وحدت نیوز (تہران) عالمی محبان اہلبیتؑ و مسئلہ تکفیر کانفرنس کاایران کےدارالحکومت تہران میں آغاز، ہوگیا ہے، اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 90ممالک سے 500سے زائدشیعہ سنی علماء، مشائخ واکابرین شریک ہیں، پاکستانی وفد کی قیادت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کر رہے ہیں، تفصیلات کے مطابق تہران میں سربراہ مجلس خبرگان رہبری آیت اللہ احمد جنتی اورسربراہ تشخیص مصلحت نظام کونسل آیت سید محمود ہاشمی شاہرودی کی سربراہی میں جاری عالمی محبان اہل بیتؑ و مسئلہ تکفیر کانفرنس میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی اور ڈپٹی سیکریٹری امور خارجہ علامہ سید ظہیرالحسن نقوی، سربراہ جمیعت علمائے پاکستان(نیازی) پیر معصوم شاہ نقوی، مرکزی صدر جمیعت علمائے پاکستان(نورانی)صاحبزادہ ابولخیر محمدزبیر،گدی نشین درگاہ حضرت لال شہباز قلندرؒ سید ولی محمد شاہ بھی شرکت ہیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہفتہ کے دوران تین افراد کی شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتے ہیں، ہر جگہ ناکوں، چیک پوسٹوں اور سیکورٹی اداروں کے حصار کے باوجود شیعان علی کی ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے، یہ کیسی مثالی حکومت ہے جس میں ایک ہی مکتب و فکر کے افراد کو ہی بار بار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کو ملت تشیع کی مقتل گاہ بنا دیا گیا ہے، ہمارے نوجوانوں کو آئے روز شہید کیا جا رہا ہے اور قاتل حکومتی گرفت سے آزادی دندناتے پھرتے ہیں، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تین گھر اجاڑ دیئے گئے، خیبر پختونخواہ کی حکومت ملت تشیع کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، جب لوگ ماہ ربیع الاول منانے میں مصروف عمل ہیں اور ہم اپنے شہداء کی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور انصاف کے حصول کے لئے تڑپ رہے ہیں، خیبر پخونخواہ کا وزیراعلیٰ ایک نا اہل شخص ہے، وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے ملت تشیع کو اگر یونہی نظر انداز کیا جاتا رہا توپھر ہماری جانب سے کسی بھی تعاون کی امید دل سے نکال دیں۔
وحدت نیوز(تہران) ولی امر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی رضاکار فورس اور اس کے اعلی کمانڈروں سے ملاقات میں کہا ہے کہ خطے میں امریکہ کو شکست دینا انقلاب اسلامی ایران کا معجزہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے 38 سال بعد ایسے جوانوں کی مختلف میدانوں میں موجودگی انقلاب کے معجزات میں شامل ہے جنہوں نے نہ امام خمینی کو دیکھا ، نہ دفاع مقدس کا دور دیکھا اور نہ ہی انقلاب کا زمانہ دیکھا ، اس کے باوجود ان کی مختلف میدانوں میں موجودگی انقلاب اسلامی کی معجزات میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انقلاب اسلامی کے انہی جوانوں نے آج خطے میں امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، امریکہ نے انقلاب اسلامی کی فکر کو خطے سے دور کرنے کے لئے بڑی بڑی سازشیں کیں لیکن امریکہ کی تمام سازشیں ناکام ہوگئی ہیں اور آج انقلاب اسلامی کی فکر نہ صرف خطے میں بلکہ انقلابی فکر عالمی سطح پر چھا گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے دہشت گرد تنظیم داعش کو انقلاب اسلامی اورخطے میں اسلامی مزاحمتی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے عراق اور شام میں تشکیل دیا لیکن آپ جیسے غیور جوانوں نےاس امریکی کینسر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ بعض لوگ غفلت کی بنا پر کہتے ہیں کہ امریکہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ایرانی جوانوں نے ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور امریکہ کے کبر و غرور کو چکنا چور کیا جاسکتا ہے، امریکہ اور اسرائيل بعض عرب ممالک کے سہارے خطے میں اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں امریکہ کے اتحادی عرب ممالک برابر کے شریک ہیں۔
ولی امر المسلمین نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں امریکہ کی تمام پالیسیوں کو ناکام بنادیا ہے اور آئندہ بھی خطے میں امریکہ کی شوم پالیسیوں کا مقابلہ جاری رہے گا، امریکہ کا مقابلہ کرنے پر مبنی انقلاب اسلامی کا پیغام آج پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں آج امریکی صدر اور امریکی حکام کے پتلے جلائے جاتے ہیں اور امریکی پرچم کو نذر آتش کیا جاتا ہے کیونکہ امریکی پرچم دنیا میں ظلم ، تشدد ، دہشت گردی اور تسلط پسندی کا مظہر ہے۔
وحدت نیوز(سکردو) ممتاز عالم دین اور سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان آغا سید علی رضوی نے اپنے ایک صوتی پیغام میں قومی حقوق کی حصول کیلئے صبر اور استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کو اب سیاسی ،مذہبی، مسلکی اور علاقائی تعصبات سے بلاتر ہوکر ایک مظلوم قومی کی حیثیت سے اپنے غیر آئینی ٹیکس کے نفاذ کے خلاف اور جائز حقوق کیلئے بھرپور انداز میں آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
اُنکا کہنا تھا حالیہ مسئلہ چونکہ قومی ہے لہذا موجودہ حکومت کے ممبران کو بھی چاہئے کہ اس تحریک میں عوام کے ساتھ شامل ہوجائیں کیونکہ چاہئے قانون ساز اسمبلی کا ممبر ہو یا رکن جی بی کونسل اس مسند نے مختصر وقت میں ختم ہوجانا ہے اور موجودہ حکمرانوں کو بھی واپس عوام میں ہی جانا ہے لہذا گلگت بلتستان میں ہونے والے مظالم کے پیش نظر ان افراد کو بھی چاہئے کہ وہ عوام کے ساتھ مل جائیں اور اپنے حقوق کیلئے ملکر جدوجہد کریں۔ اُنکا یہ بھی کہنا تھا کہ قوم کو یکجا ہونے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ عوام تمام قسم کے تعصبات کو دفن کرکے قومی ایشو پر ایک ہوجائیں تاکہ دشمن کو موقع نہ ملے۔
اُنہوں نے انجمن تاجران گلگت بلتستان اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مکمل طور پر اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اُنکی استقامت پر زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اور یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس تحریک کو ثبوتاز کرنے کیلئے جو قوتیں اس وقت سرگرم ہے یقیناًاُنکی طرف سے دباو بھی بڑھایا جائے گا ڈرایا دھمکایا جائے گا لہذا قومی یکجہتی کے ساتھ عوامی مسائل اور قومی حقوق کی حصول کیلئے اپنے صفوں میں صبر استقامت کے ساتھ قیام کرنے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز (گلگت) پاکستان پیپلز پارٹی حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرنے کی بجائے ٹیکس کے نفاذ پر گلگت بلتستان کے عوام سے معافی مانگے۔لیگی حکومت عوام پر عائد ٹیکس کو پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دورمیں جبری ٹیکس عائد کیا تو اب لیگی حکومت عائد کردہ ٹیکس کو واپس لے بصورت دیگر پچھلے الیکشن میں جو حشر پیپلز پارٹی کا ہوا اس سے بد تر نواز لیگ کا ہوگا۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے انجمن تاجران کی جانب سے شروع کی گئی ٹیکس مخالف تحریک کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس کے مسئلے پر گلگت بلتستان کے عوام ایک پیج پر ہیں اور پورے جی بی کامیاب ہڑتال کے ذریعے ٹیکس کے ظالمانہ نوٹیفکیشن کو مسترد کردیا ہے۔حکومت اس اہم ایشو کو فوری حل کرے اور سابقہ حکومت کی روش پر چلتے ہوئے اپنے مراعات اور پروٹوکول کی خاطر غریب لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے درپے ہونگے تو اس کے سخت نتائج نکلیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی ا سٹیٹس کو کی جماعتیں ہیں جو اپنے زعم میں علاقے کے عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں اوراپنے دور اقتدار میں عوام کش پالیسیاں اپناتے ہیں اورجب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اپنے ناشائستہ کارناموں سے انحراف کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔اب وہ وقت نہیں رہا کہ عوام ان کے جھوٹے نعروں پر یقین کرکے خاموش رہیں،انہوں نے کہا کہ حکومت انجمن تاجران کی جانب سے سول نافرمانی کے اعلان کو سنجیدگی سے لے اور اگر ایسی مومنٹ شروع ہوئی تو حکومت کو اپنی کرسی بچانا مشکل ہوجائیگا۔
وحدت نیوز(آٹیکل) حزب اللہ کے گناہوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اُس کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ یہ امر بھی قابلِ معافی ہوتا اگر یہ لبنانی تنظیم اتنی جنگجو (militant) نہ ہوتی۔ حزب اللہ نے لیکن اپنا لوہا میدانِ حرب میں منوایا ہے۔ دیگر عرب فوجوں کے برعکس‘ جنہیں ہر معرکے میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست اُٹھانی پڑی‘ حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں وہ واحد فوجی قوت ہے‘ جس نے اسرائیل سے نہ صرف برابر کی لڑائی لڑی بلکہ اُسے پسپائی پہ مجبور بھی کیا۔ یہ اعزاز کسی اور عرب فوج کو حاصل نہیں۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایران کے قریب ہے۔ ایران اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ قدر تو دونوں میں مشترک ہے کہ اِن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کے وجہِ اشتراک ان کی اسرائیل اور امریکہ دشمنی ہے۔ بیشتر عرب ممالک نہ صرف امریکہ کے قریب ہیں بلکہ امریکہ ان کا گاڈ فادر اور محافظ ہے۔ بیشتر عرب ممالک کی اسرائیل سے دشمنی الفاظ کی حد تک ہے۔ عملاً وہ اس سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ وہ اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات‘ الفاظ کی حد تک بھی کچھ نہیں کہتے۔ حزب اللہ اور ایران البتہ کئی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ سے برسر پیکار ہیں۔ہم نے دیکھا کہ شام میں کیا صورتحال بنی۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں بشارالاسد کو گرانا چاہتی تھیں‘ لیکن حزب اللہ بشارالاسد کی مدد کو پہنچی اوراس کے فوجی دستوں نے مملکتِ شام میں جا کے لڑائی میں حصہ لیا اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی کچھ ایران نے کیا‘ اور روس بھی اپنی فوجی طاقت کے ساتھ بشارالاسد کے ساتھ کھڑا ہوا۔ شام میں مکمل طور پہ امن قائم نہیں ہوا‘ لیکن جو خانہ جنگی 2011ء سے شروع ہوئی‘ اس میں اب بشارالاسد کا پلڑا بھاری ہے اور انہیں ہٹانے کی تمام تر تدبیریں ناکام ہو چکیں۔
اگر روس، ایران اور حزب اللہ ایک طرف تھے تو دوسری طرف امریکہ، سعودی عرب، قطر اور کچھ حد تک ترکی‘ تھے‘ گو ترکی حالات کے جبر کے پیش نظر اپنی پالیسی میں تبدیلی لایا ہے اور صدر طیب اردوان اب وہ نہیں کہتے‘ جو وہ پہلے کہتے تھے یعنی‘ بشارالاسد کو جانا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس تمام صورتحال سے سعودی عرب سخت پریشان ہے۔ شام میں بشارالاسد کی کامیابی کو وہ بجا طور پہ ایران اورحزب اللہ کی کامیابی سمجھتا ہے۔ عراق میں کئی حوالوں سے ایران کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ آخر ایرانی فوجی دستوں نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی نے عراق اور شام‘ دونوں میں فوجی کارروائیوں کی رہنمائی کی ہے۔ یمن میں دو سال پہلے سعودی عرب نے اپنے چند عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ اس لئے کیا تھا کہ حوثیوں (Houthi) کا قبضہ ملک کے شمال سے چھڑایا جائے۔ لیکن جلد نتائج کی بجائے سعودی فوجی مداخلت الٹا کارگر ہی ثابت نہ ہوئی اور سعودی عرب یمن میں تقریباً پھنسا ہوا ہے۔بجائے کسی ایک محاذ پہ توجہ دینے کے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی محاذ کھول لئے ہیں۔ یمن میں مداخلت کے وہی روح رواں تھے۔ پھر اُنہوں نے قطر کو تائب کرنے کی کوشش کی۔ مصر اور عرب امارات اُن کی اس کاوش میں معاون تھے۔ قطر سے مخالفت اس بنا پہ کی گئی کہ اس کے تعلقات ایران سے ہیں اور وہ ایسی تنظیموں کی مالی معاونت کرتا ہے جن سے مصر وغیرہ کو شکوہ ہے۔ یہ بیرونی محاذ ابھی گرم تھے کہ شہزادہ محمد نے ایک اندرونی محاذ بھی کھول ڈالا۔ جواز کرپشن کو بنایا گیا حالانکہ عام تاثر یہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان اندرونی اقدامات کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ پرنس محمد نے ایک اور کارنامہ کر دکھایا۔ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کو ریاض بلایا گیا‘ اور مبینہ طور پہ دباؤ کے تحت اُن سے استعفیٰ کا اعلان کروایا گیا۔ فرانسیسی صدر ایمونیل میکرون اُن کی مدد کو آئے اور اب سعد حریری فرانس جا چکے ہیں۔ یہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟ کیونکہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ لبنان میں ایسی سیاسی تبدیلی آئے جس سے حزب اللہ کا اثر کم ہو اور لبنانی حکومت میںحزب اللہ کے نمائندے اپنی وزارتیں چھوڑ دیں۔ یہ بچگانہ خواہش ہے کیونکہ حزب اللہ لبنان میں نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ سب سے مؤثر فوجی قوت بھی اُسی کی ہے۔ سعد حریری تو بے بس تھا۔ وہ بیک وقت لبنان اور سعودی عرب کی شہریت رکھتے ہیں۔ اُن کی تعمیراتی کمپنی 'اوجر‘ (Oger) مالی مشکلات میں پھنسی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں دے پا رہی۔
سعد حریری کو تو وہ کرنا تھا جو سعودی اسے کہتے۔ حزب اللہ البتہ سعد حریری نہیں۔ اُس نے وہ کرنا ہے جو اُس کے مفاد میں ہو۔ جب وہ امریکہ اور اسرائیل کی نہیں مانتی تو سعودی شہزادوں کی اس نے کہاں سُننی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل جنوبی لبنان کے ایک ٹکڑے پہ قابض تھا اور اُس نے وہ علاقہ کبھی نہ چھوڑنا تھا‘ لیکن حزب اللہ نے ایسی مزاحمتی تحریک چلائی کہ اسرائیل وہ علاقہ خالی کرنے پہ مجبور ہو گیا۔ پھر 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔
ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے۔ہماری فوج کے افسران بڑے شوق سے امریکہ اور برطانیہ میں کورس کرنے جاتے ہیں۔ انہوں نے وہاں سے کیا سیکھنا ہے؟ ہمیں تو سبق حزب اللہ کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے، کیسے وہ منظم ہوئی، اُس کی قیادت کا کیا کردار رہا ہے اور وہ اسرائیل اور امریکہ کے سامنے کیسے ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک بات بھول رہا تھا، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا بیٹا بھی ایک معرکے میں مارا گیا۔ معرکے میں اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ حسن نصراللہ جب ہلاکتیں دیکھنے گئے تو اپنے بیٹے کا چہرہ اتنی دیر ہی دیکھا جتنا کہ دوسرے مجاہدین کے چہروں کو۔ روئے ہوں گے تو اکیلے میں، سامنے آنسو نہ بہائے۔چیئرمین ماؤ کا ایک بیٹا کوریا کی جنگ میں مارا گیا‘ کیونکہ جنگ جاری تھی۔یہ خبر چیئرمین ماؤ سے چھپائی رکھی گئی۔ کچھ عرصے بعد کوریا میں چینی افواج کا کمانڈر چیئرمین ماؤ سے ملنے آیا اور بغیر سوچے کہہ بیٹھا: مجھے افسوس ہے کہ آپ کے بیٹے کی حفاظت نہ کر سکا۔اس سے چیئرمین ماؤ کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا پتہ چلا۔ چہرے کا رنگ اڑ گیا، سکتے میں آئے لیکن جلد ہی اپنے آپ پہ قابو پا لیا اور گفتگو جاری رکھی۔ پھر بیٹے کا ذکر تک نہ کیا۔ ہمیں نصیب ہوئی ہیں اقاموں کی ماری قیادتیں۔لیکن ہمارے عرب مہربانوں کو بھی دیکھیے۔ غارت میں پڑی ہوئی ہے دنیائے اسلام‘ لیکن کوئی ڈھنگ اور ہمت کے لوگ اُبھرتے ہیں تو وہ اُنہیں برداشت نہیں کر سکتے۔
تحریر۔۔۔۔ایاز میر( دنیا نیوز)