وحدت نیوز (نیویارک) بلوچستان اسمبلی کے صوبائی اراکین و افسران کا ایک وفد امریکہ میں ہونے والے آزادی مارچ میں شرکت کیلئے واشنگٹن پہنچا۔ صوبائی اراکین میں ڈپٹی اسپیکر اسمبلی عبدالقدوس بزنجو، صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی،مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی   سید محمد رضا، اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع، انجینئرزمرک خان اچکزئی، حامد خان اچکزئی، عبدالرحیم زیارتوال، نصراللہ خان زیرے، محمد طاہر خان، عبیداللہ بابت، حاصل بزنجو سمیت دیگر صوبائی اراکین و صوبائی سول انتظامیہ کے افسران شریک ہیں،جبکہ ایم ڈبلیوایم کے رکن اسمبلی سید محمد رضا نے امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مختلف وفود سے ملاقات کی اور انہیں اپنے حلقے میں جاری ترقیاتی کاموں پر بریفنگ دی جبکہ آغا رضا نے  پاکستانی کمیونٹی کو کوئٹہ کے دورے اور اپنے حلقے میں جاری ترقیاتی کاموں کا ازخود جائزہ لینے کی بھی دعوت دی،دوسری جانب آزادی مارچ کے دوران تمام اراکین نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے قومی پرچم کے ساتھ ملی نغمے بھی گائے، اسکے علاوہ اراکین اسمبلی نے نیو یارک میں واقع اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی سے بھی خصوصی ملاقات کی۔

وحدت نیوز (نجف اشرف) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ نجف اشرف کے جنرل سیکرٹری حجة الاسلام و المسلمین علامہ الشیخ ناصر عباس النجفی اور ڈپٹی جنرل سیکرٹری حجة الاسلام و المسلمین الشیخ ارشد علی خان الجعفری النجفی نے نمائندہ ولی فقہی عراق حضرت آ یت الله العظمی سماحة السید مجتبیٰ الحسینی مدظلہ العالی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اورمرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان حجتہ الاسلام والمسلمین  الشیخ ناصر عباس جعفری صاحب کی طرف سے سماحة السید کی خدمت میں سلام پیش کیا،اس ملاقات میں نمائندگان مجلس وحدت مسلمین نے نمائندہ مقام معظم رہبری کو ولادت باسعادت امام رضا علیہ السلام کی مناسبت سے ہدیہ تبریک پیش کیااور مؤسسہ شھید سید عارف حسین الحسینی اور مجلس وحدت مسلمین کی فعالیات اور نشاطات کے بارے میں آگاہ کیا،جس پر سماحة السید مجتبی الحسینی صاحب نے مؤسسہ کی خدمات اور فعالیات کو سراہااور ان کو مزید مؤثرانداز میں انجام دینے اور منظم کرنے کی نصیحت کی،مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ملکی سیاست میں کردار پر مفصل تبادلہ خیال کیا،علما اور مومنین کی کٹھن دور میں استقامت کی وجہ ملت تشیع پاکستان کا وقار بلند ہو رہا ہے.

حضرت آیت الله مجتبیٰ الحسینی صاحب نے مؤسسہ شھید عارف حسین الحسینی اور دفتر مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا،اس ملاقات میں سماحةالسید کو مؤسسہ کے پروگراموں میں شرکت اور طلبہ کو درس اخلاق دینے کی دعوت دی گئی،جس پر انھوں نے نہ صرف یہاں کی دعوت قبول کی بلکہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پروگرامز کی شرکت کی خواہش کا اظہارکیا،اس کے علاوہ طلبہ حوزہ کے مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی.سماحةالسید نے طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان وہ ملک ہے کہ جو اہلسنت اور اہل تشیع سب کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے نہ فقط اسلامی بھائی چارہ کی بنیاد رکھی بلکہ مختلف ادیان و مذاہب سے رواداری اور بہترین سلوک کی مثالیں رقم کیں۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ان کے درمیان فرقہ کی بنیادوں پر کوئی امتیاز نہیں تھا بلکہ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اس تحریک کو کامیاب کیا اور آج الحمد لللہ ہمارے پاس پاک دھرتی کی صورت میں ایک ملک موجود ہیں ۔ جو کہ خدا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری مسلح افواج نے اور عوام نے اسی بے مثال وحدت کی بدولت بھارتی جارحیت کا ہر بار مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور شجاعت و بہادی اور ایثار و محبت سے حب الوطنی کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ اور ہمیشہ دشمن پاکستان کو ذلیل و رسوا ہونا پڑا ہے۔ یہ حب الوطنی کا جذبہ ہمیں ہماری ماؤں نے بچپن سے سکھایا ہے کہ جس کی بدولت ملت پاکستان ہر مشکل گھڑی میں اکھٹی نظر آتی ہے۔چاہے وہ جنگی حالات ہوں یا خدائی آفات ہوں ۔ ہر مشکل میں بغیر کسی امتیاز کے ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعاون کیا جاتا ہے۔

لیکن افسوس کہ ناعاقبت اندیشن حکمرانوں نے بیرونی اشاروں پر پاکستان کی اکثریتی عوام پر ایک اقلیتی فرقہ کو مسلط کرنے کی پالیسی بنائی اور وہ بھی ایسا فرقہ کہ جو تنگ نظری میں اپنی مثال آپ ہے اور وحدت اسلامی کے شیرازہ کو پارہ پارہ کرنا ان کے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی جدوجہد کرتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور امن و امان کے محافظ حکمرانوں نے اسٹیٹ کی طاقت سے انہیں تقویت دی اور وطن عزیز کو کمزور اور اندر سے کھوکھلا کرنے اور پاکستان عوام کے اجتماعی رشتوں کو قطع کرنے والے اس وطن دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ملک توڑنے اور اندرونی بحرانوں میں مبتلا کرنے کا سامان فراہم کیا۔

وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا نقصان کیا ہوا؟؟؟
ایک خاص مکتبہ فکر کو طاقتور کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ریاست کو خود اعتراف اور برملا اعلان کرنا پڑ رہا ہ ے کہ وہ خطرہ جو ملک کی سرحدوں پر تھا آج وہ ہمارے ملک کے اندر گلی گوچوں تک پہنچ چکا ہے۔ جب ان تکفیری تنگ نظروں کے مدارس غیر ملکی امداد سے دھڑا دھڑ بن رہے تھے اس وقت حکمران بالکل خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور ان کے سہولت کار بنے ہوئے تھے۔کیونکہ وہ بھی اسی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو رہے تھے۔ہر حکومت یہ پالیسی بناتی ہے کہ ہمارے ملک کو کتنے ڈاکٹر ، کتنے انجینئرز اور کتنے علماء کی ضروت ہے لیکن ہمارے ملک میں ڈاکٹر اور انجینئرز کو قتل کرنے اور متعصب اور تنگ نظر مولوی تیار کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ۔ یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں امن و امان کے محافظ اداروں کے افسروں نے لمبی لبمی داڑھیاں رکھ لیں اور وردیاں اتار کر لمبی چھٹی پر تبلیغی کام میں مصروف ہوگئے اور اسلحہ نام نہاد ملاؤں کو تھما کر انہیں طالبان بنا دیا۔ ایسے کاموں یہی فطری نتیجہ ہوتا ہے جس کا خمیازہ آج پاکستان کی بے کس عوام بھگت رہی ہے۔

فرض کر لیں پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں 10 کروڑ بریلوی مسلمان اور 5 کروڑ شیعہ مسلمان اور اڑھائی تین کروڑ دیوبندی اور اہل حدیث مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور ان کی دینی تربیت کے لئے اگر 1000 پاکستانی کہ جن میں بچے ، بوڑھے اور جوان شامل ہیں ان کو ایک عالم دین کی ضرورت ہے۔ اور اس اندازے سے بریلوی مسلک کے لوگوں کے ایک لاکھ(100000) اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے لئے پچاس ہزار (50000) اور اہل حدیث و دیوبندیوں کے لئے تیس ہزار (30000) علماء کی ضرورت ہے اور اسی تناسب سے مدارس تعمیر ہونے چاہیں لیکن جب ضیائی اسٹیبلشمنٹ سے نواز حکومت تک ایک فرقہ جسے صرف تیس ہزار علماء کی ضرورت تھی اس فرقے کے 20 سے 30 لاکھ علماء کی تربیت کی جائے اور جس فرقہ کو پچاس ہزار علماء کی ضرورت ہو اس کے پاس فقط دس سے بارہ ہزار علماء ہوں تو حکمرانوں کی عدالت ، وطن دوستی اور قومی امانتوں کی حفاظت زیر سوال آتی ہے؟؟
آخر شیعہ کا استحصال ہی کیوں ؟؟؟
اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخر شیعہ کے استحصال اور نسل کشی کی پالیسی ہی کیوں بنائی گئی؟

1)۔ کیا شیعہ وطن دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں؟
2)۔ کیا اہل تشیع آئین پاکستان کو قبول نہیں کرتے ؟
3) کیا مکتب اہل البیت کے ماننے والی ریاستی اداروں کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں؟
4)۔ کیا شیعہ حکومتی رٹ کو چیلنچ کرتے ہیں؟
5) کیا شیعہ اس ملک کے پر امن شہری نہیں ہیں؟
6)۔ کیا شیعہ ہمیشہ ملکی دفاع میں پیش پیش نہیں ہوتے؟
7)۔ کیا شیعہ کا بیس کیمپ انڈیا میں ہے؟

آخر کیا جرم تھا کہ بانیان پاکستان کے فرزندوں کے خلاف شیعہ نسل کشی کی پالیسی بنائی گئی جو کہ تاحال جاری ہے۔ اور جس پالیسی کی بدولت ہزاروں شیعہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور جرنلسٹ موت کے گھاٹ چڑھا دیے گئے ہیں جو کہ اس ملک کا سرمایہ تھے۔ شہید ہونے والے وہ لوگ تھے جن کو انکی شہادت کے بعد انٹر نیشنل ایوارڈ دیے گئے ۔ یعنی عالمی اداروں نے ان کی قدر کی لیکن پاکستانی تنگ نظروں نے انہیں بس شیعہ کہ کر قتل کر دیا۔

جب سے پاکستان میں تکفیریت اور دہشت گردی کی بنیاد رکھی گئی اس کا پہلا ہدف تشیع تھی اور آج اسی فتنے کا قلع قمع کرنے پر کام ہورہا ہے اور آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ لیکن پنجاب حکومت خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں ایک دفعہ پھر سے شیعہ دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور بیلنس پالیسی کے تحت قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم کے خلاف ایک جیسا ایکشن لے رہی ہے۔ وحدت و رواداری اور اخوت اسلامی کو فروغ دینے والا علماء اور کارکنان پر جھوٹے مقدمے، ڈیٹینشن آرڈر اور فورتھ شیڈول میں ملوث کیا جارہا ہے۔ 35 سال گزرنے کے باوجود نون لیگ کی شیعہ دشمنی پالیسی آج بھی نہیں بدلی ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستانی عوام نے عہد کر لیا ہے کہ اب نہ دہشتگرد رہیں گے اور نہ انکے سہولت کار اور پاکستانی عوام اور مسلح افواج کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اور انشاء اللہ پاکستان کے افق پر امن و امان اور تعمیر و ترقی کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کرنا ن لیگ حکومت کی اہل تشیع کے خلاف انتقامی کاروائی کا نتیجہ ہے، ان خیالات کااظہار مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں علامہ سید اقتدارحسین نقوی، علامہ قاضی نادر حسین علوی،محمد عباس صدیقی اور ثقلین نقوی نے علامہ امین شہیدی کی درخواست ضمانت مسترد کرنے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ علامہ امین شہیدی اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی اور پاکستان میں شیعہ سنی وحدت کے علمبردار ہیں اُنہیں کسی قتل میں پھنسانا اور اُن کے خلاف محاذ کھڑا کرنا بیلنس پالیسی کا نتیجہ ہے، علامہ امین شہیدی کا کردار ملی یکجہتی کونسل میں نمایاں ہے ، علامہ امین شہیدی نہ صرف اہل تشیع علماء کے ہیرو اور رول ماڈل ہیں بلکہ اہل سنت علمائے کرام اور عوام اُنہیں نہایت عقیدت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما ؤں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے علامہ امین شہیدی کے خلاف کوئی اقدام اُٹھایا گیا تو پورے ملک کی عوام سراپا احتجاج ہوگی۔

وحدت نیوز(گجرات) ایم ڈبلیوایم گجرات کے میڈیاسیکریٹری یاورعباس نے وحدت نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے پنجاب پولیس نے مجلس وحدت مسلمین ضلع گجرات کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تنویر حسین رضوی ، علامہ ضیغم عباس بھٹی اور علامہ سید ضیغم عباس کاظمی کو شیڈول فورتھ کے تحت چھاپے مار کر گرفتار کرلیاہے،تمام رہنماؤں کوسولہ ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کرکے تین ماہ کے لیے نظر بند کردیا ہے ۔ ان کی گرفتار ی پر مجلس وحدت مسلمین نے شد ید احتجاج کر تے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے تینوں رہنما بے گناہ ہیں علامہ سید تنویر حسین رضوی ضلعی امن کمیٹی کے ممبر بھی ہیں اور تینوں رہنما پرامن پاکستانی ہیں ، مجلس وحدت مسلمین ایک سیاسی جماعت ہے تینوں رہنما کا کوئی سابقہ کرمنل ریکارڈ بھی نہیں ہے جس پر مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں نے ضلعی انتظامیہ گجرات سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) سیکرٹری اطلاعات مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید حمید حسین نقوی نے کہا ہے کہ بھارت ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کی طرف آئے ، حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات نہ کرنے شرط احمقانہ ہے، مسئلہ کشمیر کے اصل فریق آر پار کی کشمیری قیادت ہے، بھارت بہانہ بازی کر کے مسئلہ کشمیر کے حل میں فرار چاہتا ہے، ان خیالات کا اظہار مولانا حمید نقوی نے ریاستی دفتر ایم ڈبلیو ایم آزاد کشمیر سے جاری اپنے بیان میں کیا ، انہوں نے کہا کہ اس کے رویوں سے مکاری عیاں ہے، عالمی برادری قرین انصاف سے کام لیتے ہوئے معاملے کے حل کے لیئے اپنا کردار ادا کرے ، نام نہاد جمہوریہ بھارت کشمیر میں ظلم عظیم کی داستانیں رقم کر رہا ہے،لائن آف کنٹرول پر جارحیت اس کی بھوکھلاہٹ ہے ۔ مذاکرات کے حوالے سے بھارت ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپہ سالا ر پاک فوج جنرل راحیل شریف کا مؤقف جرأت مندانہ، سلام پیش کرتے ہیں ، حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات نہ کرنے کی شرط بیوقوفانہ عمل ہے، حریت قیادت کی مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ترجمان ہے، وہ مسئلہ کے اصل فریق ہیں ، ملاقات کی بات تو الگ ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آر پار کی کشمیری قیادت کو مذاکرات میں شامل کیا جائے، اس وقت تک مذاکرات کا عمل بے سود و بے فائدہ ہے جب تک کہ مسئلہ کا اصل فریق بات چیت میں شامل نہ ہو گا، مذاکرات کو دو فریقی کے بجائے سہ فریقی بنایا جائے، معاملے سے کھلواڑ کے بجائے سنجیدگی اپنائی جائے، بھارت بہانہ بازی کرتے ہوئے مسئلہ کے حل سے فرار چاہتا ہے، اس کے رویوں سے لگتا ہے وہ سنجیدہ نہیں فقط ٹائم پاس چاہتا ہے، اس معاملے میں بین الاقوامی برادری مداخلت کرتے ہوئے بھارت کو سنجیدہ کرتے ہوئے بامعنی و بامقصد مذاکرات کی طرف لائے۔ کشمیریوں کی لازوال قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی، جلد وحدت کشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree