The Latest

وحدت نیوز(کوئٹہ) ایم ڈبلیوایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کا اسلام ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ پاک فوج ایک غیرت مند سپاہ ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہے، یہ کوئی کرائے کے قاتل نہیں ہیں، جنہیں جہاں ہمارے حکمران چاہیں معصوم لوگوں کے قتل عام کے لئے بھیج دیں، پاکستانی فوج کے کمانڈر اور فوج کے ذمہ داران کو اس سازش کا ادراک کرنا چاہیئے۔ اسکے دو  بہت بڑے مضر اثرات مرتب ہوں گے، ایک عالمی سطح پر امت مسلمہ کی بدنامی ہوگی، دوسرا یہ تاثر جائے گا کہ پاکستانی فوج کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی ریاست مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کے لئے اسلحہ دے رہی ہے اور پاکستان کے اندر بھی پاک فوج کی بدنامی ہوگی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جاری کردہ بیان کے مطابق رُکن صوبائی اسمبلی آغا محمد رضا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈ کا حصول ہرپاکستانی کا قانونی حق ہے۔ لیکن بلوچستان میں ہزارہ اور پشتون اقوام کے لئے اس کا حصول ناممکن بنادیاگیاہے۔ اور گزشتہ کئی سالوں سے پاسپورٹ آفس رشوت خوری اوربدعنوانی کا گڑھ بن چکا ہے۔ اِس گھناؤنے کاروبارمیں پاسپورٹ آفس کاتمام عملہ برابرکاشریک ہے۔


اُن کا کہناتھاکہ پاسپورٹ آفس کے عملے اورکمیشن خورمافیاکی ملی بھگت سے معصوم پاکستانیوں خصوصاً ہزارہ اورپشتونوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہاہے۔ بدعنوانی اوررشوت ستانی کے خلاف کاروائی کرنے والے وفاقی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔پاسپورٹ آفس میں درخواست گزاروں کو دانستہ طورپرتنگ کیاجاتاہے۔ اوران سے ایسی دستاویزات طلب کی جاتی ہیں جن کا پاسپورٹ کے حصول سے کوئی تعلق بھی نہیں۔دستاویزات مکمل ہونے کے باوجودفارموں کو پولیس کی تصدیق کے لئے بھیج دیاجاتاہے۔انہوں نے کہاکہ پنجاب میں پاسپورٹ کے حصول کے لئے صرف قومی شناختی کارڈ دکھاناہی کافی ہوتاہے جبکہ کوئٹہ میں ہزارہ پشتون دشمنی اور رشوت خوری کے دروازے کھلے رکھنے کے لئے پاسپورٹ آفس میں من مانی خودساختہ قوانین متعارف کئے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاسپورٹ کے حصول کے لئے درخواست گزاروں کو پاسپورٹ آفس کے مہینوں چکرکاٹنے پڑتے ہیں۔


انہوں نے کہاکہ پاکستان میں بسنے والے دیگراقوام کی طرح ہزارہ اورپشتون اقوام بھی پاکستانی ہیں اورپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں دیگراقوام کی طرح ہزارہ پشتون اقوام کی بھی بے پناہ قربانیاں ہیں۔انہوں نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیاکہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈ کے حصول کوآسان بنانے کے لئے بلوچستان میں بھی وہی قوانین لاگوکیئے جائیں جوپنجاب کے عوام کے لئے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈکے فارم کوپولیس کے پاس تصدیق کے لئے نہ بھیجاجائے بلکہ اس کے لئے عوامی نمائندوں یاکونسلروں سے تصدیق کو ہی کافی سمجھاجائے۔آغارضاکاکہناتھاکہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈ کے حصول کے لئے وضع کئے گئے خودساختہ قوانین کواگرختم نہ کیاگیاتووزارت داخلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائرکیاجائے گااوروہاں کرپشن کے ثبوت فراہم کئے جائیں گے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جاری کردہ بیان کے مطابق رُکن صوبائی اسمبلی آغا محمد رضا نے گزشتہ روزاسلام آبادکچہری میں خودکُش حملوں کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعہ کوبزدلانہ کاروائی قراردیتے ہوئے کہاکہ سابقہ اورموجودہ حکومت کی نرمی اوردہشت گردوں کے خلاف بروقت کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے آج دہشت گردطاقتورہوکرملک بھرمیں اس قدرپھیل چکے ہیں کہ اب اسلام آباد بھی دہشت گردوں کی کاروائیوں سے محفوظ نہیں رہاہے۔اُن کا کہناتھا کہ حکومت اورطالبان کے مابین پردے کے پیچھے کیاباتیں ہورہی ہیں قوم کو اس سے فوری آگاہ کیاجائے۔ اسلام آبادکے دلخراش واقعہ کے بعدطالبان کی طرف سے ایک ماہ کے لئے یکطرفہ جنگ بندی کااعلان دھوکہ کے سواکچھ نہیں۔اگرطالبان اپنی نیت میں صاف ہوتے تووہ جنگ بندی کے لئے ایک ماہ کی مدت مقررہی نہ کرتے۔طالبان کی طرف سے ایک ماہ کی جنگ بندی کی پیشکش مزید خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔

 

انہوں نے حکومت سے سوال کیاکہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے باوجوددہشت گردگروہوں کی جانب سے جاری حملوں کوروکنااگرطالبان کے بس کی بات نہیں توحکومت پھرطالبان سے کیوں مذاکرات کررہی ہے؟انہوں نے کہاکہ عدالتوں پرحملہ ملک میں قانون کی حکمرانی کوچیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ طالبان اوران کے حامی پاکستانی فوج کومذاکرات اور جنگ بندی کے نام پر تھکادیناچاہتی ہیں۔ اورطالبان کوجیسے ہی کوئی کمزورلمحہ میسرآتاہے وہ کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی سے دریغ نہیں کرتے۔اوراگلے روز میڈیاپرواقعہ سے اظہارلاتعلقی بھی کرتے ہیں۔ طالبان دہشت گردوں کوصرف اُن سیاسی اورمذہبی حلقوں کی وجہ سے ملک میں اپنی طاقت کویکجاکرنے کاموقع مل رہاہے جومذاکرات کے نام پراِن دہشت گردوں کی میڈیامیں برملاحمایت کررہے ہیں۔طالبان کی طرف سے پاکستان کے معصوم عوام ،میڈیاکے افراد، پولیس، افواج پاکستان اوراب عدلیہ پرحملے کے بعدوقت آچکاہے کہ اِن کے خلاف آپریشن کیاجائے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ 7مارچ 1995ء کی ایک المناک صبح تھی،تقریباً پونے آٹھ بجے ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ حسین اسٹریٹ بھلا اسٹاپ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔عید کے باعث آپ نے اپنے حفاظتی عملہ کو چٹھیاں دے دی تھیں فقط آغا تقی جو لاہور کے نواحی علاقہ امامیہ کالونی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ہمراہ تھے اور ہمیشہ کی طرح فرنٹ سیٹ پر الرٹ بیٹھے تھے، ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی منی پجارو جیپ جس کا نمبرQAD 3428 سلور کلر کو خود ڈرائیو کر رہے تھے،ان دنوں یتیم خانہ چوک سے ساہیوال کیلئے ٹویؤٹا ہائی ایس گاڑیاں نکلتی تھیں جس کی وجہ سے لاہور کا یہ مصروف ترین چوک ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔چوک سے تھوڑپہلے ویگن اسٹینڈ کے پاس الٹے ہاتھ پر گلی مڑتی ہے اور گلی کے عین نکڑ پر اخبارات اور کتابوں کا اسٹال لگا ہوتا تھا۔گھر سے یہاں تک کا فاصلہ بمشکل دو کلومیٹر ہو گا،آپ کی گاڑی جیسے ہی ا س ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی بعض عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند ادھر ادھر بھی فائرنگ کر رہے تھے تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب میں آ جائیں کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ آغا تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے ،اس کے باوجود دہشت گردوں کا ایک ساتھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔جب دہشت گردوں کو یقین ہو گیا تو وہ فائرنگ کرتے ہوئے بڑے آرام سے فرار کر گئے اس وقت پنجاب میں میاں منظو احمد وٹو وزیر اعلیٰ تھے۔

 

لاہور کے مصروف ترین چوک میں ہونے والی اس اندوہناک واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی پرائیویٹ ٹی وی چینلزکا زمانہ نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی خبر لمحوں میں ہر سو پھیل چکی تھی،قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ ملت تشیع پاکستان کیلئے سب سے بڑانقصان اور صدمہ تھا جس کا اندازہ آج بھی اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ملت تشیع پاکستان کی اکثریت کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے بارے ان کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ ان کی ملت کا ایک روشن ،چمکتا ستارہ یتیم خانہ چوک میں ڈوب گیا ۔ انہوں نے ایک گمنام مجاھد کی طرح زندگی گذاری ان کی فکری پرواز بہت بلند اور مقام و مرتبہ ہر ایک سے اعلیٰ تھا مگر انہوں نے کبھی روایتی قائدانہ انداز اختیار نہ کیا اور نمود و نمائش،ذاتی تشہیر سے میلوں دور رہتے شائد ان کا تقویٰ و خلوص ہی تھا جس کے باعث وہ پاکستان کے ہر شیعہ نوجوان کے دل میں گھر کر چکے تھے،ملت کے سیماب صفت نوجوان ہمیشہ ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔

 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے ان گنت پہلو اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی لوگوں کے سامنے نہیں آ سکے جس شخص نے اپنی مکمل زندگی تنظیمی و قومی تشکیلات و تحریکات میں گذار دی ان کی حیات و کارہائے نمایاں پر کئی کتب لکھی جاسکتی تھیں مگر آج تک صر ف دو کتب سامنے آئیں ہیں ایک ان کی زندگی کے حوالے سے اور دوسری ان پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔اول الذکر سفیر انقلاب محترم تسلیم رضا خان اور آخرالذکر پاسبان انقلاب برادر محترم ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی نے تدوین کی ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان کی اس قدر بڑی شخصیت جس نے مسلسل 30برس قومی و اجتماعی زندگی میں گذار دیئے اور اپنا سب کچھ تنظیموں و تحریکوں کو دیاہم اس کے آثار ہی جمع نہیں کر سکے ۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے تمام پہلو، ہر لحاظ سے ملت کے نوجوانوں کیلئے مشعل رہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا صرف ایک کردار ہی ہمارے سامنے ہو تو ان کو نسلوں کا آئیڈیل سمجھنے کیلئے کافی ہے اور وہ ہے امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حج پر براء ت از مشرکین کیلئے خود کو پیش کرنا ،یہ کس قدر خطرناک کام تھا اس کا اندازہ شائد ہم لوگ کبھی بھی نہ لگا سکیں اس لیئے کہ وہ وقت گذر چکا ہے جس میں یہ فرض نبھایا گیا تھا۔وہ واقعا ایثار و قربانی کا پیکر تھے ،عملی کردار ادا کرنے والے تھے ،آج کے نوجوانوں میں اگر کہیں جذبہ ایثار و قربانی دکھائی دیتا ہے توان کا آئیڈیل ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی ذات ہی توہے۔

 

ان کی برسی کے موقع پر اگر ہم اختصار کے ساتھ بھی ان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہیں تو کئی صفحات بھر جائیں ،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدایک معروف عالم دین مولانا امیر حسین نقوی کے فرزند تھے جن کی زندگی مکتب تشیع کی تبلیغ و دفاع میں گذری تھی جبکہ محسن ملت جناب قبلہ سید صفدر حسین نجفی ان کے بے حد قریبی رشتہ دار تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی دینی تربیت میں قبلہ صفدر نجفی صاحب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے اور ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی نوجوانوں کی نشستوں او ر تربیتی پروگراموں میں ان سے بھرپور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید دیگر کئی ایک علما ء جن میں مولانا قبلہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل ،جناب مفتی جعفر حسین قبلہ،اور آغا سید علی الموسوی بھی شامل ہیں سے بہت زیادہ مربوط رہے ،ان میں بھی آغا سید علی الموسوی کہ جنہوں نے ساری زندگی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ ایک مستقل رکن نظارت اور بانی رہنما کے طور پر گذار دی سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے آغا سید علی الموسوی بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو علما ء کی طرح احترام دیتے تھے وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔ڈاکٹر شہید بھی دیگر نوجوانوں کی طرح آغا علی الموسوی کے انداز خطاب و گفتگو بالخصوص نوجوانوں کے سالانہ کنونشن میں نئے مرکزی صدر کے اعلان کی تقریب کو بے حد دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے۔

 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو حضرت امام خمینی کی ذات سے عشق تھا اور وہ ان ہی کے عشق میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو اگرپاکستان میں کسی سے اپنا درد بیان کرنا ہوتا تھا تو ان کا اعتماد شہید ڈاکٹر پر ہی تھا۔حقیقت میں یہ دونوں شخصیات امام راحل خمینی بت شکن کی عاشق تھیں جنہوں نے وقت کے طاغوت کو للکارا ہوا تھا اور پاکستان کے ہمسائے میں میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر کے اسلامی انقلاب برپا کر دیا تھاپاکستان کی یہ دونوں عظیم شخصیات اس مادر وطن میں دیگر امت مسلمہ کے ساتھ ملکر امام خمینی کے پیغامِ انقلاب کو راسخ کرنے کیلئے کوشاں تھیں تاکہ اس وطن کے مظلوم عوام بھی استعمار و طاغوت کے منحوص خونی پنجوں سے آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔امت کو یکجا و متحد کرنے کیلئے انہوں نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک چلا رکھی تھی اور اس کے اثرات بے حد مثبت دیکھے جا رہے تھے دشمنان امت مسلمہ اتحاد کی اس فضا سے خاصا پریشان تھا لہذا اس نے اپنے پالتو نمک خواروں کے ذریعے اس کے مخالف فرقہ وارانہ فضا کو ایجاد کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ایسے گروہ تشکیل دیئے جو پہلے سے افغان جہاد کے حوالے سے ان کے رابطے میں تھے۔اصل میں اس کا مقصد پاکستان کی سرزمین سے انقلاب کی پھوٹی کرنوں کا راستہ روکنا تھا۔آج جو کچھ ہماری سوسائٹی اور ملک و معاشرہ میں دکھائی دے رہا ہے یہ سب اسی کا حصہ ہے ۔ فرقہ واریت کا جن آج طاغوت کا بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے جب چاہتے ہیں باہر نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر شہید آخری ایام زندگی سے پہلے ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کی تشکیل کردہ نہضت کا انداز ،طریقہ ء کار اور نام کسی بھی طرح سے ملکی حالات اور ماحول کے حوالے سے آئیڈیل نہیں بلکہ اس کے الٹ ہے اور باعث ضرر ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،اس کا اظہار انہوں نے کئی ایک دوستوں کے سامنے کیا اور اپنے طور پر اس کی کوشش بھی کی مگر اس وقت تک شائد حالات ان کی گرفت سے باہر ہو چکے تھے نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم استعماری و طاغوتی جال میں بری طرح جکڑے دکھائی دیتے ہیں ۔

 

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیئے نمونہ ء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق،کردار،عمل،میل جول،برتاؤ،اٹھنا بیٹھنا،فلاحی امور کا نیٹ ورک،خدمت خلق سے سرشار معمولات،تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک،تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء،نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون،ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی ،دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت،ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات،الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھااس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھااور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی ۔آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتااسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفےٰ اسکول کے نام سے قائم کیا جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔بلتستان کی ایک شخصیت کے ساتھ ملکر انہوں نے ایک ادارہ بلتی طالبعلموں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا جس کا نامbestرکھا تھا۔

 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید زندگی میں ایک ایسے محور کی حیثیت رکھتے تھے جس کے گرد ملک بھر کے تنظیمی نوجوان کھنچے چلے آتےتھے ان کی مقناطیسی شخصیت کی کشش سے ہر کوئی ان سے مربوط رہتا تھااور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ کمال تھا کہ وہ ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے کسی کو بیکار نہ رہنے دیتے تھا گویا ان کی ذات کی شکل میں تنظیمی مسؤلین و سابقین کا ایک نیٹ ورک موجود تھا ان کی شہادت کے بعد ہم اس مقناطیسیت سے محروم ہو گئے اور سابقین کا کوئی نیٹ ورک بھی قائم نہ کر سکے نہ ہی کوئی ایسی شخصیت ابھر کر سامنے آ سکی جس پر شہید ڈاکٹر کی طرح سب احباب و دوست اعتماد کرتے اور وہ شخصیت بھی اپنے مستقبل کی قربانی دے کر قومی اجتماعی جدوجہد اور اسلامی تحریک کو مضبوط کرتی۔وقت آج بھی ہمیں پکار رہا ہے ۔آج بھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے آج بھی سعادت و خوشبختی کا اور شہدا ء کا راستہ منتظر ہے کہ کوئی محمد علی نقوی بن کر آئے اور چھا جائے۔آخر میں تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ

 

میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام ،تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں


تحریر:ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(آرٹیکل) کہتے ہیں جسمِ انسانی کے کسی حصیّ میں چوٹ لگ جائے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے.ہماری شیعہ قوم کی مثال بھی جسمِ انسانی کی مانند ہے ۔کہ دنیا کے کسی حصیّ میں بھی شیعہ مصائب و مشکلات کا شکار ہوتے ہیں توپوری قوم تڑپ اٹھتی ہے ۔کہیں بھی شیعت ظلم و بربریت کاشکار ہوتی ہے تو اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔اور پوری شیعہ قوم سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالقاسم رضوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔آپ گزشتہ پچیس برس سے درِ علی ابنِ ابو طالبؑ سے وابستہ ہیں اور انڈیا ، ایران ، سائوتھ افریقہ اور افریقہ کے بعد اب آسٹریلیا میں اپنے علمی وتبلیغی فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔سانحہ علمدار روڈ کوئٹہ کے سلسلے میں جب مجلسِ وحدت مسلمین کے تحت جب پورے پاکستان اور دنیا بھر میں دھرنے اور احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو مولانا صاحب نے مجلسِ وحدت مسلمین کی صدائے احتجاج پر لبیک کہا اور پہلی بار آسٹریلیا کی شیعہ برادری نے آپ کی قیادت میں دھرنا کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔آپ نے اپنی کاوشوں سے یہ ثابت کر دیا کے آپ دور ہو کے بھی پاکستان کی شیعہ قوم کے شریکِ درد ہیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ،شیعہ قوم کی نسل کشی ، حکومت کی بے حسی اور اس مشکل ترین دور میں ہماری کیا حکمتِ عملی ہونی چاہیے اس سلسلے میں جب ہماری آپ سے گفتگو ہوئی تو آپ نے ہماری درخواست پر ایک مفصل مراسلے کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔


موجودہ حالات میں شیعانِ پاکستان کی حکمتِ عملی کے عنوان سے چند معروضات اس مضمون کے تحت مومنین تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
ِِ یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ جنھوں نے پاکستان بنایا تھا جنھوں نے مملکتِ اسلامی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا کہ ایسی اسلامی ریاست معرضِ وجود میں آجائے جہاں اسلامی قوانین کی بالا دستی ہو اور آئین و شریعت کا بول بالا ہو جہاں حقوق العباد کا احترام ہو اور اس ریاست کے رہنے والے اسلام کی صحیح تصویر اپنے اقدام و عمل سے پیش کریں ،ایسی مملکت جہاں امن و امان،سکون وچین ،عدل و حسنِ انتظام ہو مگر


نیرنگئی سیاستِ دوراں نہ پوچھئے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے


بھڑیا صفت ،تشدد مزاج ظالموں نے جنہیں دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے اپنی باغیانہ سوچ ، انسان دشمنی اور عدل مخا لف بھیڑ کے ساتھ ملک پر قبضہ کر لیا ہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ قانون و احکام معطل ہو گئے ہیں جو نظریہ پاکستان کے مخالف تھے انہوں نے ریاست کے اندر ایک ظالم و جابر ریاست قائم کر کے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔محسنین و مخلصین کو اور انکی نسلوں کو بے دریغ قتل کیا جانے لگا ہے اور یہ عمل اب تک شدت سے جاری ہے
اس سے بڑھکر نہیں دنیا میں کوئی جرم عظیم
آدمی کچھ بھی ہو احسان فراموش نہ ہو

 

پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے متمدن اور مہذب معاشرہ میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں کیا جا سکتا ۔ایک نام نہاد مملکت یا ریاست میں بھی یہ غیر انسانی عمل نا قابلِ قبول ہے کیونکہ رسولِ خد ا ﷺفرما چکے ہیں (کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو)اور وہ بھی سرکار کا امتی نہیں ہو سکتا جو صبح اس حال میں بسرکہ امت کی بہتری کی کوئی فکر نہ کرے۔اسلام بے خبری اور لاتعلقی کو پسند نہیں کرتا۔رسول ؐ نے فرمایا ( العالم برمانہ لا یھجم علیہ اللوابس) جو حالاتِ زمانہ سے با خبرہوتا ہے وہ شکوک کا شکار نہیں ہوتا۔پاکستان میں جو کچھ ہو رہاہے وہ قابلِ مذمت و نفرین ہے۔آرنلڈ ٹو این بی نے ۳۳ سا ل کی محنت شاقہ کے بعد اپنی مشہور زمانہ کتاب A study of History لکھی ۔یہ کتاب دس جلدوں اور تیرہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں گذشتہ و موجودہ اقوام عالم کا تزکرہ کیا گیا ہے۔خلاصۂ کتاب یہ ہے کہ تاریخّ ِ عالم میں ا ب تک ۲۸ تہذیبوں کے آثار ملتے ہیں جن میں ۱۸ فنا ہو چکی ہیں ۹ زوال پزیر ہیں اور تنہا ایک تہذیب ہے جو ترقی کی جانب رواں دواں ہے البتہ متمدن معاشرہ civilised nation کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے کہ جب مشکلات کا مقابلہ ہوئے کوئی معاشرہ فتح و کامرانی حاصل کرتا ہے تو وہیں تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے یہ مشکلات تاریخی بھی ہو سکتی ہیں، جغرافیائی بھی، معاشرتی بھی،دینی بھی اور سیاسی بھی۔۔۔۔
البتہ تہذیب کا ارتقاء اقلیت Minority کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔یہی لوگ راستہ ڈھونڈتے ہیں،تلاش کرتے ہیں۔اکثریت انکی پیروی کرتی ہے وہی اقلیت ہیں ۔ بقول بسمل جائسی
کثرت دلیلِ حق و صداقت نہ بن سکی
لاکھوں ہوئے ذلیل بہہتر کے سامنے
خدا نے ہدایت اور دین میں بھی اسی اصول کو کار فرما رکھا۔لیکن آج کا پاکستانی کچھ اس طرح کا ہے۔معاشرہ منقسم ہے،روحِ عصر مجروح و شکستہ ، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ،عوام وخواص ، حاکم و محکوم ، دینی و مذہبی مراکز ، گھر بازار کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔لہذا با شعور مہذب منصف اور پاکستان دوست لوگوں سے میری درحواست ہے کہ ان حالات سے صرف شیعت ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو خطرہ لاحق ہے۔پاکستان تباہ ہو رہا ہے۔لٹیرے لوٹ مچائے ہوئے ہیں ۔قاتل و سفاک خیابانِ شہادت میں لاشوں کے انبار لگا رہے ہیں ، مصلحت پسند دانشور ، بے ضمیر مفکر، تاجر علماء، سکوتِ مجرمانہ کو دانش بینش حکمتِ عملی کا نام دیکر منفعتِ عارضی کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔انتشار مکمل ہو چکا ہے۔موجودہ معاشرہ کی یوں تشریح کی جا سکتی ہے کہ معاشرہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔کسی نے ماؤزے سے پوچھا قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں تو جواب دیا کہ قومیں بحران، مصیبتوں اور آفتوں میں ترقی کر تی ہیں۔قوموں کو عام حالات Potential کا اندازہ نہیں ہوتا جو قوم Crises میں Potential اور کمزوریوں کا اندازہ نہیں لگا پاتی وہ ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھ سکتی۔وہی قوم ترقی کرتی ہے جو غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہے، اپنی اصلاح کرتی ہے اور خوش آئند مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔آج شیعہ قوم آزمائش و ابتلاء کے دور سے گذر رہی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ حسنِ تدبیر اور سعی پیہم سے کام لے کر ملتّ و مملکت دونوں کو تباہی سے بچائیں۔
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہو گی
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
موجودہ حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
۱۔موجودہ حالات میں ہمیں اجتماعی کوشش کرنی ہو گی تب ہی شیعہ قوم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کامیاب و سرخرو ہو گی۔بقول علامہ اقبال
خدانے آ ج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
۲۔اپنی قوت کا صحیح اندازہ لگا کر مقررہ اہداف کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا ہو گا
لیس للانسان الا ما سعی
انسان کے لئے کچھ بھی ممکن نہیں بشرطیکہ وہ کوشش کرے
(سورۂ نجم آیت ۳۴)
۳۔ استقامت واستقلال کا مظاہرہ قیادت و امتّ دونوں کو کرنا ہو گا۔مدبر و مخلص قیادت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔کسی بھی تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم رول قائد کا ہوتا ہے۔قائد مدبر ہو ،مخلص نہ ہو تو انجام تباہی۔مخلص ہو تدبیر کی صفت سے عاری تو سر نوشت ناکامی۔رہبر کا نہ ہونا مصیبت ہے اور ہر گوشے سے مدعیانِ رہبری کا ظہور مصیبتِ عظمی ہے۔لہذا تمام تنظیموں کو ایک رہبر پر متفق ہو جانا چاہئیے اور اسلام میں مشورہ بہت اھم ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ بے لوث، بے غرض مجلسِ مشاورت ہو ۔
۴۔وحدتِ امتّ کے لئے قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک ہو جائے حدیث کے مطابق ایک جسم کی طرح متحد ہو چونکہ حضور ؐ نے فرمایا
’’ید ا للہ علی ا لجماعتہ ‘‘ اللہ کا ہاتھ جماعت کے سر پر ہوتا ہے۔یعنی جماعت کو تا ئیدِخدا حاصل ہوتی ہے۔
۵۔آج سب سے بڑا مسئلہ ہماری صفوں میں انتشار ہے اور وہ تعلق و ارتباط جو باہم ہونا چاہیے تھا وہ نہیں رہا ۔برادرانِ ایمانی کے درد کو اپنا درد سمجھیں فرد کے نقصان کو قومی نقصان سمجھا جائے، رو ٹھوں کو منانے کی کوشش کی جائے ۔فاصلے سمیٹے جائیں۔خدا وند تعالی ہمیں حکم دے رہا ہے ’’انما ا لمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم ‘‘
بے شک مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اپنے یھائیوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرتے رہو۔(سورۂ حجرات آیت ۱۰)
امامِ حسین ؑ نے بھی اپنے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف اصلاح امتّ قرار دیا تھا۔
۶۔معجزہ کا انتظار کر نے کے بجائے ذمہ داریاں لینی ہونگی۔مولائے کائنات حضرت علی ؑ نے ارشاد فرمایا ،
’’ کلکم راعٍ و کلکم مسؤلٍ‘‘
تم میں سے ہو ایک اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے جواب دہ ہے۔


۷۔ حوصلہ شکنی نے قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے ، قوم کی کامیابی کی تدبیر کی جائے اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔کوشش کرنے والوں کے ساتھ تعاون کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’تعاونو علی البر و التقوی ولا تعاونو علی الاثم والعدوان‘‘
نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے تعاو ن کرو اور گناہ و بغاوت میں بلکل مدد نہ کرو۔صاحبانِ منبر و محراب ، قوم کے اربابِ مجاز ، صاحبانِ نفوذ و اثر کو آگے آناہو گا بہت دیر ہو چکی ہے قوم مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہے۔
۸۔آج کی جنگ کا اسلحہ قلم اور میڈیا ہے۔انٹر نیٹ ، ٹی وی ، اخبارات ا ور دیگر تمام ذرائع ابلاغ سے رشتہ استوار رکھا جائے۔
میڈیا ٹیم پر محض احتجاج نہ کیا جائے بلکہ International media کے ذریعے Coverage کرایا جائے Political Pressure بنانا بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو ظالموں کا مکروہ چہرہ دکھانا ضروری ہے۔۲۰ فیصد شیعہ عوام وہ طاقت ہے جو جسے چاہے اقتدار میں لائے جسے چاہے اقتدار سے بے دخل کر دے مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب قوم متحد ہو ، قیادت مخلص ہو۔الیکشن سے پہلے اپنی مطالبات table پر رکھے جائیں ، معاہدے sign ہوں ،ووٹ تقسیم نہ ہوں ، زیادہ سے زیادہ اپنوں کو سیاسی عمل کے ذریعے پارلیمنٹ تک پہنچائیں محتصر یہ کہ ا یسی سیاسی و سماجی طاقت بن جائیں کہ شیعوں کے بغیر حکومت کا تصور محال ہو جائے۔۔

 

(تحریر:مولانا سید ابوالقاسم رضوی : میلبورن آسڑیلیا)
(ترتیب و تدوین:ثمینہ مطیع الحسن )

وحدت نیوز(مشہد مقدس) پاکستان کی اور پاکستانی عوام کی بد قسمتی ہے کہ ایسے حکمرانوں سے واسطہ پڑا ہے جن کو ملک اور قوم سے نہیں بلکہ اپنے اقتدار سے محبت ہے ۔یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی جان بچا کر ملک  سے فرار کر گئے تھے ،اس وقت بھی انہوں نے ملک و قوم کا مفاد نہیں دیکھا تھا بلکہ اپنا اور  بے گانوں کا مفاد دیکھا تھا اور اب اتنے سالوں بعد بھی ملک و قوم کا نہیں بلکہ  اپنے اقتدار کو طول دینے اور بیرونی طاقتوں کے اشارے پر چل رہے ہیں ،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین عقیل حسین خان نے  وحدت ہائوس مشہد سے جاری اپنے بیان میں کیا۔

 

انہوں نے کہا کہ ہر روز  محب وطن شہریوں کے قتل عام کے باوجود  بے ضمیر حکمران مذاکرات کی بھیگ مانگ رہے ہیں  جو پاکستان اور محب وطن عوام کے ساتھ غداری ہے،جب سیکورٹی اداروں نے کہہ دیا ہے کہ  دو ہفتوں کے اندر  دھشت گردوں کا صفایا کر دیا جائے گا تو پھر کیوں ان کو ڈھیل دی جا رہی ہے،سیکرٹری جنرل  مشہد مقدس عقیل حسین خان نے کہا کہ پوری قوم جانتی ہے کہ دھشت گردوں کی پشت پناہی صعودی عرب اور امریکہ کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران بھی  امریکہ اور آل سعود کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔اس لئے ان سے کسی خیر کی توقع کرنا فضول ہے اب اگر ملک و ملت کو بچانا ہے تو تمام محب وطن قوتو ں کو اکٹھا ہو کر دھشت گردوں اور انکے سرپرستوں کو بے نقاب کر کے  انکو انکے منظقی انجام تک پہچانا ہو گا۔

وحدت نیوز(حیدرآباد) ہمارے ملک میں نا تو پولیس نا رینجرز نا ایف سی اور نا ہی فوج نا عوام اور پھرایک بار اسلام آباد کی کورٹ کو دہشت گردوں نے اپنا نشانہ بناکر تین بے گناہ ججوں کو شہید کردیا اور کئی لوگوں کو زخمی کردیا اب تو مذمت کرنا بھی ایک روایت بن گئی ہے پاکستان میں ہمیں تو مذمت کا لفظ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے پر حکومت آخرکب تک عوام سے مذاق کرتی رہی گی اب تو لگتا ہے کہ حکومت قاتلوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی خو دکر رہی ہے، ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین ضلع حیدرآباد کے سیکریٹری جنرل علامہ امداد علی نسیمی نے مسجد حسینی لطیف آباد نمبر :4 میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کر تے ہو ئے کیا ۔

 

ان کاکہنا تھا کہ ملک دہشتگردوں کی چنگل میں ہے اور حکمران اپنی کرسی بچانے کے چکر میں بیٹھ کر بے حسی کے ساتھ یہ جو کچھ ہور ہا ہے دیکھ رہی ہے ناتو مذاکرات صیحح ہورہے ہیں اور نہ ہی دہشت گردی ختم ہوگی کیونکہ حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ہم سفاک قاتلوں اور اُنکے ہمنواؤں کو پاکستان پر مُسلط نہیں ہونے دینگے ۔ کراچی ، پشاور ، کوئٹہ ، گلگت ، کے بعد پنجاب میں بھی دہشتگروں نے کھلے عام حملے کرنے شروع کردیے ہیں ۔

 

انہوں نے مذید کہا کہ ایک طرف حملہ ہوتا ہے دوسری طر ف طالبان کی طرف سے بیان آجاتا ہے کے یہ حملہ ہم نہیں کیا عجیب بات ہے کہ آگ لگاکر پھر یہ بولنا کہ ہم نے آگ نہیں لگائی اگر آگ نہیں لگائی تو آگ لگانا تو سکھایا ہے آپریشن بند کرکے حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔آخرمیں تمام ملکی عوام کو گزارش کرتا ہو ں کہ متحدہ ہوجائے حکومت اور دہشت گردوں کے خلاف خود ہی میدان عمل میں آجائے خدا ہمارا حامی و ناصر ہوگا ۔

وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم المقدسہ کے سیکرٹری جنرل علامہ غلام محمد فخرالدین نے اسلام آباد ضلع کچہری میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وکلاء سمیت بے گناہ شہریوں کا قتل انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ دہشت گرد حملے اور لاشوں کے ڈھیر، عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کی ایک سنگین سازش ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری اعلٰی عدلیہ نے بھی اپنا منصفانہ کردار ادا نہیں کیا، آج یہ دہشت گرد ناسور بن کر ملک بھر میں پھیل چکے ہیں، اگر بروقت انہیں قابو کر لیا جاتا تو ملک و قوم کا اتنا جانی و مالی نقصان نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت پر حملے نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ علامہ غلام محمد فخرالدین نے کہا کہ طالبان سے اب مزید کسی قسم کی کوئی رعایت نہ کی جائے، یہ کہاں کا اسلام ہے کہ اللہ اکبر کے نعروں سے معصوم لوگوں کی جانیں لی جا رہی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کیا۔

وحدت نیوز(قم المقدسہ) خداوند تبارک و تعالٰی نے انسان کو مختلف صلاحیتوں کے ساتھ خلق کیا ہے۔ صراط مستقیم پر باقی رہنا اور دوسروں کو اس راہ کی طرف دعوت دینا انتہائی مشکل کام ہے اور خدا نے یہ ذمہ داری انبیاء کرام کو سونپی ہے۔ دین اور مذہب کی آبیاری پانی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے خون کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خون پاکیزہ، غیرت مند، شجاع اور بابصیرت انسانوں کا ہونا چاہیے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکز ی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مدرسہ امام خمینی قم میں  ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی اور ان کے جانثار ساتھی شھید تقی حیدر کی یاد میں مجلس وحدت مسلمین قم اور ادارہ امید طلاب پاکستان کی جانب سےمنعقدہ  سفیر انقلاب سیمینارسےخطاب کر تے ہو ئے کیا۔دیگر مقررین میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی اور مرکزی سیکریٹری تربیت علامہ احمد اقبال رضوی بھی شامل تھے ،سفیر انقلاب سیمینار میں خانوادہ شھداء سمیت دینی طلاب کی بڑی تعداد، ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی مرکزی کابینہ اور باہر سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی پر مبنی ویڈیو کلپ تھیٹر پروجیکٹر کے ذریعے نشر کیا گیا۔

 

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ  انبیاء کرام اور آئمہ اطہار علیہم السلام نے اپنا خون پیش کیا اور اسی خون کے ہدیہ کا نام شہادت ہے۔ انہوں نے قرآن کی آیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا خداوند شہید کے زندہ ہونے کی گواہی دیتا ہے اور شہید ایسی ھستی ہوتی ہے جو اپنے خون کے ذریعے اپنے راستے کی حقانیت کو اثبات کرتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی 42 سال کی عمر میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔ انکی پوری زندگی بابرکت تھی اور آج پوری دنیا میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔

وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شھیدی نے سفیر انقلاب سیمینار میں شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی کو خراج تحسین پیش کر تے ہو ئے کہا کہ شہید کا جسم تو مر جاتا ہے لیکن اس کی روح کبھی نہیں مرتی۔ انہوں نے سیرت شہید کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیرت اور تاریخ کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیرت ایسے اصول و ضوابط کا نام ہے کہ جو آئمہ اطہار علیھم السلام کی زندگیوں پر حاکم تھے۔ ہم ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں پیش آنے والے بحرانوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ان اصولوں میں استقامت، شجاعت، بصیرت اور معاشرے کو خدا سے پیوست کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی ان اصولوں پر مبنی تھی۔ جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی لیڈر اپنی قوم سے پیچھے رہ گئے ہیں تو عوام مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج پاکستان میں عوام کا مجلس وحدت مسلمین پر اعتماد اسی وجہ سے ہے کہ قوم ایم ڈبلیو ایم کو تمام میدانوں میں حاضر دیکھتی ہے۔ انہوں نے حوزہ علمیہ قم کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ قم کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ یہاں پر آئندہ آنے والے رہبروں کی تربیت کی جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree