وحدت نیوز (سکردو)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ شیخ زاہد حسین زاہدی نے کہا کہ نگران حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں صنف علماء کے داخلے پر پابندی علماء کی توہین اور بوکھلاہٹ ہے۔ انہوں نے علما کے خلاف عملی اقدام کر کے اپنی ذہنیت واضح کر دی، وزیراعلی فوری طور علماء کی اہانت پر معافی مانگیں ورنہ تمام مکاتب فکر کے علما کو جمع کر کے نام نہاد نگران حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کو شاید معلوم نہیں کہ اگر گلگت بلتستان میں امن قائم ہیں تو حکومتی اداروں اور طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہاں کے امن پسند علماء اور عوام کی وجہ ہے اور ان علماء سے ملک کے محب وطن دہشتگردو مخالف علماء کا رابطہ ہے اگر حکومتی ادارے امن قائم کر سکتے ہیں تو ملک کے دیگر حصوں میں کیوں نہیں قائم کرتے ۔ ہم علماء کی توہین کو ایک لحظہ کے لیے برداشت نہیں کرسکتے اگر وزیراعلیٰ کو کلمہ پاک بھی یاد ہے تو علماء کی تعلیم کر دہ ہے۔ انکے علماء کے خلاف اقدام پر تمام مکاتب فکر کے علماء کو دکھ پہنچا ہے۔ اگر پابندی عائد کرنی ہے تو گلگت بلتستان میں دہشتگرد عناصر کے آمدورفت پر پابندی عائد کی جائے، اسلحے کی نقل حمل پر پابندی عائد کی جائے، منشیات کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کرے ، ترکی کے فحش ڈراموں پر پابندی عائد کی جائے۔ لیکن سلسلہ اس کے برعکس ہے یہاں پر بھی فیض احمد فیض کے کلام کی طرح ہے سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد ہے۔نگران حکومت گلگت بلتستان کو پاکستانیوں کے لیے نوگو ایرایا بنا کر کس کو خوش کرنا چاہتی ہے ریاستی ادارے نگران حکومت کی اس پالیسی کو آسان نہ لے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کے لیے نوگو بنانا را کی خواہش ہے۔ بعید نہیں کہ کل وطن عزیز پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان بھی نگران حکومت کی اس پالیسی کو اپنے میڈیا میں جگہ دیں۔

 

گلگت بلتستان کو پاکستان کے علماء اور دیگر امن پسند عوام کے لیے نوگو ایریا بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے اور ان تمام عوامل کو دیوار سے لگائیں گے جسکے نتیجے میں علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت پہنچتے ہوں۔ہم نے اس خطہ کو قوت بازو سے آزاد کرایا ہے اور پاکستان سے الحاق بلاشرط و شروط کے کیا ہے اگر گلگت بلتستان کو پاکستان سے مختلف ناموں سے الگ کرنے کی کوشش کرے توان غداروں کو سبق سکھائیں گے اور جانوں کی قربانیاں دے کے واضح کردیں گے کہ یہ ارض پاک ہے جان اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے۔ہم حساس اداروں تک ایک بار پھر یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ دشمن کے ایجنڈوں کو تقویت ملنے والی پالیسوں کودفن کرے۔ حساس ادارے نااہل حکمرانوں کی نااہلی اورکم ظرفی پر نگاہ رکھیں اور ایسی پالیسیاں بننے نہ دیں جس سے دشمن خوش ہوں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں یکجہتی اور یکسوئی کی جس قدر ضرورت پاکستانی قوم کو آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ کیونکہ جب تک قوم میں دہشت گردی کے حوالے سے اتحاد و اتفاق نہیں ہوتا اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے اہم اور ضروری چیز یہی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ حکومت کی غلط پالیسی کے باعث دہشت گردوں کا نیٹ ورک مضبوط اور فعال ہوا۔ دہشت گردوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے اڈے قائم کر لیے ہیں۔ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دہشت گردوں نے بم دھماکے یا خودکش حملے کرکے بے گناہوں کا خون نہ بہا یا ہو۔ کہیں تخریب کار انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں تو کہیں کرپٹ عناصر مالی دہشت گردی سے قوم کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں۔ انتظامی افراتفری، بد نظمی سے آئین اور قانون کا قتل عام ہو رہا ہے۔اسی لیے دہشت گردی سے نجات ملک کے لیے نا گزیر ہو گیا ہے۔جنگ جیتنا ہے تو اچھے برے کی تمیز ختم ، جانبداری سے اجتناب کرکے ہر قسم کی دہشت گردی کا سر سختی سے کچلنا ہوگا۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران آج بھی دہشت گردی کے اقسام میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے لیے اب بھی ڈھکی چھپی ہمدرددی پائی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کی تعریف پر اتفاق نہیں ہو پایا۔ایک ایسا ملک جس کی بنیاد کرپشن اور در و دیوار کو دہشت گردی نے چھلنی کر رکھا ہو جس کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشان لگے ہو اس کے قیادت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خود پر نیند حرام کر لینا چاہیے۔

وحدت نیوز (یمن) گذشتہ روز یمنی دارالحکومت صنعاء میں شیعہ مجاہدین انصار اللہ کے انقلاب کی کامیابی کا جشن منایا گيا جب صدارتی محل میں ایک اجلاس کی تقریب میں کہ جس میں یمن کی اعلی شخصیات شامل تھی، الحوثی شیعہ قبیلے کی انقلابی کمیٹی (جسے 21 ستمبر کے انقلابی گروہ کے نام سے جانا جاتا ہے) نے نئی حکومت سازی کے لیے عبوری قانون و ضابطے کا اعلان کیا جس کے تحت پارلیمان تحلیل ہوگئ اور 551 اراکین پر مشتمل عبوری قومی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں تحلیل شدہ اسمبلی کے اراکین بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ ایک فرد کے صدرِ مملکت بنائے جانے کے بجائے عبوری قومی کونسل 5 رکنی صدارتی کونسل تشکیل دے گی جس کی توثیق انقلاب کمیٹی کرے گی۔ صدارتی کونسل بااختیار طور پر عبوری حکومت قائم کرسکے گی۔ اس عبوری مرحلے کے تمام ذمہ داران/ادارے دو سال کی معینہ مدت میں نئی حکومت سازی کے لیے پارلیمانی و صدارتی انتخابات کا انعقاد اور نئے دستور کی تیاری کا مرحلہ مکمل کریں گی۔ اس نئی حکومت سازی کے مرحلے میں انقلاب کمیٹی ملکی دفاع، عوام کے حقوق و سیکورٹی کا تحفظ یقینی بنائے گی۔واضح رہے کہ آل سعود خاندان کے نئے بادشاہ نے جی-سی-سی کے پلیٹ فارم کے ذریعے اور یمن کے سابق سعودی نواز حکمرانوں کے پردے ميں یمن کی 6 ریجنز کی تقسیم کے جی-سی-سی کے سابقہ منصوبے کی تکمیل کی ایک بار پھر سے کوششیں تیز کردی ہیں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کوئٹہ ڈویژن کے جاری کردہ بیان میں ایم ڈبلیوایم کے کونسلر محمد مہدی نے کہا ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے عوام کے مسائل حل ہونگے۔ منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ جس طرح عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے لہذا وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اپنی اعلیٰ کارکردگی کا معیار قائم رکھتے ہوئے اس اعتماد پر پورا اُترینگے۔ تمام منتخب نمائندوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دینگے اور اپنے سرکاری فنڈز دیانتداری سے خرچ کرینگے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے ثمرات سے استفادہ کرسکے۔ اور مستقبل میں عوام کو تعلیم ، صحت ، سماجی بہبود ، امن و امان اور دیگر مسائل کے حل کے لیے راہ ہموار ہوجائے۔ صوبے میں عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے چاہیے۔ صوبے میں بلدیاتی اداروں کی فعالی سے ترقی کے عمل میں تیزی کے ساتھ ساتھ امن و امان کی مجوعی صورتحال میں بھی نمایاں بہتری آنی چاہیے۔ مجلس وحدت مسلمین یقین رکھتی ہے کہ کامیاب ہونے والے امیدوار جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ایمانداری ، خلوص نیت اور قومی جذبے سے کام کرینگے کیونکہ خالق حقیقی کی خوشنودی خدمت خلق میں ہی پوشیدہ ہے۔

وحدت نیوز (گلگت) برمس کے عمائدین نے وحدت ہاوس گلگت میں مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ شیخ عاشق حسین ناصری اورصوبائی ترجمان الیاس صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکمران جماعت کی نظر میں گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے حالانکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کرکے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے اور 28 ہزار مربع میل پر مشتمل خطہٌ گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔یہ اس علاقے کے عوام کی بدقسمتی سمجھئے یا ملک عزیز پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر براجمان حکمرانوں کی نااہلیت، کہ 68 سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کے عوام کو قومی و صوبائی اسمبلی کی نمائندگی حاصل نہ ہوسکی۔ ماضی میں آئینی حقوق کے حصول کیلئے کئی آوازیں بلند ہوئیں لیکن حکمرانوں نے اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے ان آوازوں کو خاموش کرادیا اور یوں آج تک علاقے کے عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔

 

خطہ گلگت بلتستان جو بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے تاکہ آنیوالی نسلیں ان وسائل سے استفادہ کرتےہوئے علاقے کا مستقبل روشن اور تابناک بنائیں گے۔بصورت دیگر اگر یہ وسائل کسی اور کے ہاتھ چلے گئے تو ان دوسری غلام اقوام کی طرح اس علاقے کے عوام بھی اپنی ہی سرزمین میں بھیک مانگتے پھریں گے اور کوئی بھیک دینے والا بھی انہیں میسر نہ آسکے گا۔ ڈوگرہ راج کے دوران 1927 میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی خاطر سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ عمل میں آیا جس کے تحت کسی دوسرے علاقے کے شہری کو خطہ گلگت بلتستان میں زمین خریدنے پر پابندی عائد تھی اور یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادے کا اختیار صرف اور صرف یہاں کے عوام کو حاصل تھا لیکن 1952 میں عوام کے اس حق کو نہ جانے کس مقصد کے تحت چھین لیا گیا اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کرکے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کو نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی علاقے کے شہری کو گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی اور یوں آج گلگت بلتستان میں غیر مقامی افراد کی ایک کثیر تعداد علاقے میں مقیم ہے اور مقامی آبادی اقلیت میں بدل رہی ہے۔حکومت نے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے من پسند افراد میں کونو داس اور جوٹیال میں ہزاروں ایکڑ اراضی بانٹ دیا ہے جس سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

 

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ روایات یہ بتاتی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ آبادیوں کے عوام اپنے علاقے سے متصل بنجر اراضیوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے اپنے زیر استعمال لاتے رہے ہیں اور ماضی کی حکومتوں نے ایسی روایات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بنجر زمینوں کی آباد کاری کیلئے دست تعاون بھی بڑھادیا اور حکومت کی نگرانی میں واٹر چینلز بنوائے گئے اور نرسریز سے مفت میں درخت مہیا کئے گئے۔پچھلے کئی سالوں سے گلگت اور آس پاس کی بنجر اراضیوں کو آباد کرنے کے عوامی حق کو چھینتے ہوئے آباد کاری کے عمل میں حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جس سے تنگ آکر علاقے کے عوام عدالتوں میں انصاف کے منتظر ہیں۔

 

رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کا زیادہ استعمال صرف اور صر ف گلگت شہر سے متصل آبادیوں میں ہورہاہے اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی سابقہ روایات کے مطابق عوام بنجر زمینوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے تصرف کررہے ہیں جو کہ ان علاقوں میں بسنے والے عوام کا بنیادی حق ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے عوام کوان کے علاقے سے متصل تمام بنجر زمینوں کے حقیقی وارث سمجھتی ہے اور یکطرفہ طور پر نافذالعمل ناتوڑ رول کو قاتل رول تصور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کرتی ہے۔چلاس داریل سے لیکر بلتستان خپلو اور غذر سے لیکر خنجراب تک کی بنجر زمینوں کے وارث ان علاقوں میں بسنے والے عوام ہیں جن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کسی طور کامیاب نہیں ہونے دینگے۔موجودہ نگران حکومت جو چور دروازے سے اقتدار تک پہنچی ہے ،کو وحدت مسلمین نے شروع دن سے مسترد کیا ہے کیونکہ نگران حکومت کے وزراء کی فوج گلگت بلتستان کے وسائل پر ایک بوجھ ہیں اور نگران حکومت کی مشکوک سرگرمیوں سے اندازہ ہورہا کہ بروقت الیکشن کروانے میں ان کی نیت صاف نہیں ہے اور ان کے اقدامات سے کسی سازش کی بو محسوس ہورہی ہے۔

 

رہنماؤں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کانا ڈویژن کے ساتھ مل کر مخصوص علاقوں کی بنجر اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیکر ان اراضیوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مختلف سرکاری اداروں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ برمس داس کی اراضی کو مقامی لوگوں نے خانگی تقسیم کرکے آباد کاری شروع کی جہاں فی گھرانہ مشکل سے 10 مرلہ زمین نصیب ہوئی ہے میں حکومت کی طرف سے مداخلت کسی شرارت سے کم نہیں۔مزید یہ کہ مذکورہ جگہ میں 220 کنال اراضی قبرستان کیلئے مختص ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے علاقے میں نقص امن کا خدشہ لازمی امر ہے او ر اس کو بنیاد بناکر الیکشن ملتوی کرواکے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔

 

رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناتوڑ رول کا اجراء صرف اور صرف شیعہ آبادیوں پر کیا جارہا ہے تاکہ یہاں فرقہ واریت کے پرانے حربے کو استعمال کیا جاسکے اور غیر شیعہ آبادیوں کو بنجر زمینوں کی خانگی تقسیم کے ذریعے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور حکومت کا یہ اقدام صرف اور صرف اہل تشیع میں احساس محرومی پیدا کرکے ایجی ٹیشن کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ناتوڑ رول کا استعمال صر ف اور صرف شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر کیوں؟ کسی غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر زمینوں پر کیو ں اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ اس قاتل قانوں کا اطلاق غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر ہو۔ ہم تو سرے سے اس قانون کی نفی کرتے ہیں جو پورے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس آواز پر گلگت بلتستان کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ۔ آج ہماری آواز کو دبایا گیا تو آنیوالے کل میں دوسری آبادیاں بھی اس قانون کی زد میں آئینگی۔آج ہم چیخ رہے ہیں تو کل کوئی اور چیخے گا۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ سونی یار جو موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کا علاقہ ہے جس کے کچھ حصے پرپاک فوج کا قبضہ تھا اور عوام نے فوج سے معاوضہ طلب کرتے ہوئے باقیماندہ علاقے کو خانگی تقسیم کرکے اپنی تحویل میں لے لیا اور موجودہ نگران وزیر اعلیٰ نے خود ہی پاک فوج سے اپنی اراضی کا معاوضہ بھی لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کا یہ اقدام صحیح اور درست تھا۔نگران وزیر اعلیٰ بتائیں جب وہاں ناتوڑ رول نافذ نہ ہوسکا اور اس نے خود پاک فوج سے اپنی زمین کے عوض معاوضہ وصول کیا تو گلگت میں اس قاتل قانون کو نافذ کرکے عوام کی ملکیتی اراضی کو خالصہ سرکارکیسے قرر دیا جارہا ہے؟ اور یہ نہیں ماضی میں بھی اس مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری ملی تو اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ سال 2003 میں اس وقت کے ہوم سیکرٹری نے گلگت کے کشیدہ حالات میں کرفیو کا نفاذ کرکے نومل کے عوام کے چھلمس داس میں تعمیرشدہ مکانات کو بلڈوز کیا اور آج تک عوام کو انصاف نہیں ملا ہے۔

 

رہنماؤں نے صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ حضرات تو خود لینڈ مافیا کا تذکرہ کرتے کرتے تھک ہار چکے ہیں اور اسی قاتل قانون نے محکمہ مال کے پٹواریوں اور آفیسروں کو ککھ پتی سے کروڑپتی اور ارب پتی بنادیا ہے۔محکمہ مال نہ صرف اپنے لئے مال بناتی ہے بلکہ دوسرے بھی اسی مال سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ناجائز مال حکومت کے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آرہا ہے۔اسی محکمہ مال کے مک مکا کا نتیجہ ہے کہ پہاڑوں پر لوگ چڑھ گئے اور اور پہاڑوں کو بھی بھاری رشوت کے عوض لوگوں کے نام الاٹ کیا جاچکا ہے۔

 

آخر میں رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حکومت عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی بجائے آباد کاری کے مسائل پر توجہ دیکر بنجر اراضیوں کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ عوام کی زمینوں کو ان سے چھین کر مفاد پرستوں کا پیٹ بھریں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو علاقے کے عوام کو بے چینی اور تشویش میں مبتلا کرے اورہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے تو حکمرانوں کے حق میں بہتر ہوگا۔بصورت دیگر یا ہم رہیں گے یا پھر تم۔

وحدت نیوز (بیروت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری نے حالیہ دورہ لبنان کے موقع پرحزب اللہ لبنان کے سربراہ قائد مقاومت حجتہ السلام  سید حسن  نصراللہ سے بیروت میں انکی رہائش پر خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی اور حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے، حجتہ السلام سید حسن نصراللہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ ناصرعباس جعفری نے  پاکستان میں ایم ڈبلیوایم کے کردار و فعالیت اور ملت پاکستان کی بیداری اور شعور کے حوالے سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ کوآگاہ کیا، انہوں نے پاکستان میں حالیہ دنوں میں شیعہ سنی یونٹی کے اقدامات اور سعودی نواز حکومت سے عوامی بیزاری کے حوالے سے بھی آگاہ کیا،ایم ڈبلیوایم کے قائدین نے قنیطرہ کے مقام پرحزب اللہ کے چھ مجاہدین بالالخصوص شہید جہاد عماد مغنیہ کی شہادت پر قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کی خدمت میں تعزیت و تہنیت کا اظہار کیا، حجتہ السلام سید حسن نصر اللہ نے علامہ ناصرعباس جعفری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں،امریکی اسرائیلی گماشتوں (تکفیریوں) کا وجود جڑ سے اکھاڑے بغیرعالم اسلام میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے،اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے، شیعہ سنی اتحاد کی طاقت کے ذریعے امت مسلمہ کو باہم دست و گریباں کرنے کی امریکی سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے،قائد مقاومت نے پشاور اور شکارپور سانحہ پر تعزیت کا اظہارکرتے ہوئے اسے  تکفیری عناصر کی بزدلانہ کاروائی  قرار دیا اور دونوں سانحات پر ملت پاکستان اور متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہا رکیا، ان کاکہنا تھا کہ خدا ان ہی قوموں کو آزمائش میں ڈاتا ہے جو ان آزمائشوں میں سر خرو ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں،امید کرتے ہیں کہ یمن کے بعد پاکستان سے بھی امریکی و صیہونی تسلط کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کی عوام بھی سکو ن کا سانس لے سکیں گے،پاکستان کی عوام کو چاہیئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی  فوج کی مدد کریں تاکہ پاکستان سے بھی تکفیریوں کے نجس وجود کا خاتمہ ہوسکے،لبنان کی عوام نے بھی یہ کام انجام دیا تھا، میں امید کرتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مظلوم عوام کی پناہ گاہ بن کر سامنے آئے اور حال میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کو قائم کرنے کیلئے اپنا ہر قسم کا کردار ادا کرے،یہ صدی اسلام کی صدی ہے، اسرائیل انتہائی کمزور ہوچکا ہے اور وہ زمانہ گزر گیا کہ جب سامراج اس خطے میں اپنے حکمرانی کرتا تھا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree