The Latest
دہشت گردوں کے خلاف ریاستی اداروں کو بھرپور قوت سے کارروائی کرنی چاہیئے، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور دیگر تکفیری گروہوں کے خلاف تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں کا غیر اعلانیہ اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے کراچی پریس کلب میں ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں میں تحریک انصاف سے جسٹس (ر) وجیہہ الدین صدیقی، فردوس نقوی، مسلم لیگ ن سندھ کے صدر سلیم ضیاء، فنکشنل لیگ سے ایم پی اے نصرت سحر عباسی کی قیادت پر مشتمل وفد، پاکستان سنی تحریک سے مطلوب اعوان قادری، جماعت اسلامی سے محمد حسین محنتی اور نصراللہ شجیع، جمعیت علمائے پاکستان سے علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنما ممتاز سیال کی سربراہی میں وفد، تحریک منہاج القرآن سندھ کے صدر مخدوم ندیم ہاشمی کی قیادت پر مشتمل وفد، سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے عبدالوہاب بلوچ، ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں علامہ صادق رضا تقوی، عبداللہ مطہری و دیگر شامل تھے۔
ناصر شیرازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سانحہ کوئٹہ ہمارے ملک کے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، اس سانحے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارے ملک کی سیکیورٹی کے ادارے ملک کی سلامتی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملت جعفریہ نے یہ ثابت کیا ہے وہ پاکستان کا دفاع کرنا جانتی ہے اور وطن عزیز کے تحفظ کے لئے میدان میں موجود ہے۔ ناصر شیرازی نے کہا کہ عالمی استعمار نے پاکستان کا دفاع کرنے والی قوم یعنی ملت جعفریہ کے خلاف محاذ آرائی کی ہے، لیکن وہ یہ بات جانتا نہیں کہ ہم کربلا کو اپنی زندگی کا شعار قرار دیتے ہیں اور امام حسین (ع) کی سیرت پر چلتے ہوئے اور اپنے شہداء کی قربانیوں کو زندہ رکھتے ہوئے میدان میں حاضر رہیں گے اور دشمن کو شکست دیں گے۔ انہوں نے سانحہ کوئٹہ کے خلاف مجلس وحدت کی تحریک میں ساتھ دینے پر ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ مجلس وحدت مسلمین بہت جلد کراچی میں امن و امان کی قیام اور دہشت گردی کے خلاف ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے گی۔
جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ نے ملک کی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، کوئٹہ جیسے حساس علاقے میں شیعہ برادری کو مسلسل نشانہ بنانا لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیعہ قوم نے ایک ہی مہینے میں دو مرتبہ ملک گیر پرامن دھرنے دے کر اور اپنے مطالبات منظور کروا کر پاکستان سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے، جس پر شیعہ قوم اور بالخصوص مجلس وحدت مسلمین مبارک باد کی مستحق ہے۔ محمد حسین محنتی کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، امریکی اشاروں پر دہشت گرد جب جی چاہے بم دھماکے کرتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ سے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، پاکستان میں ڈرون حملے، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور جرائم کی دیگر وارداتیں دیگر وارداتیں روز کا معمول بن گئی ہیں، سانحہ کوئٹہ کے بعد اہل تشیع برادری کی جانب سے دیئے گئے دھرنوں کی حمایت کرتے ہیں اورہر موقع پر کوئٹہ کے مظلومین کا ساتھ دیں گے۔
سلیم ضیاء کا کہنا تھا کہ حکومت ملک کی سلامتی اور اس کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، ایک ہی ماہ میں و مرتبہ کوئٹہ میں بربریت کا مظاہرہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے پر مجبور کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زرداری حکومت میں ملک کے عوام کو بم دھماکے، مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر تحفے ملے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ انتخابات میں حکومت میں شامل جماعتوں کو عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، کوئٹہ کے مظلوم عوام کے ساتھ ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ نصرت سحر عباسی کا کہنا تھا کہ پیر پگارا نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ شیعہ برادری کی جانب سے دیئے گئے دھرنوں میں شرکت کریں اور دہشت گردی کے خلاف عوام کی آواز میں ان کا ساتھ دیں، ہم نے ہر دور میں دہشت گردوں کی مخالفت کی ہے اور دہشت کردی کے خلاف ہر محاذ پر اہل تشیع برادری کے ساتھ ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ اور کوئٹہ کے مظلومین کی حمایت کے لئے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ
* ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، جن لوگوں نے کوئٹہ کے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں ان کا اسلام اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے عمل کو قبول کرنے والی پارٹیوں یا گروہوں کے خلاف ریاست کے تمام اداروں کو بھرپور قوت سے کارروائی کرنی چاہیئے۔
* سانحہ کوئٹہ پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین سانحہ ہے، تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں کوئٹہ کے مظلومین کے ساتھ ہیں اور ان کے دکھ میں شریک ہیں اور ان کے جائز اور قانونی مطالبات کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتی ہیں۔
* کوئٹہ دہشت گردی کے خلاف عدلیہ کا از خود نوٹس انتہائی تاخیر سے لیکن درست اقدام ہے اور ضروری ہے کہ عدالتی عمل کے ذریعے دہشت گردوں اور اس کے پشت پناہوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
* پاکستان میں مضبوط سیاسی عمل جمہوریت کے استحکام و تسلسل، ریاست کے اداروں کا مضبوطی سے اپنے اپنے دائروں میں ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور وطن عزیز میں غیر ملکی نفوذ کو روک کر دہشت گردوں کو تنہاء کرنے کی پالیسی سے دہشت گردی کے مسئلے سے بخوبی سے نمٹا جاسکتا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں کی شکر گزار ہے کہ جس نے مشکل کی اس گھڑی میں کوئٹہ کے مظلومین کی حمایت میں مجلس وحدت کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا جس سے عملی طور پر دہشت گردی کے مقابلے میں ایک غیر اعلانیہ اتحاد وجود میں آیا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اتحاد و یگانگت کے ذریعے ملت جعفریہ پاکستان کی بقاء کیلئے ہر قسم کے چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کرینگے۔ اتحاد ہی و ہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ملت جعفریہ پاکستان اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا استقامت و جواں مردی کے ذریعے مقابلہ کرسکتی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ کوئٹہ کے غیور ہزارہ ملت جعفریہ پاکستان کا حصہ ہیں اور جو لوگ چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، ہزارہ قوم کو ملت جعفریہ سے دور کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں، وہ کسی بھی صورت ہزارہ قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے، کیونکہ ہزارہ قوم کو گذشتہ دھرنوں میں جو بھی کامیابی ملی ہے، اس میں ملت جعفریہ پاکستان کا بہت اہم کردار رہا ہے، جو مجلس وحدت مسلمین سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کی کوششوں سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ چند نافہم افراد جو ملت جعفریہ پاکستان کی ترجمان مذہبی جماعتوں کیخلاف بیان بازی کر رہے ہیں، وہ ان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ ایسے افراد جو ہزارہ قوم کو تنہائی کا شکار کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل دانستہ یا نادانستہ طور پر سامراجی عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہزارہ قوم کے بردار اقوام کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ بیان کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی دلی خواہش ہے کہ ہزارہ قوم میں اتحاد و یگانگت زیادہ سے زیادہ ہو۔
دہشت گردی میں ملوث کالعدم جماعت کے گرفتار کارندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ دورانِ مقابلہ ہلاک ہونے والے دہشتگردوں کی حمایت میں کھلے عام احتجاج اور دھرنے جمہوری حکومت کے منہ پر طمانچے کی مانند ہیں، ایک طرف تو حکومت اور پاک فوج دہشتگردوں سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں دوسری طرف انہیں کھلم کھلا احتجاج کی اجازت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین سندھ علامہ مختار احمد امامی نے وحدت ہاؤس کراچی میں منعقدہ علماء امامیہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلمہ گو مسلمانوں کے اعلانیہ قتل عام میں ملوث دہشتگردوں کی رہائی کے لئے دیئے جانے والے دھرنے حکومتی مشنری کے کردار پر سوالیہ نشان ہیں، جنہوں نے میڈیا پر کھلے عام بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داریاں قبول کیں، ان کی حمایت کرنے والے بھی شریک جرم ہیں، ہم حکومت اور قانون نافذ کر نے والے اداروں سے مطالبہ کر تے ہیں دہشتگردوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کی حفاظت نہیں بلکہ ان کے خلاف مؤثر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ شہر قائد میں روزانہ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے بےگناہ شہریوں کا خون تقاضہ کرتا ہے کہ ان بے رحم سفاک قاتلوں کو جلد از جلد کیفر کر دار تک پہنچایا جائے۔ علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو بارہا بتایا کہ سکیورٹی اداروں میں کچھ تکفیری سوچ کے حامی افراد اپنا نیٹ ورک کراچی میں منظم کر رہے ہیں اور ان کے دفاتر سے باآسانی فرقہ واریت پھیلانے والا لٹریچر چھاپا جا رہا ہے جو عام شہریوں کے اذہان کو خراب کر رہا ہے لیکن حکومت سندھ نے ان تکفیری سوچ کے حامل افراد کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی جس کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب میں ایک بہت بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے اور ماضی کی طرح اس بار وہ کسی پارٹی کے دھوکے میں آئے بغیر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرے گی اور جنوبی پنجاب سے مومنین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں تک پہنچے گی۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ڈیرہ غازیخان میں مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی شوری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید ناصر عباس شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین تشیع میں حقیقی بیداری پیدا کرے گی اور اس بیداری کے ذریعے ملک میں تبدیلی آئے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ مومنین نے دیکھ لیا کہ اگر ہم متحد ہو جائیں تو بڑی سے بڑی طاقت ہمارے حوصلوں کو پست اور جذبات کو ٹھنڈا نہیں کرسکتی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نام نہاد قوم پرست لیڈر الطاف حسین کے اس بیان کی مکمل تردید کرتی ہے جس میں اُنہوں نے علماء کے خلاف زبان استعمال کی ہے۔ ناصر عباس شیرازی نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب کے علاقے بھکر، ڈیرہ غازیخان، ملتان، مظفرگڑھ، لیہ، راجن پور اور بہاولپور کی سیاست میں ہم اہل کردار ادا کر سکتے ہیں
نامور شیعہ آئمہ مساجد، علمائے کرام اور اکابرین نے سانحہ کوئٹہ کے ردعمل میں شیعہ علمائے کرام کے بھرپور کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کوئٹہ اور ملک بھر میں احتجاجی دھرنے ختم کرنے کے فیصلہ کو درست قرار دیا اور اس کی تائید کی۔ ممتاز شیعہ علمائے کرام مولانا شہنشاہ حسین نقوی، مولانا مرزا یوسف حسین، مولانا شبیر الحسن طاہری، مولانا نعیم الحسن الحسینی، مولانا شیخ غلام محمد سلیم، مولانا رضی حیدر، مولانا شیخ غلام علی وزیری، مولانا باقر عباس زیدی، مولانا احمد علی امینی، مولانا حیدر عباس عابدی، مولانا صادق رضا تقوی، مولانا علی افضال، مولانا محمد حسین کریمی، مولانا علی انور، مولانا عقیل موسیٰ اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں میڈیا کانفرنس سے خطاب اور مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے 114 شہداء کے جنازوں کی تدفین کو مطالبات کی منظوری تک احتجاجاً دھرنے کی صورت میں رکھا گیا۔ سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین، شیعہ اکابرین اور علماء نے حکومتی وفد سے 20 مطالبات منظور کروانے کے بعد باہمی اتفاق سے جنازوں کی تدفین کی اور پورے ملک میں پرامن اور باوقار دھرنوں کے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، جس کی اکابرین و علماء نے بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ یکجہتی کونسل کی جانب سے 3 رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس میں سردار سعادت علی ہزارہ، سردار قیوم چنگیزی اور محترمہ رقیہ ہاشمی 10 سے 15 روز میں ان مطالبات پر عمل درآمد کروائیں گے۔
علمائے کرام کے مطابق اہم مطالبات میں کوئٹہ اور بیرون کوئٹہ ٹارگٹڈ آپریشن، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ (موجودہ نام اہل سنت و الجماعت) کے لیڈروں کے خلاف ملک بھر میں کارروائی، بے گناہ شیعہ و ہزارہ شیعہ افراد کی باعزت رہائی، گذشتہ سانحات کے شہداء کے ورثاء کو مالی امداد کی فوری ادائیگی، سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء اور جن کا مالی نقصان ہوا، ان کو معاوضے کی ادائیگی، یوم القدس اور دیگر ایام میں شیعہ کے معززین کے خلاف جھوٹے مقدمات کی واپسی، کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں شیعہ افراد، طلبا و طالبات، تاجر برادری، سرکاری ملازمین اور زائرین کے لئے فول پروف سیکیورٹی اور ان کے ساتھ متعصبانہ رویے کا خاتمہ، کالعدم دہشت گرد گروہوں پرجو نام بدل کر سانحات و واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں پر پابندی اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنا، میڈیا کے افراد کا تحفظ، سابق حکومت کے وزرا جو دہشت گردی میں ملوث رہے یا دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے رہے اور جن کا ذکر بلوچستان اسمبلی اور دیگر فورم پر بارہا کیا گیا ان کی گرفتاری اور تفتیش، اہل تشیع کو آسان طریقہ کار کے تحت ذاتی دفاع کے لئے اسلحہ لائسنس کا اجراء، دیواروں پر تکفیری نعرے ختم کرکے لکھنے والوں کے خلاف کارروائی، بے نظیر اسپتال کی اپ گریڈیشن، کم از کم 5000 شیعہ جوانوں کی فورسز میں بھرتی اور کوئٹہ میں تعیناتی، ہر شہید کے ورثاء میں سے کسی ایک کو سرکاری نوکری، ہر شہید کے قتل کی دیت کے اعتبار سے معاوضہ اور ہر زخمی کو کم از کم 20 لاکھ معاوضہ کی ادائیگی، ہر خانوادے کو ایک پلاٹ جس کا رقبہ 200 گز ہو، ہر شہید کے بچوں کو کم از کم گریجویشن تک مفت تعلیم، اخراجات حکومت کے ذمے، ہزارہ ٹاؤن میں کم از کم ایک بوائز اور ایک گرلز کالج کا قیام شامل ہے۔
شیعہ علمائے کرام کے مطابق یہ سارے مطالبات تسلیم کرلئے گئے۔ ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوچکا، دیگر مطالبات من و عن تسلیم کرلئے گئے جبکہ 3 مطالبات پر حکومت نے کہا ہے کہ پلاٹ جھل مگسی میں دیئے جائیں گے، معاوضہ 10 لاکھ فی کس اور 1000 جوان کی فورسز میں بھرتی ہوگی۔ شیعہ علماء، اکابرین و ذاکرین نے کہا کہ ان حقائق کی روشنی میں آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ سارے مطالبات حکومت نے منظور کئے اور شہداء کے ورثاء، لواحقین اور شیعہ قیادت نے مشترکہ طور پر دھرنوں کے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے اس موضوع پر میڈیا وار کو مدعی سست گواہ چست کے مترادف قرار دیا۔
اسلام ٹائمز نے اپنے زرائع سے لکھا ہے کہ
رحمان ملک کی علامہ امین شہیدی سے ملاقات، بلوچستان میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن پر تبادلہ خیال
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کالعدم تنظیموں کیخلاف سنجیدگی سے آپریشن کر رہی ہے اور انشاءاللہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی لشکر جھنگوی سمیت فرقہ پرست عناصر کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائیگی۔
۔ باخبر ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے، جس میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشتگردی کیخلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ملاقات میں کیرانی روڈ پر پیش آنے والا حالیہ واقعہ اور حکومت اور ملت تشیع کے درمیان طے پانے والے مذاکرات اور ان پر جاری پیش رفت پر غور کیا گیا۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کالعدم تنظیموں کیخلاف سنجیدگی سے آپریشن کر رہی ہے اور انشاءاللہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی لشکر جھنگوی سمیت فرقہ پرست عناصر کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائیگی۔
علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ملت تشیع میں سانحہ کیرانی روڈ اور سانحہ علمدار روڈ کے باعث بے چینی پائی جاتی ہے، اگر حکومت علمدار روڈ سانحہ سے کوئی سبق حاصل کرتی تو آج ہمیں یہ سانحہ دیکھنے کو نہ ملتا۔ لہٰذا حکومت ہوش کے ناخن لے اور سنجیدگی کیساتھ اس ٹارگٹڈ آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے۔ علامہ امین شہیدی نے وزیر داخلہ سے مشتاق سکھیرا کو آئی جی بلوچستان تعینات کرنے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے حکومت کا غلط فیصلہ قرار دیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے رکن شوریٰ عالی علامہ محمد اقبال بہشتی بھی موجود تھے۔
ڈان نیوز ویب سائیڈ سے لی گئی خبر
پاکستان فوج نے دو ٹوک الفاظ میں ملک بھر میں بالخصوص بلوچستان میں شیعہ برادری کے قتل عام میں ملوث کالعدم دہشت گرد جماعت لشکر جھنگوی سے رابطوں یا تعلقات کی تردید کر دی ہے۔
فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے خصوصی طور پر بلائی گئی ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ‘ مسلح افواج لشکر جھنگوی سمیت کسی بھی دوسری عسکریت پسند جماعت سے رابطے میں نہیں’۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں فوج اور خفیہ اداروں پر لشکر جھنگوی سے تعلقات رکھنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔
یہ الزامات فوج کی جانب سے لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کو اکتوبر 2009 میں ملٹری ہیڈ کواٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے استعمال کیے جانے کے بعد شروع ہوئے تھے۔
بعد میں ملک اسحاق کی جیل سے رہائی کو بھی ایک ڈیل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
اسی طرح، کوئٹہ میں فوجی کنٹونمنٹ کے حراستی مرکز سے گروپ کے بلوچستان میں آپریشنل کمانڈر عثمان سیف اللہ کرد کے فرار پر بھی ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھائے گئے۔
میڈیا سے گفتگو کے اختتام پر جنرل باجوہ نے ڈان کو بتایا کہ ‘ فوج کے لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلق کی کوئی وجہ نہیں بنتی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ فوج ان سے رابطے کی متحمل نہیں ہو سکتی’۔
اس موقع پر انہوں نے شدت پسند گروپ حذب التحریر سے تعلق رکھنے پر بعض فوجیوں کے خلاف کارروائی کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسی طرح اگر کسی کے لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلقات سامنے آئے فوراًً کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
خیال رہے کہ لشکر جھنگوی نے سولہ فروری کو کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں نوے سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
اس گروپ پر شیعہ اقلیت پر دوسرے حملوں کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔
ہزاؤ ٹاؤن میں بدترین حملے کے خلاف دھرنا دینے والے شیعہ مظاہرین کا اہم مطالبہ فوج کی سربراہی میں کوئٹہ میں کالعدم تنظیم کے خفیہ ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق تھا۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے فوج کی جانب سے شہر میں تعیناتی پر رضا مندی کے باوجود اس مطالبہ کو مسترد کر دیا تھا۔
جنرل باجوہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘بلوچستان میں مسلح افواج کو نہ بلانے کا فیصلہ سیاسی اقدام تھا، حالانکہ فوج آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت شہری انتظامیہ کی معاونت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں تھی’۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت نے دھرنا دینے والے مظاہرین سے مذاکرات کے دوران ظاہر کیا تھا کہ فوج شہر میں ذمہ داری سنبھالے کو تیار نہیں۔
مجلس وحدت مسلمین صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر کے عوام انتخابات کے دھانے پر کھڑے ہیں جمہوری عمل میں تسلسل کا دعوی کرنے والی ایم کیو ایم کیوں بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ملت جعفریہ کے عمائدین کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے کیوں اپنائے گئے ہیں۔ ملت جعفریہ کے عمائدین کے خلاف الطاف حسین کا بیان ملت تشیع کے ملی، دینی، عقیدتی اور روحانی جذبات کو مجروح کرنے کا سبب بنا ہے۔ پوری ملت تشیع سیاسی جماعتوں کے قائدین کو پیغام دیتی ہے کہ شیعہ ہزارہ قوم کے مسائل کو قومیت اور لسانیت کے رنگ میں رنگنے کی کوئی غلیظ کوشش نہ کریں، شیعہ مکتب فکر میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں، تاریخ گواہ ہے کے 1400 سالوں سے کبھی ہمارے آئمہ کرام (ع) اور پیشواں نے قوم پرستی کی نہ کبھی ترویج کی اور نہ ہی اس کا سہارا لیا۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ عبدلاخالق اسدی نے لاہور میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ اگر شیعہ مکتب قوم پرستی پر عقیدہ رکھتا تو نعوذ بالاللہ امام حسین (ع) کی قربانی کو ایک عرب شخص کی قربانی قرار دے کر فراموش کر دیتا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، مکتب تشیع میں رنگ و نسل، زبان و لباس، دولت و شہرت، قابل اہمیت نہیں اگر کوئی چیز قابل اہمیت ہے تو وہ ہے ظالم کے خلاف قیام اور مظلوم کی حمایت۔ اگر کسی کو شیعہ قوم کے مسائل و مصائب کے حل میں زیادہ دلچسپی ہے تو خالصتا شیعہ مکتب کے میدان میں حاضر علما کے ساتھ شیعہ افکار اور نظریات کی روشنی میں خلوصِ نیت اور حقائق کا سامنا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ کی جانب سے شیعہ علما اور شیعہ تنظیموں کی کردار کشی کی مذمت میں ملک بھر کے شیعہ علما کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کی ایما پر ہزارہ قوم پرست رہنماں کو اکسایا جا رہا ہے کہ وہ ملت جعفریہ کی نمائندہ جماعتوں اور شیعہ ہزارہ قوم کے اکابرین کے باہمی اتحاد سے طے پانے والے کامیاب مذاکرات کے خلاف اپنے بیانات جاری کریں۔ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی جانب سے علما کی توہین کوئی نئی بات نہیں، وہ تو نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) کی شان میں توہین کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ جس کا ثبوت تمام دنیا کے پاس موجود ہے۔ علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا ہے کہ الطاف حسین اکثر رات کو بہکے ہوئے بیانات جاری کرتے ہیں۔ اس بات کی گواہی میڈیا اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما با آسانی دے سکتے ہیں۔ گذشتہ دو سالوں میں شہر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں شہید ہونے والے شیعہ افراد متحدہ کے زیر اثر علاقوں میں ہی قتل کئے گئے، اس کا کوئی جواب ان کے پاس ہے اور انہی کے دور حکومت میں سانحہ مسجد حیدری، مسجد علی رضا، سانحہ عاشورہ، سانحہ اربعین اور دیگر عظیم سانحات ملت جعفریہ کو تحفے میں ملے، جن میں سینکڑوں بے گناہ نمازی اور عزادار دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے قائد کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ملت جعفریہ کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں، ورنہ پوری دنیا میں ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد ان کی اس توہین آمیز حرکتوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے
شیعہ علماء اور رہنماؤں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ الطاف حسین کے بیان کی شدید مذمت کی ہے کہ جو انہوں نے شیعہ علماء اور رہنماؤں کی جانب سے احتجاجی دھرنوں کو ختم کرنے کے اعلان کے بعد دیا تھا۔
شیعت نیوز کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ الطاف حسین نے دھرنوں کے ختم ہونے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ شیعہ رہنماؤں نے شہداء کی گھر والوں سے پوچھے بغیر یا ان کو اعتماد میں لئے بغیر یہ فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے الطاف حسین کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ الطاف حسین پورے ملک میں ایک مسخرے باز اور مضحکہ خیز بیانات دینے کے بانی سمجھے جاتے ہیں جبکہ اسی طرح کا ایک بیان انہوں نے کوئٹہ میں شہداء کے جنازوں کی تدفین کے فیصلے کے حوالے سے بھی دیا ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
علامہ امین شہیدی نے الطاف حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ میں موجود شہداء کے جنازوں کے ساتھ تمام شیعہ علماء اور رہنماؤں نے شہداء کے لواحقین کے ساتھ گفتگو اور اعتماد میں لے کر فیصلہ جات کئے ہیں جبکہ شہداء کے لواحقین نے بھی شیعہ علماء اور رہنماؤں پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے جس کے بعد احتجاجی دھرنوں کو حکومت کے ساتھ کامیاب مذاکرات اور مطالبات کی منظوری کے بعد اختتام پذیر کیا گیا۔
انکاکہنا تھا کہ شیعہ رہنماؤں نے اس وقت تک احتجاجی دھرنے جاری رکھنے کا اعلان کیا اور جاری رکھے جب تک شہداء کے لواحقین شہداء کے جنازوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنے میں موجود رہے اور بعد ازں شہداء کے لواحقین کی مرضی سے احتجاجی دھرنے کو اختتام پذیر کیا گیا۔
علامہ امین شہیدی نے الطاف حسین سے کہاہے کہ وہ کراچی میں ایم کیوایم کے علاقوں میں دن دیہاڑے قتل ہونے والے سیکڑوں شیعہ مسلمان نوجوانوں کیے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کریں اور واضح کریں کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں ؟ان کاکہنا تھا کہ شیعہ علماء اور شیعہ رہنما ملت جعفریہ پاکستان کی بہتر رہنمائی کر رہے ہیں اور ملت جعفریہ پاکستان کو اپنے علماء اور رہنماؤں پر مکمل اعتماد ہے البتہ ملت جعفریہ کسی دورسے کو اس حق سے فائدہ نہیں اٹھانے دے گی۔
دوسری جانب کوئٹہ یکجہتی کونسل،شیعہ علماء کونسل سمیت تمام شیعہ قومی جماعتوں نے علامہ امین شہیدی کے موقف کی حمایت کی ہے۔ان کاکہنا ہے کہ حکومت نے بتایاہے کہ کالعدم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا رہاہے جس میں ایک سو پچاس سے زائد گرفتار اور چار خطر ناک دہشت گرد قتل کر دئیے جا چکے ہیں۔حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں فوج حصہ لے رہی ہے جبکہ شہداء کے لواحقین کو رقم ادا کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ شہداء کے گھر والوں کو سرکاری نوکریوں میں بھی جگہ دئیے جانے کے ساتھ ساتھ ہزارو ٹاؤن میں ایک آئی ٹی یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
شیعہ رہنماؤں نے الطاف حسین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ملت جعفریہ کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں۔رہنماؤں نے کہا ہے کہ الطاف حسین ہمیشہ ایک بات کا واویلا کرتے ہیں کہ ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے پندرہ ہزار کارکنوں کو قتل یا اغوا کر لیا گیا ہے اور اس بات کی ذمہ داری وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت پر عائد کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ الطاف حسین کے سب سے اچھے دوست یہی دو جماعتیں ہیں۔چوہدری شجاعت حسین جو کہ نواز شریف کے دور حکومت میں وزیر داخلہ تھے وہ بھی الطاف حسین کے بہت اچھے دوست ہیں۔
ملت تشیع کے اکابرین کی مشترکہ پریس کانفرنس
اسلام آباد ( پ ر)) شہدائے سانحہ کیرانی روڈ سمیت ہم تمام شہدائے ملت تشیع کے خوں کے وارث ہیں اور کسی کو بھی شہداء کے مقدس خون سے سیاسی دکانداریاں چمکانے کی اجازت نہیں دیں گے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ، پاکستان ، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ، تحریک بیدای مصطفےٰ اور راولپنڈی و اسلام آباد کی ماتمی انجمنوں کے اکابرین نے مشتر کہ پریس کانفرنس کے دوران کیا ، پریس کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری ، گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ نیئر عباس صطفوی، اسلام آباد کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ فخر علوی، آئی ایس اوو کے ڈویژنل صدر مصور عباس تحریک بیداری امت مصطفےٰ کے ڈاکٹر عابد حسین ، اور ماتمی انجمنوں کے نمائندگان میجر ریاض حسین، راجہ بشارت شریک تھے ۔