وحدت نیوز(اسلام آباد/سکردو) گلگت بلتستان میں ٹیکسز کیخلاف جاری احتجاج رنگ لایا، وفاقی حکومت نے ٹیکس ایکٹ2012 کوختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے،تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان والوں کیلئے نئے سال کے پہلے روز بڑی خوشخبری، ٹیکسز معاملے پر وفاقی کمیٹی کے سربراہ ملک ابرار نے بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ٹیکس ایکٹ2012 کوختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے،ٹیکسز کے معاملے پر ملک ابرار کی اےآر وائی نیوزسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان ٹیکس ایکٹ2012 کی جگہ نیاٹیکس ایکٹ لایاجائیگا، نئےٹیکس ایکٹ کی منظوری گلگت بلتستان کونسل سے لی جائیگی، اسٹیک ہولڈرزسے 3رکنی نکات پرمذاکرات ہوئے۔
ٹیکس ایکٹ2012 سےعام آدمی کی زندگی متاثر ہورہی ہے، وزیراعظم نےمسئلےکاجلدازجلدحل نکالنےکی ہدایت کی تھی، کمیٹی اجلاس میں ٹیکس ایکٹ کے خاتمے پراتفاق کیا گیا ہے،خصوصی کمیٹی کی ابتدائی سفارشات وزیراعظم کوبھجوا دی ہیں، کمیٹی کی حتمی سفارشات چندروزمیں مرتب ہو جائیں گی، نئےایکٹ کےتحت 5لاکھ سےکم آمدن والوں پرٹیکس لاگونہیں ہوگا، گلگت بلتستان کی بڑی کمپنیوں اورہوٹلز پرٹیکس لگایاجائےگا۔
واضح رہے کہ وفاق کی جانب سے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف 21 دسمبر کو گلگت بلتستان کے 10 اضلاع میں انجمن تاجران، ٹرانسپورٹر اور شہریوں کے احتجاجی دھرنا جاری تھا،مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت نہ ملنے تک تمام اقسام کے ٹیکسز کالعدم قرار دیئے جائیں،گلگت بلتستان حکومت اور مظاہرین کے مابین متعدد مذاکرات ہوئے لیکن کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں تھیں۔
دوسری جانب گلگت بلتستان میں غیر آئینی ٹیکس کے نفاذکے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی اور مرکزی انجمن تاجران کے زیراہتمام یادگار شہداءپر گذشتہ تیرا روز سےجاری علامتی دھرنے میں ہزاروں شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ عوامی استقامت کے آگے ظالم وجابر حکمران گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوگئے ہیں، ٹیکس ایکٹ2012کے خاتمے کا وفاقی حکومت کا اعلان مظلوم ومحروم عوام کی جہد مسلسل کانتیجہ اور عظیم فتح ہے ، ہم اپنے قول کے مطابق اس وقت تک یہ احتجاجی دھرناجاری رکھیں گے جب تک وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں نافذ غیر آئینی ٹیکس کے خاتمے کا باقائدہ نوٹیفکیشن جاری ہیں کردیتی ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ترجمان سوشل میڈیا ویب سائٹ www.mwmpak.orgکو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA )کی جانب سے بلاجواز طور پر بلاک کردیا گیاہے،انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں کو ایم ڈبلیوایم کی آفیشل ویب سائٹ بند کرنے ہدایت جاری کردی گئی ہیں، پی ٹی اے حکام ویب سائٹ بلاک کرنے کے احکامات جاری سے انکاری ، تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی آفیشل ویب سائٹ www.mwmpak.orgکے جہاں سے جماعت کی قیادت کی پالیسی بیانات اور خبریں جاری کی جاتی ہیں گذشتہ تین ہفتوں سے صارفین کو مختلف انٹر نیٹ سروسز پر ایم ڈبلیوایم کی ویب سائٹ وزٹ کرنے پر مشکلات اور دشواریوں کاسامنا کرنا پڑرہا تھا ،صارفین جب ایم ڈبلیوایم کی ویب سائٹ پر وزٹ کرنے کی کوشش کرتے انہیں ایک ہدایت نامے کا سامنا کرنا پڑتا کہ مذکورہ ویب سائٹ ممنوعہ مواد کے باعث (PTA )کی ہدایت پر بلاک کردی گئی ہے، ایم ڈبلیوایم سوشل میڈیا ڈیسک کی جانب سے جب مختلف انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ آپ کی ویب سائٹ (PTA )کی ہدایت پر بلاک کی گئی ہے، گذشتہ روز ایم ڈبلیوایم کی مرکزی دفتر سے جب(PTA ) حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے ایساکوئی ہدایت نامہ مذکورہ کمپنیوں کوجاری نہیں کیا گیا، جبکہ آج مختلف قومی اخبارات میں بھی ایم ڈبلیوایم کی آفیشل ویب سائٹ کو (PTA ) کی حکم پر بند کرنے کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات علی احمر زیدی نے (PTA ) حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی آفیشل وہب سائٹ www.mwmpak.orgکو پاکستان بھر کی انٹر نیٹ سروسز پر بحا ل کیا جائے ، بصور ت دیگر ہم قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں، ایم ڈبلیوایم کی محب وطن قومی سیاسی ومذہبی جماعت ہے جو ملک بھر میں اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں ہےاور جس کے اراکین اسمبلی اس قت دو صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور عوام کی بھر پور نمائندگی کررہے ہیں ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے عوامی ایکشن کمیٹی اور مرکزی انجمن تاجران گلگت بلتستان کےمرکزی قائدین کے اعزازمیں اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ دیا، اس موقع پر انجمن تاجران گلگت بلتستان کے صدور جناب غلام حسین اطہر و محمد ابراہیم، پی ٹی آئی کے رہنما محمد عزیز، اپوزیشن لیڈر کیپٹن محمد شفیع اور عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے مرکزی کنوینئر مولانا سلطان رئیس اور انکے دیگر رفقائے تحریک سمیت ایم ڈبلیوایم کے رہنماعلامہ شیخ نیئرعباس، پروفیسرفداحسین، مولانا فداعلی ذیشان اور دیگر بھی موجود تھے، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے گندم سبسڈی تحریک کی کامیابی کے بعد خطہ بے آئین گلگت بلتستان میں غیر آئینی ٹیکس کے نفاذکے خلاف کامیاب احتجاجی تحریک اور مطالبات کی منظوری پر مبارک باد پیش کی اور اس تحریک میں ان کی جدوجہد کو سراہا اور ہر قسم کی تعاون کا یقین دلایا۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) پاکستان مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کی مشکلات میں مذید اضافہ ہوگیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ن لیگی وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا اور مسلم لیگ ق کے رکن اسمبلی عبد القدوس بزنجو نے سیکریٹری بلوچستان اسمبلی کے پاس جمع کروائی ، تحریک عدم اعتماد پر ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا سمیت کل 14اراکین کے دستخط موجود ہیں، اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کیلئے دیگر اراکین اسمبلی سے روابط مزیدتیز کردیئے ہیں، آغا رضا اور عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے بھی بعض اراکین اسمبلی سے رابطوں کا دعویٰ کیا ہے۔
ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے تحریک عدم اعتماد داخل کروانے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہے وزیر اعلی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتمادکا فیصلہ اصولوں کی بناد پر کیا گیا، وزیر اعلی کو صوبے کے امن وامان سے کوئی غرض نہیں وہ اپنےصوبے سے زیادہ دوسرے صوبوں پائے جاتے ہیں ، نواب ثنااللہ زہری نے مخصوص علاقوں تک ترقیاتی منصوبوں کو محدود کر رکھا ہے ،صوبہ شدید معاشی بدحالی کا شکار ہے بے روزگاری امن وامان ،پانی بجلی انفرسٹکچرکی صورت حال تشویش ناک ہے ، آغا محمد رضانے مزید کہا کہ نا ہی وزراء اپنے دفاتر میں موجود ہیں اور نا ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان اسمبلی آنے کی زحمت کرتے ہیں، ایسے حالات میں اس آئینی اقدام کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتمادایک آئینی اقدام ہے اس کے پیچھے کوئی خفیہ قوت کارفرما نہیں ۔
وحدت نیوز(خوشاب) معروف عالم اہل سنت ، شیعہ سنی اتحاد کے داعی، محب اہل بیت ؑ علامہ جاوید اکبر ساقی کی رسم قل خوانی قائد آباد ضلع خوشاب میں منعقد ہوئی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات اور اتحاد مصطفیٰ فورم کے جنرل سیکریٹری سید اسدعباس نقوی نے علامہ جاوید اکبر ساقی کی رسم قل خوانی میں خصوصی شرکت اور خطاب کیا، علامہ مرحوم کی قومی ودینی خدمات اور اتحاد بین المسلمین کیلئے ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسدنقوی نے کہا کہ مرحوم اس فکر وفلسفے کے عملی پیروتھے اسلام میں کوئی فرقہ نہیں سوائے حسینیت اور یزیدیت کے اور ہاتھ کھول کر اور باند ھ کرنماز پڑھنے کی کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ فرق اس بات سے پڑتا ہے تو اس بات سے کہ آپ حسینی قبیلے میں شامل ہیں یا یزیدی قبیلے میں ، انہوں نے کہا کہ علامہ جاوید اکبر ساقی مرحوم کی شخصیت تمام مکاتب فکر کے درمیان محترم تھی وہ مجالس عزا سےبھی خطاب کیا کرتے تھے ، ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلاءشاید ہی پورا ہو سکے، میں یہ بات کہنے میں حق باجانب ہوں کے یہ علامہ جاوید اکبر ساقی شاید اس چمن کے وہی دیدہ ورتھے جس کا اب دوبارہ پیدا ہونا بڑا مشکل ہے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دوست شناسی سے پہلے دشمن شناسی ضروری ہے، کسی خالی پلاٹ پر پڑے ہوےکچرے کے ڈھیر کواٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔دشمنوں کی شناخت کے بغیر دوستوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اگر دشمنوں کی شناخت نہیں ہوگی تو دوستوں کی صفوں میں جا بجا دشمن گھس جائیں گے۔
ہم بے شک سارے بلوچوں کو ملک دشمن کہہ کر جیلوں میں ڈال دیں، سارے پختونوں کو غدار کہہ کر پابندِ سلاسل کر دیں، سارے سندھیوں کو علیحدگی پسند کہہ کر ٹارچر سیلوں میں جھونک دیں، سارے پنجابیوں پر عدمِ اعتماد کر کے اُنہیں پانچوں دریاوں میں دریا بُرد کر دیں تو اس کے باوجود اس مُلک میں دہشت گردی اور شدت پسندی ختم نہیں ہو گی۔
اگر ہم واقعتاً اس ملک سے شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گاکہ آخر ہماری نئی نسل شدت پسندوں کی باتوں میں کیسے آجاتی ہے!؟، ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہوجاتےہیں!؟
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس وقت مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں دیوبندی اور وہابی مسالک کے لوگ کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے ! کیوں آخر کیوں!؟ اسلحہ نہ اٹھانے کی صرف یہی وجہ ہے کہ ان کی سعودی عرب اور ہندوستان کے ساتھ ایک ہم آہنگی اور انڈر سٹینڈنگ ہے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ بالکل نہیں۔
پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مکاتب اور تنظیمیں پاکستان بننے کے ہی خلاف تھے، سو پاکستان بن تو گیا لیکن ان کی مخالفت اپنی جگہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوگئی ہے۔
اب یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جیسا بیج بویا جاتا ہے ویسی ہی فصل تیار ہوتی ہے، اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی فصل سے نالاں ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں میں کیا ایسا کیا بیج بو رہے ہیں جس کی وجہ سے شدت پسندوں کی فصل تیار ہو رہی ہے!اور ہماری نوجوان نسل پاکستان کے دشمنوں کہ آلہ کار بن رہی ہے۔
اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ہم نے اپنی نئی نسل کو قیامِ پاکستان کے دشمنو اور مخالفین سے آگاہ ہی نہیں کیا۔ چنانچہ ہمارا نوجوان بڑی آسانی کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کے لشکروں میں شامل ہوجاتا ہے اور اپنے ہم وطن پاکستانیوں پر شبخون مارنے لگتا ہے۔
ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوگا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے سلفی و دیوبندی تنظیمیں اور مکاتب قیامِ پاکستان کے خلاف تھیں، صرف خلاف ہی نہیں تھیں بلکہ کانگرس کے ہم قدم اور ہم خیال تھیں، صرف کانگرس کے ہم قدم اور ہم خیال ہی نہیں تھیں بلکہ انہوں نے قائداعظم کو کافراعظم کہا اور پاکستان کو کافرستان کہا!
اِن کانگرس نواز تنظیموں اور مکاتب کو ماضی کی طرح آج بھی سعودی عرب اور ہندوستان کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے، اُنہیں اگر کوئی مشکل ہے تو آج بھی صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔
جولوگ جس طرح قیامِ پاکستان سے پہلے قائداعظم کو کافراعظم کہتے تھے اور پاکستان کو کافرستان یہ اسی طرح پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم ہیں ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کی ریذیڈنسی کو دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے ، آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا جاتا ہے اور پاک فوج کو ناپاک اور پلید فوج کہاجاتا ہے۔
آج ضروری ہے کہ پاکستان کے نصابِ تعلیم میں خصوصاً تاریخِ پاکستان اور مطالعہ پاکستان میں نئی نسل کو اُن شخصیات، مدارس، مکاتب اور تنظیموں سے آگاہ کیا جائے جو روزِ اوّل سے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف ہیں اور آج بھی پاکستان کے جوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے میں مصروف ہیں۔
یہ لوگ ماضی میں بھی کانگرس اور ہندوستان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور آج بھی ہندوستان میں یہ ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑتے جبکہ آئے روز پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ٹی ٹی پی کے متعدد دہشت گردوں اور کلبھوشن یادو کے اعترافات اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن در اصل ہندوستان نواز مکاتب اور تنظیموں کے ہی لوگ ہیں۔
چنانچہ یہ ہمارے پالسی میکرز اور تھنک ٹینکس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں ان مکاتب اور تنظیموں اور شخصیات کا تعارف کروائیں جو نظریاتی طور پرپاکستان کے دشمن ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز اور تھنک ٹینکس کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کے خلاف مکتبی اور نظریاتی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو قائداعظم اور پاکستان کے دشمن مکاتب اور شخصیات سے آگاہ نہیں کریں گے تو وہ مسلسل پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے۔
سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلی تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔
ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجود گی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور ناظم آباد میں داعش سے متاثر لوگ موجود ہیں اور شدت پسندی اب مدرسے سے یونیورسٹی تک آگئی ہے۔
کراچی میں سیاسی جرائم اور جہاد پر ناول کے مصنف اور محکم انسدادِ دہشت گردی کے ایس ایس پی عمر شاہد حامد کا کہنا تھا جامعات کا طالبعلم مدارس کی جگہ لے رہا ہے۔ یہ جو آن لائن نسل ہے اس کے پاس نظریات و دلائل ہیں یہ قبائلی علاقے کے مدرسے کے بچے نہیں جو کہیں جاکر خودکش بم حملے کردیں۔
ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے بتایا ایک لڑکے سعد عزیز کی ایک لڑکی سے دوستی تھی وہ اس کے مطالبے پر پورا نہیں اترا اور اس نے مذہب کا رخ کر لیا، اسکی خواہش پر والدین نے عمرے پر بھیج دیا۔ واپسی پر اس نے قرآن کی ترجمے کیساتھ کلاس لینا شروع کی لیکن اس کو تسلی نہیں ہوئی،اس کے بعد اسکی ایک جگہ انٹرن شپ ہوئی جہاں اسے ایک لڑکا ملا جو اسے القاعدہ کی ایک شخصیت کے پاس لے گیا اور اس کے دماغ میں یہ بیٹھ گیا کہ اسوقت تک خلافت نہیں آئے گی جب تک عسکریت نہیں آئے گی۔
انکا کہنا تھا ایک جامعہ کا استاد نیپا چورنگی کے قریب گھریلو ساختہ بم بناتا تھا اور اس نے یہ تربیت اپنے بیٹے اور بھتیجے کو بھی دی تھی اس وقت وہ تینوں مفرور اور انتہائی مطلوب ہیں، اسی طرح ایک استاد یونیورسٹی کی پارکنگ میں القاعدہ کو فنڈ دیتا تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔
ایس پی مظہر مشوانی نے بتایا انھوں نے کلفٹن سے ایک یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کیا جو کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھاتا تھا، اسکا تعلق حزب التحریر سے تھا اور لیکچر کیساتھ ساتھ وہ دس منٹ اپنی تبلیغ کرتا، اس کے علاوہ نمازِ جمعہ کے بعد مساجد کے باہر پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا ۔[1]
اسی طرح باوثوق ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ٹاپ رینکنگ میں موجود اسلام آباد کی تین اہم یونیورسٹیوں میں داعش کے منظم نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے، غیر ملکی طلبہ یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور رہائشی علاقوں میں بنائے گئے ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں۔[2]
یونیورسٹیوں میں دہشت گردوں کے تبلیغی نیٹ ورکس کے یہ چند نمونے ہیں ، اگر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو پھر ہمیں اپنے نصابِ تعلیم پر فوری توجہ دینا ہوگی۔
ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان ہم سب کا خواب ہے ، لیکن کسی خالی پلاٹ پر پڑے ہوےکچرے کے ڈھیر کواٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ جب تک ہماری نوجوان نسل دشمن شناس نہیں بن جاتی تب تک پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ محکمہ تعلیم کے پالیسی میکرز کو چاہیے کہ وہ ملک دشمن عناصر کی شناخت کے سلسلے میں نصابِ تعلیم کے ذریعے طالب علموں کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔
نصابِ تعلیم کے علاوہ دوسرا اہم پہلو پاکستان کے سیکورٹی ا داروں اور اہم پوسٹوں پر پاکستان دشمن مکاتب اور تنظیموں کے ہم فکر اور سہولت کار افراد کا موجود ہونا ہے۔
جب بھی کہیں کوئی ملک دشمن کارروائی ہوتی ہے تو یقینی طور پر اہم سرکاری پوسٹوں پر براجمان افراد ملک دشمنوں کے ساتھ ہمکاری کرتے ہیں، ہمیں بغیر کسی تعصب کے اپنے ملک کو بچانے کی خاطر اور اسے محفوظ کرنے کی خاطر تمام ملکی کلیدی پوسٹوں سے پاکستان بنانے کے مخالف یعنی وجودِ پاکستان کے مخالفین کو ہٹانا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے سال میں ان دونوں مسئلوں کو ترجیحی بنیادوں پرحل کیا جائے۔جب تک ہمارے پالیسی ساز ادارے ان دو مسائل پر توجہ نہیں دیتے یعنی نصاب تعلیم میں پاکستان کے مخالفین کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے اور پاکستان کی اہم پوسٹوں سے اُن مخالفین کو ہٹاتے نہیں ، تب تک مسائل کی دلدل سے پاکستان نہیں نکل سکتا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.