وحدت نیوز(گلگت)  سید مہدی دنیائے صحافت کے ایک درخشاں باب تھے مرحوم نے اپنے قلم کا کبھی سودا نہیں کیا اور حکومتی جبر کے سامنے ہرگز نہیں جھکے۔مرحوم کے گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے گرانقدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ سید مہدی کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔مرحوم مزاحمتی صحافت کے امین تھے جس نے ہردور میں حکمرانوں کے ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا اور حکمرانوں کے کرپشن اور ناانصافیوں کے متعلق اصل حقائق کو عیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے ہردور میں حکمران مرحوم سے نالاں نظر آتے تھے۔بااثر حلقوں نے ان کی حق گوئی کو دبانے کیلئے ہر حربہ آزمایا لیکن مرحوم کی حق گوئی کے سامنے ان کا بس نہیں چلا۔گلگت بلتستان کا ہرباسی ان کی جرات و ہمت کے معترف نظر آتا ہے اور ان کی رحلت نے باہمت اور حق گو افراد کو رنجیدہ خاطر کیا ہے۔مرحوم کی وفات سے جہاں دنیائے صحافت کو نقصان پہنچا ہے وہاں گلگت بلتستان کے لئے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔مرحوم کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائیگا اور ان کے شاگردوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے کھینچے ہوئے خطوط پر گامزن رہتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کا دامن تھامے رہینگے۔انہوں نے مرحوم کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے انہیں غم کے اس موقع پر صبر کی تلقین کی ۔خداوند عالم کی درگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ مرحوم کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔

یمن کا آکٹوپس

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ریاض اب بھی اس سوچ میں پڑا ہے کہ عسکری حوالے سے نہ سہی کم ازکم سیاسی حوالے سے ہی یمن ایشو پر کچھ کامیابی حاصل ہو ،یا کم ازکم دن بدن آکٹوپس کی طرح لپٹتے اس مسئلے سے کچھ اس طرح جان چھڑ ائی جائے کہ دنیا کے سامنےفاتح ثابت نہ ہوں توکم ازکم شکست خوردہ تونہ کہلائیں ‘‘
یہ خلاصہ ہے ان خبروں اور تبصروں کا جو مسلسل عربی زبان کے اہم اخبارات اورعالمی میڈیا کے ایک حصے کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں ۔

مارچ دوہزار پندرہ میں سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد اور اس وقت وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی طور پر انتہائی بدحال ملک یمن پر چڑھائی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بن سلمان کی جانب سے اس وقت یمن پر چڑھائی کے بارے انتہائی اطمنان اور یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ عمل ’’فوری اور سرجیکل‘‘(Quick and surgical)ہوگا ۔

ناتجربہ کار جذباتی شہزادے کو اس وقت بڑے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یمن ایک دلدل ہے یہاں جو بھی گھسنے کی کوشش کرتا ہے اسے نہ صرف واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ وہ اس طرح پھنستاجاتا ہے جیسےکوئی چیز آکٹوپس کے پنچوں میں پھنستی ہے ،جس قدر بچاو کی کوشش کرتا ہے آکٹوپس کے حصار میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔

اس وقت مصرجیسا ملک مضبوط فوجی طاقت کے باوجود عملی طور پراس پورے عمل سے دامن بچاتا رہا ،مصر یقینا اس وقت کو نہیں بھولا تھا کہ جب اسے ماضی میں یمن سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے تک کا موقع نہیں ملا تھا اور فرار ہونا پڑا تھا ۔

ناتجربہ کار اور گھمنڈ میں مبتلا شہزادے کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ یمن پر چڑھائی کا نتیجہ عوامی انتفاضہ کی شکل میں نکل سکتا ہے جہاں مرد تو مرد خواتین بھی اس جارحیت کے آگے مقابلے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوسکتیں ہیں ۔

یمن میں بنیادی طور پر چار اہم قوتیں موجود ہیں جن میں سب سے مضبوط ترین سیاسی انتظامی اور عسکری قوت انصار اللہ پارٹی کی ہے کہ جس میں یمن کے انتہائی اہم اور موثر قبائل شامل ہیں جن میں نمایاں طور پر حوثی قبیلہ ہے جس کے افراد انتہائی پڑھے لکھے ،ملکی نظم ونسق چلانے کی مہارت کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے بھی انتہائی مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

سن 1962میں یمن میں بادشاہی نظام کے خاتمے کے بعد حوثی قبائل نے تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہائی آرگنائز انداز سے خود کو منوایا ہے ایک طرف جہاں اس قبیلے میں خود اندرونی طور پر زبردست قسم کا انسجام اور مرکزیت پائی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ قبیلہ دوسرے قبائل اور مکاتب فکر کے لئے بھی کھلی گنجائش رکھتا ہے ۔

ماضی میں حوثی قبیلے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور زیادتیوں نے اس قبیلے کوایسے تجربات سے گذارا ہے کہ وہ ہرقسم کے دباو کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مدمقابل کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا بروقت تدارک بھی کرسکتے ہیں ۔

بنیادی طور پر حوثی قبیلہ کے افراد تمام قبائل میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے سبب جمہوریت اور مشترکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں وہ یمن میں ایک شفاف جمہوریت کی ہمیشہ سے خواہش کرتے آئے ہیں ۔

دوسری قوت یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح ہیں کہ جن کا پس منظر فوج سے تعلق رکھتا ہے اور سن باسٹھ کے انقلاب میں اس کے کردار نے اسے شہرت دی اور یوں سن انیس سو نوے سے لیکر دوہزار گیارہ تک اس نے یمن پر حکمرانی۔

علی عبداللہ صالح اور ان کی پارٹی پاپولر کانفرنس کو عرب عوامی تحریک کی لہر سے متاثرہ یمنی عوامی احتجاجی تحریک کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا ۔

ہمسائیہ ملک سعودی عرب جو کہ عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے پہلے سے ہی سخت ہراساں تھا اور وہ قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہمسائے میں کم ازکم کسی قسم کی تبدیلی واقعہ ہو،لہذا شروع میں اس نے علی صالح کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی مقبولیت کے فقدان اور زمین میں بدلتے حالات نے سعودی اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں دیا ۔

اس کے بعد سعودی عرب کی کوشش تھی کہ یمن کی عبوری حکومت کے دورانیے کو ہی طول دے اور عبوری صدر منصور ہادی کو ہی قانونی مستقل صدر بنائے رکھے لیکن عوامی احتجاج کے بعد منصور ہادی کو اقتدار چھوڑکر سعودی عرب جانا پڑا اور یہی سے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا آغاز ہوا ۔

صدر منصورہادی کی عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عسکری حملوں کو یمن کی اکثریت نے جارحیت سے تعبیر کی اور یہ وہ نکتہ تھا کہ جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں نے باہمی رسہ کشی کو ترک کرکے اس جارحیت کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کیا یوں انصار اللہ اورسابق صدر علی صالح کے درمیان بھی اتحاد وجود میں آیا ۔
گرچہ علی صالح اور انصاراللہ کے درمیان موجود اس اتحاد کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے کہ جس کی بنیاد صرف اور صرف بیرونی جارحیت کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔

واضح رہے کہ علی صالح کا بیٹا احمد صالح گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے جبکہ بعض زرائع ان کی نظر بندی کے بارے میں خبریں نشر کرتے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات یہ امید رکھتا ہے کہ وہ علی صالح کو ان کے بیٹے احمد کے توسط سے اس بات پر مجبور کرے گا کہ انصار اللہ سے اتحاد ختم کردے اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔

دوسری جانب یمن پر چڑھائی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتی نزدیکیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جو عرب ممالک میں عوامی تحریکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لئے جدوجہد کی صورت میں پہلے سے قائم ہوچکیں تھیں ۔

واضح رہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کو ہٹانے اور مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے تک بن سلمان اور بن زائد کےہی پلان تھے جو کامیابی کے ساتھ کام کرگئے ۔
یمن کی تیسری بڑی قوت اخوان المسلون کی اصلاح پارٹی ہے اصلاح پارٹی بھی قدرے آرگنائز اور نسبی عوامی پذایرائی رکھنے والی پارٹی ہے کہ جس نے سن دوہزار گیارہ میں یمنی عوامی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اصلاح پارٹی کے اخوانی نظریے(دینی سیاسی سوچ) نے اسے بھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے ،عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انصار اللہ کے ساتھ سیاسی و سماجی مقابلے کی ایک حدتک اصلاح پارٹی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے اخوانی بیگ گرونڈ کے سبب بادشاہی نظام پر چلنے والے سعودی عرب اور امارات اسے اپنا پہلا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ مصر میں وہ اخوانی حکومت کو بالکل بھی برداشت نہ کرسکے ۔

چوتھی بڑی قوت جنوبیون کی ہے در حقیقت جنوبی یمن کی علیحدگی پسند تحریک ہے جو انیس نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے وجود میں آئی ہے جن کا مرکزی حکومت پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کے حوالے سےامتیازی رویہ رکھتی ہے اس تحریک میں کچھ قبائل اور سابق فوجی افراد کی موجودگی نیز جنوبی یمن میں شدت پسنداور دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی جیسے القاعدہ اور انصار شریعیت،نے اسے کافی اہمیت دی ہے ۔

عرب تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مخصوص اور کنفیوژ کردینے والے ایجنڈوں نے اس تحریک کی عوامی پذیرائی کو انتہائی کم کردیا ہے ۔

گذشتہ دو سالوں میں اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور اس کے عسکری ونگ کو کبھی اماراتی ایجنڈوں پر عمل کرتے دیکھا گیا ہے تو کبھی مخالفت کرتے ،یوں عملی طور پر یہ تحریک اور اس سے وابستہ عوام شدید کنفوژن کا شکار ہے ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں ہر اس جماعت اور گروہ کا پیچھا کررہا ہے جو مذہبی سیاسی نظریے کا حامل ہو ،ایک طرف جہاں امارات پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کی اس تحریک کی حمایت کررہا ہے تاکہ یمن کے پھر سے دو حصے ہوں ،وہیں پر عملی طور پےیہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا قابل عمل ایجنڈہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے یمن کی تقسیم واضح ہو۔

گرچہ اس کنفیوژن نے یمن کے جنوبی حصے میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے قبائل اب بھی جنوبی یمن کی علحیدگی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یمن کے دیگر حصے اس قسم کی علحیدگی کو برداشت کرینگے ۔

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یمن کی مضبوط قوت انصار اللہ ہی ہے کہ جس نے علی صالح کی پاپولر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد مزید مضبوطی حاصل کرلی ہے۔

سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا ایک اہم مقصد انصاراللہ کی قوت کوختم کرنا تھا لیکن اب قریب ڈھائی سال بعد ہر گذرتا دن سعودی عرب کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کا فوری سرجیکل آپریشن نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ وہ یمن کے آکٹوپس کی گرفت میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے ۔

عرب میڈیا میں نشر ہونے والی لیکس کے مطابق مسند شاہی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والا جوان شہزادہ بن سلمان اب یمن جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے یمن کی شرائط کو ہی کیوں نہ ماننا پڑے ۔

بن سلمان اچھی طرح جان چکا ہے کہ یمن جنگ کو مزید طول دینے کا نتیجہ اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے ،پہلے سے ہی یمن پر چڑھائی کے فیصلے سے نالاں خاندان کے بڑے بن سلمان کی ولی عہدی سے سخت چراغ پاہیں جبکہ قطر کے ساتھ جاری کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔

عالمی سطح پر یمن کی تباہ حال صورتحال اور پھیلتے وبائی امراض کے سبب دباو بڑھتا جارہا ہے اور اب حال ہی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر کی لیک ہونے والی ایمیلز نے بن سلمان سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کہ اس نے یمن میں سویلین کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالی دی ہے ۔


تحریر۔۔۔عابد حسین

وحدت نیوز(کراچی) خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کراچی ڈویژن کے زیرِ اہتمام سرجانی ٹاؤن ضلع وسطی کراچی میں جشن آزادی کی مناسبت سے بازار مہربانی کا اہتمام کیا گیاجہاں ضرورت مند خواتین و مرد حضرات نے مفت کپڑے و دیگر اشیاء حاصل کیں ، اس موقع پر ڈویژنل سیکریٹری خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ زین رضوی نے سرجانی ٹاون یونٹ اور تعاون کرنے والے مومنین کا شکریہ ادا کیا اور کراچی کے دیگر علاقوں میں بازار مہربانی لگانے کا اعلان کیا، زین رضوی کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام نے ایم ڈبلیوایم کے فلاحی شعبے کی جانب سے بازار مہربانی کے اہتمام کو خوب سراہااور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کی اپیل کی۔

وحدت نیوز(اوورسیز نیوز آن لائن) علامہ تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کا سراغ نہ مل سکا، انتظامیہ ریاست کی سالمیت پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ۔

تفصیلات کے مطابق سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی  اور ان کی اہلیہ پر 15فروری کو نامعلوم افراد نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ ملزمان دن دیہاڑے کاروائی کر کے غائب ہو گئے ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے ۔ واقعہ کے بعد آزادکشمیر بھر سمیت پاکستان میں بھی قاتلوں کی گرفتاری کیلئے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے احتجاج کیا۔انتظامیہ کی یقین دہانیوں کے بعد احتجاج کا سلسلہ تو رک گیا مگر تا حال کوئی تسلی بخش کاروائی نہ ہو سکی ۔انتظامیہ کی نا اہلی پر آزادکشمیر کے عوام میں شدید بے چینی پائی گئی ہے ۔

ایک شہری نے اوورسیز نیوز آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر علامہ تصور حسین نقوی الجوادی جیسی بڑی شخصیت پر حملہ کرنے والے گرفتار نہ ہو سکے اور دن کی روشنی میں پولیس و دیگر اداروں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو عام شہریوں کا کیا بنے گا ۔ انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے ، اس واقعہ کو معمولی نہ سمجھا جائے، ریاست کے امن کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ، حملہ آور اور ان کے آلہ کار اگر قانون کی گرفت میں نہیں آتے تو ایسے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں ۔

یاد رہے کہ علامہ تصور حسین نقوی الجوادی اور ان کی اہلیہ پر 15فروری کو دن گیارہ بجے نا معلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں علامہ تصور جوادی اور ا نکی اہلیہ زخمی ہو گئے ۔ جنہیں زخمی حالت میں سی ایم ایچ مظفرآباد منتقل کیا گیا ۔ بعد ازاں علامہ تصور جوادی کو اسلام آباد سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا تھا ۔چند روز قبل انہیں واپس مظفرآباد گھر منتقل کیا گیا ۔علامہ تصور جوادی تیزی سے روبہ صحت ہو رہے ہیں ۔

وحدت نیوز(اوورسیز نیوز آن لائن) سیاسی و سماجی رہنماءسید صدیق احمد شاہ نے کہا ہے کہ آزادکشمیر کے سیاسی ،سماجی و مذہبی رہنماﺅں کے علاوہ سول سوسائٹی نے حکومت آزادکشمیر سے مطالبہ کیا ہے کہ علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی اور ان کی اہلیہ کو فوری طور پر پچاس پچاس لاکھ روپے مالی امداد فراہم کی جائے ۔علامہ تصور جوادی کا کنبہ اس وقت انتہائی کسمپرسی میں ہے ،ان کے بچے ،بچیاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جن کے تعلیمی اخراجات ماہانہ ہزاروں روپے ہیں ۔گھر کے دونوں سربراہان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس سے گھر کا نظام ڈسٹرب ہو چکاہے ۔

انہوں نے کہا کہ گڑھی دوپٹہ کے مقام پر انسداد دہشتگردی عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ دھرنے میں سیاسی ،سماجی، مذہبی، تاجر و طلباءتنظیموں کے رہنماﺅں اور سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ کو پچاس پچاس لاکھ مالی امداد فراہم کرے ۔دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی مالی امداد کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے ،مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت آزادکشمیر واقعہ کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہے ،اور متاثرہ گھرانے کی ابھی تک کوئی مالی اعانت نہیں کی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں جسے حکومت سنجیدگی سے نہیں لے رہی ۔فرزند مظفرآباد کے دعویدار وزیراعظم گڑھی دوپٹہ کے مقام پر ہزاروں افراد کے مطالبے پر فوری طور پر متاثرہ خاندان کو پچاس پچاس لاکھ روپے کی فراہمی یقینی بنا کر حقیقی معنوں میں فرزند مظفرآباد ہونے کا ثبوت دیں ۔انہوں نے حکومت آزادکشمیر اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو فی الفور گرفتار کر کے تختہ دار پر لٹکایا جائے تا کہ آئندہ کوئی بھی ریاست کے امن کو تباہ کرنے کی مذموم سازش نہ کر سکے ۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم رضا عابدی و دیگر رہنماؤں نے کہا ہے کہ شہر قائد میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کی عدم گرفتاری نے کراچی آپریشن کی کامیابی کے دعوؤں پر سوالیہ نشان عائد کر دیا ہے، ایک طرف تو شہر بھر میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے تو دوسری جانب صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کے درمیان جاری لڑائی، جس کے باعث عوام میں شدید تشویش میں مبتلا ہے، ضروری ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ملکی سلامتی کے خلاف سرگرم کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیخلاف سندھ حکومت و سیکیورٹی ادارے ایک پیج پر آکر مؤثر حکمت عملی کے تحت کارروائی عمل میں لائیں، ان خیالات کا اظہار رہنماؤں نے وحدت ہاؤس کراچی میں کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر علامہ مبشر حسن، علامہ صادق جعفری، علامہ علی انور، علامہ اظہر نقوی، علامہ سجاد شبیر رضوی، علامہ احسان دانش، تقی ظفر و دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں کالعدم تنظیموں اور دہشتگرد عناصر کے ٹریننگ کیمپس اور اڈے بدستور موجود ہیں، دہشتگردی کی نرسریاں قائم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں، بجائے اسکے کہ کالعدم تنظیموں اور دہشتگردی کے اڈوں کے خلاف کارروائی کرکے ان کا سدباب کیا جاتا، سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردی کی کارروائیوں کو نئی نام نہاد تنظیموں پر تھوپ کر اپنی جان چھڑا رہے ہیں، جس کے باعث عوام کے ساتھ ساتھ خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار و افسران بھی غیر محفوظ ہو گئے ہیں، جنہیں کالعدم تنظیموں کے دہشتگرد جب جہاں چاہے باآسانی نشانہ بنا رہے ہیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت، سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک پیج پر آکر شہر قائد میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کو سنجیدگی سے لیں اور کالعدم تنظیموں، دہشتگرد عناصر اور انکے مذہبی و سیاسی سہولت کاروں کے خلاف بے رحمانہ بھرپور آپریشن کا آغاز کیا جائے، کیونکہ کالعدم تنظیمیں ہی ملکی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں، سیکورٹی ادارے کراچی سمیت سندھ بھر میں کالعدم تنظیموں اور انکے سہولت کار نام نہاد مدارس کیخلاف موثر حکمت عملی کے تحت کارروائی عمل میں لائیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree