وحدت نیوز(آرٹیکل) میرے ابو کتنے اچھے ہیں، ابو نے کہا  تھا کہ واپسی پر وہ میرے لیے بہت سارے کھلونے لائیں گے،    ابو ہمیشہ مجھے کہتے  تھے کہ میں ان کی اچھی بیٹی ہوں اور ضد بھی نہیں کرتی ۔۔۔۔ امی نے بھی کہا تھا کہ وہ بھی میرے لیے اچھے اچھے کپڑے اور بہت ساری کھانے کی چیزیں لائیں گی۔۔۔۔۔

 اور ابھی  وہ دونوں  اللہ کے گھر گئے ہیں تاکہ اللہ میاں سے بولیں کہ میں ہمیشہ ان کی اچھی بیٹی بن کر رہوں ۔۔۔۔ لیکن امی ابو کے بغیربلکل بھی میرا دل نہیں لگتا ۔۔۔ جب وہ آئیں گے تو میں کہوں  گی کہ اب کبھی بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔۔ مجھے یہاں ڈر لگتا ہے اور یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔

ابھی تک اس معصوم بچی کی اس طرح کی ہزاروں باتیں و خواہشیں فضا میں موجود ہیں کہ جو بار بار ایک ہی سوال کی شکل میں میرےکانوں سے  ٹکراتیں ہیں ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔۔ کیا ابھی بھی ہم زندہ ہیں ؟؟ اور کیا زینب مر گی ؟؟ ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔

ہم بھی مر چکے ہیں اور مجھے اپنے مردہ ہونے کا یقین اس وقت ہوا کہ جب میں نے اس دل خراش واقعہ کی آڑ میں لکھی گی چند روشن خیال تحریروں کو پڑھا ۔ جن میں بجا ئےاس کے کہ ان جیسے انسان سوز واقعات کی بنیادوں کو ذکر کیا جائے ۔۔ لگے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے ۔ کسی نے لکھا کہ یہ اس لیے ہوا کیونکہ ہماری سوسائٹی میں سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی۔ تو کوئی بولا کہ آخر زنا کی حد کے لیے چار گواہ کیوں ضروری ہیں۔ تو کسی نے تو سیدھا یہ کہہ دیا کہ یہ سب مولویوں کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے ۔

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب تک اندر کے لوگ ساتھ نہ دیں کسی بھی مضبوط سلطنت کی بنیادوں کو ہلایا تک نہیں جاسکتا ۔ تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ آخر کون لوگ آج آزادی نسواں و روشن خیالی کی باتیں کر رہے ہیں ۔۔ وہی کہ کل تک جن میں یہ رائج تھا کہ ؛ عورت ،مرد کے ساتھ ایک جگہ نہیں سو سکتی کیونکہ اس کی نحوست کی وجہ سے مرد کی زندگی کم ہو جاتی ہے[1] اور مرد کو اختیار ہے کہ وہ عورت کو فروخت کر سکتاہے   یا بھر وہ کہ جو کل تک خواتین کی شادیاں زبردستی حیوانات سے کرتے رہے [2] اس روشن خیالی کا ماضی یہی ہے کہ جس میں عورت کو اجازت نہ تھی کہ وہ کسی بھی جگہ مرد کے ساتھ نظر آئے چاہے وہ اس کی ماں یا بہن ہی کیوں نہ ہو ، عورتوں کا بازار ، گلیوں ، سڑکوں حتی تمام پبلک پلیسسز پر آنا ممنوع تھا[3]۔ بعض جگہ تو مرد کے مرنے کے ساتھ عورت کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور جب کبھی گھر پر مہمان آتا تو اپنی ناموس کو اسے پیش کیا جاتا[4] حتی افریقا کے کچھ قبائل میں تو ایک گائے کے بدلے بیٹی کو فروخت کیا جاتا۔ اگر کسی کو جنگجو یا کسی بھی خوبی والا بیٹا چاہیے ہوتا تو اپنی ناموس کو اسی قسم کے مرد کے پاس بیھجا جاتا[5] ۔ کبھی خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا [6] ۔تو کہیں پر اپنی ناموس کا تبادلہ کیا جاتا[7] ۔ کہیں پہ یہ ہوتا کہ اگر مرد و عورت دونوں راضی ہیں تو آزادی سے معاشرے میں کچھ بھی کرتے پھریں [8] تو کہیں پیسوں کے عوض اپنی ناموس کو سرعام فروخت کر دیا جاتا[9]۔

 مگر جیسے ہی اسلام جیسے مقدس دین نے طلوع کیا تو  ان خرافات و واہیات  کی جگہ انسانی اقدار اور تو انسانیت کے تقاضوں نے لے لی ،  دینِ اسلام نے  معاشرے میں عورت کو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمانی  بلندیاں عطا کیں اور  بلند صدا دے کر کہا کہ عزت و تکریم کا معیار فقط تقوی ہے نہ کہ نسب و جنسیت ۔

 وہی عورت کہ جسے معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا جنت جیسی عظیم نعمت کو اس کے قدموں میں قرار دیا  گیا۔ وہ بیٹی کہ جسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا جنت کو اس کی پرورش کا صلہ قرار دیا گیا ۔ آج قوانین اسلام سے ہٹ  کر آزادی کا علمبردار ہونا ایسا ہی ہے کہ جیسے گھپ اندھیروں میں سیاہ ورق تلاش کرنا ۔ اور رہی بات سیکس ایجوکیشن کی تو میں اپنے ناداں دوستوں سے یہ عرض کروں گا کہ اس روشن خیالی کو پھیلانے سے پہلے اُن علل و اسباب کا ضرور مطالعہ کریں کہ جن کی بنا پر غرب معاشرے کو اس ایجوکیشن کی ضرورت پڑی ۔

 اگر ہم ذرا بھی اسلام اوراسلامی  تہذیب سے آشنا ہوتے تو ہمیں  بخوبی اندازہ ہوتا کہ ہمیں قطعا ایسی مشکلات کا سامنا نہیں جن مشکلات سے مغربی سوسائٹی گزر رہی ہے ۔ مغرب میں بسنے والے پاکستانیوں سے ہی پوچھ لیجئے جہاں آج بھی ایک عورت کے دو ، دو اور تین تین شوہر ملتے ہیں اور بعض اوقات محرموں کے ساتھ بھی شادی کا پراسیس انجام دینا پڑتا ہے۔

 اور ساتھ ہی یہ یاد رہے کہ بچے کا ذہن ایک سفید ورق کی مانند ہے جیسی بنیاد رکھو گے ویسی ہی عمارت بنتی نظر آئے گی ۔ جہاں تک چار گواہوں کا مسئلہ ہے تو  بیان کرتا چلو کہ چار گواہوں کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ خداوند متعال اصلاً نہیں چاہتا کہ ہر کوئی ہماری ناموس پہ انگلیاں اٹھاتا پھر ے جبتک کہ ٹھوس ثبوت نہ ہوں۔

حتی اسلام نے مسئلہ ناموس کو اسقدر محترم رکھا کہ بعض علما کے نزدیک  سورہ یوسف تک کی تعلیم کو بچیوں کے لیے مکروہ قرار دیا  ہے۔ مقام فکر ہے کہ بقول اقبال ؒ آج ہم بدعملی سے بدظنی کی طرف گامزن ہیں[10]مگر دوسری طرف آج پھر خاتون کو آزادی کے نام پر اندھیروں کی اس دلدل میں دھکیلاجا رہا ہے کہ جس کے تصور سے ہی انسانیت کانپ اٹھتی ہے ۔

مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کل  عورت بازار میں ایک جنس کے طور پر فروخت ہوتی تھی جبکہ آج مختلف اجناس کو فروخت کرنے کےلیے اسے بازاروں میں لایا جاتاہے۔

    

[1] ۔ تاریخ تمدن جلد ۱ ص ۴۴

[2] ۔ سیر تمدن ص ۲۹۵

[3] ۔ تاریخ تمدن جلد ۱ ص ۳۸

[4] ۔ ایضا ص ۶۰

[5] ۔ زمانہ جاہلیت میں (نکاح الاستیظاع)

[6] ۔ نکاح رھط

[7] ۔ نکاح البدل

[8] ۔ نکاح معشوقہ

[9] ۔ نکاح الاشغار

[10] ۔ بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے (از جواب شکوہ)


تحریر۔ ساجد علی گوندل

Sajidaligondal88gmail.com

وحدت نیوز (کراچی/اسلام آباد/فیصل آباد/راولپنڈی/ہری پور/ حیدر آباد/ کوئٹہ) قصور میں سات سالہ معصوم بچی زینب کے عصمت دری کے بعد بہیمانہ قتل کے خلاف مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کے زیر اہتمام مرکزی سیکریٹری جنرل محترمہ سیدہ زہرا نقوی کی ہدایت پر 12تا 18جنوری ملک بھر میں ’’ہفتہ ناموس زینب ‘‘منایاگیا، اس حوالے سے کراچی، راولپنڈی، ہری پور ، فیصل آباد، حیدر آباد، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں  پریس کلب  پر احتجاجی مظاہرے کیئے گئے اورشرکاء اور مقررین کی جانب سے   زینب کے قاتل کی گرفتاری اور سخت سزاکا مطالبہ کیا گیا،کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرے سے ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل محترمہ سیدہ زہرانقوی اور ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ محمد صادق جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ننھی زینب کا سفاکانہ قتل بربریت اور انسانی وحشی پن کی بد ترین مثال ہے، اس سنگین ظلم پر مذمت، افسوس جیسے الفاظ بہت بے وقعت ہیں،اس المناک واقعہ نے جہاں پاکستان کے ہر فرد کو اضطراب اور دکھ میں مبتلا کیا ہے وہاں عالمی سطح پر وطن عزیز کے وقار کو بھی نقصان پہنچایا ہے، اسی قصور شہر میں کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے13واقعات رونما ہوئے لیکن ایک بھی مجرم گرفتار نہیں، ایک ہفتہ ہونے کو ہے اب تک زینب کے قاتل کا قانون کی گرفت میں نا آنا پنجاب حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے فوری مستعفیٰ ہوجائیں، ریاست معصوم بچوں کے ساتھ عظمت دری اور قتل جیسے سنگین جرم میں ملوث مجرموں کے خلاف سخت قانون سازی کرے۔

ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع راولپنڈی کے تحت پریس کلب کے باہر قصور میں ننھی زینب کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، خواتین و معصوم بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع راولپنڈی کی سیکریٹری جنرل محترمہ قندیل کاظمی نے خطاب کرتے ہوئے زیب کے قاتل کی فوری گرفتاری اور اسے نشان عبرت بنانے کامطالبہ کیا، آخر میں زینب سے اظہار یکجہتی کیلئے شمع روشن کی گئیں۔

 ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع فیصل آباد کے تحت چوک دھوبی گھاٹ پر قصور میں ننھی زینب کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، خواتین و معصوم بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی مرکزی رہنما محترمہ فرحانہ گلزیب نے خطاب کرتے ہوئے زیب کے قاتل کی فوری گرفتاری اور اسے نشان عبرت بنانے کامطالبہ کیا، آخر میں زینب سے اظہار یکجہتی کیلئے شمع روشن کی گئیں۔

قصور میں زینب کے بہیمانہ قتل کے خلاف مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع ہری پور صوبہ خیبرپختونخوا کے تحت پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا، ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی رہنما محترمہ راضیہ جعفری ایڈوکیٹ اور محترمہ بینہ شاہ نے شرکاء سے خطاب کیا، بڑی تعداد میں خواتین کارکنان نے شرکت کی ، مقررین نے  زینب کے قاتلوں کو نشان عبرت بنانے اور سفاک درندوں کے خلاف سخت قانون سازی کا مطالبہ کیا۔

مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کوئٹہ ڈویژن  ننھی زینب کی عصمت دری اور قتل کے لرزہ خیر سانحے کے خلاف احتجاج اور دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا  جس میں مقررین نے  زینب کے قاتلوں کو اب تک سزانا دینے کی پرزور مذمت  کی  اور واقعہ کو حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت قرار دیا، اس موقع پر خواتین سمیت چھوٹے بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر زینب کے قاتل کو قرار واقعی سزادینے کا مطالبہ درج تھا۔

 مجلس وحدت مسلمین  شعبہ خواتین ضلع حیدرآبادکے زیر اہتمام ننھی زینب کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کے خلاف سادات کالونی  میں دفتر جانثاران حسین علیہ السلام کے سامنے احتجاجی مظاہرہ  کیا گیا اور زینب کی یاد میں شمع روشن کی گئیں ، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رہنما مولانا گل حسن مرتضوی اور سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع حیدر آباد محترمہ عظمیٰ تقوی نےشرکاء سے  خطاب کیا ، مقررین نے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوتی بچوں کے اغواء، زیادتی اور قتل کی وارداتیں عالمی سطح پر وطن عزیز کی بدنامی کا باعث ہیں ، افسوس کا مقام ہے کہ دو ہفتے گذرجانے کے باجود اب تک زینب اور اس سے قبل قتل کی گئی بچیوں کے قاتلوں کو اب تک سزانہیں دی گئی، اس موقع پر خواتین اورمرد کارکنان سمیت بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔

وحدت نیوز (حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین  شعبہ خواتین ضلع حیدرآبادکے زیر اہتمام مرکزی سیکریٹری جنرل شعبہ خواتین محترمہ زہرا نقوی کی ہدایت پر قصورمیں ننھی زینب کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کے خلاف سادات کالونی  میں دفتر جانثاران حسین علیہ السلام کے سامنے احتجاجی مظاہرہ  کیا گیا اور زینب کی یاد میں شمع روشن کی گئیں ، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رہنما مولانا گل حسن مرتضوی اور سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع حیدر آباد محترمہ عظمیٰ تقوی نےشرکاء سے  خطاب کیا ، مقررین نے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوتی بچوں کے اغواء، زیادتی اور قتل کی وارداتیں عالمی سطح پر وطن عزیز کی بدنامی کا باعث ہیں ، افسوس کا مقام ہے کہ دو ہفتے گذرجانے کے باجود اب تک زینب اور اس سے قبل قتل کی گئی بچیوں کے قاتلوں کو اب تک سزانہیں دی گئی، اس موقع پر خواتین اورمرد کارکنان سمیت بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ)  مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کوئٹہ ڈویژن کے زیر اہتمام مرکزی سیکریٹری جنرل شعبہ خواتین محترمہ زہرا نقوی کی ہدایت پرقصورمیں ننھی زینب کی عصمت دری اور قتل کے لرزہ خیر سانحے کے خلاف احتجاج اور دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا  جس میں مقررین نے  زینب کے قاتلوں کو اب تک سزانا دینے کی پرزور مذمت  کی  اور واقعہ کو حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت قرار دیا، اس موقع پر خواتین سمیت چھوٹے بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر زینب کے قاتل کو قرار واقعی سزادینے کا مطالبہ درج تھا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو آئندہ انتخابات 2018 میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دے دیاگیا ہے، تفصیلات کے مطابق  الیکشن کمیشن آف پاکستان نے  الیکشن ایکٹ2017 کی دفعہ202،پانچ کے تحت ایکٹ کی دفعہ202  دو  کے تقاضے پورے کرنے والی کی67قومی سیاسی ومذہبی جماعتوں کی فہرست جاری کردی ہے جس کے مطابق مجلس وحدت مسلمین اور دیگر جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی تفصیلات درست قرار دی گئی ہیں  اور و ہ قومی انتخابات 2018میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دی گئی ہیں ، جبکہ 284جماعتوں کی رکنیت منسوخ قرار دے کر انہیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے احکامات جاری کیئے گئے ہیں۔

 واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گذشتہ برس تمام رجسٹرڈ351سیاسی ومذہبی جماعتوں کو اپنی رکنیت کی تجدید کیلئے کم از کم دوہزار کارکنان کی فہرست بمعہ شناختی کارڈ کی کاپی اور دستخط اور دولاکھ روپے نقد فیس کی مد میں جمع کروانے کی ہدایت جاری کی تھیں لیکن وقت گذرکے بعد تک فقط 67سیاسی ومذہبی جماعتیں الیکشن کمیشن کی شرائط پر پورا اترنے میں کامیاب ہو سکیں جن میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان بھی شامل ہے، جبکہ  284جماعتیں الیکشن کمیشن کے قوائد وضوابط پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہیں ، جن میں پاکستان کی بڑی نامورسیاسی ومذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں ۔

ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری امور سیاسیات سید محسن شہریار زیدی کےمطابق مجلس وحدت مسلمین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرتے ہوئے پورے ملک سے پہلے مرحلے میں فقط پانچ ہزار کارکنان کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جس میں سے کل 2500کارکنان کی تفصیلات بمعہ نقدی الیکشن کمیشن کو ارسال کی گئیں جس کے نتیجے میں ایم ڈبلیوایم کی رکنیت برقرار رہی اور وہ آئندہ قومی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار پائی ہے ۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہمیں ہجوم کہنا  ہماری توہین ہے، پاکستان کا وجود ہماری زندگی کی دلیل ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ ہم نے پاکستان کی حفاظت اور بقا کے لئے پیغامِ پاکستان صادر کیا ہے۔پاکستان کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے 1829 علمائے کرام کے خودکش حملوں سے متعلق فتوے کی رونمائی کی تقریب ایوان صدر میں کی گئی اور  اس فتوے کو'پیغام پاکستان' کا نام دیا گیا ۔

ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ یہ فتویٰ دینے والے علمائے کرام ہیں کون!؟

کہیں یہ وہی لوگ تو نہیں کہ جنہوں نے  بھائی کو بھائی سے لڑوانے کا بیانیہ تشکیل دیا تھا، جنہوں نے گولی اور گالی کا فکاہیہ عام کیا تھا، جنہوں نے کافر کافر کے سرٹیفکیٹ جاری کئے تھے، اگر اس فتوئے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں اور آج پاکستان کے وارث اور مالک بن کر پیغامِ پاکستان صادر کر رہے ہیں  تو  پہلے  تو وہ اپنے آپ کو فرزندِ پاکستان ثابت کریں۔

جن کی تقریروں، تحریروں اور اشاعت شدہ لٹریچر کی وجہ سے ہمارے پولیس و فوج کے قیمتی  جوان قتل ہوئے، آرمی پبلک سکول کےنونہال خاک و خوں میں غلطاں ہوئے، مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر تہہ تیغ کیا گیا، نعت خوانوں، قوالوں اور پروفیسرز کا قتلِ عام ہوا، عام پبلک مقامات اور مساجد نیز اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے ہوئے ۔وہ لوگ جن کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں ، وہ کب سے پاکستان کے وارث بن گئے ہیں اور اب نو سو چوہے کھا کے۔۔۔

یہ یقیناً ایک نئی چال اور ہماری ملت کا نیا امتحان ہے۔ اگر  یہ علما ئے کرام اس فتوے کی بنیاد پر  ایک ملی بیانیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو پھر اب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں  مارے جانے والے بے گناہوں کے قاتلوں کے قصاص کے لئے بھی بیانیہ تشکیل دیں۔ آئینِ پاکستان اور بانی پاکستان کو قبول نہ کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی پیغام جاری کریں۔

 کیا آج اسلام کے قوانین بدل گئے ہیں کہ قاتل بیٹھ کر اتحاد کی بات کر رہے ہیں اور مقتولین کے قصاص کے مسئلے کو دفن کیا جارہا ہے۔

جب تک بے گناہوں کے خون  کا قصاص نہیں لیا جاتا، آئین پاکستان کو قبول نہیں کیا جاتا، بانی پاکستان کو بابائے ملت نہیں مانا جاتا تب تک کسی فتوے پر کوئی اعتبار نہیں جا سکتا اورکسی فتوے کی بنیاد پر کوئی بیانیہ تشکیل نہیں پا سکتا۔ یہ آئندہ چل کر پتہ چلے گا کہ اس فتویٰ سازی کے پردے میں کیا گُل کھلائے جا رہے ہیں۔

اگرچہ ہمارے سیاسی اکابرین خصوصاً صدر مملکت نے اس پیغام سے بڑی امیدیں باندھ رکھی ہیں تاہم ایک پاکستانی باشندہ ہونے کے ناطے ہمارے اپنے تحفظات ہیں جن کا  اظہار ضروری ہے۔

اسی طرح دوسرا اہم مسئلہ   یہ ہے کہ  میڈیا کے مطابق  ہمارے وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا ہے کہ  حج و عمرہ کی طرح شام و عراق اور ایران کی زیارات کو بھی آسان بنایا جائے گا۔  ہم ایک مرتبہ پھر اپنی سرکار سے یہ عرض کریں گے کہ  اگر آپ عراق اور ایران کی زیارات کو آسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو کم از کم اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کو جاننے کی کوشش کریں کہ جوپبلک ٹرانسپورٹ پر  زمینی سفر کرتے ہوں اور جنہوں نے عراق و ایران کے زمینی سفر کے  مسائل کو درک کیا ہے۔

بند کمروں میں، منرل واٹر پی کر اور ٹشو پیپر کے ساتھ گیلے ہاتھوں کو خشک کر کے  ایران و عراق کے زمینی سفر کے مسائل کو نہ ہی تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں قومی مسائل کے حل کے لئے ہر سطح پر سماجی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ فتویٰ بھی جب تک عادلانہ  بیانیے میں نہ ڈھلے اور  ارباب حل و عقد بھی سماجی عدل کے معیارات پر پورے نہ اتریں تو  قومی مسائل کے لئے کی جانے والی کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہر پاکستانی کا حق بنتا ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree