وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویڑن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں کونسلرمحمد مہدی نے کہا ہے کہ منشیات فروشی اور اسکے استعمال کے روک تھام میں حکومت اور اس کام کیلئے مقرر ادارے سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں سر مہرہ پائی جاتی ہے ۔ لوگ آنکھیں بند کر کے اپنے معاملات زندگی چلا رہے ہیں انہیں کسی کی پرواہ نہیں۔ وہ لوگ جو چند پیسوں کی خاطر منشیات فروخت کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نشہ آور اشیاء کے عادی بناتے ہیں، جسکی وجہ سے پورا خاندان اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے ،وہ افراد سزا کے مستحق ہے ان کے خلاف کاروائی تیز ہونی چاہیے، مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہورہی ہیں. بیان میں کہا گیا کہ منشیات کی فروخت ایک غیر قانونی کام ہے جس میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہیں ۔ منشیات کے عام ہونے سے کافی لوگ اس لعنت کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ کہیں لوگوں کے زندگیوں کی بربادی کی وجہ بن رہی ہے.حکومت کو چاہیے کہ جہاں حہاں سے ڈرگ مافیا اندرون ملک منشیات کے سپلائی میں ملوث ہیں یا بارڈر کے اس پار سے منشیات وطن عزیز میں داخل ہورہے ہیں۔ ان کی روک تھام کے لیے مثبت اقدامات کریں۔
محمد مہدی نے مزید کہا کہ غلیظ کاروبار سے وابسطہ افراد دوسروں کی زندگیاں برباد کررہے ہیں، اسکے علاوہ وہ افراد جو منشیات کے لین دین میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں وہ بھی ان تمام افراد کے بربادی کے ذمہ دار ہے. اور جو افراد اپنا جیب بھرنے کیلئے اس کی سمگلنگ کرتے ہیں ان انسانیت کے دشمنوں کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا. بیان کے آخر میں مائیلو شہید ٹرسٹ کو خراج تحسین پیش کی گیا جو تن تنہا منشیات کے عادی افراد کے علاج و معالجہ کے لیے شب و روز مگن ہیں اور عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اس کاروبار میں ملوث افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے قانون کے حوالے کریں تاکہ ہمارا معاشرہ ایک صاف اور مثالی معاشرہ کہلانے کے قابل ہوں ۔
وحدت نیوز (گڑھی خیرو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے گڑہی خیرو پہنچ کر ،ایم ڈبلیو ایم کے نامزد امیدوار برائے جنرل کونسلر عابد علی بلیدی کی الیکشن مہم کے سلسلے میں مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر عابد علی بلیدی، علی حسن بھٹی و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔
گوٹھ رمضان بھٹی، گوٹھ میہر بھٹی، گوٹھ سوجھرو خان بلیدی اور گوٹھ اللہ بخش بھٹی میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا اور عوام سے ملاقاتیں کیں۔ جبکہ انہوں نے لہر قبیلے کے سربراہ سردار داد محمد خان لہرسے بھی ملاقات کی اور ان سے ایم ڈبلیو ایم کے کونسلر کی حمایت کی درخواست کی۔
اس موقع پرمختلف عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ عوام ووٹ کو امانت سمجھ کر اہل اور باکردار افراد کی حمایت کریں،جو کرپشن کے خلاف ہوں اور عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ فلاح اور مخیر مومنین نے اپنے محدود وسائل کے باوجودسیلاب سے متاثرہ ان علاقوں میں عوام کی خدمت کی ۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین موجودہ فاسد کرپٹ نظام کی اصلاح چاہتی ہے چہروں کی بجائے نظام کی تبدیلی ہمارا ہدف ہے۔ انہوں نے فاسد افراد کے مقابلے میں ثابت قدمی اور جرئت کا مظاہرہ کرنے پر عابد بلیدی اور ایم ڈبلیو ایم کے کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ظلم و جبر کے علمبرداروں کو اپنے اعلٰی کردار، جرئت و استقامت سے شکست دیں گے۔
وحدت نیوز(جعفرآباد)مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی ضلع جعفر آبادکے تنظیمی دورے پر گنداخہ پہنچے، تو ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی رہنماء مولانا عبدالحق بلوچ اورمحمد علی جمالی کی قیادت میں کارکنوں اور تنظیمی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا ۔
اس موقع پر مرکزی امام بارگاہ گنداخہ میں منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نظام ولایت و امامت دین کی بقاء اور اسلام کی سربلندی کا باعث ہے۔ اسی لئے جب بھی دین اسلام پر کڑا وقت آیا تو انہوں نے اسلام دشمن یزیدی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ محرم الحرام آل رسول ﷺ کی عظیم قربانی کا مہینہ ہے نواسہ رسول ﷺ امام حسین عالی مقام ؑ نے دین اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کی صحراء میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ دھشت گردوں کے دینی، سیاسی اور مالی سہولت کاروں کے خلاف کاروائی کی جائے، ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر بلوچستان میں کالعدم شرپسند تکفیری ٹولے کی شرانگیز سرگرمیوں، نفرت انگیز بیانات کو روکا جائے۔ اور محرم الحرام کے دوران قیام امن کے سلسلے میں فول پروف سیکورٹی انتظامات کئے جائیں۔
انہوں نے سانحہ منیٰ میں سینکڑوں حجاج کرام کی المناک شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر علامہ غلام محمد فخر الدین کی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا،اس موقع پر اجتماع سے صوبائی رابطہ سیکریٹری مولانا عبدالحق بلوچ اور مولانا محمد علی جمالی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
در ایں اثناء علامہ مقصود علی ڈومکی نے گوٹھ غلام محمد جمالی میں خود ساختہ سیلاب سے متاٗثرہ بند اور دیہاتوں کا دورہ کیا، اس موقع پر متاثرین نے بتایا کہ کئی سال سے کئی دیہات سیلاب سے متاثر ہیں،ان کی فصلیں اور زراعت تباہ ہیں، مگر ہماری کوئی شنوائی نہیں ہورہی،اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے اہل علاقہ کو یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے بات کریں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) شکار جتنا قریب ہوتا ہے شکاری اتناہی بے قرار۔سعودی حکومت یوں تو اربوں ریّال لگا کر سال بھر پوری دنیا میں شدّت پسند ٹولوں کے ذریعے دیگر اسلامی فرقوں کے نہتّے افراد کا قتلِ عام کرواتی ہی ہے لیکن اس مرتبہ حج کے موقع پر اس نے اپنے حصّے کا شکار خود ہی کرلیاہے۔
سانحہ مِنیٰ میں مختلف اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کی تعداد میں حاجی شہید ہوگئے اور اسی طرح ایک بڑی تعداد میں لاپتہ ہوگئے۔ اتنے بڑے انسانی المیّے پر ہماری حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔اس سانحے کی تحقیقات اور گمشدہ پاکستانیوں کی تلاش کے حوالے سے سے ہمارے ہاں سے سرکاری سطح پر کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جارہی۔
ایسے سانحات پر خصوصاًسعودی جرائم پر سکوت اختیار کرلینا یہ ہمارے سرکاری اداروں کی پرانی پالیسی ہے۔اسی پالیسی کے باعث سعودی حکومت نے خود ہمارے ملک میں بھی نے تکفیریت کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے اور ہمارے حکمران اندرونِ پاکستان سعودی جرائم پر ماضی میں بھی ایسے ہی خاموش رہے ہیں جیسے اب سانحہ مِنیٰ پر خاموش ہیں اور دوسروں کو بھی سعودی مظالم پر خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
لیکن پاکستانی عوام اب سعودی حکمرانوں کے مظالم پر خاموش رہنے کے بجائے بولنا شروع ہوگئےہیں۔
لوگ سعودی بادشاہوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ شاہی محلات تعمیر کروائیں،آپ نائٹ کلب بنوائیں،آپ یہود و ہنود کے ساتھ رقص کریں،آپ کلنٹن کے ساتھ جام چھلکائیں،آپ فلسطین کو بیچ کھائیں،آپ اخوان المسلمین کی حکومت گرائیں،آپ جہاد کشمیر و افغانستان کے نام پر امتِ مسلمہ کو دہشت گردی کی ٹریننگ دیں،آپ دنیا بھر میں بے گناہ انسانوں کو قتل کروائیں،آپ سانحہ چلاس میں مسافروں کو قتل کروائیں،آپ سانحہ پشاور میں ننھے پھولوں پر گولیاں چلوائیں،آپ میدانِ منیٰ میں فاختاوں کے نشیمن پر بجلیاں گرائیں!آپ شہیدوں کی لاشوں کو ان کے ورثا کے حوالے نہ کریں!آپ کے مفتی ،شہدا کے قاتلوں کی حوصلہ افزائی کریں اور کہیں کہ یہ مرضی خدا ہے۔۔۔
آپ جو چاہے کریں،آپ کا ہر قول و فعل اسلام ہے اور آپ کی ہر ادا سنّت ہے ،آپ جو بھی کریں آپ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتے لیکن ہم۔۔۔
ہم اگر۔۔۔ اپنے رسول کے مزار کی جالی کو چوم لیں تو مشرک ہیں
ہم اگر ۔۔۔جنت البقیع کے مزارات کی زیارت کے قصد سے جائیں تو کافر ہیں
ہم اگر۔۔۔مردہ باد امریکہ اور اسرائیل کہیں تو ایران کے ایجنٹ ہیں
ہم اگر ۔۔۔یارسول اللہ کہیں تو کوڑوں کے حقدار ہیں
ہم اگر۔۔۔اللہ کے رسول سے مدد مانگیں تو کافر مشرک اور مرتد ہیں اور آپ اگر امریکہ اور اسرائیل سے مدد مانگیں تو خادم الحرمین شریفین ہیں
اور
غضب خدا کا کہ ہم اگر۔۔۔شہدا کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھ دیں تو بدعت ہے اور آپ اگر شہدا کی لاشوں کو کرینوں سے گھسیٹ کر کنٹینرز میں پھینک دیں تو یہ سنّت ہے۔
کیا صرف اس لئے کہ آپ بادشاہ ہیں،آپ ہمارے ہاں کے کچھ مولویوں، چند سیاستدانوں، بڑے بڑے دینی مدارس اور دہشت گرد گروپوں کانیٹ ورک چلاتے ہیں ۔۔۔
اس لئے آپ جیسے چاہیں اسلام کے ساتھ کھیلیں اور جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) نظم و ضبط و ضبط ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے کائنات کا ذرہ ذرہ باقی ہے، نظم و ضبط و ضبط کی برکات اگر آپ قرآن کی روح سے دیکھنا چاہیں تو سورہ نباء کا مطالعہ کریں کہ جس میں جگہ جگہ پر نظم و ضبط کے دلائل ملتے ہیں مثلا ً زمین کو بچھایا اس کی ضرورت کے مطابق اس پر آسمان کو بطور سائباں قرار دیا ۔ سورج کا اپنے وقت پر طلوع غروب ہونا ،بارشوں کا آنا فصلوں کا اگنا یہ سب نظم و ضبط کی مثالیں ہیں ۔ حضرت علی ؑ کی وصیت کے آخری جملے ہیں کہ اصیکم بتقوی اللہ و نظم امرکم[1] میں تم کو تقوی الہی کے ساتھ ساتھ اپنے امور کو منظم کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔
دیگر موجوداتِ کائنات کی طرح انسان بھی اپنے امور کو بطریقِ احسن چلانے کے لئے نظم و ضبط کا محتاج ہے۔یعنی اگر قوموں اور افراد میں نظم و ضبط ہو تو وہ آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پروردگار نے اس کائنات کو تو نظم و ضبط و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے تو آیا اس کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق انسان کہ جس کے متعلق خود خدا وند نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے کیا اس کے امور زندگی میں زبردستی نظم و ضبط کو کیوں نہیں رکھا؟
جب ہم انسانی زندگی پر تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ اللہ نے زبردستی کے بجائے نہایت احسن طریقے سے انسانی زندگی میں بھی نظم و ضبط کا انتظام کیاہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی خدا نے اس کے لئے نظام ہدایت کا انتظام کیا ہے اور اس انتظام میں بھی ایک خاص قسم کا نظم و ضبط ہے۔ مثلا حضرت آدم ؑ کو پہلا ہادی و رہبر بنا کر بھیجا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءؑ کی صورت میں خدا نے اس نظام ہدایت کو لوگوں تک پہنچایا ہے آخر میں رسول خداﷺ کہ جو سید الانبیاء ہیں انہوں نے خدا کے اس م نظم و ضبط نظام ہدایت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کی زندگی نبوت و رسالت رسول گرامی ﷺ کے بعد ختم ہو گئی ؟ اور اگر باقی ہے تو آیا خدا وند نے اپنے نظام ہدایت کو جاری رکھا؟ اگر رکھا تو وہ نظام الہی کیا ہے ؟ اور اس نظام کا بھی نظام نبوت کی طرح تعارف کرایا یا پھر اسے مجہول ہی چھوڑ دیا ؟ جیسا کہ خدا نے اپنے اس نظام کی ابتداء میں اپنے پہلے خلیفہ حضرت آدم ؑ کا فرشتوں کے سامنے تعارف کرایا تھا ۔ جو صاحبان تاریخ کا مطالعہ رکھتے ہیں یقیناً ان کی نظروں سے اس سلسلہ ہدایت کی ایک کڑی یعنی واقعہ خم غدیر ضرور گزرا ہوگا یہی وہ میدان ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے اس میدان میں موجود تمام اصحاب کہ جو حج کر کے واپس آرہے تھے کے سامنے نظام ولایت متعارف کرایا اور مولا علیؑ کو اس نظام ہدایت کا ہادی مقرر کیا جبکہ نظام ولایت کوئی نیا نظام نہیں بلکہ نظام نبوت کے تسلسل کا نام ہے جو آدم ؑسے لے کر حضرت خاتمﷺ تک چلا آ رہا تھا ۔کیونکہ یہ واقعہ روزروشن کی طرح واضح ہے یہاں تک کہ کسی بھی مورخ نے اس کا انکار نہیں کیا لہذا میں اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن یہاں پر ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ اس واقعے اور نظام کی اہمیت کا اندازہ ہم قرآن مجید کی ان آیات سے لگا سکتے ہیں کہ جن میں پروردگار اپنے پیار نبی ﷺ کو ان کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے رسولﷺ اگر تم نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا تم نےرسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا[2] اور پھر یہ کہنا کہ آج تمہارا دین کامل ہو گیا ہے آج کے دن نعمت تمام ہو گئی ہے اور تمام کفار مایوس ہو گئے ہیں[3] یہ تمام باتیں اس نظام کے قیامت تک باقی رہنے اور اس کی اہمیت کو بیان کرتیں ہیں ۔ آج اس نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ نظام ہدایت کہ جس سے انسان کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو خالی نہیں ہے چاہے وہ انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی اس نظام ولایت میں انسان کی زندگی کو م نظم و ضبط کرنے کے لیے اصول و ضوابط موجود ہیں آج عالم اسلام کی یہ حالت اس نظام الہی سے دوری کی وجہ سے ہے اگر شروع سے ہی اس نظام کو تسلیم کرلیا ہوتا تو آج عالم اسلام کی یہ حالت نہ ہوتی ،آج مسلمان مسلمان کو قتل نہ کرتا ،آج مسلم کی زندگی اتنی سستی نہ ہوتی ،مسلمانوں کےساتھ ایسا سلوک نہ کیا جاتا جو اس نظام ولایت و ہدایت سے ناآشنا خادمین حرمین کے پردے میں چھپے ہوئے منافق سعودی حکمران کررہے ہیں خاص کر حجاج کرام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کررہے ہیں ۔
مہمان خداکی توہین و بےحرمتی اس نظام سے دوری کا نتیجہ ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی زندگی میں الٰہی ہدایت کے نظام کی اہمیت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجائے اور فلسفہ غدیر کی لوگوں کو باقاعدہ تعلیم دی جائے تاکہ امت مسلمہ الٰہی ہدایت کو سمجھتےہوئے آل یہود و آل سعود کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتارنے پر تیار ہوجائے۔
آپ ایران اور حزب اللہ لبنان کو دیکھ لیں ،جنہوں نے پیغامِ غدیر کو سمجھ لیا ہے وہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر میدانِ مِنیٰ تک ہر میدان میں سرُخرو ہیں۔
تحریر۔۔۔۔سجادا حمد مستوئی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[1]وصیت امیرالمومنین ؑ در نہج البلاغہ
[2] سورہ مائدہ آیت 67
[3] ایضاً آیت 3
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ سعودی حکومت سانحہ منی کے شہدا ء کی شناخت کے عمل میں دانستہ طور پر تساہل پسندی برت رہی ہے۔لاشوں کو سرد خانے میں رکھنے کی بجائے کنٹینرز میں پھینکا گیا تاکہ گل سڑھ کر وہ قابل شناخت نہ رہیں اور شہدا کی تعداد چھپانے میں آسانی ہو۔ لاشوں کی پامالی اور پھر بلاشناخت تدفین امت مسلمہ کے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے۔سعودی عرب انتظامی نااہلی کو تسلیم کرنے کی بجائے خود کو بری الذمہ ثابت کرنا چاہتی ہے جو مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔سعودی عرب غلطیوں پر غلطیاں دھرانے کی بجائے اپنے امور کی اصلاح کرے بصورت دیگر اس کے خلاف دنیا بھر کی نفرت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔انہوں نے کہا پاکستان سمیت ہزاروں لاپتا افراد کے اہل خانہ شدید کرب سے دوچار ہیں پاکستان حکومت کو بھی چاہیے کہ سفارتی سطح پر اپنی کوششوں کو تیز کر کے حقائق تک رسائی حاصل کرے ۔ابھی تک پاکستانی گمشدہ افراد کے کوائف بھی اکھٹے نہیں کیا جاسکے۔اسے حکومتی نا اہلی کہاجائے یا پھرمتعلقہ حکام کی بے حسی سمجھا جائے۔انہوں نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی حکومت پر زور دیں کہ لاشوں کی شناخت کے عمل کو یقینی بنایا جائے اور تدفین سے قبل اہل خانہ سے باقاعدہ اجازت لی جائے۔