وحدت نیوز (گلگت ) خواتین تعمیری سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں برپا کرسکتی ہیں ،مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑی جائیگی۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی سیکرٹری سیاسیات شکیلہ نبی نے بارگو میں خواتین کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ کے نام پر علاقے کی خواتین کو بھکاری بنادیا ہے ،ہماری خواتین صلاحیتوں کے اعتبارسے کسی بھی علاقے کی خواتین سے پیچھے نہیں۔ماضی میں انہی جماعتوں نے جھوٹے نعرے لگاکر ہمارا استحصال کیا ہے اور عملی طور پر خواتین کے بہبود کیلئے کوئی پروگرام مرتب نہیں کیا۔مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین علاقے میں خواتین کی بہبود کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے گی اور تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین کو گھر کی دہلیز پر روزگار کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔انہوں نے کہا کہ 8 جون کو خواتین خیمے پر مہر ثبت کرکے گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی میں بھرپور کردار ادا کرینگی۔انہوں نے کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدر دی کرتے ہوئے دہشت گردوں سخت الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ کیا جائے۔
وحدت نیوز(گلگت)گلگت بلتستان کے عوام آزمائے ہووں کو مسترد کرکے تعلیم یافتہ نوجوان قیادت کو خطے کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کا موقع دیں،روائتی اور مورثی سیاست نے علاقے کو محرومی اور بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا،آج بلند و بانگ دعویٰ کرنے والے بتائیں کہ جب عوام 12 دن تک سڑکوں پر اپنے بنیادی حق سبسڈی کے لئے بیٹھی تھی تب یہ لوگ کہا ں تھے؟اب وہ دور نہیں رہا کہ عوام کو بیووقف بنا کر اقتدار کے مزے لوٹیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیا ت سید ناصر شیرازی نے گلگت میں ورکرز اجلاس سے خطاب میں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ عوام اسمبلی میں صرف چہروں کی تبدیلی نہیں چاہتی بلکہ نظام کی مکمل تبدیلی کے خواہاں ہیں،پیپلز پارٹی کے سابق حکمرانوں نے اس علاقے کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے نتائج 8 جون کو مل جائے گا،موجودہ حکمران بھی لولی پوپ کے سہارے الیکشن کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں،اگر یہ حکمران علاقے اور اس کے عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو ان کو ان کا آئینی حق دیا جائے،چند مفاد پرستوں کو نواز کر عوامی رائے خریدنے کی باتیں کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں،خطے کے عوام ان بہروپیوں سے بخوبی واقف ہیں،انشااللہ 8 جون عوامی فتح کا دن ہوگا اور خلق خدا ہی اس خطے پر راج کریگی۔
وحدت نیوز(مظفرآباد،کوٹلی، میرپور، ہٹیاں ، نیلم،باغ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ریاست گیر سوگ، ضلعی ہیڈکوارٹرز پر عہدیداران و کارکنان نے شمعیں روشن کر کے سانحہ صفورہ چورنگی پر اسماعیلی برادری سے اظہار یکجہتی کیااورسانحہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، مظفرآباد میں علمدار چوک کے مقام پر شمعیں روشن کیں گئیں ,شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا کہ ہم اسماعیلی برادری کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ، اسماعیلی برادری کی اس ملک کے لیئے بڑی خدمات ہیں ، انہوں نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑا کردار ادا کیا ہے،محب وطن اسماعیلیوں کا قتل عام ، قانون نافذ کرنے والے اداروں تحقیقات کر کے عبرتناک انجام تک پہنچائیں ، کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی برائے نام نہیں انہیں پابندکیا جائے، گو کہ اس میں را ملوث ہے مگر را کے سہولت کاروں کو پکڑا جائے ، را کو کون سپورٹ کر رہا ہے اور کیوں سپورٹ کر رہا ہے دیکھا جائے، ملک پاکستان نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ، اس موقع پر مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دینے والوں ، کفر کفر کا راگ الاپنے والوں ، آئے روز فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو بھی پکڑا جائے ، پوچھا جائے کیوں کر رہے ہو، کس کی ایما پر کر رہے ہو؟ تکفیری دہشت گرد جو کہ را ، امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ ہیں سے پاک سرزمین کو پاک کیا جائے، جائے وقوعہ سے داعش کے پمفلٹ ملنا ، سیکورٹی اداروں کو اس جانب بھی متوجہ ہونا ہو گا۔ داعش کی پاکستان میں سرگرمیاں جو کہ والچاکنگ سے شروع ہوئیں ، اس وقت وفاقی وزیر داخلہ کہتے رہے کہ داعش کا کوئی وجود نہیں ، ٹھیک ہے داعش کا وجود نہیں ، تو داعش جیسے نظریات رکھنے والوں کو گرفت میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ کیا پاکستان کو بھی شام، ایراق اور یمن بنانے کی سازش کی جارہی ہے، وہ ملک کہ جو وحدت کی شمع روشن کر کے وجود میں آیا ، وہ مملکت خداداد پاکستان کہ شیعہ سنی نے ملکر بنایا ، آج انہیں باہم دست و گریبان کرنے کے لیئے طرح طرح کے حربے استعمال کیئے جارہے ہیں ، ڈالر اور ریال کی چمک دھمک سے لوگوں کے منہ سے زہر اگلوایا جا رہا ہے، ایسے حالات میں ہم شیعہ سنی بھی یہ عہد کرتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملکر بنایا تھا ایسے ہی ملکر بچائیں گے، اغیار اور ان کے ایجنٹوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، داعش ہو یا کوئی لشکر ہماری اس وطن سے وفاداری کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں دیدہ نادیدہ ہاتھ ناامنی پھیلا کر بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں ، ہم اس اجتماع کے توسط سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کہ جو خواب خرگوش کے مزے اقتدار کے ایوانوں میں آ کر لیتے ہیں وہ مستعفی ہوتے ہوئے گھر جا آرام کریں ، اپنی ناکامی کا اعتراف کریں ، وہ حق حکمرانی کھو چکے ہیں آئے روز شیعہ سنی نہتے عوام کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ کام تو طالبان نے کیا ہے، ہم سوال کرتے ہیں کہ ان کو روکنے ، طالبان جیسے ناسوروں کو کچلنے کے لیئے ہی عوام نے آپ کو مینڈیٹ دیا تا کہ آپ ان کے بنیادی حق زندگی کے لیئے تو بہتر اقدام کر سکیں ، اب جبکہ آپ ایسا نہیں کر سکے آپ حق حکمرانی کھو چکے ہیں ، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قاتلوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انجام سے دوچار کیا جائے۔اور عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔شرکاء سے ریاستی سیکرٹری یوتھ سید عمران حیدر، سیکرٹری تعلیم مولانا طالب ہمدانی، سیکرٹری تنظیم سازی مظفرآباد مولانا محبت کاظمی ، امامیہ آرگنائزیشن کے نمائندہ سید وقار کاظمی، ایم ڈبلیو ایم مظفرآباد کے رہنما سید شاہد کاظمی، ڈی ایس ایل وقار نقوی و دیگر نے بھی خطاب کیا، شرکاء نے ہاتھوں میں شمعیں اٹھا رکھیں تھیں جبکہ علمدار چوک میں چراغاں کر کے اسماعیلی برادری سے اظہار یکجہتی کیا۔قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ریاست بھر میں ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر چراغاں کر کے اظہار یکجہتی کیا گیا۔
وحدت نیوز(سکردو) حلقہ نمبر 2 کے عوامی حقوق غصب کرنے والوں کا چوراہوں پر احتساب ہوگا،کرپت عناصر عوامی عدالت سے بچ نہیں پائیں گے،ایم ڈبلیو ایم کی مقبولیت کی اصل وجہ اس کا ماضی ہے،جہاں حکومت میں نہ ہوتے ہوئے عوامی فلاح وبہبود کے لئے وہ کام کیئے جو گذشتہ کئے دہائیوں سے نااہل حکمران نہ کرسکے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے نامزد حلقہ نمبر 2 سکردو کے امیدوار کاچو امتیاز حیدر خان نے سکردو ،رانگاہ، میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ہم ناصر ملت علامہ راجہ ناصر اور آغا سید علی رضوی کے دست بازو ہیں،ہم کسی ظالم یا جابر کے سامنے نہیں جھکیں گے،بلکہ عوامی حقوق کی حصول کے لئے ہر قسم کے مشکلات سے لڑنے کو تیار ہیں،حلقہ نمبر دو انشااللہ جی بی کا مثالی حلقہ ہوگا اور اس حلقے میں عوام کی حکمرانی کہو گی اور ہم ایک خادم کی حیثیت سے عوام کے سامنے جوابدہ رہیں گے،ان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن میں دھونس دھاندلی کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسد ی کی چیئرمین عزادار سیل حاجی امیر عباس مرزا کے ہمراہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ سے پنجاب سیکرٹریٹ میں ملاقات،ملاقات میں علامہ عبدالخالق اسدی نے صوبائی وزیر داخلہ کو پنجاب بھر میں بے گناہ شیعہ افراد خصوصا مجلس وحدت مسلمین کے بے گناہ کارکنان کو ہراساں کرنے کے واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ نے دہشت گردی کی اس جنگ میں سب سے بری قربانیاں دی ہیں،اور ہم نے دشمن کے سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا،ملت جعفریہ نے ہمیشہ ملکی سلامتی واستحکام کے خاطر جانوں کا نذرانہ دیا،ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ الحمدللہ ہمارے دامن پر وطن دشمنی کا کوئی داغ نہیں اور نہ ہی ہمارے ہاتھوں سکیورٹی فورسسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی نقصان پہنچا،ہم نے ہمیشہ وحدت اور اتحاد بین المسلمین کے لئے جدو جہد کی،فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ہم حرام سمجھتے ہیں۔
علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ ایک طرف شیعہ قوم دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں دوسری طرف پنجاب میں انتظامیہ ہمارے کارکنان اور جوانوں کو ہراساں کر رہے ہیں جو سراسر ظلم ہے جسے کبھی قبول نہیں کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ مجالس اور عزاداری کے محفلوں کو این او سی کے نام پر بانیان کو حراساں کرنے کا عمل سراسر انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،علامہ اسدی نے شرپسندوں کے ہاتھوں توہین رسالت ﷺ ایکٹ غلط استعمال کرنے کے واقعات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے والوں کیخلاف پنجاب حکومت موثر کاروائی کرے ۔
وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) نویں تا تیرہویں صدی کے چار سو برس منطقی علوم میں مسلمانوں کی فتوحات کا سنہری دور کہلاتے ہیں۔ دسویں صدی کے آغاز سے بارہویں صدی کے خاتمے سے ذرا پہلے تک فاطمی سلطنت تیونس تا یمن اور یمن تا شام پھیلی ہوئی ہے۔ علم و حکمت کا مرکز بغداد دورِ زوال میں داخل ہے اور قاہرہ کے نئے شہر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور اس میں مشرق کی پہلی جدید یونیورسٹی جامعۃ الازہر مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اہلِ تخلیق کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ انھی میں ابن الہیثم جیسا ماہرِ فلکیات و طبیعات و ریاضی دان بھی ہے جس نے دوربین کا عدسہ بنا کے روشنی کی رفتار ماپ کر زمین کا دیگر سیاروں سے فاصلہ ماپ لیا ہے۔ اب فاطمی خلیفہ امام الحکیم کی خواہش ہے کہ ابن الہیثم دریائے نیل میں پانی کے سالانہ اخراج کو بھی ماپ دے تا کہ نئی زمینوں کی آبادکاری کی آبی منصوبہ بندی ہو سکے۔
اسی قاہرہ سے بہت دور نصیر الدین طوسی نے ایک ایرانی قصبے مرغہ میں ایسی رصدگاہ بنا لی ہے جہاں چین تک سے سائنسی طلبا نظامِ شمسی کی نپائی کا ہنر سیکھنے آ رہے ہیں۔ نصیر الدین طوسی کی نگرانی میں ان طلبا کے تیار کردہ فلکیاتی شماریاتی چارٹوں میں سے کچھ ہزاروں کلو میٹر پرے اندلس پہنچتے ہیں اور وہیں سے ایک یہودی عالم ابراہام زکوٹو ان کی نقول پرتگال کے شاہ جان دوم کے دربار میں لے جاتا ہے۔ ان شماریاتی چارٹوں کی مدد سے اصطرلاب (قطب نما) ایجاد ہوتا ہے اور اسی اصطرلابی مدد سے واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت کر لیتا ہے۔ یوں مشرق کا دروازہ مغرب کے نوآبادیاتی عزائم کے لیے کھل جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر ساٹھ کلومیٹر قطر کے ایک گڑھے کا نام نصیر الدین یونہی نہیں رکھا۔
اور اسی دور میں بلخ میں ابو علی سینا پیدا ہوتا ہے جو جدید طب اور طبیعات کا باپ ہے کہ جس کے ساڑھے چار سو میں سے دو سو ساٹھ مقالات طب و فلسفے اور منطق پر ہیں۔ باقی کام ریاضی، فلکیات، کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، نفسیات، فقہہ اور شاعری پر ہے۔ ابنِ سینا وہ دروازہ ہے کہ جس میں سے دورِ تاریک کا یورپ چھلانگ لگا کر دورِ جدیدیت کی جادوئی دنیا میں آن گرتا ہے۔
اور کہیں آس پاس ہی ابو عبداللہ جعفر ابنِ محمد بھی شعر لکھ رہا ہے۔ دنیا اسے رودکی کے نام سے جانتی ہے۔ اس پیدائشی نابینا نے جدید فارسی اور شاعری کی بنیاد رکھی۔ ایک لاکھ سے زائد شعر کہے اور غربت میں مر گیا۔
اور یہیں کہیں عظیم سیاح، فلسفی اور ادیب ناصر خسرو بھی انیس ہزار کلومیٹر کے سفر پر روانہ ہے۔ ہر کوس کا تجربہ اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہے۔ (ذرا تصور کیجیے گیارہ سو برس پہلے مشرقِ وسطی کا انیس ہزار کلومیٹر کا سفری دائرہ پا پیادہ…)۔
اور سائنسی و منطقی سوچ کے انقلابی چلن میں مگن مشرقِ وسطی سے دور ملتان نامی دور دراز علاقے میں کوئی شمس الدین سبزواری دعوت و تبلیغ کا کام کر رہا ہے۔ ابھی بت شکن محمود غزنوی کا ظہور نہیں ہوا۔ ابھی منگولوں کے پاس مسلمان عقلیت پسندی کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچلنے میں کچھ وقت ہے اور ابھی اسپین سے بھی مسلمانوں کو بیک بینی دوگوش نکالا جانا ہے اور ابھی جاہل صلیبی غول در غول بچا کھچا مسلمانی علم و حکمت تہہ و بالا کرنے کے بارے میں بس سوچ رہے ہیں۔۔۔
آئیے ماضی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ابراہیم رحیم ٹلا بمبئی میونسپلٹی کے صدر، دوسرے عشرے میں بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے صدر اور تیسرے عشرے میں برٹش انڈیا کی مرکزی لیجسلیٹو کونسل کے صدر بنتے ہیں اور چوتھے عشرے میں دوسری دنیا کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ گوکھلے، اینی بیسنٹ اور جناح صاحب کی طرح ابراہیم رحیم ٹلا بھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر شمار ہوئے۔
اور پھر اسی بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں پاکستان بننے سے ایک ماہ پہلے ایک صنعت کار امیر علی فینسی مشرقی افریقہ میں اپنے سارے اثاثے فروخت کر کے پاکستان پہنچتا ہے اور پہلی سرمایہ کاری اسٹیل کے شعبے میں کرتا ہے اور اسی پاکستان کے بائیس امیر صنعتی خاندانوں میں شامل ہوتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے۔
اور اسی پاکستان کے بنتے ہی غلام علی الانہ نامی ایک صاحب مسلم لیگ کے فنانس سیکریٹری بنائے جاتے ہیں۔ پھر وہ کراچی کے مئیر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ پہلے اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پھر اقوامِ متحدہ والے انھیں لے جاتے ہیں اور ان کے ذمے انسانی حقوق کی عالمی نگرانی لگا دیتے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی مقامی حکومت انھیں شہر کی طلائی چابی پیش کر دیتی ہے۔ ان شہروں میں سان فرانسسکو، فلاڈیلفیا، بفلو، پیٹرسن، پیرس، روم، جنیوا اور پراگ بھی شامل ہیں۔ اتنی مصروف زندگی میں بھی غلام علی الانہ نے اچھی خاصی انگریزی شاعری کر لی اور درجن بھر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور سن پچاسی میں رخصت بھی ہو گئے۔
اسی دور میں ایک صدر الدین بھی گزرے جو انیس سو چھیاسٹھ سے اٹھتر تک ( بارہ برس ) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلاحِ مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ رہے اور کروڑوں مہاجرین کی دیکھ بھال کے فن کو ایک جدید شکل دی جس کے سبب انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کے اندرونی و بیرونی مہاجروں اور بے وطن بہاریوں کو بھی اچھا خاصا سہارا ملا اور پھر یہ تجربہ لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے بھی کام آیا۔ یہ وہی صدرالدین ہیں کہ جن کے بھائی علی خان سن اٹھاون تا ساٹھ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اور اسی اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسکو کے پیرس ہیڈ کوارٹر میں اسماعیل گل جی کی بھی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ گل جی پہلے پاکستانی پینٹر تھے جنھیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ امتیاز کے قابل جانا۔
اور اب تذکرہ کچھ شمالیوں کا۔
یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت بلتستان کو مٹھی بھر سپاہیوں نے پھٹیچر اسلحے کے بل بوتے پر آزاد کروایا۔ ان بے خوفوں کی قیادت کرنل حسن خان اور کیپٹن راجہ بابر خان تو کر ہی رہے تھے مگر ان کے دیگر ساتھیوں میں کیپٹن شاہ خان اور صوبیدار صفی اللہ بیگ بھی شانہ بشانہ تھے۔ باون برس بعد انھی کے نقشِ قدم کو حوالدار لالک جان نے کرگل کے پہاڑوں میں اتنا گہرا کر دیا کہ اپنے ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوگئے اور نشانِ حیدر کی صف میں جگہ پا گئے۔
پہاڑ ہوں اور کسی گلگتی و بلتستانی کا دل نہ مچلے کیسے ممکن ہے۔ اشرف امان کا دل مچلا تو وہ انیس سو ستتر میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ اس کارنامے کے تئیس برس بعد نذیر صابر نے پہلے کے ٹو سر کی اور پھر دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلا پاکستانی جھنڈا گاڑ دیا۔ اس کارنامے کے تیرہ برس بعد ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی جو ماؤنٹ ایورسٹ پر جا پہنچی۔
(ثمینہ کے ساتھ دو بھارتی لڑکیاں تاشی اور ننگاشی ملک بھی تھیں۔ یوں بھارتی ترنگا اور پاکستانی سبزہ پہلی بار ایک ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک عام جنوبی ایشیائی انسان کی دو طرفہ خواہشِ امن کا مشترکہ استعارہ ہو گیا)۔
بھارت کا تذکرہ آیا تو لگے ہاتھوں بھارت کے سب سے امیر مسلمان، سب سے بڑے سافٹ وئیر ساز اور مخیر عظیم پریم جی کی بھی بات ہو جائے کہ جس نے اپنے پندرہ ارب ڈالر کے اثاثے کا بیشتر حصہ فلاحِ عام کے لیے وقف کر دیا۔
مگر ان سب شخصیات میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ یہ بھان متی کا کنبہ میں کیوں جوڑ رہا ہوں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ یہ سب اسماعیلی ہیں۔
(کچھ اور نابغہِ روزگار بھی اس مضمون کا حصہ ہونے چاہئیں۔ مگر اس وقت مجھے ان کے ناموں سے زیادہ ان کی جان عزیز ہے)۔
اور یاد آیا کہ ایک اسماعیلی آغا خان سوم بھی تو تھے جو مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے وہ تمام سونا اور جواہرات تعلیم پر لٹا دیے کہ جس میں انھیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بارہا تولا گیا تھا۔ اس کرامت کا زندہ پھل شمالی علاقہ جات ہیں جہاں عمومی خواندگی پچھتر فیصد اور اسی علاقے کی سابق ریاست ہنزہ میں پچانوے فیصد تک ہے۔ اور انھی آغا خان سوم کے پوتے نے پچھلے ستاون برس سے ایشیا تا افریقہ اور یورپ تا امریکا تعلیم، صحت اور مسلم فنِ تعمیر کے احیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
ہاں ایک اور اسماعیلی بھی تو تھے جو بعد میں اثنا عشری ہو گئے اور پھر کئی علما نے انھیں ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی جدو جہد کے عین عروج کے دوران کافرِ اعظم بنا ڈالا اور پھر یہی علما اور ان کے وارث اسی ’’غیر شرعی‘‘ ملک کے مامے بن گئے۔
(ان میں سے شائد کسی نے سن دو ہزار پانچ کے اعلانِ نامہِ عمان کا تذکرہ سنا ہو۔ یہ اعلان نامہ اردن کے شاہ عبداللہ بن حسین کی دعوت پر پچاس مسلمان ممالک کے لگ بھگ ڈھائی سو علما اور اسکالرز نے تین دن کے بحث مباحثے کے بعد تیار کیا۔ اس اعلان نامے میں جن فقہی اسکولوں کو تسلیم کیا گیا جن کے ماننے والے دائرہِ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتے۔ ان فقہی اسکولوں میں جعفریہ اور زیدیہ فقہ بھی شامل ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ان کا فرقہ جعفریہ فقہہ کا حصہ ہے اور دیگر تمام فقہوں کی صوفیانہ تعلیمات و روایات کو بھی تسلیم کرتا ہے)۔
تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)