وزیر داخلہ کے مبہم اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے عوام ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم باچا خان یونیورسٹی شہداء کے لواحقین کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں،اس دہشت گردی کی عفریت نے ہمارے چوبیس ہزار سے زائد پیاروں کو ہم سے چھین لئے،لیکن انصاف کے حصول کے لئے مظلوموں کی فریاد کے باوجود حکمرانوں کی کان پر جوں تک نہیں رینگی،دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں میں کاروائی کو تیز کیا جائے ،اور ان درندوں کو سر عام چوراہوں پر لٹکا کر عبرت کا نشاں بنایا جائے۔
علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں داعش کے بڑھتے اثر رسوخ سے پنجاب حکومت آنکھ چرا رہی ہے،پنجاب کے متنازعہ وزیر قانون کے ہوتے ہوئے دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کی امید رکھنا ایک حماقت سے کم نہیں،جن کے روابط ایسے گروہوں سے ہوں ان سے خیر کی امید رکھنا ممکن نہیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امورتعلیم نثارعلی فیضی نے سانحہ چارسدہ کے حوالے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوتیں تعلیمی اداروں پر حملے کر کے ہمارے نوجوان نسل کو تعلیمی عمل سے دور کر نا چاہتی ہیں۔ اس کی طرح کی بزدلانہ کاروائیاں طلباء کے مضبوط ارادوں اور استقامت کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔ علم کا نور جہالت کے اندھیروں پر ہمیشہ حاوی رہے گا۔الیکٹرانک میڈیا کے مختلف نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کے نظام کو موثر بنائیں۔ ہر انسان کی جان وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ضیاع کی تلافی ممکن نہیں۔ دہشت گرد عناصر بغیرکسی معاونت کے اس طرح کی کاروائیوں میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتیں۔ ان مخفی عناصر کو بھی بے نقاب کر کے عبرت ناک سزا دی جانی چاہیے جو ملک دشمن قوتوں کے حامی و مددگار ہیں ان مدارس پرفوری پابندی لگائی جائے جن کے منتظمین کے کالعدم جماعتوں سے رابطے ہیں۔نثار فیضی نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت اپنی صفوں سے ان کے سہولت کاروں کو باہر نکال نہیں پھینکتی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)کتاب،کاپی اور بستہ لہو میں تر کیوں ہے
بتادے ملک میرا اتنا پُر خطر کیوں ہے۔۔
20 جنوری کی صبح سورج طلوع ہوتے ہی لوگ کام اور حصولِ علم کے لئے نکلے مگر سب انجان تھے کہ آج کے دن بھی بڑا سانحہ ہونے والا ہے۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں چارسدہ کے مقام پربا چا خان یونورسٹی کے بوائز ہاسٹل پر صبح 10بجے ناپاک عزائم کے ساتھ دہشت گردوں نے حملہ کیا طالب علموں کے لاش گرتے رہے ہر طرف شور و غوغا اور لوگوں پر وحشت طاری ہوا 16 کے قریب طالبہ و طالبات شہید ہوگئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین PHD کیمسٹری سمیت 20سے 25افراد شہید ہوئے ۔وطن کے محافظین پاکستان آرمی کے کمانڈوز ایک بار پھر بھر پور جواب دیتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو مار دئیے اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی حملے کے مقام پر پہنچ گئے اور حالات کو کنٹرول میں لا کر عوام کا غم وغصہ دور کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔تمام سیاست دانوں نے رسماََ اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ملک بھر میں سوگ کا اعلان سمیت قومی پرچم بھی سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا۔
قارئینِ کرام! یوں تو وطنِ عزیز پاکستان کو بیرونی خطروں کے ساتھ ساتھ اندرونی خطروں اور سازشوں کا سامنا بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور اقتصادی حالت پر بھی گہرا اثر ہوا ہے ۔پاکستان میں پہلے سے طالبان کے حملوں کا خطرہ تمام حساس اداروں سمیت عام پبلک کو بھی پتہ ہے مگر پاکستان میں داعش کا وجود اور داعشی نظریہ رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ وطن کی سا لمیت کے لئے خطرہ ہو سکتے ہیں۔کچھ لیڈروں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے مگر اب وہ بھی مان گئے ہیں کہ نہ صرف داعش بلکہ داعش کے حامی بھی پاکستان میں ہیں۔دارلخلافہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی لال مسجد اور جامعہ حفضہ نے داعش کے ہاتھوں بیعت کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے حامی ہیں۔اس طرح کراچی میں بھی داعش کے لئے فنڈینگ اور چندہ کرتے ہوئے کئی دفعہ خواتین سمیت داعشی فکر رکھنے والے دہشت گرد پکڑے گئے۔ARY اسلام آباد کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی مگر حکمران پردہ ڈالتے رہے ۔حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں جبکہ گلگت جیسے شہر میں بھی داعش کے حق میں وال چاکنگ ہمارے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔کل پشاور میں بھی خود کش حملہ ہوا جس میں معروف صحافی اورٹرائبل یونین آف جرنلسٹ کے صدر محبوب شاہ آفریدی سمیت کئی اہم لوگ اس حملے کا شکا رہوئے۔پورے پا کستان اور بلخصوص دارلخلافہ اسلام آباد کے مدرسوں میں داعش اور القاعدہ کے انتہا پسند نظریے کو فروغ مل رہا ہے۔جس کی طرف نشاندہی کئی بار ہمارے حساس ادارے بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس حساس معاملے کو نظر انداز کرنا اپنے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔آج پاکستان میں حساس ادارے،تعلیمی ادارے،مسجد ،مندر، امام بارگاہ،چرچ اور دیگر اہم مقامات اور شخصیات ٹارگٹ ہو رہے ہیں تو اس لئے کہ ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسند لوگوں کو فروغ مل رہے ہیں ۔آج ہمارے حکمرانوں کو پاکستان سے ذیادہ سعودی عرب کی سالمیت کا فکر رہتا ہے حرمین شرفین کے نام سے ہم خواہ مہ خواہ میں جزباتی ہورہے ہیںیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اول تو حرمین شرفین کو کوئی خطرہ نہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہو بھی جاتی ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امتِ مسلمہ حرمین شرفین کی دفاع کے لئے سروں پہ کفن باندھ کر نکلیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ حرمین شرفین کی سلامتی کے نام پر مسلمانوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے سعودی بادشاہی نظام کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کے لئے سعودی اعلیٰ قیادت کئی بار پاکستان وزٹ کر چکے ہیں۔اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کوئی بھی ملک نہیں کر رہا اکیلے پاکستان کئی ملکوں کے دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال وزیرستان آپریشن ہے۔مگر پاکستان کے اندر پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ لوگ اسلام آباد کے ایوانوں میں چھپے ہیں جو دین کا نعرہ تو لگا تے ہیں مگر دین کے بارے میں ان کو پتہ تک نہیں ہوتا۔لہٰذا آج ہم دربدر کیوں ہیں ہمارے لیڈروں کو سوچنا ہوگا اور جو نتائج نکلتے ہیں اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ہمارے ایک عزیز رضا بیگ گھائل صاحب نے کیا خوب کہا ہے ۔
چھپا ہے دین کے پردے میں موت کا تاجر
ذرا سا پر دہ ہٹا نے میں تجھ کو ڈر کیوں ہے
ہے دین ملک بچانے میں مصلحت کیسی
اے رہنماؤ بتاؤ اگر مگر کیوں ہے۔۔؟
تحریر۔۔۔۔۔محمد سعید اکبری
وحدت نیوز (ڈیرہ اللہ یار) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے ڈیرہ اللہ یارمیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار سدہ باچا خان یونیوورسٹی میں دھشت گردی کا سانحہ افسوس ناک ہے، ملک بھر میں دھشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا جائے۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان میں غیر سنجیدہ ہے، اس لئے کالعدم دھشت گرد تنظیمیں آج بھی ملک بھر میں نفرت انگیز سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں داعش کا سرپرست آج بھی آزاد ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ ان کے وکیل صفائی نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے عدل و انصاف کے ذریعے زندہ رہتے ہیں۔ میر بختیار خان ڈومکی کی اہلیہ اور بیٹی کی چوتھی برسی کے موقع پر ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ان کے قاتل قانون کی گرفت سے کیوں آزاد ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کے ورثاء کو بھی انصاف ملنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام آج بھی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور زندگی کی تمام بنیادی ضروریات پینے کے پانی ، تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ بلوچستان کو ترقی دیکر پنجاب کے برابر لایا جائے اور صوبے کے ساحل اور وسائل پر یہاں کے عوام کا حق حاکمیت تسلیم کیا جائے۔پری
وحدت نیوز (آرٹیکل) وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ سیاسی عمائدین اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہوجائےگا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ یہ پاکستان کا اہم ترین حصہ ہےاس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 1970 میں صدر پاکستان جنرل محمد یحیی خان نے یہاں ایڈوائزری کونسل قائم کی ،ذواالفقار علی بھٹو جب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے ۱۹۷۲ میں گلگت بلتستان میں تین اضلاع بنا کر ترقی کے راستے کھول دئیے۔ 1977 کو پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مارشل لا نافذ کیا گیا۔1982 میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے گلگت بلتستان اور دیامر کے تینوں اضلاع کو وفاقی مجلس شوری میں ایک ایک مبصر کی سیٹ مختص کی ، 1994 کے انتخابات کو بینظیر بھٹو نے جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی بڑی بڑی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے آئے جو اب بھی انتخابات کے موسم میں بڑے بڑے نعروں اور وعدوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے آتے ہیں ۔ 2002 میں صدر جنرل پرویز مشرف نے آئینی اصلاحات کے پکیج کا اعلان کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کو اسمبلی سے بدل دیا۔اور اسی طرح بلتستان کے غیور عوام نے بھی پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ 1965 اور 1971کی پاک بھارت جنگ میں بلتستان کے ۷۴ افراد درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں اور 89-1986 میں ۲۴ جبکہ 1999 میں ۸۳ افراد نے جام شہادت نوش کی ہیں۔جب جنگوں کا موسم آئے تو گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے جب سیاحت کے شعبے سے کچھ لینا ہو تو کے۲ پاکستان حصہ ہے دیوسائی کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے جب سیاچن بارڈر کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے جب شاہراہ قراقرم کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن جب آئینی حقوق اور اقتصادی راہداری کی بات آئے تو یہ علاقہ متنازع ہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اگر اتنا بڑا عرصہ اس خطے کو بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے تو اس میں موقع پرست سیاسی افراداور جماعتوں کا ہاتھ ہے اگر ہمارے نمائندے اسمبلی میں صحیح معنوں میں عوام کی نمائندگی کرتے تو بہت پہلے آئینی حقوق مل چکے ہوتے لیکن انہوں نے اس علاقے کے نام پر سیاسی فایدے تو لیے مگر علاقے کے لیے کہیں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت نہ کی ۔
جس ابتر حالات سے اس جنت نظیر خطے کو دوچار رکھا گیا ہے آج بھی ملکی سیاسی سیٹ اپ کے تناظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اس خطے کے عوام کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جائز حیثیت مل سکے۔
قوم مفاد پرستوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ سیاسی عمائدین کا نہ کوئی نظریہ نہ کوئی زبان اور نہ ہی یہ کسی اقدار کے پابند ہیں۔یہاں دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔نمائندے ایسے ہوں جو معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں نہ صرف نوکریوں اور تبادلوں کی سیاست ، الیکشن میں اقربا پروری ، رشوت ، ذاتیات کی جنگ اور علاقہ پرستی جیسے کمترین اور ذلیل ترین ہتھکنڈے ہی سیاست کادار و مدار ہوں۔ اور اب ستم بالائے ستم یہ کہ جو علاقہ سالہا سال سے انتظامی ، ثقافتی اور دینی اعتبار ایک ہو اس وحدت کو سیاسی مفادات کی خاطر تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔اب بات یہ ہے کہ اس قوم کا مزید امتحان نہ لیاجائے ،عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہے۔
سید قمر عباس حسینی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.