وحدت نیوز(کراچی) ہیت آئمہ مساجد وعلما امامیہ کی جانب سے نظریہ پاکستان و امام مہدیؑ سمینار کا انعقاد ہوا جس میں علما کی کثیر تعداد نے شرکت کی،سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ نظریہ پاکستان ارض پاک کی اساس اورظہور امام مہدی ؑ پر یقین ایمان کا حصہ ہے۔وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں اورایمان پر کسی وار کو برداشت کیا نہیں کیاجائے گا۔سمینار کے اختتام پر ہیت آئمہ مساجد و علما امامیہ اور مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری،علامہ شیخ حسن صلاح الدین،علامہ عباس کمیلی،علامہ مرزا یوسف حسین،علامہ نثار قلندری،علامہ احمد اقبال،علامہ نعیم الحسن،علامہ علی کرار نقوی،علامہ باقر زیدی اورعلامہ مختار امامی سمیت علما ء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔

علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ دہشت گردوں نے ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے وطن کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔سکولوں کے معصوم بچے بھی ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہ سکے۔وطن عزیز کی سلامتی کے دشمنوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت دہشت گردوں کے حوصلوں کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ان عناصر کو میڈیا میں لا کر بے گناہ قرار دینے کی کوشش شہدا کے خون سے غداری ہے۔ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔انہوں نے کہا ڈان لیکس کے معاملے میں قوم کو مطمئن نہیں کیا جا سکا۔ملکی و قومی مفادات کے خلاف سرگرم عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا ہی عدل کا تقاضہ ہے۔دہشت گردوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا لیکن حکمرانوں کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی ایسا واضح لائحہ عمل موجود نہیں جس سے بلاتحصیص تمام دہشت گردوں کا ملک سے صفایا کیا جا سکے۔

 انہوں نے کہا کہ شیعہ نوجوانوں کو سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔گھروں سے اٹھائے جانے والے ہمارے نوجوانوں کی کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی اطلاع نہیں۔بغیر کسی مقدمے کے اسی طرح شہریوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اٹھایا جانا بنیادی انسانی حقوق کی صریحاََ خلاف ورزی اور ناقابل برداشت عمل ہے۔ہمارے لاپتہ افراد کو فوراََ بازیاب کرایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ شہر کی بدترین حالت دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمرانوں کے شہریوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ان کی تمام تر توجہ اپنے اقتدار کو سلامت رکھنے پر مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ 41ملکی اتحادامریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا۔اس اتحاد میں جنرل(ر)راحیل شریف کی شمولیت نواز شریف اور عرب بادشاہوں کے اصرار کا نتیجہ ہے۔پاک فوج پوری قوم کے لیے وقار کی علامت ہے۔عسکری قوتوں کو فیصلے کرتے وقت وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ان کی عظمت میں مزید اضافہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ 21مئی کو نشتر پارک میں استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس ایک تاریخی اجتماع ثابت ہو گی۔نشتر پارک میں قومی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔بزرگ عالم دین حسن صلاح الدین نے کہا کہ پاکستانی عوام کو مشرق وسطی کی جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔عالمی قوتیں مسلک کے نام پر امت مسلمہ کو دست و گریبان دیکھنے کی متمنی ہیں۔اسلام دشمنوں کوصرف وحدت و اخوت کے ہتھیار ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔امام مہدی ؑ کی شخصیت پر عالم اسلام کا کامل ایمان ہے۔ان کی ذات کو متنازعہ بنانے والے احادیث نبوی سے انکاری اور توہین رسالت کے مرتکب ہیں۔سعودی وزیر دفاع کی امام مہدی علیہ السلام کی ذات مقدسہ کے حوالے سے ہرزہ سرائی قابل مذمت ہے۔

سینٹر عباس کمیلی نے کہا کہ 41ملکی اتحاد فرقہ وارنہ اتحاد ہے۔جب تک امت مسلمہ کے تمام ممالک اس میں شریک نہیں ہوتے تب تک اس اتحاد کو اسلامی اتحاد نہیں کہا جا سکتا۔جنرل راحیل شریف سے قوم کو بہت ساری توقعات وابستہ تھیں۔اسلامی مفادات کے تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف قائم اس اتحاد میں بیت المقدس اور مظلوم فلسطینوں کے حق میں آواز کیوں بلند نہیں کی جا رہی۔پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد مثالی ہے۔انہیں کبھی جدا جدا نہیں کیا جا سکتا۔شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین نے کہا کہ 41ملکی اتحاد اسلام کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ امریکی خوشنودی کے لیے ہیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:ہر زمانے میں امام معصوم کی امامت پر عقلی دلیل موجود ہے۔ اس دلیل کے مطابق حجت الہیٰ  کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے جس کا مصداق تام امام معصوم ہیں۔قاعدہ لطف{کلامی وعقلی قاعدہ} کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ امام معصوم کی غیبت ایک امر عارضی ہے جو اصل اولی{ضرورت وجودامام معصوم} کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ محقق طوسی اس بارے میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف،وتصرفہ لطف آخروعدمہ منا}1۔ امام کا وجودبھی لطف{اطاعت و مصالح سےنزدیک اور معاصی و مفاسد سے دور کرنےوالا }ہے اور امام کا تصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہرنہ ہونا ہماری وجہ سےہے ۔

حضرت علی علیہ السلام کے فرامین کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی جیساکہ آپ ؑفرماتے ہیں :{اللہم بلی! لا تخلوا الارض من قائم الله بحجتہ،اما ظاہرا مشہورا و اما خائفا مغمورا،لئلاتبطل حجج الله و بیناتہ}2۔  خدایا !بے شک زمین حجت الہیٰ اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہے وہ ظاہر و آشکار ہو یا خائف و مخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔

بعض احادیث جیسے حدیث ثقلین اور حدیث ائمہ اثنا عشر قیامت تک  امام معصوم کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں ۔
تاریخی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ{عج}کی ولادت معین زمانے میں مخصوص مقام  پر ہوئی ہےکیونکہ افراد کی ولادت اور موت کے بارے میں جاننے کا متعارف طریقہ یہی تاریخی شواہد ہیں جن پر استناد کیا جاتا ہے۔

ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے اما م حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے  زمانےمیں آپ ؑکے گھر  میں امام زمان{عج}سے ملاقات کئے اور وہ افراد جنہوں نےغیبت صغری کے زمانے میں آپ{عج}سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جن میں نواب اربعہ سر فہرست ہیں ۔نواب اربعہ شیعوں کے برجستہ ترین شخصیات میں سے تھے جواپنے زمانے میں پرہیزگاری  کے لحاظ سے بے نظیر تھے۔

ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے غیبت کبری کےعرصے میں آپ{عج}سےملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ یہ گزارشات  اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے جعلی ہونے کا احتمال منتفی ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی صحت کے بارے میں انسان کو  یقین ہو جاتا ہے۔

انبیاء کی تاریخ میں مسئلہ غیبت ایک واضح مسئلہ تھا۔بعض اولیاء کا محدود مدت کے لئے لوگوں کے درمیان سے غائب ہونا گذشتہ امتوں میں بھی معمول رہا ہے چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام ،حضرت موسی علیہ السلام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگانی میں اس کے نمونے دیکھ سکتے ہیں : حضرت یونس علیہ السلام ایک مدت تک اپنی امت سے غائب رہے ۔

3۔ حضرت موسی علیہ السلام چالیس دن تک اپنی امت سےغائب رہےاور انہوں نے یہ ایام میقات میں بسر کئے ۔4۔  اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی  مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت چند مدت تک اپنی امت کےپاس نہیں رہے  ۔  5۔ ان میں سے کسی  بھی مورد میں ان افراد کی نبوت اور رسالت پر اعتراض نہیں کیا گیا ہے ۔واضح ہے کہ اگر غیبت مقام نبوت اورمقام امامت  کے ساتھ منافات رکھتی تو زمان کےمختصر اور طولانی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بنابریں امام زمانہ{عج} کی غیبت کے  طولانی  ہونےکو آپ {عج} کی امامت کے ساتھ ناسازگا ر نہیں سمجھنا چاہیے ۔

امام زمانہ{عج} کی غیبت کے اسباب کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں کچھ مطالب بیان ہوئے ہیں ذیل میں ہم  ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

1۔راز الہی:
بعض روایات میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کا فلسفہ آپ {عج} کے ظہور سے پہلے پوری طرح واضح نہیں ہوگا جبکہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آپ {عج} کے وجود کے بارے میں موجود دلائل سے آشنا ہونے کےبعد اسے تسلیم کرے اور آپ {عج} کی غیبت کے اسرار کومکمل طورپردرک نہ کرنے کی وجہ سے شک و تردید کا شکار نہ ہو ۔ شیخ صدوق عبد اللہ بن فضل  ہاشمی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےسنا :صاحب الامرکے لئے یقینا ایک غیبت ہوگی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک و شبہ میں مبتلا ہو جائے گا۔میں نے عرض کی :میری جان آپ پر قربان !ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا:وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی تھی ۔ یقینا غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب ان کا ظہور ہو جائےگا بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضرعلیہ السلام کے امور یعنی کشتی میں سوراخ کرنے ،لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنانے کا راز حضرت موسیعلیہ السلام کو  اس وقت معلوم ہو ا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے ۔ اے فرزندِ فضل یہ غیبت خداکے امور میں سے ایک امر ہے ،اسرار الہیٰ  میں سے ایک سر ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خداوند  عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اس کا ہرقول وفعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اس کا راز ہم پرپوشیدہ ہی کیوں نہ ہو۔6۔

2۔قتل کا خوف:
بہت ساری احادیث  کے مطابق امام زمانہ{عج}کی غیبت کا ایک سبب قتل ہونے کا خوف ہے ۔ 7۔ جیساکہ جناب زرارہ امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نے فرمایا:قائم آل محمد کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے ۔میں نے عرض کیا کس لئے؟ فرمایا:{یخاف القتل} 8۔اس لئےکہ ان کی جان کے لئےخطرہ ہے ۔ قتل سے ڈرنے کا دو ہی سبب ہو سکتاہے  ۔ ایک یہ کہ انسان دنیوی لذتوں سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتا ہے دوسرایہ کہ اس کےاوپر سنگین ذمہ داریاں عائد ہیں جن کو انجام دینے کے لئے اسے اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ان میں سے پہلی قسم مذموم جبکہ دوسری قسم ممدوح ہے بلکہ بعض اوقات  واجب بھی ہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کی خاطر غارحرا میں پناہ لیا ۔امام زمان عج کے بارے میں بھی قتل ہونے کا خوف اسی طرح  ہے۔ عقلی و نقلی دلائل کےمطابق آپ {عج} زمین پر آخری حجت الہیٰ  ہیں ۔ آپ{عج} پرچم توحید کو پوری دنیا میں لہرانے اور دین اسلام کو پوری دنیا پر حاکم کرنے پر مامور ہیں۔علاوہ ازیں ظالم و جابر حکمران اپنے ناجائز منافع کی حصول کے راستے میں آپ{عج}کے وجود کو مانع سمجھتے ہیں ۔طبیعی بات ہے کہ یہ افراد آپ {عج} کو قتل کرنےکے لئے ہر طرح  کا منصوبہ اور حربہ استعمال کریں گے۔   اس صورتحال میں آپ{عج} کی حفاظت کا بہترین طریقہ آپ{عج}کی غیبت ہے ۔

 یہاں ممکن ہےکوئی اس طرح  اعتراض کرے کہ خداوند متعال معجزے  کےذریعے آپ {عج} کی حفاظت کرسکتاہے مثلا اس طر ح کہ کسی اسلحہ یا زہر کا اثر آپ {عج} کے بدن پر نہ ہو۔جس کے نتیجے میں آپ {عج}  ظاہر بھی  ہوتے اور لوگ آپ {عج} کے وجود سےزیادہ استفادہ کرتے کیونکہ اس صورت میں آپ {عج}کے وجود کو کسی قسم کا بھی خطرہ نہیں تھا ۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی فرد کی جان کی حفاظت  کےلئےمعجزے سے استفادہ کرنا ایک استثنائی بات ہے جس سے صرف خاص موارد میں استفادہ کیا جاتاہے جبکہ اولیاءاور حجت الہیٰ  کےبارے میں مشیت الہیٰ  یہ ہے کہ یہ افراد لوگوں کے درمیان طبیعی زندگی گزاریں اور طبیعت پرمبنی قوانین ان کے درمیان یکساں جاری ہو ، تاکہ قانون امتحان و آزمائش الہیٰ  محقق ہو ۔واضح ہےکہ اگر امام خاص شرائط کے ساتھ زندگی گزاریں تو سب لوگ اجباری اور غیرعادی طریقے سےان پر ایمان لائیں گے ۔ علاوہ ازیں ممکن ہے انہیں مافوق بشر قرار دیتےہوئے ان کی پرستش شروع کردیں۔ یہ سب معجزہ کے ذریعے امام کی حفاظت کرنے اور آپ {عج}کے لوگوں کے درمیان رہنے کے  نامطلوب نتائج میں سے ہیں ۔

شیخ طوسی اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں :اگر کوئی اعتراض کرے کہ خدا نے امام اور اس کے قاتل کے درمیان مانع ایجاد کر کے آپ {عج} کی حفاظت کیوں نہیں کی ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام انسانوں کو مکلف کرنے کے فلسفے کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ انسانوں کو مکلف کرنے کا مقصد ان کوجزا وسزا کامستحق بنانا ہے جبکہ ایسی صورت میں مانع ایجاد کرنا  اس مقصد کے ساتھ منافات رکھتاہے ۔ 9۔
امام زمانہ{عج}اور ان کے آباء و اجداد کے درمیان کیا  فرق ہے کہ وہ غیبت میں نہیں رہیں بلکہ لوگوں کے پاس ظاہر تھے جبکہ آپ {عج} غائب ہیں اور آپ تک لوگوں کی رسائی بھی نہیں ؟
اس کاپہلا جواب یہ ہے :آپ {عج}کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ{عج}اگر ظاہر ہوں تو ظالم و جابر افراد کے مقابلے میں تقیہ نہیں کریں  گے جبکہ اس صورت میں آپ{عج}کے قتل کا خطرہ زیادہ ہے ۔دوسراجواب یہ ہے کہ ہر امام کی شہادت کے بعددوسرے امام نے اس عظیم ذمہ داری کو قبول فرمائی اور انسانوں کی رہبری کی لیکن آپ {عج} آخری امام ہیں اور اگر شہید ہو گئے تو کوئی ایسا فرد نہیں ہےجو اس عظیم ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ 10۔

3۔ مومنین کا امتحان:
خداوند متعال کی ایک سنت جو ہمیشہ سے مومنین کے بارے میں جاری رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا جاتا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے :{ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُترْکُواْ أَن يَقُولُواْ ءَامَنَّا وَہُم ْ لَا يُفْتَنُونَ.وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ  فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَ لَيَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِين}11۔ کیالوگوں نےیہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنےسےچھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق  ہم نے ان سے پہلے والوں کوبھی آزما چکےہیں کیونکہ اللہ کوبہر حال یہ واضح کرناہے کہ کون  سچے ہیں اور یہ بھی ضرورواضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔

امام زمان {عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب مومنین کا امتحان اور ان کی آزمائش ہے جو متعدد احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔

 12۔ کتاب منتخب الاثر میں اس بارے میں چوبیس احادیث نقل ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ امام جعفر صادق  علیہ السلام کے اصحاب امام زمانہ{عج} کے ظہور اور حکومت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔امام صادقعلیہ السلامنے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: یہ امر{ظہور}تمہارےسامنے نہیں آئے گا  مگر ناامیدی کے بعد ۔ خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک تم{مومن اور منافق}ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اہل شقاوت و اہل سعادت  ایک دوسرے سےجدا نہ ہو جائیں ۔

 13۔شیخ طوسی  اس بارے میں لکھتے ہیں:جن روایات میں امام زمانہ{عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب شیعوں کا امتحان اور ان کی آزمائش قرار دی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ مسئلہ امام کی غیبت پر مترتب ہونےوالےنتائج میں سے ایک ہے اور ایسا نہیں ہے کہ امتحان و آزمائش امام {عج} کی غیبت کا اصلی مقصد ہے بلکہ امام {عج}کی غیبت کا اصلی سبب آپ{عج} کے قتل ہونے کا خوف ہے جبکہ آزمائش و امتحان غیبت کے نتائج اوراہداف میں سے ہیں۔

 14۔ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دو احتمال قابل بحث ہیں ۔پہلا احتمال یہ کہ حقیقت میں آپ {عج} کا وجود لوگوں سے پنہاں ہے۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ {عج} ایسے جگے پر زندگی کر رہے ہیں جہاں دوسراکوئی انسان موجود نہیں ہے یا یہ کہ آپ {عج} لوگوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن معجزانہ طور پر لوگ آپ {عج} کو نہیں دیکھتے یا آپ کو نہیں پہچانتے ۔آپ {عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں نقل شدہ احادیث دونوں احتمال کے ساتھ سازگار ہیں ۔ جیساکہ شیخ صدوق ریان بن صلت سےنقل کرتے ہیں کہ امام رضاعلیہ السلام نے امام زمانہ{عج} کے بارے میں فرمایا :{لایری جسمہ ولا یسمی باسمہ}15۔نہ ان کے جسم کو دیکھا جا سکتاہے اور نہ ان کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ عبید بن زرارۃ سے ایک  حدیث منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ ؑفرمارہے تھے:لوگ اپنے امام کو نہیں پائیں گے جبکہ وہ حج کے موسم میں حاضر ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں دیکھتے ۔16۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سےایک اور حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ ؑفرماتے ہیں :ساتویں امام کے پانچویں فرزند کا وجود تم لوگوں سے پنہان ہو گا اور ان کانام لینا تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔17۔   اس احتمال پر عقیدہ رکھنےوالوں کا نظریہ یہ ہے کہ جہاں  پر مصلحت موجود ہو وہاں امام {عج} کے وجود کو پہچانا جائے گا۔بنابریں  جن افراد نے آپ {عج} کے حضور میں شرفیاب ہونے کا  دعوی کیا ہے وہ بھی اس احتمال  کے ساتھ سازگار ہےجبکہ دوسرے احتمال کےساتھ مربوط بعض روایات کچھ اس    طرح  ہیں :

1۔ شیخ طوسی  محمد بن عثمان عمری { امام زمان{عج}کےدوسرے نائب خاص }سے نقل کرتے ہیں :{و الله ان صاحب هذا الامر لیحضر الموسم کل سنۃ و یعرفہم و یرونہ و لا یعرفونہ} 18۔ خدا کی قسم! امام زمانہ{عج} ہر سال حج کے موسم میں حاضر ہو کر لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں اور دوسرے افراد بھی آپ {عج} کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں ۔

2۔محمد بن عثمان عمری سے نقل ہے کہ آپ{عج} کا نام لینا اس لئے جائز نہیں کیونکہ اگر آپ{عج} کا نام لیا جائے تو دشمن آسانی سے آپ
{عج} کو پہچان لیں گے ۔19۔  واضح ہے کہ اگر آپ {عج}لوگوں کی نظروں سے سے غائب ہوں توپھر آپ {عج}کا نام لینا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اس  کے ذریعے دشمن  آپ {عج} کو  نہیں پہچان سکتے ۔

3۔ابوسہل نوبختی سے جب سوال کیاگیا کہ آپ  امام زمانہ{عج}کےنائب کیوںمنتخب نہیں ہوئے جبکہ ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی کو اس منصب کےلئے انتخاب کیاگیا ہے ؟ تو انہوں نےجواب دیا :امام اپنے کاموں کی حکمت سےزیادہ واقف ہیں ۔ میں ہمیشہ دشمنوں سےملاقات کرتاہوں اور ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرتا ہوں اوراگر بحث کے دوران کبھی مجھے مشکل کا سامناکرنا پڑے تو ممکن ہے کہ  میں امام {عج} کے قیام کرنے کی جگہ دشمنوں کو دکھا دوں لیکن ابوالقاسم نوبختی ایمان اور استقامت کا پیکر ہے اگر امام زمانہ{عج} اس کے پاس موجود ہو اور اس کے بدن کے ٹکڑےٹکڑے کر دئیے جائیں تب بھی وہ امام {عج}کی مخفی گاہ کودشمنوں کو نہیں دکھائیں گے۔ 20۔ واضح ہے کہ امام کی مخفی گاہ دشمنوں کو دکھانا اس وقت خطرناک ہوگا جب لوگ آپ {عج}کے وجود مبارک کو دیکھ سکیں ۔

خلاصہ یہ کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دونوں احتمالات قابل قبول ہیں اور یہ احتمالات ایک دوسرے کے ساتھ منافات بھی نہیں رکھتے اوریہ مطلب کہ لوگ آپ {عج}کو دیکھیں گے لیکن نہیں پہچانیں گےیا یہ کہ اصلاًکوئی آپ {عج}کو نہیں دیکھ سکتا،یہ تمام مطالب شرائط ،مصالح اور افراد کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس بارے میں ایک عام قانون بیان نہیں کر سکتےکیونکہ امام زمانہ{عج } مصلحت  کے مطابق ہی عمل کریں گے ۔


تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

تعلیم و تربیت

وحدت نیوز(آرٹیکل) قلم دیکھو مسلسل رو رہا ہے             
تماشا کاغذوں پر ہو رہا ہے

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا،ایک اچھا پڑھا لکھا انسان ہی عشق اور جنون سے انقلاب لا سکتا ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے عہد اقتدار میں تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی کے کلچرنے فروغ پایا.تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل نہیں ہے.افسوس کے آج ہم تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں ہم سب کی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے بچوں کو تعلیم و تربیت دینا،اور تعلیم کی کمی،تربیت کا فقدان ،بے روزگاری نے نوجوان نسل کو کرائم،اور جرائم کی طرف راغب کیا ہی تعلیم خود کو شناخت کرنے نکھارنے، ایک امن اور قانون پسند خوشحال معاشرہ کی تشکیل میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔جب تک حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح نہ بنایا پاکستان انتہا پسندی اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ہمارے حکمران پڑھے لکھے ہوتے تو آج پاکستان میں تعلیم کا اچھا میعار ہوتا.کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو ہر جلسے میں سڑکوں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ کیا اس ملک میں صحت اور تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اورجب تعلیم یا علم کے نام پر دھندا کرو گے تو گندی ذہنیت کی نسل تیار ہوگی

"ہم تعلیم خرید سکتے ہیں مگر عقل خدا کا عطا کردہ تحفہ ہے۔"

تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مستونگ میں سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین عبد الغفور حیدری کے قافلے کے قریب دھماکے کے نتیجے میں پچیس سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ دارن کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مستونگ کا علاقہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔اس علاقہ میں زائرین اور سیکورٹی اہلکاروں کو متعدد بار نشانہ بنایا جا چکا ہے۔دہشت گردی کی یہ کاروائی حکومت کے لیے دہشت گردوں کا کھلا چیلنج ہے۔مذموم عناصر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی عسکری آپریشن کو خاطر میں نہیں لاتے اوراپنی مرضی سے کسی بھی وقت کوئی بھی کاروائی کر سکتے ہیں۔کالعدم جماعتوں اور انتہا پسندوں کے خلاف اس علاقے میں فوری طور پر کومبنگ آپریشن کیا جائے تاکہ ملک دشمن عناصر کی کمین گاہوں کا تدارک ہو سکے۔انہوں نے کہا اچھے اور بُرے کے نام پر دہشت گردوں کے ساتھ لچک کا مظاہرہ اس ملک میں بے گناہ شہید ہونے والوں کے خون سے غداری ہے۔دہشت گرد چاہے وہ جس روپ میں ہو شدید ترین کاروائی کا حقدار ہے۔ملکی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کسی رعایت کے قطعاََ مستحق نہیں۔انہوں نے کہا وطن عزیز کی سالمیت و بقا کو سب سے زیادہ خطرہ ان انتہا پسند گروہوں سے ہیں جو اپنے علاوہ سب کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ان عناصر کی بیخ کنی سے ہی ملک میں انتشار اور عدم تحفظ کا خاتمہ ممکن ہے۔حکومت اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملک و قوم کی سلامتی کو داؤ پر نہ لگائے۔جب احسان اللہ احسان اور نورین لغاری جیسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جانا ہی المناک سانحات کا باعث ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد کا مطلب دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہچانا ہے۔محض کرایہ داری ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب قرار دینا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ عبد الغفور حیدری کے قافلے پر حملے کرنے والوں کو بے نقاب کرکے عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔

وحدت نیوز(نواب شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی راہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت صوبہ سندھ برادر یعقوب حسینی، سیکرٹری جنرل ضلع نواب شاہ مولانا سجاد حسین محسن اور سیکرٹری تنظیم سازی برادر غلام نبی شاہ کا دورہ گاؤں ساٹھ میل اور ولادت باسعادت صاحب العصر والزمان امام مہدی عج کے سلسلے میں منعقدہ جشن کے اجتماع سے خطاب، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے حکومتی عہدیدار کی امام مہدی آخرالزمان عج کے ظہور کے متعلق کی گئی گستاخی سے ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا خون کھول گیا ہے اور اس ملعون کو جواب دینے کیلئے 21 مارچ کو نشتر پارک کراچی میں ایک عظیم الشان جانثاران حضرت حجتِ قائم امام مہدی علیہ السلام کا اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے لہٰذا آپ تمام یارانِ مہدی عج سے اس عظیم الشان جلسہ میں شرکت کی استدعا کرتا ہوں مومنین نے بھرپور جوش اور ولولے کا اظہار کرتے ہوئے لبیک یا مہدی عج کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اپنی بیداری کا ثبوت دیا اور کثیر تعداد میں شرکت کرنے کی یقین دہانی کروائی جبکہ علامہ اعجاز حسین بہشتی نے گاؤں ساٹھ میل کے مومنین کے جذبات کو سراہتے ہوئے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ سلام ہو اُن ماؤں پر جنہوں نے آپکو شیر میں یا علی مدد ملا کر پلایا ہے یہ جوش و جذبہ آپکی ماؤں کی بدولت ہی ہے ۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے بارگاہ فاطمہ انچولی سوسائٹی میں استحکام پاکستان و امام مہدی کانفرنس کے عوامی رابطہ مہم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔مختلف مذہبی،سماجی، سیاسی اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا 21مئی کو نشتر پارک کراچی میں عظیم الشان اجتماع ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔مصلحت پسندی اور سیاسی ضرورتوں نے ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملکی مفادات اورامن و سلامتی کے خلاف متحرک کالعدم قوتوں کو آزادی حاصل ہے۔کالعدم جماعتیں ملکی سالمیت و استحکام کے خلاف سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ملک کی تمام سیاسی قوتوں کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں کی مخالف ہیں لیکن ان کے خلاف کاروائی نہیں کی جا رہی۔ نیشنل ایکشن پلان کو محض بیانات تک محدود کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کا اعلان کرنے والوں کا اسلام کے کوئی تعلق نہیں۔یہ قرآن و احادیث کے منکر ہیں۔سعودی لابی ملک کو مسلکی انتشار کا شکار کر کے امن و امان کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔یہودی ونصاری کے ایجنڈے پر کام کرنے والوں کے خلاف استحکام پاکستان کانفرنس ایک واضح پیغام ثابت ہو گی۔ جو قوتیں اپنی مفادات کے لیے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں۔انہوں نے کہا ہر محب وطن پاکستان برادر مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ہمیں خطے میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت موثر اور جاندار خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے تاکہ سرحدی ممالک سے تعلقات باوقار سطح پر مضبوط بنائیں جا سکیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree