وحدت نیوز(مظفرآباد) قائم مقام سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے کہا ہے کہ علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والوں کو فوری گرفتار کیا جائے ، مجرمان کی گرفتاری آزاد کشمیر کے امن کے لیے انتہائی ضروری ہے، علامہ تصور جوادی پر حملہ امن کی فضا کو خراب کرنے کی بڑی سازش ہے۔ کشمیر کے باسی پرامن اور محب وطن ہیں ، یہاں کوئی شیعہ سنی تفریق ہے نہ ہونے دیں گے ۔ ہم اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ علامہ تصور جوادی کا مشن و مقصد ہی یہی تھا ، کہ امت مسلمہ ایک پیج پر ہو ، اغیار کی سازشوں کو بھانپتے ہوئے انہیں اپنی صفحوں میں نہ گھسنے دے۔ شہر مظفرآباد امن کی علامت کے طور پر سمجھا جاتا تھا ، مگر ایک شریف النفس درویش صفت انسان کو گولیوں کا نشانہ بنا کر دن دیہاڑے فرار ہو جانا انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، پر زور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد دہشت گردوں کو گرفتا ر کر کے سامنے لایا جائے ، عدم تحفظ کی فضا کو ختم کیا جائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے دفتر میں آئے ہوئے مختلف وفود سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم حسینی قوم ہیں ، میدان میں نکلنا جانتے ہیں ، حکومت فوری طور پر سراغ لگائے ورنہ جب یہ قوم میدان میں نکل جائے تو پھر اسے کوئی نہیں بھگا سکتا ۔ مولانا طالب ہمدانی نے کہا کہ ایکشن کمیٹی نے پانچ دن کی ڈیڈ لائن دی تین روز گزرنے کو ہیں تا حال کوئی پیش رفت نہیں ، اس ڈیڈ لائن کے گزر جانے کے بعد راست اقدام اٹھائیں گے ، مجلس وحدت مسلمین پرامن جمہوری جماعت ہے ، مگراپنے محبوب رہنما کا خون رائیگان نہیں جانے دے گی ۔ مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ہر کارکن کے اندر شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے معاملے کا فوری حل نکالا جائے بصورت دیگر ہم سڑکوں پر آئیں گے پھر اس وقت تک واپس گھروں کو نہیں لوٹیں گے جب تک علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والے قانون کی گرفت میں نہ ہوں ۔ ہم انتظامیہ کے ساتھ ہیں ، مکمل تعاون کے لیے آمادہ ہیں ، مگر حکومتی بے بسی پر حیران کن ہیں ، اتنا بڑا سانحہ ہوجانے کے باوجود ایک وزیر ایک رکن نے بھی تعزیت و تسلیت کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔ مولانا طالب حسین ہمدانی نے کہا کہ علامہ تصور حسین نقوی الجوادی صحت بہتری کی جانب گامزن ہے ، مگر قوم سے اپیل ہے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھے ۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ جب پھر ہمارا ہر دلعزیز رہنما ہمارے درمیان ہو گا ۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزمان چھ روز گزرنے کے باوجود گرفتار نہ ہونے پرتمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل قائم’’ انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی مظفرآباد ڈویژن‘‘ نے حکومت کو ملزمان کی گرفتاری کیلئے پانچ دن کی ڈیڈ لائن دے دی ۔ ملزمان گرفتا رنہ ہوئے تو دما دم مست قلندر ہوگا،یو این و مبصر مشن تک لانگ مارچ کرنے پر مجبور ہونگے ۔
گزشتہ روز مرکزی ایوان صحافت میں پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندوں ،تاجروں کے ذمہ داران ،سول سوسائٹی،طلباء تنظیموں ،سنٹرل بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان مجلس وحدت مسلمین کے رہنماطالب ہمدانی ، سید شجاعت کاظمی، علامہ فرید عباس نقوی ، مولانا عبدالعزیز علوی، شوکت نواز میر ، راجہ ثاقب مجید ، سید نذیر حسین شاہ ، عبدالرزاق خان، قاضی محمد فہد چشتی ،اصغر نثار میر ،سید تصور عباس موسوی، حافظ کفایت نقوی ، نصیر ہمدانی ،کامران بیگ،سید تبریز کاظمی، سید قلب عباس ،سید مجاز شاہ ، علامہ تصور جوادی کے لواحقین و دیگرنے کہا کہ مظفرآباد شہر امن و رواداری کا شہر ہے جس پر حملہ کیا گیا ، اس دھرتی کو دہشت گردوں کے حوالے کسی بھی صورت نہیں کر سکتے ۔تخریب کاروں کے نا پاک عزائم کو اس دھرتی کے باشعور عوام نے ناکام بنا دیا ۔دکھ کی اس گھڑی میں حکمران جماعت کی طرف سے کسی وزیر یا ایم ایل اے نے متاثرہ خاندان سے اظہار ہمدردی تک نہیں کیا ،اور نہ ہی اس حوالہ سے کوئی سنجیدہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں سے ملزمان کا گاڑی سمیت فرار ہونا پولیس انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا رہا ہے ۔شہریان مظفرآباد نے اپنے حصے کا بھر پور کردار ادا کیا لیکن حکومت کی جانب سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔
انہوں نے کہا کہ اگر پانچ دن میں ہمارے مطالبات منطور نہیں کیے جاتے تو ہم راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے ۔احتجاجی تحریک کا آغاز کرینگے ، دھرنے دیئے جائیں گے ، جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔شٹر ڈاؤن ،پہیہ جام کرنے کے ساتھ ساتھ UNOکے مبصر مشن تک مارچ کرینگے اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہم مظفرآباد اور اسلام آباد کے پارلیمنٹ کی جانب لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر بھر کی سیکیورٹی سخت کی جائے تمام انٹری پوائنٹس خفیہ کیمروں کی تنصیب کے ساتھ چیکنگ کا نظام بہتر کیا جائے ، تمام مزارات اور خانقاہوں پر پولیس نفری تعینات کی جائے ۔
انہوں نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کا دائرہ کار آزادکشمیر تک بڑھاتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ علامہ تصور جوادی پر ہونے والے حملہ کی وفاقی سطح پر تحقیقات کی جائیں۔ آخر پر انہوں نے لاہور ،سہون شریف ،پشاور،چارسدہ سمیت ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ابتداء کائنات سے ہی انسانی کمال و ترقی کے نام سے بہت ساری تحریکوں نے جنم لیا ۔ عروج و زوال دیکھا ۔ وہ تحریکیں کہ جن کی بنیاد و اساس کمزور تھی دنیا کے سینے سے مٹتی چلیں گئیں ۔ ۔۔ حتی ان کے اثرات تک باقی نہ رہے۔ مگر جیسے ہی دنیا میں کوئی بھی تحریک یا تنظیم سر اٹھاتی ہے ، اس کے ظہور کے ساتھ ہی چند بنیادی سوالات ذہن انسانی میں جنم لیتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ۔۔۔۔؟؟اس کے پیچھے کیا عوامل ، اسباب و محرکات کار فرما ہیں ۔۔۔؟؟یہ اپنے دعووں میں کس حد تک صادق ہے ۔۔۔۔ ؟؟آج ہر طرف داعش داعش کا شور سنائی دے رہا ہے ۔۔۔"داعش " آج سے چند سال قبل دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک تنظیم ۔۔۔ اس کا نام و شور سنتے ہی میرے ذہن میں بھی بعینہ انہیں سوالات نے جنم لیا ۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں۔۔۔؟؟اس کا شعار کیا ہے ۔۔۔؟؟آیا یہ خود ذاتاً ایک مستقل نظریاتی تنظیم ہے ؟؟۔۔۔یاپھر یہ کسی اور تحریک و تنظیم کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہچانا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ ؟؟آیا اس کے ظاہر و باطن میں تفاوت پایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔؟؟
چند روز کی ورق گردانی و دانشمندان کے خیالات کی روشنی میں بالاخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ "داعش " نامی تنظیم بذات خود کوئی مستقل نظریاتی تحریک نہیں ۔۔۔۔۔ خود اس تنظیم کے دعوے کے مطابق یہ آج سے تقریباً 14 صدیاں پہلے جنم لینے والی تحریک کے علمبردار ہیں۔۔۔ اور ظاہری طور پر ان کا نعرہ اسی تحریک کے مقاصد کو دنیا کے کونے کونے تک پہچانا ہے ۔۔۔۔وہ تحریک کہ جسے دنیا آج اسلام کے نام سے جانتی ہے ۔۔۔۔ ان کے ادّعا کے مطابق یہ اسی اسلام کے علمبردار ہیں کہ جس کے محبت بھرے و نرم و نازک پودے کو خود رسول خدا (ص) نےکے کاشت کیا ۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا ۔۔۔۔۔؟؟ ان کی تاریخ تو بلکل ان کے ادّعا و دعوے کی تصدیق نہیں کرتی ۔۔۔۔۔ اور چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں ۔۔۔۔ہاں جی ۔۔۔ بلکل ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔ میں خود بھی تحریک محمدیہ (ص) کا ہی فرد ہونے کی بناء پر رسول خدا(ص) کی مہربان و شفیق تحریک سے قدرےآشنا ہوں ۔۔۔۔لہذا اس بناء پر پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا اسلام محمدیہ (ص) سے دور دور تک کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔انہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا دم ضرور بھرا ہے ۔۔۔اگر تاریخ کا دقت سے مطالع کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ گروہ اسلام کے داخلی دشمنوں کے تسلسل کا ایک واضح نمونہ ہے ۔۔۔ کیونکہ ابتداء اسلام سے ہی جب دشمن نے یہ محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی سامنے سے آکر اس تحریک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔۔۔لہذا چال بدلی ۔۔۔۔اور آگئے اسلام کا علم لےکر ۔۔۔۔یہی سبب ہے کہ ہمیشہ سے اسلام کو بیرونی دشمن سے زیادہ داخلی دشمن نے نقصان پہنچایا۔۔۔۔اور ہمیشہ سے ہی اس دشمن کا ہم و غم نابودی اسلام رہا ہے ۔۔۔۔۔یہ چند افراد نہیں بلکہ ایک منظّم فکر ہے کہ جو مختلف خطّوں میں ، مختلف افراد و گروہوں کی صورت میں مسلسل اسلام پر ضربیں لگارہی ہے ۔۔۔۔اگرچہ اس فکر کی ابتداء اوائل اسلام سے ہی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ مگر بعض کے نزدیک اس فکر کا بیج خوارج [1]نے بویا ۔۔۔اور یہی وہ پہلا گروہ ہے کہ جس نے عالم اسلام کو ایک بہت بڑے فتنے سے دوچار کیا ۔۔۔۔ان کے نزدیک ہر وہ شخص کہ جو ان کے نظریات کو قبول کرے وہ مسلمان ۔۔۔۔باقی سب کافر ہیں چاہے وہ خلیفۃالرسول (ص) ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔مقام فکر تو یہ ہے کہ اس گروہ کے نظریات و اعمال خود بانی اسلام حضرت محمد (ص) کے نظریات کے بلکل برعکس تھے۔۔ رسول خدا(ص) نے دنیا کو امن و اشتی کا درس دیا جبکہ انہوں نے وحشت گری ، قتل و غارت و نفرت کا پیغام دنیا تک پہنچایا ۔۔۔اور بات صرف یہاں تک ہی نہ رہی ۔۔۔۔۔بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس فکرا ور گروہ کے افراد خود رسول گرامی (ص) کی توہین سے باز نہ آئے ۔۔۔جیسا کہ حاکم نیشاپوری کی روایت کے مطابق وہ پہلا شخص کہ جس نے تبّرک ، توسل و زیارت پیغمبر(ص) کو حرام قرار دیا اور قبر رسول خدا (ص) کو پتھر سے تعبیر کیا وہ مروان بن حکم اموی ہے [2]۔۔۔اسی طرح حجاج بن یوسف کا شمار بھی انھیں افراد میں ہوتا ہے۔۔۔ مبرد سے روایت ہے کہ حجاج کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے یوں کہتا ہے ۔۔۔" افسوس ہے ان لوگوں پر کہ جو بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کرتے ہیں ۔۔انہیں کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ یہ امیر کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ کیا نہیں جانتے کہ کسی بھی شخص کا خلیفہ اس کے سے افضل ہوتا ہے [3] "۔ جبکہ دوسری طرف علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت نے اس فکر کی بھرپور مذمت کی اور شدید الفاظ میں اس گروہ کی مذمت کی ۔۔۔۔جیسا کہ بزرگ عالم اہل سنت ذہبی (748 ھ) حجاج کے بارے یوں کہتے ہیں " وہ ظالم ، جبار ، ناصبی ، خبیث ، و سفّاک تھا ۔ ہم اس پر سب و شتم کرتے ہیں اور اس کو نہیں مانتے "[4]۔ اسی طرح مروان کو بھی کچھ انہیں الفاظ سے ہی یاد کیا ہے [5]۔یہی وہ فکر باطلہ تھی کہ جوچلتی چلتی مسلیمہ کذاب جیسے اشخاص سے ہوتی ہوئی ۔۔۔آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ و اس کے پیروکاروں تک پہنچی ۔۔۔یاد رہے کہ ابن تیمیہ وہی شخص ہے کہ جس نے اپنے قلم و عمل سے دنیا اسلام میں عظیم فتنوں کو جنم دیا ۔۔۔فکر مروان کی طرح اس نے بھی توسل و شفاعت سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ توسل و شفاعت طلب کرنیوالا کافر ہے[6] ۔۔۔ جبکہ ارشاد خداوندی ہوتاہے کہ " اے رسول (ص) وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اگر تیرے پاس آجائیں اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اے رسول (ص)تم بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرو (یعنی تمہیں وسیلہ قرار دیں ) تو بے شک وہ اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا اور رحیم پائیں گے "[7]۔ اسی طر ح امام اہل سنت محمد بن اسماعیل البخاری نے رسول خدا(ص) کےلیے شفاعت مطلقہ کا نظریہ اختیار کیا ہے [8]۔۔۔ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کا فتنہ اسقدر بڑھ گیا کہ ایک دفعہ پھر علماء کو ان کے فتنہ گر نظریات کے رد میں اپنے قلم کو حرکت میں لانا پڑا ۔۔۔اور ایک بار پھر علماء اہل سنت ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔۔۔ جیسا کہ بزرگ عالم دین تقی الدین سبکی کی ایک کتاب کا نام ہی " الدرۃ المضیۃ فی الرد علی ابن تیمیہ "ہے[9] ۔اسی طرح حصنی دمشقی ، ابن حجر ہیثمی ، ابن حجر عسقلانی ، ابن شاکر ، ملاقاری حنفی و شیخ محمود کوثری مصری کا شمار انہیں علماء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے قلم سے ان کے نظریات کو رد کیا ۔۔۔۔۔ علماء کا مسلسل مخالفت کرنا سبب بنا کہ یہ اس فکر باطلہ میں ٹھہراو تو آیا ۔۔۔۔مگر جڑ سے ختم نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔ ایک بار پھر انہیں نظریات نے سکوت توڑا اور قفس سے ایسے باہر آئے کہ دنیا کو تباہی کے کنارے پر لا کھٹرا کیا ۔۔۔۔اب کی بار تقریباً 12ویں صدی ہجری میں عبدالوہاب نامی شخص نے نہ صرف یہ کہ ان افکار کو دوربارہ زندہ کیا بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔۔۔ اس کے اصول قرآن کے اصولوں کے صریحاً مخالف تھے ۔۔۔
1۔ قرآن کہتا ہے کہ" جو شخص بھی شعائر خدا کا احترام کرے یہ اس کے دل کے تقوا کی علامت ہے"[10] ۔۔۔ جبکہ عبدالوہاب توہین شعائر اللہ سے خوش ہوتاہے ۔۔۔انبیاء و اولیاء کے مزارات کی توہین ۔۔۔ ان کو زمین بوس کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا ۔
2۔ اصول قرآن یہ ہے کہ " جس نے بلاوجہ ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی عطاکی "[11]۔ ۔۔۔۔۔جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ عبدالوہاب نے آل سعود کے زیر سایہ قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ جسے سوچ کر روح انسانی کانپ اٹھتی ہے ۔
3۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ " بے شک خود اللہ اور اسکے فرشتے رسول خدا(ص) پر درود پڑھتے ہیں۔۔ اے ایمان والوں تم بھی رسول خدا(ص) کی ذات گرامی پر دورد و سلام بھیجو "[12] ۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ عبدالوہاب انحرافات کی دلدل میں اسقدر دھنس گیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ اس نے قرآنی اصول کی مخالفت کی بلکہ اس بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یوں کہتاہے کہ "کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے میں ستار بجانے میں اسقدر گناہ نہیں ہے کہ جس قدر مسجد کے میناروں سے حضور (ص) پر درود پڑھنے کا ہے "[13] ۔نعوذباللہ
4۔ قرآن کہتا ہے کہ " اللہ تک پہنچنے کےلیے وسیلہ تلاش کرو "[14]۔۔۔۔۔۔۔جبکہ عبداوہاب نے نہ صرف یہ کہ توسل و سیلے سے انکار کیا بلکہ اس کو کفر قرار دیتے ہوئے یوں لکھتاہے " اور تم کو معلوم ہو چکا ہے کہ ان لوگوں (مسلمانوں ) کا توحید کو مان لینا ۔۔۔انہیں اسلام میں داخل نہیں کرتا ۔۔۔ان لوگوں کا انبیاءؑ و فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ کا قرب چاہنا ۔۔۔ہی وہ سبب ہے کہ جس نے ان کے قتل و اموال لوٹنے کو جائز کردیا ہے "[15]۔
5۔ قرآن میں متعدد مقامات پر خداوند نے اپنے محبوب (ص) کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے ۔ حتی یہاں تک کہا کہ اپنی آواز بھی رسول خدا(ص) کی آواز سے بلند نہ کرو [16]۔۔۔۔۔۔ جبکہ عبداوہاب کی نحوست اسقدر بڑھ چکی تھی کہ اس کے حلقہ احباب میں توہین رسالت عام بات تھی یہاں تک کہا جاتا کہ ۔۔۔" میری لاٹھی محمد (ص) سے بہتر ہے ۔۔۔کیونکہ یہ سانپ مارنے کے کام آتی ہے اور محمد(ص) فوت ہوچکے ہیں اب ان میں کوئی نفع نہیں ۔۔۔وہ تو محض ایک ایلچی تھے ۔۔۔۔جو دنیا سے جا چکے "[17]۔
یہ اسی کے فکر باطلہ کے نظریات کی چند مثالیں ہیں کہ جن کو عبدالوہاب نے آلسعود کے سائے میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ۔۔۔۔کیونکہ ان نظریات کا اسلام محمدیہ(ص) سے کو تعلق نہیں تھا اس لیے علماء نے ان کے خلاف بھرپور قلم اٹھایا ۔۔۔۔ان کے رد میں بڑی بڑی کتب تحریر کیں ۔۔۔ شیخ ابی حامد مرزوق نے اپنی کتاب میں تقریباً 42 ان علماء کی فہرست مہیاکی ہے کہ جنہوں نے ان افکار کے رد میں کتابیں لکھیں ۔۔۔۔کہ جن میں علماء اہل سنت کا کردار نمایا طور پر نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ علامہ ابن عابدین شامی متوفی (1251 ھ) نے کہا کہ " محمد بن عبدالوہاب کی مثال خوارج جیسی ہے کہ جنہوں نے حضرت علی ؑ کے خلاف خروج کیا ۔۔۔۔یہی چیز سبب بنی کہ عبداوہاب نے عوام اہل سنت و بالخصوص علماء اہل سنت کے قتل کا فتوا جاری کیا "[18]۔ ۔۔۔۔
عبدالوہاب و اس کے پیرکار وں نے مذہب اہل سنت کی اسقدر مخالفت و توہین کی کہ ۔۔۔۔محمد بن سعود علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ " آئمہ اربعہ (امام شافعی ؒ ۔۔امام مالکؒ ۔۔ امام احمد ؒ۔۔و امام ابو حنیفہؒ) کے اقوال غیر معتبر ہیں ۔۔۔۔اور جنہوں نے مذاہب اربعہ میں کتابیں لکھیں ہیں وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا "[19] ۔
المختصر عبدالوہاب تو نہ رہا مگر آج بھی اس کے حامیوں نے اس کے افکار کو زند ہ رکھا ہے ۔۔۔۔باتدریج یہی فکر ِخوارج کبھی مروان و حجاج و سلیمہ کذاب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔کبھی ابن تیمیہ و عبدالوہاب کی شکل میں ۔۔۔پھر چلتی چلتی کبھی طالبان ، لشکر جھنگوی و سپہ صحابہ کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔کبھی بوکو حرام ، النصرہ و داعش کی صورت میں ۔۔۔۔داعش اسی فکر خوارج کے تسلسل کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ سے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کیا ۔۔۔بزبان قرآن ۔۔۔اس فکر باطلہ کے حامل اس قدر جہالت و نادانی کا شکار ہیں کہ " جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین مین فساد نہ پھیلاو ۔۔۔۔تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔خبردار یہی لوگ مفسد ہیں (مگر فساد میں اس قدر بڑھ چکے ہیں ) کہ اپنے شعور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں "[20]۔ حضرت علی ؑ سے روایت ہے کہ "جب تم سیاہ پرچموں کو دیکھو (کہ وہ تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ) تو ہرگز ان کی مددکو نہ جاؤ ۔۔۔کیونکہ وہ باطل پر ہوں گے ۔۔۔وہ پرچم ایسی قوم کے پاس ہوگے کہ جن کے دل لوہے کی طرح سخت ہوں گے ۔۔۔۔وہ حکومت کے لالچی ہوں گے ۔۔۔۔جبکہ اپنے وعدوں کو ہرگز وفا نہ کریں گے ۔۔۔۔کنیت کو اپنا نام قرار دیں گے ۔۔۔۔ان کے نام شہروں کے ناموں پر ہوں گے ۔۔۔۔اور یہاں تک کہ ان کا آپس میں اختلاف ہوگا پھر خداوندمتعال حق کو ظاہر کرے گا "[21]۔
توہین شعائر کے عنوان سے مزارات انبیاء و اولیا ء کو اڑانا۔۔۔۔بے گناہ لوگوں کا خون بہانا ۔۔۔۔۔قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا ۔۔۔۔۔فتنہ و فساد کا برپا کرنا ۔۔۔۔یہ سب اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ فکر داعش فکر ۔۔۔۔فکر خوراج و ابن تیمیہ و عبدالوہاب سے ہٹ کر کوئی دوسری فکر نہیں ۔۔۔۔۔لہذا اس فکر کے حامل افراد کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت زندہ ہیں ۔۔۔۔اور تمہارے ان فتنہ گر نظریات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اور یاد رکھو کہ ملت پاکستان بیدار ہے ۔۔۔۔۔ملت کا ہر فرد ۔۔۔۔بچہ ، بوڑھا ، جوان ، مرد و عورت۔۔۔۔ سب بیدار ہیں ۔۔۔۔یہ سر زمین پاکستان ہے ۔۔۔۔اور اس پر افواج پاکستان کا سایہ ہے ۔۔۔۔وہ فوج کہ جس کی ہیبت سے دنیا کانپتی ہے ۔۔۔۔۔آج دنیا تمہارے اصلی و ناپاک چہرے سے واقف ہے ۔۔۔۔۔مزارات اولیاء ۔۔۔۔۔ ہمارے بچے سکول جاتے ہیں اور ہمارے کھیل کے میدان آج بھی کھلے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم یہاں ہیں تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔۔ ؟؟
تحریر۔۔۔ ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (گلگت) محکمہ خوراک کے ملازمین کے مطالبات حقیقت پر مبنی ہیں انہیں دیگر صوبوں کے ملازمین کے برابر سکیل دیا جائے۔جتنے بھی ملازمین کنٹریکٹ پر ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں انہیں مستقل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات علام عباس نے اپنے ایک بیان میں حکومت پر زور دیا ہے کہ محکمہ خوراک کے ملازمین کے مطالبات فوری طور پر منظور کئے جائیں تاکہ علاقے میں مصنوعی گندم کی قلت کو دور کیا جاسکے۔ملازمین کے جائز مطالبات اور مسا ئل کو ترجیحی بنیادپر حل کیا جائے تو ملازمین محنت اور لگن سے کام کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے طور سے ملازمین کے جائز مسائل حل نہیں کرتی جب تک کہ وہ ہڑتال پر نہ جائیں اور حکومت کی اس روش کی وجہ سے آئے روز کہیں نہ کہیں ہڑتال ہوجاتی ہے جس سے عام آدمی متاثر ہوجاتا ہے ۔محکمہ خوراک کے ملازمین کو بھی ملک کے دیگر صوبوں کے ملازمین کے برابر مراعات لینے کا حق حاصل ہے جس طرح دیگر محکموں کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے اسی طرح محکمہ خوراک کے عارضی پوسٹوں پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی گندم کی مصنوعی قلت پیدا کرکے محکمے کے اعلیٰ آفیسروں نے زائد گندم کو بلیک مارکیٹ کرکے مال کمایا ہے۔ملازمین کی یہ ہڑتال اعلیٰ آفیسروں کی دانستہ بدنیتی ہے جنہوں نے ملازمین کے مسائل بروقت حل نہ کئے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیںایساتو نہیں کہ ہڑتال کو جواز بناکر گندم بچت کی جائے اور بعد میں بلیک مارکیٹ کیا جائے۔انہوں نے چیف سیکرٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کو گندم کی بروقت ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنماء شیخ نیئر عباس مصطفوی نے پاک فوج کی جانب سے آپریشن ردالفساد کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ پاک فوج اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جاتے تو اتنے بڑے سانحات دیکھنے نہیں پڑتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں نے نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اپنی حریف جماعتوں کے خلاف دہشت گردی کے کیسز کھولے گئے۔ دہشت گردی کی ترویج و تبلیغ کرنے والوں کو نہ صرف بے لگام چھوڑا گیا بلکہ درپردہ ان کی سرپرستی بھی کی گئی۔ جس سے ملک کے حالات آج اس نہج تک پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کو مکمل اختیارات دیئے جائیں اور ایک ساتھ پورے ملک میں آپریشن شروع کیا جائے تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ محض دہشت گردی میں ملوث کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنیوالوں اور ان کے سہولت کاروں کو تہ تیغ کرنے سے ہی مطلوبہ مقاصد حاصل ہونگے۔ لہٰذا آپریشن" رد الفساد" کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے کہ تکفیری سوچ کا خاتمہ کیا جائے۔ پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے کے عزم میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
وحدت نیوز(خیرپور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے عظمت سیدہ فاطمۃ الزہراء (س) کانفرنس کے سلسلے میں ضلع خیرپور کا دورہ کیا، اس موقع پر ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ احمد علی طاہری، صوبائی مسئولین علامہ محمد نقی حیدری، منور جعفری و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ کوٹ بنگلو، صوبھو دیرو، کنب کے یونٹس میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ قرآن کریم نے ہمیں صبر و استقامت کا درس دیا ہے، صبر استقامت اور نصرت الٰہی پر ایمان، اہل حق کی کامیابی کا سبب ہے۔ ہم فکر قائد شہید علامہ سید عارف الحسینی پر چلتے ہوئے قوم میں بیداری اور بصیرت کے ذریعے دشمن کی سازشوں کا مقابلا کریں گے۔ قائد شہید علامہ عارف الحسینی، حضرت امام خمینی کی فکر کے مبلغ تھے دشمن ان کے الٰہی و انقلابی افکار سے خائف تھا، دشمن کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ پاکستان کے کروڑوں شیعہ متحد ہوکر انقلابی جدوجہد کے ذریعے سامراج اور ان کے ایجنٹوں کو رسوا کریں۔ ہم اپنے عظیم قائد کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں قوم شیعہ کی مظلومیت کو طاقت میں تبدیل کریں گے، پاکستان کے پانچ کروڑ شیعہ وطن عزیز کی سربلندی اور دفاع کے ساتھ ساتھ اسلام کی بقاء اور سامراجی کی نابودی میں کلیدی کردار ادا کریں گے، ہم قائد شہید کے ارمانوں کی تکمیل کریں گے۔ 26 فروری کو خیرپور میں عظمت سیدہ فاطمۃ الزہراء (س) کانفرنس کے عنوان سے عظیم الشان اجتماع ہوگا۔